Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 82
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ١ؕ وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِیْهِ اخْتِلَافًا كَثِیْرًا
اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ : پھر کیا وہ غور نہیں کرتے الْقُرْاٰنَ : قرآن وَلَوْ كَانَ : اور اگر ہوتا مِنْ : سے عِنْدِ : پاس غَيْرِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا لَوَجَدُوْا : ضرور پاتے فِيْهِ : اس میں اخْتِلَافًا : اختلاف كَثِيْرًا : بہت
بھلا یہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے ؟ اگر یہ خدا کے سوا کسی اور کا (کلام) ہوتا تو اس میں (بہت سا) اختلاف پاتے
قول باری ہے (الذین امنوایقاتلون فی سبیل اللہ ، جو لوگ صاحب ایمان ہیں وہ اللہ کے راستے میں قتال کرتے ہیں) ایک قول کے مطابق (فی سبیل اللہ ) کے معنی ہیں اللہ کی اطاعت میں کیونکہ یہی اطاعت اللہ کی جنت میں جو اس نے اپنے دوستوں کے لیے تیارکررکھی ہے ثواب کا باعث بنے گی۔ ایک اور قول کے مطابق اس سے مراد اللہ کا دین ہے جو اس نے مقرر کیا ہے ، تاکہ یہ دین انہیں اللہ کے ثواب اور اس کی رحمت تک پہنچادے اس صورت میں عبارت کی ترتیب یوں ہوگی، فی نصرۃ دین اللہ تعالیٰ (اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت میں قتال کرتے ہیں۔ طاغوت کے بارے میں ایک قول ہے کہ یہ شیطان ہے یہ قول حسن اور شعبی کا ہے ، ابوالعالیہ کا قول ہے کہ اس سے مراد کاہن ہے یعنی غیب کی باتیں بتلانے والا، ایک قول ہے کہ اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کی اللہ کے سوا پرستش کی جائے۔ قول باری ہے (ان کید الشیطان کان ضعیفا) یقین جانوا کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں) کید اس کوشش اور دوڑ دھوپ کو کہتے ہیں کہ جو صورت حال کو بگاڑنے کے لیے حیلہ سازی کے ذریعے اور نقصان پہنچانے کی غرض سے کی جائے۔ حسن کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (ان کیدالشیطان کان ضعیفا) اس لیے فرمایا کہ شیطان نے ان کافروں سے کہا تھا کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں یہ غالب آئیں گے اس لیے یہ کمزور نصرت کے مقابلے میں اپنے دوستوں کے لیے اس کی نصرت بہت کمزور ہوتی ہے۔
Top