Ahkam-ul-Quran - Al-Furqaan : 63
وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ : اور رحمن کے بندے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَمْشُوْنَ : چلتے ہیں عَلَي الْاَرْضِ : زمین پر هَوْنًا : آہستہ آہستہ وَّاِذَا : اور جب خَاطَبَهُمُ : ان سے بات کرتے ہیں الْجٰهِلُوْنَ : جاہل (جمع) قَالُوْا : کہتے ہیں سَلٰمًا : سلام
اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں
رحمن کے اصلی بندے قول باری ہے : (وعبادالرحمن الذین یمشون علی الارض ھونا۔ ) رحمن کے (اصلی) بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں، ابن نجیح نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ (ھونا) کا مفہوم وقار اور سکون ہے یعنی ” وہ زمین پر بڑے وقار اور سکون سے چلتے ہیں۔ “ قول باری : (واذا اخاطبھم الجاھلون قالوا سلاما۔ ) اور جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام کی تفسیر میں ان کا قول ہے جب جاہل ان کے منہ آئیں تو وہ درست بات کہتے ہیں۔ حسن سے (یمشون علی الارض ھون) کی تفسیر میں منقول ہے کہ ” بہت ہی متحمل مزاج بن کر چلتے ہیں کسی سے نہیں الجھتے اور اگر کوئی الجھے تو بردباری کا مظاہرہ کرتے ہیں گویا کہ ڈر گئے ہوں حالانکہ ان میں تیروں کی طرح لچک ہوتی ہے۔ اللہ کے بندوں کے دن اس طرح گزرتے ہیں اور وہ اسی تحمل مزاجی کے ساتھ لوگوں میں چلتے پھرتے رہتے ہیں۔ “ قول باری : والذین یبتون لربھم سجا وقیاما جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ” اللہ کے بندوں کی یہ راتیں ہیں۔ جب رات آجاتی ہے تو ان کے چاروں طرف پردے ڈال دیتی ہے اور پھر یہ رب کے سامنے رہ جاتے ہیں۔ “ حضرت ابن عباس ؓ سے (یمشون علی الارض ھوز) کی تفسیر میں منقول ہے کہ ” اللہ کے بندے زمین میں تواضع اور انکساری کی چال چلتے ہیں اور کسی تکبر کا مظاہر ہ نہیں کرتے۔ “
Top