Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 280
وَ اِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَیْسَرَةٍ١ؕ وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر كَانَ : ہو ذُوْ عُسْرَةٍ : تنگدست فَنَظِرَةٌ : تو مہلت اِلٰى : تک مَيْسَرَةٍ : کشادگی وَاَنْ : اور اگر تَصَدَّقُوْا : تم بخش دو خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تَعْلَمُوْنَ : جانتے
اور اگر قرض لینے والا تنگدست ہو تو (اسے) کشائش (کے حاصل ہونے) تک مہلت (دو ) اور اگر (زر قرض) بخش ہی دو تو تمہارے لئے زیادہ اچھا ہے بشرطیکہ سمجھو
قول باری ہے (وان کان ذو عسرۃ فنظرۃ الی میسرۃ (a) اور اگر وہ تنگدست ہو تو اسے فراخی تک مہلت ہے) اس آیت کی دو تاویلیں کی گئی ہیں۔ اول یہ کہ اگر کوئی تنگدست تمہارا مقروض ہوجائے تو اسے قرض کی ادائیگی کے لئے اس کی فراخی تک مہلت دے۔ دوسری تاویل کی بنیاد یہ ہے کہ کان (a) کو تامہ مان لیا جائے یعنی فعل ناقص ’ کان ‘ (a) صرف اپنے اسم ” ذوعسرۃ “ (a) پر اکتفا کرے اور اسے خبر کی ضرورت نہ ہو اور اس صورت میں معنی یہ ہوگا کہ ” ان وقع ذو عسرۃ “ (a) یا ” ان وجدنی عسرۃ (a) (اگر کوئی تنگ دست ہوجائے یا اگر کوئی تنگ دست پایا جائے جیسا کہ شاعر کا قول ہے : فدی لبنی شیبان رحلی و ناقتی اذا کان یوم ذوکواکب اشھب (a) جب ٹھنڈی ہوا اور پالے کا دن ہو اور دن کو ستارے نکلے ہوں یعنی جنگ کا بازار گرم ہو اور ہتھیاروں کی چمک ستاروں کی طرح ہو اس دن نبی شیعبان پر میرا کجاوہ اور میری اونٹنی سب قربان ہوجائیں۔ شاعر کے قول کا مطلب یہ ہے کہ جب اس طرح کا دن پایا جائے۔ قول باری (وان کان ذو عسرۃ فنظرۃ الیٰ میسرۃ) (a) کے معنی میں اختلاف ہے۔ ابن عباس، قاضی شریح اور ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ یہ حکم خاص کر سود پر دیے ہوئے قرض کے متعلق ہے۔ قاضی شریح سود پر دیئے ہوئے قرض کے سوا دوسرے قرضوں کے مقدمات میں تنگ دست مقروض کو جیل بھیج دیتے تھے۔ حسن بصری، ابراہیم، ربیع بن حثیم اور ضحاک سے مروی ہے کہ یہ حکم تمام قسم کے ویون کے لئے ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے ایک اور روایت اسی طرح کی ہے۔ کچھ دوسروں کا یہ قول ہے کہ آیت میں جو حکم ہے وہ سود پر دیئے ہوئے قرض میں تنگدست کو مہلت دینے کے متعلق ہے اور باقی تمام دیون اسی کے حکم میں ہیں اور انہیں اس پر قیاس کیا گیا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (وان کان ذو عسرۃ فنظرۃ الی میسرۃ) (a) میں چونکہ یہ بھی احتمال ہے کہ اس کے حکم کا تعلق قرضوں کی تمام اقسام کے ساتھ ہو جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے ہیں اور یہ بھی احتمال ہے کہ سلف میں جن حضرات نے اس کی دوسری تفسیر کی ہے وہ بھی درست ہو کیونکہ یہ تو ہوسکتا ہے کہ سلف آیت کی ایسی تفسیر کریں جس کا سرے سے اس میں احتمال ہی نہ ہو۔ اس لئے اب یہ ضروری ہے کہ آیت کے حکم کو اس کے عموم پر محمول کیا جائے اور اسے صرف سودی قرضوں تک محدود نہ رکھا جائے الا یہ کہ کوئی دلالت قائم ہوجائے کیونکہ ہم اگر اسے سودی قرضوں تک محدود رکھیں گے تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ دلالت کے بغیر ایک عموم کی تخصیص کی جارہی ہے۔ اگر یہاں یہ کہا جائے کہ درج بالا قول باری افادہ حکم میں خود مکتفی نہیں ہے اور یہ ماقبل کے معنی کو متضمن ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس کے حکم کو سودی قرضوں تک محدود رکھا جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ کلام اپنی ذات کے لحاظ سے اپنا مفہوم بیان کرنے کے لئے خود مکتفی یعنی کفایت کرنے والا ہے کیونکہ فحوائے کلام میں اس کے مفہوم و معنی پر دلالت موجود ہے۔ وہ اس طرح کہ اعسار یعنی تنگدستی اور انظار یعنی مہلت کا ذکر ایسے دین اور قرض پر دلالت کررہا ہے جس کا مطالبہ واجب ہے اور مہلت تو صرف اس حق کے لئے ہوتی ہے جس کا وجوب ثابت ہوچکا ہو۔ اور اس کا مطالبہ بھی درست ہو خواہ فوری طور پر یا ٹھہر کر۔ جب لفظ کے مضمون میں اس دین پر دلالت موجود ہے جس کا تعلق اس لفظ کے ساتھ ہے اور جس کی وجہ سے تنگدستی کی بنا پر انظارمعنی مہلت دینے کا حکم دیا جارہا ہے تو ایسی صورت میں لفظ اپنے معنی کے لئے خود مکتفی ہوگا اور اس کے عموم کا اعتبار واجب ہوگا اور صرف سودی قرضے تک اس کا اقتصار واجب نہیں ہوگا۔ ہمارے مذکورہ قول کی تائید میں بعض نے یہ خیال کیا کہ اس کا ربوٰ یعنی سودی قرضے کے متعلق ہونا سرے سے درست نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سود کو باطل قرار دیا ہے اس لئے اس کی خاطر مہلت دینا کیسا ؟ اس لئے یہ ضروری ہے کہ یہ آیت قرضوں کی تمام صورتوں کے لئے عام ہو۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ استدلال فضول ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے تو صرف سود یعنی مشروط زیادتی کو باطل کیا ہے۔ قرض میں دی گئی رقم یعنی راس المال کو تو باطل نہیں کیا اس لئے کہ اس کا ارشاد ہے (وذروا ما بقی من الربوٰ ) (a) اور ربوٰ زیادتی کو کہتے ہیں پھر فرمایا (وان تبتم فلکم رئوس اموالکم) (a) اس کے بعد پھر ارشاد ہوا (وان کان ذو عسرۃ) (a) یعنی تمام اقسام کے قرضے اور سودی قرضہ بھی ان میں سے ایک ہے۔ اب باقی مادہ سودی رقموں کے ابطال سے راس المال یعنی قرض میں دی ہوئی اصل رقموں کا ابطال لازم نہیں آیا بلکہ یہ رقم قرض لینے والے کے ذمے ہے جس کی ادائیگی اس پر واجب ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب مہلت کا حکم راس المال کے بارے میں ہے اور اس المال اور دوسرے تمام قرضے یکساں ہوں گے، اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم تو اس بارے میں گفتگو کررہے ہیں کہ آیت میں بیان کردہ حکم کا عموم کن کن صورتوں کو شامل ہے۔ اگر یہ حکم سودی قرضے کے راس المال کے بارے میں ہے تو یہ حکم دوسرے قرضوں کو بطریق نص شامل نہیں ہوگا۔ بلکہ معنی کے عموم کی جہت سے شامل ہوگا اس وقت اس کے حکم کے اثبات اور اسے آیت میں مذکور حکم کی طرف اس طریقے پر لوٹانے کے لئے کسی اور دلالت کی ضرورت ہوگی جو ان دونوں حکموں کا جامع بن سکے۔ یہاں ہمارے درمیان گفتگو قیاسی جہت سے نہیں ہورہی ہے بلکہ اختلاف تو صرف آیت کے عموم یا خصوص کے متعلق ہے۔ رہ گیا قیاس کے بارے میں گفتگو اور غیر مذکور کو مذکور کی طرف لوٹانے کی بات تو یہ علیحدہ مسئلہ ہے۔ قول باری (وان تبتم فلکم رئو وس اموالکم) (a) اس بات کا متقاضی ہے کہ قرض خواہ مقروض سے اپنے قرض کا مطالبہ کرسکتا ہے اور اس کی رضامندی کے بغیر اپنا راس المال اس سے واپس لے سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرض کے تقاضے اور مطالبے کو مقروض کی رضا کے شرط کے بغیر بیان کیا ہے اور یہ چیز اسی بات کو لازم کردیتی ہے کہ جس شخص کا کسی پر کوئی قرض ہو اور پھر وہ اس سے قرض کی واپسی کا مطالبہ کرے تو اسے قرض واپس لے لینے کا اختیار ہے خواہ مقروض چاہے یا نہ چاہے۔ شوہر نجیل ہونے پر بیوی کیا کرے ؟ اسی معنی میں حضور ﷺ سے بھی روایت منقول ہے۔ آپ سے ہندہ نے کہا کہ ابو سفیان بڑے بخیل انسان ہیں مجھے اتنا بھی نہیں دیتے جو میری اور میرے بچوں کی کفایت کرسکے آپ نے فرمایا (خذی من مال ابی سفیان مالکفیک وولدک بالمعروف (a) ابو سفیان کے مال میں سے اتنا لے لو جو رواج کے مطابق تمہاری اور تمہارے بچوں کی کفایت کرسکے) آپ نے ہندہ ؓ کو اجازت دے دی کہ وہ جس قدر نفقہ کا استحقاق رکھتی ہیں اسے ابو سفیان ؓ کے مال میں سے ان کی رضامندی کے بغیر لے لیں۔ آیت میں یہ دلالت موجود ہے کہ مقروض کو جب قرض کی واپسی کا امکان ہو اور وہ پھر بھی قرض ادانہ کرے تو وہ ظالم ہوگا۔ آیت کی اس مفہوم پر دو طرح سے دلالت ہورہی ہے۔ اول قول باری (وان تبتم فلکم رئو وس اموالکم) (a) اللہ تعالیٰ نے قرض خواہ کو قرض کی واپسی کے مطالبہ کا حق دیا اور یہ چیز مقروض کو قرض کی ادائیگی کے حکم کو متضمن ہے نیز اس میں ادائیگی سے باز رہنے کے رویے کو بھی ترک کرنے کا حکم ہے۔ کیونکہ جب وہ ادائیگی سے باز رہے گا اور پہلو تہی کرے گا تو وہ ظالم قرار پائے گا اور اس کا سزا وار بن جائے گا کہ اس پر ظالم کے لفظ کا اطلاق کیا جائے اور جب وہ ایسا ہوجائے گا تو وہ سزا کا مستحق بن جائے گا۔ یہ سزا قید کی صورت میں اسے دی جائے گی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ترتیب تلاوت میں یہ قول باری (لاتظلمون ولا تظلمون (a) نہ تم ظلم کرو اور نہ ہی تم پر ظلم کیا جائے) اسم مفہوم کو بیان کررہا ہے کہ ۔۔۔ واللہ اعلم ۔۔۔ تم قرض دی ہوئی رقم سے زائد لے کر ظلم نہ کرو اور تمہیں راس المال سے کم رقم واپس کرکے تم پر ظلم نہ کیا جائے۔ اس تفسیر سے آیت کی دلالت اس بات پر ہورہی ہے کہ جب مقروض راس المال کی پوری ادائیگی سے باز رہے گا اور پہلو تہی کرے تو وہ ظالم قرار پائے گا نیز سزا کا مستحق ہوگا۔ اب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ایسی صورت میں مقروض مار پٹائی کا مستحق نہیں ہوگا اس لئے یہ ضروری ہے کہ یہ سزا قید کی صورت میں ہو۔ کیونکہ سب کا یہ متفقہ مسئلہ ہے دنیاوی احکام کے لحاظ سے قید کے سوا دوسری تمام سزائیں اسی سے ساقط ہوجائیں گی۔ حضور ﷺ سے بھی آیت کے مدلول کے مطابق حدیث مروی ہے ہمیں یہ محمد بن بکر نے انہیں ابودائود نے ، انہیں عبداللہ بن محمد نضیلی نے، انہیں عبداللہ بن مبارک نے وبربن ابی دلیلہ سے ، انہوں نے بن میمون سے ، انہوں نے عبداللہ بن الشرید سے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا (لی الواجد یجل عرضہ وعقوبتہ (a) جس شخص کے پاس قرض کی ادائیگی کی گنجائش ہو اس کا ٹال مٹول ۔ اس کی آبرو اور اس کی سزا کو حلال کردیتا ہے) ۔ عبداللہ بن المبارک نے یحل عرضہ دعقوبتہ (a) کی توضیح کرتے ہوئے کہا کہ اس سے سختی کی جائے گی اور اس کی سزا قید ہے “ حضرت ابن عمر ؓ ، حضرت جابر ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ نے حضور ﷺ سے یہ روایت کی ہے کہ (مطل الغنی ظلم واذا احیل احدکم علی ملیء فلیمتل (a) مالدار کا ٹال مٹول ظلم ہے اور جب تم میں سے کسی کے قرض کو کسی مالدار کے حوالہ کردیا جائے یعنی مالدار کو تمہارے قرض کا ذمہ دار بنادیا جائے تو اس قرض کو اس کے ذمے ڈال دے) آپ نے مال دار کے ٹال مٹول کو ظلم قرار دیا اور ظالم لامحالہ سزا کا مستحق ہوتا ہے اور یہ سزا قید کی صورت میں اسے ملے گی کیونکہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ قید کے سوا اور کوئی سزا منقول نہیں ہے۔ ہمیں محمد بن ب کرنے ، انہیں ابودائود نے، انہیں معاذ بن اسد نے، انہیں نظر بن شمیل نے، انہیں ایک بدو ہر م اس بن حبیب نے اپنے والد سے اور انہوں نے ہر م اس کے دادا سے یہ روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں : ” میں حضور ﷺ کی خدمت میں اپنے ایک مقروض کو لے کر آیا۔ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ ” اس کاپیچھا نہ چھوڑو اور اسے پکڑ کر رکھو۔ “ پھر فرمایا : اے بنو تمیم کے بھائی ! تم اپنے اس قیدی کے ساتھ کیا سلوک کرنے کا ارادہ رکھتے ہو ؟ “ حضور ﷺ کا یہ قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ قرض خواہ کو اپنے مقروض کو قید کردینے کا حق ہے کیونکہ قیدی وہ ہوتا ہے جسے قید میں ڈال دیا جائے۔ جب آپ نے اس مقروض کو اس قرضخواہ کے قیدی کا نام دیا تو اس سے اس بات پر دلالت ہوگئی کہ قرض خواہ کو یہ اختیار ہے کہ وہ مقروض کو قیدی بنالے۔ اسی طرح آپ ﷺ کا قول (لی الواجد یحل عرضہ وعقوبتہ) (a) بھی اس معنی پر دلالت کرتا ہے۔ عقوبت سے مراد سزائے قید ہے کیونکہ اہل علم میں سے کوئی بھی ایسے شخص پر قیار کے سوا اور کوئی سزا واجب نہیں کرتا۔ البتہ فقہاء کا اس میں اختلاف ہے کہ وہ کون سی حالت ہے جو سزائے قید کو واجب کردیتی ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جب کسی شخص پر کسی قسم کا قرض کسی طریقے سے بھی ثابت ہوجائے تو اسے دو یا تین مہینے قید میں رکھا جائے گا پھر اس کے متعلق پوچھا جائے گا اگر وہ مال دار نکلے گا تو اسے مستقل طور پر قید میں رکھا جائے گا حتیٰ کہ وہ قرض کی رقم ادا کردے اور اگر تنگدست ہوگا تو اسے رہا کردیا جائے گا۔ ابن رستم نے امام محمد کے واسطے سے امام ابوحنیفہ سے نقل کیا ہے کہ جب مقروض یہ کہے کہ ” میں تنگدست ہوں “ اور اپنے اس قول کا ثبوت بھی مہیا کردے یا یوں کہے کہ میرے متعلق پوچھ لو “ تو اس کے متعلق کسی سے پوچھا نہیں جائے گا بلکہ دو یا تین مہینے اسے قید میں رکھا جائے گا پھر اس کے متعلق لوگوں سے معلومات حاصل کی جائیں گی البتہ اگر اس کی تنگ دستی معروف و مشہور ہو تو پھر قرض خواہ اسے قید میں نہیں رکھے گا۔ طحاوی نے احمد بن ابی عمران سے نقل کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے اصحاب میں سے حضرات متاخرین جن میں محمد بن شجاع بھی شامل ہیں، کا یہ قول ہے کہ ہر ایسا قرض جو مال کی شکل میں مقروض کے ہاتھ آجائے مثلاً فروخت شدہ چیزوں کی قیمتیں اور سامان وغیرہ تو اس صورت میں قرض کی عدم ادائیگی پر قرض خواہ اس مقروض کو قید کرسکتا ہے اور ایسا قرض جس کی اصل مال کی شکل میں نہ ہو جو اس مقروض کے ہاتھ آجائے۔ مثلاً مہر کی رقم، خلع سے حاصل شدہ رقم ، قتل عمد پر صلح کی وجہ سے حاصل ہونے والی رقم اسی طرح کفالت کی رقم تو قرض خواہ مقروض کو ایسی رقم کی بنا پر قید نہیں کرے گا جب تک کہ اس رقم کا وجود اور مقروض کی فراخی کا ثبوت نہ مل جائے۔ ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ قرضوں کی صورت میں جب قرض خواہ کو معلوم ہوجائے کہ مقروض کے پاس مال ہے تو وہ اسے قید میں رکھ سکتا ہے۔ امام مالک کا قول ہے کعہ دین یعنی قرض میں کسی آزاد کو اور نہ ہی کسی غلام کو قید میں رکھا جاسکتا ہے۔ اور نہ ہی ان کی حالت کے متعلق چھان بین کی جاسکتی ہے۔ البتہ اگر مقروض پر یہ الزام ہو کہ اس نے مال چھپا رکھا ہے تو پھر اسے قید میں رکھا جائے گا۔ اگر قرض خواہ کو اس کے ہاں کچھ نہ ملے تو وہ اسے قید میں نہیں رکھے گا اور اسے چھوڑ دے گا۔ حسن بن حی کا قول ہے کہ مقروض اگر فراخ دست ہو تو اسے قید میں ڈال دیا جائے گا اور اگر تنگدست ہو تو قید میں نہیں ڈالا جائے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ جب کسی پر دین ثابت ہوجائے تو اسے قید نہیں کیا جائے گا۔ اگر ظاہراً بھی اس کے پاس کچھ نہ ہو تو پھر قید کردیا جائے گا اور اس کا جو مال بھی ہاتھ لگے گا اسے فروخت کرکے قرض کی ادائیگی کی جائے گی۔ اگر وہ اپنی تنگدستی کا اظہار کرے گا تو اس سلسلے میں اس کے پیش کردہ ثبوت کو قبول کرلیا جائے گا کیونکہ قول باری ہے (وان کان ذو عسرۃ فنظرۃ الی میسرۃ) (a) اس کے ساتھ ساتھ اس سے حلف بھی لیا جائے گا اور اس کے قرض خواہوں کو اس کا پیچھا کرنے سے روک دیا جائے گا۔ ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب کا یہ قول ہے کہ مقروض کو قرض خواہ قاضی کی عدالت میں اس پر دین کے ثبوت کے ساتھ ہی قید میں ڈال دے گا۔ اس کے دلائل ہم نے آیت اور حدیث کی روشنی میں بیان کردیئے ہیں کہ جس چیز کا ثبوت اس کے ذمے ہوگیا ہے اسے ادا نہ کرکے وہ ظالم بن گیا ہے اور اس کے ذمہ واجب شدہ چیز کی ادائیگی سے بازرہ کو وہ سزا کا مستحق ہوگیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ سزا اس پر باقی رہے یہاں تک کہ تنگدستی کی وجہ سے اس سزا کا ٹل جانا ثابت ہوجائے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مقروض اسی وقت ظالم قرار پائے گا جب وہ ادائیگی کے امکان کے باوجود ادائیگی سے پہلو تہی کرے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ایسی چیز کی عدم ادائیگی کی بنا پر اس کی مذمت نہیں کرتا جس پر اسے قدرت ہی حاصل نہ ہو اور جو اس کے لئے ممکن ہی نہ ہو۔ اسی لئے حضور ﷺ نے سزا کے استحقاق کے لئے مال کی موجودگی کی شرط عائد کی ہے آپ کا قول ہے (لی الواجد یحل عرضہ وعقویتہ (a) ایسے شخص کا ٹال مٹول جس کے ہاں ادائیگی کی گنجائش ہو اس کی آبرو اور اس کی سزا کو حلال کردیتا ہے) اب جبکہ سزا کے استحقاق کی شرط مال کی موجودگی ہے جس سے اس کے لئے ادائیگی ممکن ہو تو پھر اس وقت تک اسے قید کرنا اور سزا دینا جائز نہیں ہوگا جب تک کہ یہ ثابت نہ ہوجائے کہ اس کے پاس مال ہے لیکن وہ قرض ادا کرنے سے پہلو تہی کررہا ہے۔ صرف اس پر دین کا ثبوت اس بات کی ہمیشہ نشانی نہیں بنتا کہ اس کی ادائیگی بھی اس کے لئے ممکن ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس پر دین کے ثبوت کے بعد اسے تنگدستی نے آلیا ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ایسے دیون جن کے بدل مقروض کے ہاتھ میں ہوں ان سے ہمیں قطعی طور پر یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے ہاں ان کی ادائیگی کی گنجائش ہے اور ان سے اس کی تنگدستی کا علم نہیں ہوتا۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ اس پر یسار یعنی فراخی اور مال کی موجودگی کا حکم باقی رہے حتیٰ کہ اس کی تنگدستی ثابت ہوجائے۔ لیکن ایسے دیون جن کے بدل مقروض کے ہاتھ میں نہ ہوں جن سے وہ ادائیگی کرسکے تو اس صورت میں اس کا اس عقد میں داخل ہونا جس کی وجہ سے اس کے ذمہ یہ ادائیگی لازم ہوئی ہے۔ اس کی طرف سے گیوا اس کی ادائیگی کے لزوم کا اقرار و اعتراف ہے۔ نیز یہ اقرار بھی ہے کہ اس کی ادائیگی کا اس سے مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔ اس صورت میں مقروض کا اپنے متعلق تنگدستی کا دعویٰ تو یہ درحقیقت فراخ دست کی طرف سے مہلت مانگنے کے دعویٰ کی طرح ہے جس کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب نے ان دیون میں جن کے بدل کا مقروض کے ہاتھوں میں ہونے کا علم ہوجائے اور ان میں کوئی فرق نہیں کیا جن کے بدل مقروض کو حاصل نہ وہں اس لئے کہ مقروض کا اس عقد میں داخل ہونا جس کی وجہ سے اس پر یہ قرض واجب ہوا ہے گویا اس کی طرف سے اس کی ادائیگی کے لزوم کا اقرار ہے نیز قرض خواہ کے مطالبہ کے حق کا ثبوت ہے۔ اس لئے کہ کسی بھی عقد یا سودے میں طرفین کا داخل ہونا یہ گویا ان کی طرف سے اس عقد کی وجہ سے واجب ہونے والے حقوق کا اقرار و اعتراف ہوتا ہے اور عقد کے بعد اگر کسی جانب سے ان حقوق کی نفی کا دعویٰ کیا جائے تو اس کے اس دعوے کی تصدیق نہیں کی جائے گی۔ اسی وجہ سے ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ چیز ان دونوں سے اس عقد کی صحت کے اقرار کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ یہ چیز اس عقد کے حقوق کے لزوم کو متضمن تھی۔ اور اگر اس کے فساد کے متعلق مقروض کو سچا تسلیم کرلیا جائے تو اس سے ظاہر عقد کے ساتھ لازم ہونے والے حقوق کی نفی ہوتی ہے۔ ہمیں اہل علم کے درمیان اس بارے میں کسی اختلاف کا علم نہیں کہ اگر کوئی عقد اختتام کو پہنچ جائے اور بظاہر وہ درست ہو تو اس کے بعد متعاقدین یعنی طرفین میں سے جو بھی اس عقد کے فاسد ہونے کا مدعی بنے گا ا اس کے قول کی تصدیق نہیں کی جائے گی۔ بلکہ عقد کی صحت کے مدعی کا قول تسلیم کیا جائے گا۔ یہ بات ہمارے اس قول کی صحت کی دلیل ہے کہ جو شخص کسی عقد کے ذریعے اپنے اوپر دین لازم کرلے گا اس پر اس کی ادائیگی لازم ہوجائے گی اور اس کے بارے میں یہ حکم لگادیا جائے گا کہ وہ اس دین کے سلسلے میں فراخ دست ہے اور اس کے دعوے کی تصدیق نہیں کی جائے گی کہ وہ تنگدست ہے جس کی وجہ سے قرض خواہ کے مطالبے کا حق ساقط ہوجائے جس طرح کہ اس پر اس دین کے فی الحال ثبوت کے بعد تاجیل یعنی مہلت کی تصدیق نہیں کی جائے گی۔ ہمارے اصحاب کا یہ قول کہ قرض خواہ کی طرف سے اس مقدمے کو قاضی کی عدالت میں پیش کرنے کے ساتھ ہی وہ مقروض کو روک لے گا اور اس کے حالات کے متعلق تفتیش نہیں کرے گا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ادائیگی کا مطالبہ مقروض کی طرف متوجہ ہوچکا ہے اور ادائیگی کے سلسلے میں اس پر فراخی کا حکم لگ چکا ہے۔ ضروری تو یہ تھا کہ شروع ہی میں اس کے حالات کی چھان بین کرلی جاتی کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس کے پاس جو مال ہو اس نے چھپا کھا ہو اس کے بارے میں اس کے سوا کسی اور کو اس کا علم نہ ہو۔ اس بات کو اس کی تنگدستی تک موقوف نہیں رکھا جاسکتا۔ اس لئے قرض خواہ کے لئے مناسب ہے کہ مقروض کو قید کرلے تاکہ اس کے ذریعے وہ سب کچھ اس سے برآمد کر اسکے جو اس کے پاس ہے کیونکہ اس طریقے سے اکثر احوال میں اگر اس کے پاس کوئی مال ہوگا تو قید سے تنگ آکر اسے ظاہر کرنے پر مجبور ہوجائے گا اس لئے قرض خواہ جب اسے اس مدت یعنی دو یا تین ماہ تک روکے رکھے گا تو اس کی اصل صورت حال سے واقف ہوجائے گا۔ اس کے بعد اس کے متعلق دوسروں سے معلومات حاصل کرے گا کیونکہ ممکن ہے کہ کسی شخص کو پوشیدہ طور پر اس کی فراخی کا علم ہو۔ اس مقام پر اسے اس کی تنگدستی کا ثوت مل جائے تو اسے چھوڑ دے گا۔ قاضی شریح سے یہ مروی ہے کہ وہ سودی قرضے کے سوا باقی ماندہ تمام دیون میں تنگدست کو قید کردیتے تھے۔ ایک تنگدست نے جسے قاضی صاحب نے بند کررکھا تھا ان سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (وان کان ذو عسرۃ فنظرۃ الیٰ میسرۃ) (a) اس پر قاضی صاحب نے اسے جواب دیا کہ یہ بھی فرمان الٰہی ہے (ان اللہ یامرکم ان توئدو الاما نات اھلھا (a) اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مالکوں کے حوالے کردو) ایسا نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کسی چیز کے کرنے کا حکم دے اور پھر اس پر ہمیں سزا بھی دے “ ہم نے آیت زیر بحث کی تفسیر کے دوران قاضی شریح کے مسلک پر روشنی ڈال دی ہے اور یہ کہ قول باری (وان کان ذوعسرۃ فنظرۃ الی میسرۃ) (a) کے حکم کا تعلق صرف سودی قرضوں کے ساتھ ہے۔ دوسرے قرضوں کے ساتھ نہیں بلکہ دوسرے قرضوں میں حبس یعنی بندش کا حکم تنگدست اور فرخ دست دونوں کے لحاظ سے یکساں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قاضی شریح نے یہ مسلک اس بنا پر اختیام کیا ہے کہ کسی شخص کی تنگ دستی کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ ایک شخص ظاہراً تنگ دست نظر آئے لیکن حقیقت میں وہ مال دار ہو اس بنا پر انہوں نے نص قرآنی کی بنا پر سودی قرضے میں راس المال کی واپسی کے لئے مہلت دینے کا مسلک اختیار کیا ہے اور قرض کی باقی صورتوں کو عقد مدانیت (مقرر مدت کے لئے آپس میں قرض پر کئے گئے معاملہ) پر محمول کرتے ہوئے ان کے ساتھ اس عقد کے لوازم مثلاً ادائیگی کا لزوم اور ادائیگی کا مطالبہ وغیرہ کو واجب کردیا۔ ہم نے اس مسلک کے فساد کو دلائل کے ساتھ واضح کریدا ہے کہ آیت میں وارد نقط کے عموم کا تقاضا ہے کہ اس کا حکم ہر قسم کے قرضے کو شامل ہوجائے۔ اس کے باوجود اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ آیت مذکورہ صرف سودی قرضوں کے راس المال کی واپسی سے تعلق رکھتی ہے تو بھی بقیہ تمام دیون کو اس پر قیاس کرکے اس کی طرح ہی قرار دیا جاتا۔ کیونکہ فراخی کی حالت میں سودی قرضے اور بقیہ دوسرے قرضوں کے درمیان مطالبہ کے لزوم اور وجوب ادا کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ان دونوں قسموں میں ادائیگی کی حالت میں بندش کے سقوط کے حکم کے لحاظ سے بھی کوئی فرق نہ ہو۔ رہ گیا یہ قول باری (ان اللہ یامرکم ان تودوا الامانات الیٰ اھلھا) (a) جس سے قاضی شریح نے مقروض کو محبوس کردینے پر استدلال کیا ہے تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ یہ آیت تو ان اعیان (متعین چزوں) کے متعلق ہے جو مالکوں کے سوا دوسروں کے ہاتھوں میں بطور امانت موجود ہوں اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے مالکوں کو واپس کرنے کا حکم دیا۔ جہاں تک قرضوں کا تعلق ہے جو مقروضوں کے ذمہ ہیں تو ان کی ادائیگی کے مطالبے کا تعلق اس اماکن سے ہے کہ وہ انہیں ادا کرسکتے ہیں۔ اس لئے جو شخص تنگدست ہوگا تو اللہ تعالیٰ اسے صرف اس بات کا مکلف بنائے گا جو اس کے مکان اور قدرت میں ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے (لایکلف اللہ نفساً الا ما اٰتاھا سیجعل اللہ بعد عسر یسرا۔ (a) اللہ تعالیٰ کسی صرف اسی چیز کا مکلف بناتا ہے جو اس نے اسے عطا کیا۔ عنقریب اللہ تعالیٰ تنگدستی کے حالات کے بعد فراخی کے حالات پیدا کردے گا) ۔ اور جب ایسا شخص قرض کی ادائیگی کا تنگدستی کی بنا پر مکلف ہی نہیں ہوگا تو یہ بات جائز نہیں ہوگی کہ اسے اس کی وجہ سے قید میں ڈال دیا جائے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قرض بھی امانتوں کی ایک قسم ہے کیونکہ ارشاد باری ہے (فان امن بعضکم بعضا فلیود الذی ائوتمن امانتہ۔ (a) اگر تم میں سے کوئی شخص دوسرے پر بھروسہ کرکے اس کے ساتھ کوئی معاملہ کر تو جس پر بھروسہ کیا گیا ہے اسے چاہیے کہ امانت ادا کردے) اور اس سے وہ دین مراد ہے جس کا ذکر اس ارشاد باری (یآیھا الذین اٰمنوا اذا تداینتم بدین الی اجل مسمی فاکتبوہ (a) اے ایمان والو ! جب کسی مقرر مدت کے لئے تم آپس میں قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر قول باری (ان اللہ یامرکم ان تودو الامانات الی اھلھا) (a) سے مراد دین ہو تو اس میں مذکورہ حکم مقروض کی طرف ادائیگی کے امکان کے شرط کے ساتھ متوجہ ہوگا کیونکہ ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو ایسی چیز کا ہرگز مکلف نہیں بناتا جس پر اسے قدرت نہ ہو اور جس کا کرلینا اس کی طاقت سے باہر ہو۔ اب ظاہری طور پر جب تنگدستی کا حکم اسے لگ گیا تو یہ خود اس بات کی دلیل ہوگئی کہ وہ ادائیگی پر قدرت نہیں رکھتا۔ قاضی شریح اور سلف میں سے کسی اور سے یہ بات مخفی نہیں تھی کہ اللہ تعالیٰ کسی کو ایسی چیز کا مکلف نہیں بناتا جس پر اسے قدرت نہ ہو بلکہ یہ تمام حضرات اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے لیکن میرے نزدیک قاضی شریح کا یہ رویہ ۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔ اس بنا پر تھا کہ انہیں اعسار کے وجوب کا یقین نہیں تھا۔ اور یہ ممکن تھا کہ تنگدستی کے اظہار کے باوجود وہ ادائیگی پر قدرت رکھتا تھا اسی لئے اسے قید کردیتے۔ اہل علم کا اس صورت کے متعلق اختلاف ہے کہ جب حاکم کی عدالت میں ایک شخص کی تنگدستی ثابت ہوجائے جس کی بنا پر حاکم اسے رہا کردے تو آیا حاکم قرض خواہ کو اس کا پیچھا کرنے سے روک سکتا ہے ؟ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ قرض خواہ کو یہ حق حاصل ہے کہ قرض کی واپسی کے لئے مقروض کے پیچھے لگا رہے۔ ابن رستم نے امام محمد سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جس شخص پر دین لازم ہوگیا ہو اسے کھانا کھانے کے لئے اپنے گھر میں جانے سے روکا نہیں جاسکتا اسی لئے حوائج ضروریہ سے بھی نہیں روکا جاسکتا۔ اگر قرض خواہ اس کی غذا اور فراغت کے لئے جگہ کا انتظام کردے تو وہ اسے اپنے گھر جانے سے روک سکتا ہے۔ امام مالک اور امام شافعی اور دوسرے حضرات کا قول ہے کہ قرض خواہ کو اس کا پیچھا کرنے کا حق نہیں ہے بیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر مقروض آزاد ہو تو قرض خواہ اسے مزدوری پر رکھ لے گا اور وہ اپنی مزدوری سے اس کا قرض ادا کرے گا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ زہری کے سوا کسی اور یہ قول ہو کیونکہ یہ قول لیث بن سعد نے زہری سے نقل کیا ہے کہ تنگدست کو اجرت پر رکھا جائے گا حتیٰ کہ وہ اپنا قرض اپنی اجرت سے اداکردے۔ ایک روایت ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ تنگدستی کا ظہور مقروض کے پیچھا کرنے، اس سے ادائیگی کا مطالبہ کرنے اور تقاضا کرنے سے نہیں روکتا۔ یہ حدیث ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے روایت کی۔ انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے ایک بدو سے اونٹ خریدا اور ثمن کی ادائیگی کے لئے مدت مقرر کردی۔ مدت کے اختتام پر بدو آکر رقم کا تقاضا کرنے لگا۔ آپ نے فرمایا کہ تم ہمارے پاس آکر رقم کا تقاضا کررہے ہو اور ادھر ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن اب تم یہاں ٹھہرو کہ ہمارے پاس صدقہ کا مال آجائے۔ “ بدو یہ سن کر کہنے لگا۔ ” واہ ! کیا خوب عذر ہے۔ “ حضرت عمر ؓ کو یہ سن کر غصہ آگیا اور آپ نے اسے درست کرنا چاہا تو حضور ﷺ نے فرمایا (دعوہ فان لصاحب الحق مقالاً ) (a) حق والے کو بولنے کا حق حاصل ہے) اس روایت میں حضور ﷺ نے بدو کو یہ تو بتادیا کہ میرے پاس اب وقت کچھ نہیں ہے لیکن اسے رقم کا تقاضا کرنے سے نہیں روکا اور یہ فرمایا کہ حق والے کو بولنے کا حق ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ قرض کی ادائیگی میں تنگدستی، ادائیگی کا تقاضا کرنے اور اس سلسلے میں اس کا پیچھا کرنے سے مانع نہیں ہے۔ پھر حضور ﷺ کا یہ قول کہ ” ہمارے پاس رہو حتیٰ کہ صدقہ کا مال آجائے “۔ اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے یہ اونٹ صدقہ کی مد میں خریدا تھا۔ اپنی ذات کے لئے نہیں خریدا تھا۔ کیونکہ اگر آپ نے اپنی ذات کے لئے اسے خریدا تھا۔ اپنی ذات کے لئے نہیں خریدا تھا۔ کیونکہ اگر آپ نے اپنی ذات کے لئے اسے خریدا ہوتا تو آپ ہرگز اس کی ادائیگی صدقات کے اونٹوں سے نہ کرتے کیونکہ آپ کے لئے صدقہ کا مال حلال ہی نہیں تھا۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ جو شخص کسی کے لئے کوئی چیز خریدے اس کی قیمت اس پر لازم آئے گی اور سودے کے تمام حقوق کا تعلق بھی اسی کے ساتھ ہوگا۔ اس شخص کے ساتھ نہیں ہوگا جس کے لئے خریداری کی گئی ہے کیونکہ حضور ﷺ نے بدو کو اس سے نہیں روکا کہ وہ آپ سے رقم کا تقاضا کرے اور ادائیگی کا آپ سے مطالبہ کرے۔ یہ حدیث مفہوم کے لحاظ سے حضرت ابو رافع ؓ کی روایت کہ وہ حدیث کے مطابق ہے کہ حضور ﷺ نے ایک جوان اونٹ میں بیع سلف کیا یعنی ادھار لے لیا اور پھر صدقات کے اونٹوں سے اس کی ادائیگی کی کیونکہ سلف یعنی ادھار گویا کہ صدقات کے اونٹوں پر دین ہوگیا تھا۔ ایک اور حدیث میں روایت کی گئی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (الصاحب الحق الیدد اللسان۔ (a) حق والے کو ہاتھ اور زبان دونوں کا حق حاصل ہے) اس کی روایت محمد بن الحسن نے کی ہے اور کہا ہے کہ ہاتھ سے مراد پیچھا کرنا اور زبان سے مراد تقاضا کرنا ہے۔ ہمیں ایک ایسے شخص نے روایت سنائی ہے کہ جس پر میں روایت کے سلسلے میں کوئی تنقید نہیں کرتا، انہیں محمد بن اسحاق نے، انہیں محمد بن یحییٰ نے ، انہیں ابراہیم بن حمزہ نے، انہیں عبدالعزیز بن محمد نے عمرو بن ابی عمرو سے، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ ایک شخص اپنے مقروض کے پیچھے لگ گیا۔ قرض کی مقدار دس دینار تھی، مقروض کہنے لگا : بخدا میرے پاس کچھ نہیں ہے جس سے میں آج قرض کی ادائیگی کرسکوں۔ ” قرض خواہ کہنے لگا : بخدا میں تجھے اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک تو قرض ادا نہیں کردے گا یا کوئی ضامن لادے گا جو تیرے قرض کی ذمہ داری خود اٹھالے۔ “ مقروض کہنے لگا : ” بخدا میرے پاس زادائیگی کے لئے رقم ہے اور نہ ہی میرا ایسا کوئی ہے جو اس کی ذمہ داری لے لے۔ حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ وہ شخص حضور ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ یہ شخص میرے پیچھے پڑگیا ہے۔ میں نے قرض کی ادائیگی کے لئے اس سے ایک ماہ کی مہلت مانگی ہے اس نے مہلت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یا تو میں اس کا قرض ادا کردوں یا کوئی ایسا شخص لائوں جو ادائیگی کی ذمہ داری اٹھالے، میں نے اس سے کہا کہ خدا کی قسم نہ میرے پاس ایسا کوئی آدمی ہے اور نہ ادائیگی کے لئے رقم ہے۔ یہ سن کر آپ نے قرض خواہ سے پوچھا کہ آیا تم اسے ایک ماہ کی مہلت دیتے ؟ اس نے نفی میں جواب دیا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ اس کے قرض کی ادائیگی کی ذمہ داری میں لیتا ہوں، چناچہ آپ نے یہ ذمہ داری اٹھاتے ہوئے اس کے قرض کا بوجھ اپنے سر لے لیا۔ وہ شخص چلا گیا اور پھر اتنا سونا لے کر آیا جس کا اس نے وعدہ کیا تھا۔ آپ ﷺ نے اس سے پوچھا کہ یہ سونا تمہیں کہاں سے ملا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ کان سے ملا ہے یہ سن کر آپ ﷺ نے اس سے یہ سونا واپس لے جانے کے لئے کہا اور فرمایا کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔ اس ک بعد آپ ﷺ نے اس کی طرف سے قرض ادا کردیا۔ اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ آپ ﷺ نے قرض خواہ کو مقروض کے پیچھے لگے رہنے سے نہیں روکا۔ باوجود یکہ اس نے حلفاً یہ کہا تھا کہ اس کے پاس قرض ادا کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ مجھے ایسے شخص نے روایت بیان کی جس کی روایت حدیث پر میں کوئی تنقید نہیں کرتا۔ انہیں عبداللہ علی بن المجارود نے، انہیں ابراہیم بن ابی بکر بن ابی شیبہ نے، انہیں ابن ابی عبیدہ نے، انہیں ان کے والد نے اعمش سے، انہوں نے ابو صالح سے، انہوں نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے کہ ایک بدو حضور ﷺ کی خدمت میں آیا اور آکر ان کھجوروں کا تقاضا کرنے لگا جو حضور ﷺ کے ذمے تھیں۔ بدو نے تقاضا کنے میں بڑی سختی کی حتیٰ کہ اس کی زبان سے یہ کلمات نکلے کہ اگر آپ نے کھجور مجھے ادا نہ کئے تو میں آپ کا جینا حرام کردوں گا۔ یہ سن کر صحابہ کرام ؓ نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ” تمہیں پتہ بھی ہے کہ تم کس ذات سے ہم کلام ہو “ ؟ بدو نے جواب میں کہا کہ ” میں اپنے حق کا مطالبہ کررہا ہوں۔ “ اس پر حضور ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ تم لوگوں نے حق دار کا ساتھ کیوں نہ دیا ؟ پھر آپ نے حضرت خولہ بنت قیس کو پیغام بھیجا کہ اگر تمہارے پاس کھجوریں ہوں تو ہمیں بطور قرض دے دو جب ہمارے پاس کھجوریں آئیں گی تو ہم قرض ادا کردیں گے۔ حضرت خولہ ؓ نے جواباً عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان، میرے پاس کھجوریں ہیں۔ چنانچہ انہوں نے حضور ﷺ کو کھجوریں قرض دیں جنہیں لے کر آپ نے بدو کو ادائیگی کردی۔ پھر اسے کھانا کھلایا، بدو نے جاتے ہوئے دعا دی کہ آپ نے ہمیں پوری ادائیگی کردی ہے اللہ تعالیٰ آپ کو بھی پورا پورا دے۔ یہ سن کر حضور ﷺ نے فرمایا : ” یہی بہترین لوگ ہیں وہ امت کبھی پاکباز نہیں ہوسکتی جس سے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کمزور کو اس کا حق نہ دلایاجاتا ہو۔ “ اس روایت سے یہ باتیں معلوم ہوئیں کہ حضور ﷺ کے پاس قرض ادا کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا اس کے باوجود آپ نے بدو کے مطالبہ اور قرض کی ادائیگی کے تقاضے کو برا محسوس نہیں کیا بلکہ آپ ؐ نے صحابہ کرام کی طرف سے اس بدو کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے کو برا سمجھا اور فرمایا کہ تم لوگوں نے حق دار کا ساتھ کیوں نہیں دیا۔ اس چیز سے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ مقروض کو صرف تنگدستی کی بنا پر مہلت نہ دی جائے اگر قرض خواہ اسے مہلت نہ دینا چاہیے۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی، انہیں احمد بن العباس المودب نے، انہیں عفان بن مسلم نے، انہیں عبدالوارث نے محمد بن حجادہ سے، انہوں نے ابن بریرہ سے، انہوں نے اپنے والد سے کہ میں نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ (من انظر معسرافلہ صدقۃ ومن انظر معسرا فلہ بکل یوم صدقۃ (a) جس شخص نے کسی تنگ دست کو مہت دی اس کے لئے ایک صدقہ کا ثواب ہے اور جس شخص نے تنگدست کو مہلت دی اسے ہر روز کے بدلے ایک صدقہ کا ثواب ملے گا) ۔ میں نے عرض کیا : ” اللہ کے رسول ! پہلے میں نے تو آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے کسی تنگدست کو مہلت دی اسے ایک صدقہ کا ثواب ملے گا پھر آپ نے فرمایا کہ اسے ہر روز کے بدلے ایک صدقے کا ثواب ملے گا تو آپ نے فرمایا (من انظر معسرا قبل ان یحل الدین فلہ صدقۃ ومن انظر اذا حل الدین خطہ بکل یوم صدقۃ۔ (a) جس شخص نے تنگ دست کو قرض کی ادائیگی کا وقت آنے سے پہلے مہلت دے دی اسے ایک صدقہ کا ثواب ملے گا اور جو شخص قرض کی ادائیگی کا وقت آجانے پر مہلت دے گا اسے ہر دن کے بدلے ایک صدقے کا ثواب ملے گا) ہمیں عبدالباقی نے روایت سنائی، انہیں محمد بن علی بن عبدالملک بن السراج نے، انہیں ابراہیم بن عبداللہ الہروی نے، انہیں عیسیٰ بن یونس نے ، انہیں سعید بن حجۃ الاسدی نے، انہیں عبادہ بن الولید بن عبادۃ الصامت نے کہ انہوں نے ابو الیسر کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ حضور ﷺ نے فرمایا (من انظر معسوا او وضع لہ اظلہ اللہ یوم لاظل الاظلہ۔ (a) جس شخص نے تنگ دست کو مہلت دی یا قرض کا کچھ حص معاف کردیا تو اللہ تعالیٰ اس دن اپنا سایہ عطا کرے گا جس دن اس کے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہیں ہوگا) پہلی حدیث میں حضور ﷺ کا یہ ارشاد کہ جس شخص نے تنگ دست کو مہلت دی اسے ہر دن کے بدلے ایک صدقے کا ثواب ملے گا۔ “ اس بات کو واجب کرتا ہے کہ صرف تنگدستی کی بنا پر جب تک قرض خواہ مہلت نہ دے کسی مقروض کو مہلت نہیں دی جاسکتی۔ اس لئے کہ قرض خواہ کی طرف سے مہلت دیے جانے کے بغیر اسے مہلت دینا اگر درست ہوتا تو آپ کا یہ قول ہرگز درست نہ ہوتا۔ کیونکہ ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ ایک شخص ایک کام کئے بغیر اس کے ثواب کا مستحق ہوجائے۔ اب جو شخص قرض خواہ کی طرف سے مہلت دیئے جانے کے بغیر مہلت یافتہ ہوگیا تو اس صورت میں یہ محال ہے کہ قرض خواہ مہلت دینے کی وجہ سے ثواب کا مستحق ٹھہرے۔ ابو الیسر کی حدیث بھی اس پر دو طرح سے دلالت کرتی ہے اول یہ کہ قرض خواہ مہلت دے کر ثواب کا مستحق ہوگا۔ دوم یہ کہ آپ نے مہلت کو قرض میں کمی کی بمنزلہ قرار دیا اور یہ تو معلوم ہے کہ قرض میں کمی کا عمل صرف قرض خواہ ہی کرسکتا ہے۔ اسی طرح مہلت دینے کا عمل بھی وہی کرے گا۔ یہ سب کچھ اس پر دال ہے کہ قول باری (فنظرۃ الیٰ میسرۃ) (a) دو میں سے ایک مفہوم پر مشتمل ہے یا تو مہلت دینے کا مطلب اسے قید سے چھوڑ دینا ہے اور اس کی سزا ختم کردینا ہے اس لئے کہ وہ سزا کا مستحق نہیں تھا۔ کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ (مطل الغنی ظلم۔ (a) مالدار کا ٹال مٹول ظلم ہے) ۔ اب جبکہ اس کی تنگدستی ثابت ہوگئی تو وہ ظالم نہیں رہا اور ادائیگی نہ کرکے اس نے کوئی ظلم نہیں کیا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسے قید سے چھوڑ دینے کا حکم دے دیا لیکن اس سے یہ ضروری نہیں ٹھہرتا کہ اس کا پیچھا کرنا بھی ترک کردیا جائے۔ یا اس سے مراد مہلت دینے کی ترغیب اور ہدایت ہے وہ اس طروح کہ اس کا پیچھا چھوڑ دیا جائے اور اس سے ادائیگی کا تقاضا اور مطالبہ نہ کیا جائے۔ اس صورت میں وہ قرض خواہ کی طرف سے دی جانے والی مہلت کے ذریعے ہی مہلت یافتہ بنے گا کیونکہ جو روایات ہم نے گزشتہ سطور میں بیان کی ہیں وہ اس پر دلالت کرتی ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ لزوم یعنی پیچھے لگے رہنا حبس یعنی قید کے بمنزلہ ہے۔ ان دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ ان دونوں صورتوں میں مقروض کو تصرف سے روک دیا جاتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ بات ایسی نہیں ہے کیونکہ لزوم کی بنا پر مقروض کو تصرف سے روکا نہیں جاتا۔ بلکہ لزوم کا معنی تو یہ ہے کہ قرض خواہ کی طرف سے مقروض کے ساتھ ایک ایسا آدمی ہمہ وقت موجود رہے گا جو اس کی کمائی اور حاصل شدہ چیزوں کی نگرانی کرتے ہوئے اس کے پاس خوراک کی مقدار رقم رہنے دے گا اور باقی رقم قرض کی ادائیگی کے سلسلے میں اس سے لے لے گا۔ اس صورت میں نہ اس پر کوئی ایجاب حبس ہے اور نہ ہی ایجاب عقوبت۔ مروان بن معاویہ نے یہ روایت کی، انہیں ابو مالک الاشجعی نے دبعی بن حراش سے، انہوں نے حضرت حذیفہ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (ان اللہ یقول لعبد من عبادہ ماعملت قال ما عملت لک کثیر عمل ارجوک بہ من صلوٰۃ ولاصوم غیر انک کنت اعطیتنی فضلاً من مال فکنت اخالط الناس فایسر علی الموسر وانظر المعسر، فقال اللہ عزوجل نحن احق بذلک منک۔ تجاوزوا عن عبدی فغزلہ۔ (a) اللہ تعالیٰ اپنے ایک بندے سے ان کے اعمال کے متعلق پوچھے گا۔ بندہ جواب میں کہے گا کہ میں نے نماز روزے کا بہت زیادہ عمل نہیں کیا کہ میں ان کی وجہ سے تیری ذات سے بڑے ثواب کی امید رکھوں البتہ تو نے مجھے زائد مال عطا کیا تھا اس میں میں لوگوں کو شریک کرتا۔ میں فراخت دست کے لئے آسانی پیدا کرتا اور تنگدست کو مہلت دیتا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس طریق کار کو اپنانے کے لئے ہم تجھ سے بڑھ کر حق رکھتے ہیں۔ میرے بندے کے گناہوں کو نظر انداز کردو، چناچہ اسے معاف کردیا جائے گا) ۔ حضرت ابن مسعود ؓ کا قول ہے کہ ہم نے بھی اسی طرح یہ حدیث حضور ﷺ سے سنی تھی۔ یہ حدیث بھی گزشتہ احادیث کی طرح اس پر دلالت کرتی ہے کہ مہلت صرف تنگدستی کی بنا پر نہیں دی جاتی کیونکہ اس صورت میں دو باتوں کو جمع کرنا لازم آئے گا یعنی فراخ دست کے لئے آسانی مہیا کرنا اور تنگدست کو مہلت دینا اور یہ دونوں باتیں برائے ترغیب ہیں واجب نہیں ہیں۔ جن حضرات کا یہ قول ہے کہ جب مقروض تنگدست ہو تو قرض خواہ اس کا پیچھا نہیں کرے گا اور صرف تنگدستی کے ساتھ ہی اسے مہلت دے دی جائے گی۔ ان کا استقبال اس حدیث سے ہے جو لیث بن سعد نے بکیر سے، انہوں نے عیاض بن عبداللہ سے اور انہوں نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ کے زمانے میں ایک شخص کو پھلوں کی تجارت میں بڑا خسارہ ہوا اور اس پر قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا۔ حضور ﷺ نے قرض خواہوں سے فرمایا کہ اس صدقہ کرو۔ لوگوں نے صدقہ کیا لیکن صدقات کی صورت میں جمع ہونے والا مال اس کے قرضوں کی ادائیگی کے لئے پورا نہ ہوسکا۔ اس پر حضور ﷺ نے قرض خواہوں سے فرمایا کہ اس کے پاس سے جتنا مال ملتا ہے وہ لے لو، اب اس کے سوا تمہارے لئے اور کچھ نہیں۔ ان حضرات نے یہ استدلال کیا ہے کہ حضور ﷺ کا یہ فرمانا کہ ” تمہارے لئے اس کے سوا اور کچھ نہیں “۔ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ مقروض کا پیچھا نہ کیا جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس سے قرض کی رقموں کا سقوط مراد نہیں ہے۔ اس لئے کہ یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ مقروض کے پاس جب کبھی بھی مال آئے گا تو قرض خواہ خوراک سے زائد مال کے سب سے زیادہ حق دار ہوں گے۔ جب یہ چیز مقروض پر قرض خواہوں کے حق کے بقا کی نفی نہیں کرتی تو اس سے مقروض کے پیچھا کرنے کی بھی نفی نہیں ہوتی تاکہ قرض خواہ اس کا پیچھا کرکے اس سے اپنی رقمیں وصول کرلیں۔ وہ اس طروح کہ اس کی کمائی میں اس کی خوراک کی مقدار اس کے پاس رہنے دیں گے اور باقی ماندہ رقمیں قرض میں لے لیں گے۔ کیونکہ لزوم کا یہی معنی ہے کیونکہ ہمارا اس کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ مقروض مستقبل میں جو کسب کرے گا اس پر قرض خواہوں کا حق ہوگا۔ یہی بات اس کا تقاضا کرتی ہے کہ لزوم یعنی پیچھے لگے رہنے کا حق بھی ثابت ہوجائے حضور ﷺ کا بیان کردہ قول اس چیز کی نفی نہیں کرتا جس طرح کہ مستقبل میں مقروض کے حاصل کردہ اموات پر قرض خواہوں کے حقوق کی نفی نہیں ہوتی۔ گزشتہ سطور میں بیان کردہ روایات میں حضور ﷺ کا یہ فرمانا کہ تنگدست کو مہلت دی جائے نیز قرض خواہ کو اسے مہلت دینے کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔ یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ان قرضوں میں تاجیل یعنی مدت مقرر کرنا جائز ہے۔ جن کی ادائیگی غصب اور بیع کی مختلف صورتوں کی وجہ سے فی الحال واجب ہوچکی ہو۔ امام شافعی کا خیال ہے کہ اگر قرض اصل کے اعتبار سے فی الحال ہے تو اس کے لئے مدت مقرر کرنا جائز نہیں ہے۔ امام شافعی کا یہ قول ان روایات کے خلاف ہے جن کا ہم نے سابقہ سطور میں ذکر کیا ہے کیونکہ ان کا تقاضا ہے کہ تاجیل جائز ہے۔ ان میں ایک روایت حضرت ابن بریدہ کی ہے جو اس مقروض کے متعلق ہے جسے قرض کی ادائیگی کا وقت آنے سے پہلے مہلت دے دی گئی ہو یا وقت آنے کے بعد مہلت دی گئی ہو۔ اس کی سند بھی بیان ہوچکی ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے یہ روایت بیان کی، انہیں ابو دائود نے، انہیں سعید بن منصور نے، انہیں ابو الاحوص نے سعید بن مسروق سے، انہوں نے شعبی سے، انہوں نے سمعان سے، انہوں نے حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے کہ ہمیں ایک دفعہ حضور ﷺ نے خطبہ کے دوران پوچھا کہ فلاں قبیلہ کا فلاں شخص یہاں ہے ؟ کسی نے جواب نہیں دیا۔ آپ نے پھر یہی الفاظ دہرائے پھر کسی نے جواب نہیں دیا۔ تیسری مرتبہ آپ کی آواز پر ایک شخص کھڑا ہوگیا اور عرض کیا کہ وہ میں ہوں۔ آپ ﷺ نے اس سے پوچھا کہ دو دفعہ جب میں نے پکارا تو تم نے جواب کیوں نہیں دیا۔ پھر سب سے مخاطب ہوکر فرمایا : ” میں تو تم لوگوں کے متعلق بھلائی کی باتوں کا چرچا کرتا ہوں۔ دراصل تمہارا یہ بھائی جس کا نام لے کر میں نے پکارا تھا قرض میں گرفتار تھا۔ میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اس کا قرض ادا ہوگیا ہے اور اب کوئی شخص اس سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرتا۔ مقروض ہونا قابل تحسین نہیں بلکہ جرم عظیم ہے ہمیں محمد بن بکر نے یہ روایت بیان کیا، انہیں ابودائود نے، انہیں سلیمان بن دائود المہری النہدی نے، انہیں وہب نے ، انہیں سعید بن ابی ایوب نے کہ انہوں نے عبداللہ القرشی سے سنا، انہوں نے ابو بردہ بن ابوموسی الاشعری ؓ سے سنا جنہوں نے اپنے والد حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت کی اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی آپ نے فرمایا (ان اعظم الذنوب عنداللہ ان یلقاہ عبد بعد الکبائر التی نھاہ اللہ عنھا ان یموت رجل وعلیہ دین لا یدع لہ قضاء، (a) کبیرہ گناہوں کے بعد جن سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں روکا ہے اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد بندہ اللہ کے سامنے اس حالت میں حاضر ہو کہ وہ اپنے پیچھے قرض چھوڑ گیا ہو لیکن اس کی ادائیگی کا کوئی وسیلہ نہ چھوڑا ہو) ان دونوں احادیث میں اس بات پر دلالت موجود ہے۔ مطالبہ اور لزوم تنگدست نہیں ہوتے جس طرح کہ موت کی بنا پر مطالبہ ساقط نہیں ہوتا خواہ وہ کوئی رقم چھوڑ کر نہ مرا ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ مقروض جب مفلسی کی حالت میں مرے گا تو اس نے یا تو قرض کی ادائیگی میں کوتاہی کی ہوگی یا کوتاہی نہیں کی ہوگی۔ اگر پہلی صورت ہوگی تو اس سے مطالبہ کا حق اللہ تعالیٰ کو ہے جس طرح ان گنا ہودں کے متعلق پوچھ گچھ کا حق اللہ کو ہے جن سے اس نے توبہ نہیں کی ہوگی۔ اور اگر اس کی طرف سے کوتاہی نہیں ہوئی ہوگی تو اللہ تعالیٰ اس پر اس کا مواخذہ نہیں کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی پر صرف اس کے گناہوں کی وجہ سے مواخذہ کرتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات اس مقروض کے متعلق ہے جس نے قرض کی ادائیگی میں کوتاہی کی ہو اور اپنی کوتاہی پر توبہ کے بغیر مفلسی کی حالت میں مرگیا ہو اس اس کا مواخذہ ہوگا۔ یہ حکم اس شخص کا ہے جو کسی انسان کا مقروض اور تنگدست ہو۔ یہ اس لئے کہ ہمارے لئے ایسے آدمی کے توبہ کے متعلق معلومات کا کوئی ذریعہ نہیں اس لئے ضروری ہے کہ دنیا میں اسی سے ادائیگی کا مطالبہ جاری رکھا جائے جس طرح کہ ایسا آدمی اللہ کے ہاں بھی گرفت میں آجائے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ درج بالا تشریح کی بنا پر یہ ہونا چاہیے کہ آپ اس شخص کے درمیان جس نے قضائے دین میں کوتاہی کی ہو اور اپنی کوتاہی پر ڈٹا ہوا ہو اور اس شخص کے درمیان فرق کریں جس نے اصلاً کوتاہی نہ کی ہو یا کوتاہی کی ہو لیکن اپنی کوتاہی سے توبہ کرچکا ہو اور آپ اس کے لئے اس حکم کا لزوم واجب کردیتے جو کوتاہی کرنے والے توبہ نہ کرنے والے کا ہے اور یہ حکم آپ اس صورت میں لازم نہ کرتے جب کہ ایک شخص نے کوتاہی نہ کی ہو یا کوتاہی کی ہو اور پھر اپنی کوتاہی سے توبہ کرچکا ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا اگر ہمیدں اس شخص کی توبہ کی حقیقت سے واقفیت ہوجاتی جو اس نے اپنی کوتاہی کی بنا پر کی ہے یا ہمیں یہ علم ہوجاتا کہ اس نے قضا دین میں کوتاہی نہیں کی ہے تو پھر ہم اس کے حکم اور کوتاہی ظاہر ہوجانے والے کے حکم میں پیچھا کرنے کے لحاظ سے فرق کرتے جس طرح کہ عنداللہ ان دونوں کے حکموں میں فرق ہے۔ لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ حقیقت میں اس نے کوتاہی نہیں کی ہے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اس نے مال چھپا رکھا ہو اور تنگدستی ظاہر کردی ہو اسی طرح اس شخص کا معاملہ ہے جو اپنی کوتاہی سے توبہ کا اظہار کررہا ہو اور اس کی تنگ دستی بھی ظاہر ہوچکی ہو۔ اس کے متعلق بھی یہ ممکن ہے کہ اس کے ہاں قرض ادا کرنے کے لئے فراخی موجود ہو اور جس تنگدستی کا اس نے اظہار کیا ہے وہ حقیقت نہ ہو۔ اس صورت حال کے پیش نظر اس سے ادائے دین کے مطالبے اور اس سلسلے میں اس کے پیچھے لگے رہنے کا حکم اس پر قائم رہے گا جس طرح کہ اس کی موت کے بعد اللہ کی خاطر اس پر مطالبہ کا حکم ثابت رہے گا۔ حضرت ابو قتادہ ؓ کی روایت کردہ حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔ اس کی روایت ہمیں محمد بن بکر نے کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں محمد بن المتوکل العسقلانی نے، انہیں عبدالرزاق نے ، انہیں معمر نے زہری سے، انہوں نے اب سلمہ سے اور انہوں ن ے حضرت جابر ؓ سے حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ اس شخص کا جنازہ نہیں پڑھاتے تھے جو اپنے پیچھے قرض چھوڑ کر فوت ہوگیا ہو۔ آپ کے پاس ایک جنازہ لایا گیا آپ نے دریافت کیا کہ اس کے ذمہ کوئی قرض تو نہیں ؟ جواب میں عرض کیا گیا کہ اس پر دو دینار قرض ہیں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ تم لوگ اس کا جنازہ پڑھ لو، یہ سن کر حضرت ابو قتادہ ؓ نے عرض کیا کہ یہ دو دینار میرے ذمہ ہیں۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے اس کا جنازہ پڑھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو فراخی عطا کی تو آپ ﷺ نے اعلان کردیا (انا اولیٰ بکل مؤمن من نفسہ فمن ترک دینا فعلی قضاء ہ ومن ترک مالا فلورثتہ۔ (a) میں ہر مومن کا اس کی ذات سے بڑھ کر سرپرست اور قریبی ہوں۔ اس لئے جو شخص قرض چھوڑ کر وفات پاجائے گا اس کی ادائیگی میرے ذمہ ہوگی۔ اور جو شخص مال چھوڑ کر وفات پاجائے گا اس کا مال اس کے ورثاء کو ملے گا۔ اگر مفلسی کی حالت میں وفات کے بعد اس مرحوم پر مطالبہ دین قائم نہ رہتا تو آپ اس کا جنازہ پڑھنے سے انکار نہ کرتے کیونکہ جنازہ پڑھ لینے کی صورت میں اس کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوجاتی جس پر کوئی قرض نہیں ہوتا۔ اس واقعہ میں یہ دلیل موجود ہے کہ تنگدستی اس سے مطالبہ اور لزوم کا حکم ساقط نہیں کرتی۔ اسماعیل بن ابراہیم بن المہاجر نے عبدالملک بن عمیر سے روایت کی ہے کہ حضرت علی ؓ کے پاس کوئی شخص اپنے مقروض کو لے کر آتا تو آپ اس سے کہتے کہ اس شخص کے پاس مال کی موجودگی کا ثبوت پیش کرو تاکہ میں اسے قید میں ڈال دوں، اگر وہ شخص اس کے جواب میں کہتا کہ ثبوت تو پیش نہیں کرسکتا بلکہ میں اس کا پیچھا کرسکتا ہوں۔ اس پر حضرت علی ؓ فرماتے کہ آزاد مقروض کو قرض خواہ مزدوری پر رکھ لے اور اس کی مزدوری سے اپنا قرض وصول کرتا رہے تو یہ آیت اور حضور ﷺ سے مروی احادیث کے خلاف ہے۔ آیت کے اس لئے خلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (وان کان ذو عسرۃ فنظرۃ الیٰ میسرۃ) (a) اس آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ اسے قرض کے بدلے مزدوری پر رکھ لے۔ اسی طرح حضور ﷺ سے منقول تمام روایات میں اجارہ یعنی مزدوری پر رکھنے کی کوئی بات نہیں ہے بلکہ ان میں اس کا پیچھا کرنے یا اسے چھوڑ دینے کی بات ہے۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ کی روایت کردہ حدیث کے الفاظ تو یہ ہیں کہ (لیس لکم الاذلک (a) تمہارے لئے اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے) جب قرض خواہ مقروض کے پاس اس کے سوا اور کچھ نہ پائیں جو انہوں نے اس سے لے لیا ہو۔ قول باری ہے (وان تصدقوا خیرلکم ان کنتم تعلمون (a) اور صدقہ کردینا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں علم ہو) یعنی ۔۔۔ واللہ اعلم۔۔۔ تنگدست کے ذمہ واجب قرض کا صدقہ کردینا اسے اس کی ادائیگی کے لئے مہلت دینے سے بہتر ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ صدقہ میں کوئی رقم کسی کو دے دینا اسے اس رقم کو بطور قرض دینے سے بہتر ہے۔ اس لئے کہ قرض میں مال کا دے دینا ہوتا ہے اور اسے واپس لینے میں تاخیر کردی جاتی ہے۔ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (قرض مرتین کصدقۃ مرۃ (a) دو دفعہ قرض دینا ایک دفعہ صدقہ کرنے کے برابر ہے) ۔ عقلمہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (السلف یجری مجری شطر الصدقۃ (a) قرض آدھے صدقہ کے قائم مقام ہوتا ہے) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے یہ بات ان کے اپنے قول کے طور پر منقول ہے حضرت ابن عباس ؓ سے بھی اسی طرح کا قول منقول ہے۔ ابراہیم نخعی اور قتادہ سے قول باری (وان تصدقوا خیر لکم) (a) کے متعلق منقول ہے کہ ” تم راس المال یعنی اصل قرضہ صدقہ کردو۔ “ جب اللہ تعالیٰ نے قرض سے مقروض کو فارغ کردینے کا نام صدقہ رکھا ہے تو اس کے ظاہر کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی مد زکوٰۃ سے اپنے مقروض کو قرض سے بری کردینا جائز ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کو بھی صدقہ کا نام دیا ہے۔ اور یہ صدقہ تنگدست پر کیا جارہا ہے۔ اس لئے اگر ہم صرف اس قول کے ظاہر کو لے لیں اور کسی اور چیز کا اعتبار نہ کریں تو یہ ضروری ہوگا کہ بری کردینے کا یہ جواز اس کے ان تمام قسم کے مال میں ہو جن میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے چاہے یہ مال عین یعنی نقد کی صورت میں ہو یا دین کی صورت میں یا کسی اور صورت میں۔ تاہم ہمارے اصحاب کا قول یہ ہے کہ مقروض کو قرض سے بری کرنے والے یعنی قرض خواہ کی نہ کسی اور کی، زکوٰۃ کا اس حکم سے سقوط صرف اس بنا پر ہوا ہے کہ دین ایک حق ہوتا ہے عین نہیں ہوتا اور حقوق زکوٰۃ کے قائم مقام نہیں ہوتے۔ مثلاً گھر میں سکونت کا حق، غلام کی خدمت کا حق وغیرہ۔ یہ زکوٰۃ کے قائم مقام نہیں ہوسکتے۔ مقروض کو اس کے قرض سے بری کرنے کا نام صدقہ رکھا گیا ہے اس سے یہ واجب نہیں ہوتا کہ تمام احوال میں زکوٰۃ کی مد سے بھی اس کا جواز ہوجائے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے قصاص سے برأت کا نام صدقہ رکھا ہے چناچہ ارشاد باری ہے (وکتبنا علیھم فیھا ان النفس بالنفس (a) ۔۔۔ ہم نے تورات میں ان پر یہ فرض کردیا کہ جان کے بدلے جان ہے۔۔۔ ) تاقول باری فمن صدق فھو کفارۃ لہ، (a) پھر جو قصاص کا صدقہ کردے تو وہ اس کے لئے کفارہ ہے) ۔ یہاں اس سے مراد قصاص معاف کردینا ہے، ہمیں اس مسئلے میں اہل علم کے درمیان کسی اختلاف کا علم نہیں ہے کہ قصاص معاف کردینا کفارہ کے لئے کافی نہیں ہوتا یعنی اس کے قائم مقام نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے برادران یوسف (علیہ السلام) کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا (وجعنا بیضاعۃ مزجاۃ فاوف لنا الکیل وتصدق علینا (a) اور ہم کچھ حقیر سی پونجی لے کر آئے ہیں آپ ہمیں بھرپور غلہ عنایت فرمائیں اور ہم کو خیرات کردیں) ۔ بردران یوسف (علیہ السلام) نے ان سے یہ سوال نہیں کیا تھا کہ وہ انہیں اپنا مال بطور صدقہ دے دیں بلکہ انہوں نے یہ سوال کیا تھا کہ ان کے ہاتھوں غلہ فروخت کردیا جائے اور غلے کی فروخت کی ممانعت نہ کی جائے کیونکہ شروع میں ان کے ہاتھوں غلے کی فروخت روک دی گئی تھی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ انہوں نے یہ کہا تھا کہ ” ہمیں بھرپور غلہ دو “۔ یہ وہ غلہ تھا جو انہوں نے نے اپنی پونجی کے بدلے خریدا تھا۔ اس پر لفظ صدقہ کا اطلاق یہ واجب نہیں کرتا کہ زکوٰۃ کی مد سے اس کا جواز ہوجائے اسی طرح دین پر لفظ صدقہ کا اطلاق زکوٰۃ کی مد سے اس کی ادائیگی کے جواز کی علت نہیں بنے گا۔ واللہ اعلم بالصواب !
Top