Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 103
فَاِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوةَ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِكُمْ١ۚ فَاِذَا اطْمَاْنَنْتُمْ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ١ۚ اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا   ۧ
فَاِذَا : پھر جب قَضَيْتُمُ : تم ادا کرچکو الصَّلٰوةَ : نماز فَاذْكُرُوا : تو یاد کرو اللّٰهَ : اللہ قِيٰمًا : کھڑے وَّقُعُوْدًا : اور بیٹھے وَّعَلٰي : اور پر جُنُوْبِكُمْ : اپنی کروٹیں فَاِذَا : پھر جب اطْمَاْنَنْتُمْ : تم مطمئن ہوجاؤ فَاَقِيْمُوا : تو قائم کرو الصَّلٰوةَ : نماز اِنَّ : بیشک الصَّلٰوةَ : نماز كَانَتْ : ہے عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) كِتٰبًا : فرض مَّوْقُوْتًا : (مقررہ) اوقات میں
پھر جب تم نماز تمام کر چکو تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہر حالت میں) خدا کو یاد کرو پھر جب خوف جاتا رہے تو (اس طرح سے) نماز پڑھو (جس طرح امن کی حالت میں پڑھتے ہو) بیشک نماز کا مومنوں پر اوقات (مقررہ) میں ادا کرنا فرض ہے
قول باری ہے ( فاذا اطماننتم الصلوٰۃ ان الصلوٰۃ کانت علی المومنین کتاباً موقوتا۔ اور جب اطمینان نصیب ہوجائے تو پوری نماز پڑھو۔ نماز در حقیقت ایسا فرض ہے جو پابندی وقت کے ساتھ اہل ایمان پر لازم کیا گیا ہے۔ حسن اور مجاہد نیز قتادہ سے مروی ہے کہ جب تم واپس اپنے پانے وطن اور ٹھکانوں پر پہنچ جائو تو پوری نماز پڑھو اور قصر نہ کرو۔ سدی اور کچھ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ تم پر نماز کے رکوع و سجود کو پوری طرح ادا کرنا لازم ہے جبکہ تم چل نہ رہے ہو اور نہی سواریوں پر سور ہو۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جن حضرات نے قول باری ( واذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان نقصروا من الصلوٰۃ) میں قصر سے تعداد رکعات میں کمی مراد لی ہے۔ انہوں نے قول باری ( فاذا اطماننتم فاقیمو الصلوٰۃ) سے یہ مفہوم لیا ہے کہ خوف اور سفر ختم ہوجانے پر نماز کی رکعتوں کی تعداد پوری کرو۔ اور جن حضرات نے قصر سے نماز کی ادائیگی کی کیفیت میں کمی مراد لی ہے۔ مثلاً اشارے سے نماز کی ادائیگی یا نماز میں چلن کی اباحت انہوں نے قول باری ( فاقیمو الصلوٰۃ) کو معہود یعنی معلوم نماز کو اس طریقے پر ادا کرن کے لیے حکم قرار دیا ہے جس طریقے پر خوف کی حالت طاری ہونے سے پہلے ادا کی جاتی تھی ( واللہ اعلم) اوقات نماز کا بیان ارشاد ربانی ہے ( ان الصلوٰۃ کانت علی المومنین کتابا موقوتا) حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ نماز کے بھی اسی طح اوقات ہیں جس طرح حج کے اوقات ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ ، مجاہد اور عطیقہ کا قول ہے کہ ( موقوتا) کے معنی مفروضات کے ہیں یعنی فرض شدہ، حضرت ابن مسعود ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ نماز کے قسط وار اوقات میں کہ جب ایک قسط گزر جاتی ہے تو دوسری قسط آ جاتی ہے۔ زید بن اسلم سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ قول باری فرض اور اس کے اوقات کے ایجاب پر مشتمل ہے۔ اس لیے کہ قول باری ( کتاباً ) کے معنی فرض کے ہیں اور ( موقوتاً ) کا مفہوم یہ ہے کہ نماز معلوم و معین اوقات میں فرض کی گئی ہے۔ اس آیت میں اوقات نماز کا ذکر اجمالاً ہوا ہے لیکن دوسرے مواقع پر ان اوقات کو واضح طور پر بیان کردیا ہے البتہ ان اوقات کے اوائل و اواخر کی تحدید نہیں کی ہے لیکن حضور ﷺ کی زبان مبارک سے ان کے حدود اور مقادیر بیان کر دئیے گئے ہیں۔ کتاب اللہ میں جن اوقات کا ذکر ہوا ہے ان میں ایک یہ آیت ہے ( اقم الصلوٰۃ لدلوک الشمس الی غسق الیل۔ سوج کے ڈھل جانے سے لے کر ات کی ابتدا تک نماز قائم کرو) مجاہد نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ ( لدلوک الشمس) کے معنی ہیں جب سورج وسط آسمان سے ڈھل جائے یہ ظہر کی نماز کے لیے وقت ہے۔ (الی غسق الیل) کے معنی ہیں رات ظاہر ہوجائے یہ مغرب کی نماز کے لیے وقت ہے اسی طرح حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ سورج ڈھل جانے کو دلوک کہتے ہیں۔ ابو وائل نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے کہ غروب آفتاب کو دلوک کہتے ہیں۔ ابوعبدالرحمن سلمی سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب ان حضرات نے دلوں کے دو معنی لیے ہیں۔ ایک زوال آفتاب اور دوسرے غروب آفتال تو یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ لفظ میں دونوں معنوں کا احتمال موجود ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو حضرات سلف اس سے کبھی یہ معانی مراد نہ لیتے۔ لغت میں دلوک کے معنی میل یعنی جھکائو کے ہیں، اسی لیے دلوک شمس کے معنی سورج کا میلان یا جھکائو ہے۔ سورج کبھی ڈھلنے کی صورت میں جمک جاتا ہے اور کبھی غروب کی صورت میں ہمیں یہ معلوم ہے کہ سورج کا جھکائو یا ڈھل جانا وقت کی ابتداء ہے اور رات کا ظاہر ہوجانا وقت کی انتہا اور اس کی غایت ہے اس لیے کہ قول باری ہے ( الی غسق اللیل) حرف الی غایت کے معنی ادا کرتا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ ظہر کا وقت رات کے ظہور کے ساتھ متصل نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان دونوں کے درمیان عصر کا وقت ہوتا ہے اس لیے زیادہ ظاہر بات یہ ہے کہ یہاں دلوک سے غروب مراد ہے اور غسق اللیل سے مراد تاریکی کا اکٹھا ہوجانا ہے اس لیے کہ مغرب کا وقت رات کی ظلمت کے ساتھ متصل ہوتا ہے اور اس پر اس کی انتہا ہوتی ہے۔ تا ہم اس کے باوجود زوال شمس کے معنی کا احتمال اپنی جگہ باقی ہے اس لیے کہ زوال شمس سے رات کے ظہور تک ان نمازوں ظہر، عصر اور مغرب کے اوقات ہیں۔ اس سے یہ مفہوم اخذ ہو سکے گا کہ زوال شمس سے ظہور لیل تک کسی نہ کسی نماز کا وقت ضرور ہوگا۔ اس طرح اس میں ظہر ، عصر اور مغرب کی نمازیں داخل ہوجائیں گی۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے عشاء کی نماز کا وقت مراد لیا جائے کیونکہ غایت بعض دفعہ ما قبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے۔ جس طرح قول باری ( وایدیکم الی المرافق) میں مرافق یعنی کہنیاں وضو کے لیے دھونے کے حکم میں داخل ہیں۔ اسی طرح قول باری ہے ( حتی تفتسلوا۔ یہاں تک کہ تم غسل کرلو) غسل نماز کی اباحت کی شرط میں داخل ہے۔ اگر دلوک کو زوال آفتاب کے معنوں پر محمول کیا جائے تو اس میں چار نمازیں آ جائیں گی۔ پھر فرمایا ( وقرآن الفجر) یہ فجر کی نماز ہے اور اس طرح یہ آیت پانچوں نماز کے اوقات پر مشتمل ہوگی۔ یہ مفہوم بالکل واضح ہے ۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صبح کی نماز کا الگ سے ذکر کیا ہے۔ کیونکہ صبح کی نماز اور ظہر کی نماز ک درمیان جو وقت ہے وہ فرض نمازوں کے اوقات میں شامل نہیں ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ زورال شمس سے لے کر رات کی تاریکی تک ان نمازوں کا وقت ہے جو اس میں ادا کی جاتی ہیں اور فجر کا الگ سے ذکر کر کے یہ بتایا دیا کہ فجر اور ظہر کے درمیان وقت کا جو فاصلہ ہے وہ نماز کے اوقات میں داخل نہیں ہے۔ اس لیے آیت میں یہ احتمال ہے کہ اس میں دو نمازوں کے اوقات کا بیان مراد لیا جائے، اگر دلوک سے غروب مراد ہوگا تو آیت دو نمازوں یعنی مغرب اور فجر کے کی نشاندہی کرے گی، دلوک سے مغرب کی اور ( وقرآن الفجر) سے فجر کی۔ آیت میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے پانچوں نمازوں کے اوقات مراد لیے جائیں جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے ظہر، مغرب اور فجر کے اوقات مراد لیے جائیں وہ اس لیے کہ قول باری ( الی غسق اللیل) میں ” مع غسق اللیل “ مراد لینے کی گنجائش موجود ہے یعنی ” رات کے ظاہر ہونے کے ساتھ نماز قائم کرو “۔ جس طرح یہ قول باری ہے ( ولا تاکلوا اموالھم الی اموالکم) میں ” مع اموالکم کے معنی مراد ہیں۔ اس صورت میں غسق اللیل یعنی رات کا ظہور مغرب کی نماز کا وقت ہوگا۔ اس سے صلوٰۃ عتمہ یعنی عشاء کی نماز کا وقت مراد لینے کی بھی گنجائش ہے۔ لیث نے مجاہد سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ آپ فرمایا کرتے : دلوک شمس سے غسق اللیل کا عرصہ وہ ہوتا ہے جب سورج ڈھل جائے اور پھر چلتے چلتے غروب ہوجائے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود ؓ کا قول ہے : دلوک شمن سے غسق اللیل کا عرصہ وہ ہوتا ہے جب سورج غروب ہوجائے اور اس کے بعد شفق کی سرخی بھی ختم ہوجائے۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ ایک دن جب سورج غروب ہوگیا تو آپ ﷺ نے فرمایا ” یہ غسق اللیل ہے “ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ ’ غسق اللیل ‘ کے معنی سورج کا چھپ جانا ہے۔ حسن کا قول ہے کہ غسق اللیل مغرب اور عشاء کی نمازیں ہیں۔ ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ غسق اللیل نماز عشا کا نام ہے۔ ابو جعفر ؓ سے مروی ہے کہ غسق اللیل نصف شب کا نام ہے۔ امام مالک نے دائود بن الحصین سے روایت کی ہے، انہیں کسی بتانے والے نے حضرت ابن عباس ؓ سے یہ روایت سنائی ہے کہ آپ کہا کرتے تھے ” غسق اللیل سے مراد رات کا اکٹھا ہوجانا اور اس کی تاریکی کا چھا جانا ہے “۔ اس آیت میں اوقات نماز کے سلسلے میں یہ تمام احتمالات موجود ہیں جن کا ہم نے ان سطور میں ذکر کیا ہے۔ قول باری ہے ( واقم الصلوٰۃ طرفی النھار وزلفا من اللیل دن کے دونوں کناروں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کرو) عمرو بن حسن سے ( طرفی النھار) کے متعلق روایت ہے کہ اول طرف سے فجر اور دوسری سے ظہر اور عصر کی نمازیں مراد ہیں اور ( ذلفا من اللیل) سے مغرب اور عشا کی نمازیں مراد ہیں۔ اس قول کے مطابق یہ آیت پانچوں نمازوں کے اوقات پر مشتمل ہے۔ یونس نے حسن سے ( طرفی النھار) کے متعلق روایت کی ہے کہ اس سے مراد فجر اور عصر کی نمازیں ہیں۔ لیث نے الحکم سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ درج ذیل آیت نماز کے تمام اوقات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ( فسبحان اللہ حین تمسون ۔ اللہ کی تسبیح کرو جب تم شام کرو) اس میں مغرب اور عشاء کے اوقات کا ذکر ہے اوحین تصبحون اور جب تم صبح کرو) اس میں فجر کی نماز کا وقت ہے ۔ (وعشیاً دن کے آخری حصے میں) اس میں عصر کی نماز کا وقت مذکور ہے ( وحین تظھرون اور جب تم دوپہر میں داخل ہو) اس میں ظہر کی نماز کا وقت مذکور ہے۔ حسن سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ ابورزین نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ قول باری ( وسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس و قبل الغروب اور طلوع و غروب شمس سے پہلے اپنے رب کی حمت کی تسبیح کرو) یہ فرض نماز مراد ہے اور فرمایا کہ قول باری ( وسیح بحمد ربک قبل طلوع الشمس و قبل غروبھا ومن اناء اللیل و اطراف النھار لعلک ترضی، اور اپنے پروردگار کی تسبیح کرتے رہو حمد کے ساتھ آفتاب کے طلوع سے پہلے اور اس کے غروب سے پہلے اور اوقات شب میں بھی تسبیح کرو اور دن کے بھی اول و آخر میں تا کہ تم خوش رہو) نماز کے اوقات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ درج بالا تمام آیات میں نمازوں کے اوقات کا ذکر ہے، لیکن اوقات کی ان میں تحدید نہیں کی گئی ہے۔ صرف ایک مقام پر دلوک کا ذکر ہے جسے اس وقت کی نماز کے لیے وقت کی ابتدا اقرار دیا ہے ۔ زوال اور غروب کے اوقات سب کو معلوم ہیں۔ قول باری ( الی غسق اللیل) میں ایسے لفظ کے ساتھ وقت کی انتہا تا بیان نہیں ہے جس میں کئی معانی کا احتمال نہ ہو اور قول باری ( حین تمسون) سے اگر مغرب کا راستہ مراد ہو تو یہ سب کے لیے معلوم وقت ہوگا اسی طرح ( تصبحون) ہے اس لیے کہ صبح کا وقت سب کے لیے معلوم و متعین ہے۔ اور قول باری ( طرفی النھار) میں وقت کی تحدید پر کوئی دلالت نہیں ہے کیونکہ اس میں یہ احتمال ہے کہ ظہر اور عضر مراد ہو کیونکہ دن کا واسط زوال کا وقت ہوتا ہے اس لیے دن کا جو حصہ نصف آخر میں ہوگا وہ ایک طرف یا گنارہ کہلائے گا اسی طرح نصف اول میں دن کا حصہ بھی ایک طرف یا کنارہ کہلائے گا۔ اس سے عصر کا وقت مراد لینا بھی درست ہے اس لیے کہ دن کا آخری حصہ بھی دن کا ایک طرف یا کنارہ ہے۔ زیادہ بہتر یہی ہے کہ اس سے عصر کا وقت مراد لیا جائے۔ ظہر کا وقت مراد نہ لیا جائے اس لیے ایک چیز کی طرف یا تو اس کا ابتدائی حصہ ہوتا ہے یا انتہائی اور آخری حصہ ۔ یہ بات ذرا بعید ہے کہ جو حضہ وسط سے قریب ہو وہ طرف بن جائے تا ہم عمرو کی روایت کے موجب حسن نے آیت کی تاویل میں ظہر اور عصر دونوں نمازوں کے اوقات مراد لیے ہیں۔ لیکن یونس نے ان سے عصر کے وقت کی روایت کی ہے۔ یہ روایت آیت کے مفہوم کے زیادہ قریب اور مناسب ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ طرف الثوب کپڑے کے اس حصے کو کہتے ہیں جو کنارے کے ساتھ متصل ہوتا ہے اور کپڑے کے وسط سے متصل حصے کی طرف نہیں کہا جاتا۔ مذکورہ بالا آیات نمازوں کی تعداد پر بھی دلالت کرتی ہیں۔ اور قول باری ( حافظوا علی الصلوٰت والصلوٰۃ الوسطیٰ نمازوں، خاص طور پر وسطی نماز کی نگہداشت کرو) اس پر دلالت کرتا ہے کہ فرض نمازوں کی تعداد کا مجموعہ طاق عدد ہے۔ کیونکہ جفت عدد میں وسط نہیں ہوتا۔ حضور ﷺ سے تواتر کے ساتھ روایات منقول ہیں اور امت نے آپ کے قول و فعل سے جس بات کی روایت کی ہے وہ یہ ہے کہ پانچ نمازیں فرض ہیں۔ حضرت انس بن مالک ؓ اور حضرت عبادہ بن الصامت ؓ نے معراج کی حدیث میں حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ کو اس موعقہ پر پچاس نمازوں کا حکم دیا گیا تھا پھر آپ باری تعالیٰ سے ان کی تعداد میں تخفیف کی استدعا کرتے رہے حتیٰ کہ پانچ نمازیں رہ گئیں۔ ہمارے نزدیک یہ حضور ﷺ کے اختیار پر موقوف فرض تھا کیونکہ کسی فرض پر عمل پیرا ہونے کا موقعہ ملنے سے پہلے اس کا نسخ جائز نہیں ہوتا۔ ہم نے اصول الفقہ میں اس نکتے کی پوری وضاحت کی ہے۔ مسلمانوں کے درمیان پانچ نمازوں کی فرضیت کے سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ البتہ حلف کی ایک جماعت کا قول ہے کہ وتر واجب ہے۔ امام ابوحنیفہ کا بھی یہی قول ہے۔ آپ کے نزدیک وتر فرض نہیں ہے۔ کیونکہ فرض اس عمل کو کہتے ہیں جو ایجاب کے اعلیٰ ترین مرتبے پر ہوتا ہے۔ حضور ﷺ سے تواتر کے ساتھ روایات منقول ہیں جو نمازوں کے اوقات کی تحدید کرتی ہیں۔ ان میں بعض پر تو امت کا اتفاق ہے اور بعض کے بار میں آراء کا اختلاف ہے۔ فجر کی نماز کا وقت فجر کی نماز کے وقت کی ابتدا میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، اس کی ابتدا فجر ثانی یعنی صبح صادق کے طلوع کے ساتھ ہوجاتی ہے، صبح صادق کی روشنی افق میں عرضاً پھیلتی ہے۔ سلیمان التیمی نے ابو عثمان النہدی سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ ( لیس الفجران یقول ھکذا، وجمع کفہ حتی یقول ھکذا، ومدا صبعیہ السبابتین فجر اس طرح نہیں ہوتی، یہ کہتے ہوئے آپ نے مٹھی بند کرلی، جب تک کہ اس طرح نہ ہوجائے ، یہ کہتے ہوئے آپ نے انگشت شہادت اور اس کی ساتھ والی انگلی دونوں کو پھیلایا) قیس بن طلق نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ( کلوا و اشربوا ولا یھیدتکم الساطع المصعد فکلوا واشربوا حتیٰ یعترض لکھ الاحمر، کھائو پیو، اور تمہیں افق میں عموداً ظاہر ہونے والی روشنی گھبراہٹ میں نہ ڈالے، اس لیے سحری کے طور پر کھانا پینا جاری رکھو حتیٰ کہ افق پر عرضاً سرخی ظاہر ہوجائے) ۔ سفیان نے عطاء سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ( الفجر فجران، فجر یحل فیہ الطعام و تحرم فیہ الصلوٰۃ و فجر تحل فیہ الصلوٰۃ و یحرم فیہ الطعام۔ فجر کی دو قسمیں ہیں ایک وہ فجر ہے جس میں ( روزہ رکھنے والے کے لیے ) ابھی کھانا پینا حلال ہوتا ہے لیکن نماز حرام ہوتی ہے اور ایک فجر وہ ہے جس میں نماز حلال ہوتی ہے اور کھانا پینا حرام ہوجاتا ہے ) ۔ نافع بن جبیر نے حدیث مواقیت میں حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ حضرت جبریل (علیہ السلام) نے آپ کو بیت اللہ کے پاس نماز پڑھائی تھی۔ پہلے دن فجر کی نماز اس وقت پڑھائی جب صبح روشن ہوگئی تھی اور روزہ دار کے لیے کھانا پینا ممنوع ہوگیا تھا یہ فجر کا اول وقت تھا۔ اس کے متعلق حضور ﷺ سے تواتر کے ساتھ روایات منقول ہیں اور فقہاء امصار بھی اس پر متفق ہیں فجر کی نماز کا آخری وقت تمام فقہاء کے نزدیک طلوع آفتاب تک ہے۔ ابن القاسم نے امام مالک سے نقل کیا ہے کہ صبح کی نماز کا وقت وہ ہے جب اندھیرا چھایا ہوا ہو اور ستارے جھرمٹوں کی شکل میں نظر آ رہے ہوں۔ اور اس کا آخری وقت وہ ہے جب صبح کی روشنی پھیل جائے۔ امام مالک کے اس قول میں یہ احتمال ہے کہ شاید آپ نے مستحب وقت کا ذکر کیا ہو اور اسفار یعنی روشنی پھیل جانے کے بعد تک تاخیر کو مکروہ سمجھا ہو۔ آپ کا یہ قول اس پر محمول نہیں ہوسکتا کہ اگر کوئی شخص فجر کی نماز کی ادائیگی کو صبح کی روشنی پھیل جانے کے بعد تک اور طلوع آفتاب سے قبل تک موخر کر دے تو اس کی نماز فوت ہوجائے گی۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ( وقت الفجر مالم تلطع الشمس۔ جب تک طلوع آفتاب نہ ہوجائے فجر کا وقت باقی رہتا ہے) ۔ اعمش نے ابو صالح سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ( ان اللصلوٰۃ والاً و اخراً و ان اول وقت الفجر حین یطلع الفجر وان اخروق تھا حین قطلع الشمس۔ ہر نماز کے وقت کا اول و آخر ہوتا ہے فجر کی نماز کے وقت کا اول اس گھڑی ہوتا ہے جب فجر طلوع ہوجائے اور آخر وقت اس گھڑی ہوتا ہے جب سورج طلوع ہوجائے ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے حضور ﷺ سے یہ بھی روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ( ان ادرک رکعۃ من صلوٰۃ الفجر قبل ان تطلع الشمس فقد ادرک جس شخص نے سورج طلوع ہونے سے قبل فجر کی ایک رکعت پا لی اس نے گویا فجر کی نماز پالی) حضور ﷺ نے فجر کے وقت کے اس مقدار کو پالینے والے کو پوری نماز پالینے والا قرار دیا مثلاً اس وقت حائضہ حیض سے پاک ہوجائے، بچہ بالغ ہوجائے اور کافر مسلمان ہوجائے تو اسے فجر کی نماز ادا کرنی ہوگی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ طلوع شمس تک فجر کی نماز کا وقت باقی رہتا ہے۔ ظہر کی نماز کا وقت ظہر کے وقت کی ابتدا سورج ڈھلن کے ساتھ ہوجاتی ہے، اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے قول باری ( عشیاً و حین تظھرون اور بعد زوال بھی اور ظہر کے وقت بھی) نیز فرمایا ( اقم الصلوٰۃہ بدلوک الشمس، سورج ڈھلنے پر نماز قائم کرو) ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ دلوک سے زوال شمس اور غروب شمس دونوں معانی کا احتمال ہے اور اسے دونوں معانی پر محمول کیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ آیت ظہر اور مغرب کی نمازوں کی ادائیگی کے حکم پر مشتمل ہے۔ نیز اس میں دونوں نمازوں کے وقت کی ابتداء کا بھی بیان ہے۔ سنت کی جہت سے حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ابو سیعدرضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت بریدہ اسلمی ؓ ، حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی حضور ﷺ سے اوقات نماز کے ذکر پر مشتمل روایات موجود ہیں۔ جب حضرت جبریل (علیہ السلام) نے آپ کو نماز پڑھائی تھی۔ ظہر کی نماز اس وقت پڑھائی تھی جب سورج ڈھل گیا تھا۔ ان میں سے ایک روایت میں ابتدا کا لفظ بھی حضور ﷺ سے منقول ہے، آپ نے فرمایا ( اول وقت الظھر اذارالت الشمس ظہر کے وقت کا اول یعنی اس کے وقت کی ابتدا اس گھڑی ہوتی ہے جب سوج ڈھل جائے۔ ) یہ مشہور احادیث ہیں۔ طوالت سے بچنے کے لیے میں نے ان کی اسانید اور ان کے الفاظ کے ذکر ترک کردیا ہے۔ اس طرح ظہر کے وقت کی ابتدا کتاب و سنت اور اتفاق امت کی جہت سے معلوم و متعین ہے۔ اس کے آخر وقت کے بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ سے اس بارے میں تین روایات ہیں۔ ایک روایت کے مطابق ہر چیز کا سایہ اس کے دو چند سے کم ہو۔ دوسری روایت کے بموجب ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہوجائے یہ حسن بن زیاد کی روایت ہے۔ تیسری روایت میں ہے کہ ہر چیز کا سایہ اس کے دو چند ہوجائے یہ کتب اصول کی روایت ہے۔ امام ابو یوسف، امام محمد، زفر، حسن بن زیاد، حسن بن صالح، سفیان ثوریی اور امام شافعی کا قول ہے کہ ہر چیز کا سایہ اس کے مثل ہوجائے۔ امام مالک سے منقول ہے کہ ظہر اور عصر کا وقت غروب شمس تک رہتا ہے۔ ظہر کے آخر وقت کے بارے میں جو لوگ سایہ کے دو چند ہونے کے قائل ہیں ان کی طرف سے ظاہر قول باری ( اقم الصلوٰۃ طرفی النھار) سے استدلال کیا گیا ہے۔ یہ آیت دو مثل یعنی دو چند سایہ ہوجانے کے بعد عضر کی نماز کی ادائیگی کی مقتضی ہے۔ اس لیے کہ وقت جس قدر غروب آفتاب سے قریب ہوتا جائے گا اسی قدر اس پر طرف کے اسم کا اطلاق اولیٰ ہوتا جائے گا اور جب عصر کا وقت مثلین سے شروع ہوگا تو اس سے ما قبل کا وقت ظہر کی نماز کا وقت ہوگا کیونکہ اعمش نے ابو صالح سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : ( ان اول وقت الظھرحین تزول الشمس و اخروق تھا حین دخل وقت العصر۔ ظہر کے وقت کی ابتدا زوال شمس کے ساتھ ہوتی ہے اور اس کا آخر وقت وہ ہوتا ہے جب عصر کا وقت آ جائے) قول باری ( اقم الصلوٰۃ لدلوک الشمس الی غسق اللیل) کے ظاہر سے بھی اس قول کے حق میں دلیل پیش کی جا سکت ہے ہم نے گزشتہ سطور میں بیان کردیا ہے ک دلوک کے اسم میں سورج ڈھلنے کے معین کا بھی احتمال ہے۔ اگر اس سے یہی معنی مراد ہوں تو ظاہر قول باری غروب شمس تک وقت کے امتداد کا مقتضی ہوگا۔ تا ہم یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ مثلین کے بعد ظہر کا وقت باقی نہیں رہتا اس لیے ظاہر آیت کی بنا پر مثلین تک ظہر کے وقت کا ثبوت واجب ہوگیا۔ سنت کی جہت سے اس قول کے حق میں حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔ حضر ت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : ” تم سے ہے گزر جانے والی امتوں کی مدتوں کے مقابلے میں تمہاری مدت اتنی ہے جتنی عصر کی نماز سے لے کر غروب آفتاب کے درمیانی عرصے کی مدت ہے۔ تمہاری اور تم سے پہلے گزر جانے والی دو اہل کتاب امتوں کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے کچھ مزدور کرائے پر لیے ہوں۔ اس نے ان مزدوروں سے کہا کہ تم میں سے کون ہیں جو صبح سے لے کردوپہر تک ایک قیراط (دینار کے دسویں حصے کا آدھا) کی اجرت پر کام کرے گا۔ یہودیوں کو اس عرضے میں کام کرنے کا موقعہ ملا۔ پھر اس شخص نے کہا کہ دوپہر سے لے کر عصر تک ایک قیراط کی اجرت پر کام کرنے کے لیے کون تیار ہے ؟ عیسائیوں کو اس کا موقعہ دیا گیا۔ پھر اس شخص نے یہ پوچھا کہ عصر سے لے کر مغرب تک دو قیراط کی اجرت پر کون کام کرے گا ؟ یہ عرصہ تمہیں یعنی مسلمانوں کو کام کرنے کے لیے ملا۔ اس پر یہود و نصاریٰ غضبناک ہوگئے اور اس شخص سے کہنے لگے کہ ہمارے کام کی مدت زیادہ لیکن مزدوری کم ہے۔ اس پر اس شخص نے پوچھا ”۔ یہ بتائو تمہاری مقررہ اجرت میں کوئی کی کی گئی ہے “ ؟ انہوں نے نفی میں اس کا جواب دیا۔ وہ شخص کہنے لگا۔ ” میری مہربانی اور میرا فضل ہے میں جسے چاہوں دے دوں “۔ ہمارے دعوے پر یہ روایت دو طرح سے دلالت کر رہی ہے۔ ایک تو یہ کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” تم سے پہلے گزر جانے والی امتوں کی مدتوں کے مقابلے میں تمہاری مدت اتنی ہے جتنی عصر کی نماز سے لیکر غروب آفتاب کے درمیانی عرصے کی مدت ہے “ آپ ﷺ نے اس ارشاد کے ذریعے در اصل مدت کے قصیر ہونے کی خبر دی ہے۔ ایک روایت کے مطابق آپ کا ارشاد ہے ( بعثت انا والساعۃ کھاتین، و جمع بین السبابۃ و الوسطیٰ ۔ میری بعثت اس وقت ہوئی جب قیامت آنے میں اتنیی مدت رہ گئی جتنی یہ دونوں انگلیاں ہیں۔ یہ فرماتے ہوئے آپ کی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کو یکجا کردیا۔ ) ایک روایت میں ہے ( کما بین ھذہ جس طرح اس انگلی اور اس انگلی میں فرق ہے) آپ ﷺ نے اس روایت میں یہ اطلاع دی ہے کہ دنیا کی مدت کا جو حصہ باقی رہ گیا ہے وہ اس قدر ہے جس قدر شہادت کی انگلی درمیانی انگلی سے چھوٹی ہے۔ یہ مدت دنیا کی پوری مدت کے ساتویں حصے کی آدھی یعنی 1/14 بنتی ہے۔ جب حضور ﷺ نے ہم سے پہلی امتوں کی مدتوں کے مقابلے میں ہماری مدت کو اس کے قصیر ہونے کے لحاظ سے عصر کے وقت کے ساتھ تشبیہ دی تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایک مثل پر عصر کا وقت شروع نہیں ہوتا کیونکہ اگر یہ ایسا ہوتا تو امت مسلمہ کو ملنے والی مدت حدیث میں بیان شدہ مدت سے زیادہ ہوتی۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ عصر کا وقت مثلین کے بعد شروع ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا طویل حدیث سے استدلال کی دوسری وجہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے اوقات مذکورہ میں ہمارے اور یہود و نصاریٰ کے عمل کی مدتوں کو ایک مثال کے ذریعے واضح فرمایا ہے نیز یہ بتایا کہ یہود و نصاریٰ ناراض ہو کر کہنے لگے کہ ہمارے عمل اور کام کی مدت زیادہ طویل ہے لیکن ہماری اجرت نسبتاً کم ہے۔ اگر عصر کا وقت ایک مثل پر ہوجائے تو نصاریٰ مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ مدت تک مزدوری کرنے والے نہیں بن سکیں گے بلکہ مسلمانوں کے عمل اور مزدوری کی مدت زیادہ ہوجائے گی کیونکہ ایک مثل سایہ اصلی سے لے کر غروب آفتاب کی مدت زوال شمس سے لے کر ایک مثل تک کی مدت سے زیادہ ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ عصر کا وقت ظہر کے وقت سے زیادہ قصیر اور مختصر ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حدیث میں دونوں فریق یعنی یہود و نصاریٰ کے وقتوں کا مجموعہ مراد ہے جو مسلمانوں کو ملنے والے وقت سے زیادہ طویل ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ حضور ﷺ نے ہر فریق کے وقت کی خبر اس کے بالمقابل علیحدہ علیحدہ دی ہے۔ آپ نے یہود و نصاریٰ کے وقتوں کے مجموعے کی خبر نہیں دی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ان لوگوں نے اعتراض یہ کیا تھا کہ ہمارے کام کی مدت زیادہ لیکن مزدوری کم ہے۔ ان دونوں کی مجموعی اجرت کم نہیں تھی کیونکہ ان دونوں کو مجموعی طور پر جتنی اجرت دی گئی تھی اس کی مقدار اتنی ہی تھی جتنی مسلمانوں کو ملنے والی اجرت کی مقدار تھی۔ اس پر عروہ کی روایت دلالت کرتی ہے جو انہوں نے بشیر بن ابی مسعود سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ حضرت جبریل (علیہ السلام) دوسرے دن آپ کے پاس اس وقت آئے جب ہر چیز کا سایہ اس کے ایک مثل ہوگیا تھا ، انہوں نے آپ سے اٹھ کر ظہر کی نماز پڑھنے کے لیے کہا۔ اس روایت میں آپ نے یہ بتایا کہ حضرت جبریل (علیہ السلام) ایک مثل کے بعد آئے تھے اور آپ کو ظہر کی نماز پڑھنے کے لیے کہا تھا۔ اگر ایک مثل کے بعد کا وقت عصر کا وقت ہوتا تو ظہر کی نماز اپنے وقت سے موخر قرار پاتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت جابر ؓ اور حضرت ابو سعید ؓ کی روایتوں میں جو ان حضرات نے حضور ﷺ سے کی ہیں کہ آپ نے حضرت جبریل کی اقتدار میں پہلے روز عصر کی نماز اس وقت پڑھی تھی جب کہ ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہوگیا تھا۔ یہ بات اس امر کی موجب ہے کہ مثل کے بعد ہی عصر کا وقت شروع ہوجائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے کہ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت کے مطابق حضور ﷺ نے بیت اللہ کے دروازے کے قریب، حضرت جبریل (علیہ السلام) کی امامت کے متعلق بتایا ہے یہ واقعہ ہجرت سے پہلے کا ہے۔ اس روایت میں یہ ذکر ہے کہ آپ نے دوسرے دن ظہر کی نماز اس وقت پڑھی تھی جس گھڑی پہلے روز عصر کی نماز ادا کی تھی۔ یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ دونوں دنوں میں پڑھی جانے والی ظہر اور عصر کی نمازوں کا ایک ہی وقت تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کی مراد اس سے یہ تھی کہ عصر کے وقت کی ابتداء گزشتہ دن ظہر کی نماز سے فراغت کے وقت ہوئی تھی تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت میں ہے کہ حضرت جبریل (علیہ السلام) پہلے دن اس وقت آئے تھے جب ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہوگیا اور انہوں نے حضور ﷺ کو عصر کی نماز پڑھنے کے لیے کہا تھا۔ پھر حضرت جبریل (علیہ السلام) دوسرے دن اس وقت آئے تھے جب ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہوگیا تھا اور انہوں نے آپ سے ظہر کی نماز پڑھنے کے لیے کہا تھا۔ اس طرح اس روایت کے مطابق آپ نے یہ خبر دی تھی کہ حضرت جبریل (علیہ السلام) کا آپ ﷺ کے پاس آنا اور نماز کے لیے کہنا ایک مثل کے بعد وقوع پذیر ہوا تھا۔ یہ بات ان لوگوں کی تاوییل کو ساقط کردیتی ہے جنہوں نے اس کا وہ مفہوم بیان کیا ہے جس کا ذکر معترض نے کیا ہے۔ ایک طرف جب بات اس طرح تھی اور دسوری طرف حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی حضور ﷺ سے یہ روایت کہ آپ نے فرمایا (وقت الظھر مالم یحضر وقت العصر ظہر کا وقت جب تک عصر کا وقت نہ ہوجائے۔ باقی رہتا ہے) نیز حضرت ابوقتادہ ؓ کی آپ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا ( التقویط علی من لم یصل الصدۃ حتی یدخل وقت الاخریٰ ، کوتاہی کی ذمہ داری اس شخص پر عائد ہوتی ہے جس نے نماز نہ پڑھی یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت آگیا) تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ کی روایتوں میں وقت کے متعلق ہمارے بان کے مطابق جو بات کہی گئی ہے وہ منسوخ ہوچکی ہے۔ نیز یہ ہجرت سے پہلے کی بات ہے۔ علاوہ ازیں اگر ان روایتوں میں مذکورہ بات کا حکم باقی اور ثابت بھی رہتا تو یہ ضروری ہوتا کہ آخر میں کیا جانے والا عمل پہلے عمل کے لیے ناسخ بن جاتا اور ان دونوں میں سے جو عمل آخر میں کیا جاتا وہ ثابت رہتا۔ آخر میں کیا جانے والا عمل یہ تھا کہ آپ نے دوسرے دن ظہر کی نماز ایک مثل کے بعد پڑھی تھی اور یہ بات اس امر کی مقتضی ہے کہ ایک مثل کے بعد کا وقت ظہر کا وقت ہوتا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ ؓ کی روایت میں جسے انہوں نے آنحضرت ﷺ سے نقل کی ہے یہ مذکور ہے کہ اوقات صلوٰۃ کے متعلق ایک سائل کے جواب میں حضور ﷺ نے پہلے دن عصر کی نماز اس وقت پڑھی تھی جب سورج ابھی بلند تھا اور اس میں زردی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ اس طرح سلیمان بن بریدہ کی روایت ہے جو انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے نقل کی ہے کہ آپ نے پہلے روز عصر کی نماز اس وقت پڑھی تھی جب کہ سورج سفیید اور بلند تھا یہ بات اس شخص کے متعلق نہیں کہی جاسکتی جس نے عصر کی نماز ایک مثل پر پڑھی ہو۔ حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ آپ نے پہلے روز عصر کی نماز اس وقت پڑھی تھی جبکہ سورج سفید اور بلند تھا، یعنی سورج کی پوری چمک باقی تھی۔ اس روایت کو زہری کے جلیل القدر رفقاء نے عروہ سے نقل کیا ہے۔ ان میں امام مالک، لیث ، شعیب اور معمر وغیرہ شامل ہیں۔ اسے ایوب عتبہ سے، انہوں نے ابوبکر بن عمرو بن حزم سے اور انہوں نے عروہ سے نقل کیا ہے۔ اس میں عروہ نے سائے کی مقداروں کو تقریباً اسی انداز سے بیان کیا ہے جو ہم نے سابقہ سطور میں بیان کیے ہیں۔ اس طرح حضرت ابن مسعود ؓ کی حدیث ان دو صورتوں میں روایت کی گئی ہے۔ ایک کے اندر یہ ذکر ہے کہ حضرت جبریل (علیہ السلام) اس وقت آئے تھے جب ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہوگیا تھا۔ انہوں نے حضور ﷺ سے ظہر کی نماز پڑھنے کے لیے کہا تھا۔ دوسرے دن اس وقت آئے تھے جب ہر چیز کا سایہ دو مثل ہوگیا تھا اور پھر انہوں نے آپ سے عصر کی نماز پڑھنے کے لیے کہا تھا۔ عروہ سے روایت کردہ زہری کی حدیث میں سائے کی مقدار کا ذکر نہیں ہے۔ اس میں یہ ذکر ہے کہ آپ نے پہلے روز عصر کی نماز اس وقت پڑھی تھی جبکہ سورج ابھی بلند تھا اور اس میں زردی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ عصر کی تعجیل کے بارے میں بہت سی روایات منقول ہیں۔ ایک مثل کے قائلین نے اپنے قول کے حق میں ان روایات سے بھی استدلال کیا ہے۔ لیکن ان روایات میں دونوں احتمالات موجود ہیں، یعنی ان حضرات کے مسلک کی بات بھی موجود ہے اور جو حضرات اس مسلک کے قائل نہیں ہیں ان کے حق میں بھی احتمال موجود ہے۔ اس لیے ایک مثل کے اثبات کے لیے ان جیسی روایات کو دلیل کے طورپر پیش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جس دلیل میں دونوں احتمالات موجود ہوں وہ حجت اور سند نہیں بن سکتی۔ ان میں سے ایک حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ کی نماز پڑھا دیتے اور اس کے بعد عوالی کی طرف کوئی جانے والا اگر چلا جاتا تو دیکھتا کہ ان لوگوں نے ابھی تک عصر کی نماز ادا نہیں کی ہے۔ زہری کا قول ہے کہ عوالی دو تین میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ ابو واقد الیثی نے ابوا رویٰ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کے ساتھ مدینہ منورہ میں عصر کی نماز پڑھتا اور پھر غروب آفتاب سے قبل ذوالحلیفہ پہنچ جاتا۔ اسامہ بن زید کی روایت میں ہے جو انہوں نے زہری سے نقل کی ہے۔ انہوں نے عروہ سے ، انہوں نے بشیر بن ابی مسعود سے اور انہوں نے اپنے والد سے کہ حضور ﷺ عصر کی نماز اس وقت پڑھاتے تھے جب سورج سفید اور بلند ہوتا، یعنی سورج کی چمک پوری طرح موجود ہوتی ، نماز سے فارغ ہو کر ایک شخص غروب آفتاب سے پہلے چھ میل سفر کر کے ذوالحلیفہ پہنچ جاتا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ اس وقت عصر کی نماز سے فارغ ہوجاتے جب سورج ابھی ان کے حجرے میں ہوتا یعنی حجرے میں ابھی دھوپ موجود ہوتی اور سایہ پڑنا شروع نہیں ہوتا۔ ایک روایت میں حضرت عائشہ ؓ کے الفاظ ہیں کہ ابھی سایہ واپس نہیں ہوتا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ان روایات میں عصر کے وقت کی تحدید کے بارے میں کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ ان روایات میں عوالی مدینہ اور ذوالحلیفہ تک سفر کا جو ذکر ہے اس سے وقت کی کسی متعین مقدار پر وقوف نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ سفر میں جتنا وقت لگتا ہے اس کا انحصار تیز رفتاری اور سست رفتاری پر ہوتا ہے۔ ہمارے شیخ ابوالحسن (رح) حضور کے ارشاد ( ابودوا بالظھر فان شدۃ الحرمن فیح جھنم، ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھو کیونکہ گرمی کی شدت دراصل جہنم کی بھڑاس اور اس کا جوش ہے) سے یہ استدلال کرتے تھے کہ مثل کے بعد ظہر کا وقت ہوتا ہے۔ کیونکہ ابراد یعنی ٹھنڈا کردینا ایک مثل کے وقت نہیں ہوتا بلکہ گرمیوں میں تپش کی انتہا اس وقت ہوتی ہے جب ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہوتا ہے۔ جو لوگ ایک مثل کے قائل ہیں وہ اس بات کا جواب یوں دیتے ہیں کہ حضور ﷺ زورال کے بعد دوپہر کی گرمی میں ظہر کی نماز ادا کرتے تھے۔ اس وقت سایہ اصلی بہت ہوتا ہے۔ چناچہ جماعت کی صورت میں بعض صحابہ کرام کو دھوپ میں کھڑا ہونا پڑتا اور بعض کو دھوپ سے بالکل قریب کھڑا ہونا پڑتا۔ حضرت خباب ؓ کا بھی یہی قول ہے کہ ہم نے حضور ﷺ دھوپ کی تیزی کی شکایت کی لیکن آپ نے ہماری شکایت دور نہیں کی پھر فرمایا ( ابردوا بالظھر) آپ نے لوگوں کو ظہر کی نماز ہر چیز کے سائے کے پلٹ جانے کے بعد پڑھنے کا حکم دیا۔ جو لوگ ایک مثل کے قائل ہیں ان کے نزدیک ابراد کا یہی مفہوم ہے جس کا حکم حضور ﷺ نے درج بالا حدیث میں لوگوں کو دیا تھا۔ امام مالک سے جو بات مروی ہے کہ ظہر اور عصر کا وقت غروب آفتا تک رہتا ہے اس کی تردید ان تمام روایات سے ہوتی ہے جو اوقات نماز کے سلسلے میں مروی ہیں اس لیے کہ حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ابن مسعود ؓ ، حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت ابوسعید ؓ اور حضرت ابوموسیٰ ؓ وغیرہم کی روایات کی رو سے حضور ﷺ نے دونوں دنوں میں نمازیں اول اور آخر وقتوں میں ادا کی تھیں۔ پھر فرمایا تھا ” ان دونوں وقتوں کے مابین نمازوں کے اوقات ہیں “ ۔ حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ( وقت الظھر ما لم یحضر وقت العصر) اس لیے کسی کو یہ بات جائز نہیں کہ وہ عصر کے وقت کو ظہر کے لیے بھی وقت قرار دے جبکہ حضور ﷺ نے یہ واضح فرما دیا کہ ظہر کا آخری وقت اس گھڑی ہوتا ہیجس گھڑی عصر کا وقت داخل ہوتا ہے۔ لوگوں نے حضور ﷺ سے یہ اوقات عملاً اور قولاً نقل کیے ہیں جس طرح انہوں نے آپ سے فجر، عشاء اور مغرب کے اوقات نقل کیے ہیں اور آپ کی ہدایت اور رہنمائی کی روشنی میں لوگوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہر نماز ایک وقت کے ساتھ مخصوص ہے۔ اور یہ وقت کسی اور نماز کا وقت نہیں ہوسکتا۔ آپ نے ابوقتادہ کی روایت میں فرمایا ( التفریط علیٰ من لم یصل الصلوٰۃ حتی یجئی وقت الخریٰ ) اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ کسی عذر کے بغیر اگر کوئی شخص ظہر کی نماز نہیں پڑھے گا حتیٰ کہ عصر کا وقت داخل ہوجائے تو وہ مفرط یعنی کوتاہی کرنے والا کہلائے گا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ظہر کے لیے مخصوص وقت ہے اور اسی طرح عصر کے لیے بھی، اور ہر ایک کے لیے مخصوص وقت دوسرے کے وقت سے مختلف اور الگ ہے اور زوال شمس سے لے کر غروب آفتاب تک کے اوقات دونوں نمازوں یعنی ظہر اور عصر کے اوقات ہوتے تو پھر اس بات کا جواز ہوتا کہ ایک شخص کسی عذر کے بغیر ظہر کے وقت میں عصر کی نماز بھی ادا کرلے۔ جب ظہر اور عصر کی ایک ساتھ ادائیگی کے لیے صرف میدان عرفات کو خصوصیت حاصل ہے اور اس کے سوا کسی عذر کے بغیر ان دونوں نمازوں کو اکٹھا کرنے کے عدم جواز پر سب کا اتفاق ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان دونوں میں سے ہر نماز اپنے وقت کے ساتھ مخصوص اور دوسرے سے الگ ہے۔ اگر اس مسلک کے قائلین قول باری ( اقم الصلوٰۃ لدلوک الشمس الی غسق اللیل) سے اس بنا پر استدلال کریں کہ دلوک زوال آفتاب کا نام ہے۔ اور اس طرح زوال آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک سارا وقت ظہر کی نماز کے لیے ہے کیونکہ غسق اللیل کے معنی غروب آفتاب کے ہیں جیسا کہ سلف کی ایک جماعت سے مروی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ظاہر آیت اس امر کی مقتضی ہے کہ زوال شمس سے لے کر غسق اللیل تک اس نماز ظہر کی ادائیگی کی اباحت ہونی چاہیے۔ لیکن سب کا اس پر اتفاق ہے کہ آیت میں یہ مراد نہیں ہے۔ اور یہ کہ کسی شخص کو زوال شمس سے رات پڑھنے تک ظہر کی ادائیگی کے سلسلے میں اختیار نہیں دیا گیا ہے، اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ آیت میں مراد کوئی اور نماز بھی ہے جس کی ادائیگی اس دوران کی جائے گی وہ نماز یا تو عصر کی نماز ہوگی یا مغرب کی ۔ لیکن مغرب کی نماز مراد لینا آیت کے معنوں کو زیادہ قریب اور مناسب ہوگا کیونکہ اس کا وقت غسق اللیل کے ساتھ متصل ہوتا ہے جس کا مفہوم تاریکی کا اکٹھا ہوجانا ہے۔ اس طرح ترتیب کلام یہ ہوگی۔ سورج ڈھلنے کے وقت نماز قائم کرو اور رات کی تاریکی چھاجانے تک بھی نماز قائم کرو “ اس صورت میں یہ دوسری نماز پہلی نماز سے مختلف ہوگی اور آیت میں اس قسم کی کوئی دلالت باقی نہیں رہے گی کہ ظہر کا وقت غروب آفتاب تک ہوتا ہے۔ امام شافعی نے بھیی ایک پہلو سے اس مفہوم کے اندر امام مالک کی موافقت کی ہے۔ وہ اس طرح کہ امام شافعی کا قول ہے کہ جو شخص غروب شمس سے پہلے مسلمان ہوجائے گا اس پر ظہر کی ادائیگی بھی لازم ہوجائے گا۔ اگر حائضہ حیض سے پاک ہوجائے اور بچہ بالغ ہوئے تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ امام شافعی نے اس سلسلے میں یہ موقف اختار کیا ہے کہ زوال آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک اگرچہ ظہر کے نماز کے سلسلے میں کسی کو اختیار نہیں دیا جاتا اور اس طرح اختیار کا وقت نہیں بنتا لیکن ضرورت اور عذر کا وقت ضرور ہے اس لیے امام شافعی کے مسلک اور اصول کے مطابق سفر اور بیماری وغیرہ کی حالت میں ان دونوں نمازوں کی امٹھی ادائیگی درست ہوتی ہے۔ مثلاً ظہر اور عصر کے وقت تک موخر کر دے یا عصر میں تعجیل کرتے ہوئے ظہر کے وقت میں اسے ادا کرے اور اس طرح ظہر کی ادائیگی کے ساتھ عصر کی ادائیگی بھی ہوجائے۔ اسی لیے امام شافعی نے ضرورت اور عذر کی حالت میں زوال آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک کے وقت کو ان دونوں نمازوں کے لیے وقت قرار دیا ہے۔ اگر امام شافعی کا یہ اعتبار درست ہے تو اس سے ان پر یہ بات لازم آتی ہے کہ اگر کسی عورت کو ظہر کے اول وقت میں حیض آ جائے تو امام شافعی کو یہ کہنا چاہیے کہ اس پر ظہر اور عصر دونوں نمازیں لازم ہوگی جس طرح عصر کے آخری وقت میں حیض سے پاک ہونے کی صورت میں اس پر یہ دونوں نمازیں لازم ہوجاتی تھیں۔ جس عورت کو ظہر کے اول وقت میں حیض آگیا تھا اسے اتنا وقت تو مل گیا تھا کہ وہ ظہر اور عصر دونوں نمازوں کی اکٹھی ادائیگی کرسکے۔ اس لیے اس پر امام شافعی کے مذکورہ بالا اعتبار کی روشنی میں دونوں نمازیں لازم ہوجانی چاہیے تھیں جبکہ کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ تمام حالتوں کے اندر عصر کا وقت ظہر کے وقت سے الگ اور مختلف ہے ۔ نیز یہ کہ اگر کوئی شخص عصر کا وقت پالے تو اس پر ظہر کی نماز لازم نہیں ہوتی جب تک اسے ظہر کا وقت نہ مل جائے۔ واللہ اعلم۔ عصر کی نماز کا وقت ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جہاں تک عصر کی ابتدا کا تعلق ہے تو ظہر کا وقت نکل جانے کے ساتھ ہی اس کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ ظہر کے وقت کے خروج میں آئمہ کرام کے مابین اختلاف رائے کا ہم نے گزشتہ سطور میں ذکر کردیا ہے اس لیے عصر کے وقت کی ابتداء کے سلسلے میں بھی اسی اختلاف رائے کو مد نظر رکھا جائے۔ تا ہم فقہاء کے اقوال میں صحیح قول یہ ہے کہ ظہر اور عصر کے وقتوں کے درمیان ان کے سوا کسی اور نماز کے وقت کا واسطہ نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ سے یہ شاز روایت ہے کہ ظہر کا آخری وقت وہ ہے جب ہر چیز کا سایہ اس چیز کی قامت کے دوچند سے کچھ کم ہو اور عصر کا اول وقت وہ ہے کہ جب سایہ دو چند ہوجائے۔ یہ روایت ان آثار کے بھی خلاف ہے جو اس طرف راہنمائی کرتی ہیں کہ جب تک عصر کا وقت نہ آ جائے اس وقت تک ظہر کا وقت ہوتا ہے بلکہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی حدیث کے بعض طرق میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے ( واخر وقت الظھر حین یدخل وقت العصر) ابوقتادہ ؓ کی حدیث میں حضور ﷺ کا جو ارشاد منقول ہوا ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ نماز میں تفریط اور کوتاہی یہ ہے کہ ایک شخص کسی نماز کی ادائیگی کے بغیر بیٹھا رہے یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت آ جائے۔ امام ابوحنیفہ کا صحیح یا تو مثلین ہے یا ایک مثل ہے نیز یہ کہ عصر کا وقت داخل ہوتے ہی ظہر کا وقت نکل جاتا ہے۔ فقہاء امصار کا اس پر اتفاق ہے کہ عصر کا آخری وقت غروب آفتاب ہے۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ عصر کا آخری وقت وہ ہوتا ہے جب سورج میں زردی آ جائے ان کا استدلال اس حدیث سے ہے جس میں حضور ﷺ نے غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ غروب آفتاب عصر کی نماز کا آخری وقت ہوتا ہے اس کی دلیل حضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے ( من فاتہ العضر حتی غابت الشمس فکانما وترا ھلہ ومالہ جس شخص سے عصر کی نماز رہجائے یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائے تو گویا اسے اس کے اہل و عیال کی ہلاکت اور مال و اسباب کے ضیاع کا نقصان پہنچ گیا) اس حدیث میں آپ نے غروب آفتاب پر عصر کی نماز کے فوت ہوجانے کا حکم لگایا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے ( من ادرک رکعۃ من العصر قبل ان تغرب الشمس فقد ادرک۔ جس شخص کو غروب آفتاب سے پہلے پہلے عصر کی ایک رکعت پڑھنے کا موقعہ مل جائے تو گویا اسے پوری نماز پڑھنے کا موقعہ مل گیا) یہ ارشاد اس پر دلالت کرتا ہے کہ غروب آفتاب تک عصر کا وقت باقی رہتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس سلسلے میں حضرت عبدالرحمن بن عمر ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی اس روایت سے استدلال کرے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ( اخروقت العصر حین تصفر الشمس عصر کا آخر وقت وہ ہے جب سورج زرد ہوجائے) تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہمارے نزدیک آپ کا یہ ارشاد عصر کی تاخیر کی کراہت پر محمول ہے اور اس میں مستحب وقت کا بیان ہے جس طرح اعمش نے ابوصالح سے اور انوہں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ( اخر وقت العشاء الاخرۃ نصف اللیل عشاء کا آخر وقت نصف شب ہے) آپ کی اس سے مراد وقت مستحب ہے کیونکہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ آدھی رات کے بعد کا وقت طلوچ فجر تک عشاء کی نماز کا وقت ہے ۔ اور اس دوران جس شخص کو مسلمان یا بالغ ہونے کی بناپر عشاء کی نماز کا موقعہ مل جائے گا اس پر نماز لازم ہوجائے گی۔ حضور ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ ( ان الرجل لیصلی الصلوٰۃ ولمافاتہ من وقتھا خیرلہ من اھلہ ومالہ ایک شخص ایک نماز ادا کرتا ہے لیکن اس نماز کا جو قوت اس کے ہاتھوں سے نکل چکا ہوتا ہے وہ اس کے اہل و عیال اور مال و دولت سے بہتر ہوتا ہے۔ ) اس ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ اس وقت میں جس شخص کو نماز پڑھنے کا موقعہ مل جاتا ہے اس پر اس نماز کی فرضیت تو لازم ہوجاتی ہے لیکن اس وقت تک اس کی ادائیگی میں تاخیر مکروہ ہوتی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ مزدلفہ کے مقام پر حاجی کے لیے صبح کی نماز میں اسفار مکروہ ہے۔ لیکن اسفار تک اس کی ادائگی میں تاخیر کی کراہت اسے اس بات سے خارج نہیں کرتی کہ اسفار یعنی صبح کی روشنی پھیل جانے کی صورت میں فجر کی نماز کی ادائیگی کا وقت باقی نہیں رہتا۔ اسی طرح ان احادیث و آثار کا مفہوم ہے جن کے اندر سورج کے زرد ہوجانے کو عصر کا آخر وقت قرار دیا گیا ہے کہ اس زردی کی بنا پر عصر کے وقت کی وہ فضیلت فوت ہوجاتی ہے جسے حضور ﷺ نے اہل و عیال اور مال و دولت سے بہتر قرار دیا ہے۔ مغرب کی نماز کا وقت غروب آفتاب کے ساتھ مغرب کے وقت کی ابتداء ہوجاتی ہے۔ اس میں فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ قول باری ہے ( اقم الصلوٰۃ لدلوک الشمس) دلوک کا اسم غروب آفتاب پر محمول ہے جس طرح ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ نیز ارشاد باری ہے ( وزلفا من اللیل) اس سے مراد رات کا وہ حصہ ہے جو دن کے وقت سے قریب ہوتا ہے۔ یہی مغرب کے وقت کی ابتداء ہے۔ واللہ اعلم۔ نیز قول باری ہے ( فسبحان اللہ حین تمسون) ۔ ایک قول ہے کہ اس میں مغرب کی نماز کا وقت بیان ہوا ہے ۔ حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت جابر ؓ ، حضرت ابو سعید ؓ وغیرہم کے واسطے سے اوقات صلوٰۃ کی جو روایتیں حضور ﷺ سے مروی ہیں ان میں یہ ذکر ہے کہ آپ نے دونوں دن مغرب کی نماز اس وقت ادا کی تھی جب سورج غروب ہوچکا تھا۔ حضرت سلمہ بن الاکوع ؓ کا قول ہے کہ ہم حضور ﷺ کے ساتھ مغرب کی نماز اس وقت ادا کرتے تھے جب سورج پردوں میں چھپ جاتا تھا، شاز قسم کے کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ مغرب کی ابتدا اس وقت ہوتی ہے جب نجم یعنی ستارہ طلوع ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں ان لوگوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جو ابو تمیم الجیثانی نے حضرت ابو بصرہ الغفاری ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے ہمیں عصر کی نماز پڑھائی اور پھر فرمایا : ” تم سے پہلے گزر جانے والی امتوں پر بھی یہ نماز پیش کی گئی تھی لیکن انہوں نے اسے ضائع کردیا تھا۔ اس لیے تم میں سے جو شخص اس نماز کی نگہداشت کرے گا اسے دوگنا اجر ملے گا۔ اس نماز کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ شاہد طلوع ہوجائے “۔ شاہد سے مراد نجم یعنی ستارہ ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ ایک شاز روایت ہے۔ اس مغرب کے وقت کی ابتداء کے متعلق حضور ﷺ سے مروی ان اخبار متواترہ کی معارض قرار نہیں دیا جاسکتا جن کا مقہوم یہ ہے کہ غروب آفتاب کے ساتھ مغرب کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ صحابہ کی ایک جماعت سے بھی اس کی روایت موجود ہے جس میں حضرت عمر ؓ ، حضرت عثمان ؓ ، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ شامل ہیں۔ حضرت ابوبصرہ ؓ کی روایت جس میں شاہد یعنی ستارے کے طلوع ہوجانے کا ذکر ہے۔ اس میں یہ احتمال موجود ہے کہ وہ بھی مذکورہ روایات کی مخالف نہیں ہے، وہ اس طرح کہ بعض اوقات ستارہ غروب شمس کے بعد تاریکی گہری ہونے سے قبل ہی نظر آ جاتا ہے۔ چونکہ عام طور پر یہ ہوتا تھا کہ غروب آفتاب کے بعد کوئی نہ کوئی ستارہ نظر آ ہی جاتا تھا اس لیے آپ نے طلوع نجم کے الفاظ سے سوج جھپ جانے کا مفہوم کی تعبیر کردی۔ اگر مغرب کے وقت کے سلسلے میں ستارہ نظر آ جانے کا اعتبار کیا جاتا تو پھر یہ ضروری ہوتا کہ غروب آفتاب سے پہلے ستارہ نظر آ جانے کی صورت میں مغرب کی نماز ادا کرلی جائے کیونکہ بعض اوقات غروب آفتاب سے پہلے بعض ستارے نظر آ جاتے ہیں۔ جبکہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ غروب آفتاب سے پہلے مغرب کی نماز کی ادائیگی درست نہیں ہوتی خواہ کوئی ستارہ کیوں نہ نظر آ جائے۔ اس لیے شاہد یعنی ستارے کے طلوع کے ساتھ مغرب کے وقت کا اعتبار ساقط ہوگیا۔ البتہ مغرب کے آخر وقت کے متعلق اہل علم کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ ، امام ابویوسف، امام محمد، امام مالک، زفر، ثوری اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ مغرب کے وقت کا بھی اول و آخر ہے جس طرح دوسری نمازوں کے اوقات کا ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ کہ مغرب کا صرف ایک وقت ہے۔ پھر اول و آخر کے قائلین کے درمیان اس کے آخر وقت کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب ، ثوری اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ اس کا آخر وقت غروب شفق ہے۔ پھر شفق میں اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ شفق بیاض یعنی سفیدی کو کہتے ہیں۔ امام ابو یوسف ، امام محمد، ابن ابی لیلیٰ ، امام مالک، ثوری، حسن بن صالح اور امام شافعی کا قول ہے کہ شفق سرخی کا نام ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ مغرب اور عشاء کا وقت طلوع فجر تک رہتا ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ شفق کے بارے میں سلف کے اندر بھی اختلاف رائے ہے۔ بعض کا قول ہے کہ یہ سفیدی کا نام ہے اور بعض کا قول ہے کہ شفق سرخی کو کہتے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ ، حضرت عبادہ بن الصامت ؓ اور حضرت شداد بن اوس ؓ کا قول ہے کہ شفق سرخی کو کہتے ہیں۔ ہمیں ابویعقوب ، یوسف بن شعیب الموزن نے روایت بیان کی، انہیں ابوعمران موسیٰ القاسم العصار نے اور حسین بن الفرج البزار نے ، انہیں ہشام بن عبید اللہ نے ، انہیں ہیاج نے اس راوی سے جس نے انہیں عطاء خراسانی سے روایت کی، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ شفق سرخی کو کہتے ہیں۔ ہشام نے کہا کہ ہمیں ابوسفیان نے العمری سے، انہوں نے نافع سے، انہوں نے حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ سرخی کا نام شفق ہے۔ ہشام نے کہا ہمیں محمد بن الحسن نے ثوربن یزید سے انہوں نے مکحول سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضرت عبادہ بن الصامت ؓ اور حضرت شداد بن اوس ؓ عشاء کی نماز سرخی غائب ہوجانے کے بعد پڑھتے تھے۔ یہ دونوں حضرات اس سرخی کو شفق سمجھتے تھے۔ اس طرح ان حضرات سے شفق بمعنی سرخی منقول ہے جن حضرات سے شفق بمعنی سفیدی منقول ہے ان میں حضرت عمر ؓ ، حضرت معاذ بن جبل ؓ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز شامل ہیں۔ ہمیں یوسف بن شعیب نے روایت بیان کی، انہیں ولید بن مسلم نے ، انہیں عنبہ بن سعید الکلاعی نے، انہیں قتادہ نے سعید بن المسیب سے کہ حضرت عمر ؓ نے یہ تحریر ارسال کی تھی کہ شفق کا غائب ہوجانا عشاء کے وقت کی ابتداء ہے اور شفق کا غائب ہونا اس وقت ہوتا ہے جب افق میں سفیدی نظر آتی ہے اور پھر یہ سفیدی غائب ہوجاتی ہے یہی عشاء کے وقت کی ابتداء ہے۔ ہشام نے کہا کہ ہمیں ابو عثمان نے خالد بن یزید سے روایت بیان کی ہے ۔ انہوں نے اسماعیل بن عبید اللہ نے ، انہوں نے عبدالرحمن بن غنم سے، انہوں نے حضرت معاذ بن جبل سے کہ شفق سفیدی کا نام ہے۔ ہشام نے کہا کہ ہمیں محمد بن الحسن نے اس راوی سے روایت بیان کی ہے جس نے حضرت عمر بن العزیز سے روایت کی ہے کہ آپ کہا کرتے تھے۔ شفق سفیدی کو کہتے ہیں۔ “ فصل مغرب کے وقت کا اول و آخر ہے۔ نیز اس کے وقت کی تحدید صرف نماز پڑھنے کے فعل کے ساتھ نہیں ہوتی اس پر قول باری ( اقم الصلوٰۃ لدلوک الشمس الی غسق اللیل ) دلالت کرتا ہے۔ ہم نے سلف میں سے ان حضرات کا قول نقل کیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ دلوک بمعنی غروب ہے اور لفظ میں اس معنی کا احتمال موجود ہے اس لیے آیت اس بات کی مقتضی ہے کہ مغرب کے وقت کا اول و آخر موجود ہو اس لیے کہ قول باری ( الی غسق اللیل) غایت ہے اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ غسق اللیل تاریکی کے اجتماع اور اس کے گہرے ہوجانے کو کہتے ہیں۔ اس لیے آیت کی دلالت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مغرب کا وقت غروب آفتال سے لے کر تاریکی کے اجتماع اور اس کے گہرے ہونے تک ہے۔ اس بات میں ان حضرات کے قول کے بطلان کی وجہ موجود ہے جو مغرب کے لیے صرف ایک وقت کے قائل ہیں جس کی تحدید مصلی کے فعل صلاۃ سے ہوتی ہے۔ اعمش نے ابوصالح سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ( اول وقت المغرب حین تسقط الشمس و ان آخر وقتھا حین یغیب الشمس۔ مغرب کے واقت کی ابتدا غروب آفتاب کے ساتھ ہوتی ہے اور اس کے وقت کی انتہا غروب شفق کے ساتھ ہوتی ہے۔ ابوبکرہ نے اوب موسیٰ اور انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے جو روایت کی ہے اس میں ذکر ہے کہ ایک سائل نے آپ سے نمازوں کے اوقات کے متعلق دریافت کیا تھا۔ آپ نے اس کے جواب میں جو کچھ ارشاد فرمایا تھا اس کے آگے روایت کی گئی تھی۔ اس میں ذکر ہے کہ آپ ﷺ نے پہلے روز مغرب کی نماز اس وقت پڑھی تھی جب سورج غروب ہوگیا تھا اور دوسرے دن آخر وقت میں اس وقت پڑھی تھی جب غروب شفق ہونے والا تھا پھر آپ نے یہ فرمایا تھا : ” ان دونوں وقتوں کے درمیان وقت ہے۔ “ علقمہ بن مرثد نے سلیمان بن بریدہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے آپ سے نماز کے وقت کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے اس سے فرمایا : ” ہمارے ساتھ نماز پڑھو۔ “ آپ نے مغرب کی نماز غروب آفتاب کے بعد پڑھی پھر دوسرے دن غروب شفق سے قبل مغرب کی نماز پڑھی۔ حضرت جابر ؓ کی روایت میں بھی یہی ذکر ہے ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مغرب کے وقت کا اول و آخر ہے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ہے، انہیں معاذ بن المثنیٰ نے ، انہیں محمد بن کثیر نے، انہیں ہمام نے قتادہ سے، انہوں نے ابوایوب سے ، انہوں نے عبداللہ بن عمرو ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ( وقت المغرب مالم تعیب الشفق جب تک شفق غائب نہ ہوجائے مغرب کا وقت باقی رہتا ہے) عروہ بن الزبیر نے حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت کی ہے کہ میں نے حضور ﷺ کو مغرب کی نماز میں دو طریل سورتوں یعنی انعام اور اعراف میں سے طویل تر سورت المص ( سورة اعراف) کی قرأت کرتے ہوئے سنا ہے۔ یہ چیز امداد وقت پر دلالت کرتی ہے، اگر مغرب کے وقت کی تحدید تین رکعتوں کی ادائیگی کے ساتھ کی جاتی تو مغرب کی نماز میں سورة اعراف پڑھنے والا نمازی اس نماز کو اس کے وقت سے موخر کردینے والا قرار پاتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت ابن عباس ؓ ، اور حضرت ابو سعید ؓ کی روایت میں یہ ذکر ہے کہ حضور ﷺ نے اوقات صلوٰۃ کے متعلق سائل کے جواب میں مغرب کی نماز دونوں دنوں میں ایک ہی وقت میں پڑھی تھی یعنی غروب آفتاب کے بعد۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ چیز ہماری مذکورہ بات کی معارض نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں یہ گنجائش ہے کہ آپ نے مستحب وقت کے بیان کی خاطر ایسا کیا تھا۔ ہم نے جو روایتیں بیان کی ہیں ان میں اول اور آخر وقت کا ذکر ہے اور حضور ﷺ کی طرف سے یہ بتایا گیا ہے کہ ان دونوں وقتوں کے درمیان وقت ہے اس لیے یہ بات اولیٰ ہوگی کیونکہ اس بات کو اختیار کر کے دونوں روایتوں پر عمل ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ وہ روایت جس میں یہ ذکر ہے کہ آپ نے دونوں دن مغرب کی نماز ایک ہی وقت میں ادا کی تھی اگر ہماری بیان کردہ روایتوں کی معارضت سے محفوظ بھی ہوتی پھر بھی اس میں یہ دلالت نہ ہوتی کہ اس وقت کے سوا مغرب کا اور کوئی وقت نہیں ہے۔ جس طرح حضور ﷺ کا دونوں دن سورج میں زردی آنے سے پہلے عصر کی نماز ادا کرلینا اس پر دلالت نہیں کرتا کہ عصر کے لیے اس کے سوا اور کوئی وقت نہیں ہے۔ اسی طرح دونوں دنوں میں نصف شب سے قبل عشاء کی نماز کی ادائیگی اس پر دلالت نہیں کرتی کہ نصف شب کے بعد اس کی ادائیگی کا وقت باقی نہیں رہتا۔ عقل وقیاس کی رو سے بھی ہماری بات کا ثبوت ملتا ہے۔ وہ یہ کہ جب تمام فرض نمازوں کے اوقات کے اول و آخر ہیں اور ان کے اوقات کی تحدید ان نمازوں کی ادائیگی کی مدت کے ساتھ نہیں ہوتی تو یہ ضروری ہے کہ مغرب کی نماز کا بھی یہی حکم ہو۔ اس لیے جن حضرات نے مغرب کے وقت کی اس طرح تحدید کی ہے ان کی بات نہ صرف خارج عنالاصول ہے بلکہ اثر اور نظر دونوں کی مخالف بھی ہے۔ امام شافعی پر اس بارے میں یہ لازم آتا ہے کہ وہ بیماری یا سفر کی بنا پر ایک ہی وقت میں مغری اور عشاء کی اکٹھی ادائیگی کو جائز قرار دیتے ہیں۔ جس طرح ظہر اور عصر کی اکٹھی ادائیگی کے جواز کے بارے میں ان کا مسلک ہے۔ اگر مغرب اور عشاء کے درمیان ایسا وقت ہوتا جس کا ان دونوں نمازوں میں سے کسی کے ساتھ تعلق نہ ہوتا تو اس صورت میں ان دونوں نمازوں کو جمع کرنا جائز نہ ہوتا جس طرح فجر اور ظہر کو جمع کرنا جائز ہے کیونکہ ان دونوں نمازوں کے درمیان ایسا وقت آجاتا ہے جس کا تعلق ان دونوں میں سے کسی کے ساتھ نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ دونوں نمازوں کے وقتوں کا ایک دوسرے کے جوار یعنی قریب قریب ہونا ان دونوں کو جمع کرنے کی علت نہیں ہے اس لیے کہ مغرب کو عصر کے ساتھ جمع نہیں کیا جاتا حالانکہ ان دونوں کے وقتوں میں جوار یعنی قرب موجود ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے امام شافعی پر یہ لازم نہیں کیا کہ وہ دونوں وقتوں کے جوار کو جمع کی علت بنائیں۔ ہم نے تو ان پر صرف یہ لازم کیا ہے کہ دونوں وقتوں کے درمیان جوار یعنی قرب نہ ہو تو جمع بین الصلوتین نہیں ہوسکتا اس لیے کہ ہر ایس دو نمازیں جن کے درمیان ایسا وقت موجود ہو جس کا ان دونوں میں سے کسی کے ساتھ تعلق نہ ہو، ان کی اکٹھی ادائیگی جائز نہیں ہوتی۔ واللہ اعلم۔ شفق کے متعلق قول اور اس کے لیے استدلال کا بیان ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب اہل علم میں شفق کے معنی میں اختلاف رائے پیدا ہوگیا۔ کچھ نے کہا کہ یہ سرخی ہے اور کچھ نے کہا کہ یہ سفیدی ہے تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ شفق کا اسم ان دونوں معنوں پر مشتمل ہے اور لغت میں ان دونوں معنوں پر محمول ہوتا ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو ان حضرات نے اس کے یہ معنی بیان نہ کیے ہوتے کیونکہ ان حضرات کو اسموں کے لغوی اور شرعی معانی کا پورا پورا علم تھا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب لفظ قرء کے معنی میں اختلاف رائے ہوگیا بعض نے اس کے معنی حیض کے بیان کیے اور بعض نے طہر کے ۔ تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ قرء کا اسم ان دونوں معنوں پر محمول ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہمیں جس بات کی ضرورت ہے وہ یہ کہ آیت کے اندر ان دونوں معنوں میں سے جو مراد ہو اس پر ہم دلائل قائم کریں۔ ثلعب نحوی کے غلام ابو عمر نے ہمیں بتایا کہ ایک مرتبہ کسی نے ثعلب سے شفق کے معنی پوچھے اس نے جواب میں کہا سفیدی کو شفق کہتے ہیں۔ سائل کہنے لگا کہ سرخی کے معنی پر سفیدی کے معنی کے مقابلہ میں شواہد یعنی لغوی دلائل زیادہ ہیں۔ ثعلب یہ سن کر کہنے لگے کہ کسی دلیل یا شاہد کی وہاں ضرورت پڑتی ہے جہاں لفظ کے معنی میں خفا ہو۔ جہاں تک شفق بمعنی سفیدی کا تعلق ہے تو وہ لغت میں اس قدر واضح اور مشہور ہے کہ اسے کسی شاہد یا لغوی دلیل کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اقک قول کے مطابق شفق کے اصل معنی رقت اور باریکی کے ہیں۔ باریک کپڑے کو اسی بنا پر ” ثوب شفیق “ کہاجاتا ہے اور اس سے رقت قلب کو شفقت کا نام دیا جاتا ہے۔ جب شفقت کے اصل معنی یہ قرار ئاے تو بیاض کا مفہوم زیادہ خاص ہوگا۔ کیونکہ اس صورت میں یہ ان بار کی اجزا سے عبارت ہوگا جو سورج کی روشنی سے باقی رہ گئے ہوں گے۔ سفیدی کے اندر یہاجزاء سرخی کی بہ نسبت زیادہ رقیق اور باریک ہوں گے جو لوگ شفق بمعنی سرخی کے قائل ہیں وہ ابوالنجم کا یہ شعر شاہد کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ حتی اذا الشمس اجتلاھا المجتلی بین سماطی شفق مھول فھی علی الافق کعین الاحول یہاں تک کہ جب سورج کو رنگ برنگے شفق کے دو قطاروں کے درمیان روشن کرنے والے نے روشن کردیا تو افق پر یہ سورج بھینگے شخص کی آنکھ کی طرح نظر آ رہا تھا۔ یہ بات واضح اور معلوم ہے کہ شاعر نے سرخی مراد لی ہے کیونکہ اس نے سورج کی کیفت غروب کے وقت کی بیان کی ہے۔ شفق بمعنی سفیدی کے لیے قول باری ( فلااقسم بالشفق۔ میں شفق کی قسم کھاتا ہوں) سے استدلال کیا جاتا ہے۔ مجاہد کا قول ہے کہ اس کے معنی نہر یعنی دن کے ہیں اس پر قول باری ( واللیل وما وسق اور رات کی اور ان چیزوں کی جنہیں وہ سمیٹ لیتی ہے) دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دن اور رات کی قسم کھائی ہے اور چیز اس بات کی موجب ہے کہ شفق بمعنی سفیدی لیا جائے اس لیے کہ نہار یعنی دن کا اول حصہ وہ ہوتا ہے جب صبح کی سفیدی کا ظہور ہوتا ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ غروب آفتاب کے بعد باقی ماندہ سفیدی شفق ہے۔ قول باری ( اقم الصلوٰۃ لدلوک الشمس الی غسق اللیل) کی بھی اسی معنی پر دلالت ہو رہی ہے۔ ہم نے پہلے بان کردیا ہے کہ دلوک کا اسم غروب آفتاب پر محمول ہوتا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے غسق اللیل کو اس کی غایت اور انتہا قرار دیا ہے۔ غسق اللیل کے متعلق حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اس سے مراد تاریکی کا اجتماع ہے اور یہ بات اسی وقت ہوتی ہے جب سفیدی غائب ہوجاتی ہے کیونکہ جب تک سفیدی باقی رہتی ہے اس وقت تک تاریکی افق میں بکھری ہوئی شکل میں ہوتی ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مغرب کا وقت سفیدی کے غائب ہونے تک باقی رہتا ہے اس سے یہ ثابت ہوا کہ شفق سے مراد سفیدی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت ابن مسعود ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ غسق اللیل غروب آفتاب کو کہتے ہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضرت ابن مسعود ؓ سے مشہور روایت کے مطالق دلوک کے معنی غروب آفتاب کے ہیں۔ اب یہ تو محال ہے کہ جب حضرت ابن مسعود ؓ کے نزدیک دلوک بمعنی غروب آفتاب ہے تو غسق اللیل بھی غروب آفتاب کے معنوں پر محمول ہے کیونکہ قول باری ( اقم الصلوٰۃ لدلوک الشمس الی غسق اللیل) میں دلوک وقت کی ابتدا اور غسق اللیل کو اس کی انتہا اور آخر قرار دیا گیا ہے۔ اور یہ بات محال ہے کہ جس وقت کو اللہ تعالیٰ نے ابتدا قرار دیا اسی وقت کو غایت اور انتہا قرار دے دے۔ جب اصل صورت اس طرح ہے تو لامحالہ یہ کہنا پڑے گا کہ اس راوی کو غلطی لگی ہے جس نے حضرت ابن مسعود ؓ سے غسق اللیل بمعنی غروب آفتاب کی روایت کی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ سے مشہور روایت یہ ہے کہ دلوک شمس کے معنی غروب آفتاب کے ہیں اور غسق اللیل اس وقت کو کہتے ہیں جب شفق غائب ہوجائے۔ یہ روایت حضرت ابن مسعود ؓ سے آیت تاویل کے سلسلے میں ثابت شدہ قول کی روشنی میں درست روایت ہے۔ لیث نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ دلوک شمس جب سورج ڈھل جائے اور غسق اللیل جب سورج غروب ہوجائے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے یہ قول بعید نہیں ہے کیونکہ دلوک کی تاویل میں ان سے یہ ثابت ہے کہ اس معنی زوال شمس کے ہیں۔ تاہم امام مالک نے دائود بن الحصین سے روایت کی ہے، دائود نے کہا کہ مجھے ایک خبر دینے والے نے حضرت ابن عباس ؓ سے یہ خبر دی ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے : ” غسق اللیل رات کے چھا جانے اور اس کی تاریکی کے گہرے ہوجانے کو کہتے ہیں “۔ یہ بات اس چیز کی نفی کرتی ہے کہ غسق اللیل۔ غروب آفتاب کا وقت بن جائے اس لیے کہ غروب کا وقت تاریکی کے اجتماع کا وقت نہیں ہوتا۔ ابوجعفر سے غسق اللیل کے متعلق روایت ہے کہ یہ آدھی رات کا گزر جانا ہے۔ ابراہیم سے مروی ہے کہ غسق اللیل عشاء کے وقت کا نام ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت کے لفظ کے ساتھ ان مذکورہ بالا معانی میں سے اجتماع ظلمت اور سفیدی غائب ہوجانے کے معنی اولیٰ اور زیادہ مناسب ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر غسق اللیل غروب آفتاب کے معنوں میں ہوتا تو وقت کے لیے مذکورہ غایت صرف رات کا وجود ہوتا۔ پھر تقدیر عبارت یعنی اس کی ترتیب کچھ اس طرح ہوتی۔ سورج کے زوال سے لے کر رات تک نماز قائم کرو “ لیکن اس صورت میں رات کے ساتھ غسق کا ذکر کا فائدہ ساقط ہوجاتا۔ جب اس فقرے کے ہر لفظ کو ایک نئے قاعدے اور معنی پر محمول کرنا واجب ٹھہرا تو پھر یہ ضروری ہوگیا کہ غسق اللیل کے لفظ سے جس معنی کا افادہ ہوا ہے وہ ہمیں نہ ہوتا اگر اللہ تعالیٰ اس آیت میں ” الی اللیل “ فرماتا۔ اس لیے غسق کے لفظ سے نئے معنی کا افادہ اسی وقت ہوگا جب وہ اجتماع ظلمت کا مفہوم ادا کرے گا۔ اگر وہ تاریکی کے اجتماع سے خالی رات کے مفہوم کو ظاہر کرے گا تو اس سے کسی نئے معنی کا افادہ نہیں ہوگا۔ شفق بمعنی سفیدی پر اس روایت سے بھی استدلال کیا جاتا ہے جسے ۔۔۔۔۔ بن ابی مسعود نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ حضور ﷺ نے پہلے دن عشاء کی نماز اس وقت پڑھی تھی جب افق تاریک ہوگیا تھا اور بعض دفعہ آپ اس نماز کو موخر کر کے پڑھتے تا کہ لوگ زیادہ سے زیادہ جمع ہوجائیں۔ حضرت ابو مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس روایت میں اوائل اوقات میں حضور ﷺ عشاء کی ادائیگی نیز اواخر اوقات میں آپ کی اس نماز کی ادائیگی کی خبر دی اور یہ بتایا کہ عشاء کے وقت کی ابتدا افق کی تاریکی کے ساتھ ہوتی ہے۔ اب یہ بات معلوم ہے کہ اگر افق پر سفیدی کے حصہ ابھی باقی ہو تو اس پر تاریکی کے لفظ کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ عشاء کے وقت کی ابتدا افق کی سپیدی غائب ہوجانے کے ساتھ ہوتی ہے۔ جو حضرات اس قول کو تسلیم نہیں کرتے ان کا کہنا ہے کہ حضرت ابو مسعود ؓ کا یہ فرمانا حضور ﷺ نے پہلے دن اس وقت عشاء کی نماز پڑھائی جب افق تاریک ہوگیا تھا۔ افق میں سفیدی باقی رہنے کے منافی نہیں ہے۔ اس لیے انہوں نے صرف ایک افق کے تاریک ہوجانے کی اطلاع دی ہے۔ تمام ۔۔۔۔ کی تاریکی کی اطلاع نہیں دی اگر ان کی مراد یہ ہوتی کہ سفیدی غائب ہوچکی تھی تو وہ کہتے کہ تمام افق تاریک ہوگئے تھے۔ اس میں کوئی امتناع نہیں کہ سفیدی باقی ہو اور اس سفیدی کی جگہ کو چھوڑ کر باقی تمام آفاق تاریک ہوں۔ جو لوگ شفق بمعنی سفیدی کے قائل ہیں وہ عروہ کی روایت سے استدلال کرتے ہیں جو انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے نقل کی ہے کہ حضور ﷺ عشاء کی نماز اس وقت پڑھتے جب افق میں یکسانیت ہوجاتی اور بعض دفعہ اسے موخر بھی کردیتے تا کہ لوگوں کا اجتماع ہوجائے۔ اس فقرے میں بھی اسی مفہوم کا احتمال ہے جس کا پہلی روایت کے اندر احتمال تھا جس کے الفاظ یہ ہیں کہ آپ نے عشاء کی نماز اس وقت پڑھی تھی جب افق تاریک ہوگیا تھا۔ جو لوگ شفق بمعنی سرخی کے قائل ہیں وہ اسروایت سے استدلال کرتے ہیں جسے ثوربن یزید نے سلیمان بن موسیٰ سے، انہوں نے عطا بن ابی رباح سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ سے بیان کیا ہے ہے ایک شخص نے حضور ﷺ سے نماز کے اوقات دریافت کیے۔ آپ نے اسے فرمایا کہ میرے ساتھ نماز پڑھو۔ آپ نے پہلے دن شفق غائب ہونے سے پہلے عشا کی نماز پڑھی ۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ یہ بات تو معلوم ہے کہ آپ ﷺ نے سرخی غائب ہونے سے پہلے عشاء کی نماز نہیں پڑھی تھی اس لیے ضروری ہوگیا کہ انہوں نے سفیدی مراد لی ہو۔ جس صحابی نے یہ روایت کی ہے کہ آپ نے شفق غائب ہوجانے کے بعد عشاء کی نماز پڑھی تھی۔ ان کی یہ روایت حضرت جابر ؓ کی اس روایت کی معارض نہیں ہے، اس لیے کہ پہلی روایت کا مفہوم یہ ہوگا کہ آپ نے شفق بمعنی سرخی کے غائب ہونے بعد بعد عشاء کی نماز ادا کی تھی۔ کیونکہ شفق کا اسم سرخی اور سفیدی دونوں پر محمول ہوتا ہے اس لیے شفق بمعنی سرخی لیا جائے تا کہ دونوں روایتیں ایک دوسرے کی معارض نہ ہوں بلکہ ان میں ہم آہنگی پیدا ہوجائے۔ جو لوگ شفق بمعنی سفیدی لیتے ہیں وہ حضرت جابر ؓ کی روایت کو منسوخ مانتے ہیں جس طرح اوقات صلوٰۃ کے متعلق حضرت ابن عباس ؓ کی یہ روایت منسوخ مانی جاتی ہے جس میں ذکر ہے کہ آپ نے دوسرے دن ظہر کی نماز اس وقت ادا کی تھی جس وقت پہلے دن عصر کی نماز پڑھی تھی۔ جو لوگ شفق بمعنی سوخی کے قائل ہیں ان کا اس روایت سے بھی استدلال ہے جو حضور ﷺ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ( الو وقت المغرب اذا غربت الشمس وآخرہ غیبو بۃ الشفق، مغرب کے وقت کی ابتدا اس وقت ہوتی ہے جب سورج غروب ہوجائے اور اس کا آخر اس وقت ہوتا ہے جب شفق غائب ہوجائے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی بعض روایات کے الفاظ یہ ہیح ( اذا غایت الشمس فھو وقت المغرب الی ان یغیب الشفق۔ جب سورج غروب ہوجائے تو یہی مغرب کا وقت ہے یہاں تک کہ شفق غائب ہوجائے) ایک اور روایت میں ہے ( وقت المغرب مالم یسقط ثورالشفق۔ مغرب کا وقت اس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک شفق کی تیزی اور جوش ختم نہ ہوجائے) ان حضرات کا کہنا ہے کہ اس روایت کی بنا پر شفق کو سرخی کے معنوں پر محمول کرنا واجب ہے۔ لیکن جو لوگ شفق بمعنی سفیدی کے قائل ہیں وہ اس روایت کا یہ جواب دیتے ہیں کہ اس کا طہار اس بات کا مقتضی ہے کہ شفق پوری طرح غائب ہوجائے اور یہ سفیدی ہوگی اس لیے اس روایت کی اس پر دلالت ہو رہی ہے کہ شفق بمعنی سفیدی ہے سرخی نہیں ہے۔ کیونکہ قد غاب الشفق ( شفق غائب ہوچکا ہے) کہنا اسی وقت درست ہوتا ہے جب سورج پوری طرح ڈوب چکا ہو۔ یہ نہ ہو کہ بعض حصہ ڈوب چکا ہو اور بعض حصہ ابھی ڈوبنے والا ہو۔ جو لوگ شفق بمعنی سرخی کے قائل ہیں وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ سفیدی اور سرخی ایک ہی شفق نہیں ہوتیں بلکہ یہ دو شفق ہیں۔ شفق کا اسم ان دونوں میں سے اسے شامل ہوگا جو سب سے پہلے غائب ہوتا ہو۔ جس طرح فجر اول اور فجر ثانی یعنی صبح کاذب اور صبح صادق فجر کہلاتے ہیں حالانکہ یہ دونوں ایک فجر نہیں اس لیے فجر کا اسم علی الاطلاق دونوں کو شامل ہوتا ہے۔ یہی حالت شفق کے اسم کے بھی ہے۔ شفق بمعنی سفیدی کے قائلین اس اثر سے بھی استدلال کرتی ہیں جس کی روایت حضرت نعمان بن بشیر ؓ نے کیے حضور ﷺ چاند کی تیسری تاریخ کو چاند غروب ہوجانے کے بعد عشاء کی نماز پڑھتے تھے اس روایت کا ظاہر سفیدی کے غائب ہونے کے مفہوم کا مقتضی ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس اثر پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ غروب قمر کے اوقات موسم سرما اور موسم گرما کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں اور چاند کی تیسری تاریخ کو چاند غروب ہوجانے کے بعد بھی سفیدی کے باقی رہ جانے میں کوئی امتناع نہیں ہے۔ اور اس میں یہ بھی گنجائش ہوت ہے غروب قمر سے پہلے ہی سفیدی غائب ہوچکی ہو۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ابن قتیبہ نے خلیل احمد نحوی سے نقل کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے افق پر ابھرنے والی سفیدی کی پوری نگہداشت کی اور اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ کبھی غائب نہیں ہوتی بلکہ ۔۔۔۔ ہو کر مطلع صبح کی طرف لوٹ آتی ہے۔ ابوبکر جصاص خلیل کی اس بات پر رائے زنی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خلیل کی یہ بات درست نہیں ہے۔ اس مسئلے سے ہمارا بھی واسطہ ہے۔ میں نے صحرا کے اندر گزمیوں کی راتوں میں جب کہ فضا بالکل صاف ہوتی اور آسمان پر کوئی بادل وغیر ہ نہیں ہوتے افق پر ابھرنے والی اس سفیدی کی نگہداشت کی۔ میں نے دیکھا کہ چوتھائی رات گزرجانے کے بعد شفق کی یہ سفیدی غائب ہوگئی تھی جو شخص یہ معلوم کرنا چاہتا ہے وہ تجربہ کر کے دیکھ سکتا ہے کہ خلیل کی بات غلط ہے۔ شفق بمعنی سفیدی پر اس بات سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے کہ صبح کی وقت ہم طلوع شمس سے پہلے افق پر سرخی اور سفیدی کو ابھرتے ہوئے دیکھتے ہیں، یہ سرخی اور سفیدی دونوں کی دونوں ایک ہی نماز کے اوقات میں شمار ہوتی ہیں کیونکہ یہ دونوں در اصل سورج کی روشنی کا عکس جوتی ہیں جبکہ ابھی سورج کا گولہ افق سے نیچے ہی ہوتا ہے۔ اس لیے غروب آفتاب کے بعد افق میں ظاہر ہونے والی سرخی اور سفیدی کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے کہ یہ بھی ایک ہی نماز یعنی مغرب کی نماز کے اوقات میں شمار ہوں کیونکہ جس علت کا ہم نے ذکر کیا ہے وہ صبح اور شام کے دونوں شفق میں موجود ہے۔ عشاء کی نماز کا وقت عشاء کی نماز کا وقت شفق غائب ہوجانے کے ساتھ شروع ہوجاتا ہے۔ شفق کے بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف رائے پر گزشتہ سطور میں روشنی ڈالی جا چکی ہے۔ عشاء کا مستحب اور پسندیدہ وقت نصب شب تک رہت ہے۔ ایک روایت میں تہائی رات گزرنے تک رہتا ہے۔ نصف شب کے بعد تک اسے موخر رکھنا مکروہ ہے اور فجرثانی کے طلوع کے ساتھ عشا کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔ سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ عشاء کا وقت غروب شفق سے شروع ہو کر تہائی رات تک رہتا ہے اور اس کے وقت میں زیادہ سے زیادہ گنجائش نصف شب تک ہوتی ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ شاید سفیان ثوری اور حسن بن صالح نے اپنے درج بالا قول سے مستحب وقت مراد لیا ہے کیونکہ فقہا کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ طلوع فجر کے ساتھ اس کا وقت ختم ہوتا ہے۔ اس لیے جو شخص طلوع فجر سے پہلے بالغ و جائے یا اسلام لے آئے اس پر عشاء کی نماز لازم ہوجاتی ہے اگر حائضہ حیض سے پاک ہوجائے تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔
Top