Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 34
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ١٘ۗ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ
وَ : اور اِذْ : جب قُلْنَا : ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِکَةِ : فرشتوں کو اسْجُدُوْا : تم سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّا : سوائے اِبْلِیْسَ : ابلیس اَبٰى : اس نے انکار کیا وَ اسْتَكْبَرَ : اور تکبر کیا وَکَانَ : اور ہوگیا مِنَ الْکَافِرِیْنَ : کافروں سے
اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو تو وہ سب سجدے میں گرپڑے مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آ کر کافر بن گیا
غیر اللہ کو سجدہ کرنا قول باری ہے : واذ قلنا للملٓئکۃ اسجدوالا دم فسجدوا (اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا) شعبہ نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ ریز ہو کر دراصل فرشتوں نے اللہ کی اطاعت کی تھی۔ اللہ ہی نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو مسحور ملائکہ ہونے کا اعزاز بخشا تھا۔ معمر نے قتادہ سے قول باری : وخروالہ سجداً (اور اس کے سامنے سجدے میں گرپڑے) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ برادران یوسف (علیہ السلام) کی تحیت یعنی سلام کرنے کا طریقہ یہی تھا کہ وہ اس مقصد کے لئے سجدہ ریز ہوجاتے تھے۔ اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی امتناع نہیں ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو فرشتوں کا سجدہ دراصل اللہ کی عبادت اور حضرت آدم (علیہ السلام) کے لئے اعزاز اور ان کے حق میں تحیت کی صورت تھی۔ یہی بات برادران یوسف (علیہ السلام) کی سجدہ ریزی کے متعلق بھی کہی جاسکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا کسی کے لئے عبادت جائز نہیں اور اعزاز و تحیت اس شخص کے لئے جائز ہے جو ایک گونہ تعظیم کا مستحق قرار پائے۔ اس سلسلے میں بعض حضرات کا قول ہے کہ فرشتوں نے سجدہ تو اللہ کو کیا تھا اور حضرت آدم (علیہ السلام) ان کے لئے بمنزلہ قبلہ تھے، لیکن یہ ایک کھوکھلی توجیہہ ہے کیونکہ ایسی صورت میں حضرت آدم (علیہ السلام) کے کسی مزیت و فضیلت کا کوئی پہلو نہیں ہوگا جبکہ زیر بحث آیت کا ظاہر اس امر کا مقتضی ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی تعظیم و تکریم ہوئی تھی۔ اس بنا پر سجدہ کو اس کے حقیقی معنوں پر محمول کیا جائے گا جس طرح حمد کے ظاہر لفظ کو اس صورت میں اس کے حقیقی معنوں پر محمول کیا جاتا ہے جب یہ لفظ حمد کے ظاہر لفظ کو اس صورت میں اس کے حقیقی معنوں پر محمول کیا جاتا ہے جب یہ لفظ حمد کے مستحق کے لئے واقع ہو اسے مجازی معنوں پر معمول نہیں کیا جائے گا جس طرح یہ فقرہ کہا جائے کہ ” اخلاق فلان محمودۃ “ (فلاح کے اخلاق محمود، یعنی قابل ستائش ہیں) یا ” اخلاق فلان مذمومۃ “ (فلاں کے اخلاق قابل مذمت ہیں) اس لئے کہ لفظ کا حکم یہ ہوتا ہے کہ اسے اس کی حقیقت اور اس کے باب پر مجہول کیا جائے۔ سجدے کا حکم حضرت آدم (علیہ السلام) کے لئے اعزاز کے طور پر تھا، اس پر ابلیس کا وہ قول دلالت کرتا ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کے ان الفاظ میں کیا ہے : آ اسجد لمن خلقت طیناً ہ فال ارائیتک ھذا الذی کر مت علی (کیا میں اس کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے۔ پھر وہ بولا :” دیکھ تو سہی کیا یہ اس قابل تھا کہ تو نے اسے مجھ پر فضیلت دی) ابلیس نے یہاں پر بتادیا کہ سجدہ کرنے سے اس کا باز رہنا اس بنا پر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے کا حکم دے کر آدم (علیہ السلام) کی تفصیل اور ان کے اعزاز کا اظہار کردیا تھا۔ اگر سجدے کا حکم اس بنا پر ہوتا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے والوں کے لئے بس قبلہ بنادیا گیا تھا اور اس میں ان کے اعزاز کی کوئی بات نہ ہوتی تو پھر اس صورت میں ابلیس کو ان سے اس فضیلت پر حسد کرنے کی کوئی وجہ نہ ہوتی جس طرح کعبہ شریف کو قبلہ بنادیا گیا ہے اور اس میں کعبہ سے حسد کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ دراصل حضرت آدم (علیہ السلام) کی شریعت میں مخلوق کو سجدہ کرنا جائز تھا اور عین ممکن ہے کہ یہی صورت حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانے تک باقی رہی ہو کہ جو شخص کسی قسم کی تعظیم کا مستحق ہو اس کے اعزاز اور عظمت کا اظہار کرنے کے لئے لوگ اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہوں جس طرح ہمارے زمانے میں اس مقصد کے لئے مصافحہ اور معانقہ کرنے، نیز ہاتھوں کو بوسہ دینے کا رواج ہے۔ ہاتھوں کو بوسہ دینے کی اباحت کے سلسلے میں حضور ﷺ سے کئی روایات منقول ہیں۔ اس بارے میں کراہت بھی مروی ہے ، البتہ ہماری شریعت میں غیر اللہ کو اعزاز اور تحیت کے طور پر سجدہ کرنا منسوخ ہوگیا ہے۔ اس منسوخی کی دلیل حضرت عائشہ، حضرت جابر اور انس سے مروی حدیث ہے جس میں حضور ﷺ نے فرمایا :” کسی بشر کو کسی بشر کے سامنے سجدہ ریز ہونا چاہیے۔ اگر کسی بشر کے لئے کسی بشر کو سجدہ کرنا درست ہوتا تو میں بیوی پر اس کے شوہر کے حق کی عظمت کی بنا پر اسے اپنے شوہر کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا۔ “(یہ الفاظ حضرت انس ؓ کی روایت کردہ حدیث کے ہیں۔ )
Top