Ahkam-ul-Quran - Az-Zukhruf : 13
لِتَسْتَوٗا عَلٰى ظُهُوْرِهٖ ثُمَّ تَذْكُرُوْا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ اِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْهِ وَ تَقُوْلُوْا سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَ مَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِیْنَۙ
لِتَسْتَوٗا : تاکہ تم چڑھ بیٹھو عَلٰي ظُهُوْرِهٖ : ان کی پشتوں پر ثُمَّ تَذْكُرُوْا : پھر تم یاد کرو نِعْمَةَ رَبِّكُمْ : اپنے رب کی نعمت کو اِذَا اسْتَوَيْتُمْ : جب سوار ہو تم عَلَيْهِ : اس پر وَتَقُوْلُوْا : اور تم کہو سُبْحٰنَ الَّذِيْ : پاک ہے وہ ذات سَخَّرَ لَنَا : جس نے مسخر کیا ہمارے لیے ھٰذَا : اس کو وَمَا كُنَّا : اور نہ تھے ہم لَهٗ : اس کے لیے مُقْرِنِيْنَ : قابو میں لانے والے
تاکہ تم ان کی پیٹھ پر چڑھ بیٹھو اور جب ان پر بیٹھ جاؤ پھر اپنے پروردگار کے احسان کو یاد کرو اور کہو کہ وہ پاک ہے جس نے اس کو ہمارے زیر فرمان کردیا اور ہم میں طاقت نہ تھی کہ اس کو بس میں کرلیتے
سورة الزخرف سواری پر سوار ہوتے وقت بسم اللہ پڑھنے کا بیان قول باری ہے (لتستو وا علی ظھورہ ثم تذکرو انعمۃ ربکم اذا استویتم علیہ ۔ تاکہ تم ان کی پشت پر جم کر بیٹھو پھر جب تم اس پر جم کر بیٹھ چکو تو اپنے پروردگار کی اس نعمت کو یاد کرو) ۔ ہمیں عبداللہ بن اسحاق نے روایت بیان کی ، انہیں حسن بن ابی الربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے، انہوں نے ابواسحاق سے اور انہوں نے علی بن ربیعہ سے کہ انہوں نے حضرت علی ؓ کو سواری پر سوار ہوتے دیکھا تھا۔ جب انہوں نے اپنا پائوں رکاب میں رکھا تو بسم اللہ کہا۔ جب پوری طرح جم کر بیٹھ گئے تو الحمد للہ کہا۔ پھر یہ آیت پڑھی (سبحان الذی سخرلنا ھذا وما کنا لہ مقرنین۔ پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لئے اسے مسخر کردیا اور ہم اسے قابو کرنے والے نہیں تھے) پھر تین دفعہ الحمد للہ اور تین دفعہ اللہ کبر کہنے کے بعد فرمایا : ” لا الہ الا انت ظلمت نفسی فاغفرلی فانہ لا یغفرالذنوب الاانت “ (تیرے سوا کوئی معبود نہیں میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے تو مجھے بخش دے کیونکہ تیرے سوا کوئی اور گناہوں کو نہیں بخش سکتا) یہ کہہ کر حضرت علی ؓ ہنس پڑے لوگوں نے عرض کیا امیر المومنین ! آپ کو ہنسی کیوں آئی ؟ حضرت علی ؓ نے جواب میں فرمایا ” جو کچھ ابھی میں نے کیا ہے اور کہا ہے حضور ﷺ کو بھی اسی طرح کرتے اور کہتے دیکھا ہے۔ “ آپ سے بھی یہی دریافت کیا گیا تھا۔ ” اللہ کے نبی ﷺ ! آپ کو ہنسی کیوں آئی ؟ “ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا تھا۔ ” بندے کا معاملہ عجیب ہے (یا یوں فرمایا، بندہ) جب کہتا ہے کہ ” لا الہ الا انت ظلمت نفسی فاغفرلی انہ لا یغفرالذنوب الا انت “۔ تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے سوا گناہوں کو اور کوئی معاف نہیں کرسکتا۔ ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی۔ انہیں حسن نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے، انہوں نے ابوطائوس سے انہوں نے اپنے والد سے کہ وہ جب سواری پر سوار ہوتے تو بسم اللہ پڑھتے پھر یہ کہتے : ” ھذا منک وفضلک علینا، الحمد للہ ربنا “ (یہ تیرا عطیہ ہے اور ہم پر یہ تیرا فضل ہے تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو ہمارا رب ہے) پھر کہتے (سبحان الذی سخرلنا وما کنا لہ مقرنین وانا الی ربنا لمنقلبون) ۔ حاتم بن اسماعیل نے جعفر سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (علی ذروۃ سنام کل بعیر شیطان فاذا رکبتموھا فقولو اکما امرکم اللہ سبحان الذی سخرلنا ھذا وما کنا لہ مقرنین۔ “ ہر اونٹ کے کوہان کی چوٹی پر شیطان ہوتا ہے اس لئے جب تم اس پر سوار ہو تو اس طرح کہو جس طرح اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے یعنی سبحان الذی سخرلنا ھذا وما کنا لہ مقرنین۔ سفیان سے مروی ہے، انہوں نے منصور سے اور انہوں نے مجاہد سے، انہوں نے ابو معمر سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا ” جب کوئی شخص جانور پر سوار ہوتا ہے اور اس وقت اللہ کا نام نہیں لیتا ہے تو شیطان اس کے پیچھے سوار ہوجاتا ہے پھر اس سے گانا گانے کے لئے کہتا ہے۔ اگر وہ اچھی طرح گا نہیں سکتا تو اس سے تمنا کرنے کے لئے کہتا ہے۔ “ عورتوں کے لئے زیورات پہننے کی اباحت کا بیان ابوالعالیہ اور مجاہد کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو سونا پہننے کی اجازت دی ہے پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی (اومن ینشوا فی الحلیۃ۔ تو کیا جو زیورات میں پرورش پائے) نافع نے سعید سے، انہوں نے ابوہند سے اور انہوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : لیس الحریر والذھب حرام علی ذکور امتی حلال لانا ثھا میری امت کے مردوں پر ریشم اور سونا پہننا حرام ہے اور عورتوں پر حلال ہے۔ شریک نے عباس بن زریح سے، انہوں نے النھی سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کو اس وقت یہ فرماتے ہوئے سنا تھا جب آپ حضرت اسامہ کے چہرے پر لگے ہوئے زخم سے خون چوس چوس کر اس کی کلی کررہے تھے کہ ” اسامہ لڑکی ہوتے تو ہم انہیں زیورات پہناتے، اسامہ اگر لڑکی ہوتے تو ہم انہیں کپڑے پہناتے۔ “ حضور ﷺ نے حضرت اسامہ کی حیثیت لوگوں کی نظروں میں بڑھانے کے لئے یہ فرمایا تھا۔ عمرو بن شعیب کی روایت میں جو انہوں نے اپنے والد کے واسطے سے اپنے دادا سے کی ہے یہ ذکر ہے کہ آپ نے دو عورتوں کو دیکھا جنہوں نے سونے کے کنگن پہن رکھے تھے اور فرمایا (اتحبان ان یسورکما اللہ باسورۃ من نار، کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں آگ کے کنگن پہنا دے) ۔ انہوں نے نفی میں اس کا جواب دیا۔ اس پر آپ نے فرمایا (فادیاق ھذا۔ پھر اس کا حق ادا کرو) یعنی زکوۃ نکالو۔ حضرت عائشہ ؓ کا قول ہے کہ اگر زیورات کی زکوٰۃ نکال دی جائے تو انہیں پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوموسیٰ ؓ کو یہ لکھا کہ اپنے علاقے کے مسلمانوں کی عورتوں کو زیورات کی زکوٰۃ نکالنے کے لئے کہو۔ امام ابوحنیفہ نے عمروبن دینار سے روایت کی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے اپنی بہنوں کو سونے کے زیورات پہنائے تھے۔ نیز حضرت ابن عمر ؓ نے بھی اپنی بیٹیوں کو سونا پہنایا تھا۔ خصیف نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ جب ہمیں حضور ﷺ نے سونا پہننے سے منع فرمادیا تو ہم نے عرض کیا : ” اللہ کے رسول (علیہ السلام) ! کیا ہم مشک کے ساتھ سونے کے اجزا نہ ملا لیا کریں۔ “ آپ نے فرمایا ” تم اسے چاندی کے ساتھ کیوں نہیں ملالیتیں اور پھر زعفران کے اندر اسے لت پت کرلو تو یہ سونے کی طرح ہوجائے گا۔ “ جریر نے مطرف سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ ایک عورت آئی اور کہنے لگی۔” اللہ کے رسول ! یہ سونے کے دو کنگن ہیں۔ “ آپ ﷺ نے فرمایا ” یہ آگ کے دو کنگن ہیں۔ “ اس نے پھر عرض کیا۔” سونے کی دو بالیاں ہیں۔ “ آپ ﷺ نے پھر فرمایا : ” یہ آگ کی دو بالیاں ہیں۔ “ اس نے پھر کہا : ” سونے کا ایک ہار ہے۔ “ آپ ﷺ نے جواب دیا : ” یہ آگ کا ایک ہار ہے۔ “ عورت نے عرض کیا : اللہ کے رسول ﷺ ! عورت اگر اپنے شوہر کے لئے زیورات وغیرہ پہن کر بنائو سنگھار نہ کرے تو وہ اس کی نظروں میں بو وقعت ہوکر رہ جاتی ہے۔ “ یہ سن کر آپ نے فرمایا : تمہارے لئے اس میں کیا رکاوٹ ہے کہ تم چاندی کی دو بالیاں بنالو اور پھر انہیں عنبر یعنی مشک یا زعفران سے رنگ دو ، وہ سونے کی بالیں جیسی نظر آئیں گی۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ زیورات پہننے کی اباحت میں حضور ﷺ اور صحابہ کرام سے جو روایات منقول ہیں وہ ممانعت کی روایات سے زیادہ واضح اور زیادہ مشہور ہیں اسی طرح آیت کی بھی یہی دلالت ہے کہ عورتوں کے لئے زیورات کی اباحت ہے۔ حضور ﷺ اور صحابہ کرام کے زمانے سے لے کر آج تک عورتوں کے لئے زیورات پہننے کی اباحت کی روایتیں استفاضہ کی حد کو پہنچ گئی ہیں اور کسی نے اس پر نکیر بھی نہیں کی۔ اس لئے اخبار آحاد کے ذریعے ان روایات پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔
Top