Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 103
مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِیْرَةٍ وَّ لَا سَآئِبَةٍ وَّ لَا وَصِیْلَةٍ وَّ لَا حَامٍ١ۙ وَّ لٰكِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ١ؕ وَ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ
مَا جَعَلَ : نہیں بنایا اللّٰهُ : اللہ مِنْۢ بَحِيْرَةٍ : بحیرہ وَّلَا : اور نہ سَآئِبَةٍ : سائبہ وَّلَا : اور نہ وَصِيْلَةٍ : وصیلہ وَّلَا حَامٍ : اور نہ حام وَّلٰكِنَّ : اور لیکن الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا يَفْتَرُوْنَ : وہ بہتان باندھتے ہیں عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر الْكَذِبَ : جھوٹے وَاَكْثَرُهُمْ : اور ان کے اکثر لَا يَعْقِلُوْنَ : نہیں رکھتے عقل
خدا نے نہ تو بحیرہ کچھ چیز بنایا اور نہ سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حام بلکہ کافر خدا پر جھوٹ افتراء کرتے ہیں۔ اور یہ اکثر عقل نہیں رکھتے۔
قول باری ہے (ماجعل اللہ من بحیرۃ ولا سائبۃ ولا وصیلۃ ولا حام، اللہ تعالیٰ نے نہ کوئی بحیرہ مقرر کیا ہے نہ سائبہ نہ وصیلہ اور نہ حام) زہری کا قول ہے کہ بحیرہ اس اونٹنی کو کہتے تھے جس کا دودھ خدائوں کے نام کردیا جاتا تھا۔ سائبہ اس اونٹنی یا اونٹ کو کہتے تھے جسے خدائوں کے نام پر آزاد چھوڑ دیاجاتا تھا۔ وصیلہ اس اونٹنی کا نام تھا جو پہلی دفعہ مادہ بچہ جنتی پھر دوسری دوسری بار بھی مادہ بچہ جنتی، ایسی اونٹنی کا نام وصیلہ رکھتے اور کہتے کہ اس نے پے در پے دو دفعہ مادہ بچہ جنا ہے جن کے درمیان کوئی نر بچہ نہیں جنا گیا پھ روہ اسے اپنے خدائوں کے نام ذبح کردیتے۔ حامی اس نر اونٹ کو کہتے تھے جو ایک خاص عدد تک مادہ سے جفتی ہوتا جب وہ اتنی تعداد پوری کرلیتا تو کہا جاتا کہ اس نے اپنی پشت کو اب محفوظ کر یا ہے پھر اسے چھوڑ دیا جاتا اور اسے حامی کے نام سے پکارا جاتا۔ اہل لغت کا قول ہے کہ بحیرہ اس اونٹنی کو کہتے ہیں جس کے کان پھاڑ دیئے جاتے۔ محاورہ ہے ” بحرت اذن الناقۃ، الحرھا یحرنا (میں نے اونٹنی کے کان پھاڑ دیئے) ایسی اونٹنی مبحور ہ ہوتی۔ بحیرہ اس وقت کہلاتی جب اس کے کان ذرا کشادہ کر کے پھاڑ دیئے جاتے۔ اسی سے بحر کا اسم نکلا ہے۔ اسے اس کی وسعت اور کشادگی کی بنا پر بحر یعنی سمندر کہتے ہیں۔ اہل لغت کا قول ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ بحیرہ کی تحریم و تعظیم کے قائل تھے۔ بحیرہ پانی دفعہ بچے جنتی اور آخری دفعہ پیدا ہونے والا بچہ نر ہوتا تو اس اونٹنی کے کان پھاڑ کر اسے چھوڑ دیتے ۔ پھر اس پر سواری کرنے اور اسے ذبح کرنے سے باز رہتے۔ اسے کسی چراگاہ میں چرنے سے اور کسی گھاٹ میں پانی پینے سے روکا نہیں جاتا۔ اگر کوئی لاچار و درماندہ انسان بھی اسے دیکھ لیتا تو اس پر سواری نہ کرتا۔ اہل لغت کے قول کے مطابق سائبہ اس اونٹنی کا نام ہے جسے آزاد چھوڑ دیا جاتا۔ زمانہ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ جب کوئی شخص سفر سے واپس یا بیماری سے صحت یابی کی نذر مان لیتا یا اس قسم کی کوئی اور نذر اپنے اوپر لازم کرلیتا تو کہہ دیتا کہ میری اونٹنی سائبہ ہے پھر یہ اونٹنی بحیرہ کی طرح ہوجاتی یہ آزادانہ طور پر پھرتی رہتی، اس کی سواری، اس کا دودھ وغیرہ ممنوع ہوتا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص غلام آزاد کرتے وقت کہہ دیتا کہ یہ سائبہ ہے تو پھر آقا اور آزاد کردہ غلام کے درمیان نہ ولاء ہوتی نہ ایک دوسرے کی وراثت حاصل کرسکتے اور نہ ہی ایک دوسرے کے جرم کا تاوان بھرتے۔ وصیلہ کے متعلق بعض اہل لغت کا قول ہے کہ یہ بکری یا بھیڑ کے مادہ بچے کا نام ہے۔ جو نر بچے کے ساتھ پیدا ہوتی اس وقت لوگ کہتے کہ یہ مادہ اپنے نر بھائی کے ساتھ آئی ہے پھر وہ اس نر کو ذبح نہ کرتے۔ ایک قول یہ ہے کہ بکری جب مادہ بچہ دیتی تو اسے رکھ لیتے اور جب نر بچہ دیتی تو اسے خدائوں کے نام پر ذبح کردیتے۔ اہل لغت کا قول ہے کہ حامی اس اونٹ کو کہتے ہیں جس کے نطفے سے دس بچے پیدا ہوچکے ہوں۔ اس وقت لوگ یہ کہتے کہ اس اونٹ نے اب اپنی پشت محفوظ کرلی ہے ۔ پھر اس کی سواری نہ کی جاتی نہ ہی اسے گھاٹ میں پانی پینے اور کسی چراگاہ میں چرنے سے روکا جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے بحیرہ اور سائبہ وغیرہ کے متعلق اہل جاہلیت کے من گھڑت عقائد کی خبر دی ہے۔ یہ آیت کسی غلام کو سائبہ کے طور پر آزاد کردینے کے بطلان پر دلالت کرتی ہے۔ اس سے ان لوگوں کا قول بھی باطل ہوجاتا ہے کہ جو یہ کہتے ہیں کہ جس شخص نے اپنا غلام بطور سائبہ آزاد کردیا تو اسے اس کی دلاء حاصل نہیں ہوگی بلکہ اس کی ولاء مسلمانوں کو حاصل ہوگی۔ یہ بات اس لئے غلط ہے کہ اہل جاہلیت یہی عقیدہ رکھتے تھے جسے اللہ تعالیٰ نے باطل قرار دیا اور ارشاد ہوا (ولا سائبۃ) پھر حضور ﷺ کا ارشاد (الولاء ملن اعتق ولاء ولاء اسے حاصل ہوگی جس نے آزادی دی ہو) اس کی مزید تاکید کرتا ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا بیان ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی فرصیت کی اپنی کتاب میں کئی مواقع پر تاکید فرمائی ہے۔ حضور ﷺ نے روایات متواترہ میں اسے بیان فرمایا ہے۔ سلف اور فقہاء امصار کا اس کے وجوب پر اجماع ہے۔ اگرچہ بعض دفعہ ایسے حالات پیش آ جائیں جن میں جان بچانے کی خاطر خاموشی کی گنجائش بھی نکل اتٓی ہے۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے لقمان (علیہ السلام) کی بات نقل کرتے ہوئے فرمایا (یا بنی اقم الصلوۃ و امر بالمعروف وانہ عن المنکر واصبر علی ما اصبک ، اے میرے بیٹے ! نماز قائم کرو، نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو اور جو تکلیف تمہیں پہنچے اس پر صبر کرو۔ ) یعنی … واللہ اعلم … امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں جو تکالیف تمہیں پیش انہیں برداشت کرلو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کی یہ بات ہم سے اس لئے نقل کی ہے کہ ہم بھی اس کی پر یوی کریں اور اس طریق کار کو اپنا لیں۔ اللہ تعالیٰ نے سلف صالحین یعنی صحابہ کرام کی مدح سرائی کرتے ہوئے فرمایا۔ (التائبون العابدون، یہ توبہ کرنے والے ہیں، عبادت گذار ہیں) تاقول باری (الا مرون بالمعروف والناھون عن المنکروا الحافظون لحدود اللہ، نیکی کا حکم دینے والے برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں) نیز قول باری ہے (کانوا لایتناھون عن منکر فعلوہ لبئس ماکانوا یفعلون جس برائی کا یہ ارتکاب کرتے اس سے ایک دوسرے کو منع نہ کرتے۔ بہت ہی بری تھی وہ بات جو یہ کرتے تھے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابو دائود نے، انہیں محمد بن علاء اور ھناد بن السری نے، انہیں ابو معاویہ نے اعمش سے، انہوں نے اسمایعل بن رجاء سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے ابو سعید اور قیس بن مسلم سے، انہوں نے طارق بن شہاب سے، انہوں نے حضرت ابو سعید خدری سے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ (من رأی منکم منکراً فا ستطاع ان یغیرہ یدہ فلیغیرہ بیدہ فان لم یتطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ و ذاکاضعف الایمان تم میں سے کوئی جب کوئی برائی دیکھے اور اسے اپنی ہاتھ یعنی قوت سے دور کرسکتا ہو تو اسے ہاتھ سے دو کر دے ۔ اگر اس سے اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے اسے دور کر دے ۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل سے دور کر دے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ ) ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں مسدد نے ، انہیں ابو الاحوض نے انہیں ابو اسحقٰ نے ابن جریر سے، انہوں نے حضرت جریر سے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ (مامن رجل یکون فی قوم یعمل فیھم بالمعاصی یقدرون علی ان یغیروا علیہ فلافیغیروا الا اصابھم اللہ بعذاب من قبل ان یموتوا ، جو شخص بھی کسی قوم کے اندر رہ کر معاصی کا ارتکاب کرتا ہو اور وہ قوم اسے ان معاصی سے روک دینے کی قدتر رکھتے ہوں اور پھر بھی نہ روکیں تو اللہ تعالیٰ انہیں ان کی موت سے پہلے عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ ) اللہ تعالیٰ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی فرضیت کو پانی کتاب میں اور اپنے نبی ﷺ کی زبان سے محکم اور پختہ کردیا۔ بعض ناسمجھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے یا کم از کم اس کا حکم خاص حالات تک محدود ہے، اس سلسلے میں انہوں نے قول باری (یایھا الذین امنوا علیکم انفسکم لا یضرکم من ضل اذا اھتدیتم، اے ایمان لانے والو ! اپنی جانوں کی فکر کرو، جو شخص گمراہ ہوجائے اس کا تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا جبکہ تم خود ہدایت پر ہو گے ) سے استدلال کیا ہے۔ اس آیت کی وہ تاویل نہیں ہے جو ان لوگوں نے اختیار کی ہے، اگر آیت کو قرینے سے الگ رکھا جائے وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (علیکم انفسکم) یعنی اپنی جانوں کی حفاظت کرو۔ جب تم ہدایت پر ہو گے تو گمراہ ہونے والا شخص تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچا سکے گا۔ ہدایت پر ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ ہم اپنی ذات کے لحاظ سے اللہ کے حکموں کی پیروی کریں۔ اس لئے آیت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی فرضیت کے سقوط پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ تاہم اس آیت کی تاویل میں مختلف روایات منقول ہیں جن میں اگرچہ ظاہراً اختلاف ہے لیکن معنی اور مفہوم کے لحاظ سے ان میں یکسانیت رہے۔ ایک روایت ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابوعبید نے، انہیں محمد بن زید الواسطی نے اسماعیل بن ابی خالد سے، انہوں نے قیس بن ابی حازم سے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابوبکر کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ” لوگو ! میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اس آیت کا غلط مفہوم لیتے ہو میں حضور ﷺ سے سنا ہے۔ آپ نے فرمایا تھا۔ (ان الناس اذا عمل فیھم بالمعاصی ولم یغیروا اوشک ان یعمھم اللہ بعقابہ، لوگوں کے اندر جب معاصی کا ارتکاب ہونے لگے اور وہ انہیں بدل نہ ڈالیں تو قریب ہے کہ اللہ انہیں ایسی سزا دے جس کی لپیٹ میں تمام لو گ آ جائیں۔ “ حضرت ابوبکر نے یہ بتایا کہ اس آی ت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کردینے کی کوئی رخصت موجود نہیں ہے۔ نیز یہ کہ جو شخص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو ادا کرتے ہوئے ہدایت کی راہ پر ہو اسے کسی اور کی گمراہی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیما ن نے، انہیں ابو عبیدہ نے انہیں ہشیم نے ابوبشر انہوں نے سعید بن جبیر سے اس آیت کے بارے میں ان کا یہ قول نقل کیا کہ (من ضل) سے مراد اہل کتاب ہیں۔ ابوعبید نے کہا کہ ہمیں حجاج نے ابن جریج سے اور انہوں نے مجاہد سے اس آیت کے بارے میں بیان کیا کہ یہاں یہود و نصاریٰ اور ان کے سوا دوسرے گمراہ لوگ مراد ہیں۔ گویا سعید بن جبیر اور مجاہد نے یہ مسلک اختیار کیا کہ یہود و نصاریٰ سے جزیہ لے کر ان کے کفر پر انہیں بقررار رکھا گیا ہے اس لیء ان کا کفر ہمیں کوئی نقصا ن نہیں پہنچ سکتا کیونکہ خود ہم نے ان سے یہ عہد کیا ہے کہ ہم ان کے معتقدات سے تعرض نہیں کریں گے۔ اب ہمارے لئے انہیں اسلام لانے پر مجبور کرنا درست نہیں ہوگا۔ اس لئے ہم اگر ان سے پہلو تہی کریں تو اس سے ہمیں کوئی نقصان نہیں ہوگا ۔ لیکن معاصی، ظلم و جور اور فسق و فجور کے لئے انہیں کھلی چھٹی دے دینا تو اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ بلکہ تمام مسلمانوں پر انہیں دور کرنا اور مٹانا اور ان کا ارتکاب کرنے والوں پر اس طریقے سے نکیر کرنا فرض ہے جس کا ذکر حضور ﷺ نے حضرت ابو سعید خدری کی روایت میں کیا ہے ہم اس حدیث کا ذکر پہلے کر آئے ہیں۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابو دائود نے، انہیں ابوالربیع سلیمان بن دائود العتکی نے انہیں ابن المبارک نے عتبہ بن حکیم سے، انہیں عمرو بن جاریہ اللخمی نے، انہیں ابوامیہ شعبانی نے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوثعلبہ الخثنی سے اس آی تکے متعلق ان کی رائے پوچھی، انہوں نے جواب میں فرمایا۔ ” تم نے یہ بات ایک ایسے شخص سے پوچھی ہے جسے اس آیت کے مفہوم و معنی کی پوری خبر ہے۔ یعنی میں اس کے مفہوم سے بخوبی وقاف ہوں، میں نے حضور ﷺ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا تھا تو آپ نے فرمایا تھا۔ (بل ائتمروا بالمعروف و تنا ھوا عن المنکر حتی اذا لایت شحا مطاعاً و ھوی متیعاد دینا و ثرۃ و اعجاب کل ذی رأی برأیہ فعلیک نفسک ودع عنک العوام وان من ورائکم ایام الصبر، الصبرفیہ کقبض علی الجمرلہ مل فیھا مثل اجر خمسین رجلا یعملون مثل عملہ۔ بلکہ تم آپ س میں ایک دوسرے کو نیکی کا حکم دیتے رہو اور ایک دوسرے کو برائیوں کا حکم دیتے رہو یہاں تک کہ جب دیکھو کہ بخل کی ہمنوائی کی جاتی ہے ، خواہشات کی پیروی ہوتی ہے ، دنیا کو ترجیح دی جاتی ہے، نیز ہر شخص کو پانی رائے اور اپنا رویہ پسند ہے تو پھر اس وقت اپنی جان کی فکر کرو اور اپنے آپ کو سنبھالا دو ، عوام کی فکر چھوڑ دو ۔ اس لئے کہ تم لوگوں پر صبر والے دن آنے والے ہیں۔ لیکن ان ایام میں صرب کرنا اور اپنے آپ کو قابو میں رکھنا اتنا ہی مشکل ہوگا جتنا انگاروں کو ہاتھ سے پکڑ لینا مشکل ہے۔ ان دنوں میں شریعت پر عامل انسان کو پچاس آدمیوں کے برابر اجر ملے گا جو اس کی طرح عمل کرتے ہوں گے۔ “ حضرت ابو ثعلبہ نے مزید فرمایا :” ایک دوسرے صاحب نے مزید سوال کیا کہ اللہ کے رسول ! جن پچاس آدمیوں کا اجر اس شخص کو ملے گا وہ ان میں سے ہوں گے ؟ “ آپ نے فرمایا :” نہیں تم میں سے پچاس آدمیوں کے اجر کے برابر اسے اجر ملے گا۔ “ اس حدیث میں امر بالمعروف کی فرضیت کے سقوط پر کوئی دلالت نہیں ہے جبکہ حالات ایسے ہوں جن کا حدیث میں ذکر ہے اس لئے کہ حضور ﷺ کا ان حالات کی نشاندہی کرنا اس پر دلالت کرتا ہے کہ معاشرہ میں فساد پھیل جانے اور عوام الناس پر اس کے غلبہ کی وجہ سے ہاتھ اور زبان سے برائی کو دور کرنا مشکل ہوجائے گا۔ ایسے حالات میں نہی عن المنکر کی فرضیت اس صورت میں یہ ہوگی کہ دل سے اسے برا سمجھے جس طرح آپ کا ارشاد ہے۔ (فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ) جب حالات میں بگاڑ اس درجے تک پہنچ جائے جس کی طرف حضور ﷺ نے اشارہ فرمایا ہے تو پھر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی فرضیت کا تعلق دل کے ساتھ ہوگا۔ یعنی ایک برائی کو دل سے برا سمجھا جائے جب جان کا خطرہ ہو اور اس برائی کو بدل ڈالنا مشکل ہو۔ ایمان کو پوشیدہ رکھنا اور اس کا اظہار نہ کرنا ایسی صورت میں جائز ہوتا ہے جب جان کا خطرہ ہو۔ بشرطیکہ متعلقہ شخص کا دل ایمان پر پوری طرح مطمئن ہ۔ قول باری ہے (الا من اکرہ وقلبہ مطئمن بالایمان ) مگر وہشخص جسے کفر پر مجبور کیا جائے جبکہ اس کا دل ایمان پر پوری طر ح مطمئن ہو) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا یہ مرتبہ اور مقام ہے ۔ اس سلسلے میں ایک اور پہلو سے بھی روایت موجود ہے۔ ہمیں جعفر بن محمد نے روایت کی ، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے، انہیں ابو مسہر نے عباد الخواص سے ، انہیں یحییٰ بن ابی عمرو الشیبانی نے وہ کہتے ہیں :” حضرت ابوالدرداء اور حضرت کعب جابیہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک شخص ان کے پاس آ کر کہنے لگا کہ میں نے آج ایک ایسی بری بات دیکھی ہے کہ جو شخص اسے دیکھ لے اس پر اسے مٹانا فرض ہوجاتا ہے۔ یہ سن کر ساتھ بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (یا یھا الذین امنوا علیکم انفسکم لا یضرکم من ضل اذا اھتدیتم) حضرت کعب یہ سن کر کہنے لگے :” اس شخص نے کوئی پتے کی بات نہیں کی۔ “ پھر سائل سے مخاطب ہو کر کہا :” اے اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کا دفاع کرتے رہو جس طرح تم اپنے خاندان کا دفاع کرتے ہو، یہاں تک کہ اس آی تپر عمل کرنے کا وقت آ جائے۔ “ یہ سن کر حضرت ابوالدرداء کے کان کھڑے ہوگئے آپ نے پوچھا ۔” وہ وقت کب آئے گا ؟ “ حضرت کعب کہنے لگے :” جب دمشق کا کنینسہ مسمار کردیا جائے گا اور اس کی جگہ مسجد تعمیر کردی جائے گی تو پھر اس آیت پر عمل کا وقت آ جائے گا۔ “ حضرت کعب نے مزید کہا :” جب تم ایسی عورتیں دیکھو جن کے بدن پر کپڑے ہوں گے لیکن اس کے باوجود وہ تن برہنہ ہوں گی تو پھر اس آیت پر عمل کا وقت آ جائے گا۔ “ راوی کہتے ہیں کہ حضرت کعب نے ایک تیسری بات کا بھی ذکر کیا تھا جسے میں یاد نہ رکھ سکا۔ ابو مسہر کہتے ہیں کہ خلیفہ ولید بن عبدالملک کے عہد میں شام کا گرجا مسمار کردیا گیا۔ ولید نے گرجا کی جگہ مسجد میں شامل کردی اور اس کے ذریعے مسجد کشاد ہ ہوگئی تھی ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ …بھی پہلے حدیث کے مفہوم پر بایں معنی محمول ہے کہ جب ہاتھ اور زبان سے برائی کو دور کرنے میں کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں برائی کو دل سے برا سمجھا جائے۔ حجاج ایک ظالم حکمران تھا ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ میں اپنی جان کی قسم کھا کہہ سکتا ہوں کہ عبدالملک ، حجاج، ولید اور ان جیسے دوسرے حکمرانوں کے عہد میں ہاتھ اور زبان سے ان حکمرانوں کو ٹوکنے کی فرضیت ساقط ہوگئی تھی اس لئے کہ ان کے ظلم و ستم ک یبنا پر جا ن کے خوف سے یہ کام انتہائی مشکل ہوگیا تھا۔ جب حجاج کی وفات ہوئی تو بیان کیا جات ا ہے کہ حسن بصری نے یہ دعا کی :” اے اللہ ! تو نے اسے اٹھا لیا ہے تو اب اس کے ظلم و ستم کے طریق کار کو بھی ہم سے دور کر دے اس لئے کہ جب یہ ہم پر حاکم بن کر آیا تھا تو اس کی حالت یہ تھی کہ آنکھیں چندھائی ہوئی تھیں، آنکھوں میں بینائی برائے نام تھی جب ہاتھ آگے کرتا تو انگلیوں کے پورے انتہائی چھوٹے نظر آتے تھے، بخدا اللہ کے راستے میں کبھی کسی سواری کی لگام کو ان پوروں کا پسینہ نہیں لگا سر کے لمبے لمبے بالوں میں کنگھی کرتا تھا اور چلتے وقت لڑکھڑاتا تھا، منبر پر بیٹھ کر اول فول بکتا تھا حتی کہ نماز کا وقت نکل جاتا تھا۔ نہ اللہ سے ڈرتا تھا نہ مخلوق کی شرم کرتا تھا۔ اس کے اوپر اللہ کی ذات ہوتی اور اس کے نیچے ایک لاکھ یا اس سے زائد سپاہ ہوتی ، اس سے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ” اے شخص ! نماز کا وقت جا رہا ہے۔ “ حسن بصری نے مزید کہا :” افسوس ! اسے ٹوکنے کی راہ میں تلوار اور کوڑا دونوں حائل ہوگئے تھے۔ “ عبدالملک بن عمیر کہتے ہیں :” حجاج جمعہ کے دن خطبہ دینے کے لئے منبر پر بیٹھ گیا اس وقت عین دوپہر تھی، اپنے خطاب میں کبھی اہل شام کی تعریفیں کرنے لگتا اور کبھی اہل عراق کی مذمت شروع کردیتا۔ اسی طرح وہ خطبہ دینے میں مصروف رہا حتیٰ کہ ہمیں مسجد کی بلند ی پر سورج کی تھوڑی بہت سرخی نظر آنے لگی۔ اس نے مئوذن کو اذان دینے کا حکم دیا اور جمعہ کی نماز پڑھا دی، پھر دوبارہ اذان کہلوائی اور عصر کی نماز پڑھنا دی ۔ پھر تیسری مرتبہ اذان کہلوا کر مغرب کی نماز پڑھادی۔ اس دن اس نے تینوں نمازیں اکٹھی پڑھا دیں۔ سلف حضرات ایسے خراب حالات میں زبان یا ہاتھ سے اسے ٹوکنے پر صحیح معنوں میں معذرت کے قابل تھے۔ فقہاء تابعین اور انکے ساتھ اس زمانے کے قراء نے ابن الاشوات کی سرکردگی میں حجاج کے خلاف اس کے کافرانہ رویے پر عمل بغاوت بلند کردیا تھا جس کے نتیجے میں بڑے بڑے خونریز معرکے ہوئے ان حضرات میں سے بیشمار لگو شید ہوئے۔ حجاج نے شا میوں کی مدد سے ان سب کو پیش کر رک دیا تھا حتیٰ کہ ایک شخص بھی ایسا نہیں بچا جو اس کی ظالمانہ حرکتوں کے خلاف آواز اٹھا سکتا ہے ، بس دل سے ہی سب لوگ اسے برا سمجھتے رہے۔ مذکورہ آیہ کی مزید تشریحات اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں حضرت ابن مسعود سے بھی روایت منقول ہے ہمیں جعفر بن محمد نے روایت سنائی ، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابوعبید نے ۔ انہیں حجاج نے ابو جعفر رازی سے انہوں نے ربیع بن انس سے ۔ انہوں نے ابو العالیہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے کہ آپ کے سامنے اس آیت کا تذکرہ ہوا۔ آپ نے فرماا :” ابھی اس کی تاویل کا وقت نہیں آیا۔ قرآن کا نزول تو ہوگیا اس کی بعض آیتوں کی تاویل اس وقت گذر گئی جبکہ یہ آیتیں ابھی نازل بھی نہیں ہوئی تھیں حضرت ابن مسعود کا اشارہ ا ن آیات کی طرف تھا جن کا تعلق گزشت قوموں سے تھا۔ ) بعض آیتیں ایسی تھیں جن کی تاویل یعنی مصداق کا ظہور حضور ﷺ کے زمانے میں بھی ہوگیا تھا، بعض آیات کی تاویل کی ایک جھلک حضور ﷺ کی وفات کے بعد ظہور میں آئی ہعے۔ بعض کو تاویل آج کے بعد وقوع پذیر و گی اور بعض کی قیامت کے وقت ہوگی جبکہ بعض کی ” تاویل حساب کے دن جنت اور دوزخ کی شکل میں اظہر و گی۔ اس لئے جب تک تمہارے قلوب متحد ہو اور تمہاری خواہشات ایک جیسی ہیں۔ تمہیں گروہ بندی نہیں ہوئی اور تم نے ایک دوسرے کو اپنی طاقت کا مزدہ نہیں چکھایا اس وقت تک ایک دوسرے کو نیکی کرنے کا حکم دیتے رو اور برائی سے روکتے ہو۔ پھر جب تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کی مخالفت گھر کر جائے۔ تمہارے خیالات بٹ جائیں تم گروہوں میں تقسیم ہو جائو اور ایک دوسرے کو اپنی طاقت و قوت کا مزہ چکھانے لگو اور ہر شخص کو اپنی فکر دامن گیر ہوجائے تو پھر سمجھ لینا کہ اس آیت کی تاویل یعنی اس پر عمل کا وقت آگیا۔ “ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود کے اس قول کا کہ ” ابھی اس کی تاویل نہیں آئی۔ “ مفہوم یہ ہے کہ ا ن کے زمانے میں حکمرانوں کی نیکی، عوام الناس کی دینداری، نیکوں کی بدوں کے مقابلے میں اکثریت کی بنا پر لوگوں کے لئے بدی کو بدل ڈالنا اور مٹا دینا ممکن تھا اس لئے ہاتھ اور زبان کے ساتھ ام بالمعروف اور نہی عن المنکر ترک کرنے پر کسی کی قابل قبول نہ تھی۔ پھر جب ایسا زمانہ آ جائے کہ لوگوں کو اپنے بچائو کی فکر دامن گیر ہوجائے۔ لوگوں میں نیکی کی باتوں کو قوبل کرنے کا رجحان ختم ہوجائے، معاشرے میں فاسق و فاجر قسم کے لوگوں کا غلبہ ہوجائے تو ان حالات میں سکوت اختیار کرنے کی گنجائش ہوگی البتہ بدی کو دل سے برا سمجھنا ضروری ہوگا۔ سکوت اختیار کرنے کی گنجائش اس وقت بھی ہوتی ہے جب منکر کے مرتکب کو اس بات کا علم ہو کہ وہ ممنوع فعل کا ارتکاب کر رہا ہے اسے ہاتھ سے روکنا ممکن نہ ہو اور غالب گمان یہ ہو کہ اگر اسے قتل بھی کردیا جائے تو بھی وہ اس برائی سے باز نہ آئے۔ ایسے موقع پر سکوت کی گنجائش ہوتی ہے۔ آیت زیر بحث کی تاویل میں حضرت ابن مسعود سے اسی قسم کی روایت منقول ہے۔ ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے ، انہیں ہشیم نے انہیں یونس نے حسن سے انہوں نے حضرت ابن مسعود سے آیت (علیکم انفسکم) کی تفسیر میں روایت بیان کی کہ ” لوگوں سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں اس وقت تک باتیں کرتے رہو جب تک تمہاری باتیں تسلیم کی جاتی رہیں۔ لیکن جب تمہاری باتیں رد کردی جائیں تو بس اپنی فکر رکھو۔ “ حضرت ابن مسعود نے یہ بتایا کہ جب لوگ باتیں سننے کے لئے تیار نہ ہوں اور انہیں قبول کرنے سے انکار کردیں تو پھر سکوت اختیار کرنے کی گنجائش ہے، یعنی سکوت کا راستہ اس وقت اختیار کرنا چاہیے جب منکر کو ہاتھ سے بدل ڈالنا ممکن نہ ہو۔ اس لئے کہ جب منکر کو مٹانا اور بدل ڈالنا ممکن ہو تو حضرت ابن مسعود کے درج بالا قول سے یہ گمان کرنا درست نہیں ہوگا کہ اس وقت نہی عن المنکر سے پہلو تہی مباح اور جائز ہوجائے گی۔ ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیا ن کی۔ انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے انہیں اسماعیل بن جعفر نے عمرو بن ابی عمرو سے، انہوں نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن الاشہلی نے حضرت حذیفہ بن الیمان سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا۔ (والذی نفسنی بیدہ لتامرن بالمعروف ولتنھون عن المنکر او لیعمکم اللہ بعقاب من عندہ ثم لتدعتہ فلا یستجب لکم، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم نیکی کا حکم دیتے رہو اور بدی سے روکتے رہو ورنہ اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے ایسا عذاب بھیج دے گا جس کی لپیٹ میں تم سب آ جائو گے پھر تم دعائیں مانگو گے لیکن تمہاری قبول نہیں کرے گا۔ ) ابو عبید کہتے ہیں کہ ہمیں حجاج نے حمزہ زیات سے روایت سنائی، انہوں نے ابوسفیان سے اور انہوں نے ابوالنضرہ سے کہ ایک شخص حضرت عمر کے پاس آ کر کہنے لگا کہ میں نیکیوں کے تمام اعمال کرتا ہوں ۔ لیکن دو نیکیاں مجھ سے نہیں ہوتیں ، میں امر بالمعروف نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کو برائی سے روکتا ہوں۔ یہ سن کر حضرت عمر نے فرمایا :” تم نے اسلام کے تیروں میں سے دو تیر بیکار کردیئے اب اللہ چاہے تو تمہیں بخش بھی سکتا ہے اور چاہے تو تمہیں عذاب بھی دے سکتا ہے۔ “ ابوعبید کہتے ہیں کہ ہمیں محمد بن یزید نے جویبر سے روایت سنائی اور انہوں نے ضحاک سے انہوں نے فرمایا :” امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اللہ کے مقرر کردہ فرائض میں سے دو فرائض ہیں۔ اللہ نے ہم پر انہیں لکھ دیا ہے۔ “ ابوعبید کہتے ہیں کہ مجھے راویوں نے سفیان بن عینیہ سے بتایا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن شبرمہ سے حضرت ابن عباس کی یہ روایت بیان کی :” جو شخص دو آدمیوں کے مقابلہ کی تاب نہ لا کر بھاگ کھڑا ہو وہ حقیقت میں بھگوڑا شمار ہوتا ہے البتہ جو تین کے مقابلہ سے راہ فرار اختیار کرت ا ہے وہ بھگوڑا نہیں ہوتا۔ میں تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بھی اسی طرح خیال کرتا ہوں، کیا کوئی شخص اتنا بےبس اور عاجز ہوتا ہے کہ وہ آدمیوں کو بھی نیکی کا حکم نہ دے سکے اور برائی سے نہ روک سکے۔ “ حضرت ابن عباس کا اشارہ اس آیت کی طرف تھا (فان یکن منکم مائہ صابرہ یغلبو مائتین و ان یکن منکم الف یغلبوا الفین باذن اللہ واللہ مع الصابرین، اگر تم میں سے سو ثابت قدم ہوں تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے۔ اگر تم میں سے ہزار ہوں گے تو وہ اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب آ جائیں گے، اللہ تعالیٰ ثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ ہے۔ ) ہدی کو مٹانے کے لزوم میں اگر اسی چیز کو بنیاد تسلیم کرلیا جائے تو ایسا کرنا جائز ہوگا۔ قول باری (علیکم انفسکم) کی تفسیم میں مکحول کا قول ہے کہ ” جب نصیحت کرنے والا ڈر جائے اور نصیحت سننے والا انکار کر دے تو اس وقت بس تم اپنی فکر رکھو، اس وقت اگر تم ہدایت پر ہو گے تو کسی شخص کی گمراہی سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ “ واللہ الموفق۔
Top