Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - An-Noor : 2
اَلزَّانِیَةُ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ١۪ وَّ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ۚ وَ لْیَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
اَلزَّانِيَةُ
: بدکار عورت
وَالزَّانِيْ
: اور بدکار مرد
فَاجْلِدُوْا
: تو تم کوڑے مارو
كُلَّ وَاحِدٍ
: ہر ایک کو
مِّنْهُمَا
: ان دونوں میں سے
مِائَةَ جَلْدَةٍ
: سو کوڑے
وَّلَا تَاْخُذْكُمْ
: اور نہ پکڑو (نہ کھاؤ)
بِهِمَا
: ان پر
رَاْفَةٌ
: مہربانی (ترس)
فِيْ
: میں
دِيْنِ اللّٰهِ
: اللہ کا حکم
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ
: تم ایمان رکھتے ہو
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ
: اور یوم آخرت
وَلْيَشْهَدْ
: اور چاہیے کہ موجود ہو
عَذَابَهُمَا
: ان کی سزا
طَآئِفَةٌ
: ایک جماعت
مِّنَ
: سے۔ کی
الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومن (جمع) مسلمان
بدکاری کرنے والی عورت اور بدکاری کرنے والا مرد (جب ان کی بدکاری ثابت ہوجائے تو) دونوں میں سے ہر ایک کو سو درے مارو اور اگر تم خدا اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو شرع خدا (کے حکم) میں تمہیں ہرگز ترس نہ آئے اور چاہیے کہ انکی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت بھی موجود ہو
قول باری ہے (مستکبرین بہ سامراً تھجرون اپنے گھمنڈ میں اس کو خاطر ہی میں نہ لاتے تھے، اپنی چوپالوں میں اس پر باتیں چھاٹتے اور بکواس کیا کرتے تھے) لفظ تھجرون کی ایک قرأت حرف تاء کے فتحہ اور حرف جیم کے ضمہ کے ساتھ ہے۔ ایک قرأت کے مطابق حرف تاء مضموم اور حرف جیم مکسور ہے۔ اس لفظ کی تفسیر میں دو قول ہیں۔ ایک تو حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ تم حق سے منہ موڑ کر اسے چھوڑ دیتے ہو۔ “ مجاہد اور سعید بن جبیر کا قول ہے کہ ” تم بکواس کرتے ہو۔ “ ھجر بکواس کرنے کو کہتے ہیں۔ جن حضرات نے پہلی قرأت کی ہے ان کے نزدیک یہ لفظ ھجر بمعنی چھوڑنا سے ہی نکلا ہے جیسا کہ حضرت ابن بع اس وغیرہ سے مروی ہے۔ جب مریض بیماری کے دبائو میں آ کر ادھر ادھر کی ہانکنے لگے اور ہذیانی انداز میں باتیں کریں تو کہا جاتا ہے۔ ” اھجر المریض “ ایک قول کے مطابق لفظ (سامراً ) کو واحد کے صیغے میں بیان کیا گیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ظرفیت کے معنی ادا کر رہا ہے اور تقدیر کلام اس طرح ہے ۔” لیلا تھجرون “ (تم رات کے وقت بکواس کرتے رہتے ہو) مشرکین کی عادت تھی کہ رتا کے وقت کعبہ کے ارد گرد ٹولیاں بنا کر بیٹھ جاتے اور دنیا بھر کی گپیں ہانکتے (ایک قول کے مطابق اس لفظ کے معنی اگرچہ سماء یعنی اکٹھے بیٹھ کر گپ ہانکنے کے ہیں لیکن لفظ (سامراً ) اس لئے واحد لایا گیا ہے کہ یہ مصدر کے مقام میں ہے جس طرح کہا جاتا ہے ” قوموا قیاماً (کھڑے ہو جائو) رات کو گپیں ہانکنا شیوئہ مومن نہیں یعنی رات کے وقت باتیں کرنے اور گپیں ہانکنے کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ شعبہ نے ابو المنہال سے، انہوں نے حضرت ابوبرزہ اسلمی سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ عشاء کی نماز سے پہلے سو جانے کو اور عشاء کی نماز کے بعد باتیں کرنے کو ناپسند کرتے تھے شعبہ نے منصور سے، انہوں نے خزیمہ سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے یہ روایت کی ہے (الا سمو الالرجلین مضل او مسافر۔ دو شخصوں کے سوا کسی کے لئے رات کو باتیں کرنا درست نہیں ہے ایک نمازی اور دوسرا مسافر ) حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ وہ عشاء کی نماز کے بعد باتیں کرنے سے منع کیا کرتے تھے۔ باتیں کرنے کے متعلق رخصت والی روایتیں بھی موجود ہیں۔ اعمش نے ابراہیم سے اور انہوں نے علقمہ سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا۔ حضور ﷺ ابوبکر کے ساتھ مسلمانوں کے معاملات میں سے کسی نہ کسی معاملے پر رتا کے وقت تبادلہ خیالات کیا کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس عشاء کی نماز کے بعد باتیں کرتے رہتے تھے۔ اسی طرح عمرو بن دینار اور ایوب سختیانی بھی آدھی آدھی رات تک باتیں کرتے رہتے تھے۔ مسجد میں حد جاری کرنا امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد اور امام شافعی کا قول ہے کہ مساجد میں حدود جاری نہیں کیے جائیں گے۔ حسن بن صالح کا بھی یہی قول ہے۔ امام ابویوسف کا کہنا ہے کہ قاضی ابن ابی لیلیٰ نے مسجد میں حد جاری کی تھی۔ امام ابوحنیفہ نے ان کے اس اقدام کو غلط قرار دیا۔ امام مالک کا قول ہے کہ تادیب کے طور پر مسجد میں پانچ کوڑے وغیرہ لگا دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر سخت پٹائی مقصود ہو اور حد جاری کرتا ہو تو پھر یہ کام مسجد میں نہیں کیا جائے گا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اسماعیل بن مسلم المل کی نے عمرو بن دینار سے روایت کی ہے، انہوں نے طائوس سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (لاتقام الحدود فی المساجد ولا یقتل یا لولدا الوالد۔ مساجد میں حدود جاری نہیں کیے جائیں گے اور بیٹے کے بدلے باپ کو قتل نہیں کیا جائے گا) حضور ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ (جنبوا مساجد کم صبیا نکم ومجا نینکم ورفع اصواتکم وشواکم وبیعکم واقامۃ حدود کم وجمود ھا فی جمعکم وضعوا علی ابوایھا المطاھر اپنے بچوں اور پاگلوں کو مساجد سے دور رکھو ان میں اپنی آوازیں بلند کرنے، خرید و فروخت کرنے اور حدود جاری کرنے سے پرہیز کرو۔ جمعہ کے دنوں میں مساجد کو دھونی دو اور مساجد کے دروازوں پر پاک کرنے والی چیزیں یعنی پانی وغیرہ رکھو) نظر اور قیاس کی جہت سے بھی مساجد میں حدود ہماری کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ وہ اس لئے کہ جب کسی شخص پر حد جاری کی جائے گی تو اس بات کا خطرہ ہوگا کہ ضربات کی تکلیف سے کہیں اس کے جسم سے ایسی نجاست وغیرہ خارج نہ ہوجائے جس سے مسجدکو پاک رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اس شخص کا حکم جو عمل قوم لوط کا ارتکاب کرتا ہے امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ لواطت کے مرتکب کو تعزیر کی جائے گی اور اسے حد نہیں لگائی جائے گی امام مالک اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ فاعل اور مفعول دونوں کو سنگسار کردیا جائے گا خواہ یہ محصن ہوں یا غیر محصن ہوں۔ عثمان الیتی ، جس بن صالح، امام ابو یوسف، امام محمد اور شافعی کا قول سے کہ لواطت کی حیثیت زنا جیسی ہے حسن، ابراہیم اور عطا کا بھی یہی قول ہے۔ ابولکرحبصاص کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (لا یحل دام اموسیٰ مسلم الاباحدی ثلاث زنا بعد احصان وکفر بعد ایمان وقتل نفس بغیر نفس۔ ایک مسلمان کا خون بہانا صرف تین صورتوں میں سے ایک صورت کے اندر حلال ہوتا ہے۔ صفت احصان سے متصف ہونے کے بعد زنا کاری کرے۔ ایمان لانے کے بعد کافر ہوجائے اور کسی کو ناحق قتل کردے) حضور ﷺ نے مسلمان کے قتل کو تین باتوں میں سے کسی ایک بات تک محدود کردیا۔ لواطت کا مرتکب اس سے خارج ہے اس لئے کہ لواطت زنا نہیں ہے۔ اگر لواطت کو زنا قرار دینے والے حضرات اس روایت سے استدلال کریں جس کے راوی عاصم بن عمرو ہیں، انہوں نے سہیل سے، انہوں نے ابو صالح سے ، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (الذی یعمل عمل قوم لوط فارجسموالا علی والا سقل وارجموھا جمیعا جو شخص عمل قوم لوط کا ارتکاب کرے تو اعلیٰ اور اسفل یعنی فاعل ومفعول دونوں کو رجم کردو) نیز اس روایت سے جسے الدرادردی نے عمر وبن ابی عمرو سے نقل کیا ہے۔ انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا من وجدتھوہ یعمل عمل قوم لوط فاقتلوا المفاعلی والمفعول بہ جس شخص کو تم عمل قوم لوط کا مرکتب پائو تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردو تو اس استدلال کے جواب میں کہا جائے گا کہ عاصم بن عمرو اور عمرو بن ابی عمرو دونوں ضعیف راوی ہیں۔ اس کی روایت کی بنیاد پر کوئی استدلال نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کسی حد کا نفاذ جائز ہے۔ یہاں یہ کہنا جائز ہے کہ اگر یہ روایت ثابت بھی ہوجاتی تو اس کے حکم پر اس وقت عمل ہوتا جب فاعل اور مفعول دونوں لواطت کو حلال سمجھتے ہوئے اس کا ارتکاب سب کرتے۔ ہمارا بھی یہی قول ہے کہ جو شخص اس فعل قبیح کو حلال سمجھتے ہوئے اس کا ارتکاب کرے گا وہ قتل کا سزاوار قرار پائے گا۔ حضور ﷺ کا ارشاد ( فاقتلوا الفاعل والمفعول بہ) اس پر دلالت کرتا ہے کہ انہیں قتل کی سزا حد کے طور پر نہیں دی جارہی ہے آپ کے اس ارشاد کی حیثیت آپ کے ارشاد : (من بدل دینہ فاقتلوہ جو شخص اپنا دین تبدیل کرلے اسے قتل کردو) کی طرح ہے۔ اس لئے کہ لواطت کے مرتکب کس سزا علی الاطلاق قتل نہیں ہے بلکہ جو حضرات اسے زنا جیسا فعل قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک اس کی سزا رجم ہے بشرطیکہ مجرم محصن ہو اور جو حضرات اس فعل کو زنا کی حیثیت نہیں دیتے اور اس کے فاعل کے قتل کو واجب قرار دیتے ہیں وہ رجم کے طور پر اس پر قتل کا حکم عائد کرتے ہیں۔ اسی طرح لواطت کے مرتکب کو علی الا طلاق قتل کردینا کسی کا بھی قول نہیں ہے۔ اگر لواطت کی حیثیت زنا جیسی ہوتی تو حضور ﷺ محصن اور غیر محضن کے حکم میں فرق ضرور رکھتے۔ آپ نے ان دونوں میں فرق نہیں رکھا جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے اس پر قتل کی سزا حد کے طور پر واجب نہیں کی ہے۔ ایسا شخص جو کسی چوپائے کے ساتھ جنسی عمل کا ارتکاب کرتا ہے، اس کا حکم امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، امام مالک اور عثمان البتی کا قول ہے ایسے شخص کی تعزیر کی جائے گی، اس پر حد جاری نہیں ہوگی، حضرت ابن عمر ؓ سے بھی یہی قول منقول ہے۔ اوزاعی کا وقل ہے کہ اس پر حد جاری کی جائے گی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کا ارشاد (لا یحل دمرا مری مسلم الا یاحدی ثلاث زنا بعداحصان وکفر بعد ایمان وقتل نفس بغیر نفس) اس فعل کے مرتکب کے قتل کی نفی کرتا ہے۔ کیونکہ لغت کے لحاظ سے یہ فعل زنا نہیں کہلاتا۔ اور قیاس کے طور پر اس کا اثبات جائز نہیں ہے۔ عمرو بن ابی عمرو نے عکرمہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (من وجدتموہ علی بھیمۃ فاقتلوہ واقتلوا لبھیمۃ۔ جس شخص کو تم کسی چوپائے کے ساتھ جنسی عمل کرتے پائو اسے قتل کردو اور چوپائے کو بھی مار ڈالو) اس روایت کا راوی عمرو بن ابی عمرو ضعیف ہے۔ اس کی روایت کی بنیاد پر کوئی حجت قائم نہیں ہوسکتی۔ اس کے ساتھ شعبہ، سفیان اورک ابوعوانہ کی روایت بھی ہے جو انہوں نے عاصم سے نقل کی ہے انہوں نے، انہوں نے ابورزین سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ ” جو سخص کسی چوپائے کے ساتھ جنسی عمل کا ارتکاب کرے اس پر کوئی حد نہیں۔ “ اس روایت کو اسرائیل، ابوبکر بن عیاش، ابوالاحوص اور شریک تمام راویوں نے عاصم سے نقل کیا ہے۔ انہوں نے ابوزرین سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس کی روایت کی ہے۔ اگر عمروبن ابی عمرو کی روایت درست ہوتی تو حضرت ابن عباس ؓ اس کے خلاف روایت نہ کرتے جبکہ انہوں نے خود دوسروں تک اس کی روایت کی ہے۔ تاہم اگر یہ روایت ثابت بھی ہوجائے تو اسے اس صورت پر محمول کیا جائے گا جب اس فعل کا مرتکب اسے حلال سمجھ کر اس کا ارتکاب کرتا ہو۔ فصل ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ایک طائفہ شاذہ نے جو کسی شمار وقطار میں نہیں یعنی خوارج نے رجم کا انکار کیا ہے، حالانکہ حضور ﷺ سے رجم کا ثبوت ہے۔ آپ نے رجم کا حکم دیا تمام لوگوں نے اسے نقل کیا اور اس سلسلے میں اس کثرت سے روایت ہوئی کہ اس کے متعلق شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ امت کا اس حکم پر اجماع ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ ، حضرت عمر ؓ ، حضرت علی ؓ ، حضرت جابر ؓ بن عبداللہ، حضرت ابوسعید خدری ؓ ، حضرت ابوہریرہ ؓ ، حضرت بریدہ اسلمی اور حضرت زید بن خالد ؓ نیز دوسرے صحابہ ؓ نے رجم کے حکم کی روایت کی ہے۔ حضرت عمر ؓ نے خطبہ کے دوران فرمایا تھا ” اگر لوگ یہ نہ کہتے کہ عمر نے کتاب اللہ میں اضافہ کردیا ہے تو میں اس حکم کو مصحف میں لکھ دیتا۔ “ درج بالا رایوں میں سے بعض حضرات نے ماعز کے رجم کا واقعہ نقل کیا ہے اور بعض نے جہینیہ اور غامدیہ (دو عورتوں کے نام جنہیں حضور ﷺ کے حکم سے ارتکاب زنا کی بنا پر رجم کردیا گیا تھا) کے رجم کی روایت بیان کی ہے۔ ماعز کے متعلق روایت کئی احکام پر مشتمل ہے۔ ایک تو یہ کہ حضور ﷺ نے انہیں تین مرتبہ واپس کردیا تھا جب انہوں نے چوتھی مرتبہ آپ کے سامنے اپنے گناہ کا اعتراف کیا تو آپ نے یہ معلوم کیا کہ ان کی عقل ٹھکانے ہے یا نہیں ؟ آپ نے فرمایا : ” اسے جنون تو نہیں ہوگیا ؟ “ صحابہ نے عرض کیا ” نہیں “۔ پھر آپ نے ان کے منہ کی بوسونگھنے کا حکم کہ کہیں شراب نہ پی رکھی ہو اور نشے میں زنا کا اعتراف کررہے ہوں۔ پھر آپ نے ان سے کہا۔” شاید تم نے صرف ہاتھ لگایا ہو، شاید تم نے صرف بوس وکنار کیا ہو ؟ “ لیکن جب وہ ارتکاب زنا کے صریح اعتراف پر اڑے رہے تو آپ نے ان کے احصان کے بارے میں سوال کیا۔ پھر جب پتھروں کی بارش کی تاب نہ لاتے ہوئے انہوں نے بھاگنے کی کوشش کی اور آپ کو اس کا پتہ چلا تو آپ نے لوگوں سے فرمایا : ” تم نے اسے بھاگنے کیوں نہیں دیا۔ “ آپ نے انہیں تین دفعہ واپس کیا پھر چوتھی مرتبہ اعتراف پر ان کی عقل کی درستی کے متعلق سوال کیا، یہ بات اسی پر دلالت کرتی ہے کہ حد زنا اس وقت تک واجب نہیں ہوتی جب تک مجرم چار مرتبہ اقرار نہ کرلے اس لئے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (تعافوا الحدود فیما بینکم فما بلغنی من حسدفقد وجب ۔ تم اپنے درمیان حدود کو نظر انداز کرو جس حد کے متعلق مجھے اطلاع ملے گی اس کا نفاذ واجب ہوجائے گا) اگر ایک دفعہ اقرار کی بنا پر حد واجب ہوتی تو حضور ﷺ پہلے اقرار پر بھی ماعز کے متعلق پوچھ گچھ کرتے، پھر آپ ان کے متعلق ان کے پڑوسیوں اور گھر والوں سے پوچھا کہ آیا اس کی عقل ٹھکانے ہے یا نہیں ؟ آپ کا یہ اقدام اس پر دلالت کرتا ہے کہ امام المسلمین پر حد جاری کرنے میں پوری احتیاط لازم ہے نیز یہ ضروری ہے کہ تحقیق وتفتیش کے ذریعے معاملہ کی تہ تک رسائی حاصل کی جائے۔ پھر آپ نے ماعز سے پوچھا کہ زنا کیا ہے، اس کی کیفیت کیسی ہے۔ پھر یہ بھی فرمایا ” شاید تم نے صرف ہاتھ لگایا ہے ۔ شاید تم نے صرف بوس وکنار کیا ہے۔ “ اس پوری تحقیق وتفتیش سے دو حکم اخذ کیے جاسکتے ہیں۔ اول یہ کہ صرزنا کے اعتراف پر انحصار نہیں کیا جائے گا بلکہ مجرم سے زنا کی کیفیت اور اس کا مفہوم معلوم کرنے کی پوری جستجو کی جائے گی یہاں تک کہ جب وہ اس کی کیفیت ایسے انداز میں بیان کردے گا کہ اس کے بعد اس کے زنا ہونے میں کسی اختلاف کی گنجائش باقی نہیں رہ جائے گی تو پھر اس پر حد جاری کی جائے گی۔ دوم یہ کہ آپ نے ماعز سے فرمایا : ” شاید تم نے صرف اسے ہاتھ لگایا ہے، شاید تم نے صرف بوس وکنار کیا ہے۔ “ یہ فرما کر آپ نے گویا انہیں اپنے اقرار سے رجوع کرلینے کی تلقین کی۔ آپ نے (لعلک لمست۔ شاید کہ تم نے اسے صرف ہاتھ لگایا ہے) فرما کر اس طرح لمس مراد لیا ہے جس طرح مروی ہے کہ آپ نے چور سے فرمایا تھا۔ ” میرا خیال یہ نہیں کہ اس نے چوری کی ہوگی۔ “ اس کی نظیر وہ روایت ہے جو حضرت عمر ؓ سے مروی ہے کہ موسم حج کے دوران آپ کے پاس ایک عورت لائی گئی جسے حمل ٹھہر گیا تھا، لوگوں نے کہا اس نے زنا کیا ہے۔ عورت رو رہی تھی۔ حضرت عمر ؓ نے اس سے فرمایا : ” روتی کیوں ہو، عورت کے ساتھ بعض دفعہ زیادتی ہوجاتی ہے۔ “ یہ کہہ کر آپ گویا اسے تلقین کررہے تھے کہ وہ زنا بالجبر کا اقرار کرلے۔ عورت نے آپ کو بتایا کہ وہ سوئی ہوئی تھی کہ ایک مرد اس پر سوار ہوگیا۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا : اگر میں اس عورت کو قتل کردیتا۔ یعنی رجم کا حکم جاری کردیتا تو مجھے خطرہ تھا کہ کہیں ان دونوں جنگلوں کے درمیان آگ نہ داخل ہوجائے۔ پھر آپ نے اسے جانے دیا اور حد جاری نہیں کی۔ روایت ہے کہ جب شراحہ نے حضرت علی ؓ کے سامنے زنا کا ارتکاب کا اقرار کیا تو آپ نے اس سے فرمایا : شاید تم نے اپنے اوپر جبر کرکے یہ کام کیا ہو۔ “ اس نے جواب دیا : ” نہیں میں نے بخوشی اس فعل کا ارتکاب کیا تھا مجھے اس پر کسی نے مجبور نہیں کیا تھا۔ “ یہ سن کر آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ : ” تم لوگوں نے ماعز کو بھاگ جانے، کیوں نہیں دیا۔ “ اقرار سے رجوع کے جواز پر دلالت کرتا ہے اس لئے کہ جب ماعز نے اس سزا سے بچنے کی کوشش کی جس کے لئے انہوں نے شروع میں اپنی جان پیش کردی تھی تو اس موقع پر حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ تم لوگوں نے اسے کیوں نہ بھاگ جانے دیا۔ سزا سرعام دی جائے قول باری ہے (والیشھد عذابھما طائفۃ من المومنین اور ان کی سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے) ابن ابی نجیح نے مجاہد سے روایت کی ہے ۔ لفظ طائفہ کا اطلاق ایک مرد سے لے کر ایک ہزار تک پر ہوتا ہے پھر انہوں نے آیت (وان طائفتان من المومنین اقتتلوا اگر مسلمانوں کے دو گروہ لڑ پڑیں) کی تلاوت کی۔ عطاء کا قول ہے کہ طائفہ کا اطلاق دو مردوں اور ان سے زائد پر ہوتا ہے ۔ حسن اور ابوبریدہ کا قول ہے کہ طائفہ کا اطلاق دس پر ہتا ہے۔ محمد بن کعب القرظی نے قول باری (ان نعف عن طآئفۃ منکم۔ اگر ہم تم میں سے ایک گروہ کو معاف کردیں گے) کی تفسیر میں کہا ہے کہ آیت کا مصداق ایک شخص تھا۔ زہری نے کہا ہے کہ ولیشھد عذابھما طائفۃ) میں تین یا اس سے زائد افراد مراد ہیں۔ قتادہ کا قول ہے مسلمانوں کے ایک گروہ کو موجود رہنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ ان کے لئے سزا کا یہ منظر نصیحت اور عبرت بن جائے۔ امام مالک اور لیث بن سعید سے منقول ہے کہ چار آدمی موجود ہوں کیونکہ گواہوں کی تعداد بھی چار ہوتی ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ایک گروہ کی موجودگی کے سلسلے میں قتادہ نے جو بات کہی ہے وہ زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ ایک گروہ کی موجودگی کے سلسلے میں قتادہ نے جو بات کہی ہے وہ زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ سزا کا یہ منظر ان کے لئے نصیحت اور عبرت کا سبب بن جائے تاکہ خود مجرم آئندہ ایسی حرکت سے باز رہے اور دوسروں کو ایسی حرکت کرنے کی جرات نہ پیدا ہوسکے۔ بہتر یہ ہے کہ اس موقعہ پر ایسے لوگوں کی موجودگی ہو جن کے ذریعے یہ بات خوب پھیلے اور دوسروں تک پہنچ جائے جس کے نتیجے میں لوگ ایسی حرکت سے باز رہیں۔ اس لئے کہ حدود کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ ان کے خوف سے لوگ اس قسم کے جرائم سے باز رہیں اور ان میں ایسے جرائم کے ارتکاب کی ہمت ہی نہ پیدا ہو۔
Top