Ahkam-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 104
وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَلْتَكُنْ : اور چاہیے رہے مِّنْكُمْ : تم سے (میں) اُمَّةٌ : ایک جماعت يَّدْعُوْنَ : وہ بلائے اِلَى : طرف الْخَيْرِ : بھلائی وَيَاْمُرُوْنَ : اور وہ حکم دے بِالْمَعْرُوْفِ : اچھے کاموں کا وَيَنْهَوْنَ : اور وہ روکے عَنِ الْمُنْكَرِ : برائی سے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ ھُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : کامیاب ہونے والے
اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں
امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی فرضیت قول باری ہے (ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیرویامرون بالمعروف وینھون عن المنکر، تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیئے جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلاتا رہے اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا رہے) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت دو باتوں پر مشتمل ہے اول امربالمعروف اور نہی عن المنکرکاوجوب۔ دوم یہ فرض کفایہ ہے۔ ہر شخص پر فرض عین نہیں۔ جب ایک شخص اس فرض کا داداکردے گا تو دوسرے پر اس کی فرضیت باقی نہیں رہے گی اس لیے کہ قول باری (ولتکن منکم امۃ) اس کی حقیقت کا تقاضا کہ بعض پر فرض اور دوسرے بعض پر نہ ہو۔ جس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ فرض کفایہ ہے کہ جب کچھ لوگ اسے داداکر لیں گے توباقیوں سے اس کی فرضیت ساقط ہوجائے گی۔ بعض لوگوں کا یہ قول ہے کہ یہ فرض عین ہے یعنی اس کی فرضیت ہر شخص پر عائد ہوتی ہے۔ یہ لوگ اس قول باری (ولتکن منکم امۃ) کے اندازبیان کو مجاز اخصوص پر محمول کرتے ہیں (لیکن حکم میں عموم ہے جس طرح کہ یہ قول باری ہے (یغفرلکم من ذنوبکم، اللہ تعالیٰ تمہارے بعض گناہ بخش دے گا) اس کے معنی ہیں کہ تمہارے سب گناہ بخش دے گا۔ فرض کفایہ کے قول کی صحت پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ جب کچھ لوگ امربالمعروف اور رنہی عن المنکر کرلیں گے تو باقی ماندہ لوگوں سے اس کی فرضیت ساقط ہوجائے گی۔ جس طرح کہ جہاد، مردوں کی تغسیل وتکفین اور جنازے کی نماز اور ان کی تدفین کا مسئلہ ہے۔ اگر یہ فرض کفایہ نہ ہوتا تو بعض کی طرف سے اس کی ادائیگی کی بناپردوسروں سے اس کی فرضیت ہرگز ساقط نہ ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا کئی اور مقامات پر بھی ذکر فرمایا ہے۔ چناچہ ارشاد ہے (کنتم خیرامۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر، اب دنیا میں تم وہ بہترین گروہ ہوج سے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیئے دنیا میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بدی سے روکتے ہو) اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان (علیہ السلام) کے الفاظ میں فرمایا (یا بنی اقم الصلوۃ وامربالمعروف وانہ عن المنکرواصبرعلی مااصابک، اے میرے بیٹے ! قائم کرنی کی کا حکم دے اور برائی سے روک اور اس سلسلے میں) جو تکلیفیں تجھے اٹھانی پڑیں انہیں برداشت کر) نیز قول باری ہے (وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوافاصلحوابینھما فان یغت احداھما علی الاخری فقاتلوا التی تبغی حتی تفیء الی امر اللہ، اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں جنگ کرنے لگ جائیں تو ان کے درمیان اصلاح کرادو۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو اس سے لڑوجوزیادتی کررہا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرلے۔ ) نیز فرمایا (یعن الذین کفروامن بنی اسرائیل علی لسان داؤد وعیسیٰ بن مریم ذلک بماعصواوکانوایعتدون۔ کانوالا یتناھون عن منکر فعلوہ لبئس ماکانوایفعلون، بنی اسرائیل میں سے جنہوں نے کفراختیار کیا۔ ان پر داود اورعیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت ہوء۔ یہ اس لیئے کہ انہوں نے نافرمانیاں کیں اور وہ حد سے آگے نکل نکل جاتے تھے۔ جو برائی انہوں نے اختیارکررکھی تھی اس سے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے۔ جو کچھ وہ کررہے تھے وہ بہت ہی برا تھا۔ ) یہ آیتیں اور ان جیسی دوسری آیتیں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے ایجاب کا تقاضا کرتی ہیں۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے کئی مراحل ہیں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے کئی مراحل ہیں۔ اول کسی برائی کو ہاتھ سے یعنی اگر ممکن ہو تو بزور طاقت بدل ڈالنا اور روک دینا۔ اگر یہ ممکن نہ ہو اور اسے اس برائی کو بزور روکنے میں اپنی جان کا خوف ہو تو اس پرا سے اپنی زبان سے روکنا اور اس کے خلاف بولنا لازم ہے۔ اگر درج بالاوجہ کی بناپریہ بھی مشکل ہو تو پھر اس برائی کو دل سے برا سمجھنا اس پر لازم ہوگا۔ اس سلسلے میں ہمیں عبداللہ بن جعفربن احمد بن فارس نے روایت بیان کی انہیں یونس بن حبیب نے انہیں ابوداؤ دطیالسی نے انہیں شعبہ نے انہیں قیس بن مسلم نے کہ میں نے طارق بن شہاب کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ مروان بن الحکم نے نماز پر خطبے کو مقدم کردیا۔ ایک شخص نے کھڑے ہوکرکہا امیر ! تم نے سنت کے خلاف عمل کیا خطبہ نما ز کے بعد ہوا کرتا تھا۔ مروان نے سن کر کہا اس بات کو چھوڑو اے فلاں کے باپ شعیہ کہتے ہیں کہ مروان اونچی آوازوالا تھا اس کی یہ آوازسن کر ابوسعید خدری ؓ اٹھے اور فرمایا مروان سے یہ بات کہنے والا کون شخص ہے، اس نے اپنا فرض پوراکردیا ہے۔ ہم سے حضور ﷺ نے فرمایا تھا (من رای منکم منکوافلینکرہ بیدہ فان لم یستطع فلینکرہ بلسانہ فان لم یستطع فلینکرہ بقلبہ وذلک ضعف الایمان، تم میں سے جو شخص کسی برائی کو دیکھے توا سے اپنے ہاتھوں سے ہٹادے اگر اس میں اس کی طاقت نہ ہو تو اس کے خلاف اپنی زبان استعمال کرلے اگر ا سے اس کی بھی طاقت نہ ہوتوا سے اپنے دل سے براجانے اور یہ ایمان کا کمزورترین درجہ ہے۔ ہمیں محمد بن بکربصری نے روایت بیان کی انہیں ابوداؤدنے انہیں محمد بن علاء نے انہیں ابو معاویہ نے اعمش سے انہوں نے اسماعیل بن رجاء سے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے ابو سعید اور قیس بن مسلم سے انہوں نے طارق بن شہاب سے انہوں نے ابوسعید خدر ؓ ی سے کہ میں نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ (من رای منکم منکراواستطاع ان یغیرہ بیدہ فلیغیرہ بیدہ ، فان لم یستطع فبقلبہ وذاک اضعف الایمان، تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے اور اسے اپنے ہاتھ سے ہٹاسکتا ہو تو اسے اپنے ہاتھوں سے ہٹادے اگر ا سے اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے یہ کام کرے۔ اگر اس کی بھی اس میں طاقت نہ ہو تو اسے اپنے دل سے براس مجھے اور یہ ایمان کا کمزورترین درجہ ہے۔ ) برائی کو روکنا حالا و امکان کے مطابق ہے حضور ﷺ نے یہ بتادیا کہ منکر اوربرائی کو روکنا حالات و امکان کے مطابق ان تین مرحلوں میں ہوتا ہے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر دہ اپنے ہاتھوں سے منکر یعنی برائی کو ہٹانہ سکے تو پھر اپنی زبان سے ہٹائے یعنی اس کے خلاف زبانی جہاد کرے۔ اگر اس کے لیئے یہ ممکن نہ ہو تو اس پر اس سے زیادہ اور کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ وہ دل سے اسے براس مجھے۔ برائی سے نہ روکنے والا اس کی زد میں آسکتا ہے ہمیں عبداللہ بن جعفرنے روایت بیان کی انہیں یونس بن حبیب نے انہیں ابوداؤدنے انہیں شعبہ نے ابواسحاق سے انہوں نے عبداللہ بن جریرالنجلی سے انہوں نے والد حضرت جریرالجبلی ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (مامن قوم یعمل بینھم بالمعامی ھم اکثرواعزممن یعملہ ثم لم یغیروا الاعمھم اللہ منہ یعقاب، جو قوم ایسی ہو کہ اس کے اندر بےڈھرک معاصی کا ارتکاب ہورہاہو۔ اس میں ایسے لوگ موجودہوں جوان مرتکبین سے بڑھ کر اثردرسوخ دالے ہوں اور ان کی عددی اکثیریت بھی ہو اس کے باوجود وہ ان معاصی کو ختم نہ کرائیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ایسی سزانازل کرے گا جس کی لپیٹ میں سب آجائیں گے) ہمیں محمد بن ب کرنے روایت بیان کی انہیں ابوداؤد نے انہیں عبداللہ بن محمد النفیلی نے انہیں یونس بن راشد نے علی بن بدیمہ سے انہوں نے ابوعبیدہ سے انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعو ؓ د سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ (ان اول مادخل النقص علی بنی اسرائیل کان الرجل یلقی الرجل فیقول یاھداتق اللہ ودع ماتصنع فانہ لا یحل لک ثم یلقاہ من الغد فلا یمنعہ ذلک ان یکون اکیدہ وشریبہ وقعیدہ فلما فعلواذلک ضرب اللہ تعالیٰ قلوب بعضھم ببعض، بنی اسرائیل میں سب سے پہلے جو خرابی پیداہوئی اس کی صورت یہ تھی کہ ایک شخص دوسرے شخص سے ملتا اور اسے اس کی معاصی پر سرزنش کرتے ہوئے کہتا کہ اے فلاں ! اللہ سے ڈر اوریہ کام چھوڑکیون کہ یہ تیرے لیئے حلال نہیں ہے پھر وہی نصیحت کرنے والا دوسرے روز اس سے ملتا لیکن اس کی خطاکاری اور معاصی اسے اس کے اٹھتے بیٹھنے اور کھانے پینے سے نہ روکتے جب بنی اسرائیل نے یہ طرز عمل اختیارکیاتو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر ایک دوسرے کے ذریعے مہرلگادی۔ ) برائیوں سے صرف نظرلعنت خداوندی کی موجب ہے پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی (لعن الذین کفروامن بنی اسرئیل علی لسان داؤدوعیسیٰ بن مریم ذلک بماعصواوکانویعتدون) تاقول باری (فاسقون) پھر آپ نے فرمایا (کلا، واللہ لتامرن بالمعروف ولتنھون عن المنکرولتاخذن علی یدی الظالم ولتاطرنہ علی الحق اطرا وتقرنہ علی الحق قصرا، ہرگز نہیں سبخدا تم ضرورنی کی کا حکم دوگے اور برائی سے ضرورروکوگے۔ ظالم کا ہاتھ پکڑکرا سے ظلم سے بازرکھوگے۔ اور اسے حق کی طرف موڑدوگے۔ نیزا سے حق کی طرف لوٹادوگے) ابوداؤد نے کہا ہمیں خلف بنی ہشام نے انہیں ابوشہاب الحناط نے العلاء بن المسیب سے انہوں نے عمروبن مرہ سے انہوں نے سالم سے انہوں نے ابوعبیدہ سے انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعو ؓ د سے انہوں نے حضور ﷺ سے اس طرح کی روایت بیان کی البتہ اس روایت میں ان الفاظ کا اضافہ بھی کیا (اولیضربن اللہ یقلوب بعضکم علی بعض ثم لیلعنتکم لعنھم، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں پر ایک دوسرے کے ذریعے مہرلگادے گا اور تم پر اسی طرح لعنت بھیجے گا جس طرح ان پر یعنی بنی اسرائیل پر لعنت بھیجی تھی) حضور ﷺ نے یہ بتادیا کہ نہی عن المنکر کی ایک شرط یہ ہے کہ برائی سے روکنے والاخود اس برائی کو براسمجھتا ہو۔ نیز برائی اور معصیت میں گرفتارانسان کے ساتھ نہ اٹھے بیٹھے اور نہ ہی کھائے پیئے۔ حضور ﷺ نے جو کچھ فرمایا ہے دراصل اس قول باری کا بیان ہے۔ اور اس کی وضاحت ہے (تری کثیرامنھم یتولون لذین کفروا، تم ان میں سے بہت سوں کو دیکھو گے کہ وہ کافروں سے دوستی گا نھتے ہیں) یعنی وہ لوگ معاصی کے مرتکبین کے ساتھ اٹھنے بیٹھتے اور کھانے پینے کی وجہ سے خود نہی عن المنکرکے ترک کے مرتکب قرارپائے۔ اس لیے کہ قول باری ہے (کانوالا یتناھون عن منکرفعلوہ) حضور ﷺ نے یہ بتادیا کہ اگر ایک شخص برائی کی زبان سے تردیدکرے لیکن وہ اس برائی کے مرتکبین کے ساتھ اٹھنابیٹھنا اور کھانا پینا بھی جاری رکھے تو اس کی یہ زبانی تردید اس کے لیئے فائد ہ مند نہیں ہوگی۔ اس بارے میں حضور ﷺ سے روایت ہے جسے ہمیں محمد بن ب کرتے بیان کی انہیں ابوداؤد نے انہیں وہب بن بقیہ نے انہیں خالد نے اسماعیل سے انہوں نے قیس سے انہوں نے کہا کہ حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے حمدوثنا کے بعد فرمایا لوگو ! تم اس آیت (لایضرکوم من ضل اذا اھتدیتم ، جب تم ہدایت پر ہوگے تو گمراہ ہونے والوں کی وجہ سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ کی تلاوت کرتے ہو لیکن اسے اس کے درست معنی پر محمول نہیں کرتے ہم نے تو حضور ﷺ کی زبان مبارک سے یہ سنا ہے (ان الناس اذاروا الظالم فلم یاخذواعلی یدیہ یوشک ان یعمھم اللہ بعقاب، لوگ جب ظالم کو ظلم کرتے دیکھیں اور پھر اس کا ہاتھ پکڑکرا سے ظلم کرنے سے نہ روک دیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو عمومی سزادے) ہمیں محمد بن ب کرنے روایت بیان کی انہیں ابوداؤدنے انہیں ابوالربیع سلیمان بن داؤد العتکی نے انہیں ابن المبارک نے عقبہ بن ابلی حکم سے انہیں عمروبن جاریہ الخمی نے انہیں ابوامیہ شعبانی نے کہ میں نے ابوثعلبہ خشنی سے آیت (علیکم انفسکم) کے متعلق سوال کیا انہوں نے جواب میں فرمایا کہ میں نے یہی سوال حضور ﷺ سے کیا تھا۔ جس کے جواب میں آپ نے فرمایا تھا کہ۔ بات ایسی نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو نیکی کا حکم دو اوربرائی سیروکو۔ حتی کہ تم جب یہ دیکھ لو کہ بخل کی پیروی کی جاتی ہے۔ خواہشات کی اتباع کی جاتی ہے دنیا کو ترجیح دی جاتی ہے اور ہر شخص اپنی رائے کے متعلق خوش فہم نظر آتا ہے تو اس وقت تم صرف اپنی ذات کی فکر کرو اورلوگوں کو ان کے حال پرچھوڑدو۔ تمہارے اوپر آنے والے دن صبر کے دن ہوں گے اور اس وقت صبر کرنا انگارے کو مٹھی میں لینے کے مترادف ہوگا ایسے لوگوں میں رہ کر شریعت پر عامل انسان کا اجر پچاس آدمیوں کے اجر کے برابر ہوگا۔ ایک روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ ابوثعلبہ ؓ نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ آیا اس شخص کو اس زمانے کے پچاس آدمیوں کے عمل کے برابراجر ملے گا ؟ آپ نے فرمایا : نہیں بلکہ تمہارے زمانے یعنی صحابہ کرام کے پچاس آدمیوں کے عمل کے برابر اجرملے گا۔ ان ردایات میں اس بات پر دلالت ہورہی ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی دوصورتیں ہیں۔ ایک صورت تو وہ ہے جس میں ایک بدی کو بدل ڈالنا اور ختم کردینا ممکن ہو ایسی صورت میں ہراس شخص پر اس بدی کو مٹا ڈالنا فرض ہے جس کے لیے اسے اپنے ہاتھوں سے ایسا کرنا ممکن ہو۔ ہاتھوں سے اسے مٹا ڈالنے کی بھی کئی شکلیں ہیں ایک شکل تو یہ ہے کہ تلوار کے سوا اس کا ازالہ ممکن نہ ہو یعنی اس بدی کے مرتکب کی جب تک جان ن لے لی جائے اس وقت تک اس کا ازالہ ممکن نہ ہو ایسی صورت میں اسے یہ کرگزرنا چاہیے۔ مثلا کوئی شخص کسی کو اس کی اپنی جان یا کسی اور کی جان کے درپے دیکھے یا اس کا مال ہتھیانے کی فکر میں ہویا کسی عورت سے زنا کے ارتکاب پر کمر بستہ ہو یا اس قسم کی اور کوئی صورت حال ہو اورا سے علم ہو کہ زبان سے روکنے یا ہتھیار کے علا وہ کسی اور چیز سے مقابلہ کرنے پر بھی وہ باز نہیں آئے گا تو ایسی صورت میں وہ اسے قتل کردے۔ اس لیے کہ حضور ﷺ کا فرمان ہے (من راہ منکرا فلیغرہ بیدہ) ایسی صورت میں اگر اس کے لیئے اس بدی کو اپنے ہاتھ سے ہٹادینا ممکن نہ ہو الایہ کہ اس بدی پر اڑے رہنے والے شخص کا خاتمہ کرکے ہی اس بدی سے چھٹکارامل سکتا ہو تو اس پر اس شخص کو ختم کردینا فرض ہوگا۔ اگر اس کا غالب گمان یہ ہو کہ اگر زبان سے یا ہاتھ سے ہتھیاراستعمال کیئے بغیر اسے روکنے سے وہ رک جائے گا تو پھر اس کے لیے اس شخص کو قتل کردینے کا اقدام جائز نہیں ہوگا۔ اگر اس کا گمان غالب یہ ہو کہ ہاتھ یا زبان سے روکنے پر وہ اڑ جائے گا اور مقابلہ پر اترآئے گا اور اس کے بعد اسے ہٹانا اور قتل کا اقدام کیئے بغیر اس بدی کو دور کرنا ممکن نہیں رہے گا تو ایسی صورت میں اس پر لازم ہوگا کہ وہ اسے خبردار کیئے بغیر قتل کرڈالے ۔ ابن رستم نے امام محمد سے نقل کیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کا سامان غصب کرلے تو پھر تمہارے لیے ایسے شخص کو قتل کردینے کی گنجائش ہے تاکہ غصب شدہ سامان اس سے برآمد کرکے اصل مالک کو لوٹادو۔ امام ابوحنیفہ فے چور کے متعلق بھی یہی فرمایا ہے کہ جب وہ سامان چراکربھاگے تو تمھارے لیے گنجائش ہے کہ اس کاپیچھاکرکے اسے پکڑلو اورسامان کی واپسی سے انکارپرا سے قتل کردو۔ امام محمد نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ اگر چورگھر میں نقب لگاکرگھس جائے تو تمہارے لیے اسے قتل کردینے کی گنجائش ہے۔ آپ نے اس شخص کے متعلق جو تمھارے دانت اکھاڑناچاہتا ہو یہ فرمایا کہ اگر جگہ ایسی ہو جہاں تم کسی کو اپنی مدد کے لیے بلانہ سکتے ہو تو پھر اسے قتل کردینا تمہارے لیے جائز ہوگا۔ اس پر قول باری (فقاتلوا التی تبغی حتی تفئی الی امر اللہ) دلالت کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان سے قتال کرنے کا حکم دیا ، اور ان کے خلاف قتال کا اقدام اس وقت ہی ختم ہوگا جب کہ ایسے لوگ سرکشی اور بدی کے ارتکاب سے منہ موڑکر اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئیں گے۔ حضور ﷺ کا یہ فرمان (من رای منکم مکرافلیغیر ہ بیدہ ) بھی اس چیز کو واجب کرتا ہے اس لیے کہ آپ نے بدی کو جس طریقے سے بھی ممکن ہو، دور کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس لیے اگر بدی کے مرتکب کو قتل کیئے بغیر اس کادورکرنا ممکن نہ ہو تو اس پر لازم ہے کہ قتل کا اقدام کرکے اس بدی کو ووکردے۔ ٹیکس اور محصول چنگی وصول کرنے والوں کا خون مباح ہے لوگوں کے مال ومتاع ٹیکس اور محصول چنگی وصول کرنے والوں کے متعلق بھی ہمارا یہی قول ہے کہ ان کا خون مباح ہے اور مسلمانوں پر انہیں قتل کردینا واجب ہے بلکہ ہر شخص کا یہ فرض ہے کہ ان میں سے جو بھی اس کے قابو میں آجائے اسے خبردارکیئے بغیر اور زبانی طورپر روکے بغیر اور زبانی طورپرروکے بغیر، اس کا خاتم کردے اس لیے کہ ایسے لوگوں کی یہ بات سب کو معلوم ہے کہ جب یہ ٹیکس اور محصول وغیرہ وصول کرنے پر کمربستہ ہوجائیں تو باوجودیکہ انہیں اس قسم کی وصولی کی ممانعت کا علم ہے یہ کسی کی بات سننے یا ماننے پر تیار نہیں ہوتے اور جب کوئی انہیں اس قسم کی وصولی کی ممانعت کا علم ہے یہ کسی کی بات سننے یا ماننے پر تیار نہیں ہوتے اور جب کوئی انہیں اس سے یاز رہنے کی دھمکی دے تو اس کے خلاف صف آراء ہوجاتے ہیں حتی کہ ان کی ذات سے وابستہ لوگوں کو قتل کردینا جائز ہے۔ جان کا خطرہ ہو تو صرف قطع تعلق کافی ہے ساتھ ہی ساتھ جس شخص کو یہ خوف ہو کہ اگر وہ ایسے لوگوں کے خلاف قتل کا اقدام کرے گا تو اس کی اپنی جان چلی جائے گی، ایسی صورت میں انہیں ان کے حال پرچھوڑدینا اس کے لیے جائز ہوگا۔ البتہ اس پر ان سے دوررہنا ان کے ساتھ سختی سے پیش آنا اور ان سے قطع تعلق کرنا لازم ہوگا۔ یہی حکم ان لوگوں کے متعلق بھی ہے جو دین وایمان کے لیے تباہ کن معصیت کے مرتکب ہوں۔ اس پر ان کا اصرارہو، اور وہ کھلم کھلا اس کا ارتکاب کرتے ہوں۔ ایسی بدی اور معصیت کو ہر ممکن طریقے سے روکنا لازمی ہے، اگر ہاتھ سے روکنا ناممکن ہو تو اپنی زبان سے روکے ، یہ اس وقت کرے جب اسے یہ امید ہو کہ زبانی طورپر اس کے خلاف آواز اٹھا نے سے یہ لوگ اس برائی سے باز آجائیں گے اور اسے ترک کردیں گے۔ بدی کے خلاف طاقت نہ ہوتوخاموش رہنا مباح تو ہے افضل نہیں لیکن اگر اسے یہ امید نہ ہو، بلکہ غالب گمان یہ ہو کہ جروتوبیخ اور زبانی تنقید کا ان لوگوں پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ جبکہ انہیں خود بھی اس بدمی کے متعلق علم ہے۔ تو ایسی صورت میں اس کے لیئے خاموش رہنے کی گنجائش ہے تاہم ان سے قطع تعلقی اورعلیحد گی ضرور ہے اس لیے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ (فلیغیرہ بلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ) آپ کے اس قول کا مفہوم یہ ہے کہ اگر زبانی جہاد کے باوجود برے لوگ برائی سے بازنہ آئیں تو پھر ایسے لوگوں کو دل سے برا سمجھنا ضروری ہے خواہ یہ اپنے بچاؤ کی شکل میں ہو یا کسی اور صورت میں اسی لیے کہ آپ کا یہ فرمانا کہ اگر ایسا کرنے کی طاقت نہ ہو تو اس کا اس کا مفہوم یہی ہے کہ اگر کہنے سننے اور زبان سے روکنے کے باوجود یہ لوگ باز نہ آئیں اور برائی کو دور کرنا ممکن نہ ہو، تو ایسی حالت میں خاموش ہوجانے کی اباحت ہے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے حکمت سے کام لیاجائے حضرت ابن مسعو ؓ د سے قول باری (علیکم انفسکم لایضرکم من ضل اذا ھتدیتم) کے متعلق مروی ہے آپ نے فرمایا امربالمعروف اور نہی عن المنکر، اسی مقام پر کروجہاں تمہاری بات مان لی جائے اگر بات نہ مانی جائے تو پھر تم صرف اپنی ذات کے ذمہ دارہو، حضرت ابوثعلیہ ؓ خشنی کی روایت بھی ۔۔ جس کا ہم پہلے ذکرکر آئے ہیں۔۔ اس پر دلالت کرتی ہے۔ اس حدیث کا مطلب ۔۔ واللہ اعلم۔۔ یہی ہے کہ جب لوگ تمہاری بات نہ مانیں بلکہ اپنی ہواء وہوس میں لگ کر اپنی رائے پر ڈٹ جائیں تو ایسی صورت میں تمہارے لیے گنجائش ہے کہ تم انہیں چھوڑکر اپنی ذات کی فکر کرو اورا نہیں ان کی حالت پر رہنے دو ۔ حضور ﷺ نے ایسے لوگوں کو زبانی طورپر روکنے سے کنارہ کشی کی اجازت دے دی ۔ صحابہ کرام کے نزدیک علم کی قدر عکرمہ ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ آپ ؓ نے فرمایا : مجھے ان لوگوں کے انجام کا علم نہیں ہوسکاجواصحاب سبت (بنی اسرئیل کا ایک گروہ جو یوم السبت یعنی ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑا کرتا تھا جبکہ اسرائیلی شریعت میں ہفتے کا دن صرف عبادت کے لیے مخصوص تھا اور دنیا دی کاموں کی ممانعت تھی اس خلاف ورزی کی انہیں یہ سزادی گئی کہ ان کی شکلیں مسخ کردی گئیں۔ ) کو ہفتے کے دن کی خلاف ورزی پر ٹوکتے اور انہیں اس کام سے روکتے نہیں تھے۔ یہ سن کر عکرمہ ؓ نے کہا : میں آپ کو بتاتاہوں، آپاگلی آیت (انجیناالذین یتھون عن السوء ہم نے ان لوگوں کو بچالیا جو برائی سے لوگوں کو روکتے تھے) تلاوت کرین، یہ سن کر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ، تم نے ٹھیک کہا پھر آپ نے میری اس بات سے خوش ہوکر ایک جو ڑاپہننے کے لیے عنایت کیا، حضرت ابن عباس ؓ نے اس آیت سے یہ استدلال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ہلاک کردیا جو برائی کرتے تھے یعنی ہفتے کے دن کی حرمت اور تقدس کو پامال کرتے تھے۔ نیز انہیں بھی ہلاک کردیاجوا نہیں اس برائی سے روکتے اور اس پر ٹوکتے نہیں۔ آپ نے عذاب کی لپیٹ میں آنے کے لحاظ سے ایسے لوگوں کو بھی اس برائی کے مرتکبین جیسا قراردیا۔ ہمارے نزدیک اس کی تاویل یہ ہے کہ مؤخرالذکرلوگ اس بدی کے مرتکبین کے اعمال سے راضی تھے۔ اور ان پر گرفت نہیں کرتے تھے اور نہ ہی دل سے انہیں براسمجھتے تھے۔ فعل قبیح پر رضا مندی ارتکاب قبیح کے مساوی ہے حضور ﷺ کے زمانے میں موجودیہودیوں کی طرف اللہ تعالیٰ نے انبیائے سابقین کے قتل کی نسبت ان الفاظ میں کی (قدجاء کم رسل من قبلی بالبینات وبالذی قلتم فلم قتلتموھم) تمہارے پاس مجھ سے پہلے بھی رسول نشانیاں اور (قربانی کو آگ کھانے جانے کا) معجزہ جو تم چاہتے ہو لے کر آئے تھے، پھر تم نے ان کو کیوں قتل کردیا) نیز (فلم تقتلون اتبیاء اللہ من قبل ان کنتم مؤمنین ، تم اس سے پہلے اللہ کے پیغمبروں کو کیوں قتل کردیتے تھے۔ اگر تم سچے ہو) اس کی وجہ یہی ہے کہ حضور ﷺ کے زمانے کے یہوداپنے اسلاف سے جو انبیاء کے قاتل تھے محبت کرنے اور ان سے تعلق برقراررکھنے میں کوئی ہچکچا ہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔ اس بناپرقتل کی نسبت ان کی طرف کردی گئی اگرچہ واقعہ براہ راست وہ انبیائے کرام کے قتل میں ملوث نہیں تھے۔ لیکن صرف اس وجہ سے کہ وہ اپنے اسلاف کے اس فعل قبیح پر رضامند تھے انہیں قاتل گروانا گیا۔ ٹھیک اسی طرح اصحاب سبت میں جو لوگ ہفتے کے دن کے تقد س کو پامال کرتے تھے ان کے ساتھ ان لوگوں کو بھی ملحق کردیا گیا جو اس فعل قبیح سے انہیں روکتے نہیں تھے۔ دراصل وہ ان لوگوں کی اس حرکت پر نہ صرف راضی تھے بلکہ ان سے دوستی اور تعلق باقی رکھ کر گویا عملی طورپرا سے پسند بھی کرتے تھے۔ اگر کوئی شخص اپنے دل سے کسی برائی کو براسمجھتا ہو اور اس میں اتنی طاقت نہ ہو کہ دوسروں کو اس برائی سے روک سکے تو ایسا شخص اس وعید میں میں داخل نہیں ہوگا جو اس برائی کے مرتکبین کو سنائی گئی ہو بلکہ اس کا شماران لوگوں میں ہوگا جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (علیکم انفسکم لایضرکم من ضل اذا اھتدیتم) ہمیں مکرم بن احمد القاضی نے روایت بیان کی انہیں احمد بن عطیہ الکونی نے انہیں الحمانی نے انہوں نے ابن المبارک کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ امام ابوحنیفہ کو جب ابراہیم الصائغ کے قتل کی اطلاع ملی تو آپ اس قدرروئے کہ ہم نے یہ خیال کیا کہ شائد روتے روتے آپ کی وفات ہوجائے گی۔ جب تنہائی ہوئی تو آپ نے فرمایا بخدا، ابراہیم ایک عقلمند انسان تھے مجھے خطرہ تھا کہ ان کے ساتھ یہی کچھ ہوگا۔ میں نے عرض کیا۔ اس قتل کا سبب کیا تھا ؟ آپ نے فرمیاا، وہ میرے پاس آتے اور مجھ سے سوالات کرتے، اللہ کی طاعت میں وہ اپنی جان لگادیتے تھے انتہائی متقی اور پرہیزگار تھے۔ بعض دفعہ میں ان کے سامنے کھانے کی کوئی چیز پیش کرتا تو اس کے متعلق مجھ سے پوچھناشروع کردیتے پھر ایسا ہوتا کہ وہ چیزا نہیں پسند نہ آتی اور اسے وہ ہاتھ بھی نہ لگاتے اور بعض دفعہ پسند آجاتی توکھالیتے ۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے عملی اقدام کے متعلق امام ابوحنیفہ کا مسلک ایک دفعہ مجھ سے، امربالمعروف اور نہی عن المنکرکے متعلق سوالات کیئے پھر بحث ومباحثہ کے بعد ہم اس پر مفتق ہوگئے کہ یہ اللہ کی طرف سے مقررکردہ ایک فرض ہے پھر انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہاتھ بڑھاؤ میں بیعت کرتاہوں۔ ان کے قتل کے بعد اب میری نظروں میں دنیا تاریک ہوگئی ہے۔ میں نے عرض کیا۔ وہ کیسے ؟ فرمایا مجھے انہوں نے اللہ کے ایک حق کی طرف بلایا لیکن میں نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کردیا اور ان سے یہ کہہ دیا کہ اگر، امربالمعروف اورنہی عن المنکر ، کی دعوت اکیلا شخص لے کر اٹھے گا تو قتل کردیاجائے گا اور لوگوں کی ایک بات بھی درست نہیں ہوسکے گی۔ لیکن اگر ا سے نیک اور مخلص ساتھی مل جائیں جن کا سردار کوئی ایسا شخص ہو جس کی دینی حالت پوری طرح قابل اطمینان ہو تو اس صورت میں اس دعوت کے راستے میں رکاوٹ پیدا نہیں ہوسکتی۔ آپ نے مزید فرمایا، ابراہیم جب کبھی میرے پاس آتے تو اس پر نکلنے کے لیے مجھ سے اس قدرشدید تقاضا کرتے جس طرح قرض خواہ ہاتھ دھو کرمقروض سے قرض کی واپسی کا مطالبہ کرتا ہے۔ جب کبھی وہ میرے آتے تو مجھ سے یہی تقاضا کرتے۔ میں ان سے یہی کہتا کہ یہ ایک آدمی کا کام نہیں ہے انبیاء (علیہم السلام) کو بھی جب تک غیبی امداد حاصل نہیں ہوگئی انہیں اس کام کی ہمت نہیں ہوئی۔ اس فرض کی نوعیت دیگر فرائض سے مختلف ہے اس لیے کہ دوسرے فرائض کی ادائیگی ایک شخص خود تنہا کرسکتا ہے اور یہ فرض ایسا ہے کہ جب ایک آدمی تنہا اس کے لیے اٹھ کھڑا ہوگا تو گویا وہ اپنے آپ کو قتل کے لیے پیش کردے گا۔ اس لیے ان کے بارے میں مجھے ہمیشہ یہی خطرہ رہتا کہ وہ اپنے قتل کا سامان خود ہی پیداکر رہے ہیں۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب اس راستے میں ایک آدمی قتل ہوجائے تو کسی اور کو اس کام کے لیے اپنے آپ کو پیش کرنے کا حوصلہ ہی نہیں ہوسکتا۔ اس لیے میں نے انہیں انتظار کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ آخرفرشتوں نے بھی تو اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کیا تھا۔ اتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الد ماء ونحن نسبح بحمد ک ونقد س لک قال انی اعلم ما لاتعلمون، کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس کے انتظام کو بگاڑدے گا اور خونریزی کرے گا۔ آپ کی حمد وثناء کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس توہم کر ہی رہے ہیں۔ فرمایا : میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے) ابراہیم امام ابوحنیفہ کے پاس سے نکل کرمروچلے گئے جہاں ابومسلم خراسانی (عباسی حکومت کی جڑیں مضبوط کرنے والا مشہورجرنیل) مقیم تھا وہاں جاکر اس کے ساتھ سخت کلامی کی جس کی بناپر اس نے انہیں پکڑلیا۔ لیکن خراسان کے فقہاء اور دیندارلوگوں کی کوششوں سے انہیں رہائی مل گئی ابراہیم نے پھر وہی طرزعمل اختیار کیا اور ابومسلم کو اس کی غلط کاریوں پر ٹوکا۔ اس نے انہیں تنبیہ کی۔ لیکن ابراہیم پھر اس کے پاس گئے۔ اور کہنے لگے کہ میری نظر میں نیزے خلاف جہاد سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں جو میں اللہ کی خاطرسرانجام دے سکوں۔ لیکن میرے ہاتھ میں چونکہ کوئی قوت نہیں ہے اس لیے میں تیرے خلاف زبانی جہاد جاری رکھوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے راستہ دکھادیا ہے میں اس کی خاطر تجھ سے ہمیشہ نفرت رکھوں گا۔ ابومسلم یہ باتیں سن کر طیش میں آگیا اور انہیں قتل کرادیا۔ ابوبکر جصاص کا استنباط ابوبکرجصا ص کہتے ہیں کہ سابقہ سطور میں قران وحدیث کی روشنی میں جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ، امربالمعروف اورنہی عن المنکر، کرنا امت پر عائدشدہ ایک فریضہ ہے اور یہ چیز بھی واضح کردی گئی کہ اس کی نوعیت فرض کفایہ کی ہے کہ جب کچھ افراد اس کی ادائیگی کریں تو باقیماندہ لوگوں سے اس کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے، تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ اس کی فرضیت کے لزوم میں نیک اور بد کے درمیان کوئی فرق نہ ہو، اس لیے کہ بعض فرائض کے ترک سے یہ لازم نہیں آتا کہ ایسے انسان سے دوسرے فرائض بھی ساقط ہوجائیں، آپ نہیں دیکھتے کہ ایک اگر نماز ترک کردے تو اس کی بناپر اس سے روزے کی فرضیت ساقط نہیں ہوتی اور دوسری تمام عبادات بھی اس پر لازم رہتی ہیں ٹھیک اسی طرح جو شخص تمام نیکیاں نہیں کرتا اور تمام برائیوں سے باز نہیں رہتا، اس سے، امربالمعروف اور نہی عن المنکر، کی فرضیت ساقط نہیں ہوتی۔ طلحہ ؓ بن عمرونے عطاء ؓ بن ابی رباح سے انہوں نے حضرت ابوہریر ؓ ہ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ کے چند صحابہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکرعرض کرنے لگے کہ حضور کیا ہمارے لیے، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی گنجائش اس وقت پیدا ہوگی جب ہم تمام نیکیاں کر گزریں گے اور تمام برائیوں سے باز آجائیں گی ؟ جواب میں آپ نے فرمایا (مروابالمعروف وان لم تعملوابہ کلہ وانھوا عن المنکروان لم تنھواعنہ کلہ، اگرچہ تم تمام نیکیوں پر خود عمل پیرانہ بھی ہو پھر بھی امربالمعروف کرواسی طرح اگرچہ تم تمام برائیوں سے خود باز نہ بھی آئے ہو پھر بھی لوگوں کو برائیوں سے روکو) حضور ﷺ نے بعض فرائض میں کوتاہی کے باوجود امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ادائیگی کے لزوم کے (رح) لحاظ سے دوسرے فرائض کے برابر قراردیا۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے متعلق جاہلانہ تصور علمائے امت اور فقہائے ملت میں سے خواہ ان کا تعلق سلف سے ہو یا خلف سے کسی نے بھی امربالمعروف اور نہی عن المنکر، کے وجوب کا انکار نہیں کیا۔ البتہ نام نہاداصحاب حدیث کا ایک جاہل اور علم سے تہی دامن گروہ مسلمانوں کے کسی باغی گروہ کے خلاف جنگی اقدامات کا قائل نہیں ہے۔ یعنی وہ ہتھیار کے سہارے، امربالمعروف اور نہی عن المنکر، کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ اس کی نظروں میں اس کام کے لیے اگر ہتھیاراٹھا نے اور باغی گروہ سے قتال کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو یہ تبلیغ نہیں ہوگی بلکہ یہ ایک فتنہ ہوگا، حالانکہ ان کے کافوں میں اس قول باری (فقاتلوا التی تبغی حتی تفئی الی امر اللہ) کی آوازپہنچ چکی ہے اور ان کے سامنے اس آیت کے الفاظ کا مقتضی بھی واضح ہے اور یہ مقتضیٰ باغی گروہ کے ساتھ قتال بالسیف کے وجوب کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ اس گروہ کا یہ زعم بھی باطل ہے کہ سلطان یا صاحب اقتداراگرظلم وجورکرے نیز بےگناہوں کے خون سے ہاتھ رنگے تو اس کے خلاف لب کشائی نہ کی جائے، البتہ سلطان کے علاوہ کوئی اور شخص ایسی حرکتیں کرے تو اس کے خلاف صرف زبانی یا ہاتھ سے کارروائی کی جائے ہتھیارپھر بھی استعمال نہ کیے جائیں۔ ان جاہلوں نے اپنے اس طرزعمل سے امت کو اس سے زیادہ نقصان پہنچایاجتنا دشمنوں کے ہاتھوں سے اسے پہنچ سکتا تھا۔ اس لیے کہ انہوںنی اپنے اس زعم باطل کا پرچارکرکے مسلمانوں کو باغی گروہوں کے خلاف ہتھیاراٹھا نے اور سلطان یابرسراقتدار شخص کے ظلم وجور کے خلاف لب کشائی کرنے سے روک دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فاسقوں اورفاجروں بلکہ محبوسیوں اور دشمنان اسلام کو زورپکڑنے اور حکومت پر قبضہ جمانے کا موقعہ مل گیا جس سے بلاد اسلامیہ کی سرحدیں غیر محفوظ ہوگئیں، ظلم وستم کا بازارگرم ہوگیا ، شہراجڑگئے، علاقے تباہ ہوگئے اور دین ودنیا دونوں ہاتھ سے گئے دوسری طرف فکر ی اتنشار کے نتیجے میں زندیقیت ، بےتباہ ہوگئے اور دین ودنیا دونوں ہاتھ سے گئے دوسری طرف فکر ی اتنشار کے نتیجے میں زندہ لقیت بےدینی اور تشیع کو ہواملی نہ صرف یہ بلکہ ثنویت ، مزوکیت اور خرمیت جیسے باطل خیالات عام ہونے لگے یہ تمام خرایباں دراصل ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر، کے فریضہ کو ترک کرنے نیز ظالم سلطان کے خلافآواز بلند نہ کرنے نہ کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوئیں۔ دو خداؤں یعنی یزدان وہرمن کا نظر یہ جس کے مطابق یزدان خالق خیر اور اہرمن خالق شر ہے۔ فرقہ خرمیہ دراصل مجوسیوں کا طائفہ تھا جو تناسخ کا قائل تھا۔ ان کے ہاں محرمات کی اباحت تھی ۔ یعنی ایک انسان اپنی ماں بہن وغیرہ سے نکاح کرسکتا تھا۔ اس فرقے کی نسبت ایران کے ایک گاؤں خرمہ کی طرف ہے، مزدکیت بھی ان ہی نظریات کی حامل تھی البتہ اسکاوجود فرقہ خرمیہ سے پہلے ہوا تھا۔ قرآن وسنت کی روشنی میں جاہلانہ تصورد ہمیں محمد بن ب کرنے روایت بیان کی انہیں ابوداؤدنے ، انہیں محمد بن عبادالوواسطی نے، انہیں یزید بن ہاون نے انہیں اسرائیل نے انہیں محمد بن حجادہ نے عطیہ عوفی سے انہوں نے ابوسعید خدری سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (افضل الجھاد کلمہ عدل عند سلطان جائراوامیرجائر۔ ظالم وجابرسلطان یاحاکم کے سامنے کلمہ حق وانصاف بلند کرنا افضل ترین جہاد ہے۔ ) ہمیں محمد بن عمر نے روایت بیان کی انہیں احمد بن محمد بن عمروبن مصعب المروزی نے انہوں نے ابوعمارہ سے انہوں نے الحسن بن رشید سے ، انہوں نے امام ابوحنیفہ سے، آپ نے فرمایا، میں نے ابراہیم صائغ کو عکرمہ سے ایک روایت بیان کی جو انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی تھی کہ حضور ﷺ نے فرمایا (سیدالشھداء حمزہ بن عبدالمطلب ورجل قام الی امام جائرفامرہ ونھا ، فقتلہ، شہیدوں کے سروارحمزہ ؓ بن عبدالمطلب ہیں نیزوہ شخص بھی ہے جو کسی ظالم حاکم کے پاس جاکرامربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے ہوئے اس کے ہاتھوں شہید ہوجائے) قول باری ہے (وما اللہ یرید ظلما للعباد، اور اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ بندوں پر ظلم ہو) یہ قول باری (من کل الوجوہ ارادہ ظلم کی نفی کا متقاضی ہے۔ یعنی نہ تو اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی وہ یہ چاہتا ہے کہ بندے ایک دوسرے پر ظلم کریں اس لیے کہ ظلم کی یہ دونوں صورتیں قبیح ہونے کے لحاظ سے یکساں ہیں۔ کیونکہ اگر یہ جائز ہوتا کہ بندوں کا ایک دوسرے پر ظلم کرنا اللہ کے ارادے میں ہے تو اس کی طرف سے بندوں پر ارادہ ظلم بھی جائز ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایسے دو شخصوں کے درمیان عقلی لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہوتا جن میں سے ایک غیر کی خاطر اپنے اوپر اور دوسرا غیر کی خاطر کسی اور پر ظلم کرنے کا ارادہ کرے۔ فعل قبیح کے ارتکاب کے لحاظ سے دونوں کی حیثیت یکساں ہوتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اور بندوں دونوں سے ارادہ ظلم کی نفی ہونی چاہیے۔
Top