Ahkam-ul-Quran - Al-Hujuraat : 13
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا١ؕ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ : بیشک ہم نے پیدا کیا تمہیں مِّنْ ذَكَرٍ : ایک مرد سے وَّاُنْثٰى : اور ایک عورت وَجَعَلْنٰكُمْ : اور بنایا تمہیں شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ : ذاتیں اور قبیلے لِتَعَارَفُوْا ۭ : تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرو اِنَّ اَكْرَمَكُمْ : بیشک تم میں سب سے زیادہ عزت والا عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک اَتْقٰىكُمْ ۭ : تم میں سب سے بڑا پرہیزگار اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا خَبِيْرٌ : باخبر
لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے بیشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے
قبیلے ، برادریاں محض تعارف کے لئے ہیں قول باری ہے (انا خلقنا کم من ذکروانثیٰ وجعلناکم شعوبا و قبائل لتعارفوا ، ہم نے تم سب کو ایک مراد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تم کو مختلف قومیں اور خاندان بنادیا ہے کہ ایک دوسرے کو پہچان سکو) مجاہد اور قتادہ سے مروی ہے کہ شعوب سے دور کی رشتہ داریاں مراد ہیں اور قبائل سے قریب کی رشتہ داریاں اس لئے کہا جاتا ہے ” بنو فلاں وفلاں “ (فلاں فلاں قبیلے) قول باری ہے (ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم۔ بیشک تم میں سے پرہیزگار تر اللہ کے نزدیک معزز تر ہے) اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ بیان کی تخلیق انسانیت کے ذکر سے ابتدا کی اور یہ بتایا کہ پوری انسانیت کی تخلیق ایک مرد اور ایک عورت یعنی حضرت آدم اور حضرت حوا سے شروع ہوئی۔ پھر اللہ نے اولاد آدم کی مختلف قومیں بنادیں جو نسبی لحاظ سے بکھری ہوئی تھیں۔ مثلاً عربی، ایرانی ، رومی اور ہندی وغیرہ مختلف قومیں۔ پھر ان قوموں سے مختلف قبائل وجود میں آئے۔ قبیلہ کا مفہوم قوم کے مفہوم کے مقابلہ میں اخص ہے۔ جیسے عرب کے قبائل اور عجم کی برادریاں اور قومیتیں وغیرہ۔ تاکہ ان کی نسبتوں کے ذریعے لوگ ایک دوسرے کی شناخت کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسی شناخت کی خاطر لوگوں کی شکلیں ایک دوسرے سے مختلف بنائیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ بیان کرکے یہ وضاحت فرمادی کہ نسبی جہت سے کسی انسان کو کسی دوسرے انسان پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے اس لئے کہ وہ سب کے سب آدم اولاد ہیں۔ ان سب کا باپ اور ان کی ماں بھی ایک ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ایک شخص کے فعل کی بنا پر کسی دوسرے شخص کے لئے فضیلت کا استحقاق پیدا نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ وضاحت اس لئے کردی تاکہ نسب کی بنیاد پر لوگ ایک دوسرے کے مقابلہ میں فخر کا اظہار نہ کرسکیں۔ اس بات کی مزید تاکید قول باری (ان اکرمکم عند اللہ اثقاکم) کے ذریعے ہوگئی ۔ یہاں یہ بات واضح کردی گئی کہ فضیلت اور رفعت کا استحقاق صرف اور صرف اللہ کی اطاعت اور تقویٰ کی بنا پر پیدا ہوتا ہے۔ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا تھا : ” لوگو ! اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے تکبر اور غرور نیز آباء واجداد کی عظمت پر فخر کی بات ختم کردی ہے۔ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنے ہیں۔ تم میں سے پرہیزگار تر اللہ کے نزدیک معزز تر ہے۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر تقویٰ کے سوا کسی اور بات میں فضیلت حاصل نہیں ہے۔ “ حضرت ابن عباس ؓ اور عطاء کا قول ہے کہ تم میں سے پرہیزگار تر اللہ کے نزدیک معزز تر ہے سب سے اونچے گھرانے والا معزز تر نہیں ہے۔
Top