Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 103
مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِیْرَةٍ وَّ لَا سَآئِبَةٍ وَّ لَا وَصِیْلَةٍ وَّ لَا حَامٍ١ۙ وَّ لٰكِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ١ؕ وَ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ
مَا جَعَلَ
: نہیں بنایا
اللّٰهُ
: اللہ
مِنْۢ بَحِيْرَةٍ
: بحیرہ
وَّلَا
: اور نہ
سَآئِبَةٍ
: سائبہ
وَّلَا
: اور نہ
وَصِيْلَةٍ
: وصیلہ
وَّلَا حَامٍ
: اور نہ حام
وَّلٰكِنَّ
: اور لیکن
الَّذِيْنَ كَفَرُوْا
: جن لوگوں نے کفر کیا
يَفْتَرُوْنَ
: وہ بہتان باندھتے ہیں
عَلَي اللّٰهِ
: اللہ پر
الْكَذِبَ
: جھوٹے
وَاَكْثَرُهُمْ
: اور ان کے اکثر
لَا يَعْقِلُوْنَ
: نہیں رکھتے عقل
خدا نے نہ تو بحیرہ کچھ چیز بنایا اور نہ سائبہ اور نہ وصیلہ اور نہ حام بلکہ کافر خدا پر جھوٹ افتراء کرتے ہیں۔ اور یہ اکثر عقل نہیں رکھتے۔
قول باری ہے (ماجعل اللہ من بحیرۃ ولا سائبۃ ولا وصیلۃ ولا حام، اللہ تعالیٰ نے نہ کوئی بحیرہ مقرر کیا ہے نہ سائبہ نہ وصیلہ اور نہ حام) زہری کا قول ہے کہ بحیرہ اس اونٹنی کو کہتے تھے جس کا دودھ خدائوں کے نام کردیا جاتا تھا۔ سائبہ اس اونٹنی یا اونٹ کو کہتے تھے جسے خدائوں کے نام پر آزاد چھوڑ دیاجاتا تھا۔ وصیلہ اس اونٹنی کا نام تھا جو پہلی دفعہ مادہ بچہ جنتی پھر دوسری دوسری بار بھی مادہ بچہ جنتی، ایسی اونٹنی کا نام وصیلہ رکھتے اور کہتے کہ اس نے پے در پے دو دفعہ مادہ بچہ جنا ہے جن کے درمیان کوئی نر بچہ نہیں جنا گیا پھ روہ اسے اپنے خدائوں کے نام ذبح کردیتے۔ حامی اس نر اونٹ کو کہتے تھے جو ایک خاص عدد تک مادہ سے جفتی ہوتا جب وہ اتنی تعداد پوری کرلیتا تو کہا جاتا کہ اس نے اپنی پشت کو اب محفوظ کر یا ہے پھر اسے چھوڑ دیا جاتا اور اسے حامی کے نام سے پکارا جاتا۔ اہل لغت کا قول ہے کہ بحیرہ اس اونٹنی کو کہتے ہیں جس کے کان پھاڑ دیئے جاتے۔ محاورہ ہے ” بحرت اذن الناقۃ، الحرھا یحرنا (میں نے اونٹنی کے کان پھاڑ دیئے) ایسی اونٹنی مبحور ہ ہوتی۔ بحیرہ اس وقت کہلاتی جب اس کے کان ذرا کشادہ کر کے پھاڑ دیئے جاتے۔ اسی سے بحر کا اسم نکلا ہے۔ اسے اس کی وسعت اور کشادگی کی بنا پر بحر یعنی سمندر کہتے ہیں۔ اہل لغت کا قول ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ بحیرہ کی تحریم و تعظیم کے قائل تھے۔ بحیرہ پانی دفعہ بچے جنتی اور آخری دفعہ پیدا ہونے والا بچہ نر ہوتا تو اس اونٹنی کے کان پھاڑ کر اسے چھوڑ دیتے ۔ پھر اس پر سواری کرنے اور اسے ذبح کرنے سے باز رہتے۔ اسے کسی چراگاہ میں چرنے سے اور کسی گھاٹ میں پانی پینے سے روکا نہیں جاتا۔ اگر کوئی لاچار و درماندہ انسان بھی اسے دیکھ لیتا تو اس پر سواری نہ کرتا۔ اہل لغت کے قول کے مطابق سائبہ اس اونٹنی کا نام ہے جسے آزاد چھوڑ دیا جاتا۔ زمانہ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ جب کوئی شخص سفر سے واپس یا بیماری سے صحت یابی کی نذر مان لیتا یا اس قسم کی کوئی اور نذر اپنے اوپر لازم کرلیتا تو کہہ دیتا کہ میری اونٹنی سائبہ ہے پھر یہ اونٹنی بحیرہ کی طرح ہوجاتی یہ آزادانہ طور پر پھرتی رہتی، اس کی سواری، اس کا دودھ وغیرہ ممنوع ہوتا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص غلام آزاد کرتے وقت کہہ دیتا کہ یہ سائبہ ہے تو پھر آقا اور آزاد کردہ غلام کے درمیان نہ ولاء ہوتی نہ ایک دوسرے کی وراثت حاصل کرسکتے اور نہ ہی ایک دوسرے کے جرم کا تاوان بھرتے۔ وصیلہ کے متعلق بعض اہل لغت کا قول ہے کہ یہ بکری یا بھیڑ کے مادہ بچے کا نام ہے۔ جو نر بچے کے ساتھ پیدا ہوتی اس وقت لوگ کہتے کہ یہ مادہ اپنے نر بھائی کے ساتھ آئی ہے پھر وہ اس نر کو ذبح نہ کرتے۔ ایک قول یہ ہے کہ بکری جب مادہ بچہ دیتی تو اسے رکھ لیتے اور جب نر بچہ دیتی تو اسے خدائوں کے نام پر ذبح کردیتے۔ اہل لغت کا قول ہے کہ حامی اس اونٹ کو کہتے ہیں جس کے نطفے سے دس بچے پیدا ہوچکے ہوں۔ اس وقت لوگ یہ کہتے کہ اس اونٹ نے اب اپنی پشت محفوظ کرلی ہے ۔ پھر اس کی سواری نہ کی جاتی نہ ہی اسے گھاٹ میں پانی پینے اور کسی چراگاہ میں چرنے سے روکا جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے بحیرہ اور سائبہ وغیرہ کے متعلق اہل جاہلیت کے من گھڑت عقائد کی خبر دی ہے۔ یہ آیت کسی غلام کو سائبہ کے طور پر آزاد کردینے کے بطلان پر دلالت کرتی ہے۔ اس سے ان لوگوں کا قول بھی باطل ہوجاتا ہے کہ جو یہ کہتے ہیں کہ جس شخص نے اپنا غلام بطور سائبہ آزاد کردیا تو اسے اس کی دلاء حاصل نہیں ہوگی بلکہ اس کی ولاء مسلمانوں کو حاصل ہوگی۔ یہ بات اس لئے غلط ہے کہ اہل جاہلیت یہی عقیدہ رکھتے تھے جسے اللہ تعالیٰ نے باطل قرار دیا اور ارشاد ہوا (ولا سائبۃ) پھر حضور ﷺ کا ارشاد (الولاء ملن اعتق ولاء ولاء اسے حاصل ہوگی جس نے آزادی دی ہو) اس کی مزید تاکید کرتا ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا بیان ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی فرصیت کی اپنی کتاب میں کئی مواقع پر تاکید فرمائی ہے۔ حضور ﷺ نے روایات متواترہ میں اسے بیان فرمایا ہے۔ سلف اور فقہاء امصار کا اس کے وجوب پر اجماع ہے۔ اگرچہ بعض دفعہ ایسے حالات پیش آ جائیں جن میں جان بچانے کی خاطر خاموشی کی گنجائش بھی نکل اتٓی ہے۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے لقمان (علیہ السلام) کی بات نقل کرتے ہوئے فرمایا (یا بنی اقم الصلوۃ و امر بالمعروف وانہ عن المنکر واصبر علی ما اصبک ، اے میرے بیٹے ! نماز قائم کرو، نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو اور جو تکلیف تمہیں پہنچے اس پر صبر کرو۔ ) یعنی … واللہ اعلم … امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں جو تکالیف تمہیں پیش انہیں برداشت کرلو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کی یہ بات ہم سے اس لئے نقل کی ہے کہ ہم بھی اس کی پر یوی کریں اور اس طریق کار کو اپنا لیں۔ اللہ تعالیٰ نے سلف صالحین یعنی صحابہ کرام کی مدح سرائی کرتے ہوئے فرمایا۔ (التائبون العابدون، یہ توبہ کرنے والے ہیں، عبادت گذار ہیں) تاقول باری (الا مرون بالمعروف والناھون عن المنکروا الحافظون لحدود اللہ، نیکی کا حکم دینے والے برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں) نیز قول باری ہے (کانوا لایتناھون عن منکر فعلوہ لبئس ماکانوا یفعلون جس برائی کا یہ ارتکاب کرتے اس سے ایک دوسرے کو منع نہ کرتے۔ بہت ہی بری تھی وہ بات جو یہ کرتے تھے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابو دائود نے، انہیں محمد بن علاء اور ھناد بن السری نے، انہیں ابو معاویہ نے اعمش سے، انہوں نے اسمایعل بن رجاء سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے ابو سعید اور قیس بن مسلم سے، انہوں نے طارق بن شہاب سے، انہوں نے حضرت ابو سعید خدری سے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ (من رأی منکم منکراً فا ستطاع ان یغیرہ یدہ فلیغیرہ بیدہ فان لم یتطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ و ذاکاضعف الایمان تم میں سے کوئی جب کوئی برائی دیکھے اور اسے اپنی ہاتھ یعنی قوت سے دور کرسکتا ہو تو اسے ہاتھ سے دو کر دے ۔ اگر اس سے اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے اسے دور کر دے ۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل سے دور کر دے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ ) ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں مسدد نے ، انہیں ابو الاحوض نے انہیں ابو اسحقٰ نے ابن جریر سے، انہوں نے حضرت جریر سے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ (مامن رجل یکون فی قوم یعمل فیھم بالمعاصی یقدرون علی ان یغیروا علیہ فلافیغیروا الا اصابھم اللہ بعذاب من قبل ان یموتوا ، جو شخص بھی کسی قوم کے اندر رہ کر معاصی کا ارتکاب کرتا ہو اور وہ قوم اسے ان معاصی سے روک دینے کی قدتر رکھتے ہوں اور پھر بھی نہ روکیں تو اللہ تعالیٰ انہیں ان کی موت سے پہلے عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ ) اللہ تعالیٰ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی فرضیت کو پانی کتاب میں اور اپنے نبی ﷺ کی زبان سے محکم اور پختہ کردیا۔ بعض ناسمجھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے یا کم از کم اس کا حکم خاص حالات تک محدود ہے، اس سلسلے میں انہوں نے قول باری (یایھا الذین امنوا علیکم انفسکم لا یضرکم من ضل اذا اھتدیتم، اے ایمان لانے والو ! اپنی جانوں کی فکر کرو، جو شخص گمراہ ہوجائے اس کا تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا جبکہ تم خود ہدایت پر ہو گے ) سے استدلال کیا ہے۔ اس آیت کی وہ تاویل نہیں ہے جو ان لوگوں نے اختیار کی ہے، اگر آیت کو قرینے سے الگ رکھا جائے وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (علیکم انفسکم) یعنی اپنی جانوں کی حفاظت کرو۔ جب تم ہدایت پر ہو گے تو گمراہ ہونے والا شخص تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچا سکے گا۔ ہدایت پر ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ ہم اپنی ذات کے لحاظ سے اللہ کے حکموں کی پیروی کریں۔ اس لئے آیت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی فرضیت کے سقوط پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ تاہم اس آیت کی تاویل میں مختلف روایات منقول ہیں جن میں اگرچہ ظاہراً اختلاف ہے لیکن معنی اور مفہوم کے لحاظ سے ان میں یکسانیت رہے۔ ایک روایت ہمیں جعفر بن محمد الواسطی نے بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابوعبید نے، انہیں محمد بن زید الواسطی نے اسماعیل بن ابی خالد سے، انہوں نے قیس بن ابی حازم سے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابوبکر کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ” لوگو ! میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اس آیت کا غلط مفہوم لیتے ہو میں حضور ﷺ سے سنا ہے۔ آپ نے فرمایا تھا۔ (ان الناس اذا عمل فیھم بالمعاصی ولم یغیروا اوشک ان یعمھم اللہ بعقابہ، لوگوں کے اندر جب معاصی کا ارتکاب ہونے لگے اور وہ انہیں بدل نہ ڈالیں تو قریب ہے کہ اللہ انہیں ایسی سزا دے جس کی لپیٹ میں تمام لو گ آ جائیں۔ “ حضرت ابوبکر نے یہ بتایا کہ اس آی ت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کردینے کی کوئی رخصت موجود نہیں ہے۔ نیز یہ کہ جو شخص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو ادا کرتے ہوئے ہدایت کی راہ پر ہو اسے کسی اور کی گمراہی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیما ن نے، انہیں ابو عبیدہ نے انہیں ہشیم نے ابوبشر انہوں نے سعید بن جبیر سے اس آیت کے بارے میں ان کا یہ قول نقل کیا کہ (من ضل) سے مراد اہل کتاب ہیں۔ ابوعبید نے کہا کہ ہمیں حجاج نے ابن جریج سے اور انہوں نے مجاہد سے اس آیت کے بارے میں بیان کیا کہ یہاں یہود و نصاریٰ اور ان کے سوا دوسرے گمراہ لوگ مراد ہیں۔ گویا سعید بن جبیر اور مجاہد نے یہ مسلک اختیار کیا کہ یہود و نصاریٰ سے جزیہ لے کر ان کے کفر پر انہیں بقررار رکھا گیا ہے اس لیء ان کا کفر ہمیں کوئی نقصا ن نہیں پہنچ سکتا کیونکہ خود ہم نے ان سے یہ عہد کیا ہے کہ ہم ان کے معتقدات سے تعرض نہیں کریں گے۔ اب ہمارے لئے انہیں اسلام لانے پر مجبور کرنا درست نہیں ہوگا۔ اس لئے ہم اگر ان سے پہلو تہی کریں تو اس سے ہمیں کوئی نقصان نہیں ہوگا ۔ لیکن معاصی، ظلم و جور اور فسق و فجور کے لئے انہیں کھلی چھٹی دے دینا تو اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ بلکہ تمام مسلمانوں پر انہیں دور کرنا اور مٹانا اور ان کا ارتکاب کرنے والوں پر اس طریقے سے نکیر کرنا فرض ہے جس کا ذکر حضور ﷺ نے حضرت ابو سعید خدری کی روایت میں کیا ہے ہم اس حدیث کا ذکر پہلے کر آئے ہیں۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابو دائود نے، انہیں ابوالربیع سلیمان بن دائود العتکی نے انہیں ابن المبارک نے عتبہ بن حکیم سے، انہیں عمرو بن جاریہ اللخمی نے، انہیں ابوامیہ شعبانی نے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوثعلبہ الخثنی سے اس آی تکے متعلق ان کی رائے پوچھی، انہوں نے جواب میں فرمایا۔ ” تم نے یہ بات ایک ایسے شخص سے پوچھی ہے جسے اس آیت کے مفہوم و معنی کی پوری خبر ہے۔ یعنی میں اس کے مفہوم سے بخوبی وقاف ہوں، میں نے حضور ﷺ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا تھا تو آپ نے فرمایا تھا۔ (بل ائتمروا بالمعروف و تنا ھوا عن المنکر حتی اذا لایت شحا مطاعاً و ھوی متیعاد دینا و ثرۃ و اعجاب کل ذی رأی برأیہ فعلیک نفسک ودع عنک العوام وان من ورائکم ایام الصبر، الصبرفیہ کقبض علی الجمرلہ مل فیھا مثل اجر خمسین رجلا یعملون مثل عملہ۔ بلکہ تم آپ س میں ایک دوسرے کو نیکی کا حکم دیتے رہو اور ایک دوسرے کو برائیوں کا حکم دیتے رہو یہاں تک کہ جب دیکھو کہ بخل کی ہمنوائی کی جاتی ہے ، خواہشات کی پیروی ہوتی ہے ، دنیا کو ترجیح دی جاتی ہے، نیز ہر شخص کو پانی رائے اور اپنا رویہ پسند ہے تو پھر اس وقت اپنی جان کی فکر کرو اور اپنے آپ کو سنبھالا دو ، عوام کی فکر چھوڑ دو ۔ اس لئے کہ تم لوگوں پر صبر والے دن آنے والے ہیں۔ لیکن ان ایام میں صرب کرنا اور اپنے آپ کو قابو میں رکھنا اتنا ہی مشکل ہوگا جتنا انگاروں کو ہاتھ سے پکڑ لینا مشکل ہے۔ ان دنوں میں شریعت پر عامل انسان کو پچاس آدمیوں کے برابر اجر ملے گا جو اس کی طرح عمل کرتے ہوں گے۔ “ حضرت ابو ثعلبہ نے مزید فرمایا :” ایک دوسرے صاحب نے مزید سوال کیا کہ اللہ کے رسول ! جن پچاس آدمیوں کا اجر اس شخص کو ملے گا وہ ان میں سے ہوں گے ؟ “ آپ نے فرمایا :” نہیں تم میں سے پچاس آدمیوں کے اجر کے برابر اسے اجر ملے گا۔ “ اس حدیث میں امر بالمعروف کی فرضیت کے سقوط پر کوئی دلالت نہیں ہے جبکہ حالات ایسے ہوں جن کا حدیث میں ذکر ہے اس لئے کہ حضور ﷺ کا ان حالات کی نشاندہی کرنا اس پر دلالت کرتا ہے کہ معاشرہ میں فساد پھیل جانے اور عوام الناس پر اس کے غلبہ کی وجہ سے ہاتھ اور زبان سے برائی کو دور کرنا مشکل ہوجائے گا۔ ایسے حالات میں نہی عن المنکر کی فرضیت اس صورت میں یہ ہوگی کہ دل سے اسے برا سمجھے جس طرح آپ کا ارشاد ہے۔ (فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ) جب حالات میں بگاڑ اس درجے تک پہنچ جائے جس کی طرف حضور ﷺ نے اشارہ فرمایا ہے تو پھر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی فرضیت کا تعلق دل کے ساتھ ہوگا۔ یعنی ایک برائی کو دل سے برا سمجھا جائے جب جان کا خطرہ ہو اور اس برائی کو بدل ڈالنا مشکل ہو۔ ایمان کو پوشیدہ رکھنا اور اس کا اظہار نہ کرنا ایسی صورت میں جائز ہوتا ہے جب جان کا خطرہ ہو۔ بشرطیکہ متعلقہ شخص کا دل ایمان پر پوری طرح مطمئن ہ۔ قول باری ہے (الا من اکرہ وقلبہ مطئمن بالایمان ) مگر وہشخص جسے کفر پر مجبور کیا جائے جبکہ اس کا دل ایمان پر پوری طر ح مطمئن ہو) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا یہ مرتبہ اور مقام ہے ۔ اس سلسلے میں ایک اور پہلو سے بھی روایت موجود ہے۔ ہمیں جعفر بن محمد نے روایت کی ، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے، انہیں ابو مسہر نے عباد الخواص سے ، انہیں یحییٰ بن ابی عمرو الشیبانی نے وہ کہتے ہیں :” حضرت ابوالدرداء اور حضرت کعب جابیہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک شخص ان کے پاس آ کر کہنے لگا کہ میں نے آج ایک ایسی بری بات دیکھی ہے کہ جو شخص اسے دیکھ لے اس پر اسے مٹانا فرض ہوجاتا ہے۔ یہ سن کر ساتھ بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (یا یھا الذین امنوا علیکم انفسکم لا یضرکم من ضل اذا اھتدیتم) حضرت کعب یہ سن کر کہنے لگے :” اس شخص نے کوئی پتے کی بات نہیں کی۔ “ پھر سائل سے مخاطب ہو کر کہا :” اے اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کا دفاع کرتے رہو جس طرح تم اپنے خاندان کا دفاع کرتے ہو، یہاں تک کہ اس آی تپر عمل کرنے کا وقت آ جائے۔ “ یہ سن کر حضرت ابوالدرداء کے کان کھڑے ہوگئے آپ نے پوچھا ۔” وہ وقت کب آئے گا ؟ “ حضرت کعب کہنے لگے :” جب دمشق کا کنینسہ مسمار کردیا جائے گا اور اس کی جگہ مسجد تعمیر کردی جائے گی تو پھر اس آیت پر عمل کا وقت آ جائے گا۔ “ حضرت کعب نے مزید کہا :” جب تم ایسی عورتیں دیکھو جن کے بدن پر کپڑے ہوں گے لیکن اس کے باوجود وہ تن برہنہ ہوں گی تو پھر اس آیت پر عمل کا وقت آ جائے گا۔ “ راوی کہتے ہیں کہ حضرت کعب نے ایک تیسری بات کا بھی ذکر کیا تھا جسے میں یاد نہ رکھ سکا۔ ابو مسہر کہتے ہیں کہ خلیفہ ولید بن عبدالملک کے عہد میں شام کا گرجا مسمار کردیا گیا۔ ولید نے گرجا کی جگہ مسجد میں شامل کردی اور اس کے ذریعے مسجد کشاد ہ ہوگئی تھی ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ …بھی پہلے حدیث کے مفہوم پر بایں معنی محمول ہے کہ جب ہاتھ اور زبان سے برائی کو دور کرنے میں کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں برائی کو دل سے برا سمجھا جائے۔ حجاج ایک ظالم حکمران تھا ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ میں اپنی جان کی قسم کھا کہہ سکتا ہوں کہ عبدالملک ، حجاج، ولید اور ان جیسے دوسرے حکمرانوں کے عہد میں ہاتھ اور زبان سے ان حکمرانوں کو ٹوکنے کی فرضیت ساقط ہوگئی تھی اس لئے کہ ان کے ظلم و ستم ک یبنا پر جا ن کے خوف سے یہ کام انتہائی مشکل ہوگیا تھا۔ جب حجاج کی وفات ہوئی تو بیان کیا جات ا ہے کہ حسن بصری نے یہ دعا کی :” اے اللہ ! تو نے اسے اٹھا لیا ہے تو اب اس کے ظلم و ستم کے طریق کار کو بھی ہم سے دور کر دے اس لئے کہ جب یہ ہم پر حاکم بن کر آیا تھا تو اس کی حالت یہ تھی کہ آنکھیں چندھائی ہوئی تھیں، آنکھوں میں بینائی برائے نام تھی جب ہاتھ آگے کرتا تو انگلیوں کے پورے انتہائی چھوٹے نظر آتے تھے، بخدا اللہ کے راستے میں کبھی کسی سواری کی لگام کو ان پوروں کا پسینہ نہیں لگا سر کے لمبے لمبے بالوں میں کنگھی کرتا تھا اور چلتے وقت لڑکھڑاتا تھا، منبر پر بیٹھ کر اول فول بکتا تھا حتی کہ نماز کا وقت نکل جاتا تھا۔ نہ اللہ سے ڈرتا تھا نہ مخلوق کی شرم کرتا تھا۔ اس کے اوپر اللہ کی ذات ہوتی اور اس کے نیچے ایک لاکھ یا اس سے زائد سپاہ ہوتی ، اس سے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ” اے شخص ! نماز کا وقت جا رہا ہے۔ “ حسن بصری نے مزید کہا :” افسوس ! اسے ٹوکنے کی راہ میں تلوار اور کوڑا دونوں حائل ہوگئے تھے۔ “ عبدالملک بن عمیر کہتے ہیں :” حجاج جمعہ کے دن خطبہ دینے کے لئے منبر پر بیٹھ گیا اس وقت عین دوپہر تھی، اپنے خطاب میں کبھی اہل شام کی تعریفیں کرنے لگتا اور کبھی اہل عراق کی مذمت شروع کردیتا۔ اسی طرح وہ خطبہ دینے میں مصروف رہا حتیٰ کہ ہمیں مسجد کی بلند ی پر سورج کی تھوڑی بہت سرخی نظر آنے لگی۔ اس نے مئوذن کو اذان دینے کا حکم دیا اور جمعہ کی نماز پڑھا دی، پھر دوبارہ اذان کہلوائی اور عصر کی نماز پڑھنا دی ۔ پھر تیسری مرتبہ اذان کہلوا کر مغرب کی نماز پڑھادی۔ اس دن اس نے تینوں نمازیں اکٹھی پڑھا دیں۔ سلف حضرات ایسے خراب حالات میں زبان یا ہاتھ سے اسے ٹوکنے پر صحیح معنوں میں معذرت کے قابل تھے۔ فقہاء تابعین اور انکے ساتھ اس زمانے کے قراء نے ابن الاشوات کی سرکردگی میں حجاج کے خلاف اس کے کافرانہ رویے پر عمل بغاوت بلند کردیا تھا جس کے نتیجے میں بڑے بڑے خونریز معرکے ہوئے ان حضرات میں سے بیشمار لگو شید ہوئے۔ حجاج نے شا میوں کی مدد سے ان سب کو پیش کر رک دیا تھا حتیٰ کہ ایک شخص بھی ایسا نہیں بچا جو اس کی ظالمانہ حرکتوں کے خلاف آواز اٹھا سکتا ہے ، بس دل سے ہی سب لوگ اسے برا سمجھتے رہے۔ مذکورہ آیہ کی مزید تشریحات اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں حضرت ابن مسعود سے بھی روایت منقول ہے ہمیں جعفر بن محمد نے روایت سنائی ، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابوعبید نے ۔ انہیں حجاج نے ابو جعفر رازی سے انہوں نے ربیع بن انس سے ۔ انہوں نے ابو العالیہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے کہ آپ کے سامنے اس آیت کا تذکرہ ہوا۔ آپ نے فرماا :” ابھی اس کی تاویل کا وقت نہیں آیا۔ قرآن کا نزول تو ہوگیا اس کی بعض آیتوں کی تاویل اس وقت گذر گئی جبکہ یہ آیتیں ابھی نازل بھی نہیں ہوئی تھیں حضرت ابن مسعود کا اشارہ ا ن آیات کی طرف تھا جن کا تعلق گزشت قوموں سے تھا۔ ) بعض آیتیں ایسی تھیں جن کی تاویل یعنی مصداق کا ظہور حضور ﷺ کے زمانے میں بھی ہوگیا تھا، بعض آیات کی تاویل کی ایک جھلک حضور ﷺ کی وفات کے بعد ظہور میں آئی ہعے۔ بعض کو تاویل آج کے بعد وقوع پذیر و گی اور بعض کی قیامت کے وقت ہوگی جبکہ بعض کی ” تاویل حساب کے دن جنت اور دوزخ کی شکل میں اظہر و گی۔ اس لئے جب تک تمہارے قلوب متحد ہو اور تمہاری خواہشات ایک جیسی ہیں۔ تمہیں گروہ بندی نہیں ہوئی اور تم نے ایک دوسرے کو اپنی طاقت کا مزدہ نہیں چکھایا اس وقت تک ایک دوسرے کو نیکی کرنے کا حکم دیتے رو اور برائی سے روکتے ہو۔ پھر جب تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کی مخالفت گھر کر جائے۔ تمہارے خیالات بٹ جائیں تم گروہوں میں تقسیم ہو جائو اور ایک دوسرے کو اپنی طاقت و قوت کا مزہ چکھانے لگو اور ہر شخص کو اپنی فکر دامن گیر ہوجائے تو پھر سمجھ لینا کہ اس آیت کی تاویل یعنی اس پر عمل کا وقت آگیا۔ “ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود کے اس قول کا کہ ” ابھی اس کی تاویل نہیں آئی۔ “ مفہوم یہ ہے کہ ا ن کے زمانے میں حکمرانوں کی نیکی، عوام الناس کی دینداری، نیکوں کی بدوں کے مقابلے میں اکثریت کی بنا پر لوگوں کے لئے بدی کو بدل ڈالنا اور مٹا دینا ممکن تھا اس لئے ہاتھ اور زبان کے ساتھ ام بالمعروف اور نہی عن المنکر ترک کرنے پر کسی کی قابل قبول نہ تھی۔ پھر جب ایسا زمانہ آ جائے کہ لوگوں کو اپنے بچائو کی فکر دامن گیر ہوجائے۔ لوگوں میں نیکی کی باتوں کو قوبل کرنے کا رجحان ختم ہوجائے، معاشرے میں فاسق و فاجر قسم کے لوگوں کا غلبہ ہوجائے تو ان حالات میں سکوت اختیار کرنے کی گنجائش ہوگی البتہ بدی کو دل سے برا سمجھنا ضروری ہوگا۔ سکوت اختیار کرنے کی گنجائش اس وقت بھی ہوتی ہے جب منکر کے مرتکب کو اس بات کا علم ہو کہ وہ ممنوع فعل کا ارتکاب کر رہا ہے اسے ہاتھ سے روکنا ممکن نہ ہو اور غالب گمان یہ ہو کہ اگر اسے قتل بھی کردیا جائے تو بھی وہ اس برائی سے باز نہ آئے۔ ایسے موقع پر سکوت کی گنجائش ہوتی ہے۔ آیت زیر بحث کی تاویل میں حضرت ابن مسعود سے اسی قسم کی روایت منقول ہے۔ ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں جعفر بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے ، انہیں ہشیم نے انہیں یونس نے حسن سے انہوں نے حضرت ابن مسعود سے آیت (علیکم انفسکم) کی تفسیر میں روایت بیان کی کہ ” لوگوں سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں اس وقت تک باتیں کرتے رہو جب تک تمہاری باتیں تسلیم کی جاتی رہیں۔ لیکن جب تمہاری باتیں رد کردی جائیں تو بس اپنی فکر رکھو۔ “ حضرت ابن مسعود نے یہ بتایا کہ جب لوگ باتیں سننے کے لئے تیار نہ ہوں اور انہیں قبول کرنے سے انکار کردیں تو پھر سکوت اختیار کرنے کی گنجائش ہے، یعنی سکوت کا راستہ اس وقت اختیار کرنا چاہیے جب منکر کو ہاتھ سے بدل ڈالنا ممکن نہ ہو۔ اس لئے کہ جب منکر کو مٹانا اور بدل ڈالنا ممکن ہو تو حضرت ابن مسعود کے درج بالا قول سے یہ گمان کرنا درست نہیں ہوگا کہ اس وقت نہی عن المنکر سے پہلو تہی مباح اور جائز ہوجائے گی۔ ہمیں جعفر بن محمد نے روایت بیا ن کی۔ انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے، انہیں ابو عبید نے انہیں اسماعیل بن جعفر نے عمرو بن ابی عمرو سے، انہوں نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن الاشہلی نے حضرت حذیفہ بن الیمان سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا۔ (والذی نفسنی بیدہ لتامرن بالمعروف ولتنھون عن المنکر او لیعمکم اللہ بعقاب من عندہ ثم لتدعتہ فلا یستجب لکم، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم نیکی کا حکم دیتے رہو اور بدی سے روکتے رہو ورنہ اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے ایسا عذاب بھیج دے گا جس کی لپیٹ میں تم سب آ جائو گے پھر تم دعائیں مانگو گے لیکن تمہاری قبول نہیں کرے گا۔ ) ابو عبید کہتے ہیں کہ ہمیں حجاج نے حمزہ زیات سے روایت سنائی، انہوں نے ابوسفیان سے اور انہوں نے ابوالنضرہ سے کہ ایک شخص حضرت عمر کے پاس آ کر کہنے لگا کہ میں نیکیوں کے تمام اعمال کرتا ہوں ۔ لیکن دو نیکیاں مجھ سے نہیں ہوتیں ، میں امر بالمعروف نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کو برائی سے روکتا ہوں۔ یہ سن کر حضرت عمر نے فرمایا :” تم نے اسلام کے تیروں میں سے دو تیر بیکار کردیئے اب اللہ چاہے تو تمہیں بخش بھی سکتا ہے اور چاہے تو تمہیں عذاب بھی دے سکتا ہے۔ “ ابوعبید کہتے ہیں کہ ہمیں محمد بن یزید نے جویبر سے روایت سنائی اور انہوں نے ضحاک سے انہوں نے فرمایا :” امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اللہ کے مقرر کردہ فرائض میں سے دو فرائض ہیں۔ اللہ نے ہم پر انہیں لکھ دیا ہے۔ “ ابوعبید کہتے ہیں کہ مجھے راویوں نے سفیان بن عینیہ سے بتایا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن شبرمہ سے حضرت ابن عباس کی یہ روایت بیان کی :” جو شخص دو آدمیوں کے مقابلہ کی تاب نہ لا کر بھاگ کھڑا ہو وہ حقیقت میں بھگوڑا شمار ہوتا ہے البتہ جو تین کے مقابلہ سے راہ فرار اختیار کرت ا ہے وہ بھگوڑا نہیں ہوتا۔ میں تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بھی اسی طرح خیال کرتا ہوں، کیا کوئی شخص اتنا بےبس اور عاجز ہوتا ہے کہ وہ آدمیوں کو بھی نیکی کا حکم نہ دے سکے اور برائی سے نہ روک سکے۔ “ حضرت ابن عباس کا اشارہ اس آیت کی طرف تھا (فان یکن منکم مائہ صابرہ یغلبو مائتین و ان یکن منکم الف یغلبوا الفین باذن اللہ واللہ مع الصابرین، اگر تم میں سے سو ثابت قدم ہوں تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے۔ اگر تم میں سے ہزار ہوں گے تو وہ اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب آ جائیں گے، اللہ تعالیٰ ثابت قدم رہنے والوں کے ساتھ ہے۔ ) ہدی کو مٹانے کے لزوم میں اگر اسی چیز کو بنیاد تسلیم کرلیا جائے تو ایسا کرنا جائز ہوگا۔ قول باری (علیکم انفسکم) کی تفسیم میں مکحول کا قول ہے کہ ” جب نصیحت کرنے والا ڈر جائے اور نصیحت سننے والا انکار کر دے تو اس وقت بس تم اپنی فکر رکھو، اس وقت اگر تم ہدایت پر ہو گے تو کسی شخص کی گمراہی سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ “ واللہ الموفق۔
Top