Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 3
وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ١ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَعُوْلُوْاؕ
وَاِنْ
: اور اگر
خِفْتُمْ
: تم ڈرو
اَلَّا
: کہ نہ
تُقْسِطُوْا
: انصاف کرسکوگے
فِي
: میں
الْيَتٰمٰى
: یتیموں
فَانْكِحُوْا
: تو نکاح کرلو
مَا
: جو
طَابَ
: پسند ہو
لَكُمْ
: تمہیں
مِّنَ
: سے
النِّسَآءِ
: عورتیں
مَثْنٰى
: دو ، دو
وَثُلٰثَ
: اور تین تین
وَرُبٰعَ
: اور چار، چار
فَاِنْ
: پھر اگر
خِفْتُمْ
: تمہیں اندیشہ ہو
اَلَّا
: کہ نہ
تَعْدِلُوْا
: انصاف کرسکو گے
فَوَاحِدَةً
: تو ایک ہی
اَوْ مَا
: یا جو
مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ
: لونڈی جس کے تم مالک ہو
ذٰلِكَ
: یہ
اَدْنٰٓى
: قریب تر
اَلَّا
: کہ نہ
تَعُوْلُوْا
: جھک پڑو
اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے تو ان کے سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کرلو۔ اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ (سب عورتوں سے) یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت (کافی ہے) یا لونڈی جس کے تم مالک ہو۔ اس سے تم بےانصافی سے بچ جاؤ گے
کم عمربچے بچیوں کا نکاح کرادینا اسلام کسی کو بھی یتیم بچیوں کے ساتھ ناانصافی کی اجازت نہیں دیتا قول باری ہے (وان خفتم ان لاتقسطوافی الیتامی فانکحواماطاب لکم من النساء مثنیٰ واثلث وربع ، اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بےانصافی کرنے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دودو، تین تین ، چارچار سے نکاح کرلو) زہری نے عروہ سے روایت کی ہے کہ میں نے اپنی خالدحضرت عائشہ سے اس آیت کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا : میرے بھانجے یہ یتیم لڑکی کے متعلق ہے جو اپنے ولی کی سرپرستی میں ہوتی تھی۔ اس کے مال اور حسن وجمال سے اسے رغبت ہوجاتی اور وہ اس سے نکاح کرنے کا ارادہ کرلیتا اور بدلے میں جو مہردیتاوہ اس لڑکی کے مرتبے سے کم ہوتا۔ اس لیے لوگوں کو ان یتیم لڑکیوں سے نکاح کرنے سے روک دیا گیا، الا یہ کہ وہ ان کے ساتھ انصاف کریں تو نکاح کرسکتے ہیں۔ انھیں یہ حکم دیا گیا کہ ان یتیم لڑکیوں کے علاوہ دوسری عورتوں سے نکاح کرسکتے ہیں۔ حضرت عائشہ نے مزید فرمایا : اس کے بعد لوگوں نے پھر یتیم لڑکیوں کے متعلق حضور ﷺ سے استفسارکیاجس پر یہ آیت نازل ہوئی (ویستفتونک فی النساء قل یفتیکم فیھن ومایتلی علیکم فی الکتاب فی یتمی النساء التی لاتؤتو نھن اجورھن وتزغبون ان تنکحوھن۔ لوگ تم سے عورتوں کے معاملہ میں فتوی پوچھتے ہیں کہواللہ تمہیں ان کے معاملہ میں فتوی دیتا ہے اور ساتھ ہی وہ احکام بھی یاددلاتا ہے جو پہلے سے تم کو اس کتاب میں سنائے جارہے ہیں۔ یعنی وہ احکام جو یتیم لڑکیوں کے متعلق ہیں جن کے حق تم ادا نہیں کرتے اور لالچ کی بناپرتم خودان سے نکاح کرلیناچاہتے ہو) حضرت عائشہ نے مزید فرمایا : اللہ تعالیٰ نے کتاب میں جس آیت کے سنائے جانے ذکرکیا ہے وہ پہلی آیت ہے جس میں فرمایا (وان خفتم الاتقسطوافی الیتامی) اور قول باری (وترغبون ان تنکحوھن) کا مفہوم یہ ہے کہ تم اپنی زیرکفالت یتیم لڑکی سے نکاح کرنے سے بازرہتے ہو اس لیے کہ اس میں مال اور حسن وجمال کی کمی ہوتی ہے۔ اس بنا پر انھیں ایسی یتیم لڑکیوں سے نکاح کرنے سے روک دیاگیا جن کے مال اور حسن وجمال کی بناپرانھیں رغبت پیدا ہوگئی ہو، الایہ کہ وہ ان کے متعلق انصاف کارویہ اختیارکریں تو نکاح کرسکتے ہیں۔ اس حکم کی وجہ یہ تھی کہ یتیم لڑکیوں کی طرف وہ لوگ کم ہی راغب ہوتے تھے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ (وان خفتم الاتقسطوافی الیتامی) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس ؓ سے بھی حضرت عائشہ کی طرح قول منقول ہے۔ سعید بن جبیر، ضحاک اور ربیع سی اس آیت کی ایک دوسری تاویل منقول ہے۔ اس کی روایت ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق نے کی ، انھیں حسن بن ابی الربیع جرجانی نے، انھیں عبدالرزاق نے، انھیں معمرنے ایوب سے، انھوں نے سعید بن جبیر سے کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ بےانصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو عورتوں کے ساتھ بھی بےانصافی کرنے سے ڈرو۔ تمہارے لیے دودو، تین تین، چار چار بیویوں تک حلال کردی گئی ہیں، ان کے بارے میں بےانصافی نہ کرو۔ مجاہد سے اس کی تفسیر میں مروی ہے کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ بےانصفی سے ڈرتے ہو، جس کی بناپرتم ان کا مال کھانے سے پرہیز کرتے ہو، تو اسی طرح زنا سے بھی پرہیز کرو اوردودو، تین تین، چارچارتک شادیاں کرلو، اس آیت کی ایک تیسری تفسیر بھی مروی ہے یہ تفسیر شعبہ نے سماک سے اور انھوں نے عکرمہ سے بیان کی ہے کہ بعض دفعہ قریش کے کسی شخص کے نکاح میں عورتیں ہوتیں اور اس کے زیرکفالت یتیم بچے یابچیاں ہوتیں جب کسی وجہ سے اس کا مال ختم ہوجاتاتو وہ ان یتیموں کے مال پر ہاتھ صاف کرنا شروع کردیتا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اگرباپ یادادا کے علا وہ کوئی اور شخص کم سن بچے یابچی کا نکاح کرادے تو اس کے متعلق فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ ہر وہ رشتہ دارجو میراث میں حقدارہوتا ہے اس کے لیے جائز ہے، کہ وہ اپنے قریب سے قریب رشتہ دارکانکاح کرادے۔ اگر باپ یادادا نکاح کرانے والا ہوتوان نابالغ بچوں اور بچیوں کو بالغ ہونے کے بعد نکاح توڑدینے یا باقی رکھنے کا کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ بالغ ہونے کے بعد بھی ان کا نکاح بحالہ باقی رہے گا۔ اگر باپ یادادا کے علاوہ کسی اور رشتہ دارنے نکاح کرایا ہوتوبالغ ہونے کے بعد انھیں اختیارہوگا چاہیں تو نکاح باقی رکھیں اور چاہیں تو توڑدیں۔ امام ابویوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ کم سن بچے بچی کا نکاح صرف عصبات ہی کر اسکتے ہیں اور ان عصبات کے سلسلے میں الاقرب فاقرب، کے اصول کے مدنظر رکھاجائے گا، یعنی جو زیادہ قریبی ہوگا، وہ زیادہ حقدارہوگا۔ اس صورت میں بالغ ہونے کے بعد ان دونوں کو کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ امام خمدکا قول ہے کہ اگر باپ یادادا کے علاوہ کسی اور نے یہ نکاح کرایا ہو تو میاں بیوی کو بالغ ہونے کے بعد اختیارہوگا۔ ابن وہب نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ اگر ایک شخص کو اپنے یتیم رشتہ داربچے یابچی میں نیکی سمجھ بوجھ اور خوبی نظرآئے تو اس کا نکاح کرادینا اس کے لیے جائز ہوگا۔ ابن القاسم نے امام مالک سے فقل کیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی کم سن بہن کا نکاح کرادیتا ہے تو یہ جائز نہیں ہوگا ۔ وصی نکاح کراسکتا ہے، خواہ ولی ناراض ہی کیوں نہ ہو، وصی، ولی سے بڑھ کرہوتا ہے۔ البتہ ثیبہ (جس کا پہلے نکاح ہوچکا ہو اور اب وہ شوہر کے بغیر ہو) کا نکاح اس کی رضامندی کے بغیر نہیں کراسکتا۔ اس کے لیے یہ مناسب نہیں ہوگا کہ ثیبہ کو اپنی ذات کے متعلق جو خیارحاصل ہے اسے ختم کردے۔ وصی کم سن بچوں اور بچیوں کا نکاح کرائے گا۔ لیکن بالغ لڑکیوں کا نکاح ان کی رضامندی کے بغیر نہیں کرائے گا۔ اس مسئلے میں لیث کا قول امام مالک کے قول کی طرح ہے حسن بن صالح کے نزدیک وصی اگر ولی بھی ہو تو نکاح کراسکتا ہے ورنہ نہیں۔ امام شافعی کا قول ہے کہ نابالغ بچوں اور بچیوں کا نکاح صرف باپ کراسکتا ہے اور باپ نہ ہونے کی صورت میں دادایہ فریضہ سرانجام دے سکتا ہے۔ نابالغ بچی پر وصی کو کوئی ولایت حاصل نہیں ہوتی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جریر نے مغیرہ سے روایت کی ہے۔ انھوں نے ابراہیم سے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : جس شخص کی سرپرستی میں کوئی ایسی یتیم بچی ہو جو شکل وصورت کے لحاظ سے بھتدی ہو اور جس سے نکاح کرنے کی کسی کو رغبت نہ ہو تو وہ اس بچی کو اپنے پاس رکھے اگر بچی نکاح کی رغبت رکھتی ہو تو اس کا نکاح کسی اور سے کرادے۔ حضرت علی ؓ حضرت ابن مسعو ؓ د، حضرت ابن عمر ؓ حضرت زیدبن ثابت ؓ اور حضرت ام سلمہ نیز حسن، طاؤس، عطا اور دیگرتابعین سے نابالغ بچی کے نکاح کرانے کا جواز منقول ہے جو باپ اور دادا کے علاوہ کوئی اور رشتہ دارکرادے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت عائشہ ؓ سے آیت کی یہ تفسیر منقول ہے کہ یہ یتیم بچی کے متعلق ہے۔ جیسا کہ ہم گزشتہ سطور میں ذکرکر آنے ہیں۔ یہ یتیم لڑکی اپنے ولی کی سرپرستی میں ہوتی ہے، اسے اس کے مال اور حسن وجمال کی وجہ سے اس نکاح کرلینے کی رغبت پیدا ہوتی ہے، لیکن مہر کی ادائیگی میں وہ انصاف نہیں کرتا ہے۔ اس بناپر انھیں ان سے نکاح کرنے سے منع کردیا گیا الایہ کہ وہ مہر کے معاملہ میں ان لڑکیوں کے مرتبے اور درجے کا پوراپورا پاس کریں تو پھر ان سے نکاح کرلیں ۔ جب ان دونوں کے نزدیک آیت کی یہی تاویل وتفسیہ ہے تو اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ صغیرہ کے نکاح کرانے کا جواز ان کے مسلک کا حصہ ہے۔ ہمیں سلف میں سے کسی کے متعلق یہ علم نہیں کہ اس نے اس قسم کے نکاح کی ممانعت کی ہو۔ آیت کی بھی اس تاویل پر دلالت ہورہی ہے جسے حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت عائشہ نے اختیار کی ہے اس لیے کہ ان دونوں نے یہ ذکرکیا ہے کہ آیت اس یتیم لڑکی کے متعلق ہے جوا پنے ولی کی سرپرستی میں ہوتی ہے ولی اس کے مال وحسن وجمال کی طرف راغب ہو کر اس سے نکاح کرلیتا ہے، لیکن مہر کی ادائیگی میں اس کے ساتھ انصاف نہیں کرتا اس بناپرولی کو اس سے نکاح کرنے کو روک دیا گیا، البتہ اگر وہ مہر کے معاملے میں انصاف کارویہ اپنائے گا تو پھر نکاح کرسکتا ہے۔ اولیا میں سب سے اقرب ولی جس کی سرپرستی میں یتیم لڑکی ہوتی ہے اور جس کے لیے اس سے نکاح کرنا جائز ہوتا ہے۔ وہ لڑکی کا چچازاد بھائی ہے۔ اس لیے آیت چچازاد بھائی کے نکاح کے جواز کو متضمن ہے جو وہ اپنی سرپرستی میں پرورش پانے والی یتیم لڑکی سے کرلے۔ اگریہ کہاجائے کہ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت عائشہ کی تاویل کی سعید بن جبیر اور دوسرے حضرات کی تاویل کے مقابلے میں اولی کیوں قراردیا گیا جبکہ آیت میں ان تمام تاویلات کا احتمال موجود ہے، تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس میں کوئی امتناع نہیں کہ آیت میں حضرت ابن عباس ؓ اور سعید بن جبیر دونوں کے بیان کردہ معانی مرادہوں، اس لیے کہ آیت کے الفاظ میں دونوں معانی کا احتمال موجود ہے اور ان دونوں معانی کے درمیان کوئی منافات بھی نہیں ہے۔ اس لیے آیت کو ان دونوں معانی پر محمول کیا جاسکتا ہے البتہ بات اتنی ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت عائشہ ؓ دونوں کا قول ہے کہ یہ آیت یتیم لڑکی کے بارے میں ہے اور یہ چیزایسی ہے جو اپنی رانے سے کہی نہیں جاسکتی ۔ بلکہ شریعت کی طرف سے اس کے متعلق واقف ہونے کے بعد کہی جاسکتی ہے، اس لیے یہ تاویل اولی ہوگی کیونکہ ان دونوں نے آیت کے نزول کا سبب بیان کردیا ہے۔ اور وہ پس منظر بھی جس کے تناظر میں یہ آیت نازل ہوئی اس لیے یہ تاویل اولی ہوگی۔ اگریہ کہاجائے کہ اس سے مراد جد، یعنی دادالینا بھی جائز ہے تو اس کے جواب میں کیا جائے گا کہ آیت کا نزول اس یتیم لڑکی کے متعلق ہوا ہے جو اپنے ولی کی سرپرستی میں ہو اوردلی خود اس سے نکاح کرنے کا خواہشمند ہو، اب ظاہر ہے کہ دادا ایسی خواہش نہیں کرسکتا، تو اس سے یہ معلوم ہوگیا یہاں اس سے مراد چچازادبھائی یا کوئی اور ولی ہے جو اس سے بھی زیادہ دورکارشتہ دارہو۔ اگر یہ کہاجائے کہ آیت بالغ لڑکی کے بارے میں ہے کیونکہ حضرت عائشہ نے فرمایا ہے : کہ لوگوں نے اس آیت کے نزول کے بعد ان کے متعلق حضور ﷺ سے استفسار کیا تھا جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ویستفتونک فی النساء قل اللہ یفتیکم فیھن وما یتلی علیکم فی الکتاب فی یتامی النساء) پہلی آیت یہ ہے (وان خفتم الاتقسطوافی الیتامی) جب اللہ تعالیٰ نے (فی یتامی النساء) فرمایا تو اس کی خود بخود اس پر دلالت ہوگئی کہ یتامی سے مراد بالغ لڑکیاں میں نابالغ نہیں کیونکہ نابالغ لڑکیوں کو نساء نہیں کہاجاتا ، اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات دودجہ سے غلط ہے، اول یہ کہ قول باری (وان خفتم الا تقسطوافی الیتامی) حقیقت میں ان لڑکیوں کا مقتضی ہے جو ابھی بالغ نہیں ہوئیں اس لیے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (لایتم بعدالحلم) اور کلام کو اس کے حقیقی معنی سے ہٹاکرمجازی معنی کی طرف لے جاتا اسی وقت درست ہوتا ہے جب کوئی دلالت اور قرینہ موجود ہو۔ بالغ لڑکی کو برسبیل مجاز یتیمہ کہاجاتا ہے۔ دوسری طرف قول باری (فی یتامی النساء) کی اس معنی پر کوئی دلالت نہیں ہے جس کا معترض نے ذکر کیا ہے، اس لیے کہ یہ یتیم لڑکیاں عورتوں کی جنس سے تعلق رکھتی ہیں اس بناپرعورتوں یعنی النساء کی طرف انھیں مضاف کرنا درست ہوگیا۔ اس کے شواہد کے طورپریہ آیات پیش کی جاسکتی ہیں۔ قول باری ہے (فانکواماطاب ککم من النساء) اس مین بالغ اور نابالغ دونوں قسم کی لڑکیاں داخل ہیں۔ اسی طرح قول باری (ولاتنکحوامانکح اباؤکم من النساء جن عورتوں سے تمہارے آباء نے نکاح کرلیا ہو، ان سے تم نکاح نہ کرو) میں لفظ، النساء، میں بالغ اور نابالغ دونوں قسم کی لڑکیاں مراد ہیں۔ اسی طرح آیت (وامھات نساء کم ، اور تم پر تمھاری بیویوں کی ما میں حرام ہیں) میں بھی دونوں قسم کی عورتیں مراد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی نابالغ لڑکی سے نکاح کرلیتا ہے تو اس کی ماں اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہے۔ ان شواہدودلائل کے بعد یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ، یتامی، کی النساء، کی طرف اضافت کی صورت میں ایسی کوئی دلالت نہیں پائی جاتی، جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ یتامی سے مراد بالغ لڑکیاں میں نابالغ لڑکیوں کے سلسلے میں درست نہیں ہوسکتی، اس لیے کہ بالغ لڑکی اپنے مرتبے کے لحاظ سے عائد ہونے والے مہر سے کم مہرپر نکاح کی رضامندی کا اظہارکردے تو یہ نکاح درست ہوجائے گا، اور کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ آیت میں مراد نابالغ لڑکیاں ہیں جن کے نکاح کے سلسلے میں ان لوگوں کو تصرف کا حق ہوتا ہے جن کی سرپرستی میں یہ لڑکیاں ہوتی ہیں۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جو ہم سے محمد بن اسحاق نے بیان کی انھیں عبداللہ بن ابی بکربن جزم اور عبداللہ بن الحارث اور ایک ایسے شخص نے جس پر میں روایت کے سلسلے میں کوئی تنقید نہیں کرتا، ان سب نے عبداللہ بن شداد سے کہ جس شخص نے حضرت ام سلمہ ؓ کا نکاح حضور ﷺ سے کرایا تھا وہ ان کا بیٹا اسلمہ تھا۔ حضور ﷺ نے سلمہ کا نکاح حضرت حمزہ کی ایک بیٹی سے کردیاجب کہ یہ دونوں ابھی نابالغ تھے اور اتفاق سے دونوں کا ایک دوسرے سے مرنے تک ملاپ نہیں ہوسکا۔ حضور ﷺ نے اس موقعہ پر فرمایا تھا کہ سلمہ نے اپنی ماں کا مجھ سے جو نکاح کرادیا تھا اس کا میں نے بدلہ دے دیا۔ اس روایت کی ہماری ذکرکروہ بات پر دوطرح سے دلالت ہورہی ہے۔ اول حضور ﷺ نے سلمہ اور حضرت حمز ؓ ہ کی بیٹی کا نکاح کرادیا، حالانکہ آپ نہ ان کے باپ تھے نہ دادا۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ نابالغ کا اگر باپ یادادا کے سوا کوئی اور نکاح کرادے تو یہ نکاح درست ہوتا ہے۔ دوم جب حضور ﷺ نے یہ عمل کیا اور اللہ نے اپنے قول (فاتبعوہ) کے ذریعے آپ کے اتباع کا حکم دیاجس کی بناپر آپ کا اتباع ہم پر فرض ہے تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ قاضی یا عدالت کو نابالغوں کے نکاح کرانے کا حق حاصل ہے اور جب قاضی یا عدالت یہ کام سرانجام دے سکتی ہے تو تمام ایسے لوگ بھی جو ولی اور سرپرست بن سکتے ہوں یہ کام سرانجام دے سکتے ہیں اس لیے کہ کسی نے قاضی اور ولی کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ اس پر حضور ﷺ کا یہ ارشاد (لانکاح الابولی، ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہوتا) بھی دلالت کررہا ہے۔ آپ نے ولی کے ذریعے منعقد ہونے والے نکاح کو برقراررکھا۔ حقیقی اور چچازادبھائی بھی ولی ہوتے ہیں۔ اس ارشاد میں دلیل کا پہلویہ ہے کہ اگر لڑکی بالغ ہوتی تو یہ لوگ نکاح میں ولی کی حیثیت رکھتے۔ نکاح کرانے میں نہیں۔ عقلی طورپرہماری بات پر یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ تمام اہل علم اس پر متفق ہیں کہ باپ اور دادا کسی وجہ مثلا کفریا غلامی کی بناپر میراث کے اہل نہیں ہوں گے تو وہ نکاح کرانے کے بھی اہل نہیں ہوں گے اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ اس ولایت کا استحقاق میراث کی بنیادپرہوتا ہے۔ اس لیے جو شخص بھی میراث کا اہل اور مقدارہوگا اس کے لیے قرابت کے درجوں کی بنیادپرقریب ترین رشتہ دارکا کسی سے نکاح کرادینا جائز ہوگا۔ اسی نباپرامام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ ماں اور موالات کی بناپر تعلق رکھنے والے شخص یعنی مولی الموالاۃ، کو نکاح کرادینے کا حق حاصل ہے بشرطیکہ جس کا نکاح ہورہاہو اس کا کوئی اور قریبی رشتہ دارموجود نہ ہو۔ ان دونوں کو یہ حق اس لیے حاصل ہے کہ یہ میراث کے اہل ہیں۔ اگریہ کہاجائے کہ نکاح سے چونکہ مال کا بھی تعلق ہوتا ہے، اس لیے جس شخص کا مال میں تصرف جائز نہیں ہوتا اس کا عقید بھی جائز نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے جواب میں کہاجانے گا کہ نکاح میں اگر مال کا ذکر اور تعین نہ بھی ہو پھر بھی اس کا ثبوت ہوجاتا ہے۔ اس لیے عقدنکاح میں مال کے اندردلایت کا عتبارکیاجائے گا آپ نہیں دیکھتے کہ جن حضرات کے نزدیک ولی کے بغیر نکاح کا جواز نہیں وہ بھی اولیاء کے لیے نکاح کرانے کے حق کے قائل ہیں، حالانکہ بالغ عورت کے مال میں ان کی کوئی دلایت نہیں ہوتی ۔ اس اعتراض سے امام مالک اور امام شافعی پر یہ لازم آتا ہے کہ وہ باپ کی طرف سے اپنی بالغ بیٹی کو بیاہ دینے کو جائزقرار نہ دیں اس لیے کہ مال میں باپ کو اپنی بالغ بیٹی پر کوئی دلایت حاصل نہیں ہوتی۔ اب جبکہ بالغ بیٹی کے مال میں دلایت کا حق حاصل نہ ہونے کے باوجودان دونوں حضرات کے لزدیک باپ کا اپنی بالغ بیٹی کا اس کی رضا مندی کے بغیرنکاح کرادینا جائز ہے تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ عقدنکاح میں ولایت کے استحقاق کے لیے مال میں تصرف کے جواز کا امتبار نہیں کیا جاتا۔ خلاصہ کلام آیت کی ولالت کی جو وضاحت ہم نے کی ہے اس سے جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ نابالغ لڑکی کا ولی اس کا نکاح اپنے ساتھ کراسکتا ہے، تو اس سے یہ دلالت بھی حاصل ہوگئی کہ بالغ کا ولی بھی اس کی رضامندی کے ساتھ اس کا نکاح اپنے ساتھ کراسکتا ہے۔ نیز اس پر بھی دلالت ہورہی ہے کہ اگر شوہر اور بیوی کی طرف سے عقدنکاح کا کام سرانجام دینے والا اگر ایک فردہومثلا وہ دونوں کا وکیل ہو تو اس کی گنجائش اور اس کا جواز ہے جس طرح کہ نابالغ لڑکی کے ولی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اس کا نکاح اپنے ساتھ کرادے اس صورت مین نکاح کا ایجاب وقبول کرنے والا ایک ہی شخص ہوگا۔ نیز اس پر بھی دلالت ہورہی ہے کہ اگر کوئی شخص دونابالغ افراد کا ولی ہو تو اس کے لیے ایک کا دوسرے کے ساتھ نکاح کرادینا جائز ہوگا۔ ان وجوہ کی بناپرمذکورہ یالاآیت امام شافعی کے قول کے بطلان پر دلالتکررہی ہے کیونکہ ان کا قول ہے کہ نابالغ لڑکی کا نکاح اس کے باپ اور دادا کے سوا کوئی اور نہیں کراسکتا۔ نیز ان کا یہ قول بھی غلط ہے کہ بالغ لڑکی کے ولی کے لیے یہ جائز نہیں کہ مجلس عقد میں اس کی موجودگی کے بغیر اس سے نکاح کرلے۔ اسی طرح ان کے اس قول کے بطلان پر بھی دلالت ہورہی ہے کہ بالغ لڑکے اور لڑکی کے عنقد نکاح میں ایک شخص کا ان دونوں کی طرف سے وکیل بن جانا جائز نہیں ہے۔ ہمارے اصحاب کے نزدیک نابالغ لڑکی کے وصی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس کا کسی سے نکاح کرادے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (لانکاح الابولی) اور وصی ولی نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ارشاد باری ہے۔ جوشخص ازراہ اللم قتل ہوجائے ہم نے اس کے ولی کو اختیاردے دیا ہے) اگر اس قتل کے بدلے میں قصاص واجب ہوجائے گا توقصاص لینے میں وصی ولی کا کردارادا نہیں کرسکے گا۔ اور نہ ہی اس بارے میں اسے ولایت کا استحقاق حاصل ہوگا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وصی پر ولی کے اسم کا اطلاق نہیں ہوسکتا اس لیے یہ واجب ہوگیا کہ نابالغ لڑکی کے وصی کا نکاح کرانا جائز نہ ہو اس لیے کہ وہ اس کا ولی نہیں ہے۔ نابالغ بچیوں کی ولایت کا استحقاق اگریہ کہاجائے کہ اس اصول کی بناپربھائی یاچچا وغیرہ بھی نابالغ لڑکی کے ولی نہ بن سکیں گے۔ اس لیے کہ انھیں قصاص کی ولایت کا استحقاق نہیں ہوتا۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے قصاص میں عدم ولایت کو اس کی علت قرار نہیں دیا کہ اس کی بناپر ہمارے لیے اعتراض میں بیان کردہ حکم لازم ہوجائے۔ ہم نے تو صرف یہ بیان کیا ہے کہ مال میں تصرف کے استحقاق کے لحاظ سے ولی کے اسم کا وصی پر اطلاق نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ اسم اسے شامل ہوتا ہے جہاں تک بھائی اور چچا کا تعلق ہے تو دہ دونوں ولی ہیں اس لیے کہ یہ دونوں عصبات میں سے ہیں اور کسی کے نزدیک عصبات پر ولی کے اسم کے اطلاق میں کوئی امتناع نہیں ہے۔ قول باری ہے (وانی خفت الموالی من ورائی اور میں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں کی طرف سے اندیشہ رکھتا ہوں) ایک قول ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کی اس سے مراد، اپنے چچازادرشتہ دار اور عصبات ہیں اس لٹے کہ ولی کے اسم کا اطلاق عصبات پر تو ہوسکتا ہے لیکن وصی پر نہیں ہوسکتا۔ جب حضور ﷺ نے یہ فرمادیا کہ (لانکاح الابولی) تو اس سے نابالغ لڑکی کے وصی کا نکاح کرانے کا جواز مقضی ہوگیا کیونکہ وہ ولی نہیں ہوتا جبکہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (ایماامراۃ نکحت بغیراذن ولیھا فنکاحھا باطل وفی لفظ اخربغیراذن موالیھا۔ جو عورت بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گی اس کا نکاح باطل ہوگا۔ ایک روایت میں ولیھا کی بجائے موالیھا ہے) یہ روایت دیوانی عورت اور بالغ دوشیزہ کے نکاح کے بطلان کی مقتضی ہے جب کہ وصی ان کا نکاح کرلیایا انھوں نے ولی کی اجازت کے بغیروصی کی اجازت سے ازخود نکاح کرالیاہو۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے اور اسی بناپرایسانکاح باطل ہوگا کیونکہ یہ ولی کی اجازت کے بغیر ہوا ہے۔ نیز نکاح میں ولایت کا استحقاق میراث کی اہلیت کی بناپرہوتا ہے جیسا کہ ہم سابقہ سطور میں اسے مدنل طورپرثابت کرچکے ہیں۔ اب وصی چونکہ میراث کا اہل نہیں ہوتا اس لیے اسے ولایت کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ نیز نکاح میں ولایت کے استحاق کا سبب نسبی رشتہ داری ہے اور نکاح ایسامعاملہ ہے جس میں عمل انتقال کی گنجائش نہیں ہوتی اس بناپروصی کو اس کا استحقاق حاصل نہیں ہوگا کیونکہ اس میں وہ سبب مفقود ہے جس کی بناپروہ ولایت کا حق حاصل کرسکتا ہے۔ ایک پہلویہ بھی ہے کہ ایک شخص کی موت کے بعد اس کے مال میں تصرف نکاح میں تصرف کی طرف نہیں ہوتا کیونکہ مال میں عمل انتقال کی گنجائش ہوتی ہے لیکن نکاح میں اس کی گنجائش نہیں اس لیے کہ نکاح کا زوجین سے کسی اور کی طرف منتقل ہوجانادرست نہیں ہوتا۔ اس لیے وصی کو نکاح کے اندرولایت حاصل ہوجانا جائز نہیں ہوا۔ اسی طرح باپ کی زندگی میں وصی کی حیثیت وکیل کی طرح نہیں ہوتی اس لیے کہ وکیل اپنے موکل کے حکم سے تصرف کرتا ہے اور موکل کا حکم وکیل کے تصرف کے جواز کے لیے باقی ربتا ہے۔ لیکن اس امر کے متعلق میت کا حکم منقطع ہوجاتا ہے جس میں عمل انتقال درست نہیں ہوتا اور وہ امرنکاح ہے۔ اس بناپروکیل اور وصی دونوں کا معاملہ ایک دوسرے سے مختلف ہوگیا۔ اگریہ کہاجائے کہ تمہارے نزدیک حاکم وقت دونابالغوں کے درمیان نکاح کراسکتا ہے حالانکہ وہ نہ میراث کا اہل ہوتا ہے اور نہ ہی نسبی تعلق کی بناپرولایت کا۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ حاکم وقت اپنے تصرفات میں مسلمانوں کی جماعت کا قائم مقام ہوتا ہے۔ اور مسلمانوں کی جماعت دونوں بالغوں کی میراث کے اہل افراد میں سے ہوتی ہے اور ان کا وجودباقی رہتا ہے۔ اس لیے حاکم وقت ان کے وکیل کی طرح ہوتا ہے اور اس بناپرا سے ولایت کا استحقاق حاصل ہوتا ہے۔ نیز مسلمان بھی حاکم وقت کی میراث کے اہل افراد میں سے ہوتے ہیں اس لیے کہ اگر حاکم وقت مرجائے اور اس کے رشتہ داروں میں سے کوئی وارث موجودنہ ہو تو اس صورت میں مسلمان اس کے وارث ہوں گے۔ اس آیت میں یہ ولالت بھی موجود ہے کہ باپ اپنی نابالغ بیٹی کا نکاح کراسکتا ہے، اس لیے کہ آیت تمام اولیاء کی طرف سے نابالغ لڑکی کے نکاح کرانے کے جواز پر دلالت کرتی ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ باپ قریب ترین ولی ہوتا ہے۔ اس لیے وہ یہ کام کرسکتا ہے۔ اس مسئلے میں فقہاء امصار میں سے متقدمین اور متاخرین کے درمیان کسی اختلاف کا ہمیں کوئی علم نہیں ہے، البتہ بشربن الولید کی ابن شبہ مہ سے ایک روایت ہے کہ باپ نے اپنے نابالغ بچے یابچی کا نکاح کرادینا جائز نہیں ہے۔ درحقیقت یہ ایک بہرے انسان کا مسلک ہوسکتا ہے اور اس کے بطلان پر ہماری مذکورہ آیت کی دلالت کے علاوہ قول باری واللانی یئسن من المحیض من نساء کم ان ارتبتم فعدتھن ثلاثۃ اشھرواللائی لم یحضن۔ اور تمھاری مطلقہ بیویوں میں سے جو حیض آنے سے مایوس ہوچکی ہیں) اگر تمہیں شبہ ہو، تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور اسی طرح ان کی بھی جنھیں ابھی حیض نہ آیاہو) کی بھی دلالت ہورہی ہے، اس لیے کہ اس آیت میں نابالغ لڑکی کو ج سے ابھی حیض نہیں آی اطلاق دینے کی صحت کا حکم لگایا گیا ہے اور طلاق صرف نکاح صحیح پر ہوتی ہے اس لیے یہ آیت نابالغ لڑکی کے نکاح کرانے کے جواز کو متضمن ہے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت عائشہ سے اس وقت نکاح کیا تھا جب ان کی عمر صرف چھ برس تھی ان کے والدماجد حضرت ابوبکرؓ نے ان کا نکاح کرایا تھا۔ یہ روایت دو باتوں پر مشتمل ہے۔ اول یہ کہ باپ کا اپنی نابالغ بیٹی کا نکاح کرادینا جائز ہے۔ دوم یہ کہ اس صورت میں بالغ ہونے کے بعد لڑکی کو خیارحاصل نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ حضور ﷺ نے حضرت عائشہ کو بالغ ہوجانے کے بعد نکاح باقی رکھنے یا نہ رکھنے کا اختیار نہیں دیا تھا۔ تعدد ازواج کا مسئلہ قول باری ہے (ماطاب لکم من النساء۔ عورتوں میں سے جو تمھیں پسند آئیں) مجاہدنے اس کے معنی یہ بیان کیے کہ ، طیب اور پاکیزہ نکاح کرو، حضرت عائشہ ؓ ، حسن اور ابومالک کا قول ہے کہ جو عورتیں تمہارے لیے حلال کی گئی ہیں ان سے نکاح کرو، فراء نحوی سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (ماطاب) سے مصدری معنی مراد لیے ہیں گویا یوں فرمایا : پاکیزہ یعنی حلال عورتوں سے نکاح کرو۔ فراء نے مزیدکہا کہ اسی بناپر، ماطاب ، کہنا درست ہوگیا اور، من طاب، (جواچھی ہو) نہیں کہا۔ قول باری ہے (مثنیٰ وثلث وربع۔ دودو، تین تین، چارچار) اس میں دوبیویوں کی اباحت ہے اگر م دایساچا ہے۔ اسی طرح تین اور چارتک کی ، اگر وہ ایسا کرنا چاہے یعنی اسے یہ اختیا رہے کہ ان اعداد کے اندررہتے ہوئے جن عورتوں کو وہ اپنے عقدزوجیت میں لانا چاہے لاسکتا ہے، اگر اسے یہ اندیشہ ہو کہ وہ چاروں بیویوں کے درمیان انصانہیں کرسکتا تو صرف تین پر اکتفا کرلے، اگر تین کے متعلق بھی اسے یہی اندیشہ ہو تو پھر دوپربس کرے، اگر دو کے ساتھ بھی یہی صورت حال ہو تو پھر صرف ایک پر کتقاکرے، ایک قول ہے کہ یہاں حرف واوحرف، او، کے معنی میں ہے۔ گویا یوں فرمایا، دودویاتین تین یاچارچار، ایک قول یہ بھی ہے کہ حرف، واو، اپنے حقیقی معنی پر محمول ہے لیکن اس کا استعمال بدل کے طورپر ہوا ہے گویا کہ یوں فرمایا، دودو، اور دودو کی بجائے تین تین، اور تین تین کی بجائے چارچار ، یہاں واوکے یہ معنی نہیں کہ تمام اعداد کو جمع کردیاجائے۔ اس قول کے قائل کا مزید کہنا یہ ہے کہ اگر حرف واؤکو، اذ، کے معنی میں لیا جائے تو پھر اس کی گنجائش اور اس کا جواز ہوسکتا ہے کہ دوبیویوں والے کے لیے تیسری بیوی اور تین بیویوں والے کے لیے چوتھی بیوی نہ ہوسکے۔ اس لیے حرف ، واو، کے ذکرنے خطاب میں داخل ہونے والے ہر فرد کے لیے چار بیویوں تک کی اباحت کا فائدہ دیا۔ نیزدوکاہندسہ تین میں اور تین کاہندسہ چار میں داخل ہے کیونکہ یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ ان مذکورہ اعداد میں سے مرعددوسرے عدد کے ساتھ بطورجمع مراد ہے۔ اگر ایسا ہو تو اس صورت میں کل تعداد توبن جائے گی۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (قل ائنکم لتکفرون بالذی خلق الارض فی یومین وتجعلون لہ اندادا، ذلک رب العالمین ، وجعل فیھا رواسی من فوقھا وبرک فیھا وقدرفیھا اقواتھا من اربعۃ ایام۔ آپ کہیں کہ تم تو اس خدا کے منکرہوجس نے زمین کو دوروز میں پیدا کیا۔ اور تم ایسے خدا کا دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہو وہی تو سارے جہانوں کا پروردگار ہے اور اسی نے زمین کے اوپر پہاڑبنادیے اور اس زمین میں فائدے کی چیزیں رکھ دیں اور اسی میں اس نے غذائیں رکھ دیں یہ سب چاردنوں میں ہوا) اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ چاردن ان دودونوں میں داخل ہیں جن کا آیت کی ابتدا میں ذکر ہوچکا ہے۔ پھر ارشادہوا (فقضاھن سبع سموت فی یومین۔ پھر دوروز میں سات آسمان بنادیے) اگر مذکورہ بالا تاویل نہ اختیار کی جاتی تو پھر دنوں کی تعدادآٹھ ہوجاتی اور اللہ کے اس قول (خلق السموت والارض فی ستۃ ایام، اس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا) سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ دنوں کی تعدادآٹھ نہیں ہے اور تعداد کے بارے میں جو تاویل کی ہے وہ درست ہے۔ ٹھیک اسی طرح آیت زیربحث میں مثنیٰ (دودو) ثلاث (تین تین) میں داخل ہے اور ثلاث رباع (چارچار میں داخل ہے۔ اس لیے آیت نے جتنی بیویوں کی اباحت کی ہے ان کی کل تعداد چارہوگئی، اس سے زائد نہیں۔ بیویوں کی یہ تعداد، آزاد مردوں کے لیے ہے غلاموں کے لیے نہیں۔ یہی قول ہمارے اصحاب ثوری، لیث اور امام شافعی کا ہے۔ امام مالک کے نزدیک غلام اگر چاہے توچارتک شادیاں کرسکتا ہے۔ چار کی تعدادپر مشتمل آیت احرار یعنی آزاد مردوں کے لیے ہے، غلاموں کے لیے نہیں۔ اس کی دلیل قول باری (فالکحواماطالبالکم) ہے۔ یہ حکم احرار کے ساتھ خاص ہے۔ غلاموں کا اس سے کوئی تعلق نہیں اس لیے کہ غلام عقدنکاح کا مالک نہیں ہوتا۔ فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ جو غلام بھی اپنے آقا کی اجازت کے بغیرنکاح کرے گا وہ عاھر، یعنی زانی ہوگا، قول باری ہے (ضرب اللہ مثلاعبدامملوکالایقدرعلی شیء۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مثال بیان کی ایک مملوک غلام ہے جو کسی چیز کی قدرت اور طاقت نہیں رکھتا) اب جبکہ غلام عقدنکاح کا مالک نہیں تو وہ آیت کے خطاب میں داخل ہی نہیں اس لیے ضروری ہوگیا کہ آیت کے متعلق قراردی جائے۔ نیز سب کا اس پر اتفاق ہے کہ نکاح سے متعلق مقررہ حقوق مثلاطلاق اور عدت وغیرہ میں غلامی کے اثر کی بناپرکمی آجاتی ہے۔ اب جبکہ ہویوں کی تعدادبھی نکاح کے حقوق میں سے ایک ہے، اس لیے ضروری ہے کہ آزاد کے مقابلے میں وہ بھی آدھی رہ جائے۔ چھ صحابہ کرام سے مروی ہے کہ غلام صرف بیک وقت دوبیویاں رکھ سکتا ہے، ان حضرات کے فقاء میں سے کسی سے بھی اس کے خلاف کوئی روایت مروی نہیں ہے جو ہمارے علم میں ہو سلیمان بن یسارنے عبداللہ بن عتبہ سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : غلام صرف دوعورتوں سے نکاح کرسکتا ہے۔ دوطلاقیں دے سکتا ہے اور لونڈی دوحیضوں کی عدت گزارے گی۔ اگر اسے حیض نہ آتا ہو تو اس کی عدت ڈیڑھ ماہ ہوگی۔ حسن اور ابن سیرین نے حضرت عمر اورحضرت عبدالرحمن بن عوف سے روایت کی ہے کہ غلام کے لیے بیک وقت دو سے زائد بیویاں رکھنا حلال نہیں ہے جعفربن محمد نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا : غلام کے لیے دو سے زائدعورتوں سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے، حمادنے ابراہیم نحغی سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر ؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعو ؓ دے فرمایا : غلام دو سے زائدشادیاں نہیں کرسکتا، شعبہ نے حکم سے انھوں نے فضل بن عباس سے روایت کی ہے کہ غلام دوشادیاں کرلے گا۔ ابن سیرین کا قول ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : تم میں سے کون یہ جانتا ہے کہ غلام بیک وقت کتنی بیویاں رکھ سکتا ہے ایک انصاری نے عرض کیا۔ میں جانتاہوں فرمایا : پھر تباؤ ؟ اس نے کہا : دو ، اس پر حضرت عمر ؓ خاموش ہوگئے۔ اب ظاہ رہے کہ حضرت عمر ؓ جس شخص سے مشورہ کریں اور اس کی رائے قبول کرلیں وہ یقینا صحابی ہوگا۔ لیث نے الحکم سے روایت کی ہے کہ صحابہ کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ غلام دو سے زائدبیوں نہیں رکھ سکتا۔ تعدد ازواج پر خلاصہ کلام اس طرح ہمارا بیان کردہ مسئلہ ائمئہ صحابہ کرام کے اجماع سے ثابت ہوگیا۔ ہمیں ان حضرات کے رفقاء میں سے کسی کے متعلق یہ معلوم نہیں کہ انھوں نے یہ فرمایا ہو کہ غلام چارشادیاں کرسکتا ہے۔ اب جو شخص بھی اس کی مخالفت کرے گا اس کے خلاف صحابہ کرام کے اجماع کی حجت قائم ہوجائے گی۔ حسن ابراہیم ، ابن سیرین، عطار اورامام شافعی سے بھی ہمارے قول کے مطابق اقوال منقول ہیں۔ اگریہ کہاجائے کہ یحییٰ بن حمزہ نے ابودہب سے، انھوں نے حضرت ابوالدرداء سے روایت کی ہے کہ غلام چارشادیاں کرسکتا ہے، مجاہد، قاسم، سالم اور ربیعۃ الرای سے بھی یہی قول منقول ہے، اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضرت ابولدرواء کی روایت کی اسناد میں ایک راوی مجہول ہے۔ اس کا نام ابو وہب ہے۔ اگر یہ اسنادثابت بھی ہوجائے پھر بھی اس کی وجہ سے ان ائمہ کے مسلک پر اعتراض نہیں ہوسکتا جن کے اقوال کا ہم نے یہاں ذکرکیا ہے اور ان سے اس مسلک کی بکثرت روایت ہوئی ہے الحکم نے۔ جو طبقہ تابعین کے ایک جلیل القدرفقیہ ہیں۔ حضور ﷺ کے صحابہ کرام کا یہ اجماع نقل کیا ہے کہ غلام دو سے زائد شادیاں نہیں کرسکتا۔ قول باری ہے (فان خفتم الاتعبد لوافواجدۃ۔ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم بیویوں کے درمیان انصاف کارویہ اپنا نہیں سکتے، تو پھر صرف ایک بیوی رکھو) آیت کے معنی ۔ واللہ اعلم۔ یہ ہیں کہ تم اپنی بیویوں کے درمیان شب باشی کی باریاں تقسیم کرنے میں انصاف نہ کرسکو۔ اس لیے کہ ایک دوسری آیت میں ارشادباری ہے (ولن تستطیعوا ان تعدلوابین النساء ولوحرصتم فلاتمیلواکل المیل۔ بیویوں کے درمیان پوراپوراعدل کرنا تمھارے بس میں نہیں ہے تم چاہو بھی تو اس پر قادر نہیں ہوسکتے ، اس لیے ایک بیوی کی طرف پوری طرح نہ جھک جاؤ) یہاں المیل سے مراد دل کامیلان ہے۔ عدل سے مراد وہ انصاف ہے جسے وہ بروئے کارلاسکتا ہے، لیکن اسے ایک کی طرف بالفعل میلان کے اظہار کی بناپریہ اندیشہ ہو کہ وہ شاید انصاف کارویہ اختیارنہ کرسکے جب اسے اظہار میلان کے ظلم وزیاتی اور انصاف سے پہلوتہی کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں اللہ کا اسے یہ حکم ہے کہ وہ صرف ایک بیوی پر اکتفا کرلے۔ عقدنکاح میں مذکورہ تعداد کی اباحت کے حکم پر (اوما ملکت ایمانکم یا وہ عورتیں جو تمھارے قبضے میں آئی ہیں) کو عطف کیا۔ یہ قول باری اپنے حقیقی معنی کا مقتضی ہے اور اس کا ظاہر عقدنکاح کے سلسلے میں چارآزاد عورتوں اور چارلونڈیوں کے درمیان اختیارکو واجب کرتا ہے۔ اور اس طرح اسے اختیار مل جاتا ہے کہ چاہے تو آزادعورت سے نکاح کرلے اور چاہے تولونڈی سے عقدنکاح کرلے۔ اس تفسیر کی وجہ یہ ہے کہ قول باری (اوماملکت ایمانکم) فی نفسہ مستقل کلام نہیں ہے بلکہ یہ ماقبل کے معنی کو متضمن ہے، اس میں مفہوم کا جو حصہ پوشیدہ ہے اس سے اس کو علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ پوشیدہ حصہ وہ ہے جس کا ذکر پہلے گزرچکا ہے اور جسے خطاب میں ظاہر کردیاگیا ہے۔ اب ہمارے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ ہم ایسے معنی اور مفہوم کو پوشیدہ مان لیں جس کا ذکر پہلے نہ ہواہو۔ ہم ایساصرف اس وقت کرسکتے ہیں جب اس معنی اور مفہوم کے سوا کسی اور معنی اور مفہوم کی اس پر دلالت ہورہی ہو۔ ہم قول باری (اوماملکت ایمانکم) میں وطی کا مفہوم پوشیدہ نہیں مان سکتے۔ اس صورت میں پھر معنی یہ ہوجائیں گے۔ میں تمہارے لیے ملک یمین یعنی لونڈیوں کی وطی مباح کردی ہے۔ ہمارے لیے یہ مفہوم لینا اس لیے جائز نہیں ہے کہ آیت میں وطی کا ذکر پہلے نہیں گزرا ہے ، بلکہ آیت کی ابتداء میں عقدکاذکرگزرا ہے اس لیے کہ قول باری (فانکحواماطاب لکم) کے متعلق کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ اس سے مراد عقد ہے۔ اس نباپر یہ ضروری ہوگیا کہ قول باری (اوماملکت ایمانکم) میں جو پوشیدہ مفہوم ومعنی ہے وہ یہ ہو یا اپنی لونڈیوں سے نکاح کرلویہ نکاح عقدہی ہے اور جو پوشیدہ معنی اس کی طرف راجع ہے وہ عقد ہے وطی نہیں ۔ اگریہ کہاجائے کہ جب لفظ نکاح میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ وطی کے لیے اسم بن جائے پھر اس پر (او ماملکت ایمانکم) کو عطف کیا گیا توگویافقرہ یوں بن گیا کہ اپنی لونڈیوں سے نکاح کرو اور پھر اس کے معنی اس مقام پر وطی کے ہوگئے، اگرچہ اول خطاب میں اس کے معنی عقد کے ہیں تو اس کے جواب میں یہ کہاجائے گا کہ یہ معنی لینا جائز نہیں ہے اس لیے کہ جب اس کے پوشیدہ معنی وہ ہیں جس کا ذکراول خطاب میں گزرچکا ہے تو پھر یہاں بھی بعینہ وہی معنی ہوں گے اور یہاں بھی پوشیدہ معنی سے وہی معنی مراد لیے جائیں گے۔ اب جب کہ ذکرشدہ لفظ نکاح، سے عقدمراد ہے توگویامفہوم یہ ہوا۔ جو عورتیں تمہیں پسندآئیں ان سے عقدکرو، پھر جب ملک یمین میں اسے پوشیدہ مانا جائے گا تو یہ پوشیدہ معنی عقدہی ہوگا کیونکہ وطی کا ذکرنہ تو لفظا ہوا ہے اور نہ ہی معنوی طورپر۔ اس بناپر اس میں وطی کے مفہوم کو پوشیدہ ماننامتمنع ہوگیا۔ اگرچہ نکاح کا اسم کبھی وطی پر محمول ہوتا ہے۔ ایک اور جہت سے دیکھیں تو یہ ظاہر ہوگا کہ جب آیت میں ابتدا کے اندرنکاح کے ذکرکے سوا اور کہیں اس کا ذکر نہیں اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ اس سے مراد عقد ہے تواب یہ جائز نہیں کہ بعینہ یہی لفظ پوشیدہ رہ کروطی کا مفہوم اداکرے اس لیے کہ ایک ہی لفظ کا بیک وقت حقیقی اور مجازی دونوں معنی اداکرنا ممتنع ہے، اس لیے کہ حقیقت اور مجاز کی صورت یہ ہوتی ہے کہ دومعنوں میں سے ایک پر لفظ حقیقت کے طورپردلالت کرتا ہے اور دوسرے پر مجاز کے طورپر لیکن یہ جائز نہیں ہوتا کہ ایک لفظ بیک وقت دونوں معنوں پر مشتمل ہوجائے۔ اس لیے یہ واجب ہوگیا کہ (اوماملکت ایمانکم) میں پوشیدہ مفہوم عقدنکاح ہو جس کا ذکر آیت کی ابتدا میں ہوچکا ہے۔ اگر یہ کہاجائے کہ اس بات پرجوچیزدلالت کررہی ہے کہ یہاں پوشیدہ معنی وطی ہے۔ عقد نہیں وہ مخاطبین کے ملک یمین کی طرف اس کی اضافت ہے کیونکہ یہ تو معلوم ہی ہے کہ ملک یمین یعنی لونڈی سے نکاح کرنا محال ہوتا ہے، البتہ ملک یمین سے وطی کرنا جائز ہوتا ہے اس لیے ہمیں اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ یہاں وطی مراد ہے عقدمراد نہیں۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ جب ملک یمین کی اضافت جماعت کی طرف ہوئی تو اس سے غیر کی لونڈی سے نکاح کرنا مراد ہوا۔ جس طرح کہ یہ قول باری ہے (ومن لم یستطع منکم طولاان ینکح المحصنات المؤمنات فمماملکت ایمانکم من فتیاتکم المؤمنات اور تم میں سے جو شخص اتنی مقدرت نہ رکھتا ہو کہ خاندانی سلمان عورتوں یعنی محصنات سے نکاح کرسکے، اسے چاہیے کہ تمہاری لونڈیوں میں سے کسی سے نکاح کرلے جو تمھارے قبضے میں ہوں اور مومنہ ہوں) آیت میں اللہ تعالیٰ نے عقدنکاح کی اضافت مسلمانوں کی لونڈیوں کی طرف کردی اور یہ خطاب غیر کے ساتھ اپنی لونڈی کا نکاح کرانے کی اباحت کے سلسلے میں مسلمانوں کے ہر فرد کی طرف متوجہ ہے۔ اسی طرح قول باری (او ماملکت ایمانکم) بھی اسی معنی پر محمول ہے۔ اس بناپر اعتراض میں جو نکۃ اٹھایا گیا ہے وہ ایسے مفہوم کو پوشیدہ ماننے کے وجوب کی دلیل نہیں ہے۔ جس کا خطاب میں کوئی ذکر نہیں ہے اس لیے یہ واجب ہوگیا کہ اس قول باری میں پوشیدہ مفہوم وہ ہو جس کا ذکرکھلے بندوں پہلے گزرچکا ہے اور وہ عقدنکاح ہے۔ ہم نے جو کچھ یہاں بیان کیا وہ اس بات کی دلیل ہے کہ آیت اسے شخص کو جوآزاد عورت سے نکاح کرنے کی استطاعت رکھتا ہو، آزادعورت یا لونڈی میں سے کسی کے ساتھ نکاح کا اختیاردینے کی متقاضی ہے۔ اس لیے کہ کسی کو ایسی دوچیزوں میں اختیار دنیا درست ہوتا ہے جن میں سے ہر ایک کو کرلینا اس کے لیے ممکن ہوتا ہے، اس لیے مذکورہ آیت آزادعورت سے نکاح کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود لونڈی سے نکاح کرلینے کے جواز پر دوطرح سے دلالت کررہی ہے، اول قول باری (فانکحواماطاب لکم من النساء) کا عموم۔ کیونکہ یہ آزادعورتوں اور لونڈیوں، دونوں کو شامل ہے اس لیے کہ لفظ النساء کا اطلاق ان دونوں قسموں کی عورتوں پر ہوتا ہے۔ دوم قول باری (اوماملکت ایمانکم) کیونکہ یہ آزادعورتوں اور لونڈیوں میں سے جس کے ساتھ چاہے نکاح کرنے کے اختیار کا متقاضی ہے ہم نے سورة بقرہ میں قول باری (ولامۃ مؤمنۃ خیرمن مشرکۃ) کے اس مفہوم پر دلالت اس پر یہ قول باری (واحل لکم ماوراء ذلکم ان تبتغواباموالکم) انھیں اپنے اموال کے ذریعے سے حاصل کرنا تمہارے لیے حلال کردیا گیا ہے۔ اس میں جو عموم ہے وہ آزادعورتوں اور لونڈیوں کو شامل ہے اور کسی دلالت کے نز نہیں ہے۔ ہے (ذلک ادنی الاتعولوا بےانصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرین صواب ہے) جسن، مجاہد، ابورزین، شعبی، ابومالک ، اسماعیل، عکرمہ اور قتادہ نے اس کی تفسیر میں یہ کہا ہے رستے سے کسی اور طرف جھک نہ جاؤ، اسماعیل بن ابی خالد نے ابومالک غفاری سے نقل کی طرف جھک نہ جاؤ، عکرمہ نے ابوطالب کا یہ شعرپڑھا۔ ذان حدق لایخس شعیرۃ ووزان قسط وزنہ غیر عائل بائی کی تراز و میں جس کے اندر ایک جو کے برابر بھی وزن میں کمی نہیں ہوتی اور انصاف کا ایسا میزان زن میں کسی طرف جھکاذ نہیں۔ بل لغت کا قول ہے کہ عول، کے اصل معنی حد سے آگے بڑھ جانے کے ہیں، فرائض یعنی میراث میں کا مفہوم یہ ہے کہ وارثوں کے مقرررہ حصوں کی حدپارکرکے انھیں ترکے میں سے مزید کچھ دے دیا اس جھکاؤکو جو عدل اور توازن کے خلاف ہوتا ہے عول کہتے ہیں اس لیے کہ وہ عدل کی حد سے لرجاتا ہے جب کوئی جو رکا مرتکب ہو اس کے لیے کہاجاتا ہے، عال فلان، (فلاں نے جور کیا) اسی جب کوئی شخص متکبرانہ چال اختیارکرے تو کہاجاتا ہے، عال یعیل اسی طرح جب کوئی فقیرتندرست ہوئے تو اس پر بھی یہ فقرہ کہاجاتا ہے۔ ثعلب کے غلام ابوعمر نے اس لفظ کے درج بالا معانی مل کیے ہیں ۔ امام شافعی نے قول باری (ذلک ادنی الاتعولوا) کی تفسیر اس طرح کی ہے کہ ایسے افراد کی شرت نہ ہوجائے جن کانان ونفقہ تمہارے ذمہ ہو۔ آپ نے مزید فرمایا کہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ مرد پر اس کی بیوی کے نان ونفقہ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لوگوں نے امام شافعی کی اس تفسیر کی تین وجوہ کی بناپرتغلیط کی ہے اول یہ کہ سلف اور ان تمام حضرات کے درمیان سے اس آیت کی تفسیر مروی ہے اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آیت کے معنی یہ میں کہ تم انصاف سے ہٹ نہ جاؤ اور جو رکے مرتکب نہ ہوجاؤ۔ نیز یہ کہ یہ جھکاؤ اس عدل اور توازن کے خلاف ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بیویوں کے درمیان شب باشی اور دیگر امور کی تقسیم کے سلسلے میں قائم رکھنے کا حکم دیا ہے۔ دوم لغت کے لحاظ سے یہ مفہوم غلط ہے۔ اس لیے کہ اہل لغت کا اس پر اتفاق ہے کہ کثرت عیال کی صورت میں عال یعول، کے لفظ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ میرد اور دیگر ائمئہ لغت نے یہ بیان کیا ہے۔ ابوعبیدہ معمربن المثنی کا قول ہے کہ (ان لاتعولوا) کے معنی ان لاتجوروا کے ہیں۔ یعنی تم جو ریاظلم نہ کرو۔ اگر کوئی کسی پر جو رکرے تو محاورے کے طورپرکہاجاتا ہے۔ علت علی (تونے مجھ پر جور کیا) سوم یہ کہ آیت میں ایک آزادبیوی یا ملک یمین یعنی لونڈیوں کا ذکر ہے۔ انسان کے عیال میں لونڈیاں آزادعورتوں کی طرح ہوتی ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ ایک شخص جتنی چاہے لونڈیاں رکھ سکتا ہے۔ تو اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ آیت میں کثرت عیال مراد نہیں ہے بلکہ ظلم وجور اوربے تصافی کی نفی مراد ہے اور وہ اس طرح کہ صرف ایک آزاد عورت کو اپنی زوجیت میں رکھے۔ اس صورت میں اس کے ساتھ دوسری عورت نہیں ہوگی جس کی وجہ سے شب باشی اور دیگرامور میں بےانصافی ہوسکے۔ باقی رہ گئیں لونڈیاں تو ان کے درمیان شب باشی کے لیے باری مقرر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ واللہ اعلم۔
Top