Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Baqara : 67
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖۤ اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا١ؕ قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ
وَ
: اور
اِذْ
: جب
قَالَ
: کہا
مُوْسٰى
: موسیٰ نے
لِقَوْمِهٖٓ
: اپنی قوم سے
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ تعالیٰ
يَاْمُرُكُمْ
: حکم دیتا ہے تم کو
اَنْ
: یہ کہ
تَذْبَحُوْا
: تم ذبح کرو
بَقَرَةً
: ایک گائے
قَالُوْٓا
: انہوں نے کہا
اَتَتَّخِذُنَا
: کیا تم کرتے ہو ہم سے
ھُزُوًا
: مذاق
قَالَ
: اس نے کہا ( موسیٰ )
اَعُوْذُ
: میں پناہ مانگتا ہوں
بِاللّٰهِ
: اللہ کی (اس بات سے
اَنْ
: کہ
اَكُوْنَ
: میں ہوجاؤں
مِنَ
: سے
الْجٰهِلِيْنَ
: جاہلوں میں سے
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ ایک بیل ذبح کرو وہ بولے کیا تم ہم سے ہنسی کرتے ہو ؟ (موسیٰ نے) کہا کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں
تفسیر آیت 67 تا 73: قول باری ہے : انا اللہ یامرکم ان تذبحوا بقرۃ، قالوا اتتخذنا ھزواً (اللہ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے، کہنے لگے کیا تم ہم سے مذاق کرتے ہو) تا قول باری : واذ قتلتم نفساً فادار اتم فیھا واللہ مخرج ما کنتم تکتمون، فقلنا اضربوہ ببعضھا (اور تمہیں یاد ہے وہ واقعہ جب تم نے ایک شخص کو قتل کردیا تھا، پھر اس کے بارے میں جھگڑنے اور ایک دوسرے پر قتل کا الزام تھوپنے لگے تھے اور اللہ نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ جو کچھ تم چھپاتے ہو اسے کھول کر رکھ دے گا۔ اس وقت ہم نے حکم دیا کہ مقتول کی لاش کو اس کے ایک حصے سے ضرب لگائو تا آخر آیت۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ان آیات اور ان میں مذکورہ قصہ مقتول اور ذبح بقرہ کے اندر کئی قسم کے احکام اور اعلیٰ معانی پر دلائل موجود ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ قول باری : واذا قتلم نفساً اگرچہ تلاوت کے اندر موخر ہے، لیکن معنی کے اعتبار سے یہ گائے کے متعلق بیان کردہ تمام امور پر مقدم ہے کیونکہ گائے ذبح کرنے کا حکم صرف اس لئے دیا گیا تھا کہ اس کا سبب ایک آدمی کا قتل تھا۔ اس سلسلے میں دو اور وجوہ بھی بیان کی گئی ہیں۔ پلہی وجہ یہ بیان ہوئی ہے کہ قتل کا ذکر اگرچہ تلاوت کے اندر مئوخر ہے۔ لیکن نزول کے اندر مقدم ہے اور دوسری وجہ یہ بیان ہوئی ہے کہ آیت کے نزول کی ترتیب تلاوت کی ترتیب کے مطابق ہے ۔ تاہم یہ معنی کے اعتبار سے مقدم ہے۔ اس لئے کہ حرف وائو ترتیب کا موجب نہیں ہوتا۔ مثلاً اگر ایک شخص کہے ” مجھے یاد ہے کہ میں نے زید کو ایک ہزار درہم دیئے تھے جب اس نے میرا مکان بنایا تھا۔ “ حالانکہ مکان کی تعمیر ایک ہزار درہم دینے پر مقدم تھی۔ گائے کا ذکر نزول کے اندر مقدم ہے اس کی دلیل یہ قول باری ہے : فقلنا اشربوہ ببعضھا۔ یہ قول باری اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ گائے کا ذکر اس سے پہلے ہوچکا تھا اس بنا پر درج بالا فقرے کے اندر اس کا ذکر ضمیر کی صورت میں کیا گیا۔ اس کی نظیر حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعہ میں طوفان اور اس کے اختتام کے ذکر کے بعد یہ قول باری ہے : قلنا احمل فیھا من کل زوجین اثنین واھلک الا من سبق علیہ القول ون امن۔ وما امن معہ الا قلیل (ہم نے کہا ” ہر قسم کے جانوروں کا ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو، اپنے گھر والوں کو بھی … سوائے ان اشخاص کے جن کی نشان دہی پہلی ک جای چکی ہے … اس میں سوار کرلو اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں۔ “ اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوح کے ساتھ ایمان لائے تھے) یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ یہ گفتگو ان کی ہلاکت سے پہلے ہوئی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کلام میں تقدیم و تاخیر حرف وائو کے ذریعے معطوف صورت میں ہو تو یہ بات لفظ کی ترتیب پر معنی کی ترتیب کی موجب نہیں بنتی۔ قول باری : ان اللہ یا مرکم ان تدبحوا بقرۃ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ذبح بقرہ کا حکم کسی مجہول اور غیر معروف گائے کے ذبح کا جواز لے کر وارد ہوا تھا اور مامور کو اختیار تھا کہ وہ ایسی ادنیٰ سے ادنیٰ گائے ذبح کر دے جس پر بقرہ کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہو۔ عموم کا اثبات کرنے والوں اور عموم کی نفی کرنے والوں کے درمیان درج بالا قول باری کے معنی کے متعلق اختلاف پیدا ہوگیا ہے۔ ہر فریق نے اس کے ذریعے اپنے مسلک کے حق میں استدلال کیا ہے۔ جو لوگ عموم کے قائل ہیں انہوں نے مذکورہ قو ل باری سے مطلق صورت میں اس کے درود کی جہت سے استدلال کیا ہے۔ یعنی ان کے نزدیک قول باری میں مذکورہ امر ایسا امر تھا جو ان تمام احاد میں سے جنہیں لفظ کا عموم شامل تھا ہر واحد کے اندر لازم تھا ، یعنی اگر وہ کسی بھی گائے کو ذبح کردیتے تو کام چل جاتا، لیکن جب انہوں نے اللہ کے رسول حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بار بار مراجعت کر کے انہیں تنگ کردیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر مذکورہ تکلیف، یعنی حکم کے اندر شدت پیدا کردی اور اللہ کے رسول سے بار بار مراجعت پر ان الفاظ میں ان کی مذمت کی : فذبحوھا وما کادوا یفعلون (پھر انہوں نے اسے ذبح کیا اور نہ وہ ایسا کرتے معلوم نہ ہوتے تھے) جس بصری نے روایت بیان کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے اگر یہ لوگ ہلکی سے ہلکی گائے لا کر ذبح کردیتے تو ان کا کام چل جاتا، لیکن انہوں نے تشدد کی اور اس کے جواب میں اللہ نے بھی ان پر تشدید کردی۔ “ اسی کسی قسم کی روایت حضرت ابن عباس، عبیدہ، ابو العالیہ اور مجاہد سے بھی مروی ہے۔ جو لوگ عموم کے قول کو تسلیم نہیں کرتے انہوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ شروع میں اللہ کے رسول سے مراجعت کرنے کی وجہ سے اللہ نے انہیں ڈانٹ پلائی۔ اگر ان پر شروع ہی میں مذکورہ امر کی تنقید لازم ہوجاتی جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے کہ عموم لفظ کا اقتضاء یہی تھا تو پھر مراجعت کی ابتدا ہی میں ان پر نکیر کا درود ہوجاتا، لکین اس استدلال میں کوئی جان نہیں ہے۔ کیونکہ لفظ کے اندر اس نکیر کا ظہور ان پر دو طریقوں سے ہوا تھا۔ اول تو یہ کہ ان پر مذکورہ آزمائش کے اندر شدت پیدا کردی گئی تھی اور بھی نکیر کی ایک صورت ہے جس طرح یہ اشراد باری ہے : فبظلم من الذین ھادوا حرمنا علیھم طیبات احلت لھم (غرض ان یہودی بن جانے والوں کے اسی ظالمانہ رویہ کی بنا پر ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کردیں جو پہلے ان کے لئے حلال تھیں) اور دوم یہ قول باری : وما کا دوا یفعلون ۔ جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ لوگ ابتدا ہی سے امر الٰہی کے تارک بن گئے تھے جب کہ مذکورہ امر بجا لانے کے اندر تیزی دکھانا ان پر لازم تھا۔ زیر بحث آیت چند معانی پر مشتمل ہے : اول یہ کہ ان صورتوں میں عموم لفظ کا اعتبار واجب ہے جہاں اس کا استعمال ممکن ہو۔ دوم یہ کہ امر فی الفور عملدرآمد پر مبنی ہوتا ہے، یعنی مامور پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اسے بروئے کار لانے میں امکانی حد تک تیزی دکھائے اور مسارعت کا مظاہرہ کرے الایہ کہ تاخیر کے جواز پر کوئی دلالت قائم ہوجائے۔ سوم یہ کہ کسی مجہول الصفت چیز کے بارے میں امر کا درود جائز ہے جبکہ اس کے ساتھ مامور کو یہ اختیار دیا گیا ہو کہ وہ اسم کے تحت واقع ہونے والی کسی بھی صورت کو بروئے کار لے آئے۔ چہارم یہ کہ امر کا وجوب ہوتا ہے اور اسے کسی دلالت کے قیام کے بغیر ندب، یعنی استحباب کی طرف لوٹایا نہیں جاسکتا۔ کیونکہ بنی اسرائیل کے مذکورہ لوگوں کو مذمت صرف اس بنا پر لاحق ہوئی تھی کہ انہوں نے اس مطلق امر کو ترک کردیا تھا جس میں کسی وعید کا ذکر نہیں تھا۔ پنجم یہ کہ ایک فعل پر تمکن کے بعد اس کے وقوع سے پہلے اس کا نسخ جائز ہے۔ سا لئے کہ مذکورہ گائے کی صفات میں ہر دفعہ اضافے سے اس کے ماقبل کا حکم منسوخ ہوگیا تھا اس لئے کہ قول باری : ان اللہ یا مرکم ان تذبحوا بقرۃ اس بات کا مقتضی تھا کہ وہ کوئی سی بھی گائے جس طرح چاہیں ذبح کریں اور انہیں ایسا کرنے کی قدرت بھی حاصل تھی، لیکن جب انہوں نے کہا : ادع لناربک یبین لنا ماھی (اچھا اپنے رب سے درخواست کرو کہ وہ ہمیں اس گائے کی کچھ تفصیل بتائے) تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا : انھا بقرۃ لا فارض ولا بکر ۔ عوان بین ذلک فافعلوا ما تومرون (وہ ایسی گائے ہونی چاہیے جو نہ بوڑھی ہو نہ بچھیا بلکہ اوسط عمر کی ہو، لہٰذا جو حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرو) اس طرح وہ تخیر منسوخ ہوگئی جسے پہلے امر الٰہی نے مذکورہ صفت کے ساتھ موصوف گائے یا کسی اور گائے کو ذبح کرنے کے سلسلے میں واجب کردیا تھا اور ان سے کہا گیا کہ تمہیں جو حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرو۔ “ اس سے یہ بات واضح کردی گئی کہ ان پر یہ لازم تھا کہ وہ کسی تاخیر کے بغیر مذکورہ صفت والی گائے ذبح کردیتے خواہ اس کا رنگ کچھ بھی ہوتا اور خواہ ذلول یعنی کام کرنے والی ہوتی یا کام نہ کرنے والی ہوتی لیکن جب انہوں نے کہا : ادع لنا ربک یبین لنا مالونھا (اپنے رب سے یہ اور پوچھ دو کہ اس کا رنگ کیسا ہو ؟ ) تو اس سے وہ تخییر منسوخ ہوگئی جو انہیں حسب منشا کسی بھی رنگ کی گائے ذبح کرنے کے سلسلے میں حاصل تھی اور اس کی دوسری صفت کے بارے میں تخییر باقی رہی، لیکن جب انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مراجعت کی تو یہ تخییر بھی منسوخ ہوگئی اور انہیں اسی صفت والی گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا جس کا ذکر اللہ نے کیا تھا اور آزمائش سختی نیز بجا آوری کی صورت کے اندر شدت پیدا کرنے کے بعد اسی صفت پر ذبح کی فرضیت آ کر ٹھہر گئی۔ نسخ کے متعلق ہم نے اوپر جو کچھ بیان کیا ہے وہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ نص کے حکم کے استقرار کے بعد نص میں اضافہ اس کے نسخ کا موجب بن جاتا ہے۔ اس لئے کہ قوم کی طرف سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مراجعت کے بعد وارد ہونے والے وہ تمام اوامر جن کا ہم نے ذکر کیا ہے، اس نص کے اندر اضافہ تھے جس کے حکم کو استقرار حاصل ہوچکا تھا اور ان اضافوں نے مذکورہ نص کا نسخ واجب کردیا تھا۔ بعض لوگ زیر بحث واقعہ سے فرض کا وقت آنے سے پہلے اس کے نسخ کے جواز پر استدلال کرتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ بات واضح تھی کہ ابتدا میں ان لوگوں پر غیر معین گائے کا ذبح فرض تھا لیکن فعل کا وقت آنے سے پہلے ہی ان سے یہ حکم منسوخ کردیا گیا ۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ بات غلط ہے۔ اس لئے کہ اس صورت میں ہر فرض ایسا تھا کہ اس کے فعل کا وقت امر کے ورود کے ساتھ ہی فعل کے امکان کے اول احوال میں تھا اور فرض ان پر مستقر اور ثابت ہوگیا تھا اور پھر فعل سے قبل ہی منسوخ ہوگیا تھا۔ اس لئے اس میں اس بات پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ فعل کے وقت کی آمد سے پہلے نسخ جائز ہے۔ یہ بات ہم نے اصول فقہ میں بیان کردی ہے۔ ششم یہ کہ قول باری : لا قارض ولا بکرعوان بین ذلک اجتہاد کے جواز تیز احکام کے اندر غالب ظن کے استعمال پر دلالت کرتا ہے کیونکہ طریق اجتہاد سے ہی مذکورہ گائے کے بوڑھی اور بچھیا وہنے کے درمیان والی کیفیت معلوم کی جاسکتی تھی۔ ہفتم یہ کہ اگرچہ ظاہر کا استعمال ہو۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی جائز رکھی جائے کہ باطن میں اس کے خلاف بھی ہوسکتا ہے، چناچہ ارشاد باری ہے : مسلمۃ لاشیۃ فیھا ، صحیح سالم (اور بےداغ ہو) یعنی عیوب سے صحیح سالم اور بری ہو۔ یہ ایسی بات ہے جسے ہم حقیقت کی راہ سے معلوم نہیں کرسکتے، بلکہ ہمیں اس کا علم از راہ ظاہر ہوتا ہے اور اس کے ساتھ اس امر کا جواز بھی ہوت ا ہے کہ اس میں کوئی باطنی عیب ہو۔ ہشتم یہ کہ اللہ کے رسول سے ان کی آخری دفعہ مراجعت کے سلسلے میں قول باری ہے : وانا ان شآء اللہ ممھتدون ( (اللہ نے چاہا تو اس کا پتہ پالیں گے) جب انہوں نے خبر کو اللہ کی مشیت کے ساتھ مقرون کردیا تو اسکے بعد انہیں اللہ کے رسول سے مزید مراجعت نہ کرنے اور ماموربہ کو وجود میں لانے کی توفیق نصیب ہوگئی۔ ایک روایت کے مطابق اگر یہ لوگ انشاء اللہ نہ کہتے تو انہیں کبھی بھی مذکورہ گائے کا پتہ نہ چلتا اور ان کے درمیان جھگڑا ہمیشہ چلتا رہتا۔ اسی طرح یہ قول باری ہے : وما کادوا یفعلون (اور وہ ایسا کرتے معلوم نہ ہوتے تھے) اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات کی خبر اس لئے دی کہ ہم جب مستقبل میں کئے جانے والے کسی معاملے کی خبر دیں تو اس استثناء کا ضرور ذکر کریں جو اللہ کی مشیت کی صورت میں ہے، تاکہ اس کے ذریعے ہم مذکورہ معاملے میں کامیابی سے ہمکنار ہو سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس مقام کے علاوہ ایک دوسرے مقام پر بھی اس استثناء کا حکم دیا ہے چناچہ ارشاد باری ہے : ولا تقولن لشای انی فاعل ذلک غدا الا ان یشآء اللہ (اور آپ کسی چیز کی نسبت یہ نہ کہا کیجیے کہ میں اسے کل کروں گا سوائے اس کے کہ اللہ بھی چاہے) اس میں اللہ سے استعانت، اس کی ذات کی طرف معاملہ کی تفویض اور اس کی قدرت نیز اس کی مشیت کے نفاذ کا اعتراف ہے اور اس بات کا اظہار بھی ہے کہ وہی ہر معاملے کا مالک اور اسے چلانے والا ہے۔ نہم یہ کہ قول باری : اتتخذنا ھزواً ، قال اعوذ باللہ ان اکون من الجاھلین (کیا تم ہم سے مذاق کرتے ہو ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ میں اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں کی سی باتیں کروں) کی دلالت اس امر پر ہے کہ استہزاء اور مذاق کرنے والا جہل کی علامت کا مستحق ہوتا ہے کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) السلام نے اپنی ذات سے استہزاء کی نفی کر کے جاہلوں سے اپنے ہونے کی نفی کردی تھی۔ یہ قول باری اس امر پر بھی دلالت کرتا ہے کہ دین کے معاملے میں استہزاء کبیرہ گناہ ہے۔ اگر ایسی بات نہ ہوتی تو استہزاء کا گناہ جہل نہ گردانا جاتا۔ محمد بن مسعر نے ذکر کیا ہے کہ وہ عبید اللہ بن المحسن العنبری انفاضی کے پاس اونی جبہ پہنے ہوئے گئے۔ عبید اللہ کی طبیعت میں مذاق کا عنصر غالب تھا۔ انہوں نے ابن مسعر سے ازراہ مذاق پوچھا۔” تمہارا یہ جبہ بکری کی اون کا ہے یا مینڈھے کی اون کا۔ “ ابن مسعر نے ان سے کہا :” اللہ تمہیں زندگی دے جہالت کی بات نہ کرو۔ “ ابن مسعر کہتے ہیں کہ ” میں نے ان کے مذاق کو جہالت سمجھ کر ان کے سامنے آیت اتتخذنا ھزواً تلاوت کی۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا : اعوذ باللہ ان اکون من الجاھلین اور پھر گفتگو کا رخ بدل دیا۔ زیر بحث آیت میں اس امر پر بھی دلالت موجود ہے کہ حضر ت موسیٰ (علیہ السلام) السلام ایسے لوگوں کو قتل کردینے کے پابند نہیں بنائے گئے تیھ جن سے کفر ظاہر ہوتا ہے، بلکہ وہ صرف الفاظ کے ذریعے جواب دینے پر مامور تھے، اس لئے کہ اللہ کے نبی سے یہ کہنا کہ ” کیا تم ہم سے مذاق کرتے ہو ؟ “ کفر تھا۔ یہ اسی طرح تھا جیسے انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) السلام سے قرآن کے الفاظ میں کہا تھا : اجعل لنا الھا کما لھم الھۃ (ہمارے لئے بھی اسی طرح کا ایک الہ بنادو جس طرح ان لوگوں کے الہ ہیں) زیر بحث آیت اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ بنی اسرائیل کے مذکورہ لوگوں کا یہ کفر ان سے ان کی بیویوں کی تفریق کا موجب نہیں بنا تھا، اس لئے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) السلام نے انہیں اپنی بیویوں سے علیحدہ ہوجانے کا حکم نہیں دیا تھا اور نہ ہی ان کا نکاح باقی رہنے کے متعلق کچھ فرمایا تھا۔ قول باری : واللہ مخرج ماکنتم تکتمون۔ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ بندہ اپنے دل میں جو خیر و شر چھپائے رکھتا ہے اللہ اسے کبھی نہ کبھی ظاہر کردیتا ہے۔ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر کوئی بندہ ستر پردوں کے پیھچے رہ کر بھی اللہ کی فرمانبرداری کرے تو بھی اللہ تعالیٰ اس کی یہ بات لوگوں کی زبانوں پر ظاہر کردیتا ہے اور معصیت کی بھی یہی کیفیت ہے۔ “ ایک روایت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) السلام کو وحی بھیجی کہ بنی اسرائیل سے کہہ دو کہ وہ بیشک مجھ سے اپنے اعمال چھپاتے رہیں، لیکن میں تو ان کے اعمال ظاہر کر کے ہی رہوں گا۔ “ درج بالا قول باری عام ہے، لیکن اس سے خاص مراد ہے اس لئے کہ مذکورہ تمام لوگوں کو اصل قاتل کا علم نہیں تھا اور اسی لئے ان کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ درج بالا قول باری تمام لوگوں کے بارے میں عام ہو کیونکہ یہ ایک مستقل بالذات کلام ہے اور مذکورہ لوگوں، تیز دیگر لوگوں کے بارے میں ہے۔ زیر بحث واقعہ کے اندر مذکورہ بالا احکام کے علاوہ مقتول کی میراث سے حرمان کا حکم بھی موجود ہے۔ ابو ایوب نے ابن سیرین سے اور انہوں نے عبیدہ السلمانی سے روایت بیان کی ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص کا کوئی رشتہ دار جس کا یہ تنہا وارث تھا، اس نے اس شخص کو قتل کر ڈالا تاکہ اس کا وارث بن جائے اور پھ راس کی لاش کو کسی کے دروازے پر ڈال دیا۔ اس کے بعد ابو ایوب نے گائے کے واقعہ کا ذکر کیا اور بتایا کہ اس واقعے کے بعد کسی قاتل کو وارث قرار نہیں دیا گیا۔ قاتل کے وارث ہونے کے مسئلے میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت عمر، حضرت علی حضرت ابن عباس اور سعید بن المسیب سے مروی ہے کہ قاتل کو کوئی میراث نہیں ملے گی خواہ اس نے قتل کا ارتکاب عمداً کیا ہو یا خطا نیز یہ کہ وہ مقتول کی دیت سے بھی اس کا وارث نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کے دوسرے تمام اموال سے۔ امام ابوحنیفہ، سفیان ثوری، امام ابو یوسف امام محمد اور زفر کا بھی یہی قول ہے، البتہ ہمارے اصحاب نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر قاتل بچہ یا دیوانہ نہ ہو، تو وہ وارث ہوجائے گا۔ عثمان البتی کا قول ہے کہ خطاً قتل کا ارتکاب کرنے والا وارث ہوجائے گا لیکن قتل عمد کا مرتکب وارث نہیں بنے گا۔ ابن شبرمہ کے قول کے مطابق قتل خطا کا مرتکب وارث قرار نہیں پائے گا۔ ابن وہب نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ قتل عمد کا مرتکب مقتول کی دیت سے کسی چیز کا وارث نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کے مال میں سے اسے کچھ ملے گا۔ البتہ قتل خطا کی صورت میں وہ مقتول کے مال میں سے تو وارث ہوجائے گا، لیکن اس کی دیت میں وارث نہیں ہوگا۔ حسن بصری سے بھی اسی طرح کی روایت منقول ہے، نیز مجاہد اور زہری اور اوزاعی بھی اسی قول کے قائل ہیں۔ المزنی نے امام شافعی سے نقل کیا ہے کہ اگر باغی عادل کو یا عادل باغی کو قتل کر دے تو وہ ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے کیونکہ وہ دونوں قاتل شمار ہوں گے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ فقہاء اس بارے میں اختلاف رائے نہیں رکھتے کہ قتل عمد کا مرتکب مقتول کا وارث نہیں بن سکے گا جب کہ عاقل بالغ ہو اور ناحق ارتکاب قتل کیا وہ، البتہ قتل خطا کے بارے میں حضرات فقہاء کی رائیں مختلف ہیں جن کا ذکر ہم نے سطور بالا میں کردیا ہے۔ عبدالباقی نے روایت بیان کی، ان سے احمد بن محمد بن غبسہ بن القیط الضبی نے، ان سے علی بن حجر نے ، ان سے اسماعیل بن عیاش نے ابن جریج، المثنیٰ اور یحییٰ سعید سے اور ان سب نے عمر و بن شعیب سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے دادا سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا :” قاتل کے لئے میراث میں کچھ نہیں۔ “ اسی طرح عبدالباقی نے روایت بیان کی، ان سے موسیٰ بن زکریا التستری نے، ان سے سلیمان بن دائود نے، ان سے اجعفر بن غیاث نے المحجاج سے، انہوں نے عمرو بن شعیب سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے اپنے دادا سے، انہوں نے حضرت عمر بن خطاب سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :” قاتل کے لئے کچھ نہیں ہے۔ “ لیث نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی فروہ سے، انہوں نے زہری سے، انہوں نے حمید بن عبدالرحمٰن سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا :” قاتل وارث نہیں ہوتا۔ “ یزید بن ہارو ن نے روایت بیان کی کہ انہیں محمد بن راشد نے مکحول سے روایت کرتے ہوئے بتایا کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ : قتل عمد کا مرتکب اپنے بھائی سے اور نہ ہی اپنے کسی رشتہ دار کے مال کا وارث ہوگا اور اس قاتل کے بعد جو رشتہ دار سب سے زیادہ قریب ہوگا وہ مذکورہ شخص کا وارث قرار پائے گا۔ “ حصن بن میسر نے روایت بیان کی، ان سے عبدالرحمٰن بن حرملہ نے عدی الجذائی سے، انہوں نے کہا کہ : میں نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ : اللہ کے رسول، آپ ﷺ اس مسئلے میں کیا فرمائیں گے کہ اگر میری دو بیویاں ہوں اور وہ دونوں آپس میں دست و گریبان ہوجائیں اور پھر ایک کی جان چلی جائے۔ “ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا کہ : اسے یعنی زندہ رہ جانے والی کو باندھ کر رکھیو اور اسے وارث نہ بنائو۔ “ درج بالا روایتوں سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ قاتل مقتول کے تمام مال میں سے وراثت سے محروم ہوجاتا ہے اور اس سلسلے میں قتل عم اور قتل خطا کے مرتکب کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ اس بارے میں حضور ﷺ کے الفاظ میں عموم ہے۔ پھر فقہاء نے ان روایات پر عمل بھی کیا ہے اور انہیں قبولیت کا درجہ دیا ہے، اس بنا پر ا نروایات کی حیثیت تواتر جیسی ہوجائے گی۔ جس طرح حضور ﷺ کا ارشاد ہے :” وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں۔ “ یا ” عقد نکاح میں ایک عورت کی پھوپھی یا خالہ سے نکاح نہ کیا جائے۔ “ یا :” عقد نکاح میں ایک عورت کی پھوپھی یا خالہ سے نکاح نہ کیا جائے۔ “ یا ” اگر بائع اور مشتری کا اختلا فہو جائے تو بائع کا قول معتبر ہوگا یا طرفین ایک دوسرے سے اپنا اپنا مال واپس لے لیں گے۔ “ غرض اسی طرح کی دیگر روایات جو سند کے اعتبار سے معتبر افراد سے مروی ہیں، یعنی اخبار آحاد ہیں لیکن فقہاء کی طرف سے انہیں قبول کرلینے اور ان پر عمل ہونے کی وجہ سے یہ حد تواتر کو پہنچ گئی ہیں۔ اسی بنا پر آیت المواریث “ کی ان احادیث کے ساتھ تخصیص جائز ہوگی۔ اس سلسلے میں قتل عمد اور قتل خطا کا ارتکاب کرنے والوں کے درمیان حکم کے اندر یکسانیت پر وہ روایتیں دلالت کرتی ہیں جو حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت ابن عباس سے مروی ہیں اور ا ن کے متعلق ان حضرات کے ہمسر صحابہ کرام کا ان سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اگر صحابہ کرام کا کوئی ایسا قول جو اپنے شیوع اور استفاضہ کے اعتبار سے زیر بحث قول کی طرح ہو تو اس پر تابعین کے قول کے ذریعے اعتراض کرنا جائز نہیں ہے۔ امام مالک نے جب اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ قاتل مقتول کی دیت میں سے کسی چیز کا وارث نہیں ہوگا، تو پھر مقتول کے تمام اموال کے سلسلے میں یہی حکم ہونا کئی وجوہ کی بنا پر واجب ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ مقتول کی دیت مقتول ہی کا مال ہوتا ہے اور اس کی میراث قرار پاتا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کے تمام دیون اسی سے ادا کئے جاتے ہیں اور اس کی وصیت بھی اس سے پوری کی جاتی ہے اور اس کے ورثاء اللہ کے مقرر کردہ حصوں کی نسبت سے اس کے وارث قرار پاتے ہیں۔ جس طرح یہ ورثاء اس مقتول کے دیگر اموال سے مقررہ حصے حاصل کرتے ہیں۔ سا لئے جب سب کا اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ قاتل مقتول کی دیت میں کسی چیز کا وارث نہیں ہوگا تو حرمان کا یہ اصول اس کے دیگر تمام اموال میں بھی جاری ہونا ضروری ہے۔ جس طرح مقتول کی دیت سے وارث ہونے والا شخص اس کے دیگر تمام اموال میں بھی وارث ہوتا ہے اس بنا پر وراثت کے استحقاق کے اندر اس کے تمام اموال کا حکم اس کی دیت کے حکم کی طرح ہے۔ اسی طرح حرمان کے اندر بھی اس کے تمام اموال کا حکم اس کی دیت کے حکم کی طرح ہونا چاہیے۔ کیونکہ مقتول کا سارا مال بشمول دیت اس کے ورثاء کے حصوں کی نسبت سے ان کا حق بن جاتا ہے۔ نیز میراث سے مقتول کے دین کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھیے، جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ منقول اثر کے بمقضا قاتل مقتول کی دیت میں سے کسی چیز کا وارث نہیں ہوگا تو اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ اس کے دیگر تمام اموال کا حکم بھی یہی ہو، اس لئے کہ منقول اثر نے اپنے درود کے اندر ان میں سے کسی چیز کے درمیان فرق نہیں کیا ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ قتل خطا کا مرتکب دیت کے سوا مقتول کے دیگر اموال میں اس بنا پر وارث ہوگا کہ اس پر تہمت نہیں ہوگی کہ اس نے وارث بننے کے لئے اسے قتل کردیا تھا، حالانکہ یہی علت مقتول کی دیت کے اندر بھی موجود ہے کیونکہ دیت کی نسبت سے قاتل مذکورہ بالا تہمت سے اور بھی بعید ہوگا اس لئے امام مالک کی بیان کردہ علت کے بموجب قاتل کو مقتول کی دیت کے اندر بھی وارث ہونا چاہیے۔ اس مسئلے کی ایک اور جہت بھی ہے وہ یہ کہ فقہاء کے درمیان اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قتل عمد اور قتل شبہ عمد کے اندر قاتل، مقتول کے دیگر تمام اموال میں اسی طرح وارث نہیں ہوگا جس طرح اس کی دیت میں وارث نہیں قرار پائے گا۔ اس لئے قتل خطا کے قاتل کا بھی یہی حکم ہونا ضروری ہے، کیونکہ قتل خطا اور قتل عمد دونوں کے قاتل مقتول کی دیت کے اندر وراثت سے محروم رہنے میں یکساں ہیں، نیز جب قتل عمد اور قتل شبہ عمد کے اندر قاتل کو اس بنا پر مقتول کی میراث سے محروم رکھا جاتا ہے کہ اس پر میراث سمیٹنے کی غرض سے قتل کے ارتکاب کی تہمت لگ جاتی ہے یہی بات قتل خطا کے اندر بھی موجود ہوت ی ہے، کیونکہ ایسی صورت میں یہ عین ممکن ہے کہ قاتل نے کسی اور کو نشانہ بنانے کا اظہار کر کے خود مقتول کو نشانہ بنانے کا قصد کیا ہو کہ قصاص کی زد میں آنے سے بچ جائے اور دوسری طرف میراث سے بھی محروم قرار نہ پائے۔ اس بناپر جب خطا کے اندر بھی تہمت کا پہلو موجود ہے، تو ضرور ی ہے کہ اسے بھی قتل عمد اور قتل شبہ عمد کے معنوں میں شمار کیا جائے، نیز قاتل کو مقتول کے بعض اموال میں وارث قرار دینا اور بعض میں وارث قرار نہ دینا اصول سے خارج بات ہے۔ اس لئے کہ اصول یہ ہے کہ جو شخص ترکہ کے بعض حصوں میں وارث ہو وہ پورے ترکہ میں وارث ہوگا اور جو اس کے بعض حصوں میں وراثت سے محروم ہو وہ پورے ترکہ میں وراثت سے محروم ہوگا۔ ہماریاصحاب نے بچے اور دیوانے کے بارے میں کہا ہے کہ قتل کی بنا پر یہ دونوں مقتول کی میراث کے اندر محروم قرار نہیں دیئے جائیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں مکلف، یعنی اہل تکلیف میں سے نہیں ہیں۔ میراث سے محرومی اصولاً تو سزا کے طور پر ہوتی ہے اور قتل خطا کا مرتکب اگرچہ سزا کا مستحق نہیں ہوتا لیکن اسے بھی قتل کے فعل کی سنگینی ظاہر کرنے کے لئے وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے کیونکہ ایسی صورت میں یہ بات عین ممکن ہوتی ہے کہ اس نے تیر چلا کر یا ضرب لگا کر مقتول کو ہی قتل کرنے کا قصد کیا ہو اور ظاہر یہ کیا ہو کہ اس نے مقتول کے سوا کسی اور کا قصد کیا تھا۔ اس لئے قتل کے اس فعل کو اس قاتل کے فعل قتل جیسا قرار دے دیا گیا جس کے متعلق یہ علم ہو کہ اس نے قصداً مقتول کو قتل کیا تھا۔ جہاں تک بچے اور دیوانے کا تعلق ہے تو وہ قصاص کے مستحق نہیں ہوتے خواہ انہوں نے جس صورت کے تحت بھی قتل کا ارتکاب کیا ہو۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے :” تین آدمیوں سے قلم مرفوع ہے، یعنی انہیں سزا نہیں دی جائے گی۔ نائم یعنی سوئے ہوئے شخص سے جب تک وہ بیدار نہ ہوجائے، دیوانے سے جب تک اسے دیوانگی سے افاقہ نہ ہوجائے اور بچے سے جب تک وہ بالغ نہ ہوجائے۔ “ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا حدیث کا ظاہر ہر اعتبار سے ایسے لوگوں کے فعل قتل کے حکم کے سرے سے سقوط کا مقتضی ہے اور اگر دلالت قائم نہ ہوتی تو دیت کا وجوب بھی نہ ہوتا۔ اگر یہاں کوئی یہ کہے کہ اگر نائم کسی بچے پر لاٹ کر گرے اور اس کی جان لے لے، تو وہ میراث سے محروم ہوجاتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا شخص بھی قتل خطا کے مرتکب جیسا ہوتا ہے کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ اس نے سونے والی حالت ظاہر کی ہو، لیکن حقیقت میں سویا ہوا نہ ہو۔ امام شافعی نے فرمایا ہے کہ اگر عادل آدمی باغی کو قتل کر دے تو وہ وراثت سے محروم ہوجائے گا ہمیں اس قول کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کیونکہ ایسی صورت میں عادل آدمی باغی کو ناحق قتل نہیں کرتا، بلکہ حق کے تحت اس کی جان لیتا ہے۔ باغی تو پہلے ہی سے قتل ہونے کا مستحق تھا اس لئے اس کے قاتل کو میراث سے محروم کردینا جائز نہیں ہوگا۔ ہمیں اس امر میں کوئی اختلاف نظر نہیں آیا کہ اگر ایک شخص کے لئے کسی سے قصاص لینا واجب ہو اور وہ اسے قصاص میں قتل کر دے تو قاتل میراث سے محروم نہیں ہوتا۔ نیز اگر عادل شخص کا باغی کو قتل کردینا اسے میراث سے محروم کردینے کا سبب ہوتا تو اس سے یہ ضروری ہوجاتا کہ اگر مذکورہ مقتول محارب ہونے کی بنا پر سزا کے طور پر مستحق قتل ہوتا تو اس کی میراث مسلمانوں کو نہ ملتی۔ اس لئے کہ امام وقت مسلمانوں کی جماعت کے قائم مقام ہوتا ہے اور اسی حیثیت میں وہ محارب کے قتل کا حکم جاری کرتا ہے جس کے نتیجے میں یہ صورت پیدا ہوجاتی ہے کہ گویا مسلمانوں کی جماعت نے ہی اسی محارب کو قتل کیا تھا، لیکن جب مسلمانوں کی جماعت ہی مذکورہ مقتول یعنی محارب کی میراث کی مستحق ہوتی ہے اگرچہ امام وقت اسے قتل کرنے میں مسلمانوں کے قائم مقام ہوتا ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ جو شخص حق کے تحت کسی کو قتل کرتا ہے وہ مقتول کی میراث سے محروم قرار نہیں پاتا۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص ایک کنواں کھودے یا راستے پر کوئی بڑا سا پتھر رکھ دے اور پھر کوئی شخص کنوئیں میں گر کر یا پتھر سے ٹکرا کر ہلاک ہوجائے تو مذکورہ شخص مقتول کی میراث سے محروم نہیں ہوگا کیونکہ وہ حقیقت میں قاتل نہیں ہوتا اس لئے کہ وہ اس قتل کا فاعل نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسے سبب کا باعث بنتا ہے جو مقتول سے متصل ہو۔ اس کی دلیل یہ امر ہے کہ قتل کی تین صورتیں ہوتی ہیں، عمد، خطا اور شبہ عمار اور کنواں کھودنے والا نیز پتھر رکھنے الا ان تینوں صورتوں کے دائرے سے خارج ہوتا ہے۔ اگر یہاں یہ کہا جائے کہ کنواں کھودنا اور پتھر رکھنا قتل کا سبب ہوتا ہے جس طرح تیز چلانے والا اور زخمی کردینے والا دونوں اس بنا پر قاتل شمار ہوت یہیں کہ وہ قتل کے سبب کا باعث ہوتے ہیں۔ اس کے جواب میں کہ اجائے گا کہ نیز پھینکنا تیر انداز کا فعل ہوتا ہے اور اس کی انتہا قتل پر ہوتی ہے۔ اسی طرح زخمی کرنا اس کے فاعل کا فعل ہوتا ہے۔ اس لئے وہ قاتل شمار ہوتا ہے کیونکہ اس کا یہ فعل مقتول کے متصل ہوتا ہ جب کہ کنوئیں میں لڑھک کر گر جانا یا پتھر سے ٹھوکر کھانا کنواں کھودنے والے کا فعل نہیں ہوتا اس لئے انہیں قاتل شمار کرنا جائز نہیں ہوتا۔
Top