Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 136
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ١ؕ وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓئِكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا
: جو لوگ ایمان لائے (ایمان والو)
اٰمِنُوْا
: ایمان لاؤ
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَرَسُوْلِهٖ
: اور اس کا رسول
وَالْكِتٰبِ
: اور کتاب
الَّذِيْ نَزَّلَ
: جو اس نے نازل کی
عَلٰي رَسُوْلِهٖ
: اپنے رسول پر
وَالْكِتٰبِ
: اور کتاب
الَّذِيْٓ اَنْزَلَ
: جو اس نے نازل کی
مِنْ قَبْلُ
: اس سے قبل
وَمَنْ
: اور جو
يَّكْفُرْ
: انکار کرے
بِاللّٰهِ
: اللہ کا
وَمَلٰٓئِكَتِهٖ
: اور اس کے فرشتوں
وَكُتُبِهٖ
: اور اس کی کتابوں
وَرُسُلِهٖ
: اسکے رسولوں
وَالْيَوْمِ
: اور روز
الْاٰخِرِ
: آخرت
فَقَدْ ضَلَّ
: تو وہ بھٹک گیا
ضَلٰلًۢا
: گمراہی
بَعِيْدًا
: دور
مومنو ! خدا پر اور اس کے رسول پر اور جو کتاب اس نے اپنے پیغمبر (آخر الزماں ﷺ پر نازل کی ہے اور جو کتابیں اس سے پہلے نازل کی تھیں سب پر ایمان لاؤ اور جو شخص خدا اور اسکے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے پیغمبروں اور روز قیامت سے انکار کرے وہ راستے سے بھٹک کر دور جا پڑا
مومنوں کو ایمان لانے کا حکم دیا گیا قول باری ہے یایھا الذین امنوا امنوباللہ و رسولہ۔ اے ایمان لانے والو ! ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر) اس کی تفسیر میں ایک قول ہے ” اے وہ لوگو جو محمد ﷺ سے پہلے رسولوں پر ایمان لائے ہو اللہ پر اور محمد ﷺ پر بھی ایمان لائو اور اس شریعت پر بھی جو حضور ﷺ اللہ کی طرف سے لے کر آئے ہیں “۔ اس لئے کہ جب یہ لوگ انبیاء سابقین پر ان نشانیوں کی بنا پر ایمان لائے تھے جو ان انبیاء کے ساتھ آئی تھیں تو اسی علت کی بنا پر حضور ﷺ پر بھی ایمان لانا ان پر لازم ہوگیا ہے۔ ایک اور جہت سے بھی ان کے لئے یہ لازم ہے کہ انبیاء سابقین کی کتابوں میں حضور ﷺ کی بشارت موجود ہے اب جبکہ یہ لوگ ان انبیاء پر ایمان لے آئے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان انبیاء نے جو خبریں دیں ان کی بھی انہوں نے تصدیق کی تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ یہ لوگ حضور ﷺ پر بھی ایمان لائیں کیونکہ ان انبیائے کرام نے حضور ﷺ کی نبوت کی خبریں دی تھیں۔ اس طرح آیت کے ذریعے ان لوگوں پر حجت قائم کردی گئی اور ان پر تمام حجت ہوگیا آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ اس میں ان لوگوں سے خطاب ہے جو حضور ﷺ پر ایمان رکھتے ہیں انہیں اس ایمان پر مداومت کرنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ واللہ اعلم۔ مرتد سے توبہ کا مطالبہ کرنا ارشاد باری ہے ان الذین امنواثم کفرواثم امنو ثم کفرواثم ازدادوکفراً ۔ رہے وہ لوگ جو ایمان لائے پھر کفر کیا پھر ایمان لائے پھر کیا کیا پھر اپنے کفر میں بڑھتے چلے گئے) ۔ قتادہ کا قول ہے کہ اس سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں، یہود تو رات پر ایمان لے آئے پھر اس کی مخالفت کر کے کفر کا ارتکاب کرلیا اسی طرح یہ لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے اور ان کی مخالفت کر کے کفر میں مبتلا ہوگئے۔ یہی حالت نصاریٰ کی تھی کہ وہ انجیل پر ایمان لے آئے اور پھر اس کی مخالفت کر کے کفر کا ارتکاب کرلیا۔ سی طرح یہ لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کے بعد ان کی مخالفت کر کے کفر میں پھنس گئے پھر ان دونوں گروہوں نے قرآن مجید اور حضور ﷺ کی مخالفت کر کے اپنے کفر میں اور اضافہ کرلیا۔ مجاہد کا قول ہے کہ آیت منافقین کے بارے میں ہے، پہلے یہ لوگ ایمان لے آئے پھر مرتد ہوگئے پھر ایمان لے آئے اور پھر مرتد ہوگئے اور اسی ارتداد کی حالت میں دنیا سے چل بسے بعض حضرات کا قول ہے کہ اس سے اہل کتاب کا ایک گروہ مراد ہے اس گروہ نے اہل اسلام کو شک میں مبتلا کرنے کی غرض سے یہ طریق کار اختیار کیا تھا کہ حضور ﷺ پر ایمان کا اظہار بھی کرتا اور انکار و کفر کا بھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے اس طریق کار کی اپنے اس قول میں وضاحت کردی ہے۔ وقالتہ الطالفۃ من اھل الکتاب امنوابالذی انزل علی الذین امنو وجہ النفاراکفروا اخرہ لعلھم یرجعون۔ اہل کتاب میں سے ایک گروہ کہتا ہے کہ اس نبی کے ماننے والوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے اس پر صحیح ایمان لائو اور شام کو اس سے انکار کر دو شاید اس ترکیب سے یہ لوگ اپنے ایمان سے پھرجائیں) ۔ ابوبکرحبصاص کہتے ہیں کہ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ مرتد جب تو بہ کرلے تو اس کی توبہ قبول کرلی جائے اسی طرح زندیق کی توبہ بھی قابل قبول ہے کیونکہ آیت میں زندیق یعنی بےدین اور باطنی طور سے کافر اور دوسرے کافروں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ اسی طرح بار بار کفر کے بعد توبہ قبول کرلینے اور ایمان کے اظہار پر اس کے مومن ہونے کے حکم میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔ مرتد اور زندیق سے توبہ کا مطالبہ کرنے کے بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے امام ابوحنیفہ امام ابویوسف امام محمد اور زفر کا اصل یعنی مبسوط میں یہ قول ہے کہ مرتد سے جب تک توبہ کا مطالبہ نہ کرلیا جائے اسے قتل نہیں کیا جائے لیکن اگر کسی نے تو بہ کا مطالبہ کرنے سے پہلے کسی مرتد کو قتل کردیا تو اسے تاوان ادا کرنا نہیں پڑے گا۔ بشربن الولید نے امام ابویوسف سے اس زندیق کے بارے میں جو اسلام کا اظہار کرتا ہو یہ روایت نقل کی ہے ” امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ میں مرتد کی طرح اس سے بھی توبہ کا مطالبہ کرورں گا اگر یہ مسلمان ہوجائے تو اسے جانے دوں گا اور اگر اسلام لانے سے انکار کرے تو اس کی گردن اڑا دوں گا “۔ امام ابوحنیفہ کی اس رائے پر امام یوسف تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ” ایک عرصے تک امام ابوحنیفہ اسی رائے پر قائم رہے لیکن جب آپ نے زنادقہ کی حرکتیں دیکھیں اور انہیں ان حرکتوں کا اعادہ کرتے ہوئے دیکھا تو آپ نے اپنی رائے بدل لی اور فرمایا کہ اب میری رائے یہ ہے کہ اگر میرے پاس کوئی زندیق لایا جائے تو اس سے توبہ کا مطالبہ کئے بغیر اس کی گردن اڑا دینے کا حکم دوں گا “ اگر قتل ہونے سے پہلے پہلے وہ توبہ کرلے گا تو اسے جانے دوں گا “ سلیمان بن شعیب نے اپنے والد سے اور انہوں نے امام ابویوسف سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا ” جب زندیق یہ دعویٰ کرے کہ اس نے توبہ کرلی ہے تو میں اسے محبوس کردوں گا یہاں تک کہ مجھے اس کی توبہ کی حقیقت کا علم ہوجائے “۔ امام محمد نے سیرکبیر میں امام ابویوسف سے اور انہوں نے امام ابوحنیفہ سے نقل کیا ہے کہ مرتد پر اسلام پیش کیا جائے گا اگر وہ اسلام قبول کرلے تو فبہا ورنہ اسی جگہ اس کی گردن اڑا دی جائے گی البتہ اگر وہ کچھ مہلت طلب کرے تو اسے تین دن کی مہلت دی جائے گی۔ امام محمد نے اس سلسلے میں کسی اختلاف کی نشاندہی نہیں کی ہے۔ ابوجعفر طحاوی نے کہا کہ انہیں سلیمان بن شعیب نے اپنے والد سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے امام ابویوسف سے فقہی اقوال کے نوادر میں جن کے متعلق ان کا بیان ہے کہ امام ابویوسف نے انہیں اپنے امالی (شاگردوں کو زبانی طور پر لکھوائے گئے مسائل) میں شامل کرلیا تھا درج ذیل قول نقل کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ ” زندیق کو خفیہ طور پر قتل کر دوکیون کہ اس کی توبہ کی کوئی شناخت اور حقیقت نہیں ہوتی “۔ امام ابویوسف نے اس قول سے کسی اختلاف کا ذکر نہیں کیا ابن القاسم نے امام مالک سے ذکر کیا ہے کہ مرتد پر تین دفعہ اسلام پیش کیا جائے گا۔ اگر وہ اسلام قبول کرلے گا تو ٹھیک ہے ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا۔ اگر اس نے خفیہ طور پر ارتداد اختیار کرلیا ہو تو اسے قتل کردیا جائے گا اور توبہ کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا جس طرح زنادقہ کے قتل کا مسئلہ ہے۔ توبہ کا مطالبہ تو صرف ایسے شخص سے کیا جائے گا جو اپنے اس دین کا اظہار کرتا ہو جسے اس نے اسلام چھوڑ کر اپنا لیا تھا۔ امام مالک کا قول ہے کہ زنادقہ سے توبہ کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ انہیں قتل کردیا جائے گا البتہ قدریہ (مسلمانوں کے ایک فرقے کا نام ہے جو خیر کی نسبت اللہ کی طرف کرتا تھا اور شر کی نسبت کسی اور کی طرف) فرقے سے تعلق رکھنے والوں سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا۔ امام مالک سے پوچھا گیا کہ ان سے توبہ کا کس صورت میں مطالبہ کیا جائے گا۔ آپ نے فرمایا :” ان سے کہا جائے گا کہ اپنے عقائد سے دست بردار ہو جائو اگر وہ ایسا کرلیں گے تو فبہا ورنہ انہیں قتل کردیا جائے گا۔ اگر یہ لوگ علم کا اقرار کرلیں گے تو انہیں قتل نہیں کیا جائے گا “۔ امام مالک نے زید بن اسلم سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا من غیردینہ فاضر بواعنقہ۔ جو شخص اپنا مذہب تبدیل کرے اس کی گردن ماردو۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کا یہ حکم ان لوگوں کے متعلق ہے جو اسلام سے دست بردار ہوجائیں۔ اور اس کا اقرار نہ کریں ان لوگوں کے متعلق نہیں ہے جو یہودیت سے نکل کر نصرانیت میں داخل ہوگئے ہوں یا نصرانیت سے نکل کر یہودیت کو گلے لگا لیا ہو۔ امام مالک کا قول ہے کہ جب مرتد اسلام کی طرف لوٹ آئے تو اس کی گردن ماری نہیں جائے گی۔ یہ اچھا اقدام ہوگا کہ مترد کو تین دن تک مہلت دے دی جائے یہ بات مجھے بہت پسند ہے۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ مرتد سے توبہ کا مطالبہ ضرور کیا جائے گا خواہ اس نے اپنے طور پر سو مرتبہ کیوں نہ توبہ کرلی ہو۔ لیث کا قول ہے کہ لوگ ایسے لوگوں سے توبہ کا مطالبہ نہیں کرتے جو مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے ہوں اور پھر ان کے خلاف ارتداد کی گواہی قائم ہوگئی ہو۔ عادل گواہوں کی گواہی پر انہیں قتل کردیا جائے گا خواہ انہوں نے توبہ کرلی ہو یا نہ کی ہو۔ امام شافعی کا قول ہے کہ مرتد سے ظاہری طور پر توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا اسی طرح زندیق سے بھی اگر توبہ نہیں کرے گا تو قتل کردیا جائے گا۔ تین دفعہ توبہ کے مطالبہ کے سلسلے میں دو قول ہیں ایک تو حضرت عمر ؓ کی روایت ہے دوسرا قول یہ کہ اس میں تاخیر نہیں کی جائے گی کیونکہ حضور ﷺ نے اس بارے میں کسی قسم کے نرم رویے کا حکم نہیں دیا۔ یہ ظاہر حدیث ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ سفیان نے جابر سے اور انہوں نے شعبی سے روایت کی ہے کہ مترد سے تین مرتبہ توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا پھر انہوں نے آیت زیر بحث تلاوت کی۔ حضرت عمر ؓ سے مروی ہے کہ آپ نے مترد سے تین مرتبہ توبہ کا مطالبہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا من بدل دینہ فاقتلوہ) اس میں اس سے توبہ کے مطالبے کا ذکر نہیں ہے۔ البتہ اس روایت میں اس بات کا جواز موجود ہے کہ اسے اس پر محمول کیا جائے کہ وہ قتل کا مستحق ہوچکا ہے اور یہ بات اسے اسلام کی دعوت دینے اور توبہ کی طرف راغب کرنے میں مانع نہیں ہے کیونکہ قول باری ہے ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ۔ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ موعظت کے ذریعے بلائو) ۔ نیز ارشاد باری ہے قل ھذہ سبیلی ادعوا الی اللہ علی بصیرۃ انا ومن اتبعنی، اللہ نے دین اسلام کی طرف بلانے کا حکم دیا اور اس میں مرتد اور غیر مرتد کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا۔ ظاہر آیت تمام کافروں کو دعوت اسلام دینے کی طرح مترد کو بھی اس کی دعوت دینے کا مقتضی ہے مرتد کو دعوت اسلام دینے کا مطلب اس سے توبہ کا مطالبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا قل للذین کفروا ان ینتھوا یغفرلھم ماقد سلف۔ آپ کافروں سے کہہ دیجئے کہ اگر وہ باز آجائیں تو ان کے پچھلے گناہ معاف کردیئے جائیں گے) یہ حکم ایمان کی دعوت دینے کو بھی متضمن ہے۔ اس آیت سے زندیق سے توبہ کے مطالبے پر بھی استدلال کیا جاتا ہے کیونکہ لفظ کا عموم اس کا متقاضی ہے۔ اسی طرح قول بارای ان الذین امنو اثم کفرواثم امنواثم کفروا) نے زندیق اور غیر زندیق میں کوئی فرق نہیں کیا۔ اس لئے ظاہر آیت اس کے اسلام کو قبول کرلینے کا متقاضی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری قل للذین کفروا ان ینتھوا یغفرلھم ماقد سلف) میں مرتد سے قتل کا حکم دور ہوجانے پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس لئے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس کے سارے گناہ اگرچہ معاف ہوجائیں گے لیکن پھر بھی وہ واجب القتل ہوگا جس طرح محصن زانی تائب ہونے کے باوجود بھی رحم کردیا جائے گا اور کسی شخص کا قاتل توبہ کرنے کے باوجود قابل گردن زدنی ہوگا۔ اس کے جواب میں کہا جائے کہ قول باری ان ینتھوایغفرلھم ماقد سلف۔ اس کے گناہوں کی بخشش اور اس کی توبہ کی قبولیت کا مقتضی ہے کیونکہ اگر اس کی توبہ قابل قبول نہ ہوتی تو اس کے گناہوں کی بخشش بھی نہ ہوتی۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ اس سے توبہ کا مطالبہ درست ہے اور دنیا اور آخرت کے احکام کے لحاظ سے اس کی توبہ کی قبولیت بھی صحیح ہے نیز کافر اس بنا پر قتل کا سزا وار ہوتا ہے کہ وہ کفر پر قائم رہتا ہے لیکن جب وہ کفر کی حالت سے ایمان کی طرف منتقل ہوجاتا ہے تو اس سے وہ سبب زائل ہوجاتا ہے جو اس کے قتل کا موجب تھا اور اس کا خون بہانا ممنوع ہوجاتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ایک شخص جو ارتداد کا کھلم کھلا اظہار کرتا ہے جب اسلام کا اظہار کرلیتا ہے تو وہ اپنے خون کو محفوظ کرلیتا ہے یہی کیفیت زندیق کی بھی ہے حضرت ابن عباس ؓ اس مرتد کے متعلق روایت کرتے ہیں جو بھاگ کر مکہ پہنچ گیا تھا۔ اس نے وہاں سے اپنے لوگوں کو لکھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کرو کہ میرے لئے توبہ کی کوئی گنجائش ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کیف یھدی اللہ قوماً کفروا بعدایمانھم، اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کیسے ہدایت دے سکتا ہے جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے) تا قول باری الا الذین تابوا من بعد ذلک واصلحوا۔ مگر وہ لوگ جو اس کے بعد توبہ کرلیں اور اپنا رویہ درست کرلیں) اس مرتد کے رشتہ داروں نے اسے یہی لکھ بھیجا جس پر وہ واپس آکر مسلمان ہوگیا اس کے ظاہری قول پر توبہ کا حکم لگایا گیا اس لئے اس پر عمل کرتے ہوئے ایسے شخص کے باطن کو نظر انداز کر کے اس کے ظاہری قول پر حکم لگانا واجب ہوگیا۔ جو شخص یہ کہے کہ ” جب ایک شخص باطنی طور پر کافر ہو میں اس کی توبہ کو نہیں پہچانتا “۔ تو اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ ہم اس کے باطنی اعتقاد کی حقیقت کا اعتبار کرنے کے مکلف نہیں ہیں کیونکہ ہمیں کسی کے باطن تک رسائی نہیں ہوتی اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے ہمیں کسی پر محض گمان کی بنیاد پر حکم لگانے کی ممانعت کردی ہے۔ چناچہ ارشاد باری ہے اجتنبوا کیثراً من الظن ان بعض الظن ثم۔ بہت سے گمانوں سے پرہیز کرو کیونکہ بعض گمان گناہ کے موجب ہوتے ہیں) اور رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے ایاکم وانص مانہ کذب الحدیث۔ گمان سے کام لینے سے بچو کیونکہ گمان سب سے بڑھ کر جھوٹی بات ہے) ۔ ارشاد باری ہے ولاتقف مالیس لک بہ علم۔ جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو) نیز فرمایا اذاجاء کم المومنات مھا جو ات فامتنوھن اللہ اعلم بایمانھن۔ جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو ان کا امتحان لو، اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کے بارے میں بہتر جانتا ہے) ۔ یہ بات واضح ہے کہ آیت میں یہ مراد نہیں ہے کہ ان عورتوں کے ضمائر اور اعتقادات کے متعلق حقیقی طور پر علم حاص کرلیا جائے بلکہ صرف یہ مراد ہے کہ ان کے قول کی بنا پر ان سے ایمان کا جو ظہور ہوجائے اس کا اعتبار کرلیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس چیز کو علم قرار دیا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ دنیاوی احکام میں ضمائر یعنی دلوں میں پوشیدہ باتوں کا اعتبار نہیں کیا جاتا بلکہ اعتبار صرف قول کی بنا پر ظاہر ہونے والی باتوں پر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ولاتقولوانمن القی الیکم السلام لست مومناً ۔ جو شخص بڑھ کر تمہیں سلام کرے اس سے تم یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے) ۔ اس میں تمام کافروں کے لئے عموم ہے حضور ﷺ نے حضرت اسامہ بن زید ؓ جب انہوں نے اس شخص کو قتل کردیا تھا جس نے زبان سے کلمہ طیبہ کا اقرار کیا تھا، اور حضرت اسامہ ؓ نے اس کے اس کلمہ پڑھنے کو اپنی جان بچانے کے لئے ایک حیلہ پر محمول کیا تھا۔ فرمایا تھا ھلاشفقت عن قلبہ۔ تم نے اس کا دل پھاڑ کر کیوں نہیں دیکھ لیا) ۔ سفیان ثوری نے محمد بن اسحاق سے اور انہوں نے حاثہ بن مضرب سے روایت کی ہے کہ حارثہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ میرے دل میں عرب کے کسی شخص کے خلاف کوئی کینہ اور عداوت نہیں ہے میرا گزر بنی حنیفہ کی مسجد کے پاس سے ہوا تو میں نے دیکھا کہ یہ لوگ مسلیمہ کذاب پر ایمان رکھتے ہیں۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے آدمی بھیج کر ان لوگوں کو اپنے پاس بلوایا اور ان سے توبہ کا مطالبہ کیا۔ ان میں ابن النواحہ واحد شخص تھا جس سے حضرت عبداللہ ؓ نے توبہ کرنے کو نہیں کہا اور یہ فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ” ابن النواحہ، اگر تم ایلچی بن کر نہ آئے ہوتے تو میں تمہاری گردن اڑا دیتا “۔ پھر ابن النواحہ سے مخاطب ہو کر فرمایا :” آج تم قاصد بن کر نہیں آئے لیکن یہ تو بتائو کہ تمہارا وہ اسلام کہاں گیا جس کا تم اظہار کرتے پھرتے تھے ” ابن النواحہ نے یہ سن کر کہا کہ میں تو صرف تم لوگوں سے بچنے کے لئے اسلام کا اظہار کرتا تھا۔ حضرت عبداللہ ؓ نے قرظہ بن کعب کو بازار میں لے جا کر اس کی گردن اڑا دینے کا حکم دیا پھر فرمایا ” جو شخص چاہے ابن النواحہ کو بازار میں کٹی ہوئی گردن کے ساتھ دیکھ لے “۔ اس روایت سے وہ استدلال کرتے ہیں جو زندیق کی توبہ کی عدم قبولیت کے قائل ہیں اس لئے کہ حضرت عبداللہ ؓ نے ان تمام لوگوں سے توبہ کا مطالبہ کیا اور انہیں اس کی ترغیب دی یہ لوگ کھلم کھلا اپنے کفر کا اظہار کرتے تھے لیکن آپ نے ابن النواحہ کو توبہ کی ترغیب نہیں دی اور نہ اس سے اس کا مطالبہ کیا کیونکہ اس نے یہ اقرار کرلیا تھا کہ وہ کفر چھپائے ہوئے تھا۔ وہ صرف اپنی جان بچانے کی خاطر اسلام کا اظہار کرتا تھا۔ ابن النواحہ کا قتل صحابہ کرام کی موجودگی میں ہوا تھا کیونکہ روایت میں اس کا بھی ذکر ہے کہ حضرت عبداللہ نے اس کے متعلق صحابہ کرام سے مشورہ لیا تھا۔ زہری نے عبیداللہ بن عبداللہ سے روایت کی ہے کہ کوفہ میں کچھ ایسے لوگ پکڑے گئے جو مسلیمہ کذاب پر ایمان رکھتے تھے عبیداللہ نے ان کے متعلق حضرت عثمان ؓ کو لکھا، حضرت عثمان ؓ نے جواب میں تحریر کیا کہ ان لوگوں پر دین حق پیش کرو اور ان سے کلمہ طیبہ پڑھنے کا مطالبہ کرو جو شخص لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ : پڑھ لے اور مسیلمہ کے دین سے بیزاری کا اظہار کرے اسے چھوڑ دو اور قتل نہ کرو۔ اور جو شخص مسیلمہ کے مذہب پر قائم رہے اسے قتل کر دو کچھ لوگوں نے توبہ کا اظہار کیا اور لوگ مسیلمہ کے مذہب پر جمے رہے اور قتل کردیئے گئے۔ مومنوں کے علاوہ کفار سے مدد نہ لی جائے
Top