Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - An-Noor : 4
وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَةً وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَۙ
وَ
: اور
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
يَرْمُوْنَ
: تہمت لگائیں
الْمُحْصَنٰتِ
: پاکدامن عورتیں
ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا
: پھر وہ نہ لائیں
بِاَرْبَعَةِ
: چار
شُهَدَآءَ
: گواہ
فَاجْلِدُوْهُمْ
: تو تم انہیں کوڑے مارو
ثَمٰنِيْنَ
: اسی
جَلْدَةً
: کوڑے
وَّلَا تَقْبَلُوْا
: اور تم نہ قبول کرو
لَهُمْ
: ان کی
شَهَادَةً
: گواہی
اَبَدًا
: کبھی
وَاُولٰٓئِكَ
: یہی لوگ
هُمُ
: وہ
الْفٰسِقُوْنَ
: نافرمان
اور جو لوگ پرہیزگار عورتوں کو بدکاری کا الزام لگائیں اور اس پر چار گواہ نہ لائیں تو ان کو اسی درے مارو اور کبھی ان کی شہادت قبول نہ کرو اور یہی بد کردار ہیں
حد قذف کا بیان قول باری ہے۔ (والذین یرمون المحصنات ثم لم یاتوا باربعۃ شھدآء فاجلدو ھم ثما نین جلدۃ۔ اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں ان کو اسی کوڑے لگائو) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ احصان کی دو قسمیں ہیں : ایک قسم تو وہ ہے جس کے ساتھ زانی پر رجم کے وجوب کا تعلق ہوتا ہے وہ یہ کہ زانی آزاد، عاقل، بالغ اور مسلمان ہو نیز کسی عورت سے اس کا نکاح صحیح ہوگیا ہو اور دونوں کو خلوت صحیحہ بھی میسر آگئی ہو۔ دوسری قسم وہ احصان ہے جو تہمت لگانے والے پر حد قذف واجب کردیتا ہے اور وہ یہ کہ جس پر زنا کی تہمت لگائی گئی ہو وہ آزاد، عاقل، بالغ، عفیف اور مسلمان ہو۔ اس بارے میں فقہاء کے مابین ہمیں کسی اختلاف رائے کا علم نہیں ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ پاک دامن عورتوں کا ذکر کیا ہے جب کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ آیت سے پاکباز مرد بھی مراد ہیں اور ایک عفیف اور محصن پر تہمت زنا لگانے والے پر اسی طرح حد قذص واجب ہوجاتی ہے۔ فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ قول باری (والذین یرمون المحصنات) میں تہمت سے تہمت زنا مراد ہے اگرچہ آیت کے الفاظ کے پس منظر میں اس پر غیر منصوص دلالت بھی موجود ہے۔ وہ اس طرح کہ جب آیت میں محصنات یعنی پاک دامن عورتوں کا ذکر ہا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ ان پر تہمت لگانے کے معنی یہ ہیں کہ ان کی پاک دامنی پر تہمت لگائی جائے۔ اور پاک دامن پر تہمت لگانے کے معنی ہیں کہ ان پر زنا کی تہمت لگائی جائے۔ آیت کے الفاظ کی دلالت کے پس منظر میں اور وجہ سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ قول باری ہے : (ثم لم یاتوا باربعۃ شھدآء) یعنی اپنی تہمت کی صداقت کے حق میں چار گواہ پیش نہ کرسکے۔ اب یہ بات سب کو معلوم ہے کہ گواہوں کی یہ تعداد زنا کے جرم کی گواہی میں ضروری ہے۔ اس گواہی کے لئے یہ تعداد شرط ہے۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ قول باری (والذین یرمون المحصنات) میں زنا کی تہمت مراد ہے۔ یہ بات ایک اور چیز پر بھی دلالت کرتی ہے۔ وہ یہ کہ جس قذف یعنی تہمت کی بنا پر حد قذف واجب ہوتی ہے وہ صریح الفاظ میں زنا کی تہمت ہے تہمت کی یہی وہ صورت ہے کہ اگر اس پر چار گواہ پیش کیے جائیں گے تو تہمت زدہ شخص پر حد جاری کی جائے گی۔ اگر فحوائے لفظ میں اس پر دلالت نہ ہوتی تو رمی یعنی تہمت کا لفظ زنا کے ساتھ خاص نہ ہوتا۔ اس کا تعلق تہمت کی دوسری صورتوں مثلاً چوری کی تہمت یا کفر یا شراب نوشی کی تہمت نیز دوسرے ممنوعہ افعال کی تہمت کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں لفظ اپنے حکم کے ایجاب میں خود کفیل نہ ہوتا بلکہ مجمل ہونے کی بنا پر اسے بیان اور تفصیل کی ضرورت ہوتی اور اس کے حکم کا ایجاب اسی بیان وتفصیل پر موقوف ہوتا۔ بہرحال جو بھی شکل ہوتی یہاں تو بالاتفاق زنا کی تہمت مراد ہے۔ جب اتفاق کی یہ صورت ہے تو قول باری اپنے مفہوم کے لحاظ سے کچھ اس طرح ہے۔” اور وہ لوگ جو پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں۔ “ کیونکہ اتفاق کے حصوں کی حیثیت یہ ہے کہ گویا الفاظ میں بھی یہ مذکور ہے اس سے بات ضروری ہوگئی کہ حدقذف کا وجوب صرف زنا کی تہمت تک محدود رہے۔ کسی اور تہمت کے ساتھ اس کا تعلق نہ ہو ۔ اگر کوئی شخص صریح الفاظ میں کسی پر زنا کی تہمت نہیں لگاتا بلکہ تعریفیں اور اشارے کنائے میں یہ بات کرتا ہے تو اس کے حکم کے متعلق فقہاء نیز سلف میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، اماز زفر ، امام محمد، ابن شہرمہ، سفیان ثوری حسن بن صالح اور امام شافعی کا قول ہے کہ زنا کی تعریض کی بنا پر حد قذف واجب نہیں ہوئی امام مالک کا قول ہے کہ اس صورت میں بھی اس پر حدواجب ہوتی ہے۔ اوزاعی نے زہری سے، انہوں نے سالم سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر ؓ زنا کی تعریضاً تہمت لگانے پر بھی حد قذف جاری کردیتے تھے۔ ابن وہب نے امام مالک سے، انہوں نے ابوالرجال سے ، انہوں نے اپنی والدہ عمرہ سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں خلافت میں دو شخص ایک دوسرے کے خلاف گالم گلوچ پر اتر آئے، ایک نے دوسرے سے کہا۔ ” بخدا ! میرا بات زانی نہیں تھا اور نہ ہی میری ماں زانیہ تھی۔ “ جب یہ معاملہ حضرت عمر ؓ کے پاس پہنچا تو آپ نے اس فقرے کے متعلق لوگوں کی رائے معلوم کی، ایک نے کہا کہ اس شخص نے اپنے اس فقرے کے ذریعے اپنے والدین کی تعریف کی ہے۔ دوسرے لوگوں نے کہا کہ وہ اپنے والدین کی اس کے سوا کوئی اور تعریف بھی تو کرسکتا تھا۔ ان لوگوں نے حضرت عمر ؓ کو مشورہ دیا کہ اسے قذف کی حدلگنی چاہیے چناچہ حضرت عمر ؓ نے اسے اسی کوڑے لگوائے ۔ اب یہ بات ظاہر ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اس بارے میں جن لوگوں کی رائے معلوم کی تھی وہ سب کے سب صحابہ کرام ؓ ہی ہوں گے جن کا اس بارے میں اختلاف قابل تسلیم ہے۔ اس روایت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ سلف کے مابین اس بارے میں اختلاف رائے سے پھر جب یہ بات ثابت ہے کہ آیت میں تہمت سے تہمت زنا ہے تو اب ہمارے لئے تہمت زنا کے سوا کسی اور تہمت پر حدواجب کرنا جائز نہیں رہا۔ کیونکہ حدود کے اثبات میں قیاس کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ ان کے اثبات کا طریقہ تو صرف یہ ہے کہ اس پر امت کا اتفاق ہوچکا ہو یا پھر شریعت کی طرف سے اس بارے میں رہنمائی کردی گئی ہو جسے توقیف کہتے ہیں۔ یہ بات تعریضاً زنا کی تہمت کی صورت میں معدوم ہے۔ حضرت عمر ؓ کا تعریض کے متعلق دوسرے لوگوں سے مشورہ لینا اور ان کی رائے معلوم کرنا خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس سلسلے میں ان کے پاس کوئی شرعی دلیل یا رہنمائی یعنی توقیف موجود نہیں تھی اور جس شخص نے جو بھی رائے دی اس نے اپنے اجتہاد اور سمجھ بوجھ کے مطابق دی۔ نیز تعریض کی حیثیت اس کنایہ جیسی ہوتی ہے جس میں کئی معانی کا احتمال ہوتا ہے ۔ اور احتمال کی بنا پر حد واجب کردینا جائز نہیں ہوتا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اصل کے اعتبار سے تعریفیں کا فقرہ کہنے والا شخص حد سے بری ہوتا ہے ہم اسے شک کی بنا پر کوڑے نہیں لگا سکتے جبکہ ایسا فقرہ جس میں کئی احتمالات ہوں شکوک کے درجے میں ہوتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ یزید بن رکانہ ؓ نے سبب اپنی بیوی کو بتۃ کے لفظ سے طلاق دی تو حضور ﷺ نے ان سے یہ حلف لیا کہ میں نے صرف ایک طلاق کی نیت کی ہے۔ آپ نے احتمال کی بنا پر تین طلاق ان پر لازم نہیں کیں۔ اسی لئے فقہاء کا قول ہے کہ طلاق کنایات میں دلالت کئے بغیر کنایہ کو طلاق قرار نہیں دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ درج بالا روایت میں طلاق کے سلسلے میں مذکور لفظ کا تعلق بھی طلاق کنایہ سے ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (ادروا الحد ود بالشبھات، شبہات کی بنا پر حدود کو ہٹا دیا کرو) تعریض کی کم سے کم صورت جبکہ اس میں تہمت اور غیر تہمت دونوں کا احتمال ہو یہ ہے کہ وہ حد کے سقوط کے لئے شبہ کا کام دے جائے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے عدت کے دوران تعریضاً پیغام نکاح دینے اور صریحاً ایسا کرنے کے حکم میں فرق رکھا ہے چناچہ ارشاد ہے۔ (ولا جناح علیکم فیما عرضتم بہ من خطبۃ النکاح او اکننتم فی انفسکم عا اللہ انکم ستذکرو نھن ولکن لا تواعدو ھن سرا۔ زمانہ عدت میں خواہ تم ان بیوہ عورتوں کے ساتھ منگنی کا اشارہ کنائے میں ظاہر کرو ، خواہ دل میں چھپا کے رکھو دونوں صورتوں میں کوئی مضائقہ نہیں اللہ جانتا ہے کہ ان کا خیال تو تمہارے دل میں آئے گا ہی۔ مگر خفیہ عہد و پیمان نہ کرنا) یعنی تم ان سے نکاح کرنے کا خفیہ عہد و پیمان نہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے تعریض نکاح کو دل میں چھپائے ہوئے نکاح کے خیال جیسا قرار دیا۔ قذف میں تعریض کا بھی یہی حکم ہونا ضروری ہے۔ ان دونوں میں مشترکہ بات یہ ہے کہ تعریض میں بھی چونکہ احتمال ہوتا ہے اس لئے احتمال کے وجود کی بنا پر اسے دل میں چھپائے ہوئے خیال کی مانند قرار دیا گیا۔ غلام کی حد قذف غلام کی حد قذف کے مسئلے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابویوسف امام محمد، امام مالک، زفر ، عثمان البتی، امام شافعی اور سفیان ثوری سب کا قول ہے کہ اگر غلام کسی آزاد کو قذف کرے گا تو اسے چالیس کوڑے لگیں گے۔ اوزاعی کا قول ہے کہ اسی کوڑے لگیں گے، سفیان ثوری نے جعفر بن محمد سے، انہوں نے اپنے والد سے یہ روایت کی ہے کہ حضرت علی ؓ نے قذف میں غلام کو چالیس کوڑے لگانے کا حکم دیا تھا۔ سفیان ثوری نے ابن ذکوان سے، انہوں نے عبداللہ بن عامر بن ربعیہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکر ؓ ، حضرت عمر ؓ ، حضرت عثمان ؓ اور ان کے بعد کے خلفاء کا زمانہ دیکھا ہے ۔ میں نے سب کو یہی دیکھا کہ وہ غلام کو حد قذف میں چالیس کوڑے لگاتے تھے، ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ ، سالم، سعید بن المسیب اور عطا کا بھی یہی مسلک ہے۔ لیث بن سلیم نے القاسم بن عبدالرحمن سے روایت کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ایک غلام کے متعلق جس نے کسی آزاد پر زنا کی تہمت لگائی تھی، اسی کوڑے لگانے کا فیصلہ سنایا تھا۔ ابوالزناد کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حد قذف میں ایک غلاک کو اسی کوڑے لگوائے تھے۔ تاہم سلف کے مابین اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حد زنا میں غلام کو پچاس کوڑے لگیں گے جو آزاد غیر محصن زانی کی سزا کا نصف ہے۔ یہ تخفیف غلامی کی بنا پر ہے۔ ارشاد باری ہے (ناذا احصن فان اتین بفاحشۃ فعلیھن نصف ما علی المحصنات من العذاب۔ پھر جب وہ حصار نکاح میں محفوظ ہوجائیں اور اس کے بعد کسی بدچلنی کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی بہ نسبت آدمی سزا ہے جو خاندانی عورتوں (محصنات) کے لئے مقرر ہے) اس آیت میں لونڈی کی حد کا حکم منصوص طریقے سے بیان کردیا نیز یہ بتادیا کہ آزاد عورت کے لئے مقرر کردہ سزا کا نصف لونڈی کی سزا ہوگی۔ دوسری طرف سب کا اس پر اتفاق ہے کہ غلامی کی مشترک علت کی بنا پر غلام کا حکم بھی لونڈی جیسا ہے۔ اس لئے غلامی کی وجہ مشترک کی بنا پر غلام کی حد قذف آزاد آدمی کو لگنے والی حد قذف کا نصف ہونی چاہیے۔ دیوانے یا بچے پر قذف کے بارے میں آراء ائمہ اگر کوئی شخص کسی دیوانے یا بچے پر زنا کی تہمت لگائے تو ایسے شخص کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے رفقاء حسن بن صالح اور امام شافعی کا قول ہے کہ ایسے شخص کو حدقذف نہیں لگے گی۔ امام مالک کا قول ہے کہ بچے پر زنا کی تہمت لگانے والے کو حد نہیں لگے گی۔ اگر وہ بالغ نہ ہوچکا ہو خواہ اس جیسا بچہ جماع کی قدرت کیوں نہ رکھتا ہو۔ اگر کسی ایسی بچی پر کسی نے زنا کی تہمت لگادی ہو جس کیساتھ ہم بستری کی جاسکتی ہو تو قاذف کو حد لگے گی خواہ بچی کو ابھی حیض نہ بھی آیا ہو۔ دیوانے پر زنا کی تہمت لگانے والے کو حد لگے گی۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ دیوانے کے قاذف کو حد لگے گی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ دیوانہ ، بچہ اور بچی سے زنا کا صدور نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ان کا جماع زنا نہیں کہلا سکتا۔ زنا ایک مذموم فعل ہے جس پر ایک شخص عتاب کا سزاوار ہوتا ہے۔ اور یہ تینوں افراد مرفوع القلم ہونے کی وجہ سے اپنے افعال مذمومہ پر عتاب کے مستحق قرار نہیں پاتے اس لئے ان پر زنا کی تہمت لگانے والا دیوانے پر تہمت لگانے والے کی طرح ہے کیونکہ ایسے قاذف کے جھوٹ کا سب کو علم ہوتا ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر ایسے افراد سے یہ فعل سرزد ہو بھی جائے تو اس کی وجہ سے انہیں کسی بدنمائی اور شرمندگی کا سامنا کرنا نہیں پڑتا۔ اسی طرح اگر کسی نے ان پر اس فعل قبیح کی تہمت لگادی تو بھی انہیں کسی بدنمائی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھیے۔ حد کے نفاذ کا مطالبہ اس شخص کا حق ہے جس پر تہمت زنا لگائی گئی ہو اس بارے میں کسی شخص کا اس کے قائم مقام ہوناجائز نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اس معاملے میں وکالت ونیابت قابل قبول ہوتی ہے۔ جب یہ بات اس طرح ہے تو قذف کے وقت حد کے نفاذ کا ماطلبہ کسی پر واجب نہیں ہوتا ۔ اس لئے حد بھی واجب نہیں ہوئی۔ اس لئے کہ حد جب واجب ہوتی ہے تو قذف کی بنا پر واجب ہوتی ہے کسی اور وجہ سے واجب نہیں ہوتی۔ اگر یہاں یہ اعتراض اٹھایا جائے کہ کسی شخص پر اگر اس کی موت کے بعدزنا کی تہمت لگائی جاتے تو اس کے بیٹے کو حق حاصل ہوتا ہے کہ حد قذف میں قاذف کو پکڑوا دے۔ اسی طرح دوسرے کی طرف سے حد قذف کا مطالبہ کرنا جائز ہونا چاہیے۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ درج بالا صورت میں بیٹا دراصل اپنی ذات کی طرف سے حد قذف کا مطالبہ کرتا ہے اس لئے کہ اس قذف کی وجہ سے اس کی نسب کے متعلق شکوک وشبہات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس طرح وہ گویا باپ کی طرف سے حد کا مطالبہ نہیں کرتا۔ نیز جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ بچے کے قاذف پر حد قذف جاری نہیں ہوگی تو بچی کے قاذف کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے اس لئے کہ یہ دونوں اہل تکلیف میں سے نہیں ہیں۔ اور ان سے زنا کا صدور درست نہیں ہوتا۔ اس علت کی بنا پر دیوانے کے قاذف کا بھی یہی حکم ہوگا۔ اگر کوئی شخص پورے ایک گروہ پر زنا کی تہمت لگاتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے۔ اس بارے میں فقہا کے مابین اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ ، امام ابو یوسف، امام محمد، زفر، امام مالک، سفیان ثوری اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر اس نے ایک فقرے کے ذریعے سب پر زنا کی تہمت لگاء ہے تو اس پر صرف ایک حد واجب ہوگی۔ قاضی ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ اگر اس نے پوری جماعت کو ” یا زناۃ “ (اے زنا کارو) کہا تو اس پر ایک حد واجب ہوگی لیکن اگر اس نے ہر فرد کو ” یا زانی “ کہہ کر پکارا ہو تو اس پر ہر فرد کے بدلے ایک حدواجب ہوگی۔ شعبی کا بھی یہی قول ہے۔ عثمان البتی کا قول ہے کہ اگر اس نے پوری جماعت پر زنا کی تہمت لگائی ہے تو اس پر اس جماعت کا ہر فرد کے بدلے ایک حدواجب ہوگی۔ اگر اس نے ایک شخص سے یہ کہا ” زنیت بقلانۃ “ (تونے فلاں عورت کے ساتھ زنا کیا ہے) تو اس پر ایک حدواجب ہوگی اس لئے کہ حضرت عمر ؓ نے ابوبکر ؓ اور ان کے ساتھیوں پر ایک حد جاری کی تھی اور عورت کی طرف سے دوسری حد جاری نہیں کی تھی۔ اوزاعی کا قول ہے کہ اگر وہ کسی سے یہ کہے ” یازانی بن زان (اے زانی کے بیٹے زانی) تو اس پر دو حد واجب ہوگی۔ اگر وہ پورے گروہ کو ” یازناۃ “ کہے تو اس پر ایک حد واجب ہوگی۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر وہ یہ کہے جو شخص اس گھر میں داخل ہے وہ زانی ہے۔ “ تو اس پر اس گھر میں داخل تمام افراد کے بدلے حد واجب ہوگی بشرطیکہ افراد کوا س قذف کی اطلاع ہو۔ المزنی کی روایت کے مطابق امام شافعی کا قول ہے کہ اگر وہ پورے گروہ کو ایک فقرے کے ذریعے قذف کرے گا تو اس پر ہر فرد کے بدلے ایک حدواجب ہوگی ۔ اگر وہ ایک شخص کو ” یا ابن الزنیان (اے دو زانیوں کے بیٹے) کہہ کر پکارے گا تو اس پر دو حدود واجب ہوں گی۔ ” احکام القرآن “ میں انہوں نے لکھا ہے کہ اگر وہ اپنی بیوی پر کسی مرد کے ساتھ زنا کی تہمت لگائے گا تو لعان کرے گا اور اس مرد کے بدلے سے حد نہیں لگائی جائے گی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ارشاد باری ہے (والذین یرمون المحصنات ثم لم یاتوا باربعۃ شھدآء فاجلدوھم ثمانین جلدۃ) یہ بات واضح ہے کہ آیت میں مراد یہ ہے کہ تہمت لگانے والوں میں سے ہر ایک کو اسی اسی کوڑے لگائے جائیں۔ گویا آیت کی عبارت اس طرح ہے۔ ( ” ومن رھی محصنا فعلیہ ثمانون جلدۃ “ جو شخص کسی محصن پر زنا کی تہمت لگائے گا اسے اسی کوڑے لگیں گے) یہ چیز اس بات کی مقتضی ہے کہ محصنات کی جماعت پر زنا کی تہمت لگانے والے کو اسی سے زائد کوڑے نہ ماریں جائیں۔ جو شخص محصنات کی جماعت کے قاذف پر اسی سے زائدکوڑے یعنی ایک سے زائد حد واجب کرے گا وہ آیت کے حکم کی مخالفت کا مرتکب ٹھرے گا۔ اس پر سنت کی جہت سے بھی دلالت ہورہی ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں محمد بن بشار نے، انہیں ابن ابی عدی نے، انہیں ہشام بن حسان نے ، انہیں عکرمہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ ہلال ؓ بن امیہ نے حضور ﷺ کے سامنے اپنی بیوی پر شریک بن سمحاء کے ساتھ زناکاری کی تہمت لگائی، آپ ﷺ نے ان سے فرمایا : ” ثبوت یعنی گواہ کرو ورنہ اپنی پشت پر کوڑے کھائو۔ “ ہلال نے عرض کیا۔ ” اللہ کے رسول ﷺ ، جب ہم سے کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو منہ کالا کرتے ہوئے دیکھ لے تو کیا اس وقت وہ ثبوت یعنی گواہ تلاش کرنے میں لگ جائے ؟ “ حضور ﷺ اس کے جواب میں یہی فرماتے رہے کہ گواہ لائو ورنہ خدا کے لئے اپنی پیٹھ دکھائو۔ اس پر ہلال ؓ نے عرض کیا ” قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق دے کر مبعوث کیا۔ میں سچ کہہ رہا ہوں، اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ضرور کوئی حکم نازل کرے گا جو میری پشت کو کوڑوں سے بری کردے گا۔ “ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (والذین یرمون ازواجھم ولم یکن لھم شھدآء الا انفسھم۔ جو لوگ اپنی بیویوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں اور ان کے پاس اپنی ذات کے سوا اور کوئی گواہ نہیں ہوتے۔۔ ) حضرت ابن عباس ؓ نے حدیث کا بقیہ حصہ بھی بیان کیا۔ محمد بن کثیر نے روایت کی، انہیں مخلدین الحسین نے ہشام سے ، انہوں نے ابن سیرین سے انہوں نے حضرت انس سے کہ ہلال ؓ بن امیہ نے اپنی بیوی پر شریک بن سمحاء کے ساتھ بدکاری کی تہمت لگائی ۔ یہ معاملہ حضور ﷺ تک پہنچا۔ آپ ﷺ نے ہلال ؓ کو چار گواہ پیش کرنے کا حکم دیا ورنہ اپنی پشت پر حد کے کوڑے کھائو۔ آپ ﷺ نے یہ بات کئی دفعہ فرمائی۔ اس موقع پر لعان کی آیت نازل ہوئی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس روایت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قول باری (والذین یرمون المحصنات) میں سب کے لئے عام حکم تھا اس میں بیویاں بھی شامل تھیں اور دوسری عورتیں بھی۔ کیونکہ حضور ﷺ نے ہلال ؓ بن امیہ سے چار گواہ پیش کرنے یا حد قذف میں پیٹھ پر کوڑے کھانے کا حکم دیا تھا۔ نیز آیت کا عموم بھی اس بات کا مقتضی تھا۔ پھر ہلال ؓ نے اگرچہ اس تہمت میں دو افراد کو ملوث کیا تھا ایک اپنی بیوی اور دوسرے شریک بن سمحاء کو، لیکن حضور ﷺ نے ان پر صرف ایک ہی حدواجب کی تھی، حتیٰ کہ آیت لعان کا نزول ہوگیا اور اس طرح بیویوں کو قذف کرنے کی صورت میں لعان، اجنبی عورتوں کے قذف میں حد کے قائم مقام بن گیا لیکن پوری ایک جماعت کو قذف کرنے کی صورت میں ایک حد کا وجوب منسوخ نہیں ہوا جو دراصل اس روایت کا موجب اور سبب تھا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جماعت کو قذف کرنے والے پر ایک ہی حد واجب ہوتی ہے۔ نظر اور قیاس کی جہت سے بھی اس پر دلالت ہورہی ہے۔ وہ یہ کہ اگر حد کو واجب کرنے والے تمام اسباب ایک شخص کی ذات سے کئی مرتبہ وقوع پذیر ہوں تو اس صورت میں اس پر صرف ایک ہی حد واجب ہوتی ہے۔ مثلاً ایک شخص کئی دفعہ زنا کرے یا کئی دفعہ چوری کرے یا کئی دفعہ شراب نوشی کرے تو اس پر صرف ایک حد واجب ہوگی۔ اس طرح ایک جنس کے حدودکا اجتماع بعض کے سقوط کا موجب بن جاتا ہے اور صرف ایک حد پر اقتصار کرلیا جاتا ہے۔ حد قذف اور مذکورہ بالا حدود میں مشترک بات یہ ہے کہ یہ سب حدود ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان سب میں مشترک چیزیہ ہے کہ شبہ کی بنا پر ان کا سقوط ہوجاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حد قذف انسان کا حق ہوتا ہے اس لئے اگر کوئی شخص ایک جماعت کو قذف کرے تو اس میں شامل ہر فرد کو علیحدہ علیحدہ اپنا حق وصول کرنے کا حق ہونا چاہیے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب تک تہمت زدہ انسان یعنی مقذوف کی طرف سے مطالبہ نہیں کیا جائے گا اس وقت تک قاذف کو حد نہیں لگے گی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حد قذف بھی زنا، چوری اور شراب نوشی میں واجب ہونے والے دوسرے تمام حدود کی طرح اللہ کا حق ہے۔ صرف اس کا مطالبہ کرنا آدمی کا حق ہوتا ہے۔ نفس حد ا آدمی کا حق نہیں ہوتا۔ آدمی کو اس حد کے مطالبہ کا حق حاصل ہونا اس بات کا موجب نہیں ہے کہ خود حد بھی آدمی کا حق بن جائے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حد سرقہ کا ثبوت کسی آدمی کے مطالبہ پر ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ قطع ید بھی آدمی کا حق بن جائے۔ یہی صورت حال حد قذف کی بھی ہے۔ اس بنا پر ہمارے اصحاب نے حد قذف کو معاف کرنے اور اسے وراثت میں منتقل کردینے کی اجازت نہیں دی ہے۔ یہ حد اللہ کا حق ہے اس پر ایک مسئلے میں سب کا اتفاق دلالت کرتا ہے وہ مسئلہ یہ ہے کہ غلام کو حد قذف کے چالیس کوڑے مارے جائیں گے۔ اگر یہ حد کسی آدمی کا حق ہوتی تو صرف اس بنا پر آزاد اور غلام کے حکم میں فرق نہ ہوتا کہ کوڑوں کی تعداد کو نصف کرنا ممکن ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ انسانوں کے خلاف کیے گئے جرائم میں آزاد اور غلام دونوں کا حکم یکساں ہوتا ہے۔ اگر غلام کسی کو قتل کرے گا تو اس کی گردن پر خون ثابت ہوجائے گا اگر اس نے عمداً اس کا ارتکاب کیا ہوگا تو اس کی گردن اڑادی جائے گی۔ اگر اس نے خطاء ایسا کیا ہوگا تو اس پر دیت واجب ہوجائے گی۔ یہی صورت آزاد کے ارتکاب قتل کی بھی ہے کہ قتل عمد میں اسے قتل کردیا جائے گا۔ اور قتل خطائیں اس پر دیت واجب ہوجائے گی۔ اگر حد قذف کسی آدمی کا حق ہوتی تو اس کی تنصیف کے امکان کے باوجودآزاد اور غلام کی حد میں کوئی فرق نہ ہوتا۔ اسی طرح لوگوں کے اموال ضائع کرنے کی بنا پر عائد ہونے والے حکم تاوان میں آزاد اور غلام کے مابین یکسانیت ہوتی ہے جو تاوان ایک آزاد پر عائد ہوگا وہی غلام پر بھی عائد ہوجائے گا۔ اگر تہمت زدہ انسان یعنی مقذوف کی طرف سے حد جاری کرنے کا مطالبہ نہ کیا جائے تو کیا ایسی صورت میں حد ہماری کی جائے گی۔ امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد، امام زفر، امام شافعی اور اوزاعی کا قول ہے کہ مقذوف کے مطالبہ پر ہی حد جاری ہوگی۔ قاضی ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ اگر مقذوف کی طرف سے استغاثہ نہ بھی ہو امام یعنی حکومت کی طرف سے قاذف کو حد کی سزا دی جائے گی۔ امام مالک کا قول ہے کہ جب تک مقذوف کی طرف سے حد کا مطالبہ نہیں ہوگا اس وقت تک امام یعنی سٹیٹ حد جاری نہیں کرے گا۔ البتہ اگر امام المسلمین نے خود اسے قذف کرتے ہوئے سن لیا ہو تو دوسرے عادل گواہوں کے وجود کی صورت میں وہ اس پر حد جاری کرے گا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں سلیمان بن دائود المہری نے، انہیں ابن وہب نے، انہیں ابن جریج نے عمرو بن شعیب سے، انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (تعافو الحدود فیما بینکم فما بلغنی من حدفقد وجب۔ آپس میں ایک دوسرے پر واجب ہونے والی حد کو معاف کرتے رہو۔ جس حد کی خبر مجھ تک پہنچ جائے گی وہ واجب ہوجائے گی۔ اس روایت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جس حد کی خبر حضور ﷺ تک پہنچ جاتی آپ اسے نظر نہیں کرسکتے تھے۔ بلکہ اسے نافذ کردیتے۔ جب آپ نے ہلال ؓ بن امیہ کو اپنی بیوی پر شریک بن سمحا کے ساتھ زنا کاری کی تہمت لگانے کی بنا پر فرمایا کہ یا تو چار گواہ لے آئو یا پھر کوڑوں کے لئے اپنی پیٹھ کھول دو ، پھر انہوں نے نہ گواہ پیش کیے اور نہ ہی ان پر حد قذف جاری ہوئی کیونکہ مقذوف یعنی شریک بن سمحا ، نے حد جاری کرنے کا مطالبہ نہیں کیا تھا، تو اس پوری صورت حال سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مقذوف کی طرف سے مطالبہ کے بغیر حد قذف جاری نہیں ہوگی۔ اس پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جو حضرت زید بن خالد ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ نے مزدور زانی کے واقعہ کے سلسلے میں روای کی ہے۔ زانی کے باپ نے بیان دیا تھا کہ میرے بیٹے نے اس شخص (بیٹے کو مزور رکھنے والے) کی بیوی کے ساتھ بدکاری کی ہے۔ حضور ﷺ نے ایک عورت پر زنا کی تہمت لگانے کے باوجود اس پر حد قذف جاری نہیں کی بلکہ قبیلہ اسلم کے ایک شخص سے فرمایا :” انیس، اس شخص کی بیوی کے پاس جائو، اگر اس کی بیوی زنا کا اعتراف کرلے تو اسے رجم کردو۔ حد قذف چونکہ اس وجہ سے واجب ہوتی ہے کہ قذف کی بنا پر مقذوف کی عزت پر اس جہت سے حرف آتا ہے کہ پاکدامنی کے باوجودا سے زنا کے الزام میں ملوث کردیا جاتا ہے اس لئے اس حد کا مطالبہ بھی اس کا حق ہونا چاہیے نہ کہ امام یا حکومت کا جس طرح حد سرقہ اس بنا پر واجب ہوتی ہے کہ اس کے ذریعے مال مسروقہ کے مالک کی محفوظ جگہ یعنی حرز کی بےحرمتی کرکے اس کے مال پر قبضہ کرلیا جاتا ہے اس لئے جب تک مال مسروقہ کے مالک کی طرف سے مطالبہ نہیں ہوگا اس وقت تک حد کا ثبوت نہیں ہوگا۔ امام مالک کا یہ قول بےمعنی ہے کہ اگر امام المسلمین خود قاذف کو قذف کرتے ہوئے سن لے اور اس کے ساتھ عادل گواہ بھی ہوں تو اس صورت میں وہ اس پر حد جاری کرے گا اس لئے کہ اگر اس صورت میں مقذوف کی طرف سے مطالبہ کے بغیر امام المسلمین کو حد جاری کرنے کا حق حاصل ہو تو پھر یہ ضروری ہے کہ امام المسلمین کے سماع مع الشہودا اور عدم سماع کے لحاظ سے اس کے حکم میں کوئی فرق نہ ہو۔ قاذف کی گواہی کا بیان قول باری ہے (ولا تقبلوا لھم شھادۃ ابدا واولئک ھم لقاسقون۔ اور ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو اور وہ خود ہی فاسق ہیں) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قاذف اگر اپنے قذف پر چار گواہ پیش نہ کرے تو اس صورت میں اللہ تعالیٰ نے اس پر تین احکام لگائے ہیں ۔ ایک تو اسی کوڑوں کا حکم ، دوسرا اس کی گواہی کے بطلان کا حکم اور تیسرا اس کے فسق کا حکم یہاں تک کہ وہ توبہ کرلے۔ اہل علم کا اس پر تو اتفاق ہے کہ قاذف اگر کسی پر زنا کی تہمت لگاتا ہے اور پھر چار گواہ پیش نہیں کرسکتا تو نفس قذف کے ساتھ ہی اس پر حد قذف واجب ہوجائے گی۔ تاہم ان کے درمیان ایسے شخص پر درج بالا احکام کے لزوم اور قذف کی بنا پر ان کے ثبوت کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ کچھ حضرات تو اس بات کے قائل ہیں کہ اس پر حد قذف جاری ہونے سے پہلے ہی اس کی گواہی باطل اور اس پر فسق کا داغ چسپاں ہوجائے گا ۔ لیث بن سعد اور امام شافعی کا یہی قول ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، امام زفر اور امام مالک کا قول ہے کہ جب تک اس پر حد جاری نہ ہوجائے اس وقت تک اس کی گواہی قابل قبول ہوگی۔ ان کے اس قول کا تقاضا ہے کہ جب تک اس پر حد جاری نہ ہوجائے اس وقت تک اس پر فسق کا نشان چسپاں نہیں ہوگا اس لئے کہ اگر اس پر یہ علامت چسپاں ہوجاتی تو اس کی گواہی بھی قابل قبول نہ ہوتی۔ کیونکہ فسق کا داغ ایسے شخص کی گواہی کو باطل کردیتا ہے۔ اگر اس کا فسق فعلی ہو اعتقادی اور دینی نہ ہو۔ اس قول کی صحت کی دلیل یہ آیت ہے۔ (والذین یرمون المحصنات ثم لم یاتوا بادبعۃ شھدآء فاجلدو ھم ثمانین جلدۃ ولا تقبلوا لھم شھادۃ ابدا) آیت نے قاذف کے قذف پر اس کی طرف سے گواہی پیش نہ کرسکنے کی صورت میں اس کی گواہی کے بطلان کا حکم واجب کردیا۔ اس میں دو طرح سے اس بات پر دلالت موجود ہے کہ جب تک اس پر حد جاری نہ ہوجائے اس وقت تک اس کی گواہی جائز اور اس کی عدالت قائم رہے گی۔ پہلی دلالت اس قول باری میں ہے (ثم لم یاتوا باربعۃ شھدآء) حرف ثم لغت کے لحاظ سے تراخی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ چیز اس بات کی مقتضی ہے کہ قذف کرنے کے بعد ٹھہر کر جب قاذف گواہ پیش کرے گا تو وہ نفس قذف کے ساتھ فاسق گرداتا نہیں جائے گا۔ اس لئے کہ ارشاد باری ہے (ثم لم یاتوا باربعۃ شھدآء) اس طرح آیت کی عبارت اس طرح ہوگی۔ ” ثم لم یاتوا باربعۃ شھدآء فاولئک ھم الفاسقون “ (پھر وہ چار گواہ پیش نہ کریں تو یہی لوگ فاسق ہیں) اللہ تعالیٰ نے ان پر فسق کا حکم قذف کے وقت سے متاخر کرکے اس صورت میں عائد کیا جب وہ چار گواہ پیش کرنے سے عاجز رہیں۔ اس لئے جو حضرات نفس قذف کے ساتھ ان پر فسق کا حکم عائد کردیتے ہیں وہ آیت کے حکم کی مخالفت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اس سے یہ بات واجب ہوجاتی ہے کہ قذف کی بنا پر قاذف کی گواہی رد نہیں ہوتی۔ اس لئے یہ بات ثابت ہوگئی کہ نفس قذف سے قاذف کی گواہی باطل ہیں ہوتی۔ نیز اگر نفس قذف کی بنا پر قاذف کی گواہی باطل ہوجاتی تو پھر مقذوف کی زنا کاری پر قاذف کی طرف سے گواہی قائم نہ کرنا اس کی گواہی کو باطل نہ کرتا کیونکہ اس کی گواہی اس سے پہلے ہی باطل ہوچکی ہے۔ ایک اور وجہ سے بھی ہماری بات درست ہے وہ یہ کہ آیت کے لفظ سے جو مفہوم سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ قاذف کی گواہی اس وقت تک باطل قرار نہ دی جائے جب تک تہمت زنا پر اس کی طرف سے گواہی قائم کرنا ممکن ہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر ایک شخص اپنی بیوی سے کہے ” انت طالق ان کلمت فلانا ثم لم تدخلی الدار “ (اگر تم فلاں شخص سے کلام کرو اور پھر گھر میں داخل نہ ہو تو تم پر طلاق) تو اس صورت میں اگر وہ فلاں شخص سے بات کرے اور پھر اس ھگر میں اپنی موت تک داخلہ چھوڑے رکھے تو اسے طلاق نہیں ہوگی۔ البتہ موت سے قبل جاکر اسے طلاق ہوگی اور اس کی موت اور طلاق میں فاصلہ نہیں ہوگا۔ اگر وہ اپنی بیوی سے یہ کہتا ” انت طالق ان کلمت فلانا ولم تدخلی الدار “ (اگر تم فلاں شخص سے گفتگو کرو اور گھر میں داخل نہ ہو تو تم پر طلاق) تو اس کا بھی یہی حکم ہوتا۔ اس صورت میں کلام کرنا اور موت تک گھر میں داخل نہ ہونا طلاق واقع ہونے کی شرط ہوتا۔ شوہر کے قول انت طالق ان کلمت خلانا ثم دخلت المداد “ (اگر تم فلاں شخص سے کلام کرو اور پھر گھر میں داخل ہوجائو تو تم پر طلاق) اور اس کے اس قول ” ان کلمت فلانا ثم لم تدخلیھا “ (اگر تم فلاں شخص سے کلام کرو اور پھر گھر میں داخل نہ ہو) کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اگرچہ دونوںں فقروں میں اس جہت سے فرق ہے کہ ایک میں داخلہ کا وجود اور دوسرے میں داخلہ کی نفی قسم کی شرط ہے جب یہ بات اس طرح ہے اور دوسری طرف قول باری (والذین یرمون المحصنات ثم لم یاتوابا باربعۃ شھدآء) قاذف کی گواہی کے بطلان کے لئے دو شرطوں کا مقتضی ہے۔ ایک شرط تہمت زنا ہے اور دوسری مقذوف کی زنا کاری پر گواہوں کا عدم وجود جو قذف کے وقت سے متراخی ہو یعنی اس میں تاخر زمانی پایا جائے اور اس تاخر زمانی میں اسے گواہی ہاتھ نہ آسکے۔ تو جب تک مقذوف کی زنا کاری پر قاذف کے لئے گواہی قائم کرنا ممکن ہوگا اس وقت تک آیت کے الفاظ کا مقتضیٰ یہ رہے گا کہ قاذف کو اس کی اصل حالت پر برقرار رہنے دیا جائے یعنی اس کی گواہی کے بطلان کا حکم نہ لگایا جائے۔ نیز قاذف پر نفس قذف کے ساتھ ہی یا تو جھوٹ کا حکم لگادیا جائے اور اس کی گواہی کے بطلان کا فیصلہ کرلیا جائے یا اس پر حد قذف جاری ہونے پر اسے جھوٹا قرار دیاجائے۔ اگر نفس قذف کے ساتھ ہی اس پر جھوٹ کا حکم لگادیاجائے اور اسی بنا پر اس کی گواہی باطل قرار دی جائے تو اس صورت میں پھر یہ ضروری ہوگا کہ مقذوف کی زناکاری پر اس کے پیش کیے ہوئے ثبوت کو تسلیم نہ کیا جائے اس لئے کہ اس پر جھوٹ کا حکم پہلے ہی لگ چکا ہے۔ قذف کے سلسلے میں اس پر جھوٹ کا حکم دراصل ان لوگوں کی گواہی کے بطلان کا حکم ہے جو قاذف کی سچائی پر اس صورت میں گواہی دیں کہ مقذوف واقعی زناکار ہے۔ جب فقہاء کا اس میں اختلاف نہیں ہے کہ مقذوف کے خلاف قاذف کی طرف سے اس کی زنا کاری پر مہیا کردہ ثبوت یعنی گواہی وغیرہ قابل قبول ہے۔ اور یہ چیز قاذف سے حد قذف کو ساقطہ کردیتی ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی ک قاذف کا قذف اس کے کاذب ہونے کو لازم نہیں کرتا۔ اس لئے اس کی گواہی کا باطل نہ ہونا بھی واجب ہوگیا کیونکہ اس پر کذب کا حکم ثابت نہ ہوسکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس شخص کی زبان سے ہم کوئی ایسی خبر سنیں جس کے سچ یا جھوٹ ہونے کا ہمیں کوئی علم نہ ہو تو اس خبر کی بنا پر ایسے شخص کی گواہی باطل قرار نہیں دی جاسکتی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جو شخص اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگاتا ہے تو نفس قذف کی بنا پر اس کی گواہی باطل نہیں ہوتی۔ نہ ہی اس پر کذب کا حکم لگادیاجاتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کے ایجاب کا کوئی جواز باقی نہ رہتا۔ نہ ہی اسے یہ حکم دیا جاتا کہ چار مرتبہ قسم کھا کر یہ کہے کہ اس نے اپنی بیوی پر زنا کی جو تہمت لگائی ہے اس میں وہ سچا ہے جبکہ اس پر کذب کا حکم لگ چکا ہو ۔ نہ ہی میاں بیوی دونوں میں سے کاذب کو ترک لعان کی نصیحت کی جاتی۔ اور نہ حضور ﷺ میاں بیوی کے درمیان لعان کرانے کے بعد یہ فرماتے ۔ ” اللہ کو علم ہے کہ تم دونوں میں سے ایک جھوٹا ہے آیا تم دونوں میں سے کوئی توبہ کرنے کے لئے تیار ہوگا۔ “ حضور ﷺ نے یہ بتادیا کہ ان دونوں میں سے ایک غیر معین فرد ضرور جھوٹا ہے۔ آپ نے مرد یعنی قاذف کو جھوٹا قرار نہیں دیا اور نہ ہی بیوی کی صداقت کا حکم صادر فرمایا۔ اس بات میں یہ دلیل موجود ہے کہ نفس قذف قاذف کو فاسق قراردینے کا موجب ہیں بنتا۔ اور نہ ہی قاذف کی تکذیب کا حکم لگایا جاسکتا ہے۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے (لولا جائو علیہ باربعۃ شھدآء فاذلم یاتوالالشھدآء فاولئک عند اللہ ھم اکاذبون۔ انہوں نے اس تہمت پر چار گواہ کیوں نہیں پیش کیے ۔ جب انہوں نے گواہ نہیں پیش کیے تو یہی لوگ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں) اللہ تعالیٰ نے نفس قذف پر ان کے کذب کا حکم نہیں لگایا بلکہ یہ حکم اس وقت لگا جب وہ چار گواہ پیش نہ کرسکے۔ یہ بات تو واضح ہے تو یہاں مراد یہ ہے کہ وہ قذف کے مقدمے کے دوران گواہی پیش نہ کرسکے۔ اس لئے مذکور شرط کے وجود سے پہلے قاذف کی گواہی کو باطل قرار دینا جائز نہیں ہے۔ وہ شرط یہ ہے کہ امام المسلمین کی عدالت میں حد قذف کا مقدمہ پیش ہونے کے بعد قاذف ثبوت یعنی گواہی وغیرہ پیش کرنے سے عاجز رہے۔ کیونکہ گواہ اپنی گواہیاں امام کی عدالت میں پیش کرتے ہیں۔ اس لئے جو شخص نفس قذف پر قاذف کو فاسق قرار دے کر اس کی شہادت کو باطل کردیتا ہے وہ آیت کی مخالفت کا مرتکب ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمادیا (کم لا اذ سمعت لا ظن المومنون والمومنات بانفسھم خیرا وقالوا ھذا افک مبین۔ جس وقت تم لوگوں نے اسے سنا تھا اسی وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے) تو یہ قول باری اس پر دال ہوگیا کہ لوگوں کے ذمہ یہ بات ہے کہ جب وہ کسی کو کسی پر زنا کی تہمت لگاتے ہوئے سنیں اس پر کذب کا حکم لگادیں اور گواہ پیش کرنے تک اس کی گواہی کو رد کردیں اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ آیت کا نزول حضرت عائشہ ؓ پر بہتان طرازی کے سلسلے میں ہوا تھا۔ کیونکہ ارشاد باری ہے (ان الذین جائوا بالا فک عصبۃ منکم۔ جو لوگ یہ بہتان گھڑ لائے ہیں وہ تمہارے ہی اندر کا ایک ٹولہ ہیں) تا قول باری (لولا اذ سمعتموہ) حضرت عائشہ ؓ کا دامن اس بہتان سے پاک تھا اور آپ کی ذات اس تہمت سے بری تھی۔ آپ پر بہتان طرازی کرنے والوں نے چشم دید کی بنا پر بہتان طرازی نہیں کی تھی، بلکہ اپنے گمان اور اٹکل سے کام لے کر انہوں نے یہ حرکت کی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عائشہ ؓ پیچھے رہ گئی تھیں ، ان بہتان گھڑنے والوں میں سے کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ اس نے اپنی آنکھوں سے کوئی برائی دیکھی ہے۔ اس لئے جو شخص اس جیسی سنگین بات صرف اپنی اٹکل اور طن وتخمین کی بنا پر کرے گا اسے جھوٹا قرار دینا اور اس پر نکیر کرنا ہمارا فرض ہوگا۔ نیز جب نسق تلاوت میں ارشاد باری ہے (فاذلم یاتوا بالشھدآء فاولئک عند اللہ ھم الکاذبون) اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ گواہی پیش کرنے میں ان کی ناکامی کی صورت میں ان پر کاذب ہونے کا حکم عائد کیا تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ اس نے اپنے ارشاد : (وقالوا ھذا افک مبین) سے نفس قذف کے ساتھ ان پر کذب کے ایجاب کا ارادہ نہیں کیا۔ آیت کے معنی یہ ہیں کہ ” مومن مردوں اور مومن عورتوں نے یہ کیوں نہیں کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے جب انہوں نے اسے سنا اور بہتان لگانے والے نے گواہ پیش نہیں کیے۔ “ امام شافعی کا یہ خیال ہے کہ قذف کے گواہ جب متفرق طور پر گواہی پیش کرنے کے لئے آئیں تو ان کی گواہی دے دیں۔ اس لئے کہ قاذف قذف کی بنا پر فاسق بن گیا ہے اس لئے اس کی تکذیب واجب ہوگئی ہے۔ متفرق صورت میں آکر گواہی دینے کی شکل میں ان کی گواہی کو قبول کرلینا دراصل اس بات کو لازم کردیتا ہے کہ نفس قذف کے ساتھ ان کی گواہی باطل قرار نہ دی جائے۔ سنت کی جہت سے ہمارے قول کی صحت پردہ روایت دلالت کرتی ہے جسے حجاج بن ارطاۃ نے عمر وبن شعیب سے ، انہوںں نے اپنے والد سے اور انہوں نے عمرو کے دادا سے نقل کیا ہے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (المسلمون عدول بعضھم علی بعض الا محدودا فی قذف۔ تمام مسلمان ایک دوسرے پر گواہی کے معاملے میں عادل ہیں مگر قذف کے سلسلے میں سزا یافتہ شخص اس حکم میں داخل نہیں ہے) حضور ﷺ نے یہ بتادیا کہ قاذف کو جب تک حد قذف نہ لگے اس وقت تک گواہی کے سلسلے میں اس کی عدالت باقی رہتی ہے۔ اس پر عباد بن منصور کی روایت بھی دلالت کرتی ہے جسے انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ جب ہلال ؓ بن امیہ نے حضور ﷺ کے سامنے اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائی تو اس موقعہ پر آپ نے فرمایا : آیاہلال کو کوڑے لگیں گے اور مسلمانوں کے ہاں اس کی گواہی باطل ہوجائے گی ؟ “ اس ارشاد میں آپ نے بتایا کہ ہلال ؓ کی گواہی کے بطلان کا تعلق انہیں کوڑے لگنے کے ساتھ ہے اور اس کے ذریعے اس امر پر دلالت ہوگئی کہ قذف کی وجہ سے ان کی گواہی باطل نہیں ہوئی تھی۔ قذف میں سزا یافتہ انسان کی توبہ کرلینے کے بعد گواہی کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، زفر، سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ توبہ کرلینے کے بعد بھی اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ البتہ قذف کے سوا کسی اور جرم کے سلسلے میں بطور حد سزا یافتہ انسان جب توبہ کرلے گا تو اس کی گواہی قابل قبول ہوگی۔ امام مالک ، عثمان البتی، لیث بن سعد اور امام شافعی کا قول ہے کہ قذف میں سزا یافتہ انسان اگر توبہ کرلے تو اس کی گواہی قبول کرلی جائے گی۔ اوزاعی کا قول ہے کہ اسلام میں جس شخص کو کوئی حد لگ چکی ہو اس کی گواہی کبھی قبول نہیں کی جائے گی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حجاج نے ابن جریج اور عثمان بن عطاء سے روایت کی ہے، انہوں نے عطاء خراسانی سے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ قول باری (والذین یرمون المحصنات ثم لم یاتوا باربعۃ شھدآء فاجلد وھم ثما نین جلدۃ ولا تقبلوا لھم شھادۃ ابدا و اولئک ھم الفاسقون) کے بعد ارشاد ہے (الا الذین تابوا) جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فسق سے ان کی توبہ قبول کرلی لیکن جہاں تک گواہی کا تعلق ہے اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے ، انہیں حجاج نے نیز حضرت ابن عباس ؓ سے ایک روایت منقول ہے جسے ہمیں جعفر بن محمد نے بیان کیا، انہیں ابن الیمان نے، انہیں ابوعبید نے، انہیں عبداللہ صالح نے معاویہ بن صالح سے ، انہوں نے علی بن ابی طلحہ سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ انہوں نے قول باری (ولا تقبلوا لھم شھادۃ ابدا و اولئک ھم الفاسقون) نیز ارشاد باری : الا الذین تابوا کی تفسیر میں فرمایا کہ جو شخص توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلے گا اللہ کی کتاب میں اس کی گواہی مقبول ہوگی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس روایت میں یہ احتمال ہے کہ وہ پہلی روایت کے خلاف نہیں ہے۔ وہ اس طرح کہ حضرت ابن عباس ؓ کی مرادیہ ہے کہ اس کی گواہی اس صورت میں مقبول ہوگی جب اسے حد نہ لگی ہو اور اس نے توبہ کرلی ہو۔ پہلی روایت اس پر محمول ہے کہ اگر اسے حد لگ جائے تو اسکی گواہی قابل قبول نہیں ہوگی خواہ اس نے توبہ کیوں نے کرلی ہو۔ شریح، سعیدبن المسیب ، حسن بصری، ابراہیم نخعی اور سعید بن جبیر سے ان کا قول مروی ہے کہ توبہ کرلینے کے باوجود اس کی گواہی قابل قبول نہیں ہوگی۔ اسکی توبہ کا معاملہ اللہ اور اس کے درمیان محدود رہے گا۔ ابراہیم کا قول ہے کہ توبہ کی بنا پر فسق کا اسم ان سے دور ہوجائے گا لیکن ایسے لوگوں کی گواہی کبھی قابل قبول نہیں ہوگی۔ عطاء، طائوس، مجاہد، شعبی، قاسم بن محمد اور زہری سے مروی ہے کہ توبہ کرلینے کی صورت میں اس کی گواہی قابل قبول ہوگی۔ حضرت عمر ؓ سے ایک روایت کے مطابق جس میں فن روایت حدیث کے لحاظ سے طعن موجود ہے۔ آپ نے ابوبکر ؓ سے فرمایا کہ اگر تم توبہ کرلوگے تو تمہاری گواہی قابل قبول ہوگی “ اس روایت میں طعن کی وجہ یہ ہے کہ اسے ابن عیینہ نے زہری سے روایت کی ہے۔ ابن عیینہ نے پہلے تو ” من سعید بن المسیب “ کہا یعنی زہری نے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے، پھر انہیں شک ہوا اور کہا ” ھو عمر بن تیس “ یعنی زہری کی شیخ سعید بن المسیب نہیں بلکہ عمر بن قیس ہیں، جنہوں نے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ابوبکر ؓ سے فرمایا کہ اگر تم توبہ کرلوگے تو تمہاری گواہی قابل قبول ہوگی لیکن ابوبکرہ ؓ نے توبہ کرنے سے انکار کردیا۔ اس طرح سفیان بن عیینہ کو سعید بن المسیب اور عمر بن قیس کے متعلق شک ہوگیا کہ ان دونوں میں سے اس روایت کا راوی کون ہے۔ ایک قول کے مطابق عمر بن قیس فی لحاظ سے مطعون ہے اس لئے ان اسناد کے ذریعے حضرت عمر ؓ سے یہ قول ثابت نہیں ہوسکا۔ لیث بن سعد نے ابن شہاب زہری سے روایت کی ہے کہ انہیں حضرت عمر ؓ سے یہ روایت پہنچی ہے کہ آپ نے ابوبکرہ ؓ سے یہ بات فرمائی تھی۔ یہ فن روایت کے اندر بلاغ کی صورت ہے جس پر ہمارے مخالف کے مسلک میں عمل نہیں ہوتا۔ سعید بن المسیب سے مروی ہے کہ توبہ کے بعد بھی اس کی گواہی ناقابل قبول رہے گی۔ اگر سعید بن المسیب سے حضرت عمر ؓ کے مذکورہ بالا قول کی ورایت درست بھی ہوجائے تو اس روایت کی مخالفت ایسی روایت کے ذریعے ہوگئی ہے جو اس سے قوی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ حضرت عمر ؓ سے منقول روایت میں یہ ذکر نہیں ہے کہ آپ نے ابوبکرہ ؓ کو کوڑے لگانے کے بعد ان سے یہ بات کہی تھی ہوسکتا ہے کہ آپ نے ان سے یہ بات کوڑے لگانے سے پہلے کہی ہو۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قاذف اگر توبہ کرلے تو اس کے متعلق حکم میں سلف اور فقہائے امصار کے جس اختلاف کا ہم نے ذکر کیا ہے اس کی بنیاد وہ اختلاف ہے جو آیت زیر بحث میں استثناء کے متعلق ان حضرات کے درمیان ہے کہ آیا یہ استثناء صرف فسق کی طرف یا ابطال شہادت اور نشان فسق دونوں کی طرف راجع ہے اور یہ ان دونوں کو ختم کردینے کا باعث ہے۔ حبصاص کہتے ہیں کہ استثناء کا حکم صرف نشان فسق کے زوال تک محدود ہے جو اس کے متصل ہے، جواز شہادت اس کے دائرے سے باہر ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ لغت میں استثناء کا حکم یہ ہے کہ وہ اس چیز کی طرف راجع ہوتا ہے جو اس کے متصل ہوتی ہے ۔ اس سے ماقبل کی طرف یہ راجع نہیں ہوتا۔ الایہ کہ کوئی دلالت موجود ہو۔ ہمارے اس دعوے کی دلیل یہ قول باری ہے : (الا ال لوط انا لمنجوھم اجمعین الا امراتہ۔ آل لوط کے سوا، ہم ان سب کو بچا لینے والے ہیں مگر اس کی بیوی ) آیت میں بچا لیے جانے والوں میں سے حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی مستثنیٰ تھی اس لئے کہ وہ ان کے متصل مذکور ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے ” لفلان علی عشرۃ دراھم الاثلاثۃ دراھم الادرھم “ (مجھ پر فلاں شخص کے دس درہم ہیں، تین درہموں کے سوا مگر ایک درہم) تو اسے آٹھ درہم ادا کرنے ہوں گے۔ اور ایک درہم ماقبل کے مذکورہ تین درہموں سے مستثنیٰ ہوگا۔ جب استثناء کا یہ حکم ہے تو پھر اس کے حکم کو اس کے متصل امر تک محدود کردینا واجب ہے۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے : (فان لم تکونوا دخلتم بھن۔ اگر تم نے ان عورتوں کے ساتھ دخوت نہیں کیا) یہ قول باری استثناء کے معنوں میں ہے اور یہ ربائب یعنی زیر سایہ پرورش پانے والی لڑکیوں کی طرف راجع ہے بیویوں کی مائوں کی طرف راجع نہیں ہے۔ اس لئے کہ استثناء ربائب سے متصل ہے۔ اوپر جو مثالیں ہم نے بیان کی ہیں ان سے ہمارے مذکورہ بالا قول کی صحت ثابت ہوجاتی ہے یعنی استثناء کے حکم کو اس کے متصل امر تک محدود رکھا جائے اور ماقبل مذکورہ امور تک اس کا دائرہ نہ بڑھایا جائے۔ نیز اگر استثناء تخصیص کے معنوں میں ہوا ور جس جملے پر یہ استثناء داخل ہوا ہو اس میں عموم ہو تو پھر ضروری ہوجاتا ہے کہ عموم کا حکم برقرار رہے اور اسے اس استثناء کی وجہ سے رفع نہ کیا جائے جس کا حکم اس سے متصل امر میں ثابت ہوچکا ہو۔ البتہ اگر ایسی کوئی دلالت قائم ہوجائے جو یہ ثابت کردے کہ استثناء جملے کی طرف راجع ہے تو اس صورت میں جملے کا عموم رفع ہوجائے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری ہے : (انما جزاء الذین یحاربون اللہ ورسولہ ویسعون فی الارض فسادا ان لوگوں کی سزا جو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلانے کی سعی کرتے ہیں، تو بس یہ ہے…) تا قول باری :(الا الذین تابوا من قبل ان تقدروا علیھم۔ مگر وہ لوگ جو توبہ کرلیں قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پالو) یہاں استثناء ان تمام کی طرف راجع ہے جن کا آیت ذکر ہے اس لئے کہ ان کا ایک دوسرے پر عطف ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (لا تقربوا الصلوٰۃ وانتم سگاریٰ حتی تعلموا ماتقولون ولا جنبا الا عایری سبیل حتیٰ تعسلو۔ تم جب نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جائو اور اسی طرح جنابت کی حالت میں بھی نماز کے قریب نہ جائو جب تک کہ غسل نہ کرلو الایہ کہ راستہ سے گزرتے ہو) پھر ارشاد ہوا (قران کنتم مرضی او علی سفراوجاء احدکم من الغائط اولا مستم النسآء فلم تجدوا ماء فتیموا اور اگر کبھی ایسا ہو کہ تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کرکے آئو یا تم نے عورتوں سے لمس کیا ہوا اور پھر پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے کام لو۔ تیمم اس شخص کے لئے اسی طرح لازم ہوگیا جسے غسل جنابت لاحق ہوگیا ہو جس طرح یہ اس شخص کے لئے لازم ہوگیا جسے حدث کی بنا پر ضو لاحق ہوگیا ہو۔ ایسے کلام پر جس کا بعض حصہ بعض پر معطوف ہو۔ جب استثناء داخل ہوگا تو یہ ضروری ہوگا کہ وہ پورے کلام کو شامل ہو اور پورے کلام کی طرف راجع ہو۔ اس اعتراض کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس سے پہلے ہم نے واضح کردیا ہے کہ لغت میں استثناء کا حکم یہ ہے کہ وہ اپنے متصل امر کی طرف راجع ہوتا ہے، ماقبل کی طرف راجع نہیں ہوتا۔ الا یہ کہ اس کے لئے کوئی دلالت موجود ہو۔ اعتراض میں پیش کی گئی تمام مثالوں کے اندر استثناء سب کی طرف راجع ہے اور اس کے لئے دلالت بھی قائم ہوچکی ہے لیکن آیت زیر بحث کے اندر مذکوراستثناء جس کے متعلق اختلاف رائے ہے اس قسم کی دلالت سے خالی ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہو کہ یہ مذکورہ تمام باتوں کی طرف راجع ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ استثناء بعض صورتوں میں مذکورہ تمام باتوں کی طرف راجع ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں صرف مذکورہ امور میں بعض کی طرف راجع ہوتا ہے۔ یہ بات لغت کے اعتبار سے سب کے علم میں ہے نیز مشہور بھی ہے ۔ اب وہ کون سی دلالت ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ فلاں صورت میں استثناء کا حکم صرف اس کے متصل امر تک محدود ہے اور یہ ماقبل کے پورے کلام کی طرف راجع نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر ہم معترض کی یہ بات تسلیم کرلیں کہ استثناء کا تمام کی طرف راجع ہونے کا جواز ہے تو اس صورت میں یہ احتمال پھر بھی باقی رہے گا کہ آیا یہ اپنے متصل امر کی طرف راجع ہے یا تمام مذکور ہ امور کی طرف اس کا رجوع ہے۔ جب ایک طرف یہ بات ہوا درد دوسری طرف لفظہ اول عموم کی صورت میں ہو جو تمام احوال میں حکم کا مقتضی ہو تو ایسی صورت میں احتمال کی بنا پر استثناء کو عموم کی طرف راجح کرنا جائز نہیں ہوگاکیون کہ احتمال کی بنیاد پر عموم کی تخصیص جائز نہیں ہوتی۔ اس صورت میں استثناء کے حکم کو یقینی امر کے اندر عمل میں لانا واجب ہوگا، یہ متیقن امر وہ ہے جو استثناء کے متصل ہوتا ہے۔ ماقبل کے تمام امور نہیں ہوتے اگر یہ کہا جائے کہ آپ اس بات سے کیوں انکار کرتے ہیں کہ لفظ اول عموم کی صورت نہیں رکھتا جبکہ استثناء کا دخول، کلام کے آخر میں ہو۔ بلکہ اس میں احتمال کی صورت پیدا ہوجاتی ہے اور اس میں عموم کا اعتبار باطل ہوجاتا ہے۔ کیونکہ مذکورہ تمام امور کی طرف راجح ہونے کے سلسلے میں استثناء کے عموم کے اعتبار کی بہ نسبت لفظ اول کے عموم کا اعتبار اولیٰ نہیں ہوتا۔ جب لفظ اول میں عموم کا اعتبار باطل ہوگیا اور اس میں حکم کے ایجاب کے لحاظ سے احتمال کی صورت پیدا ہوگئی تو حکم کے اندر عموم لفظ کا اعتبار ساقط ہوگیا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ استدلال غلط ہے۔ اس کیوجہ یہ ہے کہ لفظ اول کا صیغہ عموم کا صیغہ ہوتا ہے جس کے متعلق ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ دوسری طرف استثناء عموم کا صیغہ نہیں ہوتا جو مذکورہ تمام امور کے فع کا مقتضی بن سکتا ہو۔ اس بنا پر یہ واجب ہے کہ عموم کو واجب کرنے والے صیغہ کا حکم لفظ اول میں جاری کیا جائے اور اس حکم کو صرف اس صورت میں اس سے دور کیا جائے جب کوئی ایسا لفظ موجود ہو جس کا صیغہ عموم کے رفع کا مقتضی ہو۔ یہ صفت استثناء کے لفظ میں موجود نہیں ہوتی۔ اس لئے معترض کے استدلال کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ایک شخص اگر یہ کہتا ہے کہ ” عبدی حروامراتی طالق ان شاء اللہ “ (میرا غلام آزاد اور میری بیوی پر طلاق اگر اللہ چاہے) تو اس صورت میں استثناء پورے فقرے کی طرف راجح ہوگا، اسی طرح حضور ﷺ کا ارشاد ہے (واللہ لا غذون قریشا، واللہ لا غزون قریشا، واللہ لا غزون قریشا ان شاء اللہ۔ بخدا میں قریش کے خلاف جہاد پر نکلوں گا، بخدا میں قریش کے خلاف جہاد پر نکلوں گا، بخدا میں قریش کے خلاف جہاد پر نکلوں گا۔ اگر اللہ چاہے) آپ ﷺ نے اپنے ارشاد میں جو استثناء کیا وہ تمام قسموں کی طرف راجع ہے کیونکہ اس کا بعض حصہ بعض پر معطوف ہے ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جو نکتہ ہمارے درمیان زیر بحث ہے اس کے ساتھ مذکورہ بالا مثال کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس قسم کا استثناء جملے پر داخل ہونے والے استثناء یہ ہیں۔ الا ، غیر، سوی اور اس قسم کے دوسرے حروف اس لئے کہ ” ان شاء اللہ “ کا لفظ کلام کے حکم کو رفع کرنے کے لئے داخل ہوتا ہے حتیٰ کہ کوئی بات بھی ثابت نہیں ہوتی، جبکہ حرف استثناء کے ذریعے ذکر ہونے والے استثناء کا دخول سرے سے کلام کے حکم کو رفع کردینے کے لئے جائز نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ شوہر کے لئے یہ کہنا درست ہوتا ہے کہ ” انت طالق ان شاء اللہ “ (اگر اللہ چاہے تو تم پر طلاق) اس صورت میں اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اگر وہ یہ کہے ” انت طالق الا طالق (تم پر طلاق مگر طلاق) تو اس صوت میں طلاق واقع ہوجائے گی اور استثناء باطل ہوجائے گا۔ کیونکہ کلام کے حکم کو رفع کرنے کے لئے استثناء کا دخول محال ہوتا ہے۔ اسی بنا پر یہ بات جائز ہے کہ ” ان شاء اللہ “ کا فقرہ تمام مذکورہ امور کی طرف راجع ہوجائے جن میں سے بعض ، بعض پر معطوف ہوتے ہیں لیکن حرف استثناء کے ذریعے ذکر ہونے والے استثناء میں یہ صورت واجب نہیں ہوتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ کوئی شخص یہ کہتا ہے ” انت طالق وعبدی حرالا ان یقدم فلان “ (تمہیں طلاق ہے اور میرا غلام آزاد ہے الا یہ کہ فلاں شخص آجائے) تو اس صورت میں استثناء دونوں باتوں کی طرف راجع ہوگا۔ اگر فلاں شخص نہ آئے حتیٰ کہ اس کی موت واقع ہوجائے تو بیوی کو طلاق ہوجائے گی اور غلام آزادہوجائے گا اور اس کے اس قول کی حیثیت اس کے قول ” انشاء اللہ “ جیسی ہوجائے گی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض نے اس سے جو مفہوم لیا ہے وہ درست نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ” الا ان یقدم فلان “ کا فقرہ اگرچہ استثناء کے صیغے میں ذکر ہوا ہے لیکن یہ شرط کے معنوں میں ہے۔ جس طرح اس کا یہ قول ہوتا ” ان لم یقدم فلان “ (اگر فلاں شخص نہ آئے) اب شرط کا حکم یہ ہے کہ اس کا تعلق فقرے میں مذکورہ تمام امور کے ساتھ ہوتا ہے جب یہ امور ایک دوسرے پر معطوف ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ شرط اس استثناء کے مشابہ ہوتی ہے جو درحقیقت اس لحاظ سے اللہ کی مشیت ہے کہ اس کا وجود کلام کو رفع کرنے کے سلسلے میں عمل کرتا ہے حتیٰ کہ اس کلام کی کوئی چیز ثابت نہیں ہوتی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب تک شرط کا وجود نہیں ہوتا اس وقت تک کوئی چیز واقع نہیں ہوتی۔ یہ بھی ممکن ہوتا ہے کہ شرط کا کبھی بھی وجود نہ ہو اور دوسرے سے کلام کا حکم باطل ہوجائے اور شرط کی جزا کا کوئی حصہ ثابت نہ ہوسکے، اسی بنا پر کلام میں مذکورہ تمام امور کی طرف شرط کا رجوع درست ہوجاتا ہے جس طرح اللہ کی مشیت کی طرف استثناء کا رجوع درست ہوتا ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ فقرہ ” الا ان یقدم فلان “ درحقیقت شرط ہے اگر چہ اس پر حرف استثناء داخل ہے۔ لیکن استثناء محض جس کی صورت یہ قول باری ہے : (الا الذین تابوا۔ یا الا ال لوط) یا اس طرح کے اور فقرات تو سرے سے کلام کے حکم کو رافع کرنے کے لئے ان پر استثناء کا دخول جائز نہیں ہوتا کہ کلام کا کوئی بھی جز ثابت نہ ہوسکے ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ قول باری (ولا تقبلوا لھم شھادۃ ابداً ) میں فقرے کا حکم کسی نہ کسی وقت ضرور ثابت ہوتا ہے اور جو لوگ استثناء کو اس فقرے کی طرف راجع کرتے ہیں وہ بھی اس کے حکم کو وقت کے بعض حصوں میں رفع کردیتے ہیں جبکہ بعض حصوں میں اس کا حکم ثابت رہتا ہے۔ اسی طرح قول باری (الا ال لوط) میں یہ درست نہیں ہے کہ حرف استثناء ان تمام لوگوں سے نجات کے حکم کو رفع کردے جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے، اس حرف نے تو صرف ان افراد میں سے بعض پر اپنا عمل کیا ہے جنہیں لفظ کا عموم شامل ہے۔ درج بالا سطور میں ہم نے وضاحت کی ہے اس کے ذریعے اس امر پر استدلال کیا جاسکتا ہے کہ اس قسم کا استثناء اپنے متصل امر کی طرف راجع ہوتا ہے گزشتہ کلام کی طرف راجع نہیں ہوتا۔ گزشتہ کلام کی طرف یہ صرف کسی دلالت کی بنیاد پر راجع ہوتا ہے وہ اس لئے کہ جب سرے سے کلام کے حکم کو رفع کرنے کے لئے اس استثناء کا دخول محال ہوتا ہے کہ اس کے نتیجے میں کلام کا کوئی حصہ بھی ثابت نہ ہوسکے تو اس سے یہ بات ضروری ہوجاتی ہے کہ اس استثناء کا عمل بعض کے اندر ہو، کل کے اندر نہ ہو۔ جب یہ بات واجب ہوگئی تو جس بعض کے اندر اس استثناء کا عمل ہوگا وہ متیقن بعض ہوگا۔ اس کے سوا کوئی اور فرد اس عمل کے تحت نہیں آئے گا۔ اس کی حیثیت اس لفظ جیسی ہوگی جس میں عموم کا اعتقاد درست نہ ہو اس صورت میں لفظ کا حکم اس فرد تک محدود رہے گا جو متیقن اور کم سے کم ہو۔ اس صورت میں لفظ کے عموم کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ یہی صورت استثناء کی بھی ہے۔ جب لفظ کے حکم کو سرے سے ختم کرنے کے لئے اللہ کی مشیت کی شرط نیز قسموں کے تمام شرطوں کا دخول جائز ہوگیا تو فقرے کے اندر مذکور تمام امور میں اس کا عمل واجب ہوگیا نیز یہ کہ دلالت کے بغیر ان امور میں سے کوئی امر خارج نہیں کیا جائے گا۔ قول باری (الا الذین تابوا) میں استثناء کا حکم اس کے متصل امر تک محدود ہے ماقبل کلام تک وسیع نہیں ہے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ قول باری : فاجلدو ھم ثمانین جلدۃ ولا تقبلوا لھم شھادۃ ابدا کے دونوں فقروں میں سے ہر فقرہ جملہ انشائیہ کی صورت میں ہے یعنی ایک مثبت امر ہے اور دوسرا منفی امر یعنی نہی ہے۔ جبکہ قول باری (واولئک ھم الفاسقون) جملہ خبریہ ہے اور استثناء اسی پر داخل ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ استثناء کا حکم اسی جملہ خبر یہ پر جاکر موقوف ہوجائے اور جملہ انشانیہ کی طرف راجع نہ ہو۔ وہ اس لئے کہ قول باری (واولئک ھم الفاسقون) میں حرف وائو زمانہ استقبال کے لئے ہے۔ اس لئے یہ درست نہیں کہ اسے سب کے لئے قرار دیا جائے کیونکہ ایک ہی لفظ کا بیک وقت امر اورخبر دونوں پر مشتمل ہونا درست نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ امرادرخبر کو کنایہ کے اندر تیز ایک ہی لفظ کے اندر جمع کردینا درست نہیں ہوتا۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ امر کی صورت میں یہ حد کی طرف راجع نہیں ہوتا۔ اس کی نظیر قائل کا یہ قول ہے (” اعط زیدادوھما ولاتدخلل الدار وفلان خارج انشاء اللہ “ زید کو ایک درہم دے دو اور تم گھر میں داخل نہ ہو اور فلاں انشاء اللہ باہر آئے گا) اس کلام کا مفہوم یہ ہے کہ استثناء کا رجوع خروج کی طرف ہے ماقبل کے صیغہ امر کی طرف نہیں ہے اس لئے آیت زیر بحث میں بھی استثناء کا یہی حکم ہونا چاہیے کیونکہ ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ارشاد باری ہے : (انما جزاء الذین یحاربون اللہ ورسولہ و یسعون فی الارض فساد ان یقتدوا اویصلبوا) ۔ قول باری (ذلک لھم خزی فی الدنیا ولھم فی الاخرۃ عذاب عظیم) پھر ارشاد ہوا (الا الذین تابوا من قبل ان تقدرو علیھم۔ ) یہ بات واضح ہے کہ آیت کے اول میں جن احکامات کا ذکر ہے وہ امر کی صورت میں ہیں اور قول باری (ذلک لھم جزی فی الدنیا) خبر ہے پھر استثناء پورے کلام کی طرف راجع ہے اور اس سلسلے میں امر اور خبر کے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات اس لئے درست ہوئی کہ قول باری (انما جزاء الذین یحاربون اللہ ورسولہ) اگرچہ حقیقت میں امر ہے لیکن اس کی صورت یعنی صیغہ خبر کی صورت میں ہے اس لئے جب سارا کلام خبر کی صورت میں وارد ہوا تو تمام کی طرف استثناء کا مرجع ہونا درست ہوگیا۔ لیکن زیر بحث آیت میں قول باری : فاجلدو ھم ثمانین جلدۃ ولا تقبلوا لھم شھادۃ ابدا حقیقت میں اوکا صیغہ ہے اس پر خبر کو عطف کیا گیا ہے اس لئے یہ ضروری ہوگیا کہ استثناء پورے کلام کی طرف راجع نہ ہو۔ اس کے ساتھ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ جب ایک کلام ایسا ہو جس کے حصے ایک دوسرے پر معطوف ہوں اور اس کے صیغے مختلف ہوں تو ایسے کلام پر داخل ہونے والا استثناء صرف اپنے متصل حصے کی طرف راجع ہوگا ماقبل کے ان حصوں کی طرف راجع نہیں ہوگا۔ جن کا صیغہ متصل حصے کے صیغے کی طرح نہیں ہوگا۔ الایہ کہ کوئی دلالت قائم ہوجائے۔ اگر دلالت قائم ہوجائے گی تو اسے ماقبل کے حصوں کی طرف راجع کرنا جائز ہوگا۔ آیت محاربین میں استثناء کو ماقبل کے حصوں کی طرف راجع کرنا جائز ہوگا۔ آیت محارمین میں استثناء کو ماقبل کے تمام حصوں کی طرف راجع کرنے کے لئے دلالت قائم ہوگئی ہے لیکن زیر بحث آیت میں ایسی کوئی دلالت قائم نہیں ہوئی ہے اس لئے اس سے کہ اصل حکم پر باقی رکھا جائے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حرف واو جمع کے لئے آتا ہے اور ارشاد باری ہے : (فاجلدوھم ثمانین جلدۃ ولا تقبک الھم شھادۃ ابداو اولئک ھم الفاسقون ) اس لئے گویا پورے کا پورا ایک ساتھ مذکور ہوا ہے اور کسی حصے کو کسی دوسرے پر کوئی تقدم حاصل نہیں پھر جب اس پورے جملے پر حرف استثناء داخل کردیا گیا تو مذکورہ امور میں سے بعض کی طرف اس کاراجع ہونا بعض دوسرے کی طرف اس کے رجوع سے اولیٰ نہیں ہوگا۔ کیونکہ ترتیب کے اندر بعض کو بعض پر تقدم حاصل نہیں ہوتا ۔ اس طرح پورے کے پورے جملے کی یہ حیثیت ہوگئی کہ اس کے تمام امور گویا ایک ساتھ مذکور ہوئے ہیں اس لئے فسق کے نشان کی طرف استثناء کا راجع ہونا بطلان شہادت اور حد کی طرف راجع ہونے کی یہ نسبت اولیٰ نہیں ہوگا۔ اگر اس بات پر دلالت قائم نہ ہوجاتی کہ استثناء حد قذف کی طرف راجع نہیں ہے یعنی قاذف خواہ اسے پھر بھی حد لگے گی تو یہ بات حد کی طرف بھی استثناء کے رجوع کے مقتضی ہوجاتی جس کے نتیجے میں توبہ کے بعد قاذف سے حد زائل ہوجاتی ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حرف وائو کبھی تو جمع کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ معترض نے ذکر کیا ہے اور کبھی استیناف کے لئے ہوتا ہے۔ یعنی کسی نئے مضمون یا نئی بات کا پتہ دیتا ہے۔ قول باری : (واولئک ھم الفاسقون) میں حرف وائو ا استیناف کے لئے ہے۔ اس لئے کہ یہ ان امور کی جمع کے لئے آتا ہے جن کے معانی مختلف نہیں ہوتے اور ایک جملہ ان سب امور پر مشتمل ہوتا ہے اس صورت میں تمام امور کی یہ حیثیت ہوتی ہے کہ گویا یہ ایک ساتھ مذکور ہوئے ہیں۔ یہ بات قول باری (اذا قمتم الی الصلونۃ فاغسلوا وجوھکم جب تم نماز کے ارادے سے کھڑے ہو تو اپنے چہرے دھولو) تا آخر آیت۔ اس لئے کہ آیت میں جمیع امور، امر کے صیغے سے بیان ہوئے ہیں گویا یوں فرمایا گیا کہ ” ان مذکورہو اعضاء کو دھولو۔ “ اس لئے کہ تمام امور کو امر کا صیغہ متضن ہے جس کی بنا پر یہ ایک جملے کی طرح ہوگیا جو ان تمام اوامر کو متضمن ہے اس کے برعکس آیت قذف کی یہ صورت ہے کہ اس کی ابتداء امر کے صیغے سے ہوئی ہے اور انتہا خبر کے صیغے سے ہوئی ہے۔ اب یہ بات درست نہیں کہ ایک ہی جملہ امر اور خبردونوں کو متضمن ہوجائے اس بنا پر حرف وائو استیناف کا مفہوم ادا کررہا ہے کیونکہ امر کے لفظ میں خبر کے معنی کا دخول جائز نہیں ہوتا ۔ جبکہ قول باری ہے، انما جزاء الذین یحاربون اللہ ورسولہ میں استثناء قتل کے حکم اور اس کے ساتھ مذکورہ امور کی طرف راجع ہے۔ یہ اس خبر کی طرف راجع نہیں ہے جو اس کے متصل ہے۔ اس لئے کہ قول باری : (الا الذین تابوا من قبل ان تقدروا علیھم) کا اس قول باری (ولھم فی الاخرۃ عذاب عظیم) کی طرف راجع ہونا درست نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ توبہ مذکورہ افراد پر قابو پانے سے قبل اور قابو پانے کے بعد ان سے آخرت کا عذاب زائل کردیتی ہے۔ جس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ توبہ کی شرط حد کے نفاذ کے سلسلے میں ہے۔ عذاب آخرت کے سلسلے میں نہیں ہے۔ یہاں ایک اور دلیل بھی ہے وہ یہ کہ قول باری : (ولا تقبلوا لھم شھادۃ ابدا) کے رو سے اس گواہی کا بطلان یا تو فسق کے ساتھ متعلق ہے یا یہ مستقل طور پر الگ حکم ہے اور آیت اس کی تابید یعنی ہمیشگی کی مقتضی ہے۔ جب اس قول باری کو فسق کے نشان کے لزوم کی بنا پر گواہی کے بطلان پر محمول کرنا اس کے ذکر فائدے کو باطل کردیتا ہے کیونکہ تفسیق کا ذکر گواہی کے بطلان کا مقتضی ہے الایہ کہ فسق زائلی ہوجائے اور اس سے توبہ کرلی جائے تو اسے اب دوسری صورت پر محمول کرنا واجب ہے کہ یہ ایک مستقل حکم ہے اور فسق کے نشان اور ترک توبہ کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے نیز ہر کلام اپنے حکم کے لحاظ سے قائم بالذات ہوتا ہے اور کسی دوسرے کلام کے ساتھ اس کے تضمین درست نہیں ہوتی الایہ کہ کوئی دلالت موجود ہو۔ اگر آیت کو اس مفہوم پر محمول کیا جائے جس کا ہمارے مخالف نے دعویٰ کیا ہے تو ا س سے یہ بات لازم آئے گی کہ دوسرے کلام کے ساتھ اس کی تضمین کردی گئی ہے اور اس کے اپنے حکم کو باطل کردیا گیا ہے جب کہ یہ بات لفظ کے مقتضیٰ کے خلاف ہے۔ نیز آیت کو اس مفہوم پر محمول کرنا جس کا ہمارے مخالف نے دعویٰ کیا ہے اس امر کا موجب ہے کہ آیت میں جس فسق کا ذکر کیا گیا ہے وہ مذکورہ ابطال شہادت کی علت بن جائے اس صورت میں آیت کی ترتیب یہ ہوگی۔ (” ولا تقبلوا لھم شھادۃ ابدالا نھم فاسقون “ ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو اس لئے کہ یہ فاسق ہیں) اس صورت میں کلام کو اس کے حقیقی معنوں سے ہٹا کر مجاز کی طرف پھیر دینا لازم آئے گا جس کے لئے کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ اس لئے کہ کلام کا حکم تو یہ ہے کہ وہ اپنے حکم کے ایجاب میں قائم بالذات ہوتا ہے۔ نیز یہ کہ اسے کسی دوسرے حکم کے لئے جو اس کے ساتھ مذکور ہو نیز اس پر معطوف ہو علت قرار نہ دیا جائے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ کوڑوں کی سزا کے بعد بطلان شہادت کا حکم قائم بالذات ہے، توبہ پر موقوف نہیں ہے۔ یہ حکم ہمیشہ کے لئے ہے جس کا ذکر آیت میں موجود ہے۔ اگر یہ کہا جانے کہ استثناء کو گواہی کی طرف راجع کرنا فسق کی طرف راجع کرنے کی بہ نسبت اولیٰ ہے کیونکہ اس آیت کے بغیر بھی یہ بات معلوم ہے کہ توبہ کا عمل فسق کو زائل کردیتا ہے اس لئے استثناء کو فسق کی طرف راجع کرنا بےفائدہ ہوگا لیکن اگر اسے گواہی کی طرف راجع کردیا جائے تو اس سے توبہ کی بنا پر گواہی کے جواز کی بات معلوم ہوجائے گی۔ کیونکہ یہ امکان تھا کہ توبہ کے باوجود اس کی بھی گواہی ناقابل قبول ہوتی، آیت کے اس امکان کو ختم کردیا۔ رہ گئی یہ بات کہ توبہ کے باوجود فسق کا نشان باقی رہ جائے تو یہ کسی لحاظ سے درست نہیں ہے نہ عقلی طور پر اور نہ ہی سمع یعنی نقلی طور پر۔ کیونکہ فسق کا نشان مذمت اور عذاب کا نشان ہوتا ہے اور یہ بات کسی طرح درست نہیں کہ تائب شخص کو مذمت اور عذاب کا مستحق قرار دیا جائے۔ گواہی کے بطلان میں یہ بات نہیں پائی جاتی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ غلام اور نابینا شخص کی گواہی درست نہیں ہوتی حالانکہ اس میں مذمب اور عقوبت کا کوئی پہلو نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک تعبدی امر ہوتا ہے۔ اس لئے آیت کے اندر افادہ کے پہلو کے اثبات کے نقطہ نظر سے استثناء کو گواہی کی طرف راجع کرنا فسق کی طرف راجع کرنے کی بہ نسبت اولیٰ ہے۔ اس اعتراض کے جواب میں کہاجائے گا کہ آیت زیر بحث میں جس توبہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ قذف کی وجہ سے نیز جھوٹ بولنے کے اقرار کی بنا پر کی جانے والی توبہ ہے۔ کیونکہ یہ قذف ہی ہے جس کی وجہ سے قاذف پر فسق کا نشان چسپاں ہوگیا اور وہ اس نشان کا سزاوار قرار پایا۔ اب اس بات کا امکان تھا کہ قاذف تمام گناہوں سے توبہ کرلیتا لیکن جھوٹ بولنے کا اقرار نہ رتا اور اس طرح اس پر فسق کا نشان باقی رہتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتا کر اس امکان کو ختم کردیا کہ جب وہ جھوٹ بولنے کا اقرار کرلے گا تو اس سے فسق کا نشان زائل ہوجائے گا۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھیے وہ یہ کہ کوڑوں کی سزا کی وجہ سے اس پر فسق کا نشان چسپاں ہوگیا۔ اور توبہ کے اظہار کے وقت اس میں کوئی امتناع نہیں تھا کہ ظاہر حال میں اس کی توبہ قابل قبول نہ ہو اگرچہ عنداللہ وہ قابل قبول ہو بھی جائے۔ ظاہری حالت کے لحاظ سے قابل قبول نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اس کی توبہ کی حقیقت کا علم نہیں ہوتا۔ اس لئے امکان یہ تھا کہ ہمارے لئے یہ ایک نعبدی امر ہوتا کہ ہم اس کی توبہ کی تصدیق نہ کریں بلکہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں اور اس کے ساتھ وہ مراسم نہ رکھیں جو تمام دوسرے اہل توبہ کے ساتھ رکھتے ہیں۔ جب ان باتوں کے متعلق یہ امکان تھا کہ انہیں امور تعبدی سمجھ کر اختیار کرلیا جائے تو آیت نے اس امکان کو ختم کرکے یہ واضح کردیا کہ اس کی توبہ قبول ہوجاتی ہے، اس کے ساتھ تعلقات ومراسم قائم رکھنا واجب ہے اور ظاہری طور پر اس کی طرف سے جس توبہ کا اظہار ہوا ہے اس میں اسے سچا سمجھا جائے۔ ذمی قاذف کی گواہی جبکہ وہ مسلمان ہوجائے اگر یہ کہا جائے کہ جب ہم سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ایسا ذمی جسے حد قذف لگ چکی ہو اگر مسلمان ہوجائے اور توبہ کرلے تو اس کی گواہی قابل قبول ہوگی تو یہ بات دو وجوہ سے قذف میں سزا یافتہ مسلمان کی گواہی قابل قبول ہونے پر دلالت کرے گی۔ اول تو اس لئے کہ یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ آیت میں استثناء گواہی کے بطلان کی طرف راجع ہے کیونکر آیت میں ذمی مراد ہے اور استثناء سے یہ مراد ہے کہ گواہی کا بطلان توبہ پر موقوف ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جب ذمی کی توبہ نے اس کی گواہی کے بطلان کے حکم کو اٹھا دیا تو مسلمان کو بھی اسی حکم میں داخل سمجھا جائے گا اس لئے کہ اس نے بھی توبہ کا اظہار کیا ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس بارے میں بات اس طرح نہیں ہے جیسا معترض نے خیال کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آیت میں ذمی داخل ہی نہیں ہے۔ کیونکہ آیت اس شخص کی گواہی کے بطلان کو مقتضی ہے جسے کوڑے لگ چکے ہوں اور قذف کی جہت سے اس پر فسق کا نشان چسپاں ہوچکا ہو۔ جبکہ ذمی پر پہلے ہی سے فسق کا انشان چسپاں ہے۔ جب ذمی کوڑے لگنے کی وجہ سے اس نشان کا سزاوار نہیں ٹھہرا تو وہ آیت میں داخل نہیں قرار پایا۔ ہم نے ذمی کو کوڑے اس لئے لگائے تھے کہ اس سزا پر سب کا اتفاق تھا جبکہ کفر کی حالت میں کوڑے کھانے کی بنا پر مسلمان ہوجانے کے بعد بھی اس کی گواہی کے بطلان پر سب کا اتفاق نہیں تھا اس لئے ہم نے اس کی گواہی کو اسی طرح جائز قرار دے دیا جس طرح مسلمان ہوجانے پر کافروں کی گواہی کو جائز قرار دے دیتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ درج بالا وضاحت کی بنا پر یہ بات واجب ہوجائے گی کہ فاسق اہل مدت میں شمار نہ کیا جائے اور آیت میں بھی وہ مراد نہ ہو کیونکہ ذمی کی طرح اس میں بھی حد قذف لگنے کی بنا پر فسق کا نیا نشان ظہور پذیر نہیں ہوا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ فاسق کی بعینہٖ یہی کیفیت ہے البتہ وہ آیت کے مفہوم میں معنوی طور پر داخل سمجھا گیا ہے لفظی طور پر نہیں۔ ہمارے اصحاب نے حد قذف میں سزا یافتہ ذمی کی گواہی کو اس کے مسلمان ہوجانے اور توبہ کرلینے کے بعد اس لئے جائز قرار دیا ہے کہ قذف میں حد کی سزا دو جہت سے سزا یافتہ کی عدالت اور ثقاہت کو باطل کردیتی ہے۔ ایک تو عدالت اسلام کی جہت سے اور دوسری عدالت فعل کی جہت سے ذمی کو جب حد لگی تھی اس وقت وہ مسلمان نہیں تھا اس لئے حد کی یہ سزا اس کی عدالت اسلام کو باطل نہیں کرے گی البتہ فعل یعنی کردار کی جہت سے اس کی عدالت باطل ہوجائے گی پھر جس وقت مسلمان ہوکر توبہ کرے گا تو اسے اسلام کی جہت سے عدالت کی صفت حاصل ہوجائے گی اور توبہ کی بنا پر فعل کی جہت سے بھی عدالت کی یہ صفت حاصل ہوجائے گی۔ اس بنا پر اس کی گواہی قبول کرلی جائے گی۔ اس کے بالمقابل مسلمان کو جب حد کی سزا ملتی ہے تو یہ سزا دین کی جہت سے اس کی عدالت کو ساقط کردیتی ہے اس نے توبہ کے ذریعے دین کی جہت سے کسی اور عدالت کی صفت پیدا نہیں کی کیونکہ اس نے اپنی توبہ کے ذریعے کوئی نیا دین تو اختیار نہیں کیا کہ اس جہت سے اسے عدالت کی صفت حاصل ہوجاتی۔ اس کا دین تو وہی اسلام رہا۔ البتہ فعل کی جہت سے اس میں عدالت کی صفت پیدا ہوگئی۔ اس بنا پر اس کی گواہی قابل قبول نہیں ہوئی کیونکہ اس کی گواہی قبول ہونے کی شرط یہ تھی کہ اس کے اندر دین اور فعل یعنی کردار دونوں جہت سے عدالت کا وجود ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب ہم سب کا اتفاق ہے کہ حد لگنے سے پہلے اگر یہ شخص توبہ کرلے تو اس کی گواہی قابل قبول ہوگی تو یہ صورت حال اس پر دلالت کرے گی کہ آیت میں استثناء تفسیق کی طرف راجع ہونے کی طرح گواہی کی طرف بھی راجع ہے۔ اس بنا پر یہ بات ضروری ہوگئی کہ یہ استثناء حد لگنے کے بعد بھی اس کی گواہی قبول ہونے کا مقتضی بن جائے جس طرح حد لگنے سے قبل اس کا مقتضی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ایسے شخص کی گواہی حد لگنے سے پہلے قذف کی بنا پر باطل نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی اس کی تفسیق کا حکم واجب ہوا تھا۔ اس کے دلائل ہم سابقہ مسئلے میں بیان کر آئے ہیں۔ اگر وہ توبہ نہ بھی کرتا اور قذف پر قائم رہتا تو اس کی گواہی قابل قبول ہوتی۔ اس کی گواہی کا بطلان اور اس پر فسق کے نشان کا لزوم یہ دونوں باتیں دراصل اس پر حد ہماری ہونے کی بنا پر مرتب ہوئی ہیں۔ استثناء نے دراصل اس سے فسق کا وہ نشان دور کردیا تھا جو اسے حد جاری ہونے کے بعد لازم ہوگیا تھا۔ حد جاری ہونے سے پہلے اسے نہ گواہی کے سلسلے میں استثناء کی ضرورت تھی اور ہ ہی تفسیق کے حکم ہیں۔ ہمارے قول کی صحت کی ایک اور دلیل بھی ہے وہ یہ کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ توبہ حد کو ساقط نہیں کرتی اور نہ ہی استثناء حد کی طرف راجع ہے۔ اس لئے یہ واجب ہوگیا کہ اس کی گواہی کے بطلان کا حکم بھی ایسا ہی ہو۔ اس لئے کہ حد اور بطلان شہادت دونوں کا تعلق قذف کی بنا پر ہوا ہے۔ اس لئے جس جہت سے استثناء حد کی طرف راجع نہیں ہوا، اس جہت سے گواہی کی طرف اس کا راجع ہونا واجب ہوگیا۔ رہ گیا تفسیق کا معاملہ تو یہ خبر کے صیغے میں بیان ہوا ہے امر کے صیغے سے نہیں اس لئے ہمارے بیان کے مطابق اس کا لزوم نہیں ہوگا۔ اس پر ایک اور جہت سے غور کیجئے۔ وہ یہ کہ حد کا مطالبہ آدمی کا حق ہے اسی طرح بطلان شہادت بھی آدمی کا حق ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ گواہیاں اس شخص کا حق ہیں جس کے لئے یہ گواہیاں دی جاتی ہیں اور اسی کے مطالبہ پر ان کا پیش کرنا اور انہیں بھگتانا درست ہوتا ہے جس طرح حد قذف جاری کرنا مقذوف کے مطالبہ پر درست ہوتا ہے۔ اس سے یہ مرواجب ہوگیا کہ گواہی اور حد دونوں کی حیثیت اس لحاظ سے یکساں قرار دی جائے کہ توبہ کی بنا پر یہ مرتفع نہیں ہوتیں۔ جہاں تک قاذف پر فسق کے نشان کے لزوم کا تعلق ہے تو اس میں کسی شخص کے حق کا پہلو نہیں ہوتا اس بنا پر استثناء اس کی طرف ہی راجع ہوگا اور اس تک ہی محدود رہے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ جو شخص کفر سے توبہ کرلیتا ہے اس کی گواہی قبول کرلی جاتی ہے اس لئے جو شخص قذف سے توبہ کرلے اس کی گواہی بطریق اولیٰ قبول ہونی چاہیے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ کفر سے تائب ہونے والے سے قتل کا حکم زائل ہوجاتا ہے لیکن قذف سے تائب ہونے والے سے حد قذف زائل نہیں ہتوی۔ جس طرح یہ بات جائز ہوگئی کہ کفر سے توبہ کافر سے قتل کے حکم کو زائل کردیتی ہے اسی طرح یہ بات بھی جائز ہوگئی کہ اس کی گواہی قبول کرلی جائے لیکن یہ چیز قذف سے توبہ کرنے والے کے لئے لازم نہیں ہوتی کیونکہ اس کی یہ توبہ اس سے حد قذف کو زائل نہیں کرتی۔ نیز دنیاوی سزائیں جرائم کے اندازوں پر وضع نہیں کی گئی ہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ کفر کی تہمت لگانے والے پر کوئی حدواجب نہیں ہوتی جبکہ زنا کی تہمت لگانے والے پر حدواجب ہوجاتی ہے۔ اس جہت سے قذف کا معاملہ زیادہ سنگین قرار پایا۔ یہ سنگینی احکام دنیا میں قذف کے اندر نہیں پائی جاتی۔ اگر چہ آخرت میں کفر کی سزا سب سے بڑھ کر ہے۔ قاذف توبہ کے بعدعادل شمار ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ قاذف جب توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلیتا ہے تو وہ عادل شمار ہوتا اور اللہ کا دوست سمجھا جاتا ہے۔ ابتداء میں اس کی گواہی کا بطلان سزا کے طور پر تھا۔ توبہ اس سزا کو زائل کردیتی اور عدالت نیز ولایت یعنی اللہ کی دوستی کو واجب کردیتی ہے۔ اس لئے توبہ کرلینے کے بعد اس کی گواہی کا بطلان کسی طرح جائز نہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ توبہ کے بعد اس کی گواہی کا بطلان سزا کے طور پر نہیں ہوتا بلکہ ابتلا اور آزمائش کے طور پر ہوتا ہے جس طرح توبہ کے بعد اس پر حد کانفاذ سزا کے طور پر نہیں ہوتا بلکہ ابتلا کے طور پر ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ مصلحت کے طور پر اپنے بندوں کو جس آزمائش میں ڈالنا چاہے ڈال سکتا ہے ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایک غلام بعض دفعہ عادل اور پسندیدہ صفات کا حامل ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا دوست بھی شمار ہوتا ہے لیکن اس کی گواہی قابل قبول نہیں ہوتی۔ یہی کیفیت نابینا کی بھی ہے اور یہی صورت اس گواہی کی بھی ہے جو باپ اپنے بیٹے کے حق میں دیتا ہے ۔ نیز اس قسم کی اور صورتیں۔ اس لئے بطلان شہادت اصول شریعت کے لحاظ سے فسق پر نیز عقوبت کی جہت پر موقوف نہیں ہوتا کہ معترض اپنی بیان کردہ دلیل کے ذریعے اس کا معارضہ کرے۔ قاذف کی توبہ اس کی گواہی کے جواز کی موجب نہیں ہوتی اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اس کی گواہی تو حاکم کی طرف سے اسے حد لگانے کے حکم اور اس پر حد جاری کرنے کی بنا پر باطل قرار پاتی ہے۔ قذف کی بنا پر اس کی گواہی باطل نہیں ہوتی۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ جب اس کی گواہی کے بطلان کا تعلق حاکم کے حکم کے ساتھ ہوگیا تو اب اسے جابز قرار دینا بھی اسی وقت درست ہوگا جب حاکم اس کے جواز کا حکم جاری کردے گی اس لئے کہ اصول کے اندر یہ کلیہ موجود ہے کہ ہر ایسا حکم جس کے ثبوت کا حاکم کے حکم کے ساتھ تعلق ہو وہ حکم متعلقہ شخص سے صرف اسی صورت میں زائل ہوسکے گا جب حاکم کی طرف سے اسے زائل کرنے کے لئے کوئی ایسا حکم دیا جائے جس کے ثبوت کا جواز موجود ہو۔ مثلاً طلاق، عتاق، املاک اور دوسرے تمام حقوق۔ اس لئے جب قاذف کی توبہ اس حیثیت کی مالک نہیں ہوتی کہ اس کے متعلق عدالت میں مقدمہ دائر کیا جاسکے اور اس کے متعلق حاکم کوئی دے تو پھر ہمارے لئے اسی چیزکا ابطال جائز نہیں ہوگا جو حاکم کے حکم کی بنا پر پہلے سے ثابت ہوچکی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ لعان کی وجہ سے نیز شوہر کے عنین یعنی قوت مردی سے محروم ہونے کی بنا پر عمل میں آنے والی علیحدگی اور اسی طرح کی دوسری صورتیں حاکم کے حکم کے ساتھ متعلق ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود لعان کرنے والا شوہر نیز نین اپنی سابقہ بیویوں سے نکاح کرسکتے ہیں اور اس صورت میں نکاح کا بندھن پھر لوٹ آتا ہے۔ یہی کیفیت بطلان شہادت کی بھی ہونی چاہیے یعنی اگرچہ اس کا تعلق حاکم کے حکم کے ساتھ ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ چیز توبہ کرلینے پر اس کی گواہی کی درستی کے لئے مانع نہیں ہونی چاہیے اور حاکم نے ابتداء میں اس کے بطلان کا جو حکم جاری کیا تھا وہ صرف اس حالت تک محدود رہنا چاہیے جس میں قاذف نے ابھی توبہ نہیں کی تھی جس طرح حاکم کے حکم کی بنا پر وجود میں آنے والی علیحدگی صرف اس حالت کے اندر محدود رہتی ہے جس میں طرفین نے نئے سرے سے عقد نکاح نہ کیا ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا مذکورہ بالا افراد اپنی سابقہ بیویوں سے اس لئے نکاح کرسکتے ہیں کہ نکاح ثانی کا حکم جاری کرنا جائز ہوتا ہے۔ اس لئے اس کے ذریعے اس علیحدگی کو باطل کردینا جائز ہوجاتا ہے جو حاکم کے حکم کی بنا پر عمل میں آئی تھی ۔ اس کے بالمقابل توبہ کے حکم کا اجرا حاکم کی طرف سے نہیں ہوتا اس بنا پر اس میں مقدمہ بازی کا ثبوت نہیں ہوسکتا اس لئے یہ جائز نہیں ہوگا کہ اس کے ذریعے حاکم کا وہ حکم باطل ہوجائے جو اس نے قاذف کی گواہی کے بطلان کے سلسلے میں جاری کیا تھا البتہ اگر قاذف کسی ایسے حاکم کے پاس جاکر گواہی دے جو تو بہ کے بعد حد قذف کے سزا یافتہ کی گواہی قبول کرلینے کا قائل ہو اور اس کی طرف سے گواہی قبول کرلینے کے متعلق حکم بھی جاری ہوگیا ہو تو ایسی صورت میں قاذف کی یہ گواہی جائز ہوجائے گی۔ (آیت ہذا کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں)
Top