بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahkam-ul-Quran - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا : بیشک ہم نے فتح دی لَكَ : آپ کو فَتْحًا : فتح مُّبِيْنًا : کھلی
(اے محمد) ﷺ ہم نے تم کو فتح دی فتح بھی صریح و صاف
فتح مبین سے کیا مراد ہے ؟ قول باری ہے (انا فتحنا لک فتحا مبینا۔ بیشک ہم نے آپ کو فتح مبین عطا کی) ایک روایت کے مطابق اس سے فتح مکہ مراد ہے۔ قتادہ کا قول ہے کہ ہم نے آپ کے لئے ایک واضح فیصلہ کیا۔ زیادہ ظاہر بات یہی ہے کہ اس سے فتح مکہ مراد ہے جسے اللہ نے مسلمانوں کے غلبے اور کافروں پر ان کی بالادستی کی صورت میں انہیں عطا کیا تھا۔ اور لفظ قضاء علی الاطلاق فتح کے مفہوم کو شامل نہیں ہوتا۔ اگر فتح مکہ مراد لینا درست ہوجائے تو یہ فتح بزور شمشیرہوئی تھی کیونکہ صلح کے طور پر حاصل ہونے والی فتح پر لفظ فتح کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اگرچہ مشروط صورت میں کبھی صلح کے لفظ سے فتح کے مفہوم کی تعبیر ہوجاتی ہے۔ اگر ایک شخص یہ کہتا ہے کہ ” فلاں شہر فتح ہوگیا۔ “ تو اس سے یہی مفہوم اخذ کیا جاتا ہے کہ یہ فتح غلبہ اور بالادستی کی بنا پر حاصل ہوئی ہے۔ صلح کی بنا پر حاصل نہیں ہوئی۔ سلسلہ تلاوت میں قول باری (وینصرک اللہ نصرا عزیزا۔ اور تاکہ اللہ آپ کو زبردست غلبہ عطا کرے) بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ آپ مکہ میں غلبہ اور بالا دستی کے تحت داخل ہوئے تھے اور آیت میں فتح مکہ ہی مراد ہے۔ اس پر قول باری (اذا جآء نصر اللہ والفتح جب اللہ کی مدد اور فتح آپہنچے) بھی دلالت کرتا ہے ۔ اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ آیت میں فتح مکہ مراد ہے۔ بزور شمشیر فتح پر قول باری (انا فتحنالک فتحا مبینا) کے علاوہ قول باری (ھوالذی انزل السکینۃ فی قلوب المومنین۔ اس نے اہل ایمان کے دلوں میں سکون نازل کیا) کا اس واقعہ کے سیاق میں ذکر ہونا بھی دال ہے۔ کیونکہ ایمان کے ذریعے نفس کو سکون حاصل ہونے کے معنی یہی ہیں کہ اہل ایمان کو جو بصیرتیں حاصل ہونی تھیں ان کے سہارے وہ دین کے دفاع میں لڑتے رہے یہاں تک کہ وہ وقت بھی آگیا جب انہوں نے مکہ فتح کرلیا۔
Top