Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 54
اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ۚ فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا
اَمْ : یا يَحْسُدُوْنَ : وہ حسد کرتے ہیں النَّاسَ : لوگ عَلٰي : پر مَآ اٰتٰىھُمُ : جو انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنا فضل فَقَدْ اٰتَيْنَآ : سو ہم نے دیا اٰلَ اِبْرٰهِيْمَ : آل ابراہیم الْكِتٰبَ : کتاب وَالْحِكْمَةَ : اور حکمت وَاٰتَيْنٰھُمْ : اور انہیں دیا مُّلْكًا : ملک عَظِيْمًا : بڑا
یا جو خدا نے لوگوں کو اپنے فضل سے دے رکھا ہے اس کا حسد کرتے ہیں تو ہم نے خاندان ابراہیم کو کتاب اور دانائی عنایت فرمائی تھی اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی
قول باری ہے (ام یحسدون الناس علی مااتاھم اللہ من فضلہ) پھر کیا یہ دوسروں سے اس لیے حسد کرتے ہں کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نوازا ہے ) حضرت ابن عباس مجاہد ضحاک سدی اور عکرمہ سے مروی ہے کہ یہاں الناس سے مراد صرف رسول اللہ کی ذات اقدس ہے ۔ قتادہ کا قول ہے کہ اس سے مراد عرب کے لوگ ہیں کچھ لوگوں کا قول ہے کہ اس سے مراد حضور اور آپ کے صحابہ ہیں یہ تاویل بہتر ہے کیونکہ خطاب کی ابتداء میں یہود کا ذکر ہے اور یہ لوگ اس سے قبل اپنی کتابوں میں حضور کی بعثت آپ کے اوصاف ، اور آپ کی نبوت کے حالات کے متعلق پڑھا کرتے تھے۔ بلکہ یہ لوگ آخری نبی کی بعثت پر عربوں کو قتل کی دھمکی دیتے تھے اس لیی کہ ان کے خیال میں عرب کے لوگ اس نبی کی پیروی پر تیار ہونے والے نہیں تھے نیزان کا یہ بھی گمان تھا کہ اس نبی کی بعثت بنی اسرائیل میں ہوگی، لیکن جب اللہ نے حضور کی بعثت بنواسماعیل میں کردی تو ان لوگوں نے ایک طرف عربوں سے حسدکرناشروع کردیا اور دوسری طرف حضور کی تکذیب پر کمربستہ ہوگئے اور جن حقائق کا انہیں اپنی کتابوں کے ذریعے علم ہوا تھا ان سے صاف مکر گئے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے (وکانوا من قبل یستفحوان علی الذین کفروا فلما جاء ھم ماعرفواکفروبہ) ، باوجودیکہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح ونصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے مگر جب وہ چیز آگئی جسے وہ پہچان بھی گئے تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا،۔ نیز ارشاد باری ہے ، (ودکثیر من اھل الکتاب لویردونکم من بعد ایمانکم کفاراحسدا من عند انفسھم، اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف پلٹا لے جائیں۔ اپنے نفس کے حسد کی کی بنا پر تمہار لیے ان کی یہ خواہش ہے) ۔ عربوں کے ساتھ یہودیوں کی عداوت اور دشمنی حضور کی بعثت کے وقت سے ہی ظاہرہوگئی تھی ، اس دشمنی کی بنیاد پر اس حسد پر تھی کہ حضور کی بعثت عربوں میں کیوں ہوئی بنی اسرائیل میں کیوں نہیں ہوئی۔ اس تشریح کی روشنی میں آیت کو اس معنی پر محمول کرنا زیادہ واضح ہوگا کہ الناس سے مراد حضور کی ذات اقدس اورآ پ کے صحابہ کرام ہیں اور یہودیوں کو آپ سے اور آپ کے صحابہ کرام سے دوسرے الفاظ میں عربوں سے حسد تھا، حسد اس تمنا کا نام ہے جو کسی شخص سے اس کی نعمت چھن جانے کے لیے کی جائے۔ اسی بنا پر مقولہ ہے ، تم ہر شخص کو راضی کرسکتے ہو لیکن حاسد کو راضی نہیں کرسکتے کیونکہ وہ تو صرف نعمت کے زوال اور اس کے چھن جانے پر ہی راضی ہوسکتا ہے ، حسد کے مقابلے میں غبطہ مذموم نہیں ہے جس میں کسی نعمت کی تمنا کی جائے لیکن دوسرے سے اس نعمت کے چھن جانے کی کو اہش کا پہلوا نہ ہوبل کہ اس کے ہاں اس نعمت کی بقاء پر اس تمنا کرنے والے کو خوشی اور سرور محسوس ہوتا ہو۔
Top