Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 108
ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یَّاْتُوْا بِالشَّهَادَةِ عَلٰى وَجْهِهَاۤ اَوْ یَخَافُوْۤا اَنْ تُرَدَّ اَیْمَانٌۢ بَعْدَ اَیْمَانِهِمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اسْمَعُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠   ۧ
ذٰلِكَ : یہ اَدْنٰٓي : زیادہ قریب اَنْ : کہ يَّاْتُوْا : وہ لائیں (ادا کریں) بِالشَّهَادَةِ : گواہی عَلٰي : پر وَجْهِهَآ : اس کا رخ (صحیح طریقہ) اَوْ : یا يَخَافُوْٓا : وہ ڈریں اَنْ تُرَدَّ : کہ رد کردی جائے گی اَيْمَانٌ : قسم بَعْدَ : بعد اَيْمَانِهِمْ : ان کی قسم وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاسْمَعُوْا : اور سنو وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَهْدِي : نہیں ہدایت دیتا الْقَوْمَ : قوم الْفٰسِقِيْنَ : نافرمان (جمع
اس طریق سے بہت قریب ہے کہ یہ لوگ صحیح صحیح گواہی دیں یا اس بات سے خوف کریں کہ ہماری قسمیں اب کی قسموں کے بعد رد کردی جائیں گی اور خدا سے ڈرو اور اس کی حکموں کو گوش وہوش سے سنو اور خدا نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا
قول باری ہے (ذلک ادنیٰ ان یاتوا بالشھادۃ علی وجھھا اس طریقے سے زیادہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ٹھیک ٹھاک گواہی دیں گے) یعنی واللہ اعلم … یہ طریقہ اس بات سے زیادہ قریب ہے کہ وہ گواہی کو نہیں چھپائیں گے اور نہ ہی اس میں کوئی رد و بدل کریں گے۔ قول باری ہے (او یخافوا ان تردد ایمان بعد ایمانھم، ای کم از کم اس بات کا خوف کریں گے کہ ان کی قسموں کے بعد دوسری قسموں سے کہیں ان کی تردید نہ ہوجائے گی) یعنی جب یہ دونوں قسم کھائیں کہ ہم نے نہ تو کوئی چیز چھپائی ہے اور نہ ہی کوئی رد و بدل کیا ہے۔ پھر میت کا کوئی سامان ان کے پاس سے برآمد ہوجائے تو اس صورت میں ورثاء کی قسم ان کی قسموں سے اولیٰ قرار دی جائے گی جو انہوں نے شروع میں قسم کھائی تھی کہ ہم نے نہ تو کوئی چیز چھپائی ہے اور نہ ہی کوئی رد و بدل کیا ہے۔ تمیم داری اور عدی بن بداء کے واقعہ کے سلسلے میں حضرت ابن عباس سے یہی کچھ منقول ہے۔ قول باری ہے (تحبسونھما من بعد الصلوۃ تم ان دونوں کو نماز کے بعد روک لو گے) ابن سیرین اور قتادہ سے مروی ہے کہ ان سے عصر کی نماز کے بعد حلف لیا جائے گا، عصر کے بعد حلف لینے کی وجہ یہ ہے کہ اس عظمت والے وقت میں قسم اٹھانے والوں کو قسم کی شدت اور اس کے دبائو کا احساس دلایا جاسکے۔ جس طرح یہ قول باری ہے (حافظوا علی الصلوات والصلوۃ الوسطی، نمازوں کی نگہداشت کرو خاص طور پر وسطی نماز کی) ایک روایت کے مطابق یہ عصر کی نماز ہے۔ علاوہ ازیں حضرت ابو موسیٰ سے مروی ہے کہ انہوں نے اسی قسم کے واقعہ میں گواہوں سے عصر کے بعد حلف اٹھوایا تھا۔ ایک روایت ہے کہ عظمت والی جگہ یعنی مسجد میں حلف اٹھوانے کے ذریعے قسم کے اندر شدت پیدا کی جاتی ہے۔ حضرت جابر نے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (من حلف عندھذا المنبر علی ایمین اثمۃ قلیتبوا مقعدہ من النار ولو علی سواک اخضر جس شخص نے اس منبر کے پاس کسی غلط بات کی قسم اٹھائی اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لیا خواہ اس کی یہ قسم پیلو کے تازہ مسواک کے بارے میں ہی کیوں نہ ہو) حضور ﷺ نے یہ بتادیا کہ آپ کے منبر کے قریب غلط بات کی قسم اٹھانا بدترین گناہ ہے۔ یہی حکم ان تمام مقامات کا ہے جو عبادت، اللہ کی تعظیم اور اس کی یاد کے لئے مخصوص کردیئے گئے ہوں۔ ان مقامات میں معصیت کا ارتکاب زیادہ گناہ کا سبب بنے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ مسجد حرام اور مکعبہ کے اندر (نعوذ باللہ) زنا کاری اور شراب خوری کا زیادہ گناہ ہے بہ نسبت اس کے کہ ان کا ارتکاب کسی اور مقام پر کیا جاتا۔ تاہم دعوں کے سلسلے میں منبر کے نزدیک یا مسجد کے اندر جا کر قسم کھانا واجب نہیں ہے۔ یہ تو صرف اللہ کے عذاب سے ڈرانے اور اس کا خوف دلانے کی خاطر کیا جاتا ہے۔ امام شافعی سے یہ بات نقل کی گئی ہے کہ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے منبر کے پاس لے جا کر اس سے حلف اٹھوایا جائے گا۔ بعض شوافع نے حضرت جابر کی حدیث سے استدلال کیا ہے۔ اس حدیث کا ذکر ہم گزشتہ سطور میں کرچکے ہیں۔ انہوں نے حضرت وائل بن حجر کی اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جس میں ذکر ہے کہ حضور ﷺ نے حضرمی سے فرمایا تھا ” تمہیں اس کی یعنی فریق مخالف کی قسم ماننی پڑے گی۔ “ حضرمی نے عرض کیا کہ ” میرا مخالف ایک فاجر شخص ہے اسے جھوٹی قسم کھانے کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی۔ ” حضور ﷺ نے فرمایا :” اس کے سوا تم اس سے کسی اور چیز کا مطالبہ نہیں کرسکتے۔ “ جب وہ شخص حلف اٹھانے کے لئے چل پڑا تو آپ نے فرمایا (من حلف علی مال لیا کلہ ظلماً لقی اللہ وھو عنہ معرض۔ جو شخص قسم کھا کر کسی کا مال ہتھیا لے گا تو قیامت کے دن جب وہ اللہ کے سامنے حاضر ہوگا اللہ اس سے اپنا منہ پھیر لے گا۔ ) اسی طرح ان حضرات نے اشعت بن قیس کی حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ وہ شخص حلف اٹھانے کے لئے چلا تو لوگو نے اسے حضور ﷺ کا یہ ارشاد سنایا کہ (من حذف عند ھذا المنبر علی یمین اثبۃ … ) یہ روایتیں اس پر دلالت کرتی ہیں کہ منبر کے پاس لے جا کر قسمیں اٹھوائی جاتی تھیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ان روایتوں میں یہ دلالت نہیں ہے کہ منبر کے پاس لے کر حلف اٹھوانا مسنون فعل تھا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ حضور ﷺ منبر کے قریب تشریف فرما ہوتے تھے۔ اسی لئے اگر کسی سے حلف لینا ہوتا تو منبر کے پاس لیا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں منبر رسول ﷺ کے پاس جھوٹی قسم کھانے کا گناہ بھی زیادہ تھا اس لئے کہ اس مقام کی بڑی حرمت و عظمت تھی۔ اس بنا پر روایت میں یہ دلالت نہیں ہے کہ قسم کھانے کا عمل منبر کے پاس ہی ہو۔ امام شافعی معمولی چیز کے متعلق حلف اٹھوانے کے لئے منبر کے پاس جانا ضروری نہیں سمجھتے حالانکہ حدیث میں ذکر ہے کہ چاہے جھوٹی قسم کھانے الے نے تازہ مسواک کے بارے میں قسم کیوں نہ کھائی ہو۔ اس طرح امام شافعی نے اپنے اس اصل کی بنا پر حدیث کی مخالفت کی ہے۔ حضرت وائل بن حجر کی روایت اس امر کا ذکر ہے کہ جب وہ شخص حلف اٹھانے کے لئے مڑا تو حضور ﷺ نے اسے وہ وعید سنائی جس کا روایت میں ذکر ہے۔ اس میں یہ دلالت نہیں ہے کہ وہ شخص منبر کے پاس گیا۔ بلکہ اس سے قسم اٹھانے کے لئے اس کے ارادے اور عزم کا پتہ چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قول ہے (ثم ادبرواستکبر پھر وہ مڑا اور تکبر کیا) آیت میں یہ مراد نہیں ہے کہ وہ کسی جگہ کی طرف جانے کے مڑا تھا بلکہ یہ مراد ہے کہ اس نے حق سے منہ موڑ لیا اور باطل پر اصرار کیا صحابہ کرام سے منبر کے پاس جا کر یا مقام ابراہیم اور رکن کے درمیان حلف اٹھانے کی جو روایتیں مقنول ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور ﷺ ان مقامات پر مقدمات کے فیصلے صادر فرمایا کرتے تھے۔ اس سے انکار نہیں کہ ان مقامات پر قسم اٹھانے کا معاملہ دوسرے مقامات کی بہ نسبت زیادہ سخت ہوتا ہے۔ لیکن ان مقامات پر جا کر قسم اٹھانا واجب نہیں ہے اس لئے کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (لیمین علی المدعی علیہ ، مدعا علیہ پر قسم کھانے کی ذمہ داری ہے) آپ نے کسی جگہ اور مقام کے ساتھ قسم اٹھانے کی تخصیص نہیں کی۔ لیکن اگر حاکم مدینہ منورہ میں منبر کے پاس یا مکہ معظمہ میں مسجد حرام کے اندر لے جا کر حلف اٹھوائے اور اس طرح قسم کے معاملے کو اور زیادہ مئوکد اور سخت بنا دے تو اس کے لئے ایسا کرنا جائز ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے آیت زیر بحث میں ان دونوں شخصوں سے جنہیں میت کی وصیت پر گواہی دینے کی وصیت کی گئی ہو ۔ عصر کی نماز کے بعد حلف اٹھوانے کا حکم دیا ہے اس لئے کہ بہت سے کفار اس وقت کی نیز غروب آفتاب کے وقت کی عظمت کو تسلیم کرتے تھے۔ فصل آیت زیر بحث اہل ذمہ کی ایک دوسرے پر گواہی کے جواز پر دلالت کو متضمن ہے۔ اس لئے کہ آیت مسلمانوں پر اہل ذمہ کی گواہی کے جواز کی مقتضی ہے تو اہل ذمہ کی اہل ذمہ کے بارے میں گواہی کے جواز کی اس سے بڑھ کر مقتضی ہوگی۔ آیت سفر میں ذمی کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ لیکن جب مسلمان کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کے جواز کا حکم قول باری (یایھا الذین امنوا اذا تدا اینتم بدین الی جل مسمی فاکتبوہ) تا قول باری (واستشھدوا شھیدین من رجالکم) کے ذریعے منسوخ ہوگیا تو مسلمانوں پر اہل ذمہ کی گواہی کے جواز کی نفی ہوگئی اور اس کی وجہ سے قول باری (اواخران من غیر کم) کا حکم منسوخ ہوگیا۔ تاہم سفر کی حالت میں ذمی کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کے جواز کے حکم پر آیت کی دلالت باقی رہی۔ جب سفر کی حالت میں ذمی کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کے جواز کا حکم باقی رہ گیا تو یہ امر تمام حقوق کے اندر ذمیوں کی ایک دوسرے پر گواہی کے جواز کا مقتضی ہوگیا اس لئے کہ جن لوگوں نے سفر میں ذمی کی وصیت پر اہل ذمہ ک ی گواہی کو جائز قرار دیا ہے اور مسلمان کی وصیت پر ایسی گواہی کو جائز قرار نہیں دیا۔ انہوں نے تمام حقوق کے سلسلے میں اہل ذمہ کے لئے اہل ذمہ کی گواہی کو جائز قرار دیا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ قاضی ابن ابی لیلیٰ ، سفیان ثوری اور اوزاعی سفر میں مسلمان کی وصیت پر اہل ذمہ کی گواہی کو جائز قرار دیتے ہیں۔ لیکن تمام حقوق کے اندر وہ ذمی پر ایسی گواہی کے جواز کے قائل نہیں ہیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے ؟ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ مسلمانوں پر اس قسم کی گواہی کا حکم منسوخ ہوچکا ہے لیکن ذمیوں کے لئے تمام حقوق کے اندر باقی ہے۔ اہل ذمہ کی ایک دوسرے کے متعلق گواہی قبول کرلینا خواہ ان کے مذاہب مختلف ہی کیوں نہ ہوں۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے، نیز عثمان البتی اور سفیان ثوری بھی اس کے قائل ہیں۔ قاضی ابن ابی لیلیٰ اوزاعی ، حسن بن صالح اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ اہل ذمہ میں سے ہر مذہب کے پیروکاروں کی آپس میں ایک دوسرے پر گواہی جائز ہے لیکن کسی اور مذہب کے ماننے والے پر جائز نہیں ہے۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ کافروں کی آپس میں ایک دوسرے پر گواہی جائز نہیں ہے۔ ہم نے آیت زیر بحث کی جس دلالت کا ذکر کیا ہے وہ دین اسلام کے سوا باقی تمام ادیان کے پیروکاروں کی گواہیوں کی یکسانیت کی مقتضی ہے۔ چنانچہ قول باری ہے (اواخر ان من غیر کم) یعنی اہل ایمان جن کے ذکر سے ابتداء ہوئی تھی ان کے سوا یعنی تمام غیر مسلم ۔ آیت نے ان غیر مسلموں کے مذاہب کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی بلکہ سب کو یکساں درجے پر رکھا۔ آیت جس طرح سفر میں مسلمان کی وصیت پر اہل ملل یعنی غیر مسلموں کی گواہی کے جواز کی مقتضی ہے اسیطرح وہ کافروں کی وصیت پر غیر مسلموں کی گواہی کے جواز پر بھی دلالت کرتی ہے خواہ ان کے مذاہب ایک دوسرے سے مختلف ہی کیوں نہ ہوں۔ سنت کی جہت سے غیر مسلموں کی آپس میں ایک دوسرے پر گواہی کے جواز کو واجب کرنے والی وہ روایت ہے جسے امام مالک نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر سے نقل کیا ہے کہ یہودی ایک دفعہ حضور ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ان کے ایک مرد اور ایک عورت نے زناء کا ارتکاب کیا ہے، اس گواہی پر حضور ﷺ نے ان دونوں کو سنگسار کردینے کا حکم دے دیا۔ اعمش نے عبداللہ بن مرہ سے، انہوں حضرت براء بن عازب سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ کے پاس سے ایک یہودی گذرا جس کا منہ کالا کردیا گیا تھا، آپ نے اس کے بارے استفسار کیا تو پتہ چلا کہ اس نے زنا کا ارتکاب کیا تھا جس کی بنا پر اس کا منہ کالا کردیا گیا ہے حضور نے اسے رجم کردینے کا حکم صادر فرمایا۔ جابر نے شعبی سے روایت کی ہے کہ یہود حضور ﷺ کے پاس ایک مرد اور ایک عورت کو پکڑ کر لائے اور کہنے لگے کہ ان دونوں نے اپنا منہ کالا کیا ہے یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ اپنے مذہب کے چار گواہ پیش کرو۔ چناچہ چار یہودیوں نے گواہی دی اور حضور ﷺ نے انہیں سنگسار کرنے کا فیصلہ صادر فرما دیا۔ شعبی سے مروی ہے کہ اہل کتاب کی آپس میں ایک دوسرے پر گواہی جائز ہے۔ قاضی شریح عمر بن عبدالعزیز اور زہری سے بھی اسی طرح روایت ہے۔ ابن وہب کا قول ہے کہ امام مالک نے عیسائیوں کی آپس میں ایک دوسرے پر گواہی کو رد کر کے اپنے استادوں کی مخالفت کی ہے۔ ابن شہاب زہری یحییٰ بن سعید اور ربیعہ ایسی گواہی کے جواز کے قائل تھے۔ ہمارے اصحاب میں سے ایک اہل علم ابن ابی عمران کا قول ہے کہ ” یحی بن اکثم کہتے تھے کہ میں نے اس گواہی کے سلسلے میں تمام اقوال جمع کئے تھے، مجھے متقدمین میں سے عیسائیوں کی آپس میں ایک دوسرے کی گواہی کو رد کردینے کے بارے میں کسی کا بھی قول نہیں ملا۔ مجھے صرف ربیعہ کا قول ملا وہ اس قسم کی گواہی کو رد کردینے کے قائل تھے۔ تاہم مجھے ایسی گواہی کے جواز کے بارے میں بھی ان کا قول مل گیا تھا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہم نے آیت زیر بحث کی تاویل کے سلسلے میں سلف کے اقوال کا ذکر کردیا ہے اور یہ بیان کردیا ہے کہ آیت کا کون اس حکم منسوخ ہوچکا ہے اور کون اس حکم باقی اور ثابت ہے۔ اب ہم آیت کا اس کے سیاق کے حوالے سے ذکر کریں گے، نیز اس کے شان نزول کے پس منظر میں اس کی ترتیب جس حکم کے مقتضی ہے اسے بھی بیان کریں گے۔ وباللہ التوفیق قول باری (یھایھا الذین امنوا شھادۃ بینکم) کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ ہے۔ “ تمہاری آپس کی گواہی تم میں سے دو عادل آدمیوں کی گواہی ہوگی۔ “ دوسری مرتبہ واقع ہونے والے شہادت کے لفظ کو حذف کردیا گیا اس لئے کہ مخاطبین کو اس کی مراد کا علم تھا۔ آیت میں اس معنی کا بھی احتمال ہے کہ ” تم پر آپس کی گواہی لازم ہے۔ “ اس صورت میں دو عادل آدمیوں کو گواہ بنانے کا حکم دیا گیا ہے جس طرح قرض کے سلسلے میں یہ قول باری ہے (واستشھدوا شھیدین من رجالکم) اس سے سفر کے اندر مسلمان کی وصیت پر د و عادل مسلمانوں یا دو غیر مسلموں کو گواہ بنانے کا حکم معلوم ہوا ۔ آیت کا نزول اس سبب کی بن اپر ہوا تھا جس کا ذکر حضرت ابن عباس کی روایت میں تمیم داری اور عدی بن بداء کے مذکورہ واقعہ کے سلسلے میں پہلے گذر چکا ہے۔ آیت میں اس سبب کے بعض حصوں کا ذکر ہوا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (ان انتم ضربتم فی الارض فاصا بتکم مصیبۃ الموت اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور وہاں موت کی مصیت پیش آ جائے) مسلمان کی وصیت پر دو ذمیوں کی گواہی قبول کرنے کی یہ شرط لگائی گئی ہے کہ وصیت کا واقعہ سفر کی حالت میں پیش آئے۔ قو ل باری (حین الوصیۃ) اس مفہوم کو متضمن ہے کہ دونوں گواہ ہی وصی قرار پائیں اس لئے کہ اصل واقعہ میں وصیت کرنے والے نے دو ذمیوں کو وصیت کی تھی۔ پھر یہ دونوں آ گئے اور آ کر وصیت کی گواہی دی۔ یہ اس امر کو متضمن ہے کہ میت کی وصیت پر ایسے دو افراد کی گواہی جائز ہے جنہیں وصیت کی گئی ہو۔ پھر فرمایا (فاصابتکم مصیبۃ الموت) اس سے مراد اس میت کا واقعہ ہے جس نے وصیت کی تھی۔ ارشاد ہوا (تحسبوتھم من بعد الصلوۃ) اس سے مراد ہے یہ کہ جب ورثاء ان دونوں پر یہ الزام لگائیں کہ انہوں نے میت کے مال میں سے کوئی چیز روک لی ہے اور اپنے قبضے میں کرلیا ہے جیسا کہ عکرمہ نے تمیم داری کے واقعہ کے سلسلے میں روایت کی ہے۔ نیز جس طرح حضرت ابو موسیٰ نے فرمایا تھا جب انہوں نے دونوں ذمی گواہوں سے یہ حلف لیا تھا کہ ہم نے کوئی خیانت نہیں کی اور نہ ہی کذب بیانی کی۔ اس الزام کی وجہ سے یہ دونوں گواہ مدعا علیہ بن گئے تھے اسی بنا پر ان سے حلف لیا گیا تھا ا سے یہ لحف گواہ ہونے کی بنا پر نہیں لیا گیا تھا۔ اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے (فیقسمان باللہ ان ارتبتم لا نشتری بہ ثمنا و لوکان ذا قربی ولا نکتم شھادۃ وہ خدا کی قسم کھا کر کہیں گے اگر تمہیں کوئی شک پڑجائے کہ ” ہم کسی ذاتی فائدے کے عوض شہادت بیچنے والے نہیں ہیں اور خواہ ہمارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو ( ہم اس کی رعایت کرنے والے نہیں) اور نہ ہی گواہی کو چھپانے والے ہیں) یعنی اس چیز کے متعلق جس کی میت نے وصیت کی تھی اور اس پر ان دونوں کو گواہ بنایا تھا۔ پھر ارشاد ہوا (فان ععثر علی نھما استحقا اثماً لیکن اگر پتہ چل جائے کہ ان دونوں نے اپنے آپ کو گناہ میں مبتلا کیا ہے) یعنی اس کے بعد میت کے مال میں سے کوئی چیز ان کے قبضے سے نکل آئے۔ وہ چیز چاندی کا پیالہ تھا جو میت کے مال میں سے ان کے قبضے سے برآمد ہوا تھا۔ پھر ان دونوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے میت سے اسے خرید لیا تھا۔ پھر ارشاد ہوا (فاخران یقومان مقامھما) پھر ان کی جگہ دو اور شخص کھڑے ہوں) یعنی قسم کے اندر، کیونکہ اس صورت میں وہ دونوں گواہ خریداری کے مدعی بن گئے تھے اس لئے ورثا پر قسم لازم ہوئی چونکہ میت کے ان دونوں وارثوں کے سوا اور کوئی وارث نہیں تھے اس لئے یہ دونوں مدعا علیہ بن گئے اور اسی بنا پر ان سے حلف لیا گیا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (من الذین استحق علیھم الاولیان فیقسمان باللہ لشھادتنا احق من شھادتھما، ان لوگوں میں سے جن کا حق پچھلے دو گواہوں نے مارنا چاہا تھا وہ خدا کی قسم کھا کر کہیں کہ ” ہماری شادت ان کی شہادت سے زیادہ برحق ہے) یعنی یہ قسم اس قسم سے اولیٰ ہے جو دونوں وصی یعنی گواہوں نے کھائی تھی کہ ہم نے نہ تو کوئی خیانت کی اور نہ ہی کوئی رد و بدل کیا اس لئے کہ دونوں وصی یعنی گواہ اس صورت حال کے تحت مدعی بن گئے تھے اور دونوں وارث مدعا علیہ ہوگئے تھے۔ یہ دونوں گواہ قسم کھا کر ظاہری طور پر بری الذمہ ہوگئے تھے اس لئے وصیت کے متعلق ان کی گواہی قبول کرلی گئی لیکن جب ان کے قبضے سے میت کا مال برآمد ہوگیا تو پھر ورثاء کی قسم اولیٰ اور زیادہ برحق ہوگئی۔ قول باری (الاولیان) کی تاویل میں اختلاف رائے ہے۔ سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ ان سے مراد وہ ہیں جو میت سے قریب ہوں یعنی اس کے ورثاء ایک قول ہے کہ گواہی کے لئے اولیٰ اس مقام پر اس سے مراد ایمان یعنی قسمیں ہیں۔ آیت میں گواہوں پر ا ن کی دی ہوئی گواہی کے سلسلے میں قسم کے ایجاب پر کوئی دلالت نہیں ہے ان دونوں پر قسم اس وقت واجب کی گئی جب ورثاء نے ان کے خلاف بد دیاتنی اور خیانت نیز میت کے نز کہ میں ایک چیز دبا لینے کا دعویٰ کردیا۔ اس طرح آیت میں مذکورہ شہادتوں میں سے بعض نے قسموں کی صورت اختیار کرلی۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ وصیت پر گواہی کی وہی حیثیت ہے جو حقوق پر گواہی کی ہوتی ہے اس لئے کہ قول باری ہے (شھادۃ بینکم) اس سے لا محالہ وہ گواہیاں مراد ہیں جو حقوق کے سلسلے میں دی جاتی ہیں۔ اس لئے کہ آگے ارشاد ہوا (اثنان ذوا عدل منکم اواخر ان من غیر کم ) اس کے بعد فرمایا (فیقسمان باللہ) اس میں قسم کے سوا اور کسی مفہوم کا احتمال نہیں ہے۔ پھر فرمایا (فاخران یقومان مقامھما من الذین استحق علیھم الاولیان فیقسمان باللہ لشھادتنا) اس سے قسم مراد ہے۔ اس لئے کہ یہ وہ ایمان یعنی قسمیں ہیں جو دونوں وارث کھائیں گے اور قول باری (احق من شھادتھما) میں یہ احتمال ہے کہ شہادت سے یمین یعنی قسم مراد ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ گواہی مراد ہے ۔ اس لئے کہ وہ دونوں گواہ جو وصی تھے ان دونوں نے گواہی بھی دی تھی اور قسم بھی کھائی تھی اب وارث کی قسم دونوں وصی کی گواہی اور ان کی قسم سے زیادہ برحق ہوگئی۔ اسلئے کہ ان دونوں گواہوں کی اپنے حق میں گواہی درست نہیں تھی اور ان کی قسم بھی ان کے اس دعویٰ کو درست ثابت نہ کرسکی کہ انہوں نے میت سے یہ پیالہ خریدا تھا۔ پھر ارشاد ہوا (ذلک ادنیٰ ان یاتوا بالشھادۃ علی وجھھا) یعنی … واللہ اعلم … وصیت پر گواہی نیز یہ کہ وہ خیانت نہیں کریں گے اور نہ ہی کوئی رد و بدل کریں گے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان یعنی قسموں کا جو حکم دیا ہے پھر کبھی یہ قسمیں گواہوں پر واجب کردی ہیں۔ جب ان کے خلاف بد دیاتنی اور خیانت کا الزام لگایا جائے … اور کبھی ورثاء پر واجب کردی ہیں … جب گواہ میت کے مال میں سے کوئی چیز خرید لینے کا دعویٰ کریں۔ اس سے مقصد یہ ہے کہ جب انہیں اس بات کا علم ہوجائے گا تو وہ وصیت کے بارے میں ٹھیک ٹھیک گواہی دیں گے۔ یا کم از کم اس بات کا ہی خوف کریں گے کہ ان کی قسموں کے بعد دوسری قسموں سے کہیں ان کی تردید نہ ہوجائے۔ اس صورت میں وہ اپنی قسموں پر اقتصار نہیں کریں گے یعنی انہیں فیصلہ کن نہیں سمجھیں گے۔ نیز ان کی قسمیں اس چیز پر دوسروں کا حق مارنے کے الزام سے انہیں نہیں بچا سکیں گی، جو انہوں نے چھپا رکھی تھی اور اس کی خریداری کا دعویٰ کیا تھا، جب وارث اس چیز پر اپنے حق کی قسم کھالیں گے تو اس پر ان کا حق ثابت ہوجائے گا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
Top