Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 59
فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَهُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ۠   ۧ
فَبَدَّلَ : پھر بدل ڈالا الَّذِیْنَ : جن لوگوں نے ظَلَمُوْا : ظلم کیا قَوْلًا : بات غَيْرَ الَّذِیْ : دوسری وہ جو کہ قِیْلَ لَهُمْ : کہی گئی انہیں فَاَنْزَلْنَا : پھر ہم نے اتارا عَلَى : پر الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا : جن لوگوں نے ظلم کیا رِجْزًا :عذاب مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے بِمَا : کیونکہ کَانُوْا يَفْسُقُوْنَ : وہ نافرمانی کرتے تھے
تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا تھا بدل کر اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع کیا، پس ہم نے (ان) ظالموں پر آسمان سے عذاب نازل کیا کیونکہ نافرمانیاں کئے جاتے تھے
اذکار کے توقیفی ہونے کی دلیل قول باری ہے : فبذل الذین ظلموا قولا غیر الذی قیل لھم (مگر جو بات کہی گئی تھی ظالموں نے اسے بدل کر کچھ اور کردیا) اس آیت میں اذکار و اقوال کے سلسلے میں جس توقیف، یعنی جوں کے توں رکھنے کا جو ذکر ہے اس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ اذکار و اقوال میں تغیر و تبدل جائز نہیں ہے۔ اس سے بعض دفعہ ہمارے مخالفین ہمارے اس قول کے خلاف استدلال کرتے ہیں کہ ہم تعظیم و تسبیح کے الفاظ سے تحریمہ صلوۃ جائز قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح امام ابوحنیفہ کے نزدیک نماز کے اندر فارسی میں قرأت کا جواز ہے، نیز ہم تملیک کے لفظ سے بیع اور اسی طرح کے دوسرے عقود کے جواز کے قائل ہیں، لیکن ہمارے مخالفین کا یہ استدلال ہم پر الزم نہیں ہوتا اس لئے کہ زیر بحث آیت ان لوگوں کے متعلق ہے جن سے کہا گیا تھا کہ : ادخلوا الباب سجداً وقولوا حطۃ (بستی کے دروازے میں سجدہ ریز ہوتے داخل ہونا اور کہتے جانا حطۃ ، حطۃ ) یعنی خدا سے اپنی خطائوں کی معانفی مانگتے ہوئے جانا۔ حسن اور قتادہ نے کہا ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ استغفار کرتے ہوئے بستی میں داخل ہوں۔ حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ انہیں یہ کہنے کا حکم دیا گیا تھا کہ ” یہ بات برحق ہے اور اسی طرح ہے جیسے تم سے کہی گئی تھی، عکرمہ کے قول کے مطابق انہیں : لا الہ الا اللہ کہنے کا حکم ملا تھا، لیکن انہوں نے اس کے بجائے تجاہل اور استہزاء سے کام لیتے ہوئے، ” حنطۃ حمراء “ (سرخ گندم) کہنا شروع کردیا۔ حضرت ابن عباس اور دیگر صحابہ کرام نیز حسن بصری سے منقول ہے کہ یہ لوگ صرف اس لئے قابل مذمت گردانے گئے کہ انہوں نے امر شدہ افاظ کو ایسے الفاظ سے بدل ڈالا تھا جو معنی کے اعتبار سے ان کے اضداد تھے۔ انہیں توبہ اور استغفار کا حکم دیا گیا تھا، لیکن یہ لوگ اپنے گناہوں پر اصرار اور حکم الٰہی کے استہزاء کی راہ پر چل پڑے۔ جہاں تک معنی میں ترادف کے ساتھ الفاظ میں تبدیلی کا تعلق ہے تو زیر بحث آیت میں اس صورت سے کوئی تعرض نہیں کیا ہے، کیونکہ آیت تو ان لوگوں کی حکایت بیان کر رہی ہے جنہوں نے الفاظ و معانی دونوں میں تبدیلی پیدا کردی تھی اور اس کے نتیجے میں انہیں مذمت لاحق ہوگئی تھی۔ اب اس مذمت کے اندر ان کے ساتھ صرف ویہ لوگ شریک ہوں گے جو ہو بہو ان جیسا فعل کریں گے۔ لیکن جو شخص لفظ میں تبدیلی کر کے سابقہ معنی باقی رہنے دے تو آیت ایسے شخص کو اپنے دائرے میں نہیں لیتی۔ آیت میں مذکورہ لوگوں کے فعل بد کی نظیر ان لوگوں کا فعل ہے جو اس قول باری : الا علی ازواجھم او ما ملکت ایمانھم (مگر اپنی بیویوں اور اپنی لونڈیوں) کی موجودگی میں متعہ کے جواز کے قائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو اس آیت کے ذریعے عورت کی شرمگاہ کو صرف دو صورتوں کے اندر مباح کرنے کی رہنمائی کردی ہے۔ اس لئے جو شخص متعہ کے ذریعے جو معنی اور لفظ دونوں کے اعتبار مباح کرنے کی رہنمائی کردی ہے۔ اس لئے جو شخص متعہ کے ذریعے جو معنی اور لفظ دونوں کے اعتبار سے نکاح اور ملک یمین کے خلاف ہے، عورت کی شرمگاہ کو مباح قرار دے گا اسے زیر بحث آیت کے حکم کے تحت مذکورہ بالا مذمت لاحق ہوجائے گی۔
Top