Ahkam-ul-Quran - Al-Ahzaab : 21
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ
لَقَدْ كَانَ : البتہ ہے یقینا لَكُمْ : تمہارے لیے فِيْ : میں رَسُوْلِ اللّٰهِ : اللہ کا رسول اُسْوَةٌ : مثال (نمونہ) حَسَنَةٌ : اچھا بہترین لِّمَنْ : اس کے لیے جو كَانَ يَرْجُوا : امید رکھتا ہے اللّٰهَ : اللہ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ : اور روز آخرت وَذَكَرَ اللّٰهَ : اور اللہ کو یاد کرتا ہے كَثِيْرًا : کثرت سے
تم کو پیغمبر خدا کی پیروی (کرنی) بہتر ہے (یعنی) اس شخص کو جسے خدا (سے ملنے) اور روز قیامت (کے آنے) کی امید ہو اور وہ خدا کا ذکر کثرت سے کرتا ہو
رسول ﷺ بہترین نمونہ عمل ہیں قول باری ہے (لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ۔ تمہارے لئے اللہ کے رسول کا ایک عمدہ نمونہ موجود ہے) بعض حضرات نے اس آیت سے حضور ﷺ کے افعال میں آپ کے اسوہ پر چلنے کے وجوب پر استدلال کیا ہے۔ ان کے مخالفین بھی اس آیت سے آپ کے افعال کے ایجاب کی نفی پر استدلال کرتے ہیں۔ پہلے گروہ کا مسلک یہ ہے کہ آپ کے اسوہ پر چلنا آپ کی اقتدا کے ہم معنی ہے اور یہ آپ کے قول وفعل دونوں کے لئے عام ہے جب اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ ہی فرمادیا (لمن کان یرجوا اللہ والیوم الاخر۔ اس کے لئے جو اللہ اور یوم آخر سے ڈرتا ہو) یہ قول باری اس پر دال ہوگیا کہ آپ کے اسوہ پر چلنا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ایمان کی شرط قرار دیا ہے جس طرح یہ قول باری ہے (واتقوا اللہ ان کنتم مومنین۔ اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو) اور اسی طرح کے الفاظ جنہیں ایمان کے ساتھ مقرون کردیا گیا ہے۔ یہ بات وجوب پر دلالت کرتی ہے۔ مخالفین کی استدلال یہ ہے کہ قول باری (لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ) ظاہری طور پر استحباب کا مقتضی ہے، ایجاب کا مقتضی نہیں ہے کیونکہ ارشاد باری ہے (لکم) اس کی مثال قائل کا یہ قول ہے ۔” لک ان تصلی، لک ان تتصدق ۔ “ (تمہیں نماز پڑھنے کا) اختیار ہے تمہیں صدقہ دینے کا اختیار ہے۔ اس میں وجوب پر کوئی دلالت نہیں ہے بلکہ اس قول کا ظاہر اس پر دلالت کرتا ہے کہ اسے اس کام کے کرلینے اور نہ کرنے کا اختیار ہے۔ ایجاب پر اس کی دلالت ہوتی اگر آپ کے الفاظ یہ ہوتے ” علیکم التاسی بالنبی ﷺ (تم پر حضور ﷺ کے اسوہ پر چلنا واجب ہے) ۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ درست بات یہ ہے کہ آیت میں وجوب پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ بلکہ استحباب پر اس کی دلالت ایجاب پر دلالت کی بہ نسبت زیادہ واضح ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ اسکے باوجود اگر آیت امر کے صیغہ کی صورت میں وارد ہوتی تو پھر بھی حضور ﷺ کے افعال میں وجوب پر اس کی دلالت نہ ہوتی اس لئے کہ آپ کے اسوہ پر چلنے کا مفہوم یہ ہے کہ ہم بھی اسی طرح کریں جس طرح آپ نے کیا اور اگر ہم کسی فعل کے اعتقاد یا اس کے مفہوم کے سلسلے میں آپ کے خلاف کریں گے تو یہ آپ کے اسوہ پر چلنا نہ ہوگا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حضور ﷺ نے اگر ایک عمل استحباب کی بنا پر کیا ہو اور ہم اسے وجوب کی بنا پر کرلیں تو ہم آپ ﷺ کے اسوہ پر چلنے والے قرار نہیں پائیں گے۔ اگر آپ نے کوئی عمل کیا ہو تو ہمارے لئے اس وقت تک وجوب کے اعتقاد کے ساتھ اسے اپنانا جائز نہیں ہوگا جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہوجائے کہ آپ نے یہ عمل وجوب کی بنا پر کیا تھا۔ جب ہمیں یہ معلوم ہوجائے کہ آپ نے یہ عمل وجوب کی بنا پر کیا تھا تو ہم پر اس عمل کو اس علم کی وجہ سے کرنا واجب ہوگا آیت کی جہت سے واجب نہیں ہوگا۔ کیونکہ آیت میں تو وجوب پر کوئی دلالت نہیں ہے، ہم پر اس کا وجوب اس جہت سے ہوگا کہ دوسری آیات میں ہمیں آپ کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔
Top