Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 58
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَا١ۙ وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْمُرُكُمْ : تمہیں حکم دیتا ہے اَنْ : کہ تُؤَدُّوا : پہنچا دو الْاَمٰنٰتِ : امانتیں اِلٰٓى : طرف (کو) اَھْلِھَا : امانت والے وَاِذَا : اور جب حَكَمْتُمْ : تم فیصلہ کرنے لگو بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ اَنْ : تو تَحْكُمُوْا : تم فیصلہ کرو بِالْعَدْلِ : انصاف سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ نِعِمَّا : اچھی يَعِظُكُمْ : نصیحت کرتا ہے بِهٖ : اس سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے سَمِيْعًۢا : سننے والا بَصِيْرًا : دیکھنے والا
خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو خدا تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے بیشک خدا سنتا (اور) دیکھتا ہے
امانتوں کی ادائیگی کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کے واجب کردہ احکام قول باری ہے (ان اللہ یامرکم ان تودوالامانات الی اھلھا، اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کردو) مفسرین کا ان لوگوں کے بارے میں اختلاف رائے ہے جنہیں اس آیت میں امانتیں ادا کردینے کا حکم دیا گیا ہے۔ زید بن اسلم، مکحول اور شہر بن حوشب سے مروی ہے ان سے مراد ، ولاۃ الامر، یعنی وہ لوگ ہیں جو صاحب امر ہوں ابن جریج کا قول ہے کہ آیت کا نزول عثمان بن طلحہ کے بارے میں ہوا تھا، اس میں حکم دیا گیا تھا کہ بیت اللہ کی کنجیاں انہیں واپس کردی جائیں، حضرت ابن عباس ، حضرت ابی بن کعب، حسن اور قتادہ کا قول ہے کہ آیت کا تعلق ہراس شخص سے ہے جسے کسی چیز کا امین مقرر کیا گیاہو، یہ تاویل سب سے بہتر ہے کیونکہ قول باری (ان اللہ یامرکم) میں جو خطاب ہے اس کا عموم تمام مکلفین کا مقتضی ہے اس لیے اسے کسی دلالت کے بغیر صرف بعض افراد تک محدود کردینادرست نہیں ہے میراخیال ہے کہ جن حضرات نے اس کی تاویل ولاۃ الامر ، سے کی ہے ان کا ذہن قول باری (واذاحکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کروتوعدل کے ساتھ کرو) کی طرف گیا ہے چونکہ اس میں ولاۃ الامر یعنی ارباب نسبت وکشاد کو خطاب ہے ، اس لیے اس خطاب کے ابتدائی حصے کا رخ بھی ان ہی لوگوں کی طرف تصور کرلیا گیا ہے۔ لیکن بات ایسی نہیں ہے کیونکہ اس میں وکئی امتناع نہیں کہ خطاب کا ابتدائی حصہ تمام لوگوں کے لیے عام ہو اور اس پر بعد کا جو حصہ معطوف کیا گیا ہے وہ ارباب بست وکشاد کے ساتھ خاص ہو، ہم نے قرآن اور غیر قرآن میں اس کے بہت سے نظائر پہلے ہی بیان کردیے ہیں، ابوبکرجصاص مزید کہتے ہیں جس چیز کا کسی کو امین بنایا گیا ہو وہ امانت کہلاتی ہے اس امین کی ذمہ داری ہے کہ وہ امانت کو اس کے مالک کے حوالے کردے۔ ودیعتیں بھی امانتوں میں داخل ہیں ، اس لیے یہ ودیعتیں جن کے پاس رکھی گئی ہوں ان پر انہیں ان کے مالکوں کو لوٹا دیناواجب ہے ، تاہم فقہاء امصار کے مابین اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اگر ودیعت اس شخص کے پاس ہلاک ہوجائے تو اس پر اس کا تاوان عائد نہیں ہوگا۔ سلف میں سے بعض سے اس سلسلے میں تاوان ادا کرنے کی روایت میں بھی موجود ہے ، شعبی نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے اپناسامان مجھ سے اٹھوایا اس کا یہ سامان میرے کپڑوں کے درمیان سے ضائع ہوگیا حضرت عمر نے مجھ سے اس کا تاوان رکھوالیا۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ہے انہیں حامد بن محمد نے ، انہیں شریح نے انہیں ابن ادریس نے ہشام بن حسان سے ، انہوں نے انس بن سیرین سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک سے کہ میرے پاس چھ ہزار درہم بطور ودیعت رکھے گئے پھر یہ درہم ضائع ہوگئے حضرت عمر نے مجھ سے پوچھا کہ تمہاری بھی کوئی چیز اس رقم کے ساتھ ضائع ہوئی ہے ، میں نے نفی میں جواب دیا اس پر حضرت عمر نے مجھ سے تاوان رکھوالیا۔ حجاج نے ابوزبیر سے ، انہوں نے حضرت جابر سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے کسی کی کوئی چیز اپنے پاس ودیعت رکھ لی لیکن وہ چیز اس شخص کی دوسری اشیاء کے ساتھ ضائع ہوگئی ، حضرت ابوبکر نے اس شخص سے تاوان نہیں رکھوایا، اور فرمایا کہ یہ امانت تھی ، یعنی اس کا کوئی تاوان نہیں ہے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں اسماعیل بن فضل نے ، انہیں قتیبہ نے ، انہیں ابن لہیعہ نے عمرو بن شعیب سے انہوں نے اپنے والد سے اور والد کے واسطے سے اپنے دادا سے کہ حضور نے فرمایا، (من استودع ودیعۃ فلاضمان علیہ، جس شخص نے کوئی ودیعت اپنے پاس رکھ لی تو اس پر کوئی تاوان نہیں ) ۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں ابراہیم بن ہاشم نے انہیں محمد بن عون نے انہیں عبداللہ بن نافع نے محمد بن نبیہ الحجبی سے انہوں نے عمرو بن شعیب سے ، انہوں نے اپنے والد سے اور والد کے واسطے سے اپنے دادا سے کہ حضور نے فرمایا (ولاضمان علی راع ولاعلی موتمن، چرواہے اور امین پر کوئی تاوان نہیں ) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور کا یہ ارشاد کہ امین پر کوئی تاوان نہیں ، عاریت پر تاوان کی نفی کرتا ہے کیونکہ عاریت مستعیر یعنی عاریت لینے والے شخص کے ہاتھوں میں امانت کے طور پر ہوتی ہے اس لیے عاریت دینے والے نے اسے امین سمجھا تھا، فقہاء کے درمیان ودیعت کی ہلاکت پر تاوان ادانہ کرنے کے مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے بشرطیکہ اس شخص کی طرف سے کوئی زیادتی نہ ہوئی جس کے پاس یہ ودیعت رکھی گئی تھی۔ حضرت عمر سے تاوان رکھوانے کے متعلق جو روایت مروی ہے ، تو اس میں اس بات کا امکان ہے کہ ودیعت رکھنے والے نے کسی ایسی حرکت کا اعتراف کرلیا ہوجوحضرت عمر کی نظروں میں تاوان کی موجب بن گئی ۔ عاریت کے سلسلے میں تاوان بھرنے کے متعلق سلف کے درمیان اختلاف رائے کے بعد فقہاء کے درمیان بھی اختلاف رائے ہوگیا۔ حضر ت عمر، حضرت علی، حضرت جابر، قاضی شریح اور ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ عاریت غیرمضمون ہے یعنی اس کے ضیاع پر تاوان واجب نہیں ہوتا، حضرت ابن عباس اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ تاوان واجب ہوتا ہے ، امام ابوحنیفہ ، امام ابویوسف، امام محمد، زفر اور حسن بن زیاد کا قول ہے کہ اس کی ہلاکت پر تاوان لازم نہیں ہوتا، ابن شبرمہ ، سفیان ، ثوری، اور اوزاعی کا بھی یہی قول ہے عثمان البتی کا قول ہے کہ مستغیر یعنی رعایت لینے والاضامن ہوگا۔ البتہ جانور اور مقتول کی دیت میں تاوان نہیں لیکن اگر مستعیر پر تاوان کی شرط لگادی گئی ہو توپھرجانور اور دیت کی عاریت کی صورت میں وہ ضامن ہوگا اور اسے تاوان بھرنا پڑے گا، امام مالک کا قول ہے کہ جانور کی عاریت کی صورت میں اگر جانور ہلاک ہوجائے تو کوئی تاوان نہیں ہوگا، البتہ زیورات اور کپڑوں کا تاوان بھرناپڑے گا۔ لیث کا قول ہے عاریت میں کوئی تاوان نہیں لیکن امیرالمومنین ابوالعباس نے مجھے تحریری طور پر عاریت میں بھی تاوان لینے کا حکم دیا ہے اس لیے آج کل میں تاوان دینے کا فیصلہ سناتاہوں ، امام شافعی کا قول ہے کہ ہر عاریت قابل تاوان ہے۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ عاریت کی ہلاکت کی صورت میں جبکہ اس کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہوئی ہوتاوان بھرنے کی نفی کی دلیل یہ ہے کہ عاریت دینے والے نے عاریت لینے والے کو امین سمجھ کر عاریت اس کے حوالے کی تھی ، جب عاریت لینے والے کو امین سمجھ لیا گیا تواب اس پر عاریت کا تاوان لازم نہیں رہا، کیونکہ ہم نے حضور سے یہ روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا، الاضمان علی موتمن، جس شخص کو امین قرار دیا گیا ہو اس پر کوئی تاوان نہیں ) ۔ اس ارشاد میں ہراس شخص سے تاوان کی نفی کا عموم ہے جسے امین قرار دیا گیا ہو، نیز جب عاریت کو اس کے مالک کی اجازت سے قبضے میں لیا گیا اور اس میں تاوان کی شرط نہیں لگائی گئی تواب ودیعت کی طرح وہ اس کا تاوان نہیں بھرے گا۔ ایک اور پہلو سے ، اس مسئلے پر غور کیا جائے کرائے پر لیا ہوا کپڑا جس میں اس کپڑے سے حاصل ہونے والے فائدے کو استعمال میں لانے کی شرط لگائی گئی ہو اگر ضیاع کی صورت میں اس کپڑے کے بدل کو بطور تاوان ادا کرنے کی شرط نہ رکھی گئی ہو تو اس کے تاوان کی نفی پر سب کا اتفاق ہے اس لیے عاریت بطریق اولی ناقابل تاوان ہوگی کیونکہ اس میں کسی طرح بھی تاوان کی شرط نہیں ہوتی۔ ایک اور جہت سے اس پر نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اجارے کے طور پر قبضے میں لی ہوئی چیز اس کے منافع کو استعمال میں لانے کی غرض سے قبضے میں لی جاتی ہے اور ضیاع کی صورت میں تاوان لازم نہیں آتا، اس سے یہ لازم ہوگیا کہ عاریت کی ہلاکت پر بھی تاوان لازم نہ آئے کیونکہ عاریت کو بھی ا سے حاصل ہونے والے منافع کو استعمال میں لانے کے لیے قبضے میں لیاجاتا ہے۔ ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ ہبہ کی ہلاکت کی صورت میں ہبہ قبول کرنے والے شخص پر کوئی تاوان نہیں عائد ہوتا کیونکہ اسے مالک کی اجازت سے قبضے میں لیاجاتا ہے اور اس کے بدل کو بطور تاوان ادا کرنے کی کوئی شرط نہیں ہوتی ، اس لیے کہ ہبہ کی حیثیت ایک نیکی اور صدقے کی ہوتی ہے اس بنا پر عاریت کے لیے بھی یہی حکم واجب ہوگیا کیونکہ یہ بھی ایک نیکی اور صدقہ کی شکل ہوتی ہے ۔ نیز اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ اگر عاریت میں استعمال کی بنا پر کوئی کمی ہوجائے تو اس کمی کا کوئی تاوان نہیں ، جب عاریت کا ایک جز ناقابل تاوان ہے جبکہ اس پر قبضہ حاصل تھا تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ عاریت کا کل بھی ناقابل تاوان ہو اس لیے کہ جس چیز کے تاوان کا تعلق قبضے کے ساتھ ہو اس میں کل اور جزء کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوتا، جس طرح غصب اور بیع فاسد کے ذریعے قبضے میں لی ہوئی چیز کا مسئلہ ہے ، جب سب کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ نقصان اور کمی کی بنا پر ضائع ہوجانے والا ناقابل تاوان ہے توکل کا بھی ناقابل تاوان ہوناواجب ہوگیا جیسا کہ ودعیت اور دوسری تمام امانتوں کا مسئلہ ہے۔ ودیعت کے متعلق صفوان بن امیہ کی روایت کے الفاظ میں اختلاف ہے بعض راویوں نے اس میں تاوان کا ذکر کیا ہے اور بعض نے نہیں کیا ہے شریک نے عبدالعزیز بن رفیع سے انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے انہوں نے امیہ بن صفوان بن امیہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے جنگ حنین کے موقع پر حضور نے ان سے لوہے کی چند زرہیں عاریت کے طور پر لیں، انہوں نے کہا، محمد یہ زرہیں ضمانت کے طور پر دی ہیں آپ نے جواب میں فرمایا، ٹھیک ہے ، شرط منظور ہے۔ پھران میں کچھ زرہیں ضائع ہوگئیں، حضور نے صفوان سے فرمایا اگر تم چاہو توہم ان کا تاوان بھردیں گے ، انہوں نے جواب دیا ، اللہ کے رسول مجھے تاوان لینے سے زیادہ اسلام قبول کرنے کی رغبت ہے میں تاوان نہیں لوں گا۔ اسرائیل نے یہی روایت عبدالعزیز بن رفیع سے انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے انہوں نے صفوان بن امیہ سے بیان کی ہے کہ حضور نے صفوان بن امیہ سے چند زرہیں عاریت کے طور پرلی تھیں، ان میں سے کچھ ضائع ہوگئیں، حضور نے ان سے فرمایا، اگر تم چاہو توہم ان کا تاوان ادا کریں گے ، انہوں نے جواب دیا، اللہ کے رسول اس کی ضرورت نہیں ہے ، اس روایت کو شریک نے موصولا نقل کیا ہے اور اس میں ضمان یعنی تاوان کا ذکر کیا ہے لیکن اسرائیل نے اسے مقطوعا روایت کی ہے اور تاوان کی شرط کا ذکر نہیں کیا ہے۔ قتادہ نے عطاء سے روایت کی ہے کہ حضور نے صفوان بن امیہ سے جنگ حنین کے موقعہ پر چند زرہیں عارت کے طور پرلی تھیں ، انہوں نے حضور سے پوچھا تھا آیایہ عاریت قابل واپسی ہے ، آپ نے اثبات میں جواب دیا تھا۔ جریر نے عبدالعزیز بن رفیع سے ، انہوں نے عبداللہ بن صفوان کے خاندان کے کچھ افراد سے روایت کی ہے کہ حضور نے غزوہ حنین پر جانے کا ارادہ فرمایا، جریر نے اس کے بعد حدیث کا باقی ماندہ حصہ بیان کردیا لیکن اس میں ضمان کا ذکر نہیں کیا۔ کہاجاتا ہے کہ حدیث کے راویوں میں جریر بن عبدالحمید سے بڑھ کر کوئی روای نہ تو اس روایت کو محفوظ کرنے والا ہے نہ متقن ہے اور نہ ہی ثقہ ہے اور جریر نے ضمان کا ذکر نہیں کیا، اگر راویوں کو حفظ اور اتقان کے لحاظ سے یکساں درجے پر تسلیم کرلیاجائے توپھراصطلاحی طور پر یہ حدیث مضطرب کہلائے گی۔ حضرت ابوامامہ اور دوسرے صحابہ کے واسطوں سے حضور سے یہ مروی ہے کہ ، العاریۃ موادۃ عاریت ادا کی جائے گی اگر صفوان کی روایت میں ضمان کا ذکر صحیح تسلیم بھی کرلیاجائے تو اس کا مفہوم تاوان نہیں ہوگا، بلکہ ادائیگی کی ضمانت ہوگا۔ جیسا کہ صفوان سے روایت کے بعض طرق کے الفاظ یہ ہیں کہ حضور نے فرمایا، جب تک میں انہیں تمہیں واپس نہیں کروں گا، اس وقت تک یہ ضمانت کے تحت رہیں گی۔ اور جس طرح ایک روایت ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی انہیں الفریابی نے انہیں قتیبہ نے ، انہیں لیث نے یزید بن حبیب سے انہوں نے سعید بن ابی ہند سے کہ عاریت کی ضمانت کی سب سے پہلے جو صورت پیش آئی وہ یہ تھی کہ حضور نے صفوان سے فرمایا تھا کہ ہمیں اپنے ہتھیار عاریت کے طور پردے دو ، یہ ہتھیار ہماری ضمانت کے تحت رہیں گے حتی کہ ہم انہیں تمہارے پاس پہنچادیں گے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ حضور نے صفوان سے واپسی کی ضمانت کی شرط مقرر کی تھی ، اس کی وجہ یہ تھی کہ صفوان اس وقت ایک حربی کافر تھے انہوں نے یہ خیال کیا تھا کہ حضور ان سے یہ ہتھیار ان کا مال مباح ہونے کی حیثیت سے لے رہے ہیں ، جس طرح تمام حربیوں کا مال لے لینا مباح ہوتا ہے ، اس لیے صفوان نے کہا تھا، محمد، کیا تم مجھ سے یہ ہتھیار زبردستی لے رہے ہو ؟ آپ نے جواب میں فرمایا تھا، نہیں بلکہ عاریت کے طور پر ضمانت کے تحت لے رہاہوں یہ ضمانت اسی وقت تک رہے گی جب تک میں تمہیں واپس نہ کردوں۔ یہ قابل واپسی عاریت ہوگی، حضور نے صفوان کو یہ بتادیا کہ یہ ہتھیار قابل واپسی عاریت کے طور پر لیے جارہے ہیں۔ یہ اس طور پر نہیں لیے جارہے جس طرح اہل حرب کے اموال لیے جاتے ہیں۔ اس کی مثال قائل کے اس قول کی طرح ہے جو وہ اپنے مخاطب سے کہے ، میں تمہاری ضروریات کا ضامن ہوں اس سے قائل کی مرادیہ ہوتی ہے کہ میں ان ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا رہوں گا، یہاں تک کہ یہ پوری ہوجائیں ایک شاعر اپنی اونٹنی کی تعریف میں کہتا ہے ، بتلک اسلی حاجۃ ان ضمن تھا، ،، وابری ھما کان فی الصدرداخلا۔ اگر میں کسی ضرورت اور حاجت کو پورا کرنے کا ارادہ کرلوں تو اس اونٹنی کی وجہ سے میں اس ضرورت کی طرف سے بےغم اور بے فکر ہوجاتاہوں اور دل میں جگہ پانے والے غم سے نجات پالیتاہوں۔ شاعر کے الفاظ ان ضمن تھا، کے متعلق اہل لغت کا قول ہے کہ اس سے مراد ہے اگر میں کسی حاجت کو پورا کرنے کا قصد اور ارادہ کرلوں۔ ایک اور پہلو سے غور کیجئے، ہم اپنے مخالف کے اس قول کو تسلیم کرلیتے ہیں کہ وہ روایت درست ہے ، جس میں ضمان یعنی تاوان کا ذکر ہے ، اس صورت میں ہم یہ کہیں گے اس روایت میں اختلافی نکتے پر کوئی دلالت نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور نے فرمایا تھا، (عاریۃ مضمونۃ) آپ نے یہ فرماکر اپنے قبضے میں لی ہوئی تمام زرہوں کو قابل ضمانت قرار دیا ۔ یہ چیز ہوبہوان زرہوں کی واپسی کی ضمانت کی مقتضی ہے ، ان کی قیمت کے ضمان یعنی تاوان کی مقتضی نہیں ہے کیونکہ آپ نے یہ نہیں فرمایا، تھا کہ میں ان کی قیمت کا ضامن ہوں یعنی ان کی قیمت کا تاوان بھردوں گا، ایک لفظ کو اس کے معنی سے ہٹاکر کسی دلالت کے بغیر مجازی معنی کی طرف لے جانادرست نہیں ہوتا۔ نیز ہمارے مخالف کی جانب سے فقرے میں ایک پوشیدہ لفط کے اثبات کا دعوی بھی درست نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس پر فقرے میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے ، وہ پوشیدہ لفظ ضمان القیامہ، ہے یعنی قیمت کا تاوان دلالت کے بغیر اس پوشیدہ لفظ کا اثبات درست نہیں ہے۔ حضور نے عاریت کے طور پرلی ہوئی ان زرہوں میں چند کو جب غائب پایاتو آپ نے صفوان سے فرمایا کہ اگر تم چاہو توہم ان گمشدہ زرہوں کا تاوان بھرنے کے لیے تیار ہیں یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہ زرہیں ضیاع کی صورت میں قیمت کے تاوان کی ضمانت کے تحت نہیں لی گئی تھیں۔ اگرقیمت کے ضمان پر اتفاق کی صورت ہوتی تو آپ صفوان سے ہرگز نہ یہ کہتے کہ اگر تم چاہو توہم ان گم شدہ زرہوں کی قیمت کا تاوان بھردیں گے جب کہ تاوان کی شرط کی صورت میں آپ کو لازمی طور پر تاوان بھرنا ہوتا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ ضیاع کی بنا پر تاوان واجب نہیں ہوا اور یہ کہ حضور نے صفوان کی خواہش اور رضامندی کی صورت میں تبرع کے طور پرا سے تاوان دینے کا ارادہ کیا تھا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حضور نے اسی غزوہ حنین کے موقعہ پر عبداللہ بن ربیعہ سے تیس ہزار کا قرض لیا تھا، پھر آپ نے جب یہ قرض انہیں واپس کرنا چاہاتو انہوں نے لینے سے انکار کردیا، اس پر آپ نے فرمایا، قرض واپس لے لو، کیونکہ قرض کا بدلہ قرض کی ادائیگی اور حمد ہے اگر گم شدہ زرہوں کا تاوان لازم ہوتا تو آپ ہرگز یہ نہ فرماتے اگر تم چاہو توہم ان کا تاوان ادا کردیں گے۔ پھرصفوان کا یہ جواب کہ مجھے تاوان لینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آج میرے دل میں جس قدر ایمان ہے وہ پہلے نہیں تھا، اس پر دلالت کرتا ہے کہ صفوان گم شدہ زرہوں کی قیمت کا تاوان لینے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے تھے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان زرہوں کی قیمت کا تاوان بھرنے کی کوئی شرط نہیں تھی کیونکہ جس چیز کا تاوان بھرناضروری ہوتا ہے اسلام اور کفر کی صورت میں اس کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوتا ہے۔ ہمارے ایک شیخ کا قول ہے کہ صفوان چونکہ حربی تھا، اس لیے اس کے ساتھ ایسی شرط لگانا درست تھا کیونکہ ہمارے اور اہل حرب کے درمیان معاملات کی صورت میں ایسی شرطیں درست ہوتی ہیں ، جو ہمارے آپس کے معاملات میں درست نہیں ہوتیں۔ آپ نہیں دیکھتے اگر ہم ودیعتوں اور مضاربت کی صورتوں اور ان جیسی چیزوں کے اندر ان کے ساتھ ضمان کی شرط لگائیں گے تو یہ شرط درست نہیں ہوگی ، عاریت کے ضمان کے قائل ہیں، انہوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جسے شعبہ اور سعید بن ابی عروبہ نے قتادہ سے نقل کیا ہے انہوں نے حسن سے ، انہوں نے حضرت سمرہ سے کہ حضور نے فرمایا، (علی الید مااحذرت حتی تودیہ، جو چیز تم نے لے لی وہ ہاتھ پر رہے گی حتی کہ تم اسے واپس کردو) ۔ اس روایت میں بھی اختلافی نکتے پر کوئی دلالت نہیں ہے اس میں تو صرف لی ہوئی چیز کو واپس کے وجوب کا ذکر ہے ، ضائع یا ہلاک ہوجانے کی صورت میں قیمت کے تاوان کا ذکر نہیں ہے ، ہم بھی تویہی کہتے ہیں کہ اس پر عاریت کی واپسی ضروری ہے ، اس میں کوئی اختلاف نہیں اور اختلاف نکتے سے اس کو کوئی تعلق بھی نہیں ۔ واللہ اعلم۔ انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے کے متعلق اللہ کا حکم قول باری ہے (واذاحکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل ، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کروتوانصاف کے ساتھ فیصلے کرو) نیز قول باری ہے ، (ان اللہ یامر بالعدل والاحسان، اللہ تعالیٰ عدل واحسان کا حکم دیتا ہے) ۔ نیز فرمایا، (واذاقلتم فاعدلوا ولوکان ذاقربی، اور جب تم کہو تو انصاف کی بات کہوخواہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں عبداللہ بن موسیٰ بن ابی عثمان نے ، انہیں عبید بن حباب الحلی، نے ، انہیں عبدالرحمن بن ابی الرجال نے اسحاق بن یحییٰ بن طلحہ بن عبیداللہ سے ، انہوں نے ثابت الاعرج سے ، انہوں نے حضرت انس بن مالک سے اور انہوں نے حضور سے کہ آپ نے فرمایا : (الاتزال ھذہ الامۃ بخیر مااذاقالت صدقت واذاحکمت عدلت واذا استرحمت رحمت، یہ امت اس وقت تک ٹھیک ٹھاک رہے گی ، جب تک اس میں یہ صفات باقی رہیں گی ک کہ جب بولے گی توسچ بولے گی، جب فیصلہ کرے گی، تو انصاف کرے گی ، اور جب اس سے رحم کی درخواست کی جائے گی تو رحم کرے گی۔ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی ، انہیں بشر بن موسیٰ نے ، انہیں عبدالرحمن المقری نے کھمس بن الحسن سے ، انہوں نے عبداللہ اسلمی سے کہ ایک شخص نے حضرت ابن عباس سے بدزبانی کی، حضرت ابن عباس نے اس سے فرمایا، تم میرے ساتھ بدزبانی کرتے ہو جب کہ میرے اندر تین اچھائیاں موجود ہیں، میں قرآن کی ایک آیت پر پہنچتاہوں پھر خدا کی قسم میری یہ تمنا ہوتی ہے کہ اس آیت کے جن معانی ومطالب کا مجھے علم ہوگیا ہے تمام لوگوں کو بھی ان کا علم ہوجائے۔ میں مسلمانوں کے کسی حاکم کے متعلق جب یہ سنتا ہوں کہ وہ انصاف سے فیصلہ کرتا ہے تو مجھے اس کی خوشی ہوتی ہے جبکہ شاید مجھے کبھی اس کے پاس اپنا کوئی مقدمہ لے کرجانے کی نوبت ہی نہ آئے اس طرح میں جب سنتا ہوں کہ مسلمانوں کے فلاں علاقے میں بارش ہوئی ہے تو مجھے مسرت ہوتی ہے حالانکہ میرے پاس اپنے کوئی مویشی نہیں ہیں۔ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی ، انہیں حارث بن ابی امامہ نے ، انہیں ابوعبید قاسم بن سلام نے ، انہیں عبدالرحمن بن مہدی نے حماد بن ابی اسلمہ سے ، انہوں نے حمید سے ، انہوں نے حسن سے کہ ، اللہ تعالیٰ نے حکام سے تین باتوں کا عہد لیا ہے ، اپنی خواہشات کی پیروی نہ کریں، اللہ سے ڈریں لوگوں سے نہ ڈریں اور اللہ کی آیات کو ذرا ذرا سے معاوضے لے کر فروخت نہ کریں۔ پھر یہ آیت تلاوت کی ، (یاداؤد اناجعلناک خلیفۃ فی الارض فاحکم بین الناس بالحق والاتتبع الھوی، اے داؤد ہم نے تمہیں زمین میں اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے پس لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو اور خواہشات کی پیروی نہ کرو) تاآخر آیت۔ نیز یہ ارشاد بھی ہے (اناانزلنا التوراۃ فیھاھدی ونور یحکم بھا النبیوں الذین اسلمواہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی، سارے نبی جو مسلم تھے، اسی کے مطابق فیصلہ کرتے تھے) ۔ تاقول باری (فلاتخشوالناس واخشونی ولاتشتروا بایاتی ثمناقلیلا ومن لم یحکم بماانزل اللہ فاو لئک ھم الکافرون، تم لوگوں سے نہ ڈرو، بلکہ مجھ سے ڈرو ارمیری آیات کو ذرا ذرا سے معاوضے لے کر بیچنا چھوڑدو جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں) ۔
Top