Ahkam-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 114
یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ
يُؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ پر وَ : اور الْيَوْمِ الْاٰخِرِ : دن۔ آخرت وَيَاْمُرُوْنَ : اور حکم کرتے ہیں بِالْمَعْرُوْفِ : اچھی بات کا وَيَنْهَوْنَ : اور منع کرتے ہیں عَنِ : سے الْمُنْكَرِ : برے کام وَ : اور يُسَارِعُوْنَ : وہ دوڑتے ہیں فِي : میں الْخَيْرٰتِ : نیک کام وَ : اور اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ مِنَ : سے الصّٰلِحِيْنَ : نیکو کار (جمع)
(اور) خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے اور اچھے کام کرنے کو کہتے اور بری باتوں سے منع کرتے اور نیکیوں پر لپکتے ہیں اور یہی لوگ نیکوکار ہیں
مومن اہل کتاب کی صفت قول باری ہے (یؤمنوں باللہ والیوم الاخرویامرون بالمعروف وینھون عن المنکر، وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں) اہل کتاب میں سے جو لوگ ایمان لے آئے تھے ان کی یہ صفت بیان ہورہی ہے۔ اس لیے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے ۔ پھر انہوں نے لوگوں کو حضور ﷺ کی تصدیق کی طرف بلایا اور جو لوگ آپ کی مخالفت کرتے تھے انہیں اس مخالفت سے روکا اس لیے ان کا شماران لوگوں میں ہوگیا جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کا پچھلی آیت میں ارشاد ہے (کنتم خیرامۃ اخرجت للناس) ہم نے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے وجوب پر قرآنی دلائل کا پہلے ذکرکر دیا ہے۔ مذاہب فاسدہ کا مقابلہ کس طرح کیا جائے اگریہ کہاجائے کہ آیا مذاہب فاسدہ کے عقائد کا ازالہ جو تاویل کے سہارے اپنا لیے گئے ہیں اسی طرح واجب ہے جس طرح غلط اور منکر افعال کا ؟ تو اس کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ اس کی دو صورتیں ہیں۔ اول یہ کہ فاسد عقائد کا حامل کوئی شخص اگر اپنے غلط عقائد کی دعوت دے رہاہو اور اس طرح وہ شبہات پیداکرکے لوگوں کو گمراہ کررہاہو، تو اسے ہر ممکن طریقے سے اس سے ہٹانا اور باز رکھنا واجب ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنے فاسد عقائد کو اپنی ذات تک محدودرکھے اور لوگوں کو ان کی دعوت نہ دے، تو اسے دلائل دے کر حق کی دعوت دی جائے گی اور اس کے شبہات کو دورکیاجائے گا۔ یہاں تک تو اس کے ساتھ یہی معاملہ رکھا جائے گا ، لیکن اگر وہ اہل حق کے خلاف تلوار اٹھائے گا اور جتھابندی کرکے امام المسلمین کے خلاف صف آراء ہوجائے گا، اور طاقت کے بل بوتے پر اپنے باطل عقائد کی لوگون کو دعوت دینا شروع کردے گا۔ تو پھر وہ باغی شمارہوگا ، جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اس سے جنگ کی جائے۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹنے پر مجبورہوجائے۔ فاسد مذہب اور حضرت علی ؓ کی رائے حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ آپ کوفہ کی جامع مسجد میں منبر پر خطبہ دے رہے تھے کہ مسجد کے ایک گوشے سے خوارج کے ایک ٹولے نے (لاحکم الاللہ) ، حکم صرف اللہ کا چلے گا) کا نعرہ بلند کیا، آپ نے اپنا خطبہ منقطع کرکے فرمایا : بات تو درست کہی گئی ہے۔ لیکن جس مقصد کے لیے کہی گئی ہے وہ غلط اور باطل ہے، لوگو ! سنو، ان لوگوں کے سلسلے میں ہمارا طریق کاریہ ہے کہ جب یہ ہمارا ساتھ دیتے رہیں گے ہم انہیں مال غنیمت میں سے ان کا حصہ ادا کرتے رہیں گے۔ ہم انہیں اپنی مسجدوں میں اللہ کی عبادت کرنے سے نہیں روکیں گے، اور جب تک یہ ہمارے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائیں گے ہم ان کے خلاف کوئی جنگی کارروائی نہیں کریں گے۔ حضرت علی ؓ نے لوگوں کو یہ بتایا کہ ان خارجیوں کے خلاف اس وقت تک قتال واجب نہیں ہوگا جب تک وہ جنگ پر کمربستہ نہ ہوجائیں۔ جب حروراء کے مقام پر یہ لوگ آپ کے خلاف صف آراء ہوگئے تو آپ نے سب سے پہلے انہیں واپس آملنے کی دعوت دی، پھر ان کے ساتھ مباحثہ ومناظرہ بھی کیا جس کا یہ اثرہوا کہ بہت سے لوگ ان خارجیوں کا ساتھ چھوڑکر آپ کے لشکر سے آملے۔ یہ طرزعمل تاویل کی بناپرفاسدمذاہب اختیار کرنے اور باطل عقائد رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کی اصل اور بنیاد ہے۔ یعنی ایسے لوگ جب تک کھلم کھلااپنے مذہب اور عقیدے کا پرچار نہ کریں اور اہل حق کے خلاف صف آرانہ ہوجائیں اس وقت تک ان کے خلاف جنگی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ اور انہیں ان کے حال پرچھوڑدیاجائے گا، بشرطیکہ ان کا یہ مذہب اور عقیدہ صریح کفرنہ ہو، اس لیے کہ کسی کافرکوکفر کی حالت پرچھوڑدینا جائز نہیں ہے بلکہ اس پر جزیہ عائد کرنا ضروری ہے۔ جبکہ ایسا شخص جو تاویل کی بناپر کفراختیار کرلے اسے جزیہ پر قرار رکھنا جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کی حیثیت مرتدجیسی ہوگی۔ کیونکہ اس نے پہلے توحید کا اقرار کیا تھا، رسول اللہ ﷺ پر ایمان لے آیا تھا۔ اس لیے اب اگر وہ ان باتوں کو تسلیم نہ کرتے ہوئے کوئی اور راستہ اختیارکرے گا تو وہ مرتدقرارپائے گا۔ تاویل کرنے والے گمراہ مذاہب کے بارے میں ابوالحسن کی رائے بعض لوگ انہیں اہل کتاب کا درجہ دیتے ہیں، ابوالحسن یہی کہا کرتے تھے۔ چناچہ ان کے قول کے مطابق ایسے لوگوں کی بیٹیوں سے نکاح جائز ہے لیکن مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی بیٹیاں انہیں نکاح میں دیں۔ ان کاذبیحہ بھی کھانا درست ہے اس لیے کہ یہ لوگ اپنے مذہب کی نسبت قرآن کے حکم کی طرف کرتے ہیں۔ اگرچہ قرآن پر عمل پیرا ہونے کے لیئے تیار نہیں ہوتے۔ جس طرح کہ کوئی شخص نصرانیت یایہودیت کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرلے، اس کا حکم بھی یہودیوں اور نصرانیوں جیسا ہوگا۔ اگرچہ وہ ان کی شریعت کی تمام باتوں کی پابندی نہ بھی کرتاہو۔ قول باری ہے (ومن یتولھم منکم فانہ منھم) تم میں سے جو شخص ان کے ساتھ دوستی گانٹھے گا وہ ان ہی میں سے ہوجائے گا۔ امام محمد کی رائے امام محمد نے، الزیادات، میں فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص ایسے باطل عقائد اختیار کرلیتا ہے جن کے ماننے والوں کی تکفیر کی جاتی ہے، توای سے شخص کی وصیتیں مسلمانوں کی وصیتوں کی طرح ہوں گی، یعنی مسلمانوں کی وصیتوں کی جو صورتیں جائڑہوں گی ان کی بھی جائز ہوں گی اور جو ناجائز ہوں گی ان کی بھی ناجائز ہوں گی۔ امام محمد کی یہ بات بعض صورتوں میں اس مسلک کی موافقت پر دلالت کرتی ہے جو ابوالحسن نے اختیار کیا تھا۔ بعض دیگر اہل علم کی آراء بعض لوگوں کے نزدیک ان کی حیثیت ان منافقین کی طرح ہے جو حضور ﷺ کے زمانے میں پائے جاتے تھے۔ اس کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے کفرونفاق کا علم تھا یا انہیں ان کے نفاق پر قائم رہنے دیا گیا۔ کچھ لوگوں کے نزدیک ان کی حیثیت ذمیوں جیسی ہے۔ جو لوگ یہ بات تسلیم نہیں کرتے انہوں نے منافقین اور اہل الذمہ کے درمیان یہ فرق کیا ہے کہ اگر ایک منافق کے نفاق کا علم ہوجائے توہم اسے اس پر برقراررہنے نہیں دیں گے اور اس سے اسلام یا تلوار کے سوا اور کوئی بات قبول نہیں کریں گے، اس کے برعکس ذمیوں سے جزیہ لے کر انہیں ان کی حالت پر برقراررکھاجاتا ہے جبکہ ایسے لوگوں سے جزیہ لینا جائز نہیں ہے جو تاویل کی بناپرکفر میں مبتلا ہوں اور اپنی نسبت اسلام کی طرف کرتے ہوں انہیں جزیہ کے بغیر چھوڑنا بھی درست نہیں ہے۔ اس لیے اس بارے میں ان کا حکم یہ ہے کہ ہمیں ان میں سے کسی کے متعلق جب کفر کے اعتقادکاعلم ہوجائے گا تو اس پرا سے برقرار رہنے دیا جانا جائز نہیں ہوگا۔ بلکہ اس پر مرتدین کے احکامات جاری کیئے گے۔ اس پر کافروں کے احکام جاری کرنے کے سلسلے میں اس امکان پر انحصار نہیں کیا جائے گا کہ ہوسکتا ہے کہ اس کا عقیدہ درست ہو اور اسے غلطی لگ گئی ہوبل کہ وہ اپنے مافی الضمیرکا اظہار کرتے ہوئے اگر ہمارے سامنے ایسے اعتقاد کا اظہارکرے گا جو اس کی تکفیرواجب کردے تو اس صورت میں اس پر مرتدین کے احکام جاری کرنا جائز ہوگا یعنی اس سے یہ مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ اپنے اس غلط عقیدے سے توبہ کرے۔ ورنہ اسے قتل کردیاجائے گا۔ واللہ اعلم۔
Top