Ahkam-ul-Quran - An-Noor : 8
وَ یَدْرَؤُا عَنْهَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْهَدَ اَرْبَعَ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِ١ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الْكٰذِبِیْنَۙ
وَيَدْرَؤُا : اور ٹل جائے گی عَنْهَا : اس عورت سے الْعَذَابَ : سزا اَنْ : اگر تَشْهَدَ : گواہی دے اَرْبَعَ شَهٰدٰتٍ : چار بار گواہی بِاللّٰهِ : اللہ کی قسم اِنَّهٗ : کہ وہ لَمِنَ : البتہ۔ سے الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے لوگ
اور عورت سے سزا کو یہ بات ٹال سکتی ہے کہ وہ پہلے چار بار خدا کی قسم کھائے کہ بیشک یہ جھوٹا ہے
اگر یہ کہا جائے کہ لعان تین طلاقوں اور رضاعت وغیرہ کی طرح ہے جن میں ان امور کے وجود میں آتے ہی علیحدگی ہوجاتی ہے اور اس کی صحت کے لئے حکم حاکم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ لعان ایسا سبب نہیں ہے جس کے وجود میں آتے ہی علیحدگی واقع ہوجاتی ہو اس لئے کہ اگر لعان کی یہ حیثیت ہوتی تو پھر غیر حاکم کے پاس بھی میاں بیوی کے لعان کے ساتھ ہی علیحدگی واقع ہوجانا لازم ہوجاتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہر وہ سبب جس کے ساتھ فسخ کا تعلق ہوتا ہے ضروری نہیں کہ نفس سبب اس فسح کا موجب بن جائے کیونکہ بعض اسباب تو ایسے ہوتے ہیں جو خود فسخ کے موجب بن جاتے ہیں لیکن بعض ایسے ہوتے ہیں کہ جب تک ان کے ساتھ کوئی اور سبب پیدا نہ ہوجائے وہ فسخ کے موجب نہیں ہوتے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ گھر کے ایک حصے کی فروخت شریک کے لئے حق شفعہ کو واجب کردیتی ہے لیکن یہ حق شفعہ شریک کی طرف اس کی جانب سے نفس طلب اور مقدمہ کے ساتھ منتقل نہیں ہوتا جب تک اس بارے میں حاکم فیصلہ نہ کردے۔ اسی طرح فروخت شدہ چیز پر خریدار کے قبضہ کے بعد عیب کی بنا پر اس کی واپسی نیز نابالغ کے بالغ ہوجانے کے بعد خیار بلوغ اور اسی طرح کے دوسرے مسائل کی صورت ہے ۔ یہ سب کے سب وہ اسباب ہیں جن کی بنا پر فسخ عقود ہوتا ہے لیکن صرف ان اسباب کے وجود میں آجانے کے ساتھ عقود فسخ نہیں ہوتے جب تک حاکم ان کے متعلق فیصلہ نہیں کرتا ہے۔ یہ تمام صورتیں ان حضرات کے خلاف جاتی ہیں جو لعان کے ساتھ ہی حاکم کی تفریق کے بغیر علیحدگی کے وجوب کے قائل ہیں۔ لعان کے سلسلے میں عثمان البتی اس بات کے قائل ہیں کہ لعان کسی حالت میں بھی علیحدگی کو واجب نہیں کرتا۔ کیونکہ لعان نہ تو علیحدگی کے لئے کنایہ ہے اور نہ ہی صریح۔ اگر میاں بیوی آپس میں لعان کرلیں تو ایسا لعان علیحدگی کا موجب نہیں ہوتا اسی طرح اگر حاکم کے روبرو لعان کرلیں تو وہ بھی علیحدگی کا موجب نہیں ہوگا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شوہر کا لعان اس حد کے قائم مقام ہوتا ہے جو اجنبی عورت کے قاذف کو لگائی جاتی ہے۔ اگر شوہر کو اس بنا پر حد لگائی جائے کہ اس نے بیوی کو قذف کرنے کے بعد اپنی کذب بیانی کا اقرار کرلیا ہو یا وہ غلام ہو تو اس صورت میں حد کی یہ سزاعلیحدگی کی موجب نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر شوہر بیوی کے ساتھ لعان کرے گا تو یہ لعان بھی علیحدگی کا موجب نہیں بنے گا۔ حضور ﷺ نے لعان کرنے والے جوڑے کے درمیان جو علیحدگی کردی تھی عثمان البتی نے اس کی یہ توجیہ کی ہے کہ یہ علیحدگی صرف بنو عجلان کے جوڑے تک محدود نہ تھی۔ اس واقعہ میں شوہر نے لعان کرنے کے بعد بیوی کو تین طلاق دے دی تھی جس کی بنا پر حضور ﷺ نے ان دونوں کے درمیان علیحدگی کرادی تھی۔ ابن شہاب زہری نے یہ روایت کی ہے کہ حضرت سہل بن سعد ؓ نے یہ بیان کیا تھا کہ عجلانی جوڑا جب لعان سے فارغ ہوا تو شوہر نے بیوی کو تین طلاق دے دی اور حضور ﷺ نے اسے نافذ کردیا۔ حضرت ابن عمر ؓ کی روایت بھی عجلانی جوڑے کے واقعہ کے متعلق ہے۔ ابوبکر حبصاص عثمان البتی کے اس استدلال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت سہل بن سعد کی روایت میں ان کا یہ قول مروی ہے۔ میں عجلان جوڑے کے اس واقعہ کے دوران حضور ﷺ کے پاس موجود تھا۔ اور لعان کرنے والے جوڑے کے سلسلے میں یہی سنت جاری ہوگئی کہ ان کے درمیان علیحدگی ہوجاتی ہے اور وہ پھر کبھی یکجا نہیں ہوتے۔ “ اس طرح حضرت سہل نے جو اس واقعہ کے راوی ہیں یہ بتادیا کہ ایسے جوڑے کے سلسلے میں ان دونوں کے درمیان علیحدگی کی سنت جاری ہوگئی۔ خواہ شوہر کی طرف سے اپنی بیوی کو طلاق نہ بھی دی جائے۔ اسی طرح حضرت ابن عباس ؓ کی روایت میں جس کا تعلق ہلال ؓ بن امیہ کے واقعہ سے ہے، یہ ذکر ہے کہ حضور ﷺ نے میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کرادی تھی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہلال ؓ نے اپنی بیوی کو طلاق نہیں دی تھی جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ لعان کے بعد میاں بیوی کے درمیان علیحدگی واجب ہوجاتی ہے نیز حضرت ابن عمر ؓ وغیرہ کی روایت میں جس کا تعلق عجلانی جوڑے کے واقعہ کے ساتھ ہے یہ ذکر ہے کہ حضور ﷺ نے ان دونوں کے درمیان تفریق کردی تھی۔ اس لئے یہ ممکن ہے کہ آپ نے ان کے درمیان پہلے علیحدگی کرادی ہو اور اس کے بعد شوہر تین طلاق دے دی ہو جسے حضور ﷺ نے نافذ العمل قرار دیا ہو۔ اس روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ نے شوہر سے فرمایا تھا کہ ” اب تمہارے لئے اس عورت پر بالادستی حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا۔ “ لعان کرنے والے مرد کا لعان کرنے والی عورت سے نکاح کا بیان امام ابوحنیفہ اور امام محمد کا قول ہے کہ جب لعان کرنے والا شوہر اپنی کذب بیانی کا اقرار کرلے جس نے نتیجے میں اسے حد لگائی جائے یا اسے اس صورت کے سوا کسی اور صورت کے تحت حد قذف میں کوڑے لگائے جائیں اور دوسری طرف عورت کی حیثیت یہ ہوجائے کہ شوہر کی طرف سے اسے قذف کی صورت میں ان دونوں کے درمیان لعان واجب نہ ہو تو ایسی صورت کے اندر مرد اس عورت سے نکاح کرسکتا ہے۔ سعید بن المسیب ، ابراہیم نخعی، شعبی اور سعید بن جبیر سے بھی اسی طرح کی روایت ہے۔ امام ابویوسف اور امام شافعی کا قول ہے کہ ایسے میاں بیوی کبھی بھی یکجا نہیں ہوسکتے۔ حضرت عمر ؓ ، حضرت علی ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ سے اس قسم کی روایت ہے۔ ہمارے نزدیک ان حضرات کا یہ قول اس مفہوم پر محمول ہے کہ میاں بیوی جب تک ایک دوسرے کے ساتھ لعان کی حالت میں ہوں گے یکجا نہیں ہوسکیں گے ۔ سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ لعان کی بناپر واقع ہونے والی علیحدگی بیوی کو شوہر سے بائن نہیں کرتی اور اگر عدت کے اندذر شوہر اپنی کذب بیانی کا اقرار کرلے تو اس کی بیوی اس کی طرف لوٹا دی جائے گی۔ لیکن یہ قول اس بنا پر شاذ ہے کہ سعید بن جبیر کے سوا کسی سے بھی یہ منقول نہیں ہے۔ اس قول کے بطلان پر سنت بھی گواہ ہے۔ حضور ﷺ نے لعان کرنے والے جوڑے کے درمیان علیحدگی کرادی تھی۔ اور علیحدگی بنیونت کے بغیر ہو نہیں سکتی۔ پہلے قول کے حق میں ان آیات کے عموم سے استدلال کیا جاسکتا ہے جو مناکحات کے عقود کی اباحت کرتی ہیں۔ مثلاً یہ قول باری : (واحل لکم ما ورآء ذلکم اور تمہارے لئے ان کے ماسوا دوسری عورتیں حلال کردی گئی ہیں) نیز (فانکحوا ما طاب لکم من النسآء جو عورتیں تمہیں بھلی لگیں ان سے نکاح کرلو ) نیز یہ قول باری (وانکحوالایامی منکم اور تمہارے اندر جو بےنکاحی عورتیں ہوں ان کا نکاح کرادو) نظر اور قیاس کی جہت سے اس قول کے حق میں یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ لعان کی بنا پر ہونے والی علیحدگی کا تعلق حاکم کے حکم کے ساتھ ہوتا ہے اور ہر ایسی علیحدگی جس کا تعلق حاکم کے حکم کے ساتھ ہو وہ ہمیشہ کے لئے تحریم کی موجب نہیں ہوتی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ علیحدگی کی وہ تمام صورتیں جن کا تعلق حاکم کے حکم کے ساتھ ہوتا ہے ہمیشہ کے لئے تحریم کی موجب نہیں ہوتی ہیں مثلاً عنین یعنی قوت مردی سے محروم شوہر کی اپنی بیوی سے علیحدگی ، اسی طرح نابالغ میاں بیوی کی خیار بلوغ کی بنا پر ایک دوسرے سے علیحدگی، اسی طرح ہمارے مخالفین کے نزدیک ایلاء کی وجہ سے واقع ہونے والی علیحدگی نیز علیحدگی کی وہ تمام صورتیں جن کا تعلق حاکم کے حکم کے ساتھ ہوتا ہے اصول شریعت میں ایسی صورتوں کا یہی حکم ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ علیحدگی کی جن صورتوں کو آپ نے بطور مثال پیش کیا ہے اگرچہ ان کا تعلق حاکم کے حکم کے ساتھ ہوتا ہے لیکن ان صورتوں میں فی الحال نکاح کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہوتی لیکن لعان کی بنا پر واقع ہونے والی علیحدگی میں فی الحال نکاح کی سب کے نزدیک ممانعت ہے۔ جب یہ جائز ہے کہ لعان کی علیحدگی اس جہت سے علیحدگی کی ان تمام صورتوں سے جدا ہوجائے جن کا تعلق حاکم کے حکم کے ساتھ ہوتا ہے تو یہ بھی درست ہونا چاہیے کہ علیحدگی کی تمام صورتیں اگرچہ ہمیشہ کے لئے تحریم کی موجب نہیں بنتی ہیں لیکن یہ علیحدگی ہمیشہ کے لئے تحریم کی موجب بن جاتی ہے اور اس جہت سے یہ ان تمام سے جدا ہے۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ حاکم کے حکم سے تعلق رکھنے والی علیحدگی کی چند صورتیں ایسی بھی ہیں جو فی الحال نکاح میں مانع بن جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ ہمیشہ کے لئے تحریم کی موجب نہیں بنتی ہیں۔ مثلاً عنین کی علیحدگی جس میں اسے اپنی بیوی کو صرف ایک طلاق دینے سے نہ روکا گیا ہو۔ یہ علیحدگی ایسی تحریم کی موجب ہوتی ہے جو اسے فی الحال عقد نکاح سے روک دیتی ہے لیکن اس کے باوجود یہ ہمیشہ کے لئے تحریم کی موجب نہیں بنتی۔ اسی طرح ذمی شوہر کی مثال ہے کہ اگر اس کی بیوی مسلمان ہوجائے اور یہ خود اسلام لانے سے انکار کردے جس کے نتیجے میں حاکم ان دونوں کے درمیان علیحدگی کرادے تو اس صورت میں علیحدگی کے بعد ذمی کو اس عورت سے نکاح کرنے کی ممانعت ہوگی لیکن اس کے باوجود یہ علیحدگی ہمیشہ کے لئے تحریم کی موجب نہیں بنے گی۔ اسی علیحدگی کی بنا پر ہم نے اسے فی الحال نکاح کرنے کی ممانعت کردی ۔ لیکن اس سے یہ ضروری نہیں ہوا کہ یہ علیحدگی ہمیشہ کے لئے تحریم کا موجب بن جائے۔ نیز اگر لعان ہمیشہ کے لئے تحریم کا موجب بن جاتا تو پھر یہ بھی ضروری ہوتا کہ غیر حاکم کے سامنے میاں بیوی کے لعان کی صورت میں ہمیشہ کے لئے تحریم واجب ہوجاتی اس لئے کہ ہم نے اس قسم کی تحریم کو واجب کرنے والے تمام اسباب کی یہ کیفیت پائی ہے کہ ان کا وجود ہی اس قسم کی تحریم کا موجب بن جاتا ہے اور اس کے لئے کسی حاکم کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مثلاً وہ عقد نکاح جو بیوی کی ماں کی تحریم کا موجب بنتا ہے۔ اسی طرح وہ ہم بستری جو تحریم کی موجب بنتی ہے نیز رضاعت اور نسب وغیرہ یہ تمام اسباب ایسے ہیں جو ہمیشہ کے لئے تحریم کا موجب بنتے ہیں، لیکن حاکم کے روبرو ان کا وجود میں آنا ضروری نہیں ہوتا۔ جب لعان کی تحریم کا تعلق حاکم کے حکم کے ساتھ ہے جس کی صورت یہ ہے کہ میاں بیوی اسی کے حکم سے اور اس کے روبرو لعان کریں تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ لعان ہمیشہ کے لئے تحریم کا موجب نہیں بنتا۔ اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ لعان کے بعد اگر شوہر علیحدگی واقع ہونے سے پہلے اپنی کذب بیانی کا اقرار کرلے تو اسے کوڑوں کی حد لگائی جائے گی اور میاں بیوی کے درمیان علیحدگی نہیں ہوگی۔ امام ابویوسف اس حد تک تو ہمارے ساتھ ہیں اس لئے کہ شوہر کو کوڑوں کی حد لگ جانے کی وجہ سے لعان کی حالت ختم ہوکر اس کا حکم باطل ہوجاتا ہے۔ اس لئے علیحدگی کے بعد بھی یہی صورت ہونی چاہیے کیونکہ علیحدگی کے بعد بھی وہ سبب زائل ہوجاتا ہے جس کی بنا پر علیحدگی واقع ہوئی تھی اور وہ سبب لعان کا حکم ہے۔ اگر یہاں یہ کہا جائے کہ اس صورت کے تحت پھر یہ واجب ہے کہ علیحدگی کے بعد اگر شوہر اپنی کذب بیانی کا اقرار کرلے اور اس کے نتیجے میں اس کوڑوں کی حد لگ جائے تو سابقہ نکاح بحال ہوجائے اور علیحدگی باطل قرار دے دی جائے کیونکہ علیحدگی کو واجب کرنے والا سبب دور ہوچکا ہے جس طرح اس صورت میں میاں بیوی کے درمیان علیحدگی نہیں ہوتی جب لعان کے بعد علیحدگی سے پہلے پہلے شوہر اپنی کذب بیانی کا اقرار کرلیتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ایسا کرنا واجب نہیں ہوتا اس لئے کہ ہم نے لعان کے حکم کے زوال کو صرف اس تحریم کے ارتفاع کی علت قرار دیا ہے جو اس کے حکم کے ساتھ متعلق ہوگئی تھی۔ ہم نے اس بقاء نکاح کی علت قرار نہیں دیا تھا اور نہ ہی نکاح کی بحالی کے لئے اسے علت بنایا تھا اس لئے جس جہت سے بھی عقد نکاح کو باطل مانا جائے اس کی بحالی ایک نئے عقد نکاح کے ساتھ ہی ہوسکتی ہے۔ البتہ علیحدگی کے ساتھ ایسی تحریم کا تعلق ہوتا ہے جو بنیونت کے علاوہ ہوتی ہے۔ یہ تحریم صرف حکم لعان کے ارتفاع کے ساتھ ہی مرتفع ہوسکتی ہے جس طرح طلاق ثلاثہ بنیونت کی موجب ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ایسی تحریم کی بھی جو صرف کسی اور شخص سے نکاح کرکے اس کے ساتھ ہم بستری کے ذریعے مرتفع ہوسکتی ہے۔ جب دوسراشوہر اس کے ساتھ ہم بستری کرلے گا تو اس کے ساتھ ہی وہ تحریم مرتفع ہوجائے گی جسے طلاق ثلاثہ نے واجب کردیا تھا ۔ لیکن پہلے شوہر کے ساتھ نکاح کی بحالی صرف اسی صورت میں ہوگی جب دوسرا شوہر اسے طلاق دے دے اور وہ عدت گزارنے کے بعد نئے سرے سے پہلے شوہر کے ساتھ نکاح کرلے۔ ایک اور دلیل ملاحظہ کیجئے، وہ یہ کہ جب علیحدگی کی بنا پر واقع ہونے والی تحریم کا لعان کے ساتھ تعلق ہے تو یہ ضروری ہے کہ لعان کے حکم کے ارتفاع کے ساتھ تحریم بھی مرتفع ہوجائے۔ جب لعان کرنے والا شوہر اپنی کذب بیانی کا اقرار کرکے کوڑوں کی سزا پالے تو اس صورت میں لعان کے حکم کے ارتفاع کی دلیل یہ ہے کہ ہماری گزشتہ وضاحتوں کی روشنی میں یہ بات معلوم ہوچکی ہے کہ لعان حد ہے اور شوہر کے حق میں اس کی حیثیت وہی ہے جو اجنبی عورت کے قاذف کے لئے کوڑوں کی سزا کی ہے۔ اور ایک قذف کے بدلے میں دو سزائوں کا اکٹھا ہوجانا ممتنع ہوتا ہے۔ اس بنا پر اگر اس قذف کی سزا کے طور پر کوڑے لگائے جائیں گے تو اس کے نتیجے میں لعان حد کے دائرے سے خارج ہوجائے گا اور تحریم کے ایجاب کے سلسلے میں اس کا حکم زائل ہوجائے گا اس لئے کہ تحریم کو واجب کرنے والے سبب یعنی لعان کا خاتمہ ہوگیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کا درج بالا استدلال لعان کے حکم کو ہی باطل کردیتا ہے اس لئے کہ ایک قذف کے بدلے دو حد کا یکجا ہوجانا ممتنع ہے اس لئے شوہر جب اپنی بیوی کے سوا کسی اور عورت کو قذف کرنے کی بنا پر کوڑوں کی سزا پاچکا ہو تو اس صورت میں ضروری ہے کہ میان بیویں کے درمیان لعان کا حکم باطل قرار نہ دیاجائے اور اس کے نتیجے میں پھر شوہر اس سے نکاح نہ کرسکے۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ جب شوہر کو قذف کے سلسلے میں حدلگ چکی ہو تو اس صورت میں وہ اہل لعان کے دائرے سے خارج ہوجاتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ شوہر اگر اپنی کسی اور بیوی کو قذف کرے گا تو اس صورت میں وہ لعان نہیں کرے گا بلکہ ہمارے نزدیک اسے حد قذف لگائی جائے گی۔ اس لئے لعان کرنے والے شوہر کی اپنی کذب بیانی کے اقرار کی صورت میں جس علت کا ہم نے تذکرہ کیا تھا وہ اگرچہ اس زیر بحث صورت میں موجود نہیں ہے لیکن ایک اور وجہ بنا پر اس صورت کو اس پر قیاس کرنا جائز ہے اور وہ وجہ شوہر کا اہل لعان کے دائرے سے خارج ہوجانا ہے۔ جو حضرات اس مسلک کے قائل ہیں کہ لعان کرنے والا جوڑا دوبارہ رشتہ نکاح میں یک جا نہیں ہوسکتا اگر وہ اس روایت سے استدلال کریں جسے لعان کرنے والے ایک جوڑے کے واقعہ کے سلسلے میں محمد بن اسحاق نے زہری سے نقل کیا ہے اور انہوں نے حضرت سہل ؓ بن سعد سے، زہری کا قول ہے کہ لعان کرنے والے جوڑے کے سلسلے میں یہی سنت جاری ہوگئی کہ جب یہ جوڑا لعان سے فارغ ہوجائے تو ان کے درمیان علیحدگی کرادی جائے اور پھر یہ دوبارہ کبھی یکجا نہ ہوں۔ اس طرح ان کا استدلال اگر اس روایت سے ہو جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی۔ انہیں ابودائود نے، انہیں احمد بن عمرو بن السرح نے، انہیں ابن وہب نے عیاض بن عبداللہ الفہری وغیرہ سے، انہوں نے ابن شہاب سے اور انہوں نے حضرت سہل بن سعد سے انہوں نے اس واقعہ کے سلسلے میں بیان کیا کہ شوہر نے حضور ﷺ کے روبرو بیوی کو تین طلاق دے دی اور حضور ﷺ نے انہیں نافذالعمل قرار دیا، آپ کی موجودگی میں یہ واقعہ پیش آیا۔ حضرت سہل ؓ کہتے ہیں کہ میں اس واقعہ کے وقت حضور ﷺ کے پاس موجود تھا۔ اس واقعہ کے بعد لعان کرنے والے جوڑے کے متعلق یہی سنت قائم ہوگئی کہ میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کرادی جائے اور وہ دوبارہ رشتہ ازدواج میں کبھی منسلک نہ ہوں۔ نیز حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے کہ آپ ﷺ نے اس موقع پر شوہر سے یہ بھی فرمایا کہ ” اب اس عورت تک رسائی کے لئے تمہارے پاس کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا۔ اب روایات سے استدلال کرتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ بیوی اگر شوہر کے لئے کسی بھی حالت میں حلال ہوتی تو حضور ﷺ اس موقعہ پر اسے بیان فرمادیتے جس طرح قرآن میں اللہ تعالیٰ نے تین طلاق حاصل کرنے والی عورت کو طلاق دینے والے شوہر کے لئے حلت کی یہ صورت بیان کردی کہ وہ کسی اور مرد سے نکاح کرنے کے بعد اس سے طلاق لے کر پھر اس پہلے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔ اس کے جو اب میں یہ کہا جائے گا کہ جہاں تک زہری سے مروی پہلی روایت کا تعلق ہے تو اس میں زہری کا یہ قول منقول ہے کہ لعان کرنے والے جوڑے کے سلسلے میں یہ سنت قائم ہوگئی ہے کہ ان کے درمیان علیحدگی کرادی جائے اور وہ دوبارہ رشتہ ازدواج میں کبھی یکجا نہ ہوں۔ اس روایت میں یہ ذکر ہیں ہے کہ حضور ﷺ نے یہ سنت جاری کی تھی اور نہ ہی یہ مذکور ہے کہ آپ نے اس کا حکم دیا تھا۔ رہ گیا حضرت سہل ؓ بن سعد کا قول کہ اس واقعہ کے بعد لعان کرنے والے جوڑے کے سلسلے میں یہی سنت قائم رہی کہ یہ دوبارہ کبھی بھی یکجانہ ہوں تو اس میں بھی یہ ذکر نہیں ہے کہ جاری ہونے والی یہ سنت حضور ﷺ کی سنت تھی اس لئے کہ سنت کے لفظ کا اطلاق کبھی حضور ﷺ کی جاری کردہ سنت پر ہوتا ہے اور کبھی آپ کے سوا کسی اور کے جاری کردہ طریقے پر۔ اس لئے اس بات کو بطور دلیل پیش نہیں کیا جاسکتا۔ نیز لعان کرنے والے جوڑے کے سلسلے میں آپ نے یہ بات کہی تھی جس سے یہ معلوم ہوگیا کہ اس صفت کے ساتھ ایک حکم کا تعلق ہے وہ یہ کہ لعان کرنے والا جوڑا لعان کی حالت میں ہوتا ہے نیز وہ اہل لعان کے دائرے میں داخل ہوتا ہے۔ پھر جس وقت اہل لعان کے دائرے سے خارج ہونے کی بنا پر لعان کرنے والے جوڑے سے یہ صفت زائل ہوجائے گی تو حکم بھی زائل ہوجائے گا جس طرح یہ قول باری ہے : (ماعلی المحسنین من سبیل۔ محسنین پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے) نیز ارشاد ہے (لا ینال عھدی الظالمین۔ میرا عہد ظلم کرنے والوں کو نہیں پہنچ سکتا) اور اسی طرح کے دوسرے احکام صفات کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اور جب صفت زائل ہوجاتی ہے تو حکم بھی زائل ہوجاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ سے آپ کا یہ ارشاد بھی منقول ہے کہ : (المتلاعنان لا یجتسمعان ۔ لعن کرنے والا شوہر اور لعان کرنے والی بیوی کبھی یکجا نہیں ہوسکتے) تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہمیں کسی راوی کے متعلق علم نہیں ہے کہ اس نے ان الفاظ میں اس کی روایت کی ہو اس روایت کی اصل وہ روایت ہے جس کا ذکر ہم نے حضرت سہل بن سعد ؓ سے مروی واقعہ کے سلسلے میں کیا ہے۔ اگر یہ الفاظ درست ثابت بھی ہوجائیں تو انہیں اس پر محمول کیا جائے گا کہ راوی نے حضرت سہل ؓ بن سعد کی روایت سے اخذ کیا ہے اور اسے یہ گمان ہوگیا کہ یہ عبارت اس بات کو بیان کررہی ہے جس کا ذکر حضرت سہل ؓ کی روایت میں ہوا ہے۔ اگر اس روایت کو حضور ﷺ سے درست تسلیم کرلیا جائے تو اس سے لعان کے حکم کے زوال کے بعد نکاح کی نفی کی بات معلوم نہیں ہوتی جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ رہ گئی وہ روایت جس میں آپ کا ارشاد ہے ” اب اس عورت پر بالادستی کے لئے تمہارے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ “ تو اس سے تحریم نکاح کی بات معلوم نہیں ہوتی۔ اس میں تو صرف علیحدگی واقع ہوجانے کی خبر دی گئی ہے اس لئے کہ مثلا ذیل کے فقرے کا اطلاق درست نہیں ہوتا کہ ” اجنبی عورتوں پر بالادستی کے لئے کسی کے پاس کوئی گنجائش نہیں ہے۔ “ اور نہ ہی اس فقرے سے عقد نکاح کی تحریم کی بات معلوم ہوتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ کے ارشاد : (لا سبیل لک علیھا) عقد نکاح کے جواز کی نفی کرتا ہے کیونکہ جواز نکاح اس عورت پر بالادستی حاصل کرنے کے ذریعے کا موجب ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ بات اس طرح نہیں ہے کیونکہ بعض دفعہ ہم کہتے ہیں کہ (” لا سبیل لک علی الاجنبیۃ۔ اجنبی عورت پر بالادستی حاصل کرنے کے لئے تمہارے پاس کوئی گنجائش نہیں) لیکن اس سے ہماری مراد یہ نہیں ہوتی کہ اس عورت سے اس شخص کا نکاح جائز نہیں ہے جس کے نتیجے میں اس پر بالادستی کا ذریعہ ہاتھ آجائے، بلکہ ہماری مراد یہ ہوتی ہے وہ مرد فی الحال اس عورت کے بضع کا مالک نہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس کے ساتھ جائز ہم بستری کا اسے حق حاصل نہیں۔ لیکن جب وہ اس سے نکاح کرلے گا تو اسے عورت کی رضامندی اور عقد نکاح کی بنا پر حق حاصل ہوجائے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ارشاد باری ہے : (ماعلی المحسنین من سبیل ) لیکن یہ ارشاد اس امر میں مانع نہیں ہے کہ حقوق کے اثبات کے مقتضی عقود میں محسنین سے پوچھ گچھ نہ کی جائے نیز نیکوکار شخص سے اس کی رضامندی کے تحت رابطہ نہ کیا جائے۔ یہی بات حضور ﷺ کے ارشاد : (الاسبیل لک علیھا) میں بھی ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ عورت کی رضامندی کے بغیر تمہارے لئے اس پر بالادستی حاصل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ فصل ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اہل علمکا اس پر اتفاق ہے کہ لعان کی بنا پر شوہر سے عورت کے ہاں پیدا ہونے والے بچے کی نفی ہوجاتی ہے ہم نے حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ سے منقول روایت میں بیان کردیا ہے کہ لعان کی بنا پر بچے کو ماں کے ساتھ ملحق کرنے اور باپ سے اس کے نسب کے انقطاع پر حضور ﷺ کا یہ اقدام نص ہے۔ تاہم بعض لوگوں سے ان کا یہ شاذ قول بھی منقول ہے کہ بچہ شوہر کا ہوگا اور لعان کی بنا پر باپ سے اس کا نسب منتفی نہیں ہوگا۔ ان لوگوں نے حضور ﷺ کے ارشاد : (الولد للفراش) سے استدلال کیا ہے حالانکہ جس ہستی کا یہ ارشاد ہے اس نے ہی لعان کی بنا پر شوہر سے بچے کے قطع نسب کا حکم دیا ہے۔ اس حکم کے سلسلے میں منقول روایات کا درجہ درج بالا روایت سے کسی طرح کم نہیں ہے اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آپ کے ارشاد : الولد للفراش، کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ لعان کی بنا پر باپ سے بچے کا نسب منتقی نہیں ہوتا۔ اسے ایک اور پہلو سے دیکھئے۔ زمانہ جاہلیت میں دستور تھا کہ زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کا نسب زانی کے ساتھ ملحق ہوجاتا تھا لیکن اسلام میں اس دستور کو باطل قرار دیا گیا۔ زمانہ جاہلیت میں نکاح کی چار صورتیں تھیں اس سلسلے میں ہمیں محمد بن بکر نے روایت سنائی، انہیں ابودائود نے ، انہیں احمد بن صالح نے، انہیں عنبسہ بن خالد نے، انہیں یونس بن زید نے، انہیں محمد بن مسلم بن شہاب نے، انہیں عروہ بن الزبیر نے کہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ نے انہیں بتایا تھا کہ زمانہ جاہلیت میں نکاح کی چار صورتیں تھیں۔ ایک صورت تو وہ تھی جو آج کل مروج ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کو اس کی سرپرستی میں رہنے والی لڑکی یا عورت کے ساتھ نکاح کا پیغام بھیجتا ہے، اور پھر مہر کی ادائیگی کے ساتھ اس سے نکاح کرلیتا ہے۔ نکاح کی دوسری صورت یہ تھی کہ ایک شخص اپنی بیوی سے کہتا ” جب تو حیض سے پاک ہوجائے تو فلاں شخص کو پیغام بھیج کر اپنے پاس بلا لی اور اس سے ہم بستری کرے۔ “ اس مرحلے سے گزرنے کے بعد مرد اس سے ہم بستری کرنے سے کنارہ کشی اختیار کرلیتا یہاں تک کہ اس غیر مرد سے اس کا حمل ظاہر ہوجاتا ۔ جب حمل ظاہر ہوجاتا تو شوہر چاہتا تو وہ بھی اس سے ہم بستری کرلیتا۔ اس پورے عمل میں شوہر کے پیش نظر صرف یہی مقصد ہوتا کہ اس کے گھر میں بھی کوئی نجیب بچہ جنم لے لے۔ اس نکاح کو نکاح الاستبضاع کا نام دیا جاتا۔ نکاح کی تیسری صورت یہ تھی کہ دس سے کم افراد پر مشتمل ایک گروہ آجاتا اور عورت کے ساتھ باری باری ہم بستری کرتا۔ جب عورت کو حمل ٹھہر جاتا اور بچہ بھی پیدا ہوجاتا تو عورت چند دن گزر جانے کے بعد انہیں پیغام بھیج کر بلواتی، اس موقعہ پر کسی شخص کے لئے نہ آنے کی گنجائش نہ ہوتی۔ جب سب آجاتے تو عورت ان سے کہتی کہ اس بچے کے سلسلے میں جو کچھ ہوا تھا اس سے تم سب باخبر ہو۔ اب یہ بچہ پیدا ہوچکا ہے۔ یہ کہہ کر عورت ان میں سے کسی مرد کی طرف اشارہ کرکے کہہ دیتی کہ ” یہ بچہ تمہارا ہے۔ “ یعنی عورت ان مردوں میں سے جس کو پسند کرتی اس کا نام لے لیتی اور یہ حرامی بچہ اس مرد کے ساتھ ملحق کردیاجاتا۔ نکاح کی چوتھی صورت یہ تھی کہ بہت سے لوگ ایک جگہ جمع ہوجاتے اور پھر کسی عورت سے باری باری ہم بستری کرتے عورت کسی کو بھی اس فعل بد سے نہ روکتی۔ ایسی عورتیں بغایا یعنی کسبن کہلاتی تھیں۔ یہ اپنے دروازوں پر جھنڈیاں نصب کردیتیں۔ یہ جھنڈیاں ان عورتوں کی نشاندہی کرتیں ، اور جو شخص بھی ان سے ہمبستری کرنا چاہتا کرلیتا۔ جب یہ عورت حاملہ ہوجاتی اور اس کے ہاں بچہ پیدا ہوجاتا تو لوگ اکٹھے ہوجاتے۔ قیاذشناسوں کو بلایاجاتا اور یہ قیافہ شناسی اپنی سمجھ کے مطابق اس بچے کو جس شخص کے ساتھ ملحق کردیتے وہ شخص اس بچے کو منہ بولا بیٹا بنا لیتا اور اسے اپنا بیٹا کہہ کر پکارتا، اسامر میں اس کے لئے کوئی چیز مانع نہ ہوتی۔ اسلام میں نکاح کا طریقہ جب اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو مبعوث فرمایا تو آپ نے زمانہ جاہلیت کے نکاح کی تمام صورتوں کو یک قلم منسوخ کردیا صرف نکاح اسلام میں باقی رہ گیا جو آج کل رائج ہے۔ اس طویل روایت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضور ﷺ کے ارشاد : الولد للفراش کا مفہوم یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں فراش یعنی حق زوجیت کے بغیر صرف نطفے کی بنا پر نسب کا الحاق ہوجاتا تھا۔ حضور ﷺ نے نسب کا الحاق فراش کے ساتھ کردیا۔ اس طرح زمعہ کے واقعہ کے سلسلے میں مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : الولد للفراش وولعاھر (الحجر) آپ نے بچے کے نسب کہ زانی کے ساتھ ملحق نہیں کیا بلکہ یہ فرمایا کہ بچے کا الحاق فراش یعنی حق زوجیت رکھنے والے شوہر کے ساتھ ہوگا اور یہ بتادیا کہ زانی کا کوئی بچہ نہیں ہوتا۔ آپ نے اس بچے کو زمعہ کے بیٹے عبد کی طرف لوٹا دیا کیونکہ یہ بچہ اس کے باپ کی لونڈی کا بیٹا تھا۔ پھر آپ نے ام المومنین حضرت سودہ ؓ کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا کیونکہ اس کے ساتھ اس بنا پر حضرت سودہ ؓ کی رشتہ داری نکل آئی تھی کہ وہ ظاہراً حضرت سعد ؓ کے بھائی زمعہ کے نطفے کی پیداوار تھا۔ اور زمعہ حضرت سودہ کے باپ تھے ۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ آپ نے اس کے نسب کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں دیا۔ اگر آپ اس کے نسب کے متعلق کوئی فیصلہ کردیتے تو حضرت سودہ ؓ کو اس سے پردہ کرنے کا حکم نہ دیتے بلکہ انہیں اس کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کا حکم دیتے اور اس سے پردہ کرنے سے اسی طرح منع کردیتے جس طرح آپ نے حضرت عائشہ ؓ کو ان کے رضاعی چچا سے پردہ کرنے سے منع کردیا تھا۔ ان کا نام افلح تھا جو ابو القبعیص کے بھائی تھے۔ آپ نے اس بچے کے نسب کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں دیا تھا اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے۔ جسے سفیان ثوری اور جریر نے منصور سے نقل کیا ہے، انہوں نے مجاہد سے انہوں نے یوسف ابن الزبیر سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن الزبیر ؓ سے کہ زمعہ کی ایک لونڈی تھی جس کے ساتھ وہ ہم بستری کرتے تھے، اس لونڈی کے متعلق یہ شک تھا کہ ایک اور شخص سے بھی اسے کے تعلقات ہیں۔ پھر زمہ فوت ہوگئے اس وقت یہ لونڈی حاملہ تھی۔ اس کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی جس کی مشابہت اس شخص کے ساتھ تھی جس کے متعلق اس لونڈی کے ساتھ تعلقات کا شک تھا۔ حضرت سودہ ؓ نے حضور ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا۔ ” میراث اس کے لئے ہوگی لیکن تم اس سے پردہ کروگی کیونکہ یہ تمہارا بھائی نہیں ہے۔ “ اس روایت میں یہ بات صراحت سے بیان کردی گئی کہ زمعہ سے اس بچے کے نسب کی نفی کردی گئی تھی۔ آپ نے اسے اس بنا پر میراث کا حقدار قرار دیا کہ زمعہ کے بیٹے عبد نے یہ اقرار کیا تھا کہ یہ بچہ میرا بھائی ہے۔ یہ روایت ایک اور سند سے بھی مروی ہے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں ابن منصور اور مسدد بن مسرہد نے انہیں سفیان نے زہری سے۔ انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ اور عبدبن زمعہ نے زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کے جھگڑے میں حضور ﷺ کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کیا۔ حضرت سعد ؓ نے یہ بیان دیا کہ ” میرے بھائی عتبہ نے مجھے وصیت کی تھی کہ جب میں مکہ پہنچوں تو زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کو تلاش کرکے اسے اپنے قبضے میں کرلوں کیونکہ وہ اس کا یعنی عتبہ کا بیٹا ہے۔ “ عبد بن زمعہ نے یہ بیان دیا کہ ” یہ بچہ میرا بھائی اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے، یہ میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ “ حضور ﷺ نے یہ مشاہدہ کرلیا کہ بچے کی عتبہ کے ساتھ واضح مشابہت ہے۔ آپ ﷺ نے اس موقع پر یہ فرمایا کہ : الولد للفراش پھر آپ نے حضرت سودہ ؓ کو اس بچے سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔ اس روایت میں مسدد نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے (ھو اخوک یا عبد۔ ابے عبد ! یہ تمہارا بھائی ہے) ۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ سعید بن منصور کی روایت کے الفاظ درست ہیں۔ مسدد نے اپنی روایت میں جن الفاظ کا اضافہ کیا ہے ہمارے علم کے مطابق کسی بھی راوی نے اس بارے میں مسدد کی موافقت نہیں کی ہے ۔ بعض طرق میں یہ الفاظ منقول ہیں (ھولک با عبد۔ اے عبد ۔ یہ بچہ تمہارا ہے) لیکن یہ بات اس پر دلالت نہیں کرتی کہ آپ نے نسب ثابت کردیا تھا کیونکہ یہ ممکن ہے کہ آپ نے اس سے عبد کے لئے اس بچے پر قبضے کا اثبات مراد لیا ہو کیونکہ جو شخص کسی چیز پر قبضے کا استحقاق رکھتا ہو۔ اس کی طرف اس چیز کی نسبت درست ہوتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ” فلاں چیز فلاں کی ہے۔ “ حضرت عبدالہل بن رواحہ ؓ نے خیبر جاکر وہاں کے یہودیوں کے باغات میں کھجور کی پیداوار کا تخمینہ لگاتے ہوئے ان سے فرمایا تھا ۔ اگر تم چاہو تو یہ کھجور تمہارے ہوں گے اور اگر چاہو تو میرے ہوں گے۔ “ آپ نے اس سے ملکیت مراد نہیں لی۔ یہ بھی ظاہ رہے کہ آپ نے اپنے ارشاد : ھولک یا عبد سے ملکیت کا اثبات مراد نہیں لیا ہے جبکہ ہمارے مخالف کا دعویٰ ہے کہ آپ نے نسب کا اثبات مراد لیا ہے۔ اس صورت میں عبد کی طرف بچے کی نسبت حقیقتۃً واجب نہیں ہوتی اس لئے کہ آپ کا ارشاد ھولک ملکیت کی اضافت پر دلالت کرتا ہے اور بھائی پر ملکیت نہیں ہوتی اس لئے آپ نے اس کے حقیقی معنی مراد نہیں لئے ہیں۔ اس بنا پر اس فقرے کو نسب کے اثبات پر محمول کرنے سے اولیٰ نہیں ہے۔ اگر اس روایت کو درست تسلیم کرلیا جائے تو اس میں یہ احتمال ہے کہ آپ نے یہ فرماکر کہ : ھو احک۔ یہ تمہارا بھائی ہے ۔ دینی بھائی چارہ مراد لیا ہو، نیز یہ کہ یہ بچہ غلام نہیں ہوگا کیونکہ عبد نے اقرار کیا تھا کہ یہ آزاد ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اصل روایت وہ ہو جس کا بعض راویوں نے ذکر کیا ہے کہ آپ نے فرمایا تھا کہ : ھولک اور راوی نے اپنے طور پر یہ سمجھ لیا ہو کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ بچہ نسب کے لحاظ سے عبد کا بھائی ہے۔ اس طرح راوی نے سفیان ثوری اور جریر کی اس روایت کو جس کے راوی حضرت عبداللہ بن الزبیر ؓ ہیں اسی معنی پر محمول کیا ہو۔ حضرت عبداللہ کی اس روایت پر ذکر ہے کہ آپ نے فرمایا تھا (لیس لک باغ یہ تمہارا بھائی نہیں ہے) یہ الفاظ واضح ہیں اور اس میں کوئی احتمال نہیں ہے۔ اس بنا پر ابن شہاب زہری کی روایت کو جس کا ہم نے ذکر کیا ہے ان وجوہ پر محمول کرنا واجب ہے جو ہم نے اوپر بیان کیے ہیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے : الولدللفراش۔ دو مفہوم کا مقتضی ہے۔ ایک صاحب ذاش یعنی شوہر کے لئے نسب کا اثبات دوسرے یہ کہ جو صاحب فراش نہیں ہوگا نہیں ہوگا اس سے نسب ثابت نہیں ہوگا اس لئے کہ ولد کا لفظ اسم جنس ہے اسی طرح لفظ فراش بھی اسم جنس ہے کیونکہ اس پر الف لام داخل ہے اس لئے جنس ولد میں سے جو بھی ہوگا وہ اس روایت میں مراد ہوگا۔ گویا آپ نے یہ فرمایا ” لاولدالا للفراش “ (جو ولد بھی ہوگا وہ فراش کے لئے ہوگا) یعنی ہر پیدا ہونے والا بچہ اسی کا ہوگا جو صاحب فراش یعنی شوہر کا ہوگا۔ زنا اور قذف کفر نہیں ہیں اللہ تعالیٰ نے آیت لعان میں جو احکام بیان فرمائے ہیں ان میں یہ دلالت موجود ہے کہ زنا اور قذف کفر نہیں ہیں۔ ان کے مرتکب کافر نہیں ہوجاتے۔ اس لئے کہ اگر یہ دونوں فعل کفر ہوتے تو زوجین میں سے ایک کا مرتد ہوجاناواجب ہوتا، کیونکہ اگر شوہر اپنی بیوی کو قذف کرنے میں جھوٹا ہوتا تو اس کا کافر ہوجانا واجب ہوتا اور اگر سچا ہوتا تو بیوی کا زنا کی بنا پر کافرہ ہوجاناواجب ہوتا۔ نیز لعان سے پہلے ہی اس کا بائن ہوجانا بھی ضروری ہوتا۔ جب اللہ تعالیٰ نے دونوں کے درمیان لعان کرانے کا حکم دیا اور لعان سے پہلے عورت کے بائن ہوجانے کا حکم نہیں لگایا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ زنا مولد قذف کفر نہیں ہیں۔ اس لئے آیت خوارج کے اس قول کے بطلان پر دلالت کرتی ہے کہ زنا اور قذف کفر ہیں۔ آیت اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ قاذف اگر جھوٹا ہوگا تو وہ اللہ کی لعنت کا سزاوار قرار پائے گا نیز زناکاری اللہ کے غضب کے استحقاق کا سبب بنتی ہے۔ اگر یہ بات اس طرح نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ قاذف اور زانی کو لعان کی صورت میں اپنے لئے لعنت اور غضب کی دعا مانگنے کا حکم نہ دیتا کیونکہ یہ بات تو جائز نہیں ہے کہ انہیں اپنے لئے ایسی چیز کی بدعا کا حکم دیا جائے جس کے وہ سزاوار ہی نہ ہوں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ کسی شخص کے لئے اپنی ذات کو یہ مددعا دینا جائز نہیں کہ اللہ کا اس پر ظلم ہو اور اللہ اسے ایسی سزا دے جس کا وہ سزاوار نہیں ہے۔
Top