Ahkam-ul-Quran - Al-Hajj : 28
لِّیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَ یَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ١ۚ فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِیْرَ٘
لِّيَشْهَدُوْا : تاکہ وہ آموجود ہوں مَنَافِعَ : فائدوں کی جگہ لَهُمْ : اپنے وَيَذْكُرُوا : وہ یاد کریں (لیں) اسْمَ اللّٰهِ : اللہ کا نام فِيْٓ : میں اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ : جانے پہچانے (مقررہ) دن عَلٰي : پر مَا : جو رَزَقَهُمْ : ہم نے انہیں دیا مِّنْ : سے بَهِيْمَةِ : چوپائے الْاَنْعَامِ : مویشی فَكُلُوْا : پس تم کھاؤ مِنْهَا : اس سے وَاَطْعِمُوا : اور کھلاؤ الْبَآئِسَ : بدحال الْفَقِيْرَ : محتاج
تاکہ اپنے فائدے کے کاموں کے لئے حاضر ہوں اور (قربانی کے) ایام معلوم میں چہار پایاں مویشی (کے ذبح کے وقت) جو خدا نے ان کو دیے ہیں ان پر خدا کا نام لیں اس میں سے تم بھی کھاؤ اور فقیر درماندہ کو بھی کھلاؤ
حج کے اندر تجارت کرنے کا بیان قول باری ہے (لیشھد وا منافع لھم تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو ان کے لئے یہاں رکھے گئے ہیں) ابن ابی نجیع نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ اس سے تجارت مراد ہے۔ نیز وہ تمام امور مراد ہیں جن کا دنیا اور آخرت سے تعلق ہوتا ہے۔ عاصم بن ابی النجود نے ابو ر زین سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے کہ منافع سے وہ منڈیاں مراد ہیں جو لگا کرتی تھیں، منافع کا ذکر صرف دنیا کے سلسلے میں ہوتا ہے۔ ابو جعفر سے مروی ہے کہ منافع سے مغفرت اور بخشش مراد ہے۔ اصل مقصود دینی منافع ہیں دنیاوی منافع بالتبع ہیں ابوبکر جصاص کہتے ہیں ظاہر آیت اس امر کا موجب ہے کہ اس میں منافع دین مراد ہیں اگرچہ تجارت مراد لینا بھی جائز ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (واذن فی الناس بالحج یا توک رجالاً و علی کل ضامر یا تین من کل فج عمیق لیشھدوا منا فع لھم) یہ قول باری اس چیز کا مقتضی ہے کہ لوگوں کو بلایا گیا اور حج کا حکم دیا گیا تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے ان فوائد کا مشاہدہ کریں جو ان کے لئے رکھے گئے ہیں اب یہ بات محال ہے کہ اس سے صرف دنیاوی فوائد مراد لئے جائیں اس لئے کہ اگر یہ بات ہوتی تو حج کے لئے لوگوں کو بلانا دنیاوی منافع کی خاطر ہوتا حالانکہ حج نام ہے طواف وسعی کا، وقوف عرفات و مزدلفہ کا اور قربانی کے جانوروں کو ذبح کرنے اور دیگر مناسک کا۔ ان امور میں دنیاوی منافع بالتیع داخل ہیں اور دنیاوی منافع اٹھانے کی رخصت اور اجازت ہے یہ بات نہیں کہ دنیاوی منافع ہی مقصود بالحج ہیں۔ ارشاد باری ہے۔ (لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلاً من ربکم۔ تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو) اس آیت میں حج کے دوران تجارت کی رخصت و اجازت عطا کردی گئی ہے۔ اس سلسلے میں روایات کا ذکر ہم نے سورة بقرہ کی تفسیر کے موقع پر کردیا ہے۔ ایام معلومات کا بیان قوی باری ہے (ویذکروا اسم اللہ فی ایام معلومات علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام اور چند مقررہ دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں) حضرت علی اور حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ ایام معلومات سے یوم نحر (دسویں ذی الحجہ) اور بعد کے دو دن مراد ہیں۔ ان تین دنوں میں سے جس دن بھی چاہو قربانی ذبح کرلو۔ حضرت ابن عمر کا قول ہے ۔ ایام معلومات، ایام نحر ہیں اور ” ایام معدودات “ ایام تشریق ہیں۔ طحاوی نے اپنے شیخ احمد بن ابی عمرا ن سے اور انہوں نے بشر بن الولید لکندی القاضی سے روایت کی ہے کہ ابوالعباس طوسی نے امام ابویوسف سے ایام معلوم کے متعلق تحریری طور پر استفسار کیا۔ امام صاحب نے اس کے خط کا جو با مجھے ان الفاظ میں لکھوایا۔” ایام معلومات کی تفسیر میں صحابہ کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ حضرت علی اور حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ ان سے ایام النحر مراد ہیں اور میرا بھی یہی مسلک ہے۔ اس لئے کہ ارشاد باری ہے (علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام اور یہ بات ایام نحر میں ہوتی ہے ایام نحر سے ذی الحجہ کی دسویں گیارہوں اور بارہویں تاریخ مراد ہے) حضرت ابن عباس ، حسن اور ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ ایام معلومات سے ذوالحجہ کا پہلا عشرہ اور ایام معدودات سے ایام تشریق مراد ہیں۔ معمر نے قتادہ سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ ابن ابی لیلیٰ نے الحکم سے، انہوں نے مقسم سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ آپ نے قول باری (واذکروا اللہ فی ایام معلومات اور مقرر دنوں میں اللہ کو یاد کرو) کی تفسیر میں فرمایا کہ یوم النحر اور بعد کے مزید تین دن مراد ہیں۔ ابو الحسن الکرخی نے ذکر کیا ہے کہ احمد القاری نے امام محمد سے روایت کی ہے اور انہوں نے امام ابوحنیفہ سے کہ ایام معلومات ذی الحجہ کے دس دن ہیں۔ امام محمد سے مروی ہے کہ یہ ایام نحر ہیں یعنی یوم الاضحی (دسویں ذی الحجہ) اور بعد کے دو دن طحاوی نے ذکر کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ایام معلومات ذی الحجہ کے پہلے دس دن اور ایام معدودات ایام تشریق ہیں۔ لیکن ابو الحسن کرخی نے ان حضرات سے اس سلسلے میں جو روایت کی ہے وہ زیادہ صحیح ہے۔ ایک قول ہے کہ ایام تشریق کو ایام معدودات (گنتی کے چند دن) اس لئے کہا گیا ہے کہ ان کی تعداد قلیل ہے جس طرح یہ قول باری ہے (وشروہ بثمن بخس دراھم معدودۃ اور انہوں نے اسے تھوڑی سی قیمت پر چند درہمں کے عوض بیچ ڈلاا) اللہ تعالیٰ نے ان درہموں کی قلت تعداد پر انہیں محدود کے نام سے موسوم کیا۔ ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں کو معلومات اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کے ذریعے لوگوں کو ان کا علم اور ان کا حساب رکھنے پر ابھارا گیا ہے اس لئے کہ ان کے اوآخر میں حج کی ادائیگی ہوتی ہے۔ گویا ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اس ماہ کی ابتدا معلوم کرنے کے لئے اس کے ہلال کی جستجو کریں تاکہ ہم دس دنوں کا درست حساب رکھ سکیں اور اس طرح آخری دن یوم النحر واقع ہوجائے۔ اس کے ذریعے امام ابوحنیفہ کے مسلک کے حق میں استدلال کیا جاسکتا ہے کہ تکبیرات تشریق پہلے عشرہ کے دنوں کے اندر محدود ہوتا ہے ۔ یہ تکبیرات یوم عرفہ اور یوم النحر کو پڑھی جاتی ہیں اور یہ دونوں دن ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں دخل ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا (علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام) تو اس قول بایر کی اس امر پر دلالت ہوئی کہ ایام النحر مراد ہیں جیسا کہ حضرت علی سے مروی ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آی ت میں یہ احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ” لما رزقھم من بھیمۃ الانعام “ مراد لیا ہو جس طرح یہ قول باری ہے (لتکبروا اللہ علی ماھداکم ، تاکہ تم اس ہدایت کی بنا پر جو اس نے تمہیں دی اس کی کبریائی بیان کرو) اس کے معنی ” لما ھلاکم “ یا جس طرح ہم کہتے ہیں ” نشر اللہ علی نعمہ “ (ہم اللہ تعالیٰ نے اس سے یوم النحر مراد لیا ہو اس طرح قول باری (علی مارزقھم ) سے یوم النحر مراد ہے اور اس پر سالوں کی تکرار کی بنا پر یہ ایک یوم ایام بن گیا ہے۔ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ ایام نحر میں تمام ہدایا یعنی قربانی کے جانوروں کو ذبح کرنا دوسرے ایام کی بہ نسبت افضل ہے۔ خواہ یہ ہدایات نفلی ہوں یا شکار وغیرہ کے بدل اور سزا کے طور پر ہوں۔ ایام النحر ایام النحر کے متعلق اہل علم میں اخلتلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ اور بعد کے دو دن ایام نحر ہیں۔ امام شافعی کا قول ہے کہ دسویں تاریخ اور بعد کے تین دن ایام نحر ہیں اور یہی ایام تشریق بھی ہیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب کے قول کے مطابق حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر، حضرت انس بن مالک، حضرت ابوہریرہ، سعید بن جبیر اور سعید بن المسیب سے اقوال منقول ہیں۔ امام شافعی کے قول کے مطابق حسن بصری اور عطاء بن ابی رباح سے اقوال منقول ہیں۔ ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ نحر کے صرف دو دن ہیں جبکہ ابن سیرین کا قول ہے کہ نحر کا صرف ایک دن ہوتا ہے۔ یحییٰ بن ابی کثیر نے ابو سلمہ اور سلیمان بن یسار سے ان کا قول نقل کیا ہے کہ اضحیٰ یعنی قربانی کے ایام محرم کا چاند نکلتے تک ہوتے ہیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ درج بالا سطور میں ہم نے جن صحابہ کرام کے اقوال نقل کئے ہیں۔ ان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایام النحر تین دن ہیں۔ ان حضرات کا یہ قول بکثرت نقل ہوا ہے اب ان حضرات کے بعد آنے والوں کے لئے ان کے خلاف مسلک اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ ان حضرات کے ہم چشموں میں سے کسی سے بھی اس مسلک کے خلاف کوئی روایت منقول نہیں ہے۔ اس لئے اس کی حجیت ثابت ہوگئی ۔ نیز ایام نحر کی تعیین کا ذریعہ توقیف یعنی شرعی اور نقلی دلالت ہے یا پھر اتفاق امت کیونکہ اس تک رسائی قیاس کے ذریعے نہیں ہوسکتی۔ ہم نے جن صحابہ کرام کا ذکر کیا ہے جب اس بارے میں ان کا قول ہے کہ یہ تین دن ہیں تو یہی چیز ایام النحر کی تعیین کے لئے توقیف بن گئی۔ جس طرح ہم نے حیض کی مدت کی مقدار، نیز مہر کی مقدار اور نماز کی فرضیت کی تکمیل کے سلسلے میں تشہید کی مقدار نیز اسی قسم کی مقداروں کے متعلق ذکر کیا ہے جن کے اثبات کا ذریعہ یا تو توقیف ہے یا امت کا اتفاق ۔ جب اس بارے میں کسی ایک صحابی کا قول بھی مل جائے گا اس کی حجیت ثابت ہوجائے گی تو اسے توقیف قرار دیا جائے گا۔ نیز ایام النحر اور ایام التشریق میں فرق کا ثبوت ہوگیا ہے اس لئے کہ ایام النحر اگر ایام التشریق ہوتے تو پھر ان کے درمیان کوئی فرق نہ ہوتا۔ اور ان میں سے ایک کا ذکر دوسرے کے ذکر کے قائم مقام بن جاتا ۔ جب ہم نے یوم النحر اور ایام تشریق میں رمی جمار کا عمل پایا اور یوم النحر میں جانوروں کے ذبح کا عمل دیکھا پھر کچھ لوگوں نے یہ کہا کہ ایام النحر ایام التشریق کے آخر تک رہتے ہیں جبکہ ہم نے کہا کہ یوم النحر کے بعد دو دنوں تک نحر کے ایام ہیں تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ ہم ان دونوں کے درمیان ضرور فرق کریں تاکہ ان دونوں پر دلالت کرنے والے الفاظ میں سے ہر ایک کا علیحدہ فائد ہ حاصل ہو۔ وہ اس طرح کہ ایام التشریق کا ایک دن ایسا ہو جس کا ایام النحر میں شمار نہ ہوتا ہو اور یہ ایام التشریق کا آخری دن ہے۔ ایام التشریق جن حضرات کے نزدیک ایام تشریق کے آخری دن یعنی تیرہویں ذی الحجہ تک قربانی کا جواز ہے انہوں نے اس روای ت سے استدلال کیا ہے جسے سلیمان بن موسیٰ نے ابن ابی الحسین سے ، انہوں نے حضرت جبیر بن مطعم سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : عرفات کا سارا میدان موقف یعنی کھڑے ہونے کی جگہ ہے لیکن بطن عرفہ سے پرے پرے رہو۔ سارا مزدلفہ مئوقف ہے لیکن وادی محسر سے پرے پرے رہو۔ مکہ کے تمام راستے اور کوچے قربانی کے جانور ذبح کرنے کی جگہیں ہیں اور تشریق کے تمام ایام ذبح کے ایام ہیں۔ “ امام احمد بن حنبل سے اس حدیث کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ ابن ابنی حسین کا حضرت جبیر بن مطعم سے سماع ثابت نہیں ہے اور ابن ابی حسین کی اکثر روایتوں میں سہو واقع ہوگیا ہے۔ ایک قول کے مطابق اس روایت کی اصل وہ روایت ہے جسے محزمہ بن بکیرین عبد اللہ بن الاشجع نے اپنے والد سے نقل کی ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے اسامہ بن زید کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے عبداللہ بن ابی حسین کو سنا تھا کہ وہ عطاء بن ابی باح کی طرف سے بیان کر رہے تھے اور عطا وہاں موجود تھے اور عبد اللہ کی بات سن رہے تھے۔ عطاء کا کہنا تھا کہ ہمیں نے حضرت جابربن عبداللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا منحر ہیں۔ “ اصل روایت یہ ہے اس میں یہ بات مذکور نہیں ہے کہ ” تشریق کے تمام ایام ذبح کے ایام ہیں “ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جس روایت میں یہ ا لفاظ مذکور ہیں وہ یا تو حضرت جبیر بن مطعم کا اپنا کلام ہے یا ان سے نیچے کسی راوی کا اس لئے کہ حضرت جابر بن عبداللہ نے ان الفاظ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ نیز جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ نحر عمل ان دنوں میں ہوگا جن پر ایام کے اسم کا اطلاق ہوتا ہو اور یہ بات واضح ہے کہ ایام کے اسم کا کم از کم تین دنوں پر طلاق ہوتا ہے جیسا کہ اسم جمع کے اطلاق کا قاعدہ ہے اس لئے ضروری ہوگیا کہ تین دنوں کا ثبوت ہوجائے ، رہ گیا اس سے زائد دن تو چونکہ اس پر کوئی دلالت قائم نہیں اس لئے اس کا ثبوت نہیں۔ ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنے کا بیان قول باری ہے (ویذکرو اسم اللہ فی ایام معلومات علی ، راز قھم من بھیمۃ الانعام اور چند مقررہ دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں ج اس نے انہیں بخشے ہیں اگر آیت میں مذکورہ ذکر اللہ سے ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا مراد ہے تو یہ چیز اس پر درست کرتی ہے کہ جانور پر شرعی ذبح کے لئے بسم اللہ پڑھنا بھی یک شرط ہے۔ اس لئے کہ آیت اس کے وجوب کی مقتضی ہے ۔ وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (واذن فی الناس رب الحج) تا قول باری الشھدو منافع لھم ویذکروا اسم اللہ فی ایام معلومات ) منافع حج کے ان مناسک کا نام تھا جن کی ادائیگی احرام کی بنا پر واجب ہوگئی تھی۔ اس لئے ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا کلبی واجب ہونا چاہیے کیونکہ حج کے لئے حضرت ابراہیم ع لیہ السلام کی طرف سے اعلا ن عام جس طرح تمام مناسک حج پر مشتمل تھا اسی طرح جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنے پر بھی مشتمل تھا۔ اگر تسمیہ سے وہ ذکر اللہ مراد ہے جو رمی جمار کے موقعوں پر کیا جاتا ہے یا تکبیرات تشریق کی صورت میں ہوتا ہے، تو ان صورتوں میں ذکر اللہ کے وجوب پر آیت کی دلالت ہوگی۔ اگر یہ تمام معافی مراد لے لئے جائیں تو اس میں کوئی امتناع نہیں ہے۔ یعنی حج قران اور حج تمتع کے احرام کی بنا پر واجب ہونے والی قربانی ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا، اسی طرح احرام کی وجہ سے کسی قسم کے دم یعنی قربانی کے وجوب کی صورت میں ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا نیز تکبیرات تشریق کہنا اور رمی جمار کے موقعہ پر ذکر اللہ کرنا یہ تمام صورتیں مراد لے لی جائیں اس لئے کہ آیت میں ان تمام صورتوں کے مراد ہونے میں کوئی امتناع نہیں ہے۔ معمر نے ایوب سے، انہوں نے نافع سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عمر جب قربانی کا جانور ذبح کرتے تو ” لا الہ الا اللہ واللہ اکبر “ کہتے ہیں۔ اعمش نے ابو ظبیان سے روایت کی ہے انہوں نے حضرت ابن عباس سے پوچھا کہ آپ نحر کرتے وقت کیا پڑھتے ہیں ؟ حضرت ابن عباس نے جواب میں فرمایا کہ میں ” اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ “ پڑھتا ہوں۔ سفیان نے ابوبکر الزبیدی سے اور انہوں نے عاصم بن شریف سے روایت کی ہے کہ حضرت علی نے دسویں ذی الحجہ کو ایک مینڈھا ذبح کیا اور اس موقع پر یہ دعا پڑھی ۔ بسم اللہ واللہ اکبر اللھم منک ولک ومن علی لک (اللہ کے نام کے ساتھ اللہ سب سے بڑا ہے، اے اللہ۔ یہ قربانی تیری ہی طرف سے اور تیرے ہی لئے ہے اور مجھ پر تیرا احسان ہے۔ قربانی کا گوشت کھانے کا بیان قول باری ہے (ویذکروا اسم اللہ فی ایام معلومات علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام فکلوا منھا اور چند مقررہ دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں۔ خود بھی کھائیں) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت کھانے کے ایجاب کی مقتضی ہے تاہم سلف کے تمام حضرات اس امر پر متفق ہیں کہ قربانی کا گوشت کھانا واجب نہیں ہے اس لئے کہ قول باری (علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام) سے یا تو اضاحی (دسویں ذی الحجہ کو ذبح ہونے والے جانور) حج تمتع اور حج قران کی قربانیاں اور نفلی قربانی مراد ہے یا وہ جانور مراد ہیں جن کی قربانی محرم کے کسی خلاف احرام فعل پر واجب ہوتی ہے مثلاً شکار پکڑنے کی سزا کے طور پر واجب ہونے والی قربانی وغیرہ نیز محرم کا سلا ہوا لباس پہن لینا، خوشبو لگا لینا، تکلیف کی بنا پر سر کے بال اتروا لینا یا احصار کی حالت میں آ جانا ویرہ کی صورتوں میں واجب ہونے والی قربانیاں، جرمانوں اور سزائوں کی صورت میں واجب ہونے والی قربانیوں کا گوشت کھانا ممنوع ہے۔ قران اور تمتع کی قربانیوں نیز نفلی قربانی کا گوشت کھانا واجب نہیں ہے اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمتع اور قران کی قربانیوں کے متعلق لوگوں کے دو اقوال ہیں ایک قول کے مطابق گوشت کھانے کی اجازت نہیں ہے اور دوسرے قول کے مطابق گوشت کھانے کی اباحت ہے لیکن واجب نہیں ہے۔ سلف اور ان کے بعد آنے والے فقہاء کے مابین اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قول باری (فکلوا منھا) کا حکم وجوب پر محمول نہیں ہے۔ عطاء بن ابی رباح ، حسن بصری، ابراہیم نخعی اور مجاہد کا قول ہے کہ اگر چاہے تو کھالے اور اگر چاہے تو نہ کھائے۔ مجاہد کا قول ہے کہ اس حکم کی نہ ہی حیثیت ہے جو قول باری صواذا احللتم فاصطادوا اور جب تم احرام کھول دو تو شکار کرو) کے حکم کی ہے۔ ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ مشرکین قربانی کے اونٹوں کا گوشت نہیں کھاتے تھے۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی (فکلوا منھا) اب قربانی کرنے والا اگر چاہے تو گوشت کھالے اور اگر چاہے تو نہ کھائے۔ یونس بن بکیر نے ابوبکر الہذلی سے اور انہوں نے حسن بصری سے روایت کی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ قربانی کا جانور ذبح کرتے تو اس کے خون سے کعبہ کی دیواروں کو ترکہ دیتے اور گوشت کے ٹکڑے کر کے انہیں پتھروں اور چٹانوں پر رکھ دیتے اور یہ کہتے کہ جس جانور کو ہم نے اللہ کے لئے خاص کردیا اس میں سے کچھ لینا ہمارے لئے درست نہیں ہے البتہ اس کا گوشت درندے اور پرندے کھا لیں تو کھالیں جب اسلام آیا تو لوگوں نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ زمانہ جاہلیت میں قربانی کے گوشت کو ہم اس طرح ٹھکانے لگاتے تھے، اب بھی ہم ایسا ہی کرلیں کیونکہ یہ تو اللہ کے لئے ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی (فکلوا منھا واطعموا البائس الفقیر۔ خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں) حضور ﷺ نے ان سے فرمایا کہ ” اب ایسا نہ کرو اس لئے کہ یہ اللہ کا نہیں ہوتا۔ “ حسن کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے قربانی کا گوشت کھانا ان پر لازم نہیں کردیا اگر تمہاری مرضی ہو تو کھالو ورنہ نہ کھائو۔ حضور ﷺ کے متعلق یہ مروی ہے کہ آپ نے قربانی کا گوشت کھایا تھا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت اس امر کا مقتضی ہے کہ اس میں مذکورہ جانور جن کو ذبح کرتے وقت ہمیں بسم اللہ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے وہ حج قران اور حج تمتع کی بنا پر ذبح ہونے والے جانور ہیں۔ آیت کم از کم دم قران، دم تمتع اور قربان کئے جانے والے دوسرے تمام جانوروں کو شامل ہے ۔ اگرچہ اس کا ظاہر دم قران اور دم تمتع کا مقتضی ہے۔ اس کی دلیل نسق تلاوت میں یہ قول باری ہے (فکلوا منھا واطعموا البائس الفقیر ثم لیقضوا تفثھم ولیو فوا نذور ھم ولیطوفوا بالبیت العتیق۔ خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذر پوری کریں اور اس قدیم گھر کا طواف کریں) آیت میں مذکورہ افعال پر دم قران اور دم تمتع کے سوا اور کوئی قربانی مترتب نہیں ہوتی اور لازم نہیں آتی۔ کیونکہ تمام قربانیاں ان افعال سے قبل اور ان کے بعد دینا جائز ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت سے قران اور تمتع کی قربانیاں مراد ہیں۔ امام شافعی کا خیال ہے کہ قران اور تمتع کی قربانیوں کا گوشت نہیں کھایا جائے گا لیکن ظاہر آیت ان کے اس قول کے بطلان کا مقتضی ہے۔ حضرت جابر ، حضرت انس اور دیگر حضرات کی روایت ہے کہ حجتہ الوداع میں حضور ﷺ قارن تھے۔ حضرت جابر اور حضرت ابن عباس نے روایت کی ہے کہ آپ حجتہ الوداع میں قربانی کے سو اونٹ ساتھ لے گئے تھے جن میں سے ساٹھ اونٹوں کو اپنے دست مبارک سے نحر کیا تھا اور باقی ماندہ اونٹوں کے نخر کے لئے دوسروں کو حکم دیا تھا چناچہ بھی نحر کیا گیا تھا۔ آپ ﷺ نے ہر قربانی کے گوشت کا ایک ایک ٹکڑا لے کر ایک ہانڈی میں پکوایا تھا اور گوشت تناول کرنے کے بعد شور بہ بھی پیا تھا۔ اس طرح آپ نے قران کی قربانی کا گوشت کھایا تھا۔ نیز جب یہ بات ثابت ہوگا کہ حضور ﷺ قارن تھے اور آپ کا طریق کار یہ تھا کہ ہمیشہ اعمال کی افضل ترین صورت پر عمل پیرا ہوتے تھے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حج قران حج افراد سے افضل ہے اور اس کی بنا پر واجب ہونے والا جانور قربانی کے طور پر ذبح کیا جاتا ہے، احرام میں کسی نقص کے پیدا ہون کے نتیجے میں اس کی کمی پورا کرنے کے طور پر ذبح نہیں کیا جاتا۔ جب یہ جانور قربانی کے طور پر ذبح کیا جاتا ہے تو اس کا گوشت کھا لینا اسی طرح جائز ہے جس طرح نفلی قربانی اور اضحیہ کا گوشت کھانا جائز ہے۔ حضور ﷺ تھے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ جب حضرت حفضہ نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ لوگوں نے تو احرام کھول دیا ہے اور آپ عمرے کا احرام نہیں کھول رہے ہیں تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا (انی سقت الھدی فلا احل الا یوم النحر ولو استقبلت من امری ما استدبرتہ ماسقت الھدی ولجعل تھا عمرۃ میں اپنے ساتھ ہدی یعنی قربانی کے جانور لایا ہوں اس لئے یوم النحر پر ہی احرام کھولوں گا، اگر مجھے اپنے معاملہ کا پہلا سے انداز ہ ہوجاتا جس طرح بعد میں ہوا ہے تو میں قربانی کے جانور اپنے ساتھ نہ لاتا اور صرف عمرہ کا احرام باندھ لیتا ) اگر حضور ﷺ نفلی طور پر قربانی کے جانور ساتھ لائے ہوتے تو احرام کھولنے سے کوئی چیز مانع نہ ہوتی۔ اس لئے کہ نفلی طور پر قربانی کا جانور ساتھ لانے سے احرام کھولنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ اگر قارن تھے تو حج کا احرام آپ کے لئے احرام کھلونے سے مانع تھا اس سلسلے میں قربانی کے جانور کا کوئی دخل نہیں تھا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس وقت حج کا احرام یوم النحر سے پہلے احرام کھولنے سے مانع نہیں تھا کیونکہ اس وقت حج فسخ کردینا جائز تھا۔ حضور ﷺ نے ان صحابہ کرام کو جنہوں نے حج کا حرام باندھا تھا وہ ادا کر کے احرام کھول دینے کا حکم دیا تھا۔ اس طرح اس وقت یہ تمام حضرات اس شخص کی طرح تھے جس نے حج تمتع کے ارادے سے صرف عمرے کا احرام باندھا تھا۔ عمرہ کرنے کے بعد سے لے کر حج کا احرام باندھنے تک احرام کھلونے میں صرف اسی صورت میں رکاوٹ ہوتی ہے جب ایسا شخص اپنے ساتھ قربانی کا جانور لایا ہو۔ یہ بات اس کے لئے احرام کھولنے میں مانع ہوتی ہے۔ حضور ﷺ کے ساتھ بھی قران کی وج ہ سے یہی صورت پیش آتی تھی۔ قربانی کے جانور ساتھ لانا آپ کے لئے احرام کھولنے سے مانع بن گیا تھا۔ حج کا احرام مانع نہیں بنا تھا۔ اس بات کے اندر ہمارے قول کی صحت کی دلیل موجود ہے کہ حضور ﷺ اپنے ہمراہ قربانی کے جو جانور لائے تھے وہ قران کی قربانی کے جانور تھے نفلی قربانی کے جانور نہیں تھے۔ اس لئے کہ نفلی قربانی کے جانوروں کو احرام کھولنے کی ممانعت میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔ حضور ﷺ کے قارن ہونے پر آپ کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے (اتانی ات من ربی فی ھذا الوادی المبارک وقال قل حجۃ وعموۃ) اس وادی مبارک میں میرے پاس میرے رب کا فرستادہ آیا اور مجھ سے کہہ گیا کہ میں حج اور عمرہ کہوں) یعنی حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھوں۔ اور یہ چیز تو بالکل محال ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی میں کوئی قدم اٹھائے ہوں۔ حضرت ابن عمر کی یہ روایت کہ حضور ﷺ نے حج افراد کیا تھا، ان حضرات کی روایت کی معارض نہیں ہے جنہوں نے یہ بیان کیا ہے کہ آپ نے حج قران کیا تھا۔ اس لئے کہ قران کے راوی کو ایک زائد احرام کا علم ہوگیا تھا جس کا دوسرے راوی کو علم نہیں ہوا تھا۔ اس لئے اس کی روایت اولیٰ ہوگی یا یہ بھی ممکن ہے کہ حج افراد کے راوی نے حضور ﷺ کو تلبیہ کہتے ہوئے سنا ہو لیکن اس تلبیہ میں عمرے کا لفظ ان کے کانوں میں نہ پڑا ہو یا کہ اس نے حضور ﷺ کو حج کا لفظ کہتے ہوئے سنا ہو۔ عمرے کا لفظ نہ سن سکا ہو اور پھر اپنی طرف سے یہ خیال کر بیٹھا ہو کہ آپ نے حج افراد کا احرام باندھا ہے اس لئے کہ قارن کو تلبیہ میں صرف لفظ حج کہنا جائز ہے ، عمرے کا لفظ اگر وہ نہ کہے تو کوئی حرج نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر وہ صرف لفظ عمرہ کہے تو بھی جائز ہے اور اگر دونوں لفظ کہے تو بھی درست ہے۔ جب یہ گنجائش موجود تھیں او بعض حضرات نے آپ کو حج کا تلبیہ کہتے ہوئے اور بعض نے حج اور عمرے دونوں کا تلبیہ کہتے ہوئے سنا تو اس صورت میں وہ روایت اولیٰ ہوگی جس میں دونوں باتیں مذکور ہیں پھر حضرت ابن عمر کے اس قول میں کہ آپ نے حج افراد کیا تھا، یہ احتمال موجود ہے کہ ان کی مراد یہ ہو کہ آپ نے حج کے افعال الگ سے ادا کئے تھے، یہ کہہ کر گویا حضرت ابن عمر نے یہ واضح کردیا کہ آپ نے حج اور عمرہ کے افعال الگ الگ ادا کئے تھے اور دونوں احراموں کے ذریعے صرف حج کی ادائیگی پر اقتصار نہیں کیا تھا بلکہ آپ نے عمرہ بھی ادا کیا تھا۔ حضرت ابن عمر کی اس وضاحت سے ان لوگوں کا قول باطل ہوگیا جو قران کی صورت میں حج اور عمرہ دونوں کے لئے صرف ایک طواف اور ایک سعی پر اکتفا کرلینے کے جواز کے قائل ہیں۔ صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت سے قران اور تمتع کی قربانیوں کا گوشت کھانا مروی ہے عطاء بن ابی رباح نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : نذر، فدیہ اور جرمانے کے طور پر ذبح ہونے والے جانوروں کے گوشت کے سوا دوسری تمام قربانیوں کا گوشت کھایا جائے گا۔ “ عبید اللہ بن عمر نے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نذر اور شکار کے جرمانے کے طور پر ذبح ہونے والے جانوروں کے سوا قربانی کے ہر جانور کا گوشت کھایا جائے گا۔ ہشام نے حسن اور عطاء سے روایت کی ہے کہ جزا یعنی جرمانے کے طور پر قربان کئے جانے والے جانور کے گوشت کے سوا ہر قربانی کا گوشت کھایا جائے گا۔ ان صحابہ کرام اور تابعین عظام نے دم قران اور دم تمتع کا گوشت کھانے کی اجازت دی ہے اور یہ ہمیں یہ علم نہیں کہ سلف میں سے کسی نے بھی اس کی ممانعت کی ہو۔ بائس اور فقیر میں فرق قول باری (واطعموا البائس الفقیر) کی تفسیر کے سلسلے میں طلحہ بن عمرو نے عطا سے روایت کی ہے کہ ” جو شخص تجھ سے سوال کرے۔ “ ابن ابی نجیع نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ بائس وہ شخص ہوتا ہے جو ہاتھ پھیلا کر سوال کرتا ہے۔ ایسے شخص کو بائس کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ اس پر یئوس یعنی تنگدستی کا اتنا دبائو اور اثر ہوتا ہے کہ وہ دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اس کے فقر اور تنگدستی کی یہ حالت بطور مبالغہ بیان کی گئی ہے۔ بائس مسکین کے ہم معنی ہوتا ہے اس لئے کہ مسکین وہ شخص ہے جو حاجتمندی اور تنگدستی کی انتہا کو پہنچا ہوا ہو۔ یہ شخص ایسا ہوتا ہے کہ اس پر اس انتہا کی بنا پر بایں معنی ایک قسم کا سکون طاری ہوجاتا ہے کہ اس کے لئے دوڑ دھوپ اور تلاش معاش کی کوئی سبیل باقی نہیں رہتی۔ ایسے شخص کو کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ایک قول کے مطابق یہ وہ شخص ہے جو لوگوں سے مانگتا ہے۔ آیت زیر بحث تمام ہدایا (مکہ مکرمہ میں ذبح کے لئے ساتھ جانے والے جانور) اور اضاحی (عید قربان پر ذبح ہونے والے جانور) کو شامل ہے اور اس بات کی مقتضی ہے کہ ان کا گوشت کھانا مباح ہے اور گوشت کا کچھ حصہ صدقہ کردینا مندوب و مستحب ہے۔ ہمارے اصحاب نے صدقہ کے لئے گوشت کے تہائی حصے کا اندازہ مقرر کیا ہے۔ اس لئے کہ قول باری ہے (فکلوا منھا واطعموا البائس الفقیر) اور عید قربان پر ذبح ہونے والے جانوروں کے گوشت کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد ہے (فکلوا وادحروا کھائو اور ذخیرہ کرلو) اس لئے ہمارے اصحاب نے اس گوشت کے تین حصے کر کے ایک حصہ کھانے کے لئے ، ایک حصہ ذخیرہ کرنے کے لئے اور ایک حصہ فقیر و مسکین کو دینے کے لئے مقرر کردیا۔ گوشت اور چرم قربانی کے احکام قول باری (فکلوا منھا واطعموا البائس الفقیر) میں قربانی کے گوشت کی فروخت کی ممانعت پر دلالت ہو رہی ہے اس پر حضور ﷺ کا ارشاد (فکلوا وادخروا) بھی دلالت کرتا ہے اس کے اندر بیع کی ممانعت ہے۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جو سفیان نے عبدالکریم جزری سے کی ہے۔ انہوں نے مجاہد سے، انہوں نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے اور انہوں نے حضرت علی سے کہ حضور ﷺ نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں آپ کے قربانی کے جانوروں کے گوشت کی نگرانی کروں۔ آپ ﷺ نے مجھے ان کی کھالیں اور ان کے جل (اونٹ کی پیٹھ پر ڈالا جانے والا کپڑا یعنی جھول) تقسیم کردینے کا حکم دیا اور یہ فرمایا کہ قصائی کو ان کی کھالیں نہ دوں۔ آپ ﷺ نے یہ کہا کہ ہم خود اپنے پاس سے اونٹ ذبح کرنے والے کو اس کی اجرت دیں گے۔ حضور ﷺ نے اجرت کے طور پر کھال دینے سے منع کردیا۔ اس بات میں بیع کی ممانتع بھی موجود ہے۔ اس لئے کہ قصائی کو قربانی کا کوئی حصہ اجرت کے طور پر دینا بیع کی بنا پر ہوگا۔ جب اس کا گوشت کھانا جائز ہوگیا تو اس سے یہ دلالت بھی حاصل ہوگئی کہ اس کی کھال سے فائدہ اٹھانا جائز ہے بشرطیکہ یہ بیع کے طور پر نہ ہو۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ قربانی کی کھالوں سے فائدہ اٹھانا درست ہے۔ یہ بات حضرت عمر، حضرت ابن عباس اور حضرت عائشہ سے مروی ہے۔ شعبی کا قول ہے کہ مسروق اپنی قربانی کی کھال کا مصلی بنا کر اس پر نماز پڑھا کرتے تھے۔ ابراہیم نخعی عطاء، طائوس اور شعبی سے منقول ہے کہ اس کی کھال سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب حضور ﷺ نے قضائی کو اس کی اجرت میں قربانی کے جانور کی کوئی چیز دینے سے منع فرما دیا اور یہ کہا کہ ” ہم خود اپنے پاس سے اس کی اجرت ادا کریں گے۔ “ تو اس سے دو باتوں پر دلالت ہوئی۔ ایک تو یہ ہے کہ ممانعت اس بات کی ہے کہ قصائی کو اجرت کے طور پر قربانی کا کوئی جز نہ بنادیا جائے۔ اس لئے حضرت علی سے مروی اس روایت کے بعض طرق میں یہ ا لفاظ موجود ہیں۔” مجھے آپ نے حکم دیا کہ میں قصائی کی اجرت ان میں سے نہ دوں۔ “ بعض طرق کے الفاظ یہ ہیں۔ مجھے حکم دیا ہے کہ میں ذبح کرنے کی اجرت کے طور پر ان جانوروں میں سے کچھ نہ دوں۔ “ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ جزاء یعنی قصائی کو اجرت کی جہت کے بغیر گوشت دے دینا جائز ہے جس طرح دوسرے تمام لوگوں کو دینا جائز ہے اس میں اونٹوں کو نحر کرنے کے لئے اجرت پر کسی کو لینا جائز ہے اس لئے کہ حضور ﷺ نے فرمایا تھا۔ ” ہم اسے خود اپنے پاس سے دیں گے۔ “ یہی بات ہر معلوم کام کے لئے اجارے کے جواز کی بنیاد ہے۔ ہمارے اصحاب نے بکری ذبح کرنے کے لئے کسی کو اجرت پر لینا جائز قرار دیا ہے۔ امام ابوحنیفہ نے قصاص میں قاتل کو قتل کرنے کے لئے کرایہ کے قاتل حاصل کرنے کی ممانعت کی ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ ذبح ایک معلوم و متعین عمل ہے جبکہ قتل ایک مبہم اور غیر معلوم عمل ہے۔ اس میں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آیا اسے ایک دو ضرب یا اس سے زائد ضربات لگا کر قتل کرے گا۔
Top