Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 3
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ
الَّذِينَ : جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان لاتے ہیں بِالْغَيْبِ : غیب پر وَيُقِيمُونَ : اور قائم کرتے ہیں الصَّلَاةَ : نماز وَمِن : اور سے مَّا : جو رَزَقْنَاهُمْ : ہم نے انہیں دیا يُنْفِقُونَ : وہ خرچ کرتے ہیں
جو غیب پر ایمان لاتے اور آداب کے ساتھ نماز پڑھتے، اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں
اقامت صلوۃ اور انفاق فی سبیل اللہ قول باری ہے : (الذین یومنون بالغیب و یقیمون الصلوۃ و مما رزقنھم ینفقون) لوگ جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے انہیں جو رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں) یہ قول باری نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کے امر اور حکم کو متضمن ہے کیونکہ اللہ سبحانہ نے یہ دونوں باتیں متقین کی صفات اور تقویٰ کی شرائط قرار دی ہیں، سج طرح ایمان بالغیب کو تقویٰ کی شرط قرار دیا گیا ہے، ایمان بالغیب سے مراد اللہ اور بعث و نشور پر نیز ان تمام باتوں پر ایمان لانا ہے جن کا اعتقاد ہم پر بطریق استدلال لازم ہوگیا ہے۔ تقویٰ کی شرائط قرار پانا آیت میں مذکورہ صلوۃ و زکوۃ کے ایجاب کا مقتضی بن گیا ہے۔ اقامت صلوۃ کے کئی معانی بیان ہوئے ہیں۔ ایک معنی اتمام صلوۃ ہے اور یہ معنی ” تفویم الشئی و تعقیقہ ایک چیز کو درست کرنا اور اسے حقیقت کا رنگ دینا۔ “ سے ماخوذ ہے۔ اور اسی معنی میں یہ قول باری ہے : واقیموا الوزن بالقسط اور زوزن کو ٹھیک رکھو انصاف کے ساتھ ایک معنی نماز کو اس کے تمام ارکان مثلاً قیام و رکوع و غیر ہما کے ساتھ اذکرنا ہیں۔ قیام کے لفظ سے ان تمام ارکان کی تعبیر کی گئی ہے، کیونکہ قیام نماز کے فرائض میں شامل ہے ، اگرچہ نماز اس کے سوا دیگر فرائض و ارکان پر مشتمل ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے : فاقروا ما تیسر من القرآن (قرآ ن میں سے جو کچھ آسانی سے پڑھا جاسکے اس کی قرأت کرو) یہاں نماز مراد ہے جس کے اندر قرأت کی جاتی ہے۔ اسی طرح قول باری ہے : وقرآن الفجر ( اور قرآن فجر) اس سے مراد فجر کی نماز میں قرأت ہے۔ اسی طرح قول باری : واذا قیل لھم ارکعوا الایرکعون (اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رکوع کرو تو رکوع نہیں کرتے) نیز وارکعوا و اسجدوا (رکوع اور سجدہ کرو) نیز : وارکعوا مع الراکعین (رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نماز کے ارکان یعنی اس کے فرائض میں سے ایک رکن اور فرض کا ذکر کر کے اس امرپر دلالت قائم کردی کہ مذکورہ رکن نماز کے اندر فرض ہے۔ اس کے ساتھ اس عمل کے ایجاب پر بھی دلالت قائم کردی جس کا شمار نماز کے فرائض ہوتا ہے اس طرح قول باری : ویقتیمون الصلوۃ نماز میں قیام کا موجب اور نماز کے ایک فرض کی خبر دینے والا بن گیا۔ قول باری : یقیمون الصلوۃ میں اس معنی کا بھی احتمال ہے کہ متقین نماز کے فرائض پر نماز کے اوقات میں دوام کرتے ہیں، یعنی وہ ہمیشہ اوقات صلوۃ میں نماز کو اس کے فرائض و ارکان کے ساتھ ادا کرتے رہتے ہیں۔ جس طرح یہ قول باری ہے : ان الصلوۃ کانت علی المومنین کتاباً موقوتاً (بےشک) اہل ایمان پ نماز اس کے معلوم و متعین اوقات میں فرض ہے) یعنی نماز اپنے معلوم اوقات میں فرض ہے۔ اسی طرح ارشاد باری ہے : قائماً بالقسط یعنی وہ انصاف کی ترازو کو قائم رکھتا ہے اور انصاف سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کرتا۔ عرب کے لوگ ایسی چیز کو قائم کا نام دیتے ہیں جو تسلسل کے ساتھ ٹھہری ہوئی ہو اور اس کے فاعل کو مقیم کہتے ہیں۔ محاورہ ہے : فلان یقیم ارزاق الجند (فلاں شخص فوج کی خوراک و تنخواہ کا مقیم یعنی منتظم ہے) ایک قول کے مطابق زیر بحث آیت کا مفہوم اس محاورہ سے ماخوذ ہے : قامت السوق (بازار کھل گیا) یہ فقرہ اس وقت کہا جاتا ہے جب بازار کے لوگ بازار پہنچ جائیں۔ اس صورت میں آیت کے معنی ہوں گے کہ دوسرے تمام کام کاج چھوڑ کر نماز میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ اسی مفہوم میں : قد قامت الصلوۃ (نماز کھڑی ہوگئی) کا فقرہ بھی ہے۔ سطور بالا میں اقامت صلوۃ کے جو مختلف معانی بیان کئے گئے ہیں ان کے متعلق یہ کہنا جائز ہے کہ وہ سب کے سب آیت کی مراد بن سکتے ہیں۔ قول باری : ومما رزقنھم ینفقون خطاب کے اندر اور اس کے سیاق و سباق ہیں اس بات پر دلالت موجود ہے کہ انفاق سے مراد فرض شدہ انفاق ہے۔ یہ وہ مالی حقوق ہیں جو اللہ کے لئے واجب ہیں، یعنی زکوۃ وغیرہ کیونکہ قول باری ہے : وانفقوا مما رزقنکم من قبل ان یاتی احدکم الموت اور ہم نے تمہیں جو رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرو، قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے) نیز : والذین یکنرون الذھب والفضۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ (اور جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے رہتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے) اس بات کی دلیل کہ انفاق سے مراد فرض شدہ انفاق ہے ، یہ ہے کہ اللہ سبحانہ، نے اس کا ذکر فرض نماز اور اللہ اور اس کی کتاب پر ایمان کے ذکر کے ساتھ مقرون کردیا ہے اور اس انفاق کو تقویٰ کی شرائط اور اس کے اوصاف میں شمار کیا ہے۔ زیر بحث آیت میں مذکورہ صلوۃ اور انفاق سے فرض نماز اور زکوۃ مراد ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ لفظ صلوۃ جب کسی وصف یا شرط کے ساتھ مقید ہوئے بغیر علی الاطلاق مذکور ہو تو یہ فرض نمازوں کا مقتضی ہوتا ہے۔ مثلاً قول باری ہے : اقم الصلوۃ لدنوک الشمس (سورج ڈھلنے پر نماز قائم کرو) نیز حافظوا علی الصلوات والصلوۃ الوسطی (نمازوں کی نیز درمیانی نماز کی محافظت کرو) اور اسی طرح کی دیگر آیات۔ جب لفظ صلوۃ کے اطلاق سے فرض نماز مراد ہوگئی تو اس سے یہ دلالت بھی حاصل ہوگئی کہ انفاق سے مراد وہ انفاق ہے جو متعین پر فرض کردیا گیا ہے ۔ جب متقین کی اس بنا پر تعریف کی گئی کہ وہ اللہ کے دیے ہوئے رزق سے خرچ کرتے ہیں تو اس سے یہ دلالت بھی حاصل ہوگئی کہ رزق کے اسم کا اطلاق صرف مباح، یعنی حلال رزق کو شامل ہے۔ محظور یعنی حرام مال کو شامل نہیں ہے۔ یعنی اگر ایک شخص کسی کا مال غصب کرلے یا ازراہ ظلم اس کا مال ہتھیا لے تو اس صورت میں یہ نہیں کہ اجائے گا کہ یہ رزق اللہ نے اسے دیا ہے ۔ کیونکہ اگر مذکورہ مال اس شخص کے لئے رزق من اللہ ہوتا تو اس کے لئے یہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اس کا صدقہ کرنا اور اس کے ذریعے قرب الٰہی حاصل کرنا جائز ہوتا، جبکہ اہل اسلام کے مابین اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ غاصب کے لئے غصب شدہ مال صدقہ کرنے کی ممانعت ہے۔ اسی طرح حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔” غلول یعنی مال غنیمت سے چرائے ہوئے مال کا صدقہ قبول نہیں ہوتا۔ “ لغت میں رزق حصے کو کہتے ہیں : چناچہ ارشاد باری ہے : وتجعلون رزقکم انکم تکذبون (اور تم نے اپنا حصہ یہ بنا لیا ہے کہ تم تکذیب کرتے ہو) یعنی دعوت اسلام کے اندر تمہارا حصہ یہ ہے کہ تم اسے جھٹلاتے رہتے ہو۔ ایک شخص کا حصہ وہ چیز ہے جو خالص اس کی ہو اور اس میں اس کا کوئی شریک نہ ہو۔ اسے نصیب بھی کہتے ہیں، تاہم اس مقام پر اس سے مراد وہ پاکیزہ اور مباح چیزیں ہیں جو اللہ نے اپنے بندوں کو عنایت کی ہیں۔ رزق کا ایک مفہوم اور بھی ہے اور وہ جانداروں کے لئے اللہ کی پیدا کی ہوئی غذائیں ہیں ان غذائوں کی طرف بھی رزق کی اضافت درست ہے۔ کیونکہ اللہ نے انہیں جانداروں کی خوراک بنایا ہے۔
Top