Tafseer-e-Mazhari - Al-Kahf : 94
وَ جَعَلْنٰهُمْ اَئِمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْهِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ وَ اِقَامَ الصَّلٰوةِ وَ اِیْتَآءَ الزَّكٰوةِ١ۚ وَ كَانُوْا لَنَا عٰبِدِیْنَۚۙ
وَجَعَلْنٰهُمْ : اور ہم نے انہیں بنایا اَئِمَّةً : (جمع) امام (پیشوا) يَّهْدُوْنَ : وہ ہدایت دیتے تھے بِاَمْرِنَا : ہمارے حکم سے وَاَوْحَيْنَآ : اور ہم نے وحی بھیجی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف فِعْلَ الْخَيْرٰتِ : نیک کام کرنا وَ : اور اِقَامَ : قائم کرنا الصَّلٰوةِ : نماز وَاِيْتَآءَ : اور ادا کرنا الزَّكٰوةِ : زکوۃ وَكَانُوْا : اور وہ تھے لَنَا : ہمارے ہی عٰبِدِيْنَ : عبادت کرنے والے
ان لوگوں نے کہا ذوالقرنین! یاجوج اور ماجوج زمین میں فساد کرتے رہتے ہیں بھلا ہم آپ کے لئے خرچ (کا انتظام) کردیں کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار کھینچ دیں
قالوا یذالقرنین ان یاجوج وماجوج مفسدون فی الارض انہوں نے کہا اے ذوالقرنین یاجوج و ماجوج ہمارے ملک میں آکر تباہی مچاتے ہیں۔ یعنی قتل و غارت کرتے اور ہماری کھیتیوں کو اجاڑ دیتے ہیں۔ کلبی نے کہا موسم بہار میں یاجوج و ماجوج گھس آتے تھے۔ تمام سبز چیزوں (سرسبز کھیتیوں اور پھلوں ترکاریوں) کو تو کھالیتے تھے اور خشک چیزوں کو اٹھا کر اپنے ملک میں لے جاتے تھے ‘ ان لوگوں کو ان سے بڑا دکھ پہنچتا تھا ‘ بعض نے کہا وہ آدم خور تھے آدمیوں کو کھا جاتے تھے۔ یاجوج و ماجوج عجمی لفظ ہیں ‘ بعض کے نزدیک عربی ہیں عرب بولتے ہیں آج الظلم یعنی اَسْرَعَ بغوی نے لکھا ہے یہ دونوں لفظ اجیج النار ( آگ کا شعلہ ‘ بھڑک ‘ شرارہ) سے ماخوذ ہیں کثرت تعداد کی وجہ سے ان کو آگ کے شعلوں اور چنگاریوں سے تشبیہ دی گئی۔ بغوی نے لکھا ہے یاجوج و ماجوج یافث بن نوح کی نسل سے ہیں۔ ضحاک نے کہا وہ ترکوں کی ایک نسل ہے سدی نے کہا ترک یاجوج کا ایک فوجی دستہ تھا جو (پہاڑوں سے ورے) نکل آیا تھا ‘ جب ذوالقرنین نے دیوار (سد) بنا دی تو وہ دستہ پہاڑوں سے ادھر ہی رہ گیا تمام ترک اسی کی نسل سے ہیں۔ قتادہ نے کہا یاجوج کے 22 قبائل تھے ذوالقرنین نے سد بنائی تو ایک قبیلہ ادھر ہی رہ گیا 21 قبائل ادھر چلے گئے اسی ایک قبیلہ کو ترک کہا جاتا ہے کیونکہ سد سے ورے اس کو ترک کردیا (چھوڑ دیا) گیا تھا۔ اہل تاریخ نے لکھا ہے حضرت نوح ( علیہ السلام) کے تین بیٹے تھے سام حام یافث سارے عرب فارس اور روم والے سام کی نسل سے ہیں اور حام کی نسل سے حبش زنج اور نوبہ کے لوگ ہیں (یعنی سارا افریقہ حام کی نسل سے ہے) اور یافث کی نسل سے ترک خرز صعالیہ اور یاجوج و ماجوج ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ : کا قول عطا کی روایت میں آیا ہے کہ سارے آدمی تو ایک حصہ ہیں اور یاجوج و ماجوج دس حصے (یعنی یاجوج و ماجوج کی تعداد باقی انسانوں سے دس گنا زائد ہے) حضرت حذیفہ ؓ : کی مرفوع روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یاجوج (ایک الگ) قوم ہے اور ماجوج (دوسری) قوم ہے ہر ایک کی تعداد چار سو ہزار (چار لاکھ) ہے وہ سب آدم کی اولاد ہیں ان میں سے کوئی بھی اس وقت تک نہیں مرتا جب تک اپنی پشت (یعنی نسل) سے پیدا شدہ ایک ہزار آدمی ایسے نہ دیکھ لے جو ہتھیار اٹھانے کے قابل ہوں (یعنی جوان ہوں) یہ لوگ غیر آباد دنیا کی طرف پھیلتے جائیں گے۔ میں کہتا ہوں شاید حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب ذوالقرنین نے دیوار بنوائی تھی اور یاجوج و ماجوج کی ادھر آنے سے بندش کردی تھی تو اس وقت ان کے دو گروہ تھے ‘ ہر گروہ کی تعداد چار لاکھ تک پہنچ چکی تھی اس کے بعد کتنی ہوگی تو ظاہر ہے کہ جب ہر شخص اپنی نسل کے ایک ہزار آدمی چھوڑ کر مرتا ہے تو ان کی گنتی کون کرسکتا ہے۔ (یَسِیْرُوْنَ اِلٰی خَرَاب الدُّنْیَاکا ایک ترجمہ تو وہ ہے جو اس فقیر مترجم نے کیا ‘ دوسرا ترجمہ حضرت مفسر نے فرمایا کہ) یَسِیْرُوْنَ اِلٰی خَرَاب الدُّنْیَاکا یہ معنی ہے کہ قیامت کے قریب وہ سد کو توڑ کر نکلیں گے اور ویران دنیا کی طرف آئیں گے (یہ فقیر اس ترجمہ کو بعید از فہم جانتا ہے) واللہ اعلم۔ بغوی نے لکھا ہے یاجوج و ماجوج تین طرح ہیں ایک قسم تو درخت ارز کے برابر ہے ان میں سے ہر شخص کا قد ایک سو بیس ہاتھ لمبا ہے دوسری قسم کا طول و عرض برابر ہوتا ہے 130 ہاتھ لمبا اور اتنا ہی چوڑا ان کے سامنے کوئی پہاڑ بھی نہیں ٹھہر سکتا۔ تیسری قسم وہ ہے جو ایک کان بچھاتے اور ایک کان اوڑھتے ہیں (قیامت کے قریب جب یہ برآمد ہوں گے تو) جو گھوڑا یا خنزیر یا جنگلی وحشی جانور ان کے سامنے آجائے گا اس کو بغیر کھائے نہیں چھوڑیں گے ‘ ان میں سے جو کوئی مرجاتا ہے اس کو کھالیتے ہیں ان کا اگلا دستہ شام میں اور پچھلا حصہ خراسان میں ہوگا۔ مشرق کے (تمام) دریاؤں اور بحیرۂ طبریہ (بحیرۂ مردار) کا پانی پی جائیں گے۔ بغوی نے لکھا ہے حضرت علی ؓ نے فرمایا ان میں سے بعض کا طول ایک بالشت اور عرض ایک ہاتھ ہے اور بعض بہت زیادہ لمبے ہیں۔ کعب احبار نے کہا وہ اولاد آدم میں ایک عجیب مخلوق ہیں ایک روز حضرت آدم کو احتلام ہوا اور نطفہ مٹی کے ساتھ مخلوط ہوگیا اس نطفہ سے اللہ نے یاجوج و ماجوج کو پیدا کردیا وہ باپ کی طرف سے تو ہمارے (علاتی) بھائی ہیں لیکن ہماری ماں کی نسل سے نہیں ہیں۔ بغوی نے وہب بن منبہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ذوالقرنین رومی تھا اور ایک بڑھیا کا بیٹا تھا جوان ہوا تو نیک مؤمن بندہ ہوا اور اللہ نے اس سے فرمایا ‘ میں تجھے ایسی قوموں (کی اصلاح) کے لئے بھیجوں گا ‘ جن کی زبانیں مختلف ہوں گی ان میں سے دو قومیں ایسی ہوں گی جن کے درمیان پوری زمین کے طول کا فاصلہ ہوگا ایک غروب آفتاب کے مقام پر ہوگی جس کو ناسک کہا جائے گا اور دوسری سورج نکلنے کے مقام پر ہوگی جس کو منسک کہا جائے گا اور دو قومیں اور ہوں گی جن کے درمیان پوری زمین کا عرض فاصل ہوگا جنوب کی طرف والی قوم کو ہاویل کہا جائے گا اور شمالی والی کو قاویل ‘ باقی اقوام وسط ارض پر آباد ہوں گی جن میں جنات بھی ہوں گے اور انسان بھی اور یاجوج و ماجوج بھی۔ ذوالقرنین نے عرض کیا پھر کس قوم کو ساتھ لے کر میں ان سے قوت و کثرت میں مقابلہ کروں گا اور کس زبان میں ان سے گفتگو کروں گا ‘ اللہ نے فرمایا میں تجھے طاقت عطا کروں گا ‘ تیری زبان میں پھیلا دؤں گا اور تیرا بازو مضبوط کر دوں گا تجھے کوئی چیز خوف زدہ نہ کرے گی تجھے ہیبت کا لباس پہناؤں گا کہ تجھے کوئی شے روک نہ سکے گی ‘ میں نو رو ظلمت کو تیرا فرماں بردار بنا دوں گا اور دونوں کو تیرا مددگار کر دوں گا۔ نور تجھے آگے آگے راستہ دکھائے گا اور تاریکی پیچھے پیچھے سے تجھے گھیرے میں لیتی رہے گی۔ حسب الحکم ذوالقرنین چل دیا اور آفتاب کے غروب ہونے کے مقام تک پہنچ گیا۔ وہاں اس کو دشمنوں کی ایک جماعت ملی جو بیشمار تھی ان کی گنتی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا۔ ذوالقرنین نے ظلمت سے مدد لے کر ان سے مقابلہ کیا سب کو ایک جگہ جمع کر کے اللہ کی عبادت کی ان کو دعوت دی کچھ لوگوں نے دعوت کو مان لیا کچھ کترا گئے جو لوگ روگرداں ہوگئے ان پر ذوالقرنین نے ظلمت کو مسلط کردیا تاریکی ان کے پیٹوں اور گھروں کے اندر گھس گئی ‘ آخر وہ ذوالقرنین کی دعوت میں داخل ہوگئے ‘ اسی جگہ مغرب والوں کا ذوالقرنین نے ایک لشکر تیار کیا اور اس کو ساتھ لے کر ہاویل (جنوبی قوم کے پاس پہنچ گیا اور یہاں بھی وہی سلوک کیا جیسا ناسک کے ساتھ کیا تھا پھر منسک کی طرف گیا جو طلوع آفتاب کے مقام کے قریب آباد تھے ‘ یہاں پہنچ کر ذوالقرنین اور اس کے لشکر نے وہی عمل کیا جو مذکورہ دونوں قوموں کے ساتھ کرچکا تھا ‘ پھر قاویل (شمالی قوم) کی طرف رخ کیا اور ان سے بھی وہی معاملہ کیا جو مندرجہ بالا اقوام کے ساتھ کیا تھا ‘ اس کے بعد وسطی اقوام کی طرف توجہ کی مشرقی جانب ترکوں کی سرحد پر پہنچا تو وہاں نیک ایمان دار آدمیوں کا ایک گروہ اس کے پاس آیا اور کہا ذوالقرنین ان دونوں پہاڑوں کے درمیان ایک مخلوق ایسی ہے جو بہائم (چوپایوں) کی طرح ہے اور درندوں کی طرح ان کے نوکیلے دانت اور کچلیاں ہیں سانپوں اور بچھوؤں کو کھا جاتے ہیں اور گھوڑوں گدھوں اور جنگلی جانوروں کو پھاڑ کھاتے ہیں ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ کسی مخلوق کی اتنی تعداد نہیں ہے اور اتنی ہی ان کی افزونی ہے کہ کسی مخلوق کی نہیں ہے وہ ہماری سرزمین پر آجاتے ہیں تسلط جماتے ہیں اور تباہی مچاتے ہیں کیا ہم آپ کے لئے چندہ کر کے رقم جمع کردیں کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک بندھ بنا دیں ‘ ذوالقرنین نے کہا میرے رب نے جو مجھے طاقت و دولت وغیرہ) عطا فرمائی ہے وہ (تمہارے چندہ سے) بہتر ہے تم لوگ میرے لئے پتھر کی چٹانیں اور لوہا اور تانبا فراہم کر دو اور میں جا کر ان کے حالات معلوم کرتا ہوں۔ یہاں سے ذوالقرنین ان لوگوں کے احوال دریافت کرنے کے لئے چلا اور ان کی بستیوں کے اندر داخل ہوگیا۔ اس نے دیکھا کہ سب لوگ ایک ہی قد کے ہیں ہمارے متوسط القامت آدمی کے طول سے ان کا طول قامت آدھا ہے ان کے پنجے اور نوکیلے دانت اور کچلیاں درندوں کی طرح ہیں اور سارے بدن پر سخت بال اتنی کثرت سے ہیں کہ جسم کو چھپائے ہوئے ہیں۔ سردی گرمی سے بچاؤ ان کو ان بالوں ہی کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے۔ ہر شخص کے دو بڑے بڑے کان ہیں ایک کان بچھاتا ہے ایک اوڑھتا ہے ان کانوں ہی سے موسم گرما اور سرما میں کام چلاتا ہے ‘ جہاں جمع ہوتے ہیں آپس میں جانوروں کی طرح جماع کرتے ہیں ‘ ذوالقرنین یہ کیفیت دیکھ کر لوٹ آیا اور دونوں پہاڑوں کے درمیان پہنچ کر اس نے پیمائش کی پھر پانی تک بنیاد کھدوا کر پتھر کی چٹانوں سے اس کو بھر دیا اور تانبا پگھلا کر اس سے مصالحہ کا کام لیا ‘ اس طرح دیوار مکمل ہوگئی ‘ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ زمین کے نیچے سے ایک پہاڑ پھوٹ آیا ہے ‘ (یہ سب اسرائیلی خرافات ہیں۔ بیضاوی) ۔ فہل نجعل لک خرجا علی ان تجعل بیننا وبینہم سدا۔ سو کیا ہم لوگ آپ کے لئے کچھ چندہ جمع کردیں اس شرط پر کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی روک بنا دیں (کہ وہ ہماری طرف نہ آسکیں) خَرْجاور خراج دونوں ہم معنی ہیں ‘ مزدوری اجرت۔ ابو عمرو نے کہا خراج وہ چیز ہے جس کا ادا کرنا تم پر لازم ہو اور خرج وہ چیز ہے جس کو دے کر تم دوسرے کو راغب بناتے ہو۔ بعض نے کہا خراج زمین کا ٹیکس اور خرج فی کسی شخصی ٹیکس ہوتا ہے۔ عرب کہتے ہیں ادخرج راسک وخراج مدینتک اپنی ذات کا خرب (پرسن ٹیکس) ادا کرو اور اپنے شہر کا خراج۔ بعض نے کہا جو چیز زمین پر لازم ہو یا شخصی طور پر وہ خراج ہے اور خرج مصدر ہے۔ سداً یعنی ایسی دیوار اور بندش کہ یاجوج و ماجوج پھر ادھر نہ آسکیں۔
Top