Ahkam-ul-Quran - An-Nisaa : 9
وَ لْیَخْشَ الَّذِیْنَ لَوْ تَرَكُوْا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّیَّةً ضِعٰفًا خَافُوْا عَلَیْهِمْ١۪ فَلْیَتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْیَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا
وَلْيَخْشَ : اور چاہیے کہ ڈریں الَّذِيْنَ : وہ لوگ لَوْ تَرَكُوْا : اگر چھوڑ جائیں مِنْ : سے خَلْفِھِمْ : اپنے پیچھے ذُرِّيَّةً : اولاد ضِعٰفًا : ناتواں خَافُوْا : انہیں فکر ہو عَلَيْھِمْ : ان کا فَلْيَتَّقُوا : پس چاہیے کہ وہ ڈریں اللّٰهَ : اللہ وَلْيَقُوْلُوْا : اور چاہیے کہ کہیں قَوْلًا : بات سَدِيْدًا : سیدھی
اور ایسے لوگوں کو ڈرنا چاہیے جو (ایسی حالت میں ہوں کہ) اپنے بعد ننھے ننھے بچے چھوڑ جائیں گے اور ان کو ان کی نسبت خوف ہو (کہ ان کے مرنے کے بعد ان بیچاروں کا کیا حال ہوگا) پس چاہیے کہ یہ لوگ خدا سے ڈریں اور معقول بات کہیں۔
معاشرتی معاملات کی بنیاد وسیع ترقومی مفاد کے اصولوں پر ہونی چاہیئے قول باری ہے (ولیخش الذین لوترکوامن خلفھم ذریۃ ضعافاخافوا علیھم فلیتقوا اللہ ولیقولواقولا سدیدا، لوگوں کو اس بات کا خیال کرکے ڈرنا چاہیے کہ اگر خوداپنے پیچھے بےبس اولاد چھوڑتے تومرتے وقت انہیں اپنے بچوں کے حق میں کیسے کچھ اندیشے لاحق ہوتے۔ پس چاہیے کہ وہ خدا کا خوف کریں اور راستی کی بات کریں) اس آیت کی تاویل میں سلف کے اندراختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے ایک روایت کی بناپرنیز سعید بن جبیر، حسن، مجاہد، قتادہ، ضحاک، سدی کے قول کے مطابق اس سے مراد وہ شخص ہے جس کی موت کا وقت قریب آجائے، اس کے پاس موجودلوگوں میں سے کوئی اس سے کہے، انہیں یعنی رشتہ داروں کو بھی کچھ دے جاؤ، ان کے ساتھ صلہ رحمی اور نیکی کرو، اگر یہ لوگ خودوصیت کرنے والے ہوتے تو اپنی اولاد کے لیے سب کچھ بچالینا زیادہ پسند کرتے۔ حبیب بن اوس کہتے ہیں میں نے مقسم سے اس تفسیر کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ تفسیر اس طرح نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ شخص ہے جس کی موت کا وقت آجائے۔ اس کے پاس موجودلوگوں میں سے کوئی اسے یہ مشورہ دے کہ، اللہ کا خوف کرو اوراپنامال اپنے پاس رہنے دور کسی اور کونہ دو ، اگر مشورہ دینے والے خود اس کے رشتہ دارہوتے توا نہیں یہ بات زیادہ پسند ہوتی۔ کہ وہ ان کے متعلق وصیت کرجائے پہلے گروہ نے آیت کی یہ تاویل کی کہ اس قریب المرگ انسان کے پاس موجودلوگوں کوا سے وصیت پر ابھارنے سے روک دیاگیا ہے جبکہ مقسم نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ آیت میں ترک وصیت کا مشورہ دینے والے کو اس قسم کے مشورے سے روک دیا گیا ہے۔ ایک اور روایت میں حسن کا قول ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو قریب الموت شخص اپنے مال کی تہائی سے زائد وصیت کا مشورہ دیتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے ایک اور روایت کے مطابق یتیم کے مال کی سرپرستی اور حفاظت کے سلسلے میں آپ نے فرمایا کہ سرپرستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے مال میں وہی کچھ کریں اور اس کے متعلق وہی کچھ کہیں جو وہ اپنی موت کے بعد پیچھے رہ جانے والے یتیموں اور بے بس اولاد کے مال میں کرنا اور کہنا پسند کرتے ہوں۔ یہاں یہ کہنا درست ہوگا کہ آیت کی سلف سے جتنی تاویلات مروی ہیں وہ سب مراد ہیں۔ البتہ ایک تاویل جس کی رو سے وصیت کا مشورہ اپنے سے روکا گیا ہے اس وقت درست ہوگی جب مشورہ دینے والے کا ارادہ ورثاء کو نقصان پہنچانے یا ان لوگوں کو محروم رکھنے کا ہو جن کے بارے میں مرنے والاوصیت کرنا چاہتا تھا یعنی مشورہ دینے والے کی یہ حرکت ایسی ہو کہ اگر وہ خود ان کی جگہ ہوتاتو اسے پسندنہ کرتا۔ وہ اس طرح کہ مرض موت میں مبتلا شخص کا مال بہت کم مقدار میں ہو اور اس کے ورثاء اس کے ورثاء اس کے بےبس اور کمزوراولاد ہو۔ اب یہ مشیر اسے مال کی پوری ایک تہائی کی وصیت کا مشورہ دے، حالانکہ اگر وہ خود اس کی جگہ ہوتاتو اپنے بےبس ، ورثاء کے خیال سے کبھی ایسا کرنے پر رضامند نہ ہوتا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کسی شخص کے کمزور اوربے بس ورثاء ہوں اور اس کا مال بھی کوئی زیادہ نہ ہو تو اس کے لیے یہی مستحب ہے کہ کسی قسم کی وصیت نہ کرے اور سارامال اپنے ورثاء کے لیے چھوڑجائے اور اگر اسے وصیت کرنا ہی ہوتوتہائی سے کم کی وصیت کرجائے۔ حضرت سعد ؓ نے حضور ﷺ سے جب یہ عرض کیا تھا کہ میں اپنا مال وصیت میں دے دینا چاہتاہوں تو آپ انہیں روکتے رہے۔ حتی کہ وہ تہال مال پر آگئے اس پر آپ نے فرمایا (الثلث والثلث کثیر، انک ان تدع ورثتک اغنیاء خیرمن ان تدعھم عالۃ یتکفقون الناس، تہائی ٹھیک ہے اور تہائی بھی بہت بھی بہت زیادہ ہے تم اگر اپنے ورثاء کو مالدارچھوڑجاؤتویہ اس سے بہت رہے کہ انہیں تنگدستی میں مبتلا کر جاؤ کہ پھر وہ اپنے گذارے کے لیے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھلاتے پھریں۔ حضور ﷺ نے یہ واضح فرمادیا کہ ورثاء اگر غریب ہوں تو ایسی صورت میں ان کی خوشحالی کو مدنظررکھتے ہوئے وصیت نہ کرنا وصیت کرنے سے افضل ہے ۔ حسن بن زیادنے امام ابوحنیفہ سے نقل کیا ہے کہ جو شخص مالدارہو اس کیلئیے افضل صورت یہی ہے کہ رضائے الہی کی خاطر اپنے تہائی مال کی وصیت کرجائے اور جو شخص مال دارنہ ہو اس کے لیے افضل یہی ہے کہ کوئی وصیت نہ کرے بلکہ سارامال انے ورثا کیلیے چھوڑجائے۔ آیت کی تاویل میں حسن سے منقول روایت کے مطابق وصیت سے نہی کا حکم اس شخص کے لیے ہے جو مرنے والے کو تہائی سے زائد کی وصیت کرجانے کا مشورہ دے اس لیے کہ اسے ایسا کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (الثلث کثیر، تہائی بھی بہت زیادہ ہے) نیز آپ نے حضرت سعد ؓ کو تہائی سے زائدمال کی وصیت سے منع کردیا تھا۔ مقسم نے آیت کی تاویل کے سلسلے میں جو کہا ہے آیت سے وہ مرادلینا بھی جائز ہے وہ اس طرح کہ مرنے والے کے پاس موجود کوئی شخص اسے وصیت نہ کرنے کا مشورہ دے۔ اگر یہ مشیر اس کے رشتہ داروں میں سے ہوتا تو وہ اپنے بارے میں اسکی وصیت کے عمل کو ضرورپسند کرتا۔ اس طرح وہ اسے ایسا مشورہ دینے کا مرتکب ٹھہراج سے وہ اپنی ذات کے لیے پسند نہیں کرتا۔ حضور ﷺ سے بھی اس معنی میں روایت موجود ہے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت کی، انہیں ابراہیم بن ہاشم نے، انہیں ھلابہ نے، انہیں ہمام نے ، انہیں قتادہ نے حضرت انس ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (لایؤمن العبدحتی یحب الخید مایحب لنفسہ من الخیر، کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی بھلائی نہ چاہے جو وہ اپنی ذات کے لیے چاہتا ہے) ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی۔ انہیں حسن بن العباس رازی نے، انہیں سہل بن عثمان نے، انہیں زیادبن عبداللہ نے لیث سے، انہوں نے ظاحہ سے، انہوں نے خیثمہ سے، انہوں نے حضرت عبداللہ عمر ؓ سے انہوں نے حضور ﷺ سے کہ آپ نے فرمایا (من سرہ ان یزحزح عن النارویدخل الجنۃ فلتاتہ میتہ وھویشھد ان لاالہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ ویحب ان یاتی الی الناس مایحب ان یاتی الیہ، جس شخص کو یہ بات خوش کردے کہ اسے جہنم سے دورکردیاجائے اور جنت میں داخل ہوجائے توا سے چاہیے کہ اس کی موت ایسی حالت میں آئے کہ وہ اللہ کی واحدانیت اور اس کی معبودیت نیز حضور ﷺ کی رسالت کی گواہی دیتاہو اور اسے اپنی ذات کے لیے جس چیز کا حصول پسند ہو لوگوں کے لیے بھی اس کا حصول اسے پسندہو) ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ قول باری (ولیخش الذین لوترکوامن خلفھم ذریۃ ضعافا خافواعلیھم فلیتقوا اللہ والیقولو اقولا سدیدا) کے یہ معنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع کردیا ہے کہ کوئی شخص کسی شخص کو ای سے کام کا مشورہ دے یا ایسا قدم اٹھا نے کا حکم کرے جو وہ اپنی ذات، اپنے اہل وعیال اور اپنے ورثاء کے لیے اٹھا ناپسند نہ کرتا ہو۔ اس کی بجائے مرنے والے کا پاس موجودلوگوں کو سیدھی اور درست بات کرنے کا حکم دیا ہے۔ یعنی حق وانصاف کی بات جس میں کوئی ہیرپھیریا خرابی نہ ہو کہ اس سے کسی وارث کو نقصان پہنچتا ہویا کسی رشتہ دار کی محرومی لازم آتی ہو۔
Top