Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 94
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَتَبَیَّنُوْا وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰۤى اِلَیْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا١ۚ تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١٘ فَعِنْدَ اللّٰهِ مَغَانِمُ كَثِیْرَةٌ١ؕ كَذٰلِكَ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَیْكُمْ فَتَبَیَّنُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب ضَرَبْتُمْ : تم سفر کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ فَتَبَيَّنُوْا : تو تحقیق کرلو وَلَا : اور نہ تَقُوْلُوْا : تم کہو لِمَنْ : جو کوئی اَلْقٰٓى : دالے (کرے) اِلَيْكُمُ : تمہاری طرف السَّلٰمَ : سلام لَسْتَ : تو نہیں ہے مُؤْمِنًا : مسلمان تَبْتَغُوْنَ : تم چاہتے ہو عَرَضَ : اسباب (سامان) الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی فَعِنْدَ : پھر پاس اللّٰهِ : اللہ مَغَانِمُ : غنیمتیں كَثِيْرَةٌ : بہت كَذٰلِكَ : اسی طرح كُنْتُمْ : تم تھے مِّنْ قَبْلُ : اس سے پہلے فَمَنَّ : تو احسان کیا اللّٰهُ : اللہ عَلَيْكُمْ : تم پر فَتَبَيَّنُوْا : سو تحقیق کرلو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے بِمَا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو خَبِيْرًا :خوب باخبر
مومنو ! جب تم خدا کی راہ میں باہر نکلا کرو تو تحقیق سے کام لیا کرو اور جو شخص تم سے سلام علیک کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو اور اس سے تمہاری غرض یہ ہو کہ دنیا کی زندگی کا فائدہ حاصل کرو سو خدا کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے پھر خدا نے تم پر احسان کیا تو (آئندہ) تحقیق کرلیا کرو اور جو عمل تم کرتے ہو خدا کو سب کی خبر ہے
قول باری ہے (یا ایھالذین آمنوا اذاضربتم فی سبیل اللہ ۔۔۔ تا۔۔۔۔۔ مغانم کثیرہ۔ اے ایمان لانے والو، جب تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلو تودوست دشمن میں تمیز کرو اورجوتمہاری طرف سلام سے تقدیم کرے اسے فورا نہ کہہ دو کہ تو مومن نہیں ہے ، اگر تم دنیوی فائدہ چاہتے ہو تو اللہ کے پاس تمہارے لیے بہت سے اموال غنیمت ہیں تاآخر آیت۔ روایت کے مطابق اس آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ حضور کی طرف سے اک مہم پر بھیجے ہوئے فوجی دستے نے ایک شخص کو دیکھا جس کے ساتھ کچھ بھیڑ بکریاں تھیں، اس شخص نے سلام کرنے سے کے بعد کلمہ طیبہ ، لاالہ الا اللہ محمدرسول اللہ، پڑھا لیکن ایک مسلمان نے اس کا سرتن سے جدا کردیا، جب یہ دستہ واپس آیا تو حضور کو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی آپ نے اس شخص سے پوچھا کہ تم نے اسے کیوں قتل کیا جبکہ وہ مسلمان ہوچکا تھا۔ اس نے عرض کیا کہ مقتول نے صرف اپنی جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھا تھا، اس پر آپ نے فرمایا، تم نے اس کا دل پھاڑ کر کیوں نہیں دیکھ لیا، اسکے بعد آپ نے اس کی دیت اس کے وارثوں کو بھجوادی، اور اس کی بھیڑ بکریاں بھی واپس کردیں، حضرت ابن عمر اور عبداللہ بن ابی حدرد کا قول ہے کہ یہ شخص محلم بن جثامہ تھے جنہوں نے عامر بن اضبط اشجفعی کو قتل کردیا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ قاتل کی چند دنوں بعد موت واقع ہوگئی تھی، جب انہیں دفن کیا گیا تو زمین نے انہیں باہر پھینک دیا تین مرتبہ اسی طرح ہوا، حضور کو جب اس کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا، زمین تو ان لوگوں کو بھی قبول کرلیتی ہے جو اس سے بھی بدتر ہوتے ہیں لیکن اللہ تعایل نے تمہیں یہ دیکھاناچاہا کہ اس کے نزدیک خون کی کس درجہ اہمیت اور قدروقیمت ہے پھر آپ نے حکم دیا کہ لاش پر پتھر ڈال دیے جائیں۔ محلم بن جثامہ کے متعلق یہ واقعہ مشہور ہے کہ ہم نے حضرت اسامہ بن زید سے مروی ہے حدیث کا پچھلے صفحات میں ذکر کیا تھا، جس میں ہے کہ انہوں نے ایک مہم کے دوران ایک شخص کو قتل کردیا تھا، جس نے اپنی زبان سے کلمہ طیبہ ادا کیا تھا، جب حضور کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے اس پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ان سے فرمایا تھا : کلمہ طیبہ پڑھ لینے کے بعد تم نے اسے قتل کردیا جب انہوں نے عرض کیا کہ اسنے صرف اپنی جان بچانے کے لیے کلمہ کا اقرار کیا تھا تو آپ نے فرمایا پھر تم نے اس کا دل پھاڑ کر کیوں نہیں دیکھا، قیامت کے دن اس کے پڑھے ہوئے کلمے کا تمہاری طرف سے کون ذمہ دار ہوگا۔ اسی طرح ہم نے حضرت عقبہ بن مالک لیثی کی روایت کردہ حدیث کا بھی زکر کیا ہے جو اسی مفہوم پر مشتمل ہے مقتول نے کہا تھا کہ میں مسلمان ہوں لیکن اسکے باوجود اسے قتل کردیا گیا، حضور نے اس بات کو انتہائی طور پر ناپسند کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ ان اللہ ابی ان اقتل مومنا، اللہ تعالیٰ کو ہرگز یہ بات پسند نہیں کہ میں کسی مسلمان کی جان لے لوں۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ، انہیں ابوداؤد نے ، انہیں قتبیہ بن سعید نے انہیں لیث نے ابن شہاب سے ، انہوں نے عطاء بن یزید لیثی سے ، انہوں نے عبیداللہ بن عدی بن الخیار سے، انہوں نے حضرت مقداد بن الاسود سے ک ہ انہوں نے حضور سے دریافت کیا کہ حضور اگر کسی کافر سے میری مڈ بھیڑ ہوجائے، اور وہ اپنی تلوار سے میرا ایک ہاتھ کاٹ ڈالے پھر ایک درخت کی آڑ میں میری زد سے نکل جائے اور کہے کہ میں اللہ کے سامنے جھک گیا، کیا اس کے بعد میں اسے قتل کرسکتا ہوں، آپ نے جواب میں فرمایا، اسے قتل نہیں کرسکتے ، میں نے عرض کیا، حضور اس نے میرا ہاتھ کاٹ ڈالا تھا، آپ نے فرمایا، اسے قتل نہ کرو اگر تم اسے قتل کردو گے تو اس صورت میں اقرار اسلام سے پہلے جس مقام پر وہ تھا وہاں تم پہنچ جاؤ گے اور وہ تمہارے مقام پر آجائے گا۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ہے کہ انہیں حارث بن ابی اسامہ نے انہیں ابولنصر ہاشم بن القاسم نے ، انہیں المسعودی نے قتادہ سے ، انہوں نے ابومجلز سے ، انہوں نے ابوعبیدہ سے کہ حضور نے فرمایا (اذاشرع احدکم الرمح الی الرجل فان کان سنانہ عندثغرۃ نحرہ فقال لاالہ الا اللہ فلیرجع عنہ الرمح۔ تم میں سے جب کوئی شخص کسی کافر کی طرف نیزہ بلند کرے اور نیزے کی انی اس کے حلقوم تک پہنچ جائے اور وہ شخص کلمہ پڑھ لے توا سے اپنانیزہ اس سے ہٹالینا چاہیے۔ حضرت ابوعبیدہ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے اس کلمہ طیبہ کو ایک مسلمان کے لیے امان کا ذریعہ اور اس کی جان اور مال کے لیے بچاؤ اور حفاظت کا سبب بنادیا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے جزیہ کو کافر کے لیے امان کا ذریعہ اور اس کے جان ومال کے لیے بچاؤ کا سبب قرار دیا ہے ۔ یہ روایت ان احادیث کے ہم معنی ہے جو حضور سے تواتر سے مروی ہیں۔ مجھے اس وقت تک لوگوں سے قتال کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ کلمہ طیبہ کا اقرار نہ کرلیں بعض حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں اور جب تک وہ یہ اقرار نہ کرلیں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ جب وہ کلمہ کا اقرار کرلیں گے تو وہ مجھ سے اپنی جان اور اپنے مال محفوظ کرلیں گے البتہ ان کی جان ومال پر اگر کوئی حق عائد ہوجائے تو وہ الگ بات ہے اور ان کا حساب وکتاب اللہ کے ذمے ہوگا) ۔ اس حدیث کی روایت حضرت عمر، حضرت جریر بن عبداللہ ، حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت انس بن مالک اور حضڑت ابویرہ نے کی ہے کہ حضور کی وفات کے لیے بعد جب عرب کے کچھ لوگوں نے زکوۃ ادا کرنے سے انکار کردیا، اور حضرت ابوبکر نے یہ سن کر فرمایا کہ حدیث میں ، الابحقھا، کے الفاظ بھی ہیں اور ان مانعین زکوۃ کے خلاف اقدامات ، الابحقھا، کے ذیل میں آتے ہیں۔ اس حدیث کی صحت پر صحابہ کرام کا اتفاق ہوگا اور یہ حدیث اس قول باری (ولاتقولوا لمن القی الیکم السلم لست مومنا، اور جو شخص فرمانبرداری اختیار کرلے اسے یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں ہے ، کے ہم معنی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کا اظہار کرنے والے کے ایمان کی صحت کا فیصلہ کردیا ہے اور ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم ایسے شخص پر مسلمانوں کے احکام جاری کریں خواہ اس کے دل میں اس کے خلاف عقیدہ کیوں نہ ہو، اس سے زندیق کی توبہ قبول ہونے پر جب وہ اسلام کا اظہار کرے استدلال کیا جاتا ہے کیونکہ اس حکم میں اللہ تعالیٰ نے زندیق اور غیر زندیق میں جب ان کی طرف سے اسلام کا اظہار ہوجائے کوئی فرق نہیں رکھا۔ نیز یہ اس بات کا بھی موجب ہے کہ جب کوئی شخص کلمہ طیبہ پڑھ لے یا اپنی زبا ن سے کہے کہ میں مسلمان ہوں تو پھر اس پر حکم اس لام جاری کیا جائے گا، اس لیی کہ قول باری (لمن القی الیکم السلام) کا مفہوم ہے کہ جو شخص اسلام کی طرف دعوت کے جواب میں فرمانبرداری اختیار کرتے ہوئے سرتسلیم خم کردے اسے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے۔ لیکن اگر، السلام، کی قرات کی جائے تو مفہوم ہوگا ، جو شخص تحیۃ اسلام یعنی السلام علیکم، کہے اسلامی سلام کا اظہار ایک شخص کے اسلام میں داخل ہونے کی علامت سمجھی جاتی تھی، حضور نے اس شخص سے جس نے اسلام کا اقرار کرنے والے شخص کو قتل کردیاتھا فرمایا تھا، تم نے اس کے اسلام لانے کے بعد اسے قتل کردیا۔ یہی بات آپ نے اس شخص سے بھی فرمائی تھی جس نے کلمہ طیبہ پڑھنے والے شخص کو ہلاک کردیا تھا آپ نے اسلامی سلام کا اظہار کرنے والے پر مسلمان ہونے کا حکم لگادیا تھا۔ امام محمد بن الحسن نے ، السیر الکبیر ، میں لکھا ہے کہ اگر ایک یہودی یاعیسائی یہ کہہ دے کہ میں مسلمان ہوں تو ایسا کہنے وہ مسلمان نہیں ہوجائے گا، کیونکہ یہ سب لوگ یہی کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ہم مومن ہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارا دین بھی ایمان یعنی اسلام ہے، اس ان کے اس قول میں یہ دلیل نہیں ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ امام محمد نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی مشرک کو قتل کرنے کے لیے اس پر حملہ آور ہوجائے اور اس وقت وہ مشرک یہ کہے کہ میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں ، تو یہ مسلمان سمجھاجائے گا، کیونکہ اس کا کلمہ پڑھنا اس کے مسلمان ہونے کی دلیل ہے البتہ اگر وہ اس قول سے پھرجائے تو اس صورت میں اس کی گرد ن اڑادی جائے گی۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ امام محمد نے یہودی کو اس کے اس قول پر کہ میں مسلمان یا مومن ہوں مسلمان قرار نہیں دیا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہود اسی طرح کہتے ہیں کہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اصل ایمان اور اسلام وہ ہے جس پر ہم عمل پیرا ہیں۔ اس لیے ان کا یہ کہنا ان کے مسلمان ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ یہود ونصاری کی حیثیت ان مشرکین جیسی نہیں ہے جو حضور کے زمانے میں موجود تھے، اس لیے کہ وہ سب کے سب بت پرست تھے اس لیے ان کا اقرار توحید اور ان میں سے کسی کا یہ کہنا کہ میں مسلمان ہوں یا میں مومن ہوں ، گویا بت پرستی چھوڑ کر اسلام میں داخل ہونے کی علامت اور نشان ہوتا تھا، اس لیے ان کے اس اقرار واظہار کو کافی سمجھ لیا جاتاتھاکیون کہ ایک مشرک کو اسی وقت اس اقرار واظہار کا حوصلہ ہوتا تھا جب وہ حضور کی تصدیق کرتے ہوئے آپ پر امان لے آتا اسی بنا پر حضور کا یہ ارشاد ہے کہ : (امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لاالہ الا اللہ، فاذا قالوھا عصموا منی دماء ھم واموالھم) اس قول سے آپ کی مراد مشرکین تھے یہود نہیں تھے کیونکہ یہود ، لاالہ اللہ کا کلمہ پڑھا کرتے تھے اسی طرح عیسائی بھی اس کلمہ توحید کے قائل تھے۔ اگرچہ تفصیل میں جاکر توحید کے برعکس بات کرتے ہوئے ایک میں تین کے عقیدے کا اظہار کرتے ، اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ ، لاالہ الا اللہ، کا قول عرب کے مشرکین کے اسلام کانشان تھا، کیونکہ وہ لوگ حضور کی دعوت اسلام کو قبول کرتے ہوئے نیز آپ کی دعوت کی تصدیق کرتے ہوئے اعتراف توحید کرتے تھے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ارشاد باری ہے (انھم اذاقیل لھم لاالہ الاللہ یستکبرون، اور یہ لوگ ایسے ہیں کہ جب ان سے کہاجاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں توبڑائی اور تکبر کا اظہار کرتے ہیں، یہود ونصاری کلمہ توحید کے اطلاق میں مسلمانوں کی موافقت کرتے تھے لیکن حضور کی نبوت کے سلسلے میں مسلمانوں کی مخالفت کرتے تھے۔ اس لیے اگر یہود یاعیسائی حضور پر ایمان کا اظہار کرے گا تو وہ مسلمان سمجھا جائے گا۔ حسن بن زیاد نے امام ابوحنیفہ سے روایت کی ہے کہ اگر کوئی یہودی یا نصرانی اللہ کی وحدانیت اور حضور کی رسالت کی گواہی دے لیکن یہ اقرار نہ کرے کہ میں اسلام میں داخل ہوں اور نہ ہی یہودیت یاعیسائیت سے اپنی برات کا اظہار کرے تو صرف گواہی دینے کی بنا پر وہ مسلمان نہیں ہوگا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں : میراخیال ہے کہ میں نے امام محمد کی بھی اسی قسم کی تحریر کہیں دیکھی ہے البتہ امام محمد نے ، السیرالکبیر، میں جو کچھ لکھا ہے وہ حسن بن زیاد کی اس روایت کے خلاف ہے۔ حسن کی اس روایت میں کہی گئی بات کی وجہ یہ ہے کہ ان یہود ونصاری میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جوا سکے قائل ہیں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں لیکن وہ تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں کچھ توا سکے قائل ہیں کہ بیشک محمد اللہ کے رسول ہیں، لیکن ان کی ابھی تک بعثت نہیں ہوئی ہے عنقریب ہونے والی ہے۔ اس لیے اگر ان میں سے کوئی شخص یہودیت یانصرانیت پر قائم رہتے ہوئے اللہ کی وحدانیت اور حضور کی رسالت کی گواہی دے گا تو اس کی یہ گواہی اس کے مسلمان ہونے کی دلیل نہیں بن سکے گی جب تک وہ یہ نہ کہے کہ میں اسلام میں داخل ہوتاہوں یا میں یہودیت یاعیسائیت سے اپنی برات کا اظہار کرتا ہوں۔ اگرہم قول باری (ولاتقولوا لمن القی الیکم السلام لست مومنا) کو اس کے ظاہر پر رہنے دیں تو اس کی اس بات پر دلالت نہیں ہوگی کہ اطاعت وفرمانبرداری کا اظہار کرنے والے پر مسلمان ہونے کا حکم لگادیاجائے کیونکہ اس سے یہ بھی مراد لیا جاسکتا ہے کہ ایسے شخص سے نہ اسلام کی نفی کرو اورنہ ہی اثبات لیکن اس بارے میں تحقیق کرکے معلوم کرو کہ اس قول سے اس کی کیا مراد ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ارشاد باری ہے (واذاضربتم فی سبیل اللہ فتبینوا ولاتقولوا لمن القی الیکم السلام لست مومنا، جب تم اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلوا تودوست دشمن میں تمیز کرلیاکرو اور جو شخص سلام میں سبقت کرے اسے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے ظاہرلفظ جس کا امر کا مقتضی ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں تحقیق وتفتیش کا حکم دیا گیا ہے اور علامت ایمان کی نفی کرنے سے روکا گیا ہے ایمان کی علامت کی نفی کی ممانعت میں ایمان کے اثبات اور اس کے حکم کا وجود نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب ہمیں کسی شخص کے ایمان کے بارے میں جس کے حالات سے ہم ناواقف ہوں شک ہوجاتا ہے تو ہمارے لیے اس پر ایمان یا کفر کا حکم لگانا جائز نہیں ہوتا، الایہ کہ تحقیق وتفتیش کرکے ہم اس کی اصلیت معلوم کرلیں، اسی طرح اگر کوئی شخص ہمیں ایسی کوئی خبر سنائے جس کی صداقت یاعدم کا ہمیں کوئی علم نہ ہو تو ہمارے لیے اس کی تکذیب جائز نہیں ہوگی۔ لیکن ہماری ترک تکذیب ہماری طرف سے اس کی تصدیق کی علامت نہیں ہوگی آیت کے مقتضی کی بھی یہی صورت ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے کہ اس میں نہ تو ایمان کا اثبات ہے اور نہ ہی کفر کا اس میں تو صرف تحقیق وتفتیش کا حکم ہے ، یہاں تک کہ ہمیں اس کی اصلیت معلوم ہوجائے۔ البتہ جن روایات کا ہم نے ذکر کیا ہے وہ ایسے شخص پر ایمان کا حکم لگاناواجب کررہی ہیں کیونکہ حضور کا ارشاد ہے (اقتلت مسلما وقتلتلہ، بعد مااسلم، تم نے ایک مسلمان کو قتل کردیا تم نے اسے اس کے اسلام لانے کے بعد قتل کردیا۔ نیز آپ کا ارشاد ہے ، (امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لاالہ الا اللہ فاذاقالوھا عصمو منی دماء ھم واموالھم الابحقھا) آپ نے کلمہ توحید کے اظہار کرنے والے پر اسلام یعنی مسلمان ہونے کا حکم لگادیا، اسی طرح حضرت عقبہ بن مالک لیثی کی روایت میں آپ کے الفاظ ہیں۔ (ان اللہ تعالیٰ ابی علی ان اقتل مومنا) ۔ آپ نے اس کلمہ طیبہ کے اظہار پر اس شخص کو مومن قرار دے دیا، روایت میں ہے کہ زیر بحث آیت کا نزول بھی اسی جیسے کسی واقعہ کے سلسلے میں ہوا تھا، یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ آیت کی مراد یہ ہے کہ جو شخص اس کلمہ کا اظہار کرے ، اس پر ایمان کے اثبات کا حکم دیاجائے۔ منافقین بھی اس کلمہ کے اظہار کے ذریعے اپنی جان ومال کے بچاؤ کا سامان کرلیتے تھے حالانکہ اللہ تعالیٰ کو ان کے اعتقاد کفر کا علم تھا اور حضور بھی ان میں سے بہت سوں کے نفاق سے واقف تھے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ زیر بحث آیت اسلامی سلام کہنے والے پر سلام کا حکم لگانے کی مقتضی ہے۔ قول باری ہے (تبتغون عرض الحیوۃ الدنیا) اس سے مراد مال غنیمت ہے ، دنیاوی متاع یعنی سازوسامان کو عرض کا نام دیا گیا اس لیے اس سازوسامان کی بقاء کی مدت بہت قلیل ہوتی ہے جیسا کہ اس شخص کے متعلق مروی ہے جس نے اظہار اسلام کرنے والے شخص کو قتل کرکے اس کا سارامال لے لیا تھا۔ قول باری ہے (اذا ضربتم فی سبیل اللہ) اس سے اللہ کے راستے میں سفر مراد ہے ، قول باری (فتثبتوا کی قرات تاء اور نون کے ساتھ ہوئی ہے (یعنی فتبنیوا۔ ایک قول ہے کہ تاء اور نون کے ساتھ قرات ہی مختار قرات ہے کیونکہ تثبیت یعنی تحقیق وجستجوا یعنی حقیقت حال معلوم کرنے کے لیے ہوتی ہے اور یہ تثبت اس کا سبب ہوتا ہے۔ قول باری ہے (کذالک کنتم من قبل) تم بھی اس سے پہلے ایسے ہی تھے، حسن کا قول ہے ان جیسے کافر، سعید بن جبیر کا قول ہے تم بھی اپنی قوم کے اندر رہتے ہوئے اپنادین مخفی رکھنے پر مجبور تھے جس طرح یہ لوگ اپنادین مخفی رکھنے پر مجبور ہیں۔ قول باری ہے (فمن اللہ علیکم ، اللہ نے تم پر احسان کیا) یعنی دین اسلام عطا کرکے ، جس طرح یہ قول باری ہے (بل اللہ یمن علیکم ان ھداکم للایمان، بلکہ اللہ تعایل تم پر یہ احسان جتلاتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت دی ، ایک قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں غلبہ عطا کرکے تم پر احسان کیا حتی کہ اپنادین ظاہر کرنے کے قابل ہوگئے۔
Top