Ahkam-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 130
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً١۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَاْ كُلُوا : نہ کھاؤ الرِّبٰٓوا : سود اَضْعَافًا : دوگنا مُّضٰعَفَةً : دوگنا ہوا (چوگنا) وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! دگنا چوگنا سود نہ کھاؤ اور خدا سے ڈرو تاکہ نجات حاصل کرو
سود کی ہر صورت حرام ہے قول باری ہے (لاتاکلوا الربواضعا فامضاعفۃ، یہ بڑھتا اور چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو ) قول باری (اضعا فاعفۃ) کے دومعنی بیان کیے گئے ہیں اول تاجیل قرض کی ادائیگی کی مدت میں اضافے کے ساتھ سود کو رقم میں اضافہ کرتے جانا اور ہر مدت کے لیے زائد رقم کی قسط مقررکر دینا۔ دوم سودی رقموں کے ذریعے اپنے مال میں کئی گنا اضافہ کرلینایہ اس بات کی دلیل ہے کہ جس چیز کا خصوصیت کے ساتھ ذکرکر دیاجائے، وہ اس پر دلالت نہیں کرتی کہ اس کے ماسواچیزوں کا حکم کے برعکس ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر کئی کئی گنابڑھا کر سود خوری کی تحریم اس پر دلالت کرتی کہ اگر کئی کئی گنا اضافے کی صورت نہ ہو تو سود کھانا مباح ہے۔ جب سود کی مطلقا ممانعت ہوگئی خواہ اس کی مذکورہ بالا کیفیت ہو، یا نہ ہو، تو اس کی اباحت کے بارے میں لوگوں کے قول کا بطلان واضح ہوگیا بلکہ ان کے لیے یہ سمجھ لینا ضروری ہوگیا کہ اباحت پر دلالت قول باری (وحرم الربو) کی وجہ سے منسوخ ہوگئی ہے کیونکہ اب اباحت کے حکم کے لیے کوئی موقع ومحل باقی نہیں رہا۔
Top