Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 31
وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓئِكَةِ١ۙ فَقَالَ اَنْۢبِئُوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَعَلَّمَ : اور سکھائے آدَمَ : آدم الْاَسْمَآءَ : نام كُلَّهَا : سب چیزیں ثُمَّ : پھر عَرَضَهُمْ : انہیں سامنے کیا عَلَى : پر الْمَلَائِکَةِ : فرشتے فَقَالَ : پھر کہا اَنْبِئُوْنِیْ : مجھ کو بتلاؤ بِاَسْمَآءِ : نام هٰٓؤُلَآءِ : ان اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
اور اس نے آدم کو (سب چیزوں کے) نام سکھائے پھر ان کو فرشتوں کے سامنے کیا اور فرمایا اگر سچے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ
قول باری ہے : (علم آدم الاسماء کلھا ثم عرضھم علی الملٓئکۃ فقال انبونی باسماء ھولآء ان کنتم صدقین۔ (اس کے بعد اللہ نے آدم کو ساری چیزوں کے نام سکھائے، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا : اگر تمہارا خیال صحیح ہے کہ (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گا) تو ذرا ان چیزوں کے نام بتائو اگر تم سچے ہو) یہ قول باری اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ نے حضرت آدم کو تمام اشایء کے نام سکھا دیئے، یعنی اجنسا کا ان کے معانی کے ساتھ کیونکہ اسماء کے ذکر میں لفظ کے اندر عموم ہے اور قو ل باری : ثم عرضھم علی المٓئکۃ کے اندر اس بات پر دلالت ہے کہ اللہ نے حضرت آدم کی اولاد کے ناموں کا ارادہ کیا تھا جیسا کہ الربیع بن انس سے مروی ہے۔ تاہم حضرت ابن عباس اور مجاہد سے مروی ہے کہ اللہ نے حضرت آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھا دیئے تھے۔ اگر یہاں کہا جائے کہ قول باری : عرضھم اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ ذوی العقول کے اسماء تھے اس لئے کہ (ھم) کی ضمیر ذوی العقول کے لئے استعمال ہوتی ہے، غیر ذوی العقول کے لئے استعمال نہیں ہوتی، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ نے جب ذوی العقول اور غیر ذوی العقول دونوں کا ارادہ کیا تو پھر ذوی العقول کے اسم کی تغیب درست ہوگئی جیسا کہ یہ قول باری ہے : خلق کل دابۃ من مآء فمنھم من یمشی علی بطنہ و منھم من یمشی علی رجلین ومنھم من یمشی علی اربع (اور اللہ ہی نے ہر چلنے والے جانور کو پانی سے پیدا کیا ہے۔ سو ان میں سے وہ بھی ہیں جو پیٹ کے بل چلتے ہیں اور وہ بھی جو دوپیروں پر چلتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو چار پیروں پر چلتے ہیں) جب جملے کے اندر ذوی العقول داخل ہوگئے تو پھر سب کو یہی درجہ دیا گیا۔ زیر بحث آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ کی طرف سے حضرت آدم (علیہ السلام) کو تمام مختلف زبانوں کے اصول سے واقف کرا دیا گیا تھا اور اللہ نے انہیں یہ اصول ان کے معانی کے ساتھ سکھا دیئے تھے کیونکہ معانی کے بغیر اسماء کی معرفت کی کوئی فضیلت نہیں ہوتی۔ یہ بات علم کے شرف اور اس کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جب فرشتوں کو حضرت آدم (علیہ السلام) کی فضیلت سے آگاہ کرنا چاہا تو انہیں تمام اسماء کا ان کے معانی کے ساتھ علم عطا کردیا حتی کہ حضرت آدم نے فرشتوں کو ان اسماء کی خبر دی۔ فرشتوں کو ان اسماء کا علم نہیں دیا گیا تھا جس کے نتیجے میں انہوں نے حضرت آدم کی فضیلت کا اعتراف کرلیا۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کی زبان طوفان نوح تک ایک تھی۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے اس طوفان میں اہل زمین کو غرق کردیا صرف نوح (علیہ السلام) کی نسل سے زندہ رہ جانے والے بچ رہے اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی وفات کے بعد ان کی اولاد بڑھی اور تعداد زیادہ ہوگئی تو انہوں نے بابل میں ایک اونچا محل تعمیر کرنے کا ارادہ کیا تاکہ اگر طوفان دوبارہ آئے تو اس محل کے ذریعے اپنا بچائو کرلیں۔ اسی دوران میں اللہ تعالیٰ نے ان کی زبان کی تحلیل کردی اور ہر گروہ اپنی سابقہ زبان بھول گیا اور پھر اللہ نے وہ زبانیں سکھائیں جو وراثت میں ان کی اولاد کو م لیں اور پھر یہ لوگ دنیا کے مختلف حصوں میں بکھر گئے اور نئے نئے شہر آباد کئے۔ بعض لوگ اس نظریے کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک کامل العقل انسان کا اپنی وہ زبان بھلو جانا ناممکن ہے جس میں وہ کل تک گفتگو کرتا تھا، بلکہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد مذکورہ تمام زبانیں جانتی تھی، یہاں تک کہ یہ سب گروہ روئے زمین میں بکھر گئے اور ہر ایک گروہ نے صرف اسی زبان پر اقتصار کرلیا جس کے ذریعے آج ان کی بول چال ہوتی ہے۔ باقیمانہ تمام زبانیں ترک کردیں جن کا انہیں علم تھا۔ ان کی اولاد نے یہ زبانیں ان سے نہیں سیکھیں یہی وجہ تھی کہ ان کے بعد آنے والی نسلیں تمام زبانیں نہیں جانتی تھیں۔
Top