Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - An-Noor : 3
اَلزَّانِیْ لَا یَنْكِحُ اِلَّا زَانِیَةً اَوْ مُشْرِكَةً١٘ وَّ الزَّانِیَةُ لَا یَنْكِحُهَاۤ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ١ۚ وَ حُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ
اَلزَّانِيْ
: بدکار مرد
لَا يَنْكِحُ
: نکاح نہیں کرتا
اِلَّا
: سوا
زَانِيَةً
: بدکار عورت
اَوْ مُشْرِكَةً
: یا مشرکہ
وَّالزَّانِيَةُ
: اور بدکار عورت
لَا يَنْكِحُهَآ
: نکاح نہیں کرتی
اِلَّا زَانٍ
: سوا بدکار مرد
اَوْ مُشْرِكٌ
: یا شرک کرنیوالا مرد
وَحُرِّمَ
: اور حرام کیا گیا
ذٰلِكَ
: یہ
عَلَي
: پر
الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومن (جمع)
بدکار مرد تو بدکار یا مشرک عورت کے سوا نکاح نہیں کرتا اور بدکار عورت کو بھی بدکار یا مشرک مرد کے سوا اور کوئی نکاح میں نہیں لاتا اور یہ (یعنی) بدکار عورت سے نکاح کرنا مومنوں پر حرام ہے
زانیہ عورت سے نکاح کا بیان قول باری ہے (الزانی لا یکنح الا زانیۃ او مشرکۃ والزانیۃ لا ینکحھا الا زان او مشرک وحرم ذلک علی المومنین۔ زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک اور اہل ایمان پر حرام کردیا گیا ہے) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ عمر وبن شعیب نے اپنے والد سے ، انہوں نے عمرو کے دادا سے روایت کی ہے کہ مرثد بن ابی مرثد نامی ایک شخص تھا جو مکہ میں کافروں کے ہاں گرفتار شدہ مسلمانوں کو سواریوں پر بٹھا کر مدینے لایا کرتا تھا۔ مکہ میں عتاق نامی ایک ہیسوار رہتی تھی۔ جس کے اس شخص کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے۔ مرثد نے مکہ میں پھنسے ہوئے ایک شخص کو مدینہ پہنچانے کا وعدہ کیا تھا۔ جب وہ اس مقصد کے لئے مکہ گیا تو عناق نے اسے دیکھ لیا اور کہنے لگی کہ آج رات میرے پاس ٹھہرجائو۔ مرثد نے جو ای جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے زنا حرام کردیا ہے۔ یہ سن کر اسے غصہ آگیا اور چلا کر کہنے لگی۔ خیموں میں رہنے والوں ، یہی وہ شخص ہے جو تمہارے قیدیوں کو یہاں سے مدینے پہنچاتا ہے۔ مرثد کہتے ہیں کہ جب میں مدینہ پہنچا تو حضور ﷺ کے پاس حاضر ہوکرعرض کیا۔ آپعناق سے نکاح کرنا پسند کریں گے ؟ “ حضور ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ یہاں تک کہ درج بالا آیت کا نزول ہوگیا۔ حضور ﷺ نے جواب دیا کہ ” ہم اس سے نکاح نہیں کریں گے۔ “ عمرو بن شعیب نے اس روایت میں یہ بیان کیا ہے کہ آیت کا نزول زانیہ مشرکہ کے سلستے میں ہوا ہے کہ اس کے ساتھ صرف زانی یا مشرک نکاح کرسکتا ہے۔ نیز یہ کہ مشرکہ کے ساتھ مسلمان کا نکاح زنا ہے کیونکہ مشرکہ اس کے لئے حلال ہی نہیں ہوتی۔ اس آیت کی تفسیر اور اس کے حکم کے متعلق سلف کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے، انہیں یحییٰ بن سعید اور یزید بن ہارون نے یحییٰ بن سعید الانصاری سے، انہوں نے سعید بن المسیب سے کہ انہوں نے کہا ” اس آیت کو بعد میں آنے والی آیت (وانکحو الایامی منکم تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں ان کا نکاح کرادو ) نے منسوخ کردیا ہے ۔ کہاجاتا تھا کہ زانیہ عورت مسلمانوں کی بےنکاحی عورتوں میں سے ہے۔ “ اسی طرح سعید بن المسیب نے یہ بتایا کہ آیت منسوخ ہوچکی ہے۔ ابوعبید کہتے ہیں ہمیں حجاج نے ابن جریج سے روایت سنائی۔ انہوں نے مجاہد سے اس آیت کی تفسیر میں ان کا یہ قول نقل کیا۔ ” کچھ لوگ تھے جو زمانہ جاہلیت میں علانیہ طور پر بدکاری کا اڈا چلانے والی عورتوں کے ساتھ منہ کالا کرنا چاہتے تھے۔ ان لوگوں سے کہا گیا کہ ان کے ساتھ اب جنسی تعلق زنا ہے۔ یہ جان کر انہوں نے ان عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے کا ارادہ کرلیا۔ “ اس طرح مجاہد نے بھی یہ بیان کیا کہ آیت کا نزول چند مخصوص عورتوں کے متعلق ہوا تھا جن کا کردار اوپر بیان کیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے اس آیت کی تفسیر میں ان کا یہ قول منقول ہے کہ ” آیت کا نزول ایک ایسے شخص کے بارے میں ہوا تھا جس نے ایک بیسوا سے اس شرط پر شادی کررکھی تھی کہ وہ اس کے اخراجات برداشت کرتی رہے گی۔ “ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے یہ بتایا کہ آیت میں نہی کہ یہ وجہ ہے یعنی یہ کہ ایک شخص کسی عورت سے اس شرط پر شادی کرے کہ وہ اس کی بدکاری کے کاروبار میں مخل نہیں ہوگا۔ حبیب بن ابی عمرہ نے سعید بن جبیر سے اور نہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” نکاح سے ہم بستری مراد ہے۔ “ ابن شبرمہ نے عکرمہ سے اس آیت کی تفسیر میں ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” جس وقت کوئی انسان زنا کاری کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ اپنی جیسی زنا کا عورت کے ساتھ منہ کالا کرتا ہے۔ “ حضرت ابن عباس ؓ کے غلام شعبہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بدکاری کا اڈہ چلانے والی عورتیں ہوتی تھیں وہ اپنے دروازوں پر جھنڈیاں آویزاں کردیتی تھیں جس طرح جانوروں کا علاج کرنے والے کیا کرتے تھے۔ ان جھنڈیوں کی وجہ سے وہ عورتیں پہچانی جاتیں اور لوگ ان کے پاس شہوت رانی کے لئے آتے جاتے۔ معمر نے ابراہیم نخعی سے اس آیت کی تفسیر میں روایت بیان کی ہے کہ نکاح سے وہ جماع مراد ہے جو ارتکاب زنا کی صورت میں ہوتا ہے عروہ بن الزبیر سے بھی اسی قسم کی روایت منقول ہے۔ ابوبکر حبصاص ان آراء پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان تمام حضرات نے آیت کے مفہوم کے متعلق یہ رائے دی ہے کہ اس میں زنا کے فعل میں دونوں کی شرکت کی خبر دی گئی ہے۔ اس معاملے میں عورت بھی مرد کی طرح ہے جب مرد زانی ہوگا تو عورت بھی اس کی طرح زانیہ ہوگی بشرطیکہ اس نے بخوشی اس فعل قبیح کے ارتکاب کی خاطر اس کی بات مان لی ہو۔ جب عورت زانیہ ہوگی تو مرد بھی اس کی طرح زانی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے آیت کے ذریعے زنا کے فعل قبیح میں دونوں کی یکسانیت کا حکم بیان فرمادیا جس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حدزنا اور آخرت کی سزا کے استحقاق میں بھی دونوں کا حکم یکساں ہوگا۔ نیز قطع سوالات اور اس قسم کے دوسرے احکامات میں بھی دونوں یکساں ہوں گے۔ اس میں ایک اور قول بھی مروی ہے۔ عاصم الاحول نے حسن بصری سے آیت کی تفسیر میں ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” جس شخص کو حد لگ چکی ہو وہ صرف اسی عورت سے نکاح کرے گا جسے حدلگ چکی ہو۔ “ زانیہ عورت سے نکاح کرنے کے بارے میں سلف کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ ، حضرت عمر ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ابن مسعود ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ ، مجاہد، سلیمان بن یسار، سعید بن جبیر اور دیگر حضرات سے مروی ہے کہ جب کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ زنا کا ارتکاب کرلے اور کوئی اور شخص بھی اس کے ساتھ یہ فعل بد سرانجام دے دے تو پہلے زانی کے لئے اس کے ساتھ نکاح کرلینا جائز ہوگا۔ حضرت علی ؓ ، حضرت عائشہ ؓ ، حضرت براء ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ سے (ایک روایت کے مطابق) مروی ہے کہ جب تک یہ دونوں اکٹھے رہیں گے زانی ہی رہیں گے۔ حضرت علی ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ جب کوئی شوہرزنا کا ارتکاب کرے گا تو اس کی بیوی سے اسے علیحدہ کردیا جائے گا ۔ یہی حکم اس صورت میں بھی ہوگا جب بیوی زنا کا ارتکاب کرے گی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ جن حضرات نے زانیہ عورت سے نکاح کی ممانعت کردی ہے انہوں نے اس آیت کو اسی معنی پر محمول کیا ہے جبکہ فقہاء امصار نکاح کے جواز پر متفق ہیں نیز یہ کہ زنا زانیہ بیوی کو اس کے شوہر کے لئے حرام کردینے کا موجب نہیں ہوتا نہ ہی میاں بیوی کے درمیان علیحدگی واجب ہوتی ہے۔ قول باری (الزانی لا ینکح الا زانیۃ) یا تو جملہ خبر یہ کی صورت میں ہے جو اس کے حقیقی معنی ہیں یاجملہ انشائیہ کی صورت میں ہے اور نہی نیز تحریم پر دلالت کررہا ہے۔ پھر نکاح کے ذکر سے یا تو ہم بستری مراد ہے یا عقد نکاح۔ اب اس فقرے کو جملہ خبر یہ کہ صورت دے کر خیر کے معنوں پر محمول کرنا ممتنع ہے۔ اگرچہ فقرے کے حقیقی معنی یہی ہیں۔ اس امتناع کی وجہ یہ ہے کہ ہم زانی مردوں اور زانیہ عورتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ نکاح کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ فقرہ خبر کی صورت میں نہیں ہے۔ اس لئے یہ بات ثابت ہوگئی کہ فقرہ میں حکم اور اور نہی مراد ہے۔ جب بات اس طرح ہے تو اب یا تو ہم بستری مراد ہوگی یا عقد نکاح۔ جبکہ لغت میں نکاح کے حقیقی معنی وطی اور ہم بستری کے ہیں۔ ہم نے یہ بات کئی مواقع پر بیان کی ہے۔ اس لئے اب اسے وطی کے معنوں پر محمول کرنا واجب ہوگیا ۔ جس طر ح حضرت ابن عباس اور آپ کے ہم خیال مفسرین سے مروی ہے کہ نکاح سے جماع مراد ہے۔ نکاح کو عقد نکاح کے معنوں کی طرف کسی دلالت کی بنا پر پھیرا جاسکتا ہے اس لئے کہ نکاح کا یہ مجازی معنی ہے نیز یہ کہ جب حقیقی مراد ہونا ثابت ہوگیا تو اب مجازی معنی کا دخول منتفی ہوگیا۔ نیز اگر نکاح سے عقدنکاح مرادہوتا تو شوہر یا بیوی کے ارتکاب زنا کی بنا پر دونوں کے درمیان علیحدگی واجب نہ ہوتی اس لئے کہ میاں بیوی دونوں ہی پر زانی ہونے کے وصف کا اطلاق ہوتا تھا کیونکہ آیت زانیہ عورت کے ساتھ زانی مرد کے نکاح کی اباحت کی مقتضی ہے اس لئے یہ بات واجب ہوتی کہ عورت کے لئے اس مرد کے ساتھ نکاح کا جواز ہوجائے جس کے ساتھ اس نے منہ کالا کیا تھا۔ پیشتر اس سے کہ دونوں تائب ہوجاتے نیز یہ کہ زوجیت کی حالت میں میاں یا بیوی کی زناکاری ان دونوں کے درمیان علیحدگی کی موجب نہ بنتی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کسی بھی اہل علم نے یہ مسلک اختیار کیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی واجب ہوجاتا کہ زنا کار مرد کے لئے مشرکہ سے نکاح کرنا اور زنا کار عورت کے لئے مشرک سے نکاح کرنا جائز ہوجائے۔ جب کہ یہ بات متفقہ طورپر جائز نہیں ہے۔ نیز یہ کہ مشرک عورتوں سے نکاح کرنا اور مشرک مردوں کے نکاح میں مسلمان عورتوں کو دنیا حرام اور منسوخ ہے۔ اس لئے آیت دو باتوں میں سے ایک پر دلالت کرتی ہے یا تو نکاح سے جماع مراد ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ اور آپ کے ہم خیال مفسرین سے مروی ہے یا آیت کا حکم منسوخ ہے جیسا کہ سعید بن المسیب سے مروی ہے۔ آیا زنا سے نکاح باطل ہوجاتا ہے ؟ زنا سے نکاح باطل نہیں ہوتا اس پر بعض حضرات اس روایت سے استدلال کرتے ہیں جس کے راوی ہارون بن ریاب ہیں۔ انہوں نے عبیداللہ بن عبید سے اسے نقل کیا ہے اسی طرح عبدالکریم الجرزی نے ابوالزبیر سے سے اس کی روایت کی ہے۔ دونوں سندوں میں صحابی کا واسطہ نہیں ہے اس لئے یہ مرسل روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ میری بیوی لامس یعنی ہاتھ لگانے والے کو نہیں روکتی۔ حضور ﷺ نے سا شخص کو اپنی سے تعلقات زن وشو باقی رکھنے کا حکم دیا۔ ان حضرات نے اس شخص کے قول کو ان معنوں پر محمول کیا ہے کہ اس کی بیوی کسی ایسے شخص کو نہیں روکتی جو اس کے ساتھ زنا کرنا چاہتا ہے۔ تاہم اہل علم نے اس تاویل کو انتہائی طور پر ناپسند کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ روایت درست مان لی جائے تو اس کے اصل معنی یہ ہوں گے کہ اس شخص نے اپنی بیوی کو احمق اور بیوقوف قرار دیا ہے نیز اس میں سمجھ بوجھ کی کمی کی نشاندہی کی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ وہ اس کے مال کو ضائع ہونے سے نہیں بچا سکتی یعنی وہ اس کے مال کو کسی مانگنے والے سے روکتی ہے اور نہ ہی چور سے اسے محفوظ رکھتی ہے۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ روایت کی یہ تاویل اولیٰ ہے اس لئے کہ اس کے الفاظ کے یہی حقیقی معنی ہیں جبکہ لمس کو وطی اور ہم بستری پر محمول کرنا کنایہ اور مجاز ہے۔ اس کے برعکس جن معنوں پر ہم نے روایت کو محمول کیا ہے وہ اولیٰ ہے نیز حضور ﷺ کی نسبت سے زیادہ مناسب ہے جیسا کہ حضرت علی ؓ اور حضرت عبداللہ ؓ کا قول ہے کہ ” جب تمہیں حضور ﷺ سے کوئی روایت پہنچے تو اسے ان معنوں پر محمول کرو یعنی اس کے متعلق ان معنوں کا تصور کرو جو ہدایت سے زیادہ قریب۔ زیادہ پر لطف اور زیادہ مبنی بر تقویٰ ہوں۔ “ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری (اولمستم النساء یا تم نے عورتوں سے ملامت کی ہو۔ ) یہاں جماح کو لمس قرار دیا گیا ہے۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ ا س شخص نے حضور ﷺ سے یہ نہیں کہا کہ اس کی بیوی کسی لامس کو نہیں روکتی بلکہ یہ کہا کہ اس کی بیوی کسی لامس کے ہاتھ کو نہیں روکتی ، یہ بھی نہیں کہا کہ وہ کسی لامس کی شرمگاہ کو نہیں روکتی۔ ارشاد باری ہے (ولو نزلنا علیک کتابا فی قرطاس فلمسوہ بایدیھم اگر ہم تم پر کوئی کتاب کاغذ میں لکھی ہوئی نازل کرتے اور پھر وہ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو لیتے) اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ لمس کے حقیقی معنی ہاتھ لگانا اور ہاتھ سے چھونا ہے۔ جریرا الخطفی کسی گروہ پر اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے : الستم لئاما اذترومون جارھم ولولا ھمولم تمنعوا کف لامس کیا تم لوگ کمینے اور قابل مذمت نہیں ہو جبکہ تم ان کے پڑوسی پر ظلم ڈھانے کا قصد کررہے ہو اور اگر وہ لوگ نہ ہوتے اور تمہاری مدد نہ کرتے تو تم خود کسی ہاتھ لگانے والے کو ہاتھ کو بھی روک نہ سکتے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہر ہے کہ شاعر نے یہاں لمس سے وطی مراد نہیں لی ہے بلکہ اس کی مراد یہ ہے کہ تم لوگ خود تو اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا دفعیہ نہیں کرسکتے اور اپنے امول کو ان لوگوں کے ہاتھوں سے بچا نہیں سکتے تو پھر تم ان کے پڑوسی پر ظلم کرنے کا ارادہ کیسے کرتے ہو ؟ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس وقت تک زانیہ عورت سے نکاح کرنا اور اسے نکاح کے تحت رکھنا محفوظ رو ممنوع ہے جب تک وہ زنا کاری کا دھندا کرتی رہے۔ اگر چہ اس کا یہ فعل قبیح نکاح کو فاسد کرنے میں موثر نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف اہل ایمان محصن عورتوں اور اہل کتاب خواتین سے نکاح کی اباحت کی ہے چناچہ ارشاد ہے (والمحصنات من المومنات و المحصنات من الذین اوتو الکتب من قبلکم۔ اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لئے حلال میں خواہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا ان قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی) یعنی ان میں سے پاک دامن خواتین۔ نیز اگر زانیہ عورت سے زناکاری کے دھندے کی حالت میں نکاح کرلیا جائے تو اس میں یہ خطرہ موجود ہوگا کہ اس کے پیٹ سے کوئی ولدالزنا پیدا ہوگا اور وہ اسے اپنے شوہر کی طرف منسوب کرکے اس کا اسے وارث بنادے گی۔ جن لوگوں نے زانیہ عورت سے نکاح کی اجازت دی ہے ان کی اس اجازت کو اس صورت پر محمول کیا جائے گا جب ایسی عورت زناکاری سے تائب ہوکر یہ دھندا چھوڑ چکی ہو۔ عورت کی زنا کاری میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کو واجب نہیں کرتی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بیوی پر تہمت زنا لگانے والے شوہر کے ساتھ اسے لعان کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کے بعد دونوں کی علیحدگی کا فرمان جاری کیا ہے۔ اگر عورت کے اندر زنا کاری کا وجود علیحدگی کو واجب کردیتا تو پھر شوہر کی طرف سے اس پر زنا کی تہمت لگتے ہی علیحدگی واقع ہوجاتی اس لئے کہ شوہر نے علیحدگی واجب کرنے والے امر کا اعتراف کرلیا تھا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر شوہر یہ اعتراف کرلیتا ک ہ اس کی بیوی درحقیقت اس کی رضاعی بہن ہے یا اس کے باپ نے اس کے ساتھ ہمبستری کی تھی تو اس کے اس اعتراف کے ساتھ ہی دونوں کے درمیان علیحدگی ہوجاتی ۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب اللہ تعالیٰ نے لعان کے بعد علیحدگی کا حکم دے دیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ زنا کاری تحریم کی موجب ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو لعان کی بنا پر علیحدگی واجب نہ ہوتی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر صورت حال تمہارے قول کے مطابق ہوتی تو نفس قذف کے ساتھ ہی علیحدگی واجب ہوجاتی، لعان کی بنا پر علیحدگی کے وجوب کی نوبت ہی نہ آتی۔ لیکن جب نفس قذف یعنی زنا کی تہمت لگاتے ہی علیحدگی واجب نہیں ہوئی تو اس سے معترض کے قول کے فساد پر دلالت حاصل ہوگئی۔ اگر اس کے جواب میں یہ کہا جائے کہ لعان کی بنا پر علیحدگی واقع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ لعان کی حیثیت عورت کے خلاف زنا کی گواہی دینے کی طرح ہے۔ جب عورت کے خلاف لعان کی بنا پر فیصلہ دے دیا گیا تو اس کے ساتھ ہی زنا کی وجہ سے علیحدگی کا حکم بھی دے دیا گیا۔ اس نکتے کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ نکتہ بھی غلط ہے۔ اس لئے کہ عورت کے خلاف اکیلے شوہر کی زنا کی گواہی عورت کو زانیہ قرار دینے کی موجب نہیں ہوتی جس طرح شوہر کے خلاف اکیلی بیوی کی یہ گواہی کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے، عورت پر تہمت کے سلسلے میں شوہر کو جھوٹا قرار دینے کی موجب نہیں بنتی کیونکہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کی دوسرے کے خلاف دی گئی گواہیوں میں سے کوئی گواہی دوسری گواہی کے مقابلہ میں اولیٰ نہیں ہوتی۔ اگر شوہر کے متعلق یہ حکم ہوتا کہ بیوی کے خلاف اس کی زنا کی گواہی کو قبول کرلیا جائے اور اس سے یہ ضروری ہوجاتا کہ اس گواہی کے تحت اس پر حد زنا جاری کردی جائے۔ جب عورت کو اس گواہی کی بنا پر حد نہیں لگتی تو یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ شوہر کے کہنے کی بنا پر عورت کے متعلق یہ حکم نہیں لگایا جاتا کہ وہ زانیہ ہے۔
Top