Ahkam-ul-Quran - An-Noor : 3
اَلزَّانِیْ لَا یَنْكِحُ اِلَّا زَانِیَةً اَوْ مُشْرِكَةً١٘ وَّ الزَّانِیَةُ لَا یَنْكِحُهَاۤ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ١ۚ وَ حُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ
اَلزَّانِيْ : بدکار مرد لَا يَنْكِحُ : نکاح نہیں کرتا اِلَّا : سوا زَانِيَةً : بدکار عورت اَوْ مُشْرِكَةً : یا مشرکہ وَّالزَّانِيَةُ : اور بدکار عورت لَا يَنْكِحُهَآ : نکاح نہیں کرتی اِلَّا زَانٍ : سوا بدکار مرد اَوْ مُشْرِكٌ : یا شرک کرنیوالا مرد وَحُرِّمَ : اور حرام کیا گیا ذٰلِكَ : یہ عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
بدکار مرد تو بدکار یا مشرک عورت کے سوا نکاح نہیں کرتا اور بدکار عورت کو بھی بدکار یا مشرک مرد کے سوا اور کوئی نکاح میں نہیں لاتا اور یہ (یعنی) بدکار عورت سے نکاح کرنا مومنوں پر حرام ہے
زانیہ عورت سے نکاح کا بیان قول باری ہے (الزانی لا یکنح الا زانیۃ او مشرکۃ والزانیۃ لا ینکحھا الا زان او مشرک وحرم ذلک علی المومنین۔ زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک اور اہل ایمان پر حرام کردیا گیا ہے) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ عمر وبن شعیب نے اپنے والد سے ، انہوں نے عمرو کے دادا سے روایت کی ہے کہ مرثد بن ابی مرثد نامی ایک شخص تھا جو مکہ میں کافروں کے ہاں گرفتار شدہ مسلمانوں کو سواریوں پر بٹھا کر مدینے لایا کرتا تھا۔ مکہ میں عتاق نامی ایک ہیسوار رہتی تھی۔ جس کے اس شخص کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے۔ مرثد نے مکہ میں پھنسے ہوئے ایک شخص کو مدینہ پہنچانے کا وعدہ کیا تھا۔ جب وہ اس مقصد کے لئے مکہ گیا تو عناق نے اسے دیکھ لیا اور کہنے لگی کہ آج رات میرے پاس ٹھہرجائو۔ مرثد نے جو ای جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے زنا حرام کردیا ہے۔ یہ سن کر اسے غصہ آگیا اور چلا کر کہنے لگی۔ خیموں میں رہنے والوں ، یہی وہ شخص ہے جو تمہارے قیدیوں کو یہاں سے مدینے پہنچاتا ہے۔ مرثد کہتے ہیں کہ جب میں مدینہ پہنچا تو حضور ﷺ کے پاس حاضر ہوکرعرض کیا۔ آپعناق سے نکاح کرنا پسند کریں گے ؟ “ حضور ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ یہاں تک کہ درج بالا آیت کا نزول ہوگیا۔ حضور ﷺ نے جواب دیا کہ ” ہم اس سے نکاح نہیں کریں گے۔ “ عمرو بن شعیب نے اس روایت میں یہ بیان کیا ہے کہ آیت کا نزول زانیہ مشرکہ کے سلستے میں ہوا ہے کہ اس کے ساتھ صرف زانی یا مشرک نکاح کرسکتا ہے۔ نیز یہ کہ مشرکہ کے ساتھ مسلمان کا نکاح زنا ہے کیونکہ مشرکہ اس کے لئے حلال ہی نہیں ہوتی۔ اس آیت کی تفسیر اور اس کے حکم کے متعلق سلف کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے، انہیں یحییٰ بن سعید اور یزید بن ہارون نے یحییٰ بن سعید الانصاری سے، انہوں نے سعید بن المسیب سے کہ انہوں نے کہا ” اس آیت کو بعد میں آنے والی آیت (وانکحو الایامی منکم تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں ان کا نکاح کرادو ) نے منسوخ کردیا ہے ۔ کہاجاتا تھا کہ زانیہ عورت مسلمانوں کی بےنکاحی عورتوں میں سے ہے۔ “ اسی طرح سعید بن المسیب نے یہ بتایا کہ آیت منسوخ ہوچکی ہے۔ ابوعبید کہتے ہیں ہمیں حجاج نے ابن جریج سے روایت سنائی۔ انہوں نے مجاہد سے اس آیت کی تفسیر میں ان کا یہ قول نقل کیا۔ ” کچھ لوگ تھے جو زمانہ جاہلیت میں علانیہ طور پر بدکاری کا اڈا چلانے والی عورتوں کے ساتھ منہ کالا کرنا چاہتے تھے۔ ان لوگوں سے کہا گیا کہ ان کے ساتھ اب جنسی تعلق زنا ہے۔ یہ جان کر انہوں نے ان عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے کا ارادہ کرلیا۔ “ اس طرح مجاہد نے بھی یہ بیان کیا کہ آیت کا نزول چند مخصوص عورتوں کے متعلق ہوا تھا جن کا کردار اوپر بیان کیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے اس آیت کی تفسیر میں ان کا یہ قول منقول ہے کہ ” آیت کا نزول ایک ایسے شخص کے بارے میں ہوا تھا جس نے ایک بیسوا سے اس شرط پر شادی کررکھی تھی کہ وہ اس کے اخراجات برداشت کرتی رہے گی۔ “ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے یہ بتایا کہ آیت میں نہی کہ یہ وجہ ہے یعنی یہ کہ ایک شخص کسی عورت سے اس شرط پر شادی کرے کہ وہ اس کی بدکاری کے کاروبار میں مخل نہیں ہوگا۔ حبیب بن ابی عمرہ نے سعید بن جبیر سے اور نہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” نکاح سے ہم بستری مراد ہے۔ “ ابن شبرمہ نے عکرمہ سے اس آیت کی تفسیر میں ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” جس وقت کوئی انسان زنا کاری کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ اپنی جیسی زنا کا عورت کے ساتھ منہ کالا کرتا ہے۔ “ حضرت ابن عباس ؓ کے غلام شعبہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بدکاری کا اڈہ چلانے والی عورتیں ہوتی تھیں وہ اپنے دروازوں پر جھنڈیاں آویزاں کردیتی تھیں جس طرح جانوروں کا علاج کرنے والے کیا کرتے تھے۔ ان جھنڈیوں کی وجہ سے وہ عورتیں پہچانی جاتیں اور لوگ ان کے پاس شہوت رانی کے لئے آتے جاتے۔ معمر نے ابراہیم نخعی سے اس آیت کی تفسیر میں روایت بیان کی ہے کہ نکاح سے وہ جماع مراد ہے جو ارتکاب زنا کی صورت میں ہوتا ہے عروہ بن الزبیر سے بھی اسی قسم کی روایت منقول ہے۔ ابوبکر حبصاص ان آراء پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان تمام حضرات نے آیت کے مفہوم کے متعلق یہ رائے دی ہے کہ اس میں زنا کے فعل میں دونوں کی شرکت کی خبر دی گئی ہے۔ اس معاملے میں عورت بھی مرد کی طرح ہے جب مرد زانی ہوگا تو عورت بھی اس کی طرح زانیہ ہوگی بشرطیکہ اس نے بخوشی اس فعل قبیح کے ارتکاب کی خاطر اس کی بات مان لی ہو۔ جب عورت زانیہ ہوگی تو مرد بھی اس کی طرح زانی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے آیت کے ذریعے زنا کے فعل قبیح میں دونوں کی یکسانیت کا حکم بیان فرمادیا جس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ حدزنا اور آخرت کی سزا کے استحقاق میں بھی دونوں کا حکم یکساں ہوگا۔ نیز قطع سوالات اور اس قسم کے دوسرے احکامات میں بھی دونوں یکساں ہوں گے۔ اس میں ایک اور قول بھی مروی ہے۔ عاصم الاحول نے حسن بصری سے آیت کی تفسیر میں ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” جس شخص کو حد لگ چکی ہو وہ صرف اسی عورت سے نکاح کرے گا جسے حدلگ چکی ہو۔ “ زانیہ عورت سے نکاح کرنے کے بارے میں سلف کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ ، حضرت عمر ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ابن مسعود ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ ، مجاہد، سلیمان بن یسار، سعید بن جبیر اور دیگر حضرات سے مروی ہے کہ جب کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ زنا کا ارتکاب کرلے اور کوئی اور شخص بھی اس کے ساتھ یہ فعل بد سرانجام دے دے تو پہلے زانی کے لئے اس کے ساتھ نکاح کرلینا جائز ہوگا۔ حضرت علی ؓ ، حضرت عائشہ ؓ ، حضرت براء ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ سے (ایک روایت کے مطابق) مروی ہے کہ جب تک یہ دونوں اکٹھے رہیں گے زانی ہی رہیں گے۔ حضرت علی ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ جب کوئی شوہرزنا کا ارتکاب کرے گا تو اس کی بیوی سے اسے علیحدہ کردیا جائے گا ۔ یہی حکم اس صورت میں بھی ہوگا جب بیوی زنا کا ارتکاب کرے گی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ جن حضرات نے زانیہ عورت سے نکاح کی ممانعت کردی ہے انہوں نے اس آیت کو اسی معنی پر محمول کیا ہے جبکہ فقہاء امصار نکاح کے جواز پر متفق ہیں نیز یہ کہ زنا زانیہ بیوی کو اس کے شوہر کے لئے حرام کردینے کا موجب نہیں ہوتا نہ ہی میاں بیوی کے درمیان علیحدگی واجب ہوتی ہے۔ قول باری (الزانی لا ینکح الا زانیۃ) یا تو جملہ خبر یہ کی صورت میں ہے جو اس کے حقیقی معنی ہیں یاجملہ انشائیہ کی صورت میں ہے اور نہی نیز تحریم پر دلالت کررہا ہے۔ پھر نکاح کے ذکر سے یا تو ہم بستری مراد ہے یا عقد نکاح۔ اب اس فقرے کو جملہ خبر یہ کہ صورت دے کر خیر کے معنوں پر محمول کرنا ممتنع ہے۔ اگرچہ فقرے کے حقیقی معنی یہی ہیں۔ اس امتناع کی وجہ یہ ہے کہ ہم زانی مردوں اور زانیہ عورتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ نکاح کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ فقرہ خبر کی صورت میں نہیں ہے۔ اس لئے یہ بات ثابت ہوگئی کہ فقرہ میں حکم اور اور نہی مراد ہے۔ جب بات اس طرح ہے تو اب یا تو ہم بستری مراد ہوگی یا عقد نکاح۔ جبکہ لغت میں نکاح کے حقیقی معنی وطی اور ہم بستری کے ہیں۔ ہم نے یہ بات کئی مواقع پر بیان کی ہے۔ اس لئے اب اسے وطی کے معنوں پر محمول کرنا واجب ہوگیا ۔ جس طر ح حضرت ابن عباس اور آپ کے ہم خیال مفسرین سے مروی ہے کہ نکاح سے جماع مراد ہے۔ نکاح کو عقد نکاح کے معنوں کی طرف کسی دلالت کی بنا پر پھیرا جاسکتا ہے اس لئے کہ نکاح کا یہ مجازی معنی ہے نیز یہ کہ جب حقیقی مراد ہونا ثابت ہوگیا تو اب مجازی معنی کا دخول منتفی ہوگیا۔ نیز اگر نکاح سے عقدنکاح مرادہوتا تو شوہر یا بیوی کے ارتکاب زنا کی بنا پر دونوں کے درمیان علیحدگی واجب نہ ہوتی اس لئے کہ میاں بیوی دونوں ہی پر زانی ہونے کے وصف کا اطلاق ہوتا تھا کیونکہ آیت زانیہ عورت کے ساتھ زانی مرد کے نکاح کی اباحت کی مقتضی ہے اس لئے یہ بات واجب ہوتی کہ عورت کے لئے اس مرد کے ساتھ نکاح کا جواز ہوجائے جس کے ساتھ اس نے منہ کالا کیا تھا۔ پیشتر اس سے کہ دونوں تائب ہوجاتے نیز یہ کہ زوجیت کی حالت میں میاں یا بیوی کی زناکاری ان دونوں کے درمیان علیحدگی کی موجب نہ بنتی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کسی بھی اہل علم نے یہ مسلک اختیار کیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی واجب ہوجاتا کہ زنا کار مرد کے لئے مشرکہ سے نکاح کرنا اور زنا کار عورت کے لئے مشرک سے نکاح کرنا جائز ہوجائے۔ جب کہ یہ بات متفقہ طورپر جائز نہیں ہے۔ نیز یہ کہ مشرک عورتوں سے نکاح کرنا اور مشرک مردوں کے نکاح میں مسلمان عورتوں کو دنیا حرام اور منسوخ ہے۔ اس لئے آیت دو باتوں میں سے ایک پر دلالت کرتی ہے یا تو نکاح سے جماع مراد ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ اور آپ کے ہم خیال مفسرین سے مروی ہے یا آیت کا حکم منسوخ ہے جیسا کہ سعید بن المسیب سے مروی ہے۔ آیا زنا سے نکاح باطل ہوجاتا ہے ؟ زنا سے نکاح باطل نہیں ہوتا اس پر بعض حضرات اس روایت سے استدلال کرتے ہیں جس کے راوی ہارون بن ریاب ہیں۔ انہوں نے عبیداللہ بن عبید سے اسے نقل کیا ہے اسی طرح عبدالکریم الجرزی نے ابوالزبیر سے سے اس کی روایت کی ہے۔ دونوں سندوں میں صحابی کا واسطہ نہیں ہے اس لئے یہ مرسل روایت ہے کہ ایک شخص نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ میری بیوی لامس یعنی ہاتھ لگانے والے کو نہیں روکتی۔ حضور ﷺ نے سا شخص کو اپنی سے تعلقات زن وشو باقی رکھنے کا حکم دیا۔ ان حضرات نے اس شخص کے قول کو ان معنوں پر محمول کیا ہے کہ اس کی بیوی کسی ایسے شخص کو نہیں روکتی جو اس کے ساتھ زنا کرنا چاہتا ہے۔ تاہم اہل علم نے اس تاویل کو انتہائی طور پر ناپسند کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ روایت درست مان لی جائے تو اس کے اصل معنی یہ ہوں گے کہ اس شخص نے اپنی بیوی کو احمق اور بیوقوف قرار دیا ہے نیز اس میں سمجھ بوجھ کی کمی کی نشاندہی کی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ وہ اس کے مال کو ضائع ہونے سے نہیں بچا سکتی یعنی وہ اس کے مال کو کسی مانگنے والے سے روکتی ہے اور نہ ہی چور سے اسے محفوظ رکھتی ہے۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ روایت کی یہ تاویل اولیٰ ہے اس لئے کہ اس کے الفاظ کے یہی حقیقی معنی ہیں جبکہ لمس کو وطی اور ہم بستری پر محمول کرنا کنایہ اور مجاز ہے۔ اس کے برعکس جن معنوں پر ہم نے روایت کو محمول کیا ہے وہ اولیٰ ہے نیز حضور ﷺ کی نسبت سے زیادہ مناسب ہے جیسا کہ حضرت علی ؓ اور حضرت عبداللہ ؓ کا قول ہے کہ ” جب تمہیں حضور ﷺ سے کوئی روایت پہنچے تو اسے ان معنوں پر محمول کرو یعنی اس کے متعلق ان معنوں کا تصور کرو جو ہدایت سے زیادہ قریب۔ زیادہ پر لطف اور زیادہ مبنی بر تقویٰ ہوں۔ “ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری (اولمستم النساء یا تم نے عورتوں سے ملامت کی ہو۔ ) یہاں جماح کو لمس قرار دیا گیا ہے۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ ا س شخص نے حضور ﷺ سے یہ نہیں کہا کہ اس کی بیوی کسی لامس کو نہیں روکتی بلکہ یہ کہا کہ اس کی بیوی کسی لامس کے ہاتھ کو نہیں روکتی ، یہ بھی نہیں کہا کہ وہ کسی لامس کی شرمگاہ کو نہیں روکتی۔ ارشاد باری ہے (ولو نزلنا علیک کتابا فی قرطاس فلمسوہ بایدیھم اگر ہم تم پر کوئی کتاب کاغذ میں لکھی ہوئی نازل کرتے اور پھر وہ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو لیتے) اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ لمس کے حقیقی معنی ہاتھ لگانا اور ہاتھ سے چھونا ہے۔ جریرا الخطفی کسی گروہ پر اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے : الستم لئاما اذترومون جارھم ولولا ھمولم تمنعوا کف لامس کیا تم لوگ کمینے اور قابل مذمت نہیں ہو جبکہ تم ان کے پڑوسی پر ظلم ڈھانے کا قصد کررہے ہو اور اگر وہ لوگ نہ ہوتے اور تمہاری مدد نہ کرتے تو تم خود کسی ہاتھ لگانے والے کو ہاتھ کو بھی روک نہ سکتے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہر ہے کہ شاعر نے یہاں لمس سے وطی مراد نہیں لی ہے بلکہ اس کی مراد یہ ہے کہ تم لوگ خود تو اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا دفعیہ نہیں کرسکتے اور اپنے امول کو ان لوگوں کے ہاتھوں سے بچا نہیں سکتے تو پھر تم ان کے پڑوسی پر ظلم کرنے کا ارادہ کیسے کرتے ہو ؟ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس وقت تک زانیہ عورت سے نکاح کرنا اور اسے نکاح کے تحت رکھنا محفوظ رو ممنوع ہے جب تک وہ زنا کاری کا دھندا کرتی رہے۔ اگر چہ اس کا یہ فعل قبیح نکاح کو فاسد کرنے میں موثر نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف اہل ایمان محصن عورتوں اور اہل کتاب خواتین سے نکاح کی اباحت کی ہے چناچہ ارشاد ہے (والمحصنات من المومنات و المحصنات من الذین اوتو الکتب من قبلکم۔ اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لئے حلال میں خواہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا ان قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی) یعنی ان میں سے پاک دامن خواتین۔ نیز اگر زانیہ عورت سے زناکاری کے دھندے کی حالت میں نکاح کرلیا جائے تو اس میں یہ خطرہ موجود ہوگا کہ اس کے پیٹ سے کوئی ولدالزنا پیدا ہوگا اور وہ اسے اپنے شوہر کی طرف منسوب کرکے اس کا اسے وارث بنادے گی۔ جن لوگوں نے زانیہ عورت سے نکاح کی اجازت دی ہے ان کی اس اجازت کو اس صورت پر محمول کیا جائے گا جب ایسی عورت زناکاری سے تائب ہوکر یہ دھندا چھوڑ چکی ہو۔ عورت کی زنا کاری میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کو واجب نہیں کرتی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بیوی پر تہمت زنا لگانے والے شوہر کے ساتھ اسے لعان کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کے بعد دونوں کی علیحدگی کا فرمان جاری کیا ہے۔ اگر عورت کے اندر زنا کاری کا وجود علیحدگی کو واجب کردیتا تو پھر شوہر کی طرف سے اس پر زنا کی تہمت لگتے ہی علیحدگی واقع ہوجاتی اس لئے کہ شوہر نے علیحدگی واجب کرنے والے امر کا اعتراف کرلیا تھا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر شوہر یہ اعتراف کرلیتا ک ہ اس کی بیوی درحقیقت اس کی رضاعی بہن ہے یا اس کے باپ نے اس کے ساتھ ہمبستری کی تھی تو اس کے اس اعتراف کے ساتھ ہی دونوں کے درمیان علیحدگی ہوجاتی ۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب اللہ تعالیٰ نے لعان کے بعد علیحدگی کا حکم دے دیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ زنا کاری تحریم کی موجب ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو لعان کی بنا پر علیحدگی واجب نہ ہوتی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر صورت حال تمہارے قول کے مطابق ہوتی تو نفس قذف کے ساتھ ہی علیحدگی واجب ہوجاتی، لعان کی بنا پر علیحدگی کے وجوب کی نوبت ہی نہ آتی۔ لیکن جب نفس قذف یعنی زنا کی تہمت لگاتے ہی علیحدگی واجب نہیں ہوئی تو اس سے معترض کے قول کے فساد پر دلالت حاصل ہوگئی۔ اگر اس کے جواب میں یہ کہا جائے کہ لعان کی بنا پر علیحدگی واقع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ لعان کی حیثیت عورت کے خلاف زنا کی گواہی دینے کی طرح ہے۔ جب عورت کے خلاف لعان کی بنا پر فیصلہ دے دیا گیا تو اس کے ساتھ ہی زنا کی وجہ سے علیحدگی کا حکم بھی دے دیا گیا۔ اس نکتے کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ نکتہ بھی غلط ہے۔ اس لئے کہ عورت کے خلاف اکیلے شوہر کی زنا کی گواہی عورت کو زانیہ قرار دینے کی موجب نہیں ہوتی جس طرح شوہر کے خلاف اکیلی بیوی کی یہ گواہی کہ اس کا شوہر جھوٹا ہے، عورت پر تہمت کے سلسلے میں شوہر کو جھوٹا قرار دینے کی موجب نہیں بنتی کیونکہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کی دوسرے کے خلاف دی گئی گواہیوں میں سے کوئی گواہی دوسری گواہی کے مقابلہ میں اولیٰ نہیں ہوتی۔ اگر شوہر کے متعلق یہ حکم ہوتا کہ بیوی کے خلاف اس کی زنا کی گواہی کو قبول کرلیا جائے اور اس سے یہ ضروری ہوجاتا کہ اس گواہی کے تحت اس پر حد زنا جاری کردی جائے۔ جب عورت کو اس گواہی کی بنا پر حد نہیں لگتی تو یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ شوہر کے کہنے کی بنا پر عورت کے متعلق یہ حکم نہیں لگایا جاتا کہ وہ زانیہ ہے۔
Top