Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 13
تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ١ؕ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا١ؕ وَ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
تِلْكَ
: یہ
حُدُوْدُ
: حدیں
اللّٰهِ
: اللہ
وَمَنْ
: اور جو
يُّطِعِ اللّٰهَ
: اللہ کی اطاعت کرے
وَرَسُوْلَهٗ
: اور اس کا رسول
يُدْخِلْهُ
: وہ اسے داخل کرے گا
جَنّٰتٍ
: باغات
تَجْرِيْ
: بہتی ہیں
مِنْ تَحْتِھَا
: ان کے نیچے
الْاَنْھٰرُ
: نہریں
خٰلِدِيْنَ
: ہمیشہ رہیں گے
فِيْھَا
: ان میں
وَ
: اور
ذٰلِكَ
: یہ
الْفَوْزُ
: کامیابی
الْعَظِيْمُ
: بڑی
یہ (تمام احکام) خدا کی حدیں ہیں اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر کی فرمانبرداری کرے گا خدا اس کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہہ رہی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہے۔
(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر) اے ابن آدم ! دوچیزیں ایسی ہیں جن میں سے کسی ایک پر بھی تجھے اختیار حاصل نہیں۔ ایک تو یہ کہ میں نے اس وقت تیرے مال تیرے لیے ایک حصہ رہنے دیا۔ جب میں نے تجھے پاک صاف کرنے کے لیے حلق میں تیری سانس کی آمدورفت کی جگہ کو اپنی گرفت میں کرلیا یعنی تیری روح قبض کرلی اور دوسری یہ کہ تیری وفات کے بعد میروں بندوں کی تیرے لیے دعائیں تجھ تک پہنچتی رہتی ہیں۔ ) اس روایت میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ انسان کی وفات کے وقت اس کے مال کا ایک حصہ اس کا ہوتا ہے۔ سارامال اس کا نہیں ہوتا۔ یعنی وہ مال کے ایک حصے (تہائی) کا مالک ہوتا ہے جس میں وہ صدقہ یاوصیت کرسکتا ہے۔ سارے مال کا نہیں کرسکتا۔ ہمیں محمد بن احمد بن شیبہ نے روایت بیان کی، انہیں محمد بن صالح بن النطاح نے، انہیں عثمان نے کہ میں نے طلحہ بن عمرو سے سنا کہ انہیں عطاء نے حضرت ابوہر ؓ پرہ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (ان اللہ اعطاکم ثلث اموالکم فی اخواعمارکم زیادۃ فی اعمالم، اللہ تعالیٰ نے آخری عمر میں تمہیں تمہارے تہائی مال کا مالک بنادیا ہے۔ اور یہ تمہارے اعمال میں ایک زائد چیزکا اضافہ ہے۔ ) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ وہ روایات جو وصیت کو تہائی مال تک محدودرکھنے کی موجب ہیں ہمارے تردیک تواترکادرجہ رکھتی ہیں اور یہ تواترموجب علم ہے کیونکہاہل اسلام نے ان روایات کو قبول کیا ہے۔ اور یہ آیت وصیت میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی مراد کو بیان کریت ہیں کہ وصیت تہائی مال تک محدود ہے۔ قول باری (من بعد وصیۃ یوصی بھا اؤدین) کی اس بات پر دلالت ہورہی ہے۔ کہ جس شخص کے ذمے کسی کا قرض نہ ہو اور اس نے وصیت بھی نہ کی ہوتوا س کا سارامال اس کے ورثاء کو مل جائے گا نیز یہ کہ اگر اس پر زندگی میں حج فرض ہوچکاہویاز کو اۃ عائد ہوچکی ہو تو ورثاء پر ان کی ادائیگی واجب نہیں ہوگی ہاں اگر وہ ان کی ادائیگی کی وصیت کرجائے تو ورثاء کے لیے تہائی مال کے اندرایساکرناضروری ہوگا۔ کفارات اور نذورکا بھی یہی حکم ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ حج ایک دین ہے۔ اسی طرح مال میں عائدہونے والاہرفرض دین ہوتا ہے اس لیے کہ حضور ﷺ نے قبیلہ خثعم کی اس خاتون کو جس نے آپ سے اپنے باپ پر فرض ہونے والے حج کو اس کی طرف سے ادا کرنے کے متعلق پوچھا تھا۔ فرمایا تھا (أرأیتلوکان علی ابیک دین فقضیۃ اکان یجزئی، تمھارا کیا خیال ہے کہ اگر تمھارے باپ پر قرض ہوتا اور تم اسے اداکردیتیں۔ توآیا اس کی طرف سے ادانہ ہوجاتا) ۔ اس پر خاتون نے اثبات میں جواب دیا۔ اس پر آپ نے فرمایا ندین اللہ احق بالقضاء ، تو پھر اللہ کا دین اداکرنازیادہ ضروری ہے) اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور ﷺ نے اس حج کو دین اللہ، کا نام دیا اور اس اسم یعنی دین کو ایک قید یعنی اللہ کے ساتھ مقید کرکے بیان فرمایا اس لیے اس مقید اسم میں اطلاق یعنی مطلق دین شامل نہیں ہوگا۔ جبکہ قول باری (من بعدوصیۃ یوصیبھا اؤدین) کا تقاضایہ ہے کہ ترکے کی تقسیم کی ابتداء اس چیز سے کی جائے جو علی الاطلاقدین کہلاتی ہے اس لیے اس کے تحت وہ دین نہیں آئے جسے صرف مقیدصورت میں دین کا نام دیاجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لغت اور شرع میں بہت سے اسماء مطلق ہوتے ہیں اور بہت سے مقیدجس کی بناپر مطلق کو ان ہی چیزوں پر محمول کیا جاتا ہے جن پر ایک اسم علی الاطلاق واقع ہوتا ہے ہماری اس وضاحت کی بناپرجب آیت ان قرضوں کو شامل نہیں جو حق اللہ ہیں تو قول باری (من بعد وصیۃ یوصی بھا آؤدین) کا اقتضاء یہ ہے کہ جب مرنے والے نے کوئی وصیت نہیں کی اور اس کے ذمے کسی کا قرض بھی نہیں ہے۔ تو اس صورت میں اس کے ورثاء اس کے تمام ترکے کے مستحق ہوں گے۔ حضرت سعد ؓ کی گذشتہ روایت بھی اس پر دلالت کررہی ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے پوچھا تھا کہ آیامیں اپنے سارے مال کا صدقہ کرسکتا ہوں ؟ ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں آیامیں اپنے سارے مال کی وصیت کرسکتا ہوں ؟ حضور ﷺ نے جواب میں فرمایا تھا کہ تہائی مال بھی بہت زیادہ ہے۔ اس ارشاد میں آپ نے حج، زکواۃ اور اس طرح کے دوسرے حقوق اللہ کو مستثنیٰ نہیں کیا تھا۔ نیز تہائی مال سے زائد کے صدقے اور وصیت سے منع فرمادیا تھا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اگر مرنے والا اللہ کے ان حقوق کی ادائیگی کی وصیت کرجائے گا تو وہ بھی تہائی مال کے اندرجاری ہوگی۔ اس پر حضرت ابوہریر ؓ ہ کی گذشتہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جس میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ، اللہ تعالیٰ نے آخری عمر میں تمہارے اموال میں سے تہائی حصہ تمہیں عطا کردیا اور یہ بات تمہارے اعمال میں ایک اور چیزکا اضافہ ہے اسی طرح اس پر حضرت ابن عمر ؓ کی گذشتہ روایت بھی دلالت کررہی ہے جس میں حضور ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے نقل کرتے ہوئے فرمایا کہ اے انسان میں نے جس وقت حلق میں تیرے سانس کی آمدورفت کی جگہ کو اپنی گرفت میں کرلیا اس وقت تیرے لیے تیرے مال میں سے ایک حصہ مقرر کردیا۔ یہ تمام روایات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ مرنے والے کا اگرچہ فرض شدہ زکواۃ حج اور دوسری فرضی عبادات کے متعلق وصیت کرنا واجب ہے۔ لیکن اس وصیت کا جواز صرف تہائی مال کے اند رہے۔ وارث کے لیے وصیت کرجانے کا بیان ہمیں محمد بن ب کرنے روایت بیان کی، انہیں ابوداؤد ن، انہیں عبدالوہاب بن نجدہ نے انہیں ابن عیاش نے شرجیل بن مسلم سے انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابوامامہ ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ میں نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ۔ (ان اللہ قداعطی کل ذی حق حقہ فلاوصیۃ لوارث، اللہ تعالیٰ نے ہر حق دارکواس کا حق عطاکردیا ہے اس لیے وارث کیلیے کوئی وصیت نہ کی جائے۔ ) عمروبن خارجہ ؓ نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا (لاوصیۃ لوارث الاان تجزھا الورثۃ۔ ) کسی وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں ہے الایہ کہ دوسرے ورثاء بھی اس وصیت کی اجازت دے دیں۔ اہل سیرنے حجۃ الوداع کے موقعہ پر حضور ﷺ کا جوخطبہ نقل کیا ہے اس میں ہے کہ (لاوصیۃ لوارث، وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں) جس طرح وصیت کو تہائی مال تک محدودرکھنے کے وجوب کی روایت بکثرت نقل ہوکرخبرمستفیض بن گئی ہے اسی طرح وارث کے لیے قسم کی وصیت نہ کرنے کی روایت نے بھی خبرمستفیض کی شکل اختیار کرلی ہے۔ ان دونوں روایتوں میں خبرمستفیض ہونے اور ان پر فقہاء کے عمل کرنے نیزا نہیں قبول کرلینے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ اس لیے ہمارے نزدیک ان کی حیثیت خبرمتواتر کی سی ہے جو علم کا موجب ہوتا ہے اور جس سے شک وشبہ کا ازالہ ہوجاتا ہے۔ عمروبن خارجہ ؓ کی روایت میں حضور ﷺ کا ارشاد (الاان تجیزھا الودثۃ، الایہ کہ دوسرے ورثا بھی اس کی اجازت دے دیں) اس پر دلالت کرتا ہے کہ اگر دوسرے ورثاء تہائی سے زائد کی اس وصیت کی اجازت دے دیں تو یہ جائزہوجائے گی اس صورت میں اس وصیت کی حیثیت وارث کی طرف سے ہبہ کی نہیں ہوگی بلکہ وصیت کرنے والے کی طرف سے وصیت کی ہوگی۔ اس لیے کہ وارث کی طرف سے ہبہ موروث یعنی مرنے والے کی طرف سے اجازت کی صورت نہیں ہوتی۔ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی، انہیں عبداللہ بن عبدالصمدنے، انہیں محمد بن عمردنے ، انہیں یونس بن راشد نے عطاء خراسانی سے، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (لاوصیۃ لوارث الاان تشاء الورثۃ، کسی وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں البتہ اگر دوسرے ورثاء ایساچا ہیں۔ ) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اس شخص کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے جس نے تہائی سے زائد کی وصیت کی ہو اور اس کی زندگی میں اس کے دوسرے ورثاء اس پر رضامندہوگئے ہوں یا اس نے اپنے بعض ورثاء کے لیے وصیت کی ہو اور اس کی زندگی میں باقی ورثاء نے اس کی اجازت دیدی ہو امام ابوحنیفہ، امام یوسف، امام محمد، زفر، حسن بن زیاد، حسن بن صالح، عبیداللہ بن الحسن اور امام شافعی کا قول ہے کہ یہ بات اس وقت تک جائز نہیں ہوگی جب تک دوسرے ورثاء اس شخص کی موت کے بعد بھی اس کی اجازت نہ دے دیں۔ قاضی ابن ابی لیلیٰ ، اور عثمان البتی کا قول ہے کہ دوسرے ورثاء کے لیے مورث کی موت کے بعد اپنے قول سے رجوع کرلینے کا اختیار نہیں ہوگا اور وصیت درست رہے گی، ابن القاسم نے امام مالک سے ان کا قول نقل کیا ہے کہ جب مرنے والا اس سلسلے میں اپنے ورثاء سے اجازت حاصل کرے تو ہر وارث اس مرنے والے سے جدا ہوجائے گا جس طرح کہ بیٹا اپنے باپ سے بھائی اور چچاز ادبھائی اس سے جدا ہوجاتے ہیں جو درحقیقت اس کے عیال میں نہیں ہوتے، اس لیے ان ورثاء کو اپنے قول سے رجوع کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ لیکن مرنے والے کی بیوی، اس کی وہ بیٹیاں جو ابھی اس سے جدا نہیں ہوئی یعنی ابھی تک ان کی شادیاں نہ ہوئی ہوں اور ہر وہ فرد جو اس کے عیال میں ہو خواہ وہ بالغ ہوچکاہو، ایسے ورثاء کو اپنے قول سے رجوع کرلینے کا اختیارہوگا۔ لیث بن سعد کا بھی اس بارے میں وہی قول ہے جو امام مالک کا ہے۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اگر دوسرے ورثاء اس شخص کی وفات کے بعد بھی اس وصیت کی اجازت دے دیں تو تمام فقہاء کے نزدیک یہ وصیت جائز ہوجائے گی نیز ابوبکرجصاص کی یہ بھی رائے ہے کہ جب دوسرے ورثاء کو میت کی زندگی میں اس وصیت کے نسخ کرنے کا اختیار نہیں تھا تو ن کی اجازت بھی قابل عمل نہیں ہوگی کیونکہ میت کی وفات سے پہلے ورثاء کسی چیز کے بھی اس دار نہیں بنے تھے۔ واللہ اعلم۔ کوئی وارث نہ ہونے کی صورت میں سارے مال کی وصیت کا بیان امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد، زفر، اور حسن بن زیادکاقول ہے کہ اگر میت کا کوئی وارث نہ ہو اور اس نے سارے مال کی وصیت کردی ہوتوایسی وصیت جائز ہے۔ شریک بن عبداللہ کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک، اوزاعی اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ ایسی صورت میں بھی صرف تہائی مال کی وصیت جائز ہوگی۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ہم نے قول باری (والذین عاقدت ایمانکم فاتوھم نصیبھم) کی دلالت کا ذکرسابقہ ابواب میں کردیا ہے۔ اور یہ بھی بیان کردیا ہے۔ کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ حلف اور معاہدہ کی بناپر ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے۔ معاہدے کی یہ صورت میں ہوتی تھی کہ ایک شخص کسی دوسرے کے ساتھ یہ معاہدہ کرتا کہ اگر اس کی وفات ہوجائے گی تو یہ دوسراشخص اس کی میراث کے مقررشدہ حصے کا وارث ہوگا۔ یہ حصہ تہائی یا اس سے بھی زائد ہوتا تھا۔ ابتدائے اسلام میں اس صورت پر عملدرآمدہوتارہا اور یہ طریقہ باقی رہا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (والذین عاقدت ایمانکم فاتوھم نصیبھم) کے ذریعے اسے فرض کردیا تھا۔ اس کے بعد یہ آیتیں نازل فرمائیں (للرجال نصیب مماترک الوالدن لاقربون) اور (یوصیکم اللہ فی اؤلاد کم للذکرمثل حظ الانثیین) اور (واؤلوا الارحام بعضھم اؤلی ببعض فی کتاب اللہ) اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ذوی الارحارم کو حلیفوں سے بڑھ کر حق دارقراردیا لیکن حلیفوں کی میراث کو بالکلیہ باطل نہیں ٹھہرایا بلکہ ذوالانساب یعنی رشتہ داروں کو ان کے مقابلے میں اولی قراردیاجس طرح کہ بیٹے کو بھائی کے مقابلے میں اولی ٹھہرایا۔ اس لیے اگر کسی انسان کے رشتہ دارنہ ہوتے تو اس کے لیے یہ بات جائز ہوتی کہ معاہدے کی بناپر ایک دوسرے کی وراثت کے اصول کے مطابق اپنامال اپنے حلیف کودے دیتا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (من بعدوصیۃ یوصی بھا اؤدین) کے ذریعے وصیت کے بعد میراث میں ذوالفروض کے حصے مقررکیئے اور فرمایا (للرجال نصیب مماترک الوالدان والاقربونہ اور ہم نے بیان کردیا ہے کہ اگر وصیت کو تہائی مال تک محدود کردینے اوراقربا میں سے مردوں اور عورتوں کے لیے حصہ واجب کردینے پر اجماع اور سنت کی دلالت نہ ہوتی تو پہلی آیت پورے مال کی وصیت کے جواز کی مقتضی ہوتی۔ جب ایسے افرادموجود نہ ہوں جن کی وجہ سے مال کے ایک حصے میں وصیت کرنے کی تخصیص واجب ہوئی تو اس صورت میں پورے مال کی وصیت کے جواز کے سلسلے میں لفظ پر اس کے مقتضی اور ظاہر کے لحاظ سے عمل کرنا واجب ہوگا۔ اس پر حضرت سعد کی گذشتہ روایت دلالت کرتی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا (انک ان تدع ورثتک اغنیاء خیرمن ان تدعھم عالۃ یتکففون الناس، اپنے ورثاء کو فراخی کی حالت میں چھوڑجانا اس سے کہیں بہت رہے کہ انہیں معاش کے دلیے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے لیے چھوڑجاؤ) آپ نے یہ بتادیا کہ تہائی مال سے زائد میں وصیت کی ممانعت ورثا کے حق کی خاط رہے۔ اس پر شعبی وغیرہ کی وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے۔ جو انہوں نے عمروبن شرجیل سے کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعو ؓ دنے فرمایا۔ ہمدان سے تعلق رکھنے والو پورے عرب میں کوئی قبیلہ ایسا نہیں ہے جو اس بات کا تم سے بڑھ کرسزاوارہو کہ اس کے کسی فرد کا انتقال ہوجائے اور اس کے کسی وارث کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو۔ جب یہ صورتحال ہے تو وہ مرنے سے پہلے اپنامال جہاں چاہے دے سکتا ہے۔ اس بارے میں حضرت ابن مسعو ؓ د کی مخالفت میں کسی صحابی کا کوئی قول منقول نہیں ہے۔ اس پر ایک اور پہلو سے غورکیاجائے کہ جب ایسے لاوارث شخص کا انتقال ہوجائے گا۔ تو اہل اسلام اس کے مال کے یاتومیراث کی بناپرحق دارہوں گے یا اس بناپر کہ اس مال کا کوئی مالک نہیں ہے اب امام کی مرضی ہے کہ اسے جہاں چاہے صرف کردے چونکہ اس مال کے استحقاق میں ایک مسلمان کے ساتھ اس کا باپ اور بیٹا نیز قریبی رشتہ دار کے ساتھ دورکارشتہ دار بھی شریک ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ میراث کی بناپر اس مال کا استحقاق نہیں ہوتا کیونکہ ایک شخص کی میراث کے استحقا میں اس کا باپ اور دادادونوں پدری نسبت کی بناپراکٹھے نہیں ہوسکتے نیز اگر یہ مال میراث کے تحت آتاتوان میں سے کسی ایک کو بھی اس سے محروم رکھنا جائز نہ ہوتا اس لیے کہ میراث کا تصورہی یہی ہے کہ بعض ورثاء کو نظرانداز کرکے اسے بعض کے ساتھ مخصوص نہ کردیاجائے۔ نیز اگر یہ میراث کے ضمن میں آتاتو یہ ضروری ہوتا کہ اگر میت کا تعلق ہمدان سے ہوتا اور اس کے کسی وارث کے متعلق کوئی علم نہ ہوتاتو اس کے قبیلے والے اس کی میراث کے حق دارہوتے کیونکہ دوسروں کے مقابلے میں یہ لوگ اس کے زیادہ قریب ہوتے۔ اب جبکہ اس کے مال کا استحقاق بیت المال کو حاصل ہوگیا اور امام المسلمین کو ہراس شخص پرا سے صرف کرنے کا اختیارمل گیا جسے وہ اس کا اہل سمجھتے تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ مسلمانوں کو اس کا یہ مال میراث کی بناپر نہیں ملا اور جب انہیں میراث کی بناپر یہ مال نہیں ملابل کہ امام المسلمین کوا سے اپنی صوابدید کے مطابق اس وجہ سے صرف کرنے کا اختیارمل گیا کہ اس کا کوئی مالک نہیں ہے تو پھر اس کا اصل مالک اپنی صوابد ید کے مطابق اسے صرف کرنے کا زیادہ حق دا رہے۔ ایک اور جہت سے دیکھئے، جب مسلمانوں کو یہ مال میراث کی بناپر نہیں ملاتو اس کی مشابہت اس تہائی مال کے ساتھ ہوگی جس کی مرنے والاوصیت کرجاتا ہے اس تہائی مال میں کسی کی میراث نہیں ہوتی اور اسے یہ اختیارہوتا ہے کہ جس پرچا ہے صرف کرے۔ اسی طرح وارث نہ ہونے کی صورت میں باقی ماندہ دوتہائی مال کا بھی حکم ہونا چاہیے کہ مالک اسے جس پرچا ہے صرف کرڈالے۔ اس پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جس کی ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ہے۔ انہیں بشربن موسیٰ نے انہیں حمیدی نے، انہیں سفیان نے، انہیں ایوب نے کہ میں نے نافع کو عبداللہ بن عمر ؓ سے یہ نقل کرتے ہوئے سنا ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا (ماحق امرئی مسلم لہ مال یوصی فیہ تمرعلیہ اللیلتان الاو وصیۃ عندہ کتتبہ کسی مسلمان کو جس کے پاس مال ہو اور اس نے اس مال میں وصیت کی ہو، یہ بات زیب نہیں دیتی کہ اس پر دوراتیں گذرجائیں اور اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجودہو۔ حضور ﷺ نے اس حدیث میں مال کے ایک حصے کی وصیت اور پورے مال کی وصیت کے جواز کی مقتضی ہے لیکن وارث ہونے کی صورت میں اس کے ایک حصے یعنی تہائی تک وصیت کو محدود رکھنے کے وجوب پر دلالت قائم ہوچکی ہے۔ اس لیے وارث کی عدم موجودگی میں پورے مال کی وصیت کے جواز کے سلسلے میں لفظ کو اس کے ظاہر اورمقتضیٰ پر رکھاجائے گا۔ واللہ اعلم۔ وصیت میں ضرررسانی کا بیان قول باری ہے (غیر مضار، وصیۃ من اللہ، بشرطیکہ وہ ضرررساں نہ ہو، یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ وصیت میں ضرررسانی کی کئی صورتیں ہیں اول یہ کہ وصیت میں کسی اجنبی کے لیے اپنے پورے یا بعض مال اقرارکرے۔ یا اپنے ذمے کسی کے قرض کا اقرار کرے جس کی کوئی حقیقت نہ ہو اور مقصد یہ ہو کہ میراث کو اس کے وارث اور حق دار سے روک دے۔ دوم یہ کہ اپنی بیماری میں کسی دوسرے کے ذمے اپنے قرض کی وصولی کا اقرار کرلے تاکہ قرض کی یہ رقم اس کے وارث کونہ مل سکے۔ سوم یہ کہ اپنی بیماری میں اپناسارامال کسی غیر کے ہاتھ فروخت کر کے اس کی قیمت کی وصولی کا اقرار کرلے، چہارم یہ کہ بیماری کے دوران اپنا مال ہبہ کردے یاتہائی سے زائد مال صدقہ کردے۔ اور اس طریقے سے ورثاء کو نقصان پہنچادے ایک صورت یہ بھی ہے کہ اپنے اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے جائز وصیت سے زائدمال کی وصیت کرجائے جبکہ جائز وصیت تہائی مال کے اندرہوتی ہے۔ یہ تمام وجوہ وصیت میں ضرررسانی کی صورتیں ہیں۔ حضور ﷺ نے یہ بات حضرت سعد ؓ سے اپنے ارشاد کے ضمن میں بیان کردی ہے کہ (الثلث، والثلث کثیر، انک لان تدع ورثتک اغنیاء خیر من ان تدعھم عالۃ یتکففون الناس۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں احمد بن الحسن المصری نے، انہیں عبدالصمدبن حسان نے، انہیںں سفیان ثوری نے، داؤدبن ابی ہندنے عکرمہ سے، انہوں نے ابن عباس ؓ سے کہ، وصیت میں ضررسانی کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی (تلک حدود اللہ ومن یطع اللہ ورسولہ، یہ اللہ کے حدود ہیں اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا) فرمایا، وصیت کے معاملے میں۔ (ومن یعص اللہ ورسولہ، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا) فرمایا : وصیت کے معاملے میں ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی ، انہیں قاسم بن زکریا اور محمد بن لیث نے، ان دونوں کو حمید بن زنجویہ نے، انہیں عبداللہ بن یوسف نے ، انہیں المغیرہ نے داؤدبن ابی ہند سے، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (الاضرارفی الوصیۃ من الکبائر، وصیت میں ضرررسانی کبیرہ گناہوں میں سے ہے) ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی ، انہیں طاہر بن عبدالرحمن بن اسحاق قاضی نے، انہیں یحییٰ بن معین نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمرنے اشعث سے، انہوں نے شہربن حوشب سے ، انہوں نے حضڑت ابوہریر ؓ ہ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (ان الرجرل لیعمل بعمل اھل الجنۃ سبعین سنۃ فاذا اوصی حاف فی وصیتہ فیختم لہ بشرعملہ فید خل النار، وان الرجل لیعمل بعمل اھل النار سبعین سنۃ فیعدل فی وصیتہ فیحتم لہ بخیرعملہ فید خل الجنۃ،۔ ایک شخص ستربرسوں تک جنتیوں والے اعمال کرتا ہے لیکن جب وصیت کرتا ہے تو اس میں جانب داری سے کام لیتا ہے جس کی وجہ سے بدترین عمل پر اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اور وہ جہنم میں داخل ہوجاتا ہے۔ اور ایک شخص ستربرسوں تک جنہمیوں والے اعمال کرتا ہے لیکن اپنی وصیت میں عدل وانصاف سے کام لیتا ہے جس کی وجہ سے اس کا خاتمہ بہترین عمل پر ہوتا ہے۔ اور وہ جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ کتاب اللہ کی درج ذیل آیات کی حضرت ابن عباس ؓ نے جو تاویل کی ہے وہ اس کی عین مصداق ہے۔ (تلک حدود اللہ ومن یطع اللہ ورسولہ) اور (ومن یعص اللہ ورسولہ) حضرت ابن عباس ؓ نے دونوں آیتوں کی تاویل میں فرمایا، وصیت کے معاملے میں۔ نسب کے باوجود میراث سے محروم رہنے والوں کا بیان ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اہل اسلام کے درمیان ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قول باری (یوصیکم اللہ فی اولادکم) اور اس پر معطوف تقسیم میراث کا تعلق آیت میں مذکور افراد میں سے بعض کے ساتھ مخصوص ہے اور بعض کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ پھر ان بعض میں سے کچھ توای سے ہیں جن کے حکم پر سب کا اتفاق ہے اور کچھ مختلف فیہ ہیں۔ متفق علیہ افراد کی تفصیل یہ ہے کہ کافر مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا، اسی طرح غلام کسی کا وارث نہیں بن سکتا۔ نیز قتل عمد کا مرتکب بھی وراثت کے حق سے محروم ہوجاتا ہے۔ ہم نے سورة بقرہ میں ان سب کی میراث اور اس سے متعلقہ اتفاقی اور اختلافی مسائل کو پوری شرح وبسط کے ساتھ بیان کردیا ہے۔ آیا مسلمان کافرکاوارث ہوسکتا ہے۔ ؟ اس مسئلے میں اختلاف ہے۔ اسی طرح مرتد کی میراث بھی ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ پہلے مسئلے مین ائمہ صحابہ کا اس پر اتفاق ہے کہ مسلمان اور کافر ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے اکثرتابعین اور فقہائے امصارکایہی قول ہے۔ شعبہ نے عمروبن ابی حکیم سے، انہوں نے ابن باباہ سے انہوں نے یحییٰ بن یعمر سے، انہوں نے ابوالاسودالدؤلی سے روایت کی ہے کہ حضرت معاذبن جبل ؓ یمن میں تھے ان کے سامنے مسئلہ پیش ہوا کہ ایک یہودی مرگیا ہے اور اس کا مسلمان بھائی رہ گیا ہے۔ حضرت معاذ ؓ نے اس موقعہ پر فرمایا کہ میں نے حضور ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ (الاسلام یزید ولا ینقص۔ اسلام بڑھتا ہے گھٹتا نہیں۔ ) ابن شہاب نے داؤدبن ابی ہند سے روایت کی ہے کہ مسروق نے ایک دفعہ کہا کہ اسلام میں اس فیصلے سے بڑھ کر تعجب انگیز کوئی فیصلہ نہیں ہواجوحضرت معاویہ ؓ نے کیا تھا۔ آپ مسلمان کو یہودی اور نصرانی کا وارث قرارتو دیتے تھے لیکن کسی یہودی یا نصرانی کو مسلمان کا وارث نہیں تسلیم کرتے تھے۔ اہل شام نے بھی یہی مسلک اختیار کرلیا تھا۔ داؤدکہتے ہیں کہ جب حضرت عمربن عبدالعزیز شام تشریف لائے تو آپ نے اس مسئلے میں لوگوں کو پہلے مسلک کی طرف لوٹادیاہشیم نے مجالد سے اور انہوں نے شعبی سے روایت کی ہے کہ حضرت معاویہ ؓ نے اس مسئلے کے متعلق اپنے گورنرزیادکولکھا۔ زیادنے قاضی شریح کو پیغام بھیج کر اس کی روشنی میں فیصلے کرنے کا حکم دیا ہے۔ قاضی صاحب اس سے پہلے مسلمان کو کافرکاوارث قرار نہیں دیتے تھے۔ لیکن زیاد کے حکم کی روشنی میں اس کے مطابق فیصلے کرنے لگے۔ البتہ جب وہ اس قسم کا کوئی فیصلہ سناتے تو ساتھ یہ ضرورکہہ دیتے کہ یہ امیرالمؤمنین (حضرت معاو ؓ یہ) کا فیصلہ ہے۔ زہری نے علی بن الحسین سے ، انہوں نے عمروبن عثمان سے، انہوں نے حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت کی ہے۔ کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (لایتوارث اھل ملتین شتیٰ ، دومختلف ملتوں کو ماننے والے ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے) ۔ ایک روایت میں ہے (لایرث المسلم الکافرولاالکافرالمسلم، مسلمان کافرکا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں بن سکتا۔ عمروبن شعیب نے اپنے والد سے، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (لایتوارث اھل ملتین، دومذاہب کو ماننے والے ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے) یہ روایت مسلمان سے کافر کی اور کافر سے مسلمان کی توریث کی نفی کرتی ہیں۔ حضور ﷺ سے اس کے خلاف کوئی بات مروی نہیں ہے۔ اس لیے مسلمان اور کافر کے درمیان توارث کو ساقط کرنے میں ان کے حکم کو ثابت اور محکم تسلیم کیا جائے گا۔ رہ گئی حضرت معاذ ؓ کی روایت تو اس میں یہ مسئلہ مرادہی نہیں ہے۔ بلکہ اس میں حضور ﷺ کے ارشاد (الایمان یزید ولا ینقص) کا مفہوم ومطلب بیان ہوا ہے۔ جسے تاویل کہتے ہیں اور ظاہر ہے کہ تاویل کسی نص اور توقیف کو ختم نہیں کرسکتی۔ بلکہ تاویل کو اس معنی کی طرف لوٹایاجاتا ہے ۔ جو منصوص علیہ ہو اور اسے اس کے موافق مفہوم پر محمول کیا جاتا، مخالف مفہوم پر محمول نہیں کیا جاتا۔ حضور ﷺ کے درج بالاارشاد میں یہ احتمال ہے کہ آپ یہ بیان فرمانا چاہتے ہیں۔ جو شخص مسلمان ہوجائے گا اسے اس کے اسلام پر رہتے دیاجائے گا اور جو شخص اسلام سے باہرہوجائے گا اسے پھر اسلام کی طرف لوٹادیاجائے گا۔ جب اس روایت میں یہ بھی احتمال ہے اور حضرت معا ؓ ذ کے اختیار کردہ مفہوم کا بھی احتمال ہے توپھرضروری ہے کہ اسے حضرت اسامہ ؓ کی روایت کے مفہوم پر محمول کیا جائے جس میں مسلمان اور کافر کے درمیان توارث کی ممانعت کردی گئی ہے۔ کیونکہ کسی نص کو تاویل اور احتمال کی بناپرد کردینا جائز نہیں ہے۔ خود احتمال میں حجت اور دلیل بننے کی صلاحیت نہیں ہے کیونکہ یہ ایک مشکوک بات ہوتی ہے اور اسے اپنے حکم کے اثبات کے لیے کسی اور دلالت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے احتمال پر استدلال کی بنیاد رکھنا غلط اور ساقط مسروق کا یہ قول کہ، اسلام میں کوئی فیصلہ ایسا نہیں کیا گیا جو حضرت معاویہ ؓ کے اس فیصلے سے زیادہ تعجب انگیزہوجس میں مسلمان کو کافرکاوارث قراردیا گیا خود اس مسلک کے بطلان پر دلالت کررہا ہے۔ کیونکہ مسروق نے یہ بتایا ہے کہ یہ فیصلہ اسلام میں ایک نیافیصلہ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت معاویہ ؓ کے اس فیصلے سے پہلے مسلمان کافرکاوارث نہیں بنتا تھا۔ اس طرح یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضرت معاو ؓ یہ کے فیصلے سے پہلے مسلمان کافرکاوارث نہیں ہوتا تھا۔ دوسری طرف حضرت معاویہ ؓ کے لیے صحابہ کرام کی مخالفت جائز نہیں تھی بلکہ صحابہ کرام کی موجودگی میں ان کا قول ساقط ہے۔ اس کی تائید داؤدبن ابی ہند کے اس قول سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت عمربن عبدالعزیز نے شام کے لوگوں کو پہلے مسلک کی طرف لوٹادیا تھا۔ واللہ اعلم۔ مرتدکی میراث مرتد کی میراث کے بارے میں جو اس نے حالت اسلام کی کمائی کے نتیجے میں چھوڑدی ہوسلف میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت علی ؓ ، عبداللہ ؓ ، حضرت زیدبن ثابت ؓ ، حسن بصری ، سعدبن المسیب ، ابراہیم نخعی، جابربن زید، عمربن عبدالعزیز، حمادبن الحکم، امام ابوحنیفہ ، امام ابویوسف، امام محمد، زفر، ابن شبرمہ ، ثوری، اوزاعی اور شریک کا قول ہے کہ اس مرتد کی موت یا ارتداد کی بناپرقتل ہوجانے کی صورت میں اس کے مسلمان ورثاء اس کی میراث کے حق دارہوں گے۔ ربیعہ بن عبدالعزیز، ابن ابی لیلیٰ ، امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ اس کی میراث بیت المال میں جائے گی۔ قتادہ اور سعیدبن ابی عروبہ کا قول ہے کہ اس نے اسلام چھوڑ کر جو دین اختیار کیا ہے اگر اس کے ورثاء کا دین بھی وہی ہو تو اس کی میراث ان ورثاء کو مل جائے گی مسلمان ورثاء کو نہیں ملے گی۔ قتادہ نے اس قول کی روایت حضرت عمربن عبدالعزیز سے بھی کی ہے۔ لیکن ان سے صحیح روایت یہ ہے کہ اس کی میراث اس کے مسلمان ورثاء کو مل جائے گی۔ پھر حالت ارتداد میں اس شخص کی کمائی ہوئی میراث کے متعلق بھی اختلاف رائے ہے کہ اس کی موت یا قتل ہوجانے کی صورت میں اس کی یہ میراث کسے ملے گی۔ امام ابوحنیفہ اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ مرتدہوجانے کے بعد اس کی ساری کمائی کوفی شمارکیاجائے گا۔ ابن شبرمہ امام ابویوسف امام اور اوزاعی سے ایک روایت کے مطابق ارتداد کے بعد اس کی ساری کمائی ہوئی میراث بھی اس کے مسلمان ورثاء ہی کو مل جائے گی۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ ظاہرقول باری (یوصیکم اللہ فی اولاد کم) مرتد سے مسلمان کے وارث ہونے کا مقتضی ہے۔ اس لیے کہ آیت میں مسلمان میت اور مرتد میت کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا ہے۔ اگر یہ کہاجائے کہ حضرت اسامہ بن زید ؓ کی روایت (لایرث المسلم الکافر) آیت کے عموم کی اس طرح تخصیص کرتی ہے جس طرح اس نے مسلمان سے کافر کی وراثت کی تخصیص کردی ہ۔ یہ روایت اگرچہ آحاد میں شمارہوتی ہے لیکن چونکہ اسے سندقبولیت حاصل ہوئی ہے اور مسلمان سے کافر کی وراثت کی ممانعت میں لوگوں نے اس پر عمل کیا ہے اس لیے اس کی حیثیت ایک طرح سے خبرمتواتر کی ہوگئی ہے۔ پھر آیت میراث متفقہ طورپر بعض مذکورین کے ساتھ خاص ہے جیسا پہلے گذرچکا ہے۔ اس لیے اس جیسی صورت کی تخصیص کے سلسلے میں اخبارآحادبھی قابل قبول ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضرت اسامہ ؓ کی روایت کے بعض طرق میں یہ الفاظ آتے ہیں (لایتوارث اھل ملتین) لایرث المسلم الکافر) حضور ﷺ نے یہ بتادیا کہ اس سے مراد دومختلف ملتوں یعنی مذاہب والوں کے درمیان توارث کا اسقاط ہے۔ اورظاہر ہے کہ ارتدادخود کوئی مستقل مذہب وملت نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگر ایک شخص اسلام چھوڑکرنصرانیت یایہودیت اختیارکرلیتا ہے توا سے اس حالت پر رہنے دیاجائے گا بل کہ یاتوتوبہ کرکے پھر داخل اسلام ہوجائے گایا اس کی گردن اڑادی جائے گی، اس لیے اس پر یہودیت یانصرانیت کو ماننے والوں کے احکام جاری نہیں ہوں گی اور اسے یہودی یانصرافی تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگرچہ وہ اہل کتاب کے مذہب کی طرف منتقل ہوگیا ہے لیکن اس کاذبیحہ کھاناحلال نہیں ہوگا اور عورت ہونے کی صورت میں اس کے ساتھ نکاح بھی جائز نہیں ہوگا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی ۔ کہ ارتداد خود کوئی مستقل ملت نہیں ہے۔ اور حضرت اسامہ ؓ کی روایت دومختلف مذاہب والوں کے درمیان توارث کی ممانعت تک محدود ہے۔ یہ بات ان کی ایک اور مفصل روایت میں بیان کی گئی ہے۔ جسے ہشیم نے زہری سے نقل کیا ہے : انہیں علی بن الحسین نے عمروبن عثمان سے اور انہوں نے حضرت اسامہ ؓ سے بیان کیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (لایتوارث اھل ملتین شتیٰ ، لایرث المسلم الکافرولاالکافرالمسلم) اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ یہاں حضور ﷺ کی مرادیہ ہے کہ دومختلف مذاہب والوں کے درمیان توارث کی ممانعت ہے نیزحضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ ایک اصولی بات ہے کہ مرتد کی ملکیت ارتداد کے ساتھ ہی زائل ہوجاتی ہے۔ اگر وہ مرجائے یا قتل ہوجائے تو یہ ملکیت اس کے ورثاء کو منتقل ہوجائے گی۔ اسی بناء پر آپ مرتد کے اپنے اس مال میں تصرف کو جائز قرار نہیں دیتے جو اس نے حالت اسلام میں کمائے ہوں جبکہ امام صاحب کا اصول یہ ہے توزیربحث مسئلے میں آپ نے کسی مسلمان کو کسی کافرکاوارث قرار نہیں دیا اس لیے کہ ایسے کافر یعنی مرتد کی ملکیت اپنے مال سے اسی وقت زائل ہوگئی تھی۔ جب اس نے اسلام کا دامن چھوڑا تھا بلکہ آپ نے ایک مسلمان کو اس شخص کا وارث قراردیاجو کبھی مسلمان تھا۔ اگریہ اعتراض کیا جائے کہ درج بالا وضاحت کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ نے مرتد کی زندگی میں ہی اس کی وراثت ورثاء کے حوالے کردی اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ کسی زندہ کی توریث میں کوئی امتناع نہیں ہے۔ ارشاد باری ہے (واورثکم ارضھم ودیارھم واموالھم، اور اللہ نے تمہیں ان کی سرزمین، ان کے مکانات اور ان کے اموال کا وارث بنادیا) حالانکہ وہ لوگ جن کی طرف آیت میں اشارہ ہے اس آیت کے نزول کے وقت زندہ تھے اس میں ایک پہلو اور بھی ہے وہ یہ کہ ہم نے مرتد کی موت کے بعد اس کا مال اس کے ورثاء کو منتقل کیا اس لیے اس میں زندہ کی توریث والی کوئی بات نہیں پائی گئی۔ معترض کو الزامی جواب کے طورپریہ کہا جاسکتا ہے کہ جب آپ نے ایسے شخص کا مال بیت المال کے حوالے کردیاتوگویا آپ نے اس کے کفر کی حالت میں مسلمانوں کی جماعت کو اس کا وارث بنادیا اور جب وہ مرتدہوکردارالحرب بھاگ جائے تو آپ نے اس کی زندگی میں ہی انہیں اس کا وارث قراردے دیا۔ ایک پہلو اور بھی ہے کہ جب مسلمان صرف اسلام کی بناء پر ای سے شخص کے مال کے مستحق قرارپاتے ہیں تو پھر اس کے رشتہ دارورثاء میں اسلام اور رشتہ داری کی دوصفات یکجا ہوگئیں۔ اس بناء پر یہ ضروری ہوگیا کہ اس کے مسلمان رشتہ دار اس کے مال کے زیادہ حق دارقراردیئے جائیں کیونکہ یہ لوگ دواسباب کی بناء پر حق داربن رہے ہیں جبکہ عام مسلمان صرف ایک سبب کی بناء پر یہ حق پاسکتے ہیں۔ یہ دواسباب جو اس کے مسلمان ورثاء میں جمع ہوگئے ہیں اسلالم اور قرابتداری ہیں۔ اس لحاظ سے اس کی حیثیت دوسرے تمام مسلمان وفات شدہ افراد کے مشابہ ہوجائے گی۔ جب اس کے مال پر مسلمانوں کا استحقاق ہوگیا توپھروہ مسلمان جس میں اسلام کے ساتھ قرب نسب بھی موجود ہو اس مسلمان کے مقابلے میں اس کے مال کا زیادہ حق دارہوگا جس میں قرب نسب موجودنہ ہو۔ اگر اس پر یہ اعتراض اٹھایاجائے کہ آپ کی بیان کردہ علت ذمی کے مال سے مسلمان کی توریث کو واجب کردیتی ہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ یہ بات واجب نہیں ہوتی اس لیے کہ ذمی کی موت کے بعد اس کے مال کا استحقاق اسلام کی بنیاد پر نہیں ہوتا اس لیے کہ سب لوگ اس پر مفتق ہیں کہ اس کے ذمی ورثاء مسلمانوں کے مقابلے میں اس کی میراث کے زیادہ حق دار ہیں جبکہ تمام فقہاء امصارکا اس پر اتفاق ہے کہ مرتد کے مال کا استحقاق اسلام کی بناپرہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلانوں کی جماعت اس کے مال کی وارث ہوگی جبکہ کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اس کے مسلمان ورثاء اس کے مال کے حق دارہوں گے جب اسلام کی بنیادپر اس کے مال کا استحقاق ثابت ہوگیا تو اس کی مشابہت مسلمان میت کے مال کے ساتھ ہوگئی جبکہ اسلام کی بنیادپر اس مسلمان کے مال میں دوسرے مسلمانوں کا استحقاق پیدا ہوگیا توای سے مسلمان جن میں قرب نسب بھی پایاگیا وہ دوسرے مسلمانوں کے مقابلے میں اس کے مال کے زیادہ حق دارقرارپائے۔ اگریہ کہاجائے کہ کوئی ذحی اگر مال چھوڑکرمرجائے لیکن اس کا کوئی وارث نہ ہو جس کا تعلق اس کے مذہب سے ہو، البتہ اس کے مسلمان قرابت دارموجود ہوں تو اس کا یہ مال مسلمانوں کو مل جائے گا اور اس کے مسلمان قرابت دار اس مال کے بڑھ کر حق دار نہیں ہوں گے۔ حالانکہ ان میں اسلام اور قرابت داری دونوں اسباب موجود ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟ جواب میں کہا جائے گا کہ دراصل ذمی کے مال کا استحقاق اسلام کی وجہ سے نہیں ہوتا اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر اس کے ذمی رشتہ دار موجود ہوتے تو مسلمانوں کو اس کے مال کا استحقاق حاصل نہ ہوتا۔ اسلام کی بنیاد پر اگر اس کے مال کا استحقاق ہوتاتو اس کے ذمی رشتہ دار مسلمانوں سے بڑھ کر اس کے مال کے حق دارنہ ہوتے بلکہ مسلمان زیادہ حق دارہوتے جس طرح کہ مسلمانوں کی اپنی میراث کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ذمی کا مال وارث نہ ہونے کی صورت میں اگرچہ بیت المال کے حوالے ہوجاتا ہے۔ لیکن اسلام کی بناپر اس کا استحقاق نہیں ہوتا بلکہ اس کی حیثیت ایسے مال کی ہوتی ہے جس کا کوئی مالک نہیں ہوتا اور امام المسلمین کو یہ دارالا سلام میں اسی طرح مل جاتا ہے جس طرح لقطہ ہاتھ آجاتا ہے اور اس کے کسی حق دار کے متعلق کچھ معلوم نہیں ہوتا اور پھرا سے اللہ کی خوشنودی کی خاطر نیکی کی راہوں میں صرف کردیاجاتا ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ امام ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ مرتدنے ارتداد کی حالت میں جو کچھ کمایا ہے وہ سب کچھ فئی کی صورت میں بیت المال کے حوالے ہوجائے گا اس قول کی بناء پر مسئلے کے متعلق آپ کی بیان کردہ علت کا نقض لازم آئے گا اور اصل مسئلے پر اس کی دلالت معترض کے حق میں جائے گی۔ اس کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ یہ بات لازم نہیں آتی اور نہ ہی معترض کے قول پر اس کی کوئی دلالت ہے۔ وہ اس لیے کہ مرتدنے ارتداد کی حالت میں جو کچھ کمایا ہے اس کی حیثیت حربی کے مال کی طرح ہے۔ اور مرتددرست طریقے سے اس مال کا مالک بھی نہیں ہوتا ہے۔ جب ہم اس مال کو مرتد کی موت کے بعد یا موت سے قبل بیت المال کے حوالے کردیں گے تو یہ اسی طرح مال غنیمت شمارہوگاجس طرح جنگ کی صورت میں ہمارے ہاتھ لگنے والا غنیمت کا مال شمارہوتا ہے۔ اس لیے بیت المال کا اس مال پر استحقاق اسلام کی بناپر نہیں ہوگا اس لیے کہ غنیمت حاصل کرنے والے کو اموال غنیمت کا استحقاق اسلام کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ذمی جب جنگ میں حصہ لیتا ہے تو وہ مال غنیمت سے تھوڑابہت مال حاصل کرنے کا مستحق ہوجاتا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حربی کا مال اور ارتداد کی حالت میں مرتد کا کمایا ہوامال دونوں پر اسلام کی وجہ سے بیت المال کا استحقاق نہیں ہوتا۔ اس لیے اس مال میں اسلام اور قرب نسب کا اعتبار نہیں کیا گیا جس طرح کہ مرتد کے اس مال کیا گیا تھا جو اس نے اسلام کی حالت میں کمایا تھا اس لیے کہ اس مال پر مرتدہونے تک اس کی ملکیت درست تھی پھر ارتداد کی وجہ سے اس کی ملکیت زائل ہوگئی ۔ اب جو شخص اس کا مستحق ہوگا اس کا استحقاق میراث کی بناپرہوگا۔ اور میراث میں اسلام اور قرب نسب کا اعتبار کیا جاتا ہے بشرطیکہ وہ کسی مسلمان کی ملکیت ہویہاں تک کہ اس کی یہ ملکیت ارتداد کی وجہ سے زائل ہوجائے جو موت کی طرح زوال ملکیت کا موجب ہے اس لیے اس پر ارتداد کی حالت میں کمائے ہوئے مال کا حکم لازم نہیں ہوا، نیز یہ بھی جائز نہیں کہ اس کا یہ مال حالت اسلام میں کمائے ہوئے مال کی اصل بن جائے اس لیے کہ ارتداد کی بناپر ملکیت زائل ہونے تک اس مال پر اس کی ملکیت درست تھی جبکہ ارتداد کی حالت میں کمائے ہوئے مال کی حیثیت حربی کے مال کی طرح ہے اور اس پر اس کی ملکیت درست نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے یہ مال اس حالت میں کمایا تھا جبکہ وہ مباح الدم تھا یعنی شرعی لحاظ سے اس کی گردن اتاردینا مباح تھا اس لیے جب بھی یہ مال مسلمانوں کے ہاتھ آئے گا وہ مال غنیمت شمارہوگا۔ جس طرح کہ کوئی حربی امان لیے بغیر داراسلام میں داخل ہوجائے اور پھرا سے اس کے مال سمیت پکڑ لیں تو اس کا مال غنیمت شمارہوگا اس طرح مرتد کے اسی مال کا حکم ہے جو اس نے ارتداد کی حالت میں کمایا تھا۔۔ اگر کوئی شخص حضرت براء بن عازب ؓ کی روایت سے استدلال کرے جس میں آپ نے فرمایا کہ میرے ماموں ابوبردہ ؓ کا گذر میرے پاس سے ہوا، ان کے ہاتھ میں جھنڈا تھا میں نے پوچھا کہ کدھر کا ارادہ ہے ؟ جواب میں انہوں نے فرمایا کہ حضور ﷺ نے مجھے ایک شخص کی گردن اڑادینے کے لیے بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کررکھا ہے۔ نیزیہ بھی حکم دیا ہے کہ اس کا سارامال بھی ضبط کرلوں ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مرتدکامال فئی ہوتا ہے، تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ یہ قدم اس لیے اٹھایا گیا تھا کہ وہ شخص اپنے باپ کی بیوی کو اپنے لیے حلال قراردے کرمجارب بن چکا تھا۔ یعنی وہ اللہ اور اس کے رسول سے برسرپیکار ہوگیا تھا اس لیے اس کا مال مال غنیمت بن گیا تھا کیونکہ جھنڈاجنگ وپیکار کے لیے بلند کیا جاتا ہے۔ معاویہ بن ابی قرہ نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے معاویہ کے داداکو ایک ایسے شخص کی گردن اڑانے اور اس کے مال خمس یعنی پانچواں حصہ وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا جس نے اپنے باپ کی بیوی کے ساتھ شب باشی کی تھی یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس شخص کا مال جنگ کی بناپرمال غنیمت قراردیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس مال کا پانچواں حصہ آپ کے لیے وصول کیا گیا تھا۔ اگریہ کہاجائے کہ مرتد کے مال کو مال غنیمت قراردینے سے آپ کو انکار نہیں ہے تو جواب میں کہاجائے گا کہ بات ایسی نہیں ہے بلکہ اس میں تفصیل ہے۔ مرتدنے حالت ارتداد میں جو کچھ کمایا ہوگا اس کی حیثیت مال غنیمت کی ہوگی لیکن حالت اسلام میں کمائے ہوئے مال پر یہ حکم لگانا جائز نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی مال کو مال غنیمت قراردینے کی سبیل یہ ہے کہ غنیمت بننے سے پہلے اس پر اس کے مالک کی ملکیت درست نہ ہو جس طرح کہ حربی کے مال کی کیفیت ہوتی ہے۔ لیکن ارتداد سے قبل مرتد کے مال پر اس کی ملکیت درست ہوتی ہے۔ اس لیے اسے مال غنیمت بنالینا اسی طرح جائز نہیں جس طرح تمام مسلمانوں کے اموال کو مال غنیمت بنالینا درست نہیں۔ اس لیے کہ ان اموال پر ان کی ملکیتیں درست ہوتی ہیں۔ مرتد کے مال سے اس کی ملکیت کا ارتداد کی بناپرزائل ہوجانا ایساہی ہے جیسا کہ موت کی وجہ سے ایک شخص کی اپنے مال سے ملکیت زائل ہوجاتی ہے۔ جس وقت ارتداد کی سزا کے طور پر قتل ہوجائے یامرجائے یادارالحرب فرارہوجانے کی بناپرمال سے اس کا حق منقطع ہوجائے گا تو اس کے ورثاء اس کے حق داربن جائیں گے۔ تمام مسلمان حق دار نہیں بنیں گے۔ اس لیے کہ اگر تمام مسلمان اسلام کی وجہ سے اس کے مال کے حق داربنیں گے غنیمت کی بناپر نہیں تو پھر اس کے ورثاء کا حق زیادہ ہوگا کیونکہ ورثاء میں اسلام اور قرابت داری دونوں باتیں پائی جائیں گی۔ اگر غنیمت کی بناپر مسلمانوں کو اس کے مال کا استحقاق حاصل ہوگا تو یہ بات درست نہیں ہوگی اس لیے کہ ہم نے یہ بیان کردیا ہے کہ غنیمت کی شرط یہ ہے کہ جس شخص کے مال کو بطور غنیمت حاصل کیا جارہا ہے، بنیادی طورپر اس مال پر اس کی ملکیت درست نہ ہو۔ میراث کی تقسیم سے قبل اگر کوئی وارث مسلمان ہوجاتا ہے تو آیا میراث میں اسے بھی حصہ ملے گا کہ نہیں ، اس بارے میں سلف کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ حضرت علی ؓ کا قول ہے اگر کوئی مسلمان انتقال کرجائے اور ابھی اس کی میراث تقسیم نہیں ہوئی کہ اس کا ایک کافربیٹا مسلمان ہوجائے یا وہ غلام ہو اور اسے آزادی مل جائے توا سے باپ کے ترکہ میں سے کچھ نہیں ملے گا۔ عطاء سعیدبن المسیب، سلمان بن یسار، زھری، ابوالزناد، امام ابوحنیفہ، ابویوسف، محمد، زفر، امام مالک ، اور زاعی، اور امام شافعی کا یہی قول ہے، حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ کا قول ہے کہ وہ میراث میں دوسرے ورثاء کے ساتھ شریک ہوگا۔ حسن ابوالشعثاکا بھی یہی مسلک ہے۔ ان حضرات نے اس میراث کو زمانہ جاہلیت کی ان میراثوں کے مشابہ قراردیا ہے۔ جن پر تقسیم سے پہلے اسلام کا زمانہ آگیا تھا اور اسلامی قانون کے مطابق ان کی تقسیم عمل میں آئی تھی اور مورث کی موت کے وقت کی حالت کا اعتبار نہیں کیا گیا تھا۔ پہلی رائے کے قائلین کے نزدیک یہ بات اس طرح نہیں ہے اس لیے کہ شریعت میں مواریث کے حکم کی مختلف صورتیں متعین ہوچکی ہیں۔ مثلا قول باری ہے (ولکم نصف ماترک ازواجکم) نیز (ان امرؤھلک لیس لہ ولد ولہ اخت فلھا نصف ماترک) اللہ تعالیٰ نے بھائی کی موت بہن کے لیے میراث واجب کردی موت آجانے کے ساتھ ہی بہن کے لیے نصف ترکہ نیز شوہر کے لیے نصف ترکہ مقرر کردیا اور اس میں تقسیم ترکہ کی کوئی شرط نہیں لگائی۔ تقسیم تو اس مال میں واجب ہوتی ہے جس کا وہ مالک ہوتایا ہوتی ہے۔ اس لیے میراچ کیا ستحقاق میں تقسیم ترکہ کو کوئی دخل نہیں ہے اس لیے کہ تقسیم ملکیت کے تابع ہے۔ جب یہ بات ہے تو پھر یہ ضروری ہے کہ بیٹے کے مسلمان ہوجانے پر نصف ترکے سے بہن کی ملکیت زائل نہ ہو جس طرح کہ تقسیم کے بعد نصف ترکے سے اس کی ملکیت زائل نہیں ہوتی۔ رہ گئی زمانہ جاہلیت کی مواریث کی بات تو یہ مواریث شریعت کے حکم کے تحت سرے سے نہیں آئیں۔ پھر جب اسلام کا عمل دخل آگیا توا نہیں شریعت کے حکم پر محمول کرلیا گیا۔ کیونکہ شریعت کے ورود سے قبل کی باتیں برقرار نہیں رہیں اس لیے جن مواریث کی تقسیم عمل میں آگئی تھی ان میں لوگوں کو درگذرکردیا گیا اور جن کی تقسیم ابھی عمل میں نہیں آئی تھی انہیں شریعت کے حکم پر محمول کرلیا گیا۔ جس طرح قبضے میں لی ہوئی سودی رقمیں نظر انداز کردی گئیں اور تحریم ربوا کے ورود کے بعد قبضے میں نہ لی ہوئی سودی رقموں پر شریعت کا حکم جاری کیا گیا۔ یعنی یہ رقمیں منسوخ کردی گئیں اور صرف راس المال یعنی اصل زر کی واپس واجب کردی گئی۔ اسلام کے تحت مواریث کا حکم محکم ہوکرقرارپکڑچکا ہے اور اب اس پر نسخ ک اورود جائز نہیں رہا۔ اس لیے میراث تقسیم ہوجانے یا نہ ہونے کا کوئی اعتبار نہیں رہا۔ جس طرح کہ اگر زمانہ اسلام میں سود کی حرمت کے نزول اور اس کے حکم کے استقرار کے بعد سودی سودے کرلیے جاتے تو ان سودوں کے بطلان کے حکم میں سودی رقمیں قبضے میں لینے یا نہ لینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک اور پہلو سے دیکھاجائے تو یہ واضح ہوگا کہ اہل اسلام کے درمیان ہمیں اس بارے میں کسی اختلاف کا کوئی علم نہیں کہ اگر کوئی شخص کسی میراث کا وارث بن جائے اور پھر تقسیم میراث سے پہلے اس کی وفات ہوجائے تو اس کا حصہ اس کے ورثاء کو چلاجائے گا۔ اسی طرح اگر وہ مرتدہوجائے تو میراث میں جس حصے کا وہ حق داربن گیا ہے وہ باطل نہیں ہوگا۔ نیز اس کی حیثیت اس شخص جیسی نہیں ہوگی جو مورث کی موت کے وقت مرتد تھا۔ اس طرح جو وارث مورث کی موت کے بعد تقسیم ترکہ سے قبل مسلمان ہوگیا ہو یا اسے آزاد کردیا گیا ہوا سے ترکہ میں کوئی حصہ نہیں مل سکتا۔ واللہ اعلم۔
Top