Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 86
وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا
وَاِذَا : اور جب حُيِّيْتُمْ : تمہیں دعا دے بِتَحِيَّةٍ : کسی دعا (سلام) سے فَحَيُّوْا : تو تم دعا دو بِاَحْسَنَ : بہتر مِنْھَآ : اس سے اَوْ : یا رُدُّوْھَا : وہی لوٹا دو (کہدو) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلٰي : پر (کا) كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز حَسِيْبًا : حساب کرنے والا
اور جب تم کو کوئی دعا دے تو (جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمے) سے (اسے) دعا دو یا انہیں لفظوں سے دعا دو ، بیشک خدا ہر چیز کا حساب لینے والا ہے
سلام اور اس کا جواب۔ قول باری ہے (واذاحییتم بتحیۃ فحیوا باحسن منھا اور دوھا، اور جب کوئی احترام کے ساتھ تمہیں سلام کرے تو اس کو اس سے بہتر طریقہ کے ساتھ جواب ددو یا کم ازکم اسی طرح) اہل لغت کے نزدیک تحیت کے معنی ملک یعنی سلطنت اور مالک بنانے کے ہیں شاعر کا یہ شعر اس معنی میں ہے۔ اسیر بہ الی النعمان حتی، انیح علی تحیتہ بجند۔ میں اس اونٹ پر بادشاہ نعمان کی طرف جارہا ہوں یہاں تک کہ میں اس کی سلطنت کے اندرجند کے مقام پر اپنااونٹ بٹھاؤں گا یعنی قیام کروں گا۔ شاعر نے ، علی تحتیہ، کہہ کرنعمان کی سلطنت مراد لی ہے اہل عرب کے قول ، حیاک اللہ کے معنی ، ملک اللہ ، اللہ تجھے مالک بنادے ) کے ہیں ، سلام کو بھی تحیت کے نام سے موسوم کیا گیا ہے کیونکہ عرب کے لوگ جب ایک دوسرے سے ملتے تھے توحیاک اللہ کہتے تھے پھر اسلام آنے کے بعد اس کی بجائے سلام کا لفظ استعمال ہونے لگا اور سلام کا لفظ حیاک اللہ ، کے قائم مقام ہوگیا۔ حضرت ابوذر کا قول ہے کہ میں پہلا شخص تھا جس نے حضور کو تحیۃ اسلام کے الفاظ میں سلام کیا تھا میں نے آپ سے کہا تھا، السلام علیکم و (رح) ، نابغہ ذیبانی کا ایک مصرعہ ہے، یحیون بالریحان یوم السباسب۔ سیاسب (عیسائیوں کی عید) کے دن انہیں گلدستے پیش کرکے سلام کیا جاتا ہے یعنی انہیں گلدستے پیش کیے جاتے ہیں اور کہاجاتا ہے ، حیاکم اللہ ، اس کے معنی وہ ہیں جو ہم نے بیان کیے ہیں یعنی ملک اللہ۔ اگرہم قول باری (واذاحییتم بتحیہ فحیوا باحسن منھا اور دوھا، کو اس کے حقیقی معنوں پر محمول کریں تو اس سے ایک چیز کو اس وقت تک واپس لے سکتا ہے جب تک بدلے کے طور پر اسے کچھ نہ دے دیاجائے۔ یہ چیز ہمارے اصحاب کے قول کی صحت پر دلالت کرتی ہے اگر کوئی شخص کسی کو جو اس کا محرم رشتہ دار نہ ہوبطور ہبہ کوئی چیز دے دے تو اس کا بدلہ ملنے سے پہلے پہلے اسے واپس لے سکتا ہے لیکن اس کے بعد وہ واپس نہیں لے سکتا کیونکہ اس نے ہبہ کرکے دو باتوں میں سے ایک واجب کردی تھی ، ثواب یعنی بدلہ یادی ہوئی چیز کی واپسی۔ حضور سے ہبہ کرکے واپس لے لینے کے متعلق روایت ہے جسے ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی ہے ، انہیں ابوداؤد نے، انہیں سلیمان بن داؤد المہری نے ، انہیں ، ابن وہب نے ، انہیں اسامہ بن زید نے ، انہیں عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے انہوں نے عمرو کے دادا حضرت عبداللہ بن عمرو سے ، انہوں نے حضور سے کہ آپ نے فرمایا : اس شخص کی مثال جو اپنی ہبہ کی ہوئی چیز واپس مانگ لیتا ہے اس کتے جیسی ہے جو پہلے قے کرتا ہے اور پھر اپنی قے کو چاٹ جاتا ہے اگر ہبہ کرنے والااپنی چیز واپس مانگے تو پہلے اس حرکت کی کراہت سے واقف کر ایاجائے اور اس کے علم میں یہ بات لائی جائے اس کے بعد اس کی دی ہوئی چیز اسے واپس کردی جائے۔ ابوبکر بن ابی شیبہ نے روایت کی ہے کہ انہیں وکیع نے ابراہیم بن اسمعیل نے مجمع سے انہوں نے عمرو بن دینار سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے کہ حضور نے فرمایا (الرجل احق بھبتہ مالم یثب منھا ، ہبہ کرنے والاہبہ میں دی ہوئی چیز کا سب سے بڑھ کر حق دار ہوتا ہے جب تک اسے اس کا بدلہ نہ مل جائے) ۔ حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر نے روایت کی ہے کہ حضور نے فرمایا، کسی شخص کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ کوئی چیز عطیہ کرے یاہبہ کرے اور واپس لے لے ، البتہ باپ اپنے بیٹے کو دی ہوئی چیز واپس لے سکتا ہے جو شخص عطیہ دے کر واپس لے لیتا ہے اس کی مثال اس کتے کی طرح ہے جو کھاتارہتا ہے یہاں تک کہ جب شکم سیر ہوجاتا ہے توقے کردیتا ہے اور پھر اپنی قے کو چاٹ لیتا ہے) ۔ یہ حدیث دو باتوں پر دلالت کرتی ہے ایک توہبہ کے رجوع کی صحت پر اور دوسری اس حرکت کی کراہت پر نیز اس پر بھی یہ حرکت انتہائی بداخلاقی اور کمینگی کی بات ہے کیو کہ آپ نے اس حرکت کے مرتکب کو اس کتے کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو اپنے قے کو چاٹ جاتا ہے۔ یہ چیز ہماری بیان کردہ بات پر دوطرح سے دلالت کرتی ہے ایک تو یہ کہ ایسے شخص کو کتے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جب وہ اپنی قے کو چاٹ لے اور یہ بات واضح ہے کتے کے لیے یہ حرکت حرام نہیں ہے ، اس لیی اس کے ساتھ جس شخص کو تشبیہ دی ہے اس کے لیے بھی یہ حرکت حرام نہیں ہوگی۔ دوسری یہ کہ اگر رجوع فی الہبہ کسی حال میں بھی درست نہ ہوتا تورجوع کرنے والے کوس کتے کے مشابہ قرار نہ دیاجاتا جو اپنی قے کو چاٹ لیتا ہے کیونکہ ایسی چیز کو جو کسی حال میں بھی وقوع پذیر نہیں ہوتی کسی ایسی چیز کے ساتھ تشبیہ دینا درست نہیں ہوتاجس کا وجود میں آنا صحیح ہوتا ہے یہ بات رجوع فی الہیہ کی صحت پر دلالت کرتی ہے اگرچہ یہ حرکت انتہائی قبیح اور مکروہ ہے ۔ غیر ذی رحم محرم کو ہبہ کرکے واپس لے لینے کی روایت حضرت علی، حضرت عمر، اور حضرت فضالہ بن عبید سے منقول ہے جس کی مخالفت میں کسی صحابی سے کوئی روایت منقول نہیں ہے سلف کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ آیت زیربحث سلام کا جواب دینے کے بارے میں ہے انمیں حضرت جابر بن عبداللہ شامل ہیں۔ حسن کا قول ہے السلام علیکم کہنا تطوع یعنی نفل ہے لیکن سلام کا جواب دینا فرض ہے ، پھر حسن نے اس موقعہ پر زیر بحث آیت کا ذکر کیا تھا پھر اس بارے میں اختلاف رائے سے کہ یہ صرف اہل اسلام کے لیے ہے یا اہل اسلام اور اہل کفر سب کے لیے عام ہے عطاء کا قول ہے کہ یہ ـصرف اہل اسلام کے لیے خاص ہے ، حضرت ابن عباس، اور ابراہیم نخعی اور قتادہ کا قول ہے کہ یہ دونوں کے لیے عام ہے۔ حسن کا قول ہے کہ کافر کے سلام کے جواب میں صرف لفظ، وعلیکم ، کہاجائے گا، اورو (رح) ، نہیں کہاجائے گاکیون کہ کافر کے لیے بخشش کی دعا کرنا جائز نہیں ہے۔ حضور سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا یہود کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو۔ اگر وہ تمہیں سلام کرنے میں پہل کریں تو جواب میں صرف وعلیکم کہہ دو ۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ سلام کا جواب دینا فرض کفایہ ہے اگر پوری جماعت سے ایک شخص سلام کا جواب دے دے تو یہ کافی ہوجائے گا۔ قول باری (باحسن منھا) سے اگر سلام کا جواب دینا مراد ہو تو اس کا مطلب دعا میں اضافہ ہوگا یعنی جب کوئی شخص کسی کو السلام علیکم کہے گا تو جواب میں یہ شخص اسے وعلیکم السلام و (رح) کہے گا اور اگر سلام کرنے والا السلام علیکم و (رح) کہے گا تو جواب دینے والاوعلیکم السلام و (رح) وبرکاتہ کہے گا۔
Top