Ahkam-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 33
اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ اصْطَفٰٓي : چن لیا اٰدَمَ : آدم وَنُوْحًا : اور نوح وَّاٰلَ اِبْرٰهِيْمَ : اور ابراہیم کا گھرانہ وَاٰلَ عِمْرٰنَ : اور عمران کا گھرانہ عَلَي : پر الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
خدا نے آدم اور نوح اور خاندان ابراہیم اور خاندان عمران کو تمام جہان کے لوگوں میں منتخب فرمایا تھا
ال اور اہل ایک ہی چیز ہیں قول باری ہے (وال ابراھیم وآل عمران آل ابراہیم اور آل عمران کو) حضرت ابن عباس اور حسن بصری سے مروی ہے کہ آل ابراہیم وہ اہل ایمان ہیں جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر قائم ہیں۔ حسن کا قول ہے کہ آل عمران سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں اس لیئے کہ وہ حضرت مریم کے بیٹے ہیں۔ جو عمران کی بیٹی تھیں۔ ایک قول ہے کہ آل عمران سے مراد آل ابراہیم ہی ہیں جس طرح کہ قول باری ہے (ذریۃ بعضھا من بعض، یہ ایک سلسلے کے لوگ تھے جو ایک نسل سے پیدا ہوئے تھے۔ ) ان سے مراد حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ہیں جو عمران کے بیٹے تھے۔ ہمارے اصحاب کے نزدیک لفظ آل اور لفظ اہل بیت دونوں کا مفہوم ایک ہے اس لیے اگر کوئی شخص فلاں کی ال کے لیئے وصیت کرتا ہے تو اس کی حیثیت وہی ہوگی جو فلاں کے اہل بیت کے لیے وصیت کی ہے۔ اس لیے یہ وصیت ان سب کے لیے ہوگی جو اس فلاں کے ساتھ دادا میں شریک ہوجاتے ہیں جس کی طرف یہ سب کے سب اپنے آباء کے واسطے منسوب ہوتے ہیں۔ اس لیے مثلا آل النبی ﷺ اور اہل بیت النبی ﷺ دونوں ایک ہی مفہوم ادا کرتے ہیں۔ البتہ سے یہ صورت خارج ہے کہ کوئی شخص ایسا ہو جس کی طرف آل منسوب ہو تو اس صورت میں اس سے مراد گھرانہ یا خاندان ہوگا جوا س کی طرف منسوب ہوگا۔ مثلا ہم کہتے ہیں آل عباس آل علی وغیرہ تو اس سے مراد عباس اور علی کی اولاد ہے جو اپنے آباء کی وساطت سے ان دونوں کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔ یہ معنی اس اصول پر مبنی ہے جو لوگوں میں متعارف ومعتاد ہے۔
Top