Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 238
حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى١ۗ وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ
حٰفِظُوْا : تم حفاظت کرو عَلَي الصَّلَوٰتِ : نمازوں کی وَ : اور الصَّلٰوةِ : نماز الْوُسْطٰى : درمیانی وَ : اور قُوْمُوْا : کھڑے رہو لِلّٰهِ : اللہ کے لیے قٰنِتِيْنَ : فرمانبردار (جمع)
(مسلمانو ! ) سب نمازیں خصوصاً بیچ کی نماز (یعنی نماز عصر) پورے التزام کے ساتھ ادا کرتے رہو اور خدا کے آگے ادب سے کھڑے رہا کرو
صلوٰۃ وسطیٰ اور نماز میں کلام کرنے کا ذکر قول باری ہے (حافظون علی الصلوت والصلوۃ الوسطی، اپنی نمازوں کی نگہداشت رکھو خصوصاً صلوۃ وسطی کی) اس میں نماز کے عمل کو سرانجام دینے کا حکم ہے اور مخافظت کے ذکر کے ساتھ اس کے وجوب کی تاکید کردی گئی ہے۔ ’ الصلوت ‘ سے دن رات کی پانچوں نمازیں مراد ہیں جچو مخاطبین کے ذہنوں میں متعین ہیں اس لئے کہ اس لفظ پر الف لام داخل ہے جو معہود یعنی معلوم و متعین چیز کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ اس میں نمازوں کو قائم رکھنے، ان کے فرائض کو پورا کرنے، ان کے حدود کی پاسداری کرنے انہیں وقت پر ادا کرنے اور ادائیگی میں کوتاہی نہ کرنے کے تمام معانی و مفاہیم داخل ہیں کیونکہ محافظت کا حکم ان تمام باتوں کا مقتضی ہے۔ پھر نمازوں کے ذکر کر کے بعد صلوۃ وسطی کا الگ سے ذکر کر کے اس کی اہمیت کی تاکید کردی صلوۃ وسطیٰ کا الگ سے ذکر دو معنوں پر دلالت کرتا ہے۔ یو تو یہ تمام نمازوں سے افضل اور اس کی محافظت سب سے اولیٰ ہے۔ اس لئے دوسری نمازوں سے اسے الگ کر کے بیان کیا یا یہ کہ اس نماز کی نگہداشت کا حکم دوسری نمازوں سے بڑھ کر ہے۔ سلف سے اس بارے میں مختلف روایات میں جن میں سے بعض پہلے معنی پر اور بعض دوسرے معنی پر دلالت کرتی ہیں۔ حضرت زید بن ثابت ؓ سے مروی ہے کہ یہ ظہر کی نماز ہے کیونکہ حضور ﷺ دوپہر کے وقت یہ نماز ادا کرتے تھے اور آپ کے پیچھے مقتدیوں کی صرف ایک یا دو صفیں ہوتیں اور باقی لوگ قیلولہ کر رہے ہوتے یا کاروبار میں مصروف ہوتے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ ظہر کی نماز صحابہ کرام کے لئے سب سے زیادہ بھاری نماز تھی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت زید بن ثابت ؓ نے مزید فرمایا کہ اسے صلاۃ وسطیٰ یعنی درمیانی نماز اس لئے کہا گیا ہے کہ اس سے پہلے دو نمازیں اور اس کے بعد دو نمازیں ہیں۔ اس لئے یہ درمیانی نماز ہوگئی۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اس سے مراد عصر کی نماز ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے ایک روایت ہے کہ یہ فجر کی نماز ہے۔ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ سے مروی ہے کہ ان کے مصحف میں یہ الفاظ تھے۔ (حافظوا علی الصلوات والصلوۃ الوسطی صلوۃ العصر) حضرت براء بن عازب ؓ سے مروی ہے کہ یہ آیت اس طرح نازل ہوئی (حافظون علی الصلوت و صلوۃ العصر) اور حضور ﷺ کے عہد میں آیت کی قرأت اسی طرح ہوتی ریہ پھر اللہ تعالیٰ نے اس آیت (حافظوا علی الصلوت والصلوۃ الوسطی) کے ذریعے اسے منسوخ کردیا۔ اس طرح حضرت براء نے یہ بتادیا کہ حضرت عائشہ وغیرھا کے مصحف میں آیت کا اندراج جس طرح ہے وہ اب منسوخ ہوچکا ہے، عاصم بن زر نے حضرت علی ؓ سے روایت کی ہے کہ جنگ خندق میں کفار ہم سے مسلسل لڑتے رہے یہاں تک کہ ہمیں عصر کی نماز ادا کرنے کا موقع نہیں ملا حتیٰ کہ سورج غروب ہونے لگا۔ حضور ﷺ نے اس موقع پر فرمایا (اللھم املا قلوب الذین شغلونا عن الصلوۃ الوسطی تارا، اے اللہ ! جن لوگوں نے ہمیں صلوۃ وسطیٰ کی ادائیگی سے مشغول رکھا ان کے دل جہنم کی آگ سے بھر دے) ۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ ہم پہلے یہ سمجھتے تھے کہ صلوۃ وسطیٰ سے مراد فجر کی نماز ہے۔ عکرمہ، سعید بن جبیر اور مقسم نے حضرت ابن عباس ؓ سے اور آپ نے حضور ﷺ سے اسی قسم کی روایت کی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ یہ عصر کی نماز ہے۔ اس طرح حضتر سمرہ بن جندب ؓ نے حضور ﷺ اور حضرت علی ؓ سے یہی روایت کی ہے کہ یہ عصر کی نماز ہے۔ اسی طرح حضرت ابی بن کعب ؓ اور حضرت قبیصہ بن ذویب ؓ سے مروی ہے کہ یہ مغرب کی نماز ہے۔ ایک قول میں کہا گیا ہے کہ عصر کی نماز کو صلوۃ وسطیٰ اس لئے کہا گیا کہ دن اور رات کی دو دو نمازوں کے درمیان ہے۔ ایک قول ہے کہ سب سے پہلے فجر کی نماز کا وجوب ہوا اور سب سے آخر میں عشاء کی نماز کا اس بنا پر وجوب کے لحاظ سے عصر کی نماز صلوٰۃ وسطیٰ ہوگئی جو لوگ ظہر کی نماز کو صلوٰۃ وسطیٰ کہتے ہیں ان کے قول کی وجہ یہ ہے کہ ظہر کی نماز دن کی دو نمازوں اور فجر اور عصر کے درمیان آتی ہے جن لوگوں نے فجر کی نماز کو صلوٰۃ وسطیٰ کہا ہے تو حضرت ابن عباس ؓ کے قول میں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نماز رات کی تاریکی اور دن کی سفیدی کے درمیان ادا کی جاتی ہے۔ اس بنا پر وقت کے لحاظ سے اسے صلوٰۃ وسطیٰ کہا گیا ہے۔ بعض لوگ (والصلوۃ الوسطی) سے وجوب وتر کی نفی پر استدلال کرتے ہیں کیونکہ اگر وتر کی نماز واجب ہوتی تو پھر نمازیں تعداد میں چھ ہوجاتیں اور کوئی نماز صلوٰۃ وسطیٰ نہ بن سکتی۔ اس کے جواب میں کا ہ جائے گا کہ اگر صلوٰۃ وسطیٰ سے مراد عصر کی نماز ہے تو اسے وسطیٰ کہنے کی وہی وجہ ہے جو بیان ہوگئی کہ وجوب کے لحاظ سے یہ درمیانی نماز ہے اور اگر اس سے مراد نماز ظہر ہے تو یہ وسطیٰ اس واسطے ہے کہ یہ دن کی دو نمازوں فجر اور عصر کے درمیان پڑھی جاتی ہے اس طرح ان صورتوں میں کوئی ایسی بات موجود نہیں ہے جو وتر کے وجوب کی نفی پر دلالت کرتی ہو کیونکہ وتر کی نماز رات کے وقت پڑھی جانے والی نماز ہے۔ پھر آیت میں صلوٰۃ وسطیٰ سے مراد وہ فرض نماز ہے جو بقیہ فرض نمازوں میں درمیانی ہو جبکہ وتر کی نماز فرض نہیں ہے۔ اگرچہ یہ واجب ہے کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ ہر واجب فرض بن جائے اس لئے کہ وہ فرض ہوتا ہے جو وجوب کے سب سے اونچے درجے پر ہوتا ہے۔ نیز اگر یہ کہا جائے کہ وتر کی فرضیت فرض نمازوں کے بعد ایک زائد فرض کے طور پر وارد ہوئی جس کے لئے حضور ﷺ کا یہ قول دلیل ہے۔ (ان اللہ زادکم الی صلاتکم صلوۃ و ھی الوتر، اللہ تعالیٰ نے تمہاری فرض نمازوں میں ایک اور نماز کا اضافہ کردیا ہے اور یہ وتر کی نماز ہے) تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ وتر کے وجوب سے قبل ہی صلوٰۃ وسطیٰ والی آیت کا نزول ہوچکا تھا اور اس کا نام صلوٰۃ وسطیٰ پڑچکا تھا۔ قول باری ہے (وقوموا للہ قانتین، اور اللہ کے سامنے فرمانبردار بن کر کھڑے ہو جائو) ایک قول ہے کہ لغوی لحاظ سے قنوت کا معنی کسی چیز پر ثبات ہے۔ قنوت کے معنی کے متعلق سلف سے مختلف اقوال منقول ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ ، حسن بصری، شچبی اور عطاء بن ابی رباح سے منقول ہے کہ (و قوموا للہ قانتین) میں (قانتین) کا معنی مطیعین ہے یعنی فرمانبردار بن کر۔ نافع نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ قنوت کا معنی طول قیام ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے اس کے ساتھ یہ ایٓت تلاوت کی (امن ھو قانت اناء اللیل، آیا وہ شخص جو رات کے اوقات میں قنوت کرتا ہے) یعنی دیر تک قیام میں رہتا ہے حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (افضل الصلوۃ طول القنوت، بہترین نماز وہ ہے جس میں قنوت طویل ہو) یعنی قیام طویل ہو۔ مجاہلہ کا قول ہے کہ قنوت کا معنی سکوت یعنی خاموشی ہے اور اس کا معنی طاعت یعنی فرمانبرداری بھی ہے اور چونکہ قنوت کا اصل معنی کسی چیز پر دوام اور ثبات ہے اس لئے ہمیشہ فرمانبرداری کرنے والے کو قانت کہا جاسکتا ہے۔ اسی طرح جو شخص نماز میں دیر تک قیام کرے، قرأت کرے یا دعائیں مانگے یا خشوع و خضوع اور سکوت میں طوالت کرے تو ایسے تمام لوگ قنوت پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے قانتین کہلائیں گے۔ یہ بھی روایت ہے کہ حضور ﷺ ایک ماہ تک قنوت نازلہ پڑھتے رہے اور اس میں عرب کے ایک قبیلے کے خلاف بددعائیں کرتے رہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ نے دعائوں کے لئے دیر تک قیام کیا۔ حارث بن شبل نے ابو عمر و شیبانی ؓ نے سے روایت کی ہے کہ ہم حضور ﷺ کے زمانے میں نماز کے اندر باتیں کرلیتے تھے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (و قوموا للہ وانتین) اس کے ذریعے ہمیں خاموشی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا۔ یہ حکم نماز میں کلام کرنے سے نہی کا تقاضا کرتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ جب حضور ﷺ نماز میں ہوتے تو ہم آپ کو سلام کرتے اور آپ اس کا جواب دیتے۔ ہمارے حبشہ جانے سیپ ہلے ایسا ہی ہوتا رہا۔ جب میں حبشہ سے واپس آیا اور نماز کی حالت میں آپ کو سلام کیا تو آپ نے جواب نہیں دیا میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا جس پر آپ نے یہ فرمایا (ان اللہ یحدث من امر کا مایشاء و انہ قضی ان لا تکلموا فی الصلوۃ، اللہ تعالیٰ جو حکم چاہے بھیج سکتا ہے۔ اب اس نے یہ حکم دیا ہے کہ تم نماز میں باتیں نہ کرو) ۔ عطاء بن یسار نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ کو سلام کیا تو آپ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے جواب دیا۔ پھر جب آپ نے سلام پھیرلیا تو فرمایا (کنا نرد السلام فی الصلوۃ فنھینا عن ذالک، ہم پہلے نماز کے اندر سلام کا جواب دے دیا کرتے تھے۔ اب ہمیں اس سے روک دیا گیا ہے) ابراہیم الھجری نے ابن عیاض سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ لوگ پہلے نماز کے اندر کلام کرلیا کرتے تھے۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی (واذا قری القرآن فستمعوا لہ و انصلوا، پس جب قرآن مجید پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگائو اور خاموش رہو) معاویہ بن الحکم سلمی کی رویات میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (ان صلاتنا ھذہ لا یصلح فیھا شیء من کلام الناس انماھی التسبیح والتکبیر و قراء ۃ القرآن، ہماری اس نماز میں کسی قسم کی انسانی گفتگو درست نہیں ہے۔ نماز تو نام ہے تسبیح، تکبیر اور تلاوت قرآن کا) ۔ ان روایتا میں نماز کے اندر گفتگو کرنے کی ممانعت ہے۔ راویوں کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ پہلے نماز کے اندر گفتگو کرنے کی اجازت تھی یہاں تک کہ اس کی ممانعت آ گئی۔ فقاء بھی اس ممانعت پر متفق ہیں البتہ امام مالک کا قول ہے کہ نماز کی اصلاح کے لئے نماز کے اندر گفتگو ہوسکتی ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ بھول کر بات کرل ینے سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ ہمارے اصحاب نے اس مسئلے میں کوئی فرق نہیں کیا ہے اور گفتگو کے وجود پر نماز کے فساد کا حکم لگا دیا ہے خواہ یہ گفتگو بھول کر ہوئی ہو یا نماز کی اصلاح کے لئے اس کی دلیل یہ ہے کہ آیت (وقوموا للہ قانتین) اور اس کے متعلقہ یہ روایت کہ یہ نماز میں گفتگو کی ممانعت کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔ دونوں میں اس امر کے متعلق کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے کہ آیا گفتگو بھول کر ہوئی ہے یا جان بوجھ کر اور آیا اس سے نماز کی اصلاح کا ارادہ کیا گیا تھا یا ارادہ نہیں کیا گیا تھا۔ دوسری طرف اگر محولہ بالا روایت میں آیت کے نزول کا سبب بیان بھی نہ ہوتا پھر بھی آیت میں نماز کے اندر گفتگو کی ممانعت کا احتمال موجود تھا پھر حضور ﷺ سے اس سلسلے میں جتنی روایتیں منقول ہویں ان میں اصلاح کے قصد اور عدم قصد نیز سمو اور عمد کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ یہ آیت گفتگو کی تمام صورتوں کے لئے عام ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ نماز میں کلام کرنے کی نہی کا دائرہ کار صرف عامد یعنی جان بوجھ کر کلام کرنے والے تک محدود ہے۔ بھول کر کلام کرنے والا اس یمں داخل نہیں ہے اس لئے کہ ناسی یعنی بھول جانے والے کو نہی کرنا محال ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ نہی کے حکم میں اس بات کا جواز ہوتا ہے کہ وہ ناسی کو بھی لاحق ہو جس طرح کہ یہ عامد کو لاحق ہوتا ہے۔ البتہ گناہ لازم آنے اور وعید کے استحقاق کے لحاظ سے عامد اور ناسی کی صورت حال مختلف ہوتی ہے۔ لیکن نماز کے فساد اور وجوب قضاء کے لحاظ سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ نماز میں بھول کر کھا لینے والے، وضو توڑ دینے والے اور ہمبستری کرلینے والے کا حکم نماز کے فاسد ہوجانے اور قضاء لازم آنے کے لحاظ سے وہی ہوتا ہے جو جان بوجھ کر ان افعال کے مرتکب کا ہے۔ البتہ گناہ کمانے اور وعید کے سزاوار ہونے کے لحاظ سے ان دونوں کی حالتیں مختلف ہوتی ہیں۔ اس وضاحت کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایجاب قضاء کی صورتوں میں نہی کا حکم ناسی کو بھی اسی طرح لاحق ہوتا ہے جس طرح عامد کو اگرچہ گناہ کمانے اور وعید کے سزاوار ہونے کے لحاظ سے دونوں ایک دو سے سے مختلف ہوتے ہیں۔ حضور ﷺ سے مروی یہ احادیث ان لوگوں کے قول کے فساد پر دلالت کرتی ہیں جو بقصد اصلاح نماز میں گفتگو کے جواز کے قائل ہیں اور جو بھول کر بات کرنے والے اور جان بوجھ کر بات کرنے والے کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ اس پر حضور ﷺ کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے جسے معاویہ بن الحکم ؓ نے بیان کیا ہے کہ (ان صلاتنا ھذہ لا یصلح فیھا شیء من کلام الناس، ہماری اس نماز میں کلام الناس کی کوئی گنجائش نہیں ہے) اس قول کی حقیقت خبر ہے اس لئے اسے خبر پر ہی محمول کیا جائے گا۔ جس کی بنا پر اس تول کا تقاضا یہ ہے کہ اس میں حضور ﷺ کی جانب سے اس بات کی اطلاع دی گئی ہے کہ نماز میں کلام الناس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اب اگر ایک شخص گفتگو کرلینے کے بعد بھی نمازی رہ سکتا تو پھر نماز میں کسی نہ کسی صورت میں کلام الناس کی گنجائش ہوتی۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ جس نماز میں کلام الناس کی کوئی بھی صورت واقع ہوجائے گی وہ نماز نماز نہیں ہوگی۔ تاکہ حدیث میں خبر کی صورت میں جس بات کی اطلاع دی گئی ہے وہ نماز کی تمام شکلوں میں پائی جاسکے۔ ایک اور پہلو یہ واضح ہے کہ صلاح فساد کی ضد ہے۔ صلاح کا تقاضا ہے کہ اس کے مقابلے میں ہمیشہ فساد کا مفہوم پایا جائے۔ اب جب نماز میں کلام الناس کی گنجائش نہیں تو اس کے وجود کی صورت میں نماز فاسد ہوگی کیونکہ اگر ایسا نہیں ہوگا پھر نماز میں فساد کے بغیر کلام کی گنجائش پیدا ہوجائے گی اور یہ بات خبر کے متقضی کے خلاف ہے۔ اوپر ہم نے جن دو گروہوں کا قول نقل کیا ہے انہوں نے ذوالیدین کے واقعہ کے سلسلہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی روایت سے استدلال کیا ہے۔ یہ حدیث کئی طرق سے مروی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ہمیں دن کے دوسرے حصے کی یاک نماز شاید ظہر یا عصر پڑھائی پھر آپ اٹھے اور مسجد کے آگ کی طرف موجود ایک لکڑی کے پاس جا کر اس پر اپنے دونوں ہاتھ اوپر نیچے رکھ کر کھڑے ہوگئے۔ آپ کے چہرہ مبارک پر غضب کے آثار تھے۔ جلد باز قسم ک لوگ مسجد سے نکل کر ایک دوسرے سے پوچھنے لگے آیا نماز کی رکعتوں میں تخفیف ہوگئی ہے۔ لوگوں میں حضرت ابوبکرصدیق اور حضرت عمر ؓ بھی موجود تھے لیکن انہیں بھی آپ سے استفسار کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اسی دوران ایک شخص اٹھا جس کے دونوں ہاتھ بہت طویل تھے اور جسے حضور ﷺ ذوالیدین (لمبے ہاتھوں والا) کہہ کر پکارتے تھے۔ اس نے حضور ﷺ سے عرض کیا : ” اے اللہ کے رسول ! آیا آپ بھول گئے یا نماز میں تخفیف ہوگئی ؟ “ آپ نے یہ سن کر فرمایا (لم انس ولم تقصر الصلوۃ، نہ بھولا ہوں اور نہ ہی نماز میں تخفیف ہوئی ہے) اس پر ذوالیدین نے عرض کیا کہ آپ بھول گئے ہیں۔ یہ سن کر آپ لوگوں یک طرف مڑے اور پوچھا کہ آیا ذوالیدین درست کہہ رہے ہیں۔ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا اس پر آپ نے ہمیں باقیماندہ دور رکعتیں پڑھائیں اور سلام پھیرنے کے بعد سہو کے دو سجدے بھی کئے، ان حضرات نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے سارا واقعہ بیان کردیا جس میں گفتگو بھی شامل ہے لیکن اس گفتگو سے نماز کی بنا یعنی باقیماندہ حصہ کی ادائیگی میں کوئی امتناع پیدا نہیں ہوا۔ دوسری طرف حضرت ابوہریرہ ؓ اسلام لانے والوں میں زمانے کے لحاظ سے متاخرین میں شمار ہوتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوا کہ اس مسئلے میں یہ روایت منسوخ نہیں ہوئی۔ یحییٰ بن سعید القطان نے روایت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اسماعیل بن ابی خالد نے قیس بن ابی حازم سے یہ روایت کی ہے قیس کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابوہریرہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عروض کیا کہ ہمیں حدیث سنایئے۔ حضرت ابوہریرہ فرمانے لگے کہ میں حضور ﷺ کی خدمت میں تین برسوں تک رہا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ مدینے آئے تو اس وقت حضور ﷺ خیبر میں تھے۔ آپ بھی ادھر ہو لئے اور جب وہاں پہنچے تو حضور ﷺ خیبر فتح کرچکے تھے۔ ان حضرات نے استدلال میں یہ کہا کہ جب ذوالیدین کا واقعہ حضرت ابوہریرہ ؓ کے اسلام کے بعد پیش آیا اور یہ سب کو معلوم ہے کہ نماز میں گفتگو کی ممانعت مکہ میں ہوگئی تھی جس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا کہنا ہے کہ جب وہ حبشہ سے واپس آئے تو نماز میں اس کی ممانعت ہو چیک تھی یہی وجہ تھی کہ جب انہوں نے حضور ﷺ کو نماز کی حالت میں سلام کیا تھا تو آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا تھا اور گفتگو کی ممانعت کی اطلاع دی تھی۔ اس لئے اس پورے بیان سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ذوالیدین کی حدیث میں جو واقعہ پیش آیا تھا وہ نماز میں گفتگو کی ممانعت کے بعد کا واقعہ ہے۔ امام مالک کے اصحاب کا اس سلسلے میں یہ کہنا ہے کہ اس واقعے میں گفتگو کی وہ سے نماز اس لئے فاسد نہیں ہوئی کہ یہ ساری گفتگو نماز کی اصلاح کی خاطر ہوئی تھی۔ امام شافعی کا استدلال یہ ہے کہ اس واقعے میں نماز اس لئے فاسد نہیں ہوئی کہ یہ گفتگو بھول کر ہوئی۔ ان حضرات کے اس استدلال کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ اگر ذوالیدین کی حدیث نماز میں کلام کی ممانعت کے بعد کی ہوتی تو یہ نماز میں کلام کو مباح کردیتی اور ماقبل کی ممانعت کے حکم کو ختم کردیتی کیونکہ اس حدیث میں ذوالیدین نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ نماز میں گفتگو کا یہ جواز کسی ایک حالت کے ساتھ مخصوص ہے دوسری حالتوں کے ساتھ نہیں۔ سفیان بن عیینہ نے ابو حازم سے، انہوں نے حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (من نابہ فی صلاتہ شیء فلیقل سبحان اللہ انما التصفیق للنساء والتسبیح للرجال، جس شخص کو نماز میں کوئی بات پیش آ جائے تو وہ سبحان اللہ کہے۔ تالی بجانا عورتوں کے لئے ہے۔ مردوں کے لئے تو سبحان اللہ کہنا ہے۔ سفیان نے زہری سے، انہوں نے ابو سلمہ سے۔ انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے اور آپ نے حضور ﷺ سے یہ الفاظ روایت کئے ہیں (التسبیح للرجال والصفیق للنساء مردوں کے لئے سبحان اللہ کہنا ہے اور عورتوں کے لئے تالی بجانا ہے) اس طرح حضور ﷺ نے نماز میں گفتگو کرنے سے منع فرما کر کسی صورت حال کے پیش آنے یک شکل میں سبحان اللہ کہنے کا حکم دیا۔ اب جبکہ ذوالیدین کے واقعہ میں صحابہ کرام نے سبحان اللہ نہیں کہا اور نہ ہی حضور ﷺ نے ترک تسبیح پر انہیں کچھ کہا تو اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ذوالیدین کا واقعہ صحابہ کرام کو تسبیح دینے سے قبل کا ہے۔ کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ حضور ﷺ نے ایسے موقع کے لئے انہیں تسبیح کی تعلیم دی ہو اور وہ تسبیح چھوڑ کر کوئی اور طریقہ اختیار کریں۔ اور اگر صحابہ کرام اس موقع پر تسبیح کا وہ طریقہ چھوڑ دیتے جس کا انہیں حکم دیتا تو تسبیح کے مامور طریقے کو چھوڑ کر گفتگو کے ممنوع طریقے کو اختیار کرنے پر حضور ﷺ کی طرف سے ان پر ضرور تنقید ہوتی۔ اس میں یہ اس بات کی دلیل موجود ہے کہ ذوالیدین کا واقعہ دو میں سے ایک صورت میں وقوع پذیر ہوا ہے یا تو یہ نماز میں گفتگو کی ممانعت کے حکم سے پہلے وقوع پذیر ہوا یا یہ اس صورت کے بعد وقوع پذیر وا جبکہ نماز میں ابتدائی طور پر کلام کی ممانعت کردی گئی تھی پھر اجازت ہوگئی تھی اور پھر اس قول سے اس کی ممانعت ہوگئی کہ (التسبیح للرجال والتصفیق للنساء) ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں نماز کے اندر گفتگو کی ممانعت پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو معمر نے زہری سے، انہوں نے ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے، انوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کی ہے کہ ” حضور ﷺ نے ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی۔ “ آگے انہوں نے باقی ماندہ حدیث بھی بیان کردی زہری نے اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ بدر سے پہلے کا ہے پھر اس کے بعد معاملات مستحکم ہوتے گئے۔ حضرت زید بن ارقم کا قول ہے کہ ہم نماز کی حالت میں گفتگو کرلیتے تھے حتیٰ کہ آیت (فقوموا للہ قانتین) نازل ہوئی اور ہمیں خاموش رہنے کا حکم ملا۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ کا قول ہے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ کو نماز کی حالت میں سلام کیا۔ آپ نے اشارے سے اس کا جواب دیا پھر فراغت کے بعد فرمایا (کنانود اسلام فی الصلاۃ فنھینا عن ذالک، ہم پہلے نماز کی حالت میں جواب دے دیا کرتے تھے پھر ہمیں اس سے روک دیا گیا) ۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ کم سن صحابہ میں سے تھے ان کی کم سنی پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو ہشام نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا تھا کہ ” ابو سعید خدری اور انس بن مالک کو حضور ﷺ کی حدیث کا کیا پتہ، یہ دونوں تو حضور ﷺ کی زندگی میں چھوٹے لڑکے تھے۔ “ دوسری طرف حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ حبشہ سے حضور ﷺ کی خدمت میں آمد مدینہ میں ہوئی تھی۔ زہر ینے سعید بن المسیب، ابوبکر بن عبدالرحمن اور عروہ بن الزبیر سے یہ روایت کی ہے کہ عبداللہ بن مسعود ؓ اور آپ کے رفقاء حبشہ سے حضور ﷺ کی خدمت میں مدینہ آئے۔ اہل سیر نے روایت کی ہے جنگ بدر میں ابوجہل کو جب عفراء کے دونوں بیٹوں نے زخمی کردیا تھا تو حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے اسے قتل کیا تھا۔ اگر بات اسی طرح ہے تو حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے حبشہ سے واپسی پر نماز میں گفتگو کی ممانعت کی خبر دی ہے اور یہ اس وقت کی بات ہے جب حضور ﷺ معرکہ بدر کے لئے جانے پر تیار بیٹھے تھے۔ دوسری طرف عبداللہ بن وھب نے عبداللہ بن العمری سے، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ﷺ سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عمر نے ذوالیدین کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ابوہریرہ ؓ نے ذوالیدین کے جس واقعہ کی رویات کی ہے وہ ان کے مسلمان ہونے سے پہلے کی روایت ہے کیونکہ حضرت ابوہریرہ ؓ فتح خیبر کے سال مسلمان ہوئے تھے۔ اس سے یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ گئی کہ حضرت ابوہریرہ نے اگرچہ اس واقعہ کی رویات کی ہے لیکن وہ اس واقعہ کے وقت موجود نہیں تھے۔ جیسا کہ حضرت براء بن عازب ؓ کا قول ہے کہ ” ہم جو باتیں تمہیں حضور ﷺ سے سناتے ہیں وہ سب کی سب ہم نے آپ سے نہیں سنی ہیں لیکن یہ باتیں ہمارے اصحاب نے ہم سے بیان کی ہیں “۔ حماد بن سلمہ نے حمید سے اور انہوں نے حضرت انس ؓ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ” بخدا جو باتیں ہم تمہیں حضور ﷺ سے سناتے ہیں وہ سب کی سب ہم نے آپ سے نہیں سنی ہیں بلکہ ہم یعنی صحابہ کرام آپس میں ایک دوسرے کو سناتے تھے اور ہم کبھی ایک دوسرے پر غلط بیان کی تہمت نہیں لگاتے “۔ ابن جریج نے عمرو سے، انہوں نے یحییٰ بن جندہ سے، انہوں نے عبدالرحمن بن عبدالقاری سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ” رب کعبہ کی قسم میں نے یہ نہیں دیکھا کہ جو شخص صبح کے وقت جنبی ہو تو وہ روزہ نہ رکھے، بلکہ رب کعبہ کی قسم یہ بات محمد ﷺ نے فرمائی ہے “۔ پھر جب حضرت ابوہریرہ ؓ کو حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ کی یہ روایت سنائی گئی کہ حضور ﷺ صبح کے وقت جنابت کی حالت میں ہوتے اور جنابت بھی احتلام کی بنا پر نہ ہوتی اور پھر آپ اس دن کا روزہ رکھ لیتے تو حضرت ابوہریرہ ؓ نے سن کر کہا کہ ” مجھے اس کا علم نہیں ہے۔ جو بات میں نے کہی ہے اس یک خبر مجھے فضل بن العباس ؓ نے دی تھی “۔ اب یہاں بھی ذوالیدین کے واقعہ کے سلسلے میں حضرت ابوہریرہ کی روایت میں کوئی ایسی بات موجود نہیں ہے جو اس پر دلالت کرتی ہو کہ حضرت ابوہریرہ ؓ اس واقعہ کے عینی شاہد ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس روایت کے بعض طرق میں حضرت ابوہریرہ ؓ کے الفاظ مروی ہیں کہ ” حضور ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی “۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس میں یہ احتمال ہے کہ حضرت ابوہریرہ کی اس سے مراد یہ ہو کہ حضور ﷺ نے مسلمانوں کو نماز پڑھائی اور حضرت ابوہریرہ بھی مسلمانوں میں سے ایک فرد ہیں۔ جس طرح کہ مسعر بن کذدام نے عبدالمالک بن میسرہ سے اور انہوں نے النزال بن سہرہ سے روایت کی ہے کہ ہمیں حضور ﷺ نے فرمایا (اتاوایاکم کناندعی بسنی عبد مناف فانتم الیوم بنو عبداللہ و نحن بنو عبداللہ، ہم اور تم بنو عبد مناف میں سے ہونے کے دعویدار تھے لیکن آج تم بنو عبداللہ ہو اور ہم بھی بنو عبداللہ ہیں ض النزال بن سیرہ کی اس روایت سے مراد یہ ہے کہ حضور ﷺ نے ان کی قوم سے فرمایا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ نماز میں گفتگو کی ممانعت کا حکم اگر غزوہ بدر سے قبل دیا گیا ہوتا تو حضرت زید بن ارقم ؓ اس حکم کی گواہی نہ دیتے کیونکہ وہ بہت کم عمر تھے جس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن رواحہ نے جنگ موتہ (حضور ﷺ کے آخری دور کی جنگ) میں شرکت کی تو اس وقت زید بن ارقم ؓ ایک یتیم کی حیثیت سے ان کی کفالت میں پرورش پا رہے تھے اور ظاہر ہے غزوہ بدر سے قبل پیش آنے والے واقعہ کا حضرت زید بن ارقم جیسے کم سن انسان کو ادراک نہیں ہوسکتا۔ اس کے جواب میں کا جائے گا کہ اگر حضرت زید بن ارقم ؓ نے نماز میں گفتگو کی اباحت کا مشاہدہ کیا تھا تو یہ جائز ہے کہ ممانعت کے بعد اباحت کا حکم دیا گیا ہو اور پھر ممانعت کردی گئی ہو اور یہی حکم اس سلسلے کا آخری حکم ہو۔ اسی طرح یہ بھی جائز ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ نے بھی ممانعت کے بعد اباحت کلام کا مشاہدہ کیا ہو اور اس کے بعد پھر ممانعت کا حکم دے دیا گیا ہو۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ ذوالیدین کے واقعے کے متعلق ان کی روایت لامحالہ مشاہدہ کی بناء پر نہیں ہے کیونکہ وہ اس واقعہ کے بعد مسلمان وئے تھے۔ اس کی بھی گنجائش ہے کہ حضرت زید بن ارقم ؓ نے قول باری (وقوموا للہ قانتین) کے نزول تک نماز میں صحابہ کرام کی گفتگو کی کیفیت کی اطلاع دی ہے اور ان کے اس قول کا کہ ” ہم نماز میں گفتو کرلیا کرتے تھے “۔ مطلب یہ ہے کہ مسلمان نماز میں گفتگو کرلیا کرتے تھے۔ انہوں نے یہ الفاظ اس لئے استعمال کئے تھے کہ وہ بھی مسلمانوں ہی کے ایک فرد تھے جس طرح النزال بن سبرہ کے الفاظ ” ہمیں حضور ﷺ نے فرمایا “ کا مفہوم یہ ہے کہ آپ نے ان کی قوم سے خطاب کیا تھا اور انہوں نے اس کی نسبت اپنی طرف اس لئے کی کہ وہ بھی اپنی قوم کے ایک فرد تھے۔ یا جس طرح حسن بصری کا قول ہے کہ ” ہمیں حضرت ابن عباس ؓ نے بصرہ میں خطبہ دیا تھا “ حالانکہ حسن اس وقت وہاں نہیں تھے اور بصرہ میں ان کی آمد اس واقعہ کے بعد ہوئی تھی۔ ذوالیدین کا واقعہ اس زمانے میں پیش آیا تھا جب نماز میں گفتگو کی اباحث تھی اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اس واقعہ میں یہ مذککور ہے کہ حضور ﷺ سلام پھیرنے کے بعد اٹھ کر مسجد میں گڑھے ہوئے ایک تنے کا سہارا لے کر کھڑے ہوگئے۔ ادھر جلد باز قسم کے لوگ مسجد سے باہر آ گئے اور پھر پوچھنے لگے کہ آیا نماز میں تخفیف ہوگئی ہے۔ پھر حضور ﷺ نے لوگوں کی طرف رخ کر کے استفسار کیا کہ آیا ذوالیدین درست کہہ رہے ہیں لوگوں نے ان کے قول کی تصدیق کی۔ اب ظاہر ہے کہ اس دوران جو گفتو ہوئی اس کا بعض حصہ تو عمداً تھا اور بعض حصہ اصلاح صلوۃ کے لئے نہیں تھا بلکہ کسی اور مقصد کے لئے تھا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ذوالیدین کا واقعہ اس زمانے میں پیش آیا جب نماز میں گفتگو کی اباحت تھی۔ اس لئے اس بارے میں خلاصہ کلام یہ ہوا کہ اگر یہ اباحت ابتدا میں تھی اور اس کے بعد ممانعت وارد ہوئی تو پھر ہمارے مخالف کے لئے اس واقعہ سے استدلال کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اگر یہ واقعہ ممانعت کے بعد پیش آیا تو پھر بھی اس میں کوئی امتناع نہیں ہے کہ ممانعت کے بعد اباحت ہوگئی ہو اور پھر ممانعت کردی گئی ہو اور اس طرح آخری حکم ممانعت کا ہو اور اس حکم کے ذریعے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں موجود اباحت کا حکم منسوخ ہوگیا ہو۔ ہم نے یہ پہلے بیان کردیا ہے کہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد کہ مردوں کے لئے تسبیح اور عورتوں کے لئے تصفیق یعنی تالی بجانا ہے، حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت کے بعد کا ارشاد ہے کیونکہ اگر یہ پہلے کا ہوتا تو اس واقعے میں نماز میں حضور ﷺ کے نسیان پر لوگوں کی طرف سے مامور بہ یعنی تسبیح کو ترک کر کے کلام کرنے پر آپ ضرور تنقید کرتے کیونکہ لوگوں کو یہ علم تھا کہ موقع پر گفتگو کرنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ تسبیح یعنی سبحان اللہ کہنے کا حکم ہے۔ اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ تسبیح کا حکم اباحت کلام کا ناسخ ہے اور اس کا ورود اس کے بعد ہوا ہے۔ اب یہ ضروری ہوگیا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں جو حکم ہے وہ عملی طور پر مختلف فیہ ہوجائے اور ممانعت کے سلسلے میں وارد ہونے والی روایات اس کے نسخ کا فیصلہ کردیں۔ اس لئے کہ ہمارا یہ قاعدہ ہے کہ اگر دو روایتیں ایسی آ جائیں جن میں سے ایک خاص ہو اور دوسری عام پھر عام پر عمل پیرا ہونے پر سب کا اتفاق ہو اور خاص پر اختلاف ہو تو ایسی صورت میں پہلی روایت دوسری روایت کو ختم کر دے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ نے ساہی اور عامد کے حدث کے درمیان فرق کیا ہے تو پھر سہواً اور عمداً کلام کرنے کے درمیان کیوں نہیں فرق کیا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بڑا کھوکھلا سا اعتراض ہے جو کسی جواب کے لائق بھی نہیں جواب میں تو صرف یہی پہلو مدنظر ہوتا ہے کہ ایک کے مقابلے میں دوسرے مسئلے یا موقف کے دلائل واضح ہوجائیں۔ بہرحال ہمارے نزدیک افساد صلوۃ کے لحاظ سے ساہی اور عامد ک حدث میں کوئی فرق نہیں ہے۔ بشرطیکہ اس حدث میں اس کے اپنے فعل کا دخل ہو۔ ہمارے نزدیک فرق ان صورتوں میں پڑتا ہے جبکہ حدث کا یہ فعل خود اس کا اپنا ہو یا ایسا نہ ہو بلکہ بےاختیار لاحق ہوگیا ہو۔ اگر صوتر یہ ہو کہ اس نے بھول کر زخم کو چھیڑ دیا ہو اور اس سے خون نکل آیا ہو یا اسے قے ہوگئی تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی خواہ اس نے بھول کر ایسا کیوں نہ کیا ہو۔ اگر یہ کہا جائے ک آپ نے بھول کر اور جان بوجھ کر سلام کرنے والے کے دریمان فرق کیا ہے حالانکہ سلام کرنا بھی نماز میں کلام کرنے کے تمرادف ہے۔ اس لئے یہی حکم دوسرے تمام کلام کا بھی ہونا چاہیے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ سلام ذکر کی ایک قسم ہے اور اس تمام کلام کا بھی ہونا چاہیے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ سلام ذکر کی ایک قسم ہے۔ اور اس کے ذریعے نماز سے باہر آنا مسنون ہے۔ اگر نمازی جان بوجھ کر سلام کا قصد کرے گا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی جس طرح کہ عمداً سلام کا لفظ کہہ کر نماز کے آخر میں اس سے باہر آ جاتا ہے۔ اگر اس نے بھول کر ایسا کیا تو اسے ایک قسم کا ذکر شمار کرلیا جائے گا اور اس کے ذریعے وہ نماز سے باہر نہیں آسکے گا۔ ہم نے اسے ذکر اس لئے قرار دیا کہ اس لفظ سے فرشتوں اور اس جگہ موجود نمازیوں کو سلام کیا گیا ہے اور نمازی ” السلام علی ملائکۃ اللہ و جبریل و میکال “ (اللہ کے فرشتوں اور جبریل اور میکائیل پر سلام) یا ” اسلام علی نبی اللہ “ (اللہ کے نبی پر سلام) کہے تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی۔ اب چونکہ یہ ذکر کی قسم ہے اس لئے یہ کہہ کر وہ نماز سے باہر نہیں آسکے گا الا یہ کہ وہ جان بوجھ کر یہ کہے تو اس صورت میں نماز سے باہر ہوجائے گا اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ نماز میں اس جیسا ذکر موجود ہے اور نماز اس سے فائد نہیں ہوتی اور وہ ہے ” السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین “ اگر نماز میں بھول کر اسی قسم کا ذکر نمازی کی جانب سے ہوجائے اور نہ ہی ارشاد نبوی ﷺ اس کلام کو شامل ہوگا۔ اگر نمازی جان بوجھ کر سلام کرے تو اس صورت میں ہم نے اس کے فساد کا حکم لگا دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ نمازی نے کلام الناس کے ممنوع عمل کا ارتکاب کیا بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا یہ عمل نماز سے خارج ہوجانے کا مسنون طریقہ ہے۔ اب جبکہ اس نے عمداً یہ عمل کیا تو اس نے گویا نماز سے نکلنے کے مسنون طریقے کا ارادہ کرلیا اور اس طرح اس نے اپین نماز قطع کرلی۔ نیز یہ پہلو بھی ہے کہ شرعی نماز کی شرط یہ ہے کہ اس میں کلام نہ کیا جائے۔ اب جب اس نے جان بوجھ کر کلام کرلیا اور اس کا ارادہ اصلاح صلوٰۃ نہ ہو تو سب کے نزدیک یہ نماز شرعی نماز نہیں ہوئی۔ اس لئے یہ ضروری ہوگیا کہ نماز میں گفتگو کا وجود اس نماز شرعی نماز کے دائرے سے خارج کر دے۔ جس طرح کہ طہارت کی کیفیت ہے چونکہ یہ نماز کی شرط ہے اس بنا پر بھول کر یا جان بوجھ کر ترک طہارت کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوتا یعنی دونوں صورتوں میں نماز نہیں ہوتی، اسی طرح ترک قرأت، ترک رکوع سجود اور نماز کے بقیہ تمام فرائض کی کیفیت ہے کہ ان میں سہواً یا عمداً ترک سے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اس لئے صلوۃ ایک شرعی اسم ہے اور اس کی صحت کا تعلق مختلف شرکاء کے ساتھ ہے جب یہ شرائط نہیں پائی جائیں گی تو اس عمل سے صلوۃ کا شرعی اسم زائل ہوجائے گا اور چونکہ اس کی ایک شرط ترک کلام بھی ہے۔ اس لئے جب کلام کا وجود ہوگا تو اس عمل سے صلوۃ کا شرعی اسم چھن جائے گا اور ایسا شخص فاعل صلوٰۃ نہیں کہلائے گا۔ اس لئے ایسی نماز ہمارے نزدیک درست نہیں ہوگی۔ ہمار اس استدلال پر اگر معترضین ہم پر روزے کی صورت بھی لازم کردیں کہ اس میں ترک اکل شرط ہے اور روزے کے شرعی اسم کا اس کے ساتھ تعلق ہے لیکن اس میں بھول کر اور جان بوجھ کر کھا لینے کے حکم میں اختلاف ہے کہ پہلی صورت میں روزہ نہیں ٹوٹتا جبکہ دوسری صورت میں ٹوٹ جاتا ہے تو اس اعتراض کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ قیاس کا تقاضا تو یہی ہے کہ دونوں صورتوں میں روزہ ٹوٹ جائے۔ اس بناء پر ہمارے اصحاب کا یہ قول ہے کہ اگر روایت موجود نہ ہوتی تو یہ ضروری ہوتا کہ بھول کر اور جان بوجھ کر کھا لینے کے حکم میں کوئی فرق نہ ہو اور جب ہمارے اصحاب نے قیاس کو تسلیم کرلیا تو حکم کی علت تمام صورتوں میں جاری رہے گی اور اس کا یہ عمل درست رہے گا۔
Top