Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 104
وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَلْتَكُنْ
: اور چاہیے رہے
مِّنْكُمْ
: تم سے (میں)
اُمَّةٌ
: ایک جماعت
يَّدْعُوْنَ
: وہ بلائے
اِلَى
: طرف
الْخَيْرِ
: بھلائی
وَيَاْمُرُوْنَ
: اور وہ حکم دے
بِالْمَعْرُوْفِ
: اچھے کاموں کا
وَيَنْهَوْنَ
: اور وہ روکے
عَنِ الْمُنْكَرِ
: برائی سے
وَاُولٰٓئِكَ
: اور یہی لوگ
ھُمُ
: وہ
الْمُفْلِحُوْنَ
: کامیاب ہونے والے
اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں
امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی فرضیت قول باری ہے (ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیرویامرون بالمعروف وینھون عن المنکر، تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہیئے جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلاتا رہے اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا رہے) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت دو باتوں پر مشتمل ہے اول امربالمعروف اور نہی عن المنکرکاوجوب۔ دوم یہ فرض کفایہ ہے۔ ہر شخص پر فرض عین نہیں۔ جب ایک شخص اس فرض کا داداکردے گا تو دوسرے پر اس کی فرضیت باقی نہیں رہے گی اس لیے کہ قول باری (ولتکن منکم امۃ) اس کی حقیقت کا تقاضا کہ بعض پر فرض اور دوسرے بعض پر نہ ہو۔ جس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ فرض کفایہ ہے کہ جب کچھ لوگ اسے داداکر لیں گے توباقیوں سے اس کی فرضیت ساقط ہوجائے گی۔ بعض لوگوں کا یہ قول ہے کہ یہ فرض عین ہے یعنی اس کی فرضیت ہر شخص پر عائد ہوتی ہے۔ یہ لوگ اس قول باری (ولتکن منکم امۃ) کے اندازبیان کو مجاز اخصوص پر محمول کرتے ہیں (لیکن حکم میں عموم ہے جس طرح کہ یہ قول باری ہے (یغفرلکم من ذنوبکم، اللہ تعالیٰ تمہارے بعض گناہ بخش دے گا) اس کے معنی ہیں کہ تمہارے سب گناہ بخش دے گا۔ فرض کفایہ کے قول کی صحت پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ جب کچھ لوگ امربالمعروف اور رنہی عن المنکر کرلیں گے تو باقی ماندہ لوگوں سے اس کی فرضیت ساقط ہوجائے گی۔ جس طرح کہ جہاد، مردوں کی تغسیل وتکفین اور جنازے کی نماز اور ان کی تدفین کا مسئلہ ہے۔ اگر یہ فرض کفایہ نہ ہوتا تو بعض کی طرف سے اس کی ادائیگی کی بناپردوسروں سے اس کی فرضیت ہرگز ساقط نہ ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا کئی اور مقامات پر بھی ذکر فرمایا ہے۔ چناچہ ارشاد ہے (کنتم خیرامۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر، اب دنیا میں تم وہ بہترین گروہ ہوج سے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیئے دنیا میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بدی سے روکتے ہو) اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان (علیہ السلام) کے الفاظ میں فرمایا (یا بنی اقم الصلوۃ وامربالمعروف وانہ عن المنکرواصبرعلی مااصابک، اے میرے بیٹے ! قائم کرنی کی کا حکم دے اور برائی سے روک اور اس سلسلے میں) جو تکلیفیں تجھے اٹھانی پڑیں انہیں برداشت کر) نیز قول باری ہے (وان طائفتان من المؤمنین اقتتلوافاصلحوابینھما فان یغت احداھما علی الاخری فقاتلوا التی تبغی حتی تفیء الی امر اللہ، اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں جنگ کرنے لگ جائیں تو ان کے درمیان اصلاح کرادو۔ پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو اس سے لڑوجوزیادتی کررہا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرلے۔ ) نیز فرمایا (یعن الذین کفروامن بنی اسرائیل علی لسان داؤد وعیسیٰ بن مریم ذلک بماعصواوکانوایعتدون۔ کانوالا یتناھون عن منکر فعلوہ لبئس ماکانوایفعلون، بنی اسرائیل میں سے جنہوں نے کفراختیار کیا۔ ان پر داود اورعیسیٰ بن مریم کی زبان سے لعنت ہوء۔ یہ اس لیئے کہ انہوں نے نافرمانیاں کیں اور وہ حد سے آگے نکل نکل جاتے تھے۔ جو برائی انہوں نے اختیارکررکھی تھی اس سے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے۔ جو کچھ وہ کررہے تھے وہ بہت ہی برا تھا۔ ) یہ آیتیں اور ان جیسی دوسری آیتیں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے ایجاب کا تقاضا کرتی ہیں۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے کئی مراحل ہیں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے کئی مراحل ہیں۔ اول کسی برائی کو ہاتھ سے یعنی اگر ممکن ہو تو بزور طاقت بدل ڈالنا اور روک دینا۔ اگر یہ ممکن نہ ہو اور اسے اس برائی کو بزور روکنے میں اپنی جان کا خوف ہو تو اس پرا سے اپنی زبان سے روکنا اور اس کے خلاف بولنا لازم ہے۔ اگر درج بالاوجہ کی بناپریہ بھی مشکل ہو تو پھر اس برائی کو دل سے برا سمجھنا اس پر لازم ہوگا۔ اس سلسلے میں ہمیں عبداللہ بن جعفربن احمد بن فارس نے روایت بیان کی انہیں یونس بن حبیب نے انہیں ابوداؤ دطیالسی نے انہیں شعبہ نے انہیں قیس بن مسلم نے کہ میں نے طارق بن شہاب کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ مروان بن الحکم نے نماز پر خطبے کو مقدم کردیا۔ ایک شخص نے کھڑے ہوکرکہا امیر ! تم نے سنت کے خلاف عمل کیا خطبہ نما ز کے بعد ہوا کرتا تھا۔ مروان نے سن کر کہا اس بات کو چھوڑو اے فلاں کے باپ شعیہ کہتے ہیں کہ مروان اونچی آوازوالا تھا اس کی یہ آوازسن کر ابوسعید خدری ؓ اٹھے اور فرمایا مروان سے یہ بات کہنے والا کون شخص ہے، اس نے اپنا فرض پوراکردیا ہے۔ ہم سے حضور ﷺ نے فرمایا تھا (من رای منکم منکوافلینکرہ بیدہ فان لم یستطع فلینکرہ بلسانہ فان لم یستطع فلینکرہ بقلبہ وذلک ضعف الایمان، تم میں سے جو شخص کسی برائی کو دیکھے توا سے اپنے ہاتھوں سے ہٹادے اگر اس میں اس کی طاقت نہ ہو تو اس کے خلاف اپنی زبان استعمال کرلے اگر ا سے اس کی بھی طاقت نہ ہوتوا سے اپنے دل سے براجانے اور یہ ایمان کا کمزورترین درجہ ہے۔ ہمیں محمد بن بکربصری نے روایت بیان کی انہیں ابوداؤدنے انہیں محمد بن علاء نے انہیں ابو معاویہ نے اعمش سے انہوں نے اسماعیل بن رجاء سے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے ابو سعید اور قیس بن مسلم سے انہوں نے طارق بن شہاب سے انہوں نے ابوسعید خدر ؓ ی سے کہ میں نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ (من رای منکم منکراواستطاع ان یغیرہ بیدہ فلیغیرہ بیدہ ، فان لم یستطع فبقلبہ وذاک اضعف الایمان، تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے اور اسے اپنے ہاتھ سے ہٹاسکتا ہو تو اسے اپنے ہاتھوں سے ہٹادے اگر ا سے اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے یہ کام کرے۔ اگر اس کی بھی اس میں طاقت نہ ہو تو اسے اپنے دل سے براس مجھے اور یہ ایمان کا کمزورترین درجہ ہے۔ ) برائی کو روکنا حالا و امکان کے مطابق ہے حضور ﷺ نے یہ بتادیا کہ منکر اوربرائی کو روکنا حالات و امکان کے مطابق ان تین مرحلوں میں ہوتا ہے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر دہ اپنے ہاتھوں سے منکر یعنی برائی کو ہٹانہ سکے تو پھر اپنی زبان سے ہٹائے یعنی اس کے خلاف زبانی جہاد کرے۔ اگر اس کے لیئے یہ ممکن نہ ہو تو اس پر اس سے زیادہ اور کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ وہ دل سے اسے براس مجھے۔ برائی سے نہ روکنے والا اس کی زد میں آسکتا ہے ہمیں عبداللہ بن جعفرنے روایت بیان کی انہیں یونس بن حبیب نے انہیں ابوداؤدنے انہیں شعبہ نے ابواسحاق سے انہوں نے عبداللہ بن جریرالنجلی سے انہوں نے والد حضرت جریرالجبلی ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (مامن قوم یعمل بینھم بالمعامی ھم اکثرواعزممن یعملہ ثم لم یغیروا الاعمھم اللہ منہ یعقاب، جو قوم ایسی ہو کہ اس کے اندر بےڈھرک معاصی کا ارتکاب ہورہاہو۔ اس میں ایسے لوگ موجودہوں جوان مرتکبین سے بڑھ کر اثردرسوخ دالے ہوں اور ان کی عددی اکثیریت بھی ہو اس کے باوجود وہ ان معاصی کو ختم نہ کرائیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ایسی سزانازل کرے گا جس کی لپیٹ میں سب آجائیں گے) ہمیں محمد بن ب کرنے روایت بیان کی انہیں ابوداؤد نے انہیں عبداللہ بن محمد النفیلی نے انہیں یونس بن راشد نے علی بن بدیمہ سے انہوں نے ابوعبیدہ سے انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعو ؓ د سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ (ان اول مادخل النقص علی بنی اسرائیل کان الرجل یلقی الرجل فیقول یاھداتق اللہ ودع ماتصنع فانہ لا یحل لک ثم یلقاہ من الغد فلا یمنعہ ذلک ان یکون اکیدہ وشریبہ وقعیدہ فلما فعلواذلک ضرب اللہ تعالیٰ قلوب بعضھم ببعض، بنی اسرائیل میں سب سے پہلے جو خرابی پیداہوئی اس کی صورت یہ تھی کہ ایک شخص دوسرے شخص سے ملتا اور اسے اس کی معاصی پر سرزنش کرتے ہوئے کہتا کہ اے فلاں ! اللہ سے ڈر اوریہ کام چھوڑکیون کہ یہ تیرے لیئے حلال نہیں ہے پھر وہی نصیحت کرنے والا دوسرے روز اس سے ملتا لیکن اس کی خطاکاری اور معاصی اسے اس کے اٹھتے بیٹھنے اور کھانے پینے سے نہ روکتے جب بنی اسرائیل نے یہ طرز عمل اختیارکیاتو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر ایک دوسرے کے ذریعے مہرلگادی۔ ) برائیوں سے صرف نظرلعنت خداوندی کی موجب ہے پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی (لعن الذین کفروامن بنی اسرئیل علی لسان داؤدوعیسیٰ بن مریم ذلک بماعصواوکانویعتدون) تاقول باری (فاسقون) پھر آپ نے فرمایا (کلا، واللہ لتامرن بالمعروف ولتنھون عن المنکرولتاخذن علی یدی الظالم ولتاطرنہ علی الحق اطرا وتقرنہ علی الحق قصرا، ہرگز نہیں سبخدا تم ضرورنی کی کا حکم دوگے اور برائی سے ضرورروکوگے۔ ظالم کا ہاتھ پکڑکرا سے ظلم سے بازرکھوگے۔ اور اسے حق کی طرف موڑدوگے۔ نیزا سے حق کی طرف لوٹادوگے) ابوداؤد نے کہا ہمیں خلف بنی ہشام نے انہیں ابوشہاب الحناط نے العلاء بن المسیب سے انہوں نے عمروبن مرہ سے انہوں نے سالم سے انہوں نے ابوعبیدہ سے انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعو ؓ د سے انہوں نے حضور ﷺ سے اس طرح کی روایت بیان کی البتہ اس روایت میں ان الفاظ کا اضافہ بھی کیا (اولیضربن اللہ یقلوب بعضکم علی بعض ثم لیلعنتکم لعنھم، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں پر ایک دوسرے کے ذریعے مہرلگادے گا اور تم پر اسی طرح لعنت بھیجے گا جس طرح ان پر یعنی بنی اسرائیل پر لعنت بھیجی تھی) حضور ﷺ نے یہ بتادیا کہ نہی عن المنکر کی ایک شرط یہ ہے کہ برائی سے روکنے والاخود اس برائی کو براسمجھتا ہو۔ نیز برائی اور معصیت میں گرفتارانسان کے ساتھ نہ اٹھے بیٹھے اور نہ ہی کھائے پیئے۔ حضور ﷺ نے جو کچھ فرمایا ہے دراصل اس قول باری کا بیان ہے۔ اور اس کی وضاحت ہے (تری کثیرامنھم یتولون لذین کفروا، تم ان میں سے بہت سوں کو دیکھو گے کہ وہ کافروں سے دوستی گا نھتے ہیں) یعنی وہ لوگ معاصی کے مرتکبین کے ساتھ اٹھنے بیٹھتے اور کھانے پینے کی وجہ سے خود نہی عن المنکرکے ترک کے مرتکب قرارپائے۔ اس لیے کہ قول باری ہے (کانوالا یتناھون عن منکرفعلوہ) حضور ﷺ نے یہ بتادیا کہ اگر ایک شخص برائی کی زبان سے تردیدکرے لیکن وہ اس برائی کے مرتکبین کے ساتھ اٹھنابیٹھنا اور کھانا پینا بھی جاری رکھے تو اس کی یہ زبانی تردید اس کے لیئے فائد ہ مند نہیں ہوگی۔ اس بارے میں حضور ﷺ سے روایت ہے جسے ہمیں محمد بن ب کرتے بیان کی انہیں ابوداؤد نے انہیں وہب بن بقیہ نے انہیں خالد نے اسماعیل سے انہوں نے قیس سے انہوں نے کہا کہ حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے حمدوثنا کے بعد فرمایا لوگو ! تم اس آیت (لایضرکوم من ضل اذا اھتدیتم ، جب تم ہدایت پر ہوگے تو گمراہ ہونے والوں کی وجہ سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ کی تلاوت کرتے ہو لیکن اسے اس کے درست معنی پر محمول نہیں کرتے ہم نے تو حضور ﷺ کی زبان مبارک سے یہ سنا ہے (ان الناس اذاروا الظالم فلم یاخذواعلی یدیہ یوشک ان یعمھم اللہ بعقاب، لوگ جب ظالم کو ظلم کرتے دیکھیں اور پھر اس کا ہاتھ پکڑکرا سے ظلم کرنے سے نہ روک دیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو عمومی سزادے) ہمیں محمد بن ب کرنے روایت بیان کی انہیں ابوداؤدنے انہیں ابوالربیع سلیمان بن داؤد العتکی نے انہیں ابن المبارک نے عقبہ بن ابلی حکم سے انہیں عمروبن جاریہ الخمی نے انہیں ابوامیہ شعبانی نے کہ میں نے ابوثعلبہ خشنی سے آیت (علیکم انفسکم) کے متعلق سوال کیا انہوں نے جواب میں فرمایا کہ میں نے یہی سوال حضور ﷺ سے کیا تھا۔ جس کے جواب میں آپ نے فرمایا تھا کہ۔ بات ایسی نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو نیکی کا حکم دو اوربرائی سیروکو۔ حتی کہ تم جب یہ دیکھ لو کہ بخل کی پیروی کی جاتی ہے۔ خواہشات کی اتباع کی جاتی ہے دنیا کو ترجیح دی جاتی ہے اور ہر شخص اپنی رائے کے متعلق خوش فہم نظر آتا ہے تو اس وقت تم صرف اپنی ذات کی فکر کرو اورلوگوں کو ان کے حال پرچھوڑدو۔ تمہارے اوپر آنے والے دن صبر کے دن ہوں گے اور اس وقت صبر کرنا انگارے کو مٹھی میں لینے کے مترادف ہوگا ایسے لوگوں میں رہ کر شریعت پر عامل انسان کا اجر پچاس آدمیوں کے اجر کے برابر ہوگا۔ ایک روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ ابوثعلبہ ؓ نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ آیا اس شخص کو اس زمانے کے پچاس آدمیوں کے عمل کے برابراجر ملے گا ؟ آپ نے فرمایا : نہیں بلکہ تمہارے زمانے یعنی صحابہ کرام کے پچاس آدمیوں کے عمل کے برابر اجرملے گا۔ ان ردایات میں اس بات پر دلالت ہورہی ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی دوصورتیں ہیں۔ ایک صورت تو وہ ہے جس میں ایک بدی کو بدل ڈالنا اور ختم کردینا ممکن ہو ایسی صورت میں ہراس شخص پر اس بدی کو مٹا ڈالنا فرض ہے جس کے لیے اسے اپنے ہاتھوں سے ایسا کرنا ممکن ہو۔ ہاتھوں سے اسے مٹا ڈالنے کی بھی کئی شکلیں ہیں ایک شکل تو یہ ہے کہ تلوار کے سوا اس کا ازالہ ممکن نہ ہو یعنی اس بدی کے مرتکب کی جب تک جان ن لے لی جائے اس وقت تک اس کا ازالہ ممکن نہ ہو ایسی صورت میں اسے یہ کرگزرنا چاہیے۔ مثلا کوئی شخص کسی کو اس کی اپنی جان یا کسی اور کی جان کے درپے دیکھے یا اس کا مال ہتھیانے کی فکر میں ہویا کسی عورت سے زنا کے ارتکاب پر کمر بستہ ہو یا اس قسم کی اور کوئی صورت حال ہو اورا سے علم ہو کہ زبان سے روکنے یا ہتھیار کے علا وہ کسی اور چیز سے مقابلہ کرنے پر بھی وہ باز نہیں آئے گا تو ایسی صورت میں وہ اسے قتل کردے۔ اس لیے کہ حضور ﷺ کا فرمان ہے (من راہ منکرا فلیغرہ بیدہ) ایسی صورت میں اگر اس کے لیئے اس بدی کو اپنے ہاتھ سے ہٹادینا ممکن نہ ہو الایہ کہ اس بدی پر اڑے رہنے والے شخص کا خاتمہ کرکے ہی اس بدی سے چھٹکارامل سکتا ہو تو اس پر اس شخص کو ختم کردینا فرض ہوگا۔ اگر اس کا غالب گمان یہ ہو کہ اگر زبان سے یا ہاتھ سے ہتھیاراستعمال کیئے بغیر اسے روکنے سے وہ رک جائے گا تو پھر اس کے لیے اس شخص کو قتل کردینے کا اقدام جائز نہیں ہوگا۔ اگر اس کا گمان غالب یہ ہو کہ ہاتھ یا زبان سے روکنے پر وہ اڑ جائے گا اور مقابلہ پر اترآئے گا اور اس کے بعد اسے ہٹانا اور قتل کا اقدام کیئے بغیر اس بدی کو دور کرنا ممکن نہیں رہے گا تو ایسی صورت میں اس پر لازم ہوگا کہ وہ اسے خبردار کیئے بغیر قتل کرڈالے ۔ ابن رستم نے امام محمد سے نقل کیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کا سامان غصب کرلے تو پھر تمہارے لیے ایسے شخص کو قتل کردینے کی گنجائش ہے تاکہ غصب شدہ سامان اس سے برآمد کرکے اصل مالک کو لوٹادو۔ امام ابوحنیفہ فے چور کے متعلق بھی یہی فرمایا ہے کہ جب وہ سامان چراکربھاگے تو تمھارے لیے گنجائش ہے کہ اس کاپیچھاکرکے اسے پکڑلو اورسامان کی واپسی سے انکارپرا سے قتل کردو۔ امام محمد نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ اگر چورگھر میں نقب لگاکرگھس جائے تو تمہارے لیے اسے قتل کردینے کی گنجائش ہے۔ آپ نے اس شخص کے متعلق جو تمھارے دانت اکھاڑناچاہتا ہو یہ فرمایا کہ اگر جگہ ایسی ہو جہاں تم کسی کو اپنی مدد کے لیے بلانہ سکتے ہو تو پھر اسے قتل کردینا تمہارے لیے جائز ہوگا۔ اس پر قول باری (فقاتلوا التی تبغی حتی تفئی الی امر اللہ) دلالت کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان سے قتال کرنے کا حکم دیا ، اور ان کے خلاف قتال کا اقدام اس وقت ہی ختم ہوگا جب کہ ایسے لوگ سرکشی اور بدی کے ارتکاب سے منہ موڑکر اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئیں گے۔ حضور ﷺ کا یہ فرمان (من رای منکم مکرافلیغیر ہ بیدہ ) بھی اس چیز کو واجب کرتا ہے اس لیے کہ آپ نے بدی کو جس طریقے سے بھی ممکن ہو، دور کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس لیے اگر بدی کے مرتکب کو قتل کیئے بغیر اس کادورکرنا ممکن نہ ہو تو اس پر لازم ہے کہ قتل کا اقدام کرکے اس بدی کو ووکردے۔ ٹیکس اور محصول چنگی وصول کرنے والوں کا خون مباح ہے لوگوں کے مال ومتاع ٹیکس اور محصول چنگی وصول کرنے والوں کے متعلق بھی ہمارا یہی قول ہے کہ ان کا خون مباح ہے اور مسلمانوں پر انہیں قتل کردینا واجب ہے بلکہ ہر شخص کا یہ فرض ہے کہ ان میں سے جو بھی اس کے قابو میں آجائے اسے خبردارکیئے بغیر اور زبانی طورپر روکے بغیر اور زبانی طورپرروکے بغیر، اس کا خاتم کردے اس لیے کہ ایسے لوگوں کی یہ بات سب کو معلوم ہے کہ جب یہ ٹیکس اور محصول وغیرہ وصول کرنے پر کمربستہ ہوجائیں تو باوجودیکہ انہیں اس قسم کی وصولی کی ممانعت کا علم ہے یہ کسی کی بات سننے یا ماننے پر تیار نہیں ہوتے اور جب کوئی انہیں اس قسم کی وصولی کی ممانعت کا علم ہے یہ کسی کی بات سننے یا ماننے پر تیار نہیں ہوتے اور جب کوئی انہیں اس سے یاز رہنے کی دھمکی دے تو اس کے خلاف صف آراء ہوجاتے ہیں حتی کہ ان کی ذات سے وابستہ لوگوں کو قتل کردینا جائز ہے۔ جان کا خطرہ ہو تو صرف قطع تعلق کافی ہے ساتھ ہی ساتھ جس شخص کو یہ خوف ہو کہ اگر وہ ایسے لوگوں کے خلاف قتل کا اقدام کرے گا تو اس کی اپنی جان چلی جائے گی، ایسی صورت میں انہیں ان کے حال پرچھوڑدینا اس کے لیے جائز ہوگا۔ البتہ اس پر ان سے دوررہنا ان کے ساتھ سختی سے پیش آنا اور ان سے قطع تعلق کرنا لازم ہوگا۔ یہی حکم ان لوگوں کے متعلق بھی ہے جو دین وایمان کے لیے تباہ کن معصیت کے مرتکب ہوں۔ اس پر ان کا اصرارہو، اور وہ کھلم کھلا اس کا ارتکاب کرتے ہوں۔ ایسی بدی اور معصیت کو ہر ممکن طریقے سے روکنا لازمی ہے، اگر ہاتھ سے روکنا ناممکن ہو تو اپنی زبان سے روکے ، یہ اس وقت کرے جب اسے یہ امید ہو کہ زبانی طورپر اس کے خلاف آواز اٹھا نے سے یہ لوگ اس برائی سے باز آجائیں گے اور اسے ترک کردیں گے۔ بدی کے خلاف طاقت نہ ہوتوخاموش رہنا مباح تو ہے افضل نہیں لیکن اگر اسے یہ امید نہ ہو، بلکہ غالب گمان یہ ہو کہ جروتوبیخ اور زبانی تنقید کا ان لوگوں پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ جبکہ انہیں خود بھی اس بدمی کے متعلق علم ہے۔ تو ایسی صورت میں اس کے لیئے خاموش رہنے کی گنجائش ہے تاہم ان سے قطع تعلقی اورعلیحد گی ضرور ہے اس لیے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ (فلیغیرہ بلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ) آپ کے اس قول کا مفہوم یہ ہے کہ اگر زبانی جہاد کے باوجود برے لوگ برائی سے بازنہ آئیں تو پھر ایسے لوگوں کو دل سے برا سمجھنا ضروری ہے خواہ یہ اپنے بچاؤ کی شکل میں ہو یا کسی اور صورت میں اسی لیے کہ آپ کا یہ فرمانا کہ اگر ایسا کرنے کی طاقت نہ ہو تو اس کا اس کا مفہوم یہی ہے کہ اگر کہنے سننے اور زبان سے روکنے کے باوجود یہ لوگ باز نہ آئیں اور برائی کو دور کرنا ممکن نہ ہو، تو ایسی حالت میں خاموش ہوجانے کی اباحت ہے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے حکمت سے کام لیاجائے حضرت ابن مسعو ؓ د سے قول باری (علیکم انفسکم لایضرکم من ضل اذا ھتدیتم) کے متعلق مروی ہے آپ نے فرمایا امربالمعروف اور نہی عن المنکر، اسی مقام پر کروجہاں تمہاری بات مان لی جائے اگر بات نہ مانی جائے تو پھر تم صرف اپنی ذات کے ذمہ دارہو، حضرت ابوثعلیہ ؓ خشنی کی روایت بھی ۔۔ جس کا ہم پہلے ذکرکر آئے ہیں۔۔ اس پر دلالت کرتی ہے۔ اس حدیث کا مطلب ۔۔ واللہ اعلم۔۔ یہی ہے کہ جب لوگ تمہاری بات نہ مانیں بلکہ اپنی ہواء وہوس میں لگ کر اپنی رائے پر ڈٹ جائیں تو ایسی صورت میں تمہارے لیے گنجائش ہے کہ تم انہیں چھوڑکر اپنی ذات کی فکر کرو اورا نہیں ان کی حالت پر رہنے دو ۔ حضور ﷺ نے ایسے لوگوں کو زبانی طورپر روکنے سے کنارہ کشی کی اجازت دے دی ۔ صحابہ کرام کے نزدیک علم کی قدر عکرمہ ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ آپ ؓ نے فرمایا : مجھے ان لوگوں کے انجام کا علم نہیں ہوسکاجواصحاب سبت (بنی اسرئیل کا ایک گروہ جو یوم السبت یعنی ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑا کرتا تھا جبکہ اسرائیلی شریعت میں ہفتے کا دن صرف عبادت کے لیے مخصوص تھا اور دنیا دی کاموں کی ممانعت تھی اس خلاف ورزی کی انہیں یہ سزادی گئی کہ ان کی شکلیں مسخ کردی گئیں۔ ) کو ہفتے کے دن کی خلاف ورزی پر ٹوکتے اور انہیں اس کام سے روکتے نہیں تھے۔ یہ سن کر عکرمہ ؓ نے کہا : میں آپ کو بتاتاہوں، آپاگلی آیت (انجیناالذین یتھون عن السوء ہم نے ان لوگوں کو بچالیا جو برائی سے لوگوں کو روکتے تھے) تلاوت کرین، یہ سن کر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ، تم نے ٹھیک کہا پھر آپ نے میری اس بات سے خوش ہوکر ایک جو ڑاپہننے کے لیے عنایت کیا، حضرت ابن عباس ؓ نے اس آیت سے یہ استدلال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ہلاک کردیا جو برائی کرتے تھے یعنی ہفتے کے دن کی حرمت اور تقدس کو پامال کرتے تھے۔ نیز انہیں بھی ہلاک کردیاجوا نہیں اس برائی سے روکتے اور اس پر ٹوکتے نہیں۔ آپ نے عذاب کی لپیٹ میں آنے کے لحاظ سے ایسے لوگوں کو بھی اس برائی کے مرتکبین جیسا قراردیا۔ ہمارے نزدیک اس کی تاویل یہ ہے کہ مؤخرالذکرلوگ اس بدی کے مرتکبین کے اعمال سے راضی تھے۔ اور ان پر گرفت نہیں کرتے تھے اور نہ ہی دل سے انہیں براسمجھتے تھے۔ فعل قبیح پر رضا مندی ارتکاب قبیح کے مساوی ہے حضور ﷺ کے زمانے میں موجودیہودیوں کی طرف اللہ تعالیٰ نے انبیائے سابقین کے قتل کی نسبت ان الفاظ میں کی (قدجاء کم رسل من قبلی بالبینات وبالذی قلتم فلم قتلتموھم) تمہارے پاس مجھ سے پہلے بھی رسول نشانیاں اور (قربانی کو آگ کھانے جانے کا) معجزہ جو تم چاہتے ہو لے کر آئے تھے، پھر تم نے ان کو کیوں قتل کردیا) نیز (فلم تقتلون اتبیاء اللہ من قبل ان کنتم مؤمنین ، تم اس سے پہلے اللہ کے پیغمبروں کو کیوں قتل کردیتے تھے۔ اگر تم سچے ہو) اس کی وجہ یہی ہے کہ حضور ﷺ کے زمانے کے یہوداپنے اسلاف سے جو انبیاء کے قاتل تھے محبت کرنے اور ان سے تعلق برقراررکھنے میں کوئی ہچکچا ہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔ اس بناپرقتل کی نسبت ان کی طرف کردی گئی اگرچہ واقعہ براہ راست وہ انبیائے کرام کے قتل میں ملوث نہیں تھے۔ لیکن صرف اس وجہ سے کہ وہ اپنے اسلاف کے اس فعل قبیح پر رضامند تھے انہیں قاتل گروانا گیا۔ ٹھیک اسی طرح اصحاب سبت میں جو لوگ ہفتے کے دن کے تقد س کو پامال کرتے تھے ان کے ساتھ ان لوگوں کو بھی ملحق کردیا گیا جو اس فعل قبیح سے انہیں روکتے نہیں تھے۔ دراصل وہ ان لوگوں کی اس حرکت پر نہ صرف راضی تھے بلکہ ان سے دوستی اور تعلق باقی رکھ کر گویا عملی طورپرا سے پسند بھی کرتے تھے۔ اگر کوئی شخص اپنے دل سے کسی برائی کو براسمجھتا ہو اور اس میں اتنی طاقت نہ ہو کہ دوسروں کو اس برائی سے روک سکے تو ایسا شخص اس وعید میں میں داخل نہیں ہوگا جو اس برائی کے مرتکبین کو سنائی گئی ہو بلکہ اس کا شماران لوگوں میں ہوگا جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (علیکم انفسکم لایضرکم من ضل اذا اھتدیتم) ہمیں مکرم بن احمد القاضی نے روایت بیان کی انہیں احمد بن عطیہ الکونی نے انہیں الحمانی نے انہوں نے ابن المبارک کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ امام ابوحنیفہ کو جب ابراہیم الصائغ کے قتل کی اطلاع ملی تو آپ اس قدرروئے کہ ہم نے یہ خیال کیا کہ شائد روتے روتے آپ کی وفات ہوجائے گی۔ جب تنہائی ہوئی تو آپ نے فرمایا بخدا، ابراہیم ایک عقلمند انسان تھے مجھے خطرہ تھا کہ ان کے ساتھ یہی کچھ ہوگا۔ میں نے عرض کیا۔ اس قتل کا سبب کیا تھا ؟ آپ نے فرمیاا، وہ میرے پاس آتے اور مجھ سے سوالات کرتے، اللہ کی طاعت میں وہ اپنی جان لگادیتے تھے انتہائی متقی اور پرہیزگار تھے۔ بعض دفعہ میں ان کے سامنے کھانے کی کوئی چیز پیش کرتا تو اس کے متعلق مجھ سے پوچھناشروع کردیتے پھر ایسا ہوتا کہ وہ چیزا نہیں پسند نہ آتی اور اسے وہ ہاتھ بھی نہ لگاتے اور بعض دفعہ پسند آجاتی توکھالیتے ۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے عملی اقدام کے متعلق امام ابوحنیفہ کا مسلک ایک دفعہ مجھ سے، امربالمعروف اور نہی عن المنکرکے متعلق سوالات کیئے پھر بحث ومباحثہ کے بعد ہم اس پر مفتق ہوگئے کہ یہ اللہ کی طرف سے مقررکردہ ایک فرض ہے پھر انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہاتھ بڑھاؤ میں بیعت کرتاہوں۔ ان کے قتل کے بعد اب میری نظروں میں دنیا تاریک ہوگئی ہے۔ میں نے عرض کیا۔ وہ کیسے ؟ فرمایا مجھے انہوں نے اللہ کے ایک حق کی طرف بلایا لیکن میں نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کردیا اور ان سے یہ کہہ دیا کہ اگر، امربالمعروف اورنہی عن المنکر ، کی دعوت اکیلا شخص لے کر اٹھے گا تو قتل کردیاجائے گا اور لوگوں کی ایک بات بھی درست نہیں ہوسکے گی۔ لیکن اگر ا سے نیک اور مخلص ساتھی مل جائیں جن کا سردار کوئی ایسا شخص ہو جس کی دینی حالت پوری طرح قابل اطمینان ہو تو اس صورت میں اس دعوت کے راستے میں رکاوٹ پیدا نہیں ہوسکتی۔ آپ نے مزید فرمایا، ابراہیم جب کبھی میرے پاس آتے تو اس پر نکلنے کے لیے مجھ سے اس قدرشدید تقاضا کرتے جس طرح قرض خواہ ہاتھ دھو کرمقروض سے قرض کی واپسی کا مطالبہ کرتا ہے۔ جب کبھی وہ میرے آتے تو مجھ سے یہی تقاضا کرتے۔ میں ان سے یہی کہتا کہ یہ ایک آدمی کا کام نہیں ہے انبیاء (علیہم السلام) کو بھی جب تک غیبی امداد حاصل نہیں ہوگئی انہیں اس کام کی ہمت نہیں ہوئی۔ اس فرض کی نوعیت دیگر فرائض سے مختلف ہے اس لیے کہ دوسرے فرائض کی ادائیگی ایک شخص خود تنہا کرسکتا ہے اور یہ فرض ایسا ہے کہ جب ایک آدمی تنہا اس کے لیے اٹھ کھڑا ہوگا تو گویا وہ اپنے آپ کو قتل کے لیے پیش کردے گا۔ اس لیے ان کے بارے میں مجھے ہمیشہ یہی خطرہ رہتا کہ وہ اپنے قتل کا سامان خود ہی پیداکر رہے ہیں۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب اس راستے میں ایک آدمی قتل ہوجائے تو کسی اور کو اس کام کے لیے اپنے آپ کو پیش کرنے کا حوصلہ ہی نہیں ہوسکتا۔ اس لیے میں نے انہیں انتظار کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ آخرفرشتوں نے بھی تو اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کیا تھا۔ اتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الد ماء ونحن نسبح بحمد ک ونقد س لک قال انی اعلم ما لاتعلمون، کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس کے انتظام کو بگاڑدے گا اور خونریزی کرے گا۔ آپ کی حمد وثناء کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس توہم کر ہی رہے ہیں۔ فرمایا : میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے) ابراہیم امام ابوحنیفہ کے پاس سے نکل کرمروچلے گئے جہاں ابومسلم خراسانی (عباسی حکومت کی جڑیں مضبوط کرنے والا مشہورجرنیل) مقیم تھا وہاں جاکر اس کے ساتھ سخت کلامی کی جس کی بناپر اس نے انہیں پکڑلیا۔ لیکن خراسان کے فقہاء اور دیندارلوگوں کی کوششوں سے انہیں رہائی مل گئی ابراہیم نے پھر وہی طرزعمل اختیار کیا اور ابومسلم کو اس کی غلط کاریوں پر ٹوکا۔ اس نے انہیں تنبیہ کی۔ لیکن ابراہیم پھر اس کے پاس گئے۔ اور کہنے لگے کہ میری نظر میں نیزے خلاف جہاد سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں جو میں اللہ کی خاطرسرانجام دے سکوں۔ لیکن میرے ہاتھ میں چونکہ کوئی قوت نہیں ہے اس لیے میں تیرے خلاف زبانی جہاد جاری رکھوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے راستہ دکھادیا ہے میں اس کی خاطر تجھ سے ہمیشہ نفرت رکھوں گا۔ ابومسلم یہ باتیں سن کر طیش میں آگیا اور انہیں قتل کرادیا۔ ابوبکر جصاص کا استنباط ابوبکرجصا ص کہتے ہیں کہ سابقہ سطور میں قران وحدیث کی روشنی میں جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ، امربالمعروف اورنہی عن المنکر، کرنا امت پر عائدشدہ ایک فریضہ ہے اور یہ چیز بھی واضح کردی گئی کہ اس کی نوعیت فرض کفایہ کی ہے کہ جب کچھ افراد اس کی ادائیگی کریں تو باقیماندہ لوگوں سے اس کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے، تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ اس کی فرضیت کے لزوم میں نیک اور بد کے درمیان کوئی فرق نہ ہو، اس لیے کہ بعض فرائض کے ترک سے یہ لازم نہیں آتا کہ ایسے انسان سے دوسرے فرائض بھی ساقط ہوجائیں، آپ نہیں دیکھتے کہ ایک اگر نماز ترک کردے تو اس کی بناپر اس سے روزے کی فرضیت ساقط نہیں ہوتی اور دوسری تمام عبادات بھی اس پر لازم رہتی ہیں ٹھیک اسی طرح جو شخص تمام نیکیاں نہیں کرتا اور تمام برائیوں سے باز نہیں رہتا، اس سے، امربالمعروف اور نہی عن المنکر، کی فرضیت ساقط نہیں ہوتی۔ طلحہ ؓ بن عمرونے عطاء ؓ بن ابی رباح سے انہوں نے حضرت ابوہریر ؓ ہ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ کے چند صحابہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکرعرض کرنے لگے کہ حضور کیا ہمارے لیے، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی گنجائش اس وقت پیدا ہوگی جب ہم تمام نیکیاں کر گزریں گے اور تمام برائیوں سے باز آجائیں گی ؟ جواب میں آپ نے فرمایا (مروابالمعروف وان لم تعملوابہ کلہ وانھوا عن المنکروان لم تنھواعنہ کلہ، اگرچہ تم تمام نیکیوں پر خود عمل پیرانہ بھی ہو پھر بھی امربالمعروف کرواسی طرح اگرچہ تم تمام برائیوں سے خود باز نہ بھی آئے ہو پھر بھی لوگوں کو برائیوں سے روکو) حضور ﷺ نے بعض فرائض میں کوتاہی کے باوجود امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ادائیگی کے لزوم کے (رح) لحاظ سے دوسرے فرائض کے برابر قراردیا۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے متعلق جاہلانہ تصور علمائے امت اور فقہائے ملت میں سے خواہ ان کا تعلق سلف سے ہو یا خلف سے کسی نے بھی امربالمعروف اور نہی عن المنکر، کے وجوب کا انکار نہیں کیا۔ البتہ نام نہاداصحاب حدیث کا ایک جاہل اور علم سے تہی دامن گروہ مسلمانوں کے کسی باغی گروہ کے خلاف جنگی اقدامات کا قائل نہیں ہے۔ یعنی وہ ہتھیار کے سہارے، امربالمعروف اور نہی عن المنکر، کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ اس کی نظروں میں اس کام کے لیے اگر ہتھیاراٹھا نے اور باغی گروہ سے قتال کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو یہ تبلیغ نہیں ہوگی بلکہ یہ ایک فتنہ ہوگا، حالانکہ ان کے کافوں میں اس قول باری (فقاتلوا التی تبغی حتی تفئی الی امر اللہ) کی آوازپہنچ چکی ہے اور ان کے سامنے اس آیت کے الفاظ کا مقتضی بھی واضح ہے اور یہ مقتضیٰ باغی گروہ کے ساتھ قتال بالسیف کے وجوب کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ اس گروہ کا یہ زعم بھی باطل ہے کہ سلطان یا صاحب اقتداراگرظلم وجورکرے نیز بےگناہوں کے خون سے ہاتھ رنگے تو اس کے خلاف لب کشائی نہ کی جائے، البتہ سلطان کے علاوہ کوئی اور شخص ایسی حرکتیں کرے تو اس کے خلاف صرف زبانی یا ہاتھ سے کارروائی کی جائے ہتھیارپھر بھی استعمال نہ کیے جائیں۔ ان جاہلوں نے اپنے اس طرزعمل سے امت کو اس سے زیادہ نقصان پہنچایاجتنا دشمنوں کے ہاتھوں سے اسے پہنچ سکتا تھا۔ اس لیے کہ انہوںنی اپنے اس زعم باطل کا پرچارکرکے مسلمانوں کو باغی گروہوں کے خلاف ہتھیاراٹھا نے اور سلطان یابرسراقتدار شخص کے ظلم وجور کے خلاف لب کشائی کرنے سے روک دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فاسقوں اورفاجروں بلکہ محبوسیوں اور دشمنان اسلام کو زورپکڑنے اور حکومت پر قبضہ جمانے کا موقعہ مل گیا جس سے بلاد اسلامیہ کی سرحدیں غیر محفوظ ہوگئیں، ظلم وستم کا بازارگرم ہوگیا ، شہراجڑگئے، علاقے تباہ ہوگئے اور دین ودنیا دونوں ہاتھ سے گئے دوسری طرف فکر ی اتنشار کے نتیجے میں زندیقیت ، بےتباہ ہوگئے اور دین ودنیا دونوں ہاتھ سے گئے دوسری طرف فکر ی اتنشار کے نتیجے میں زندہ لقیت بےدینی اور تشیع کو ہواملی نہ صرف یہ بلکہ ثنویت ، مزوکیت اور خرمیت جیسے باطل خیالات عام ہونے لگے یہ تمام خرایباں دراصل ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر، کے فریضہ کو ترک کرنے نیز ظالم سلطان کے خلافآواز بلند نہ کرنے نہ کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوئیں۔ دو خداؤں یعنی یزدان وہرمن کا نظر یہ جس کے مطابق یزدان خالق خیر اور اہرمن خالق شر ہے۔ فرقہ خرمیہ دراصل مجوسیوں کا طائفہ تھا جو تناسخ کا قائل تھا۔ ان کے ہاں محرمات کی اباحت تھی ۔ یعنی ایک انسان اپنی ماں بہن وغیرہ سے نکاح کرسکتا تھا۔ اس فرقے کی نسبت ایران کے ایک گاؤں خرمہ کی طرف ہے، مزدکیت بھی ان ہی نظریات کی حامل تھی البتہ اسکاوجود فرقہ خرمیہ سے پہلے ہوا تھا۔ قرآن وسنت کی روشنی میں جاہلانہ تصورد ہمیں محمد بن ب کرنے روایت بیان کی انہیں ابوداؤدنے ، انہیں محمد بن عبادالوواسطی نے، انہیں یزید بن ہاون نے انہیں اسرائیل نے انہیں محمد بن حجادہ نے عطیہ عوفی سے انہوں نے ابوسعید خدری سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (افضل الجھاد کلمہ عدل عند سلطان جائراوامیرجائر۔ ظالم وجابرسلطان یاحاکم کے سامنے کلمہ حق وانصاف بلند کرنا افضل ترین جہاد ہے۔ ) ہمیں محمد بن عمر نے روایت بیان کی انہیں احمد بن محمد بن عمروبن مصعب المروزی نے انہوں نے ابوعمارہ سے انہوں نے الحسن بن رشید سے ، انہوں نے امام ابوحنیفہ سے، آپ نے فرمایا، میں نے ابراہیم صائغ کو عکرمہ سے ایک روایت بیان کی جو انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی تھی کہ حضور ﷺ نے فرمایا (سیدالشھداء حمزہ بن عبدالمطلب ورجل قام الی امام جائرفامرہ ونھا ، فقتلہ، شہیدوں کے سروارحمزہ ؓ بن عبدالمطلب ہیں نیزوہ شخص بھی ہے جو کسی ظالم حاکم کے پاس جاکرامربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے ہوئے اس کے ہاتھوں شہید ہوجائے) قول باری ہے (وما اللہ یرید ظلما للعباد، اور اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ بندوں پر ظلم ہو) یہ قول باری (من کل الوجوہ ارادہ ظلم کی نفی کا متقاضی ہے۔ یعنی نہ تو اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی وہ یہ چاہتا ہے کہ بندے ایک دوسرے پر ظلم کریں اس لیے کہ ظلم کی یہ دونوں صورتیں قبیح ہونے کے لحاظ سے یکساں ہیں۔ کیونکہ اگر یہ جائز ہوتا کہ بندوں کا ایک دوسرے پر ظلم کرنا اللہ کے ارادے میں ہے تو اس کی طرف سے بندوں پر ارادہ ظلم بھی جائز ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایسے دو شخصوں کے درمیان عقلی لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہوتا جن میں سے ایک غیر کی خاطر اپنے اوپر اور دوسرا غیر کی خاطر کسی اور پر ظلم کرنے کا ارادہ کرے۔ فعل قبیح کے ارتکاب کے لحاظ سے دونوں کی حیثیت یکساں ہوتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اور بندوں دونوں سے ارادہ ظلم کی نفی ہونی چاہیے۔
Top