Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 20
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْكُمْ اَنْۢبِیَآءَ وَ جَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا١ۖۗ وَّ اٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا مُوْسٰى : موسیٰ لِقَوْمِهٖ : اپنی قوم کو يٰقَوْمِ : اے میری قوم اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْ : جب جَعَلَ : اس نے پیدا کیے فِيْكُمْ : تم میں اَنْۢبِيَآءَ : نبی (جمع) وَجَعَلَكُمْ : اور تمہیں بنایا مُّلُوْكًا : بادشاہ وَّاٰتٰىكُمْ : اور تمہیں دیا مَّا : جو لَمْ يُؤْتِ : نہیں دیا اَحَدًا : کسی کو مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہانوں میں
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ بھائیو تم پر خدا نے جو احسان کئے ہیں ان کو یاد کرو کہ اس نے تم میں پیغمبر پیدا کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا۔ اور تم کو اتنا کچھ عنایت کیا کہ اہل عالم میں سے کسی کو نہیں دیا۔
قول باری ہے (وجعلکم ملوکا اور تمہیں ملوک یعنی فرمانروا بنایا) حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ زید بن اسلم اور حسن کا قول ہے کہ ملک اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کا اپنا گھر بیوی اور نوکر چاکر ہوں، دوسرے حضرات کا قول ہے کہ ملک اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے پاس اتنی پونجی اور اتنا سامان ہو جس کی وجہ سے وہ کام کرنے کی تکلیف اٹھانے اور معاش کے لئے مشقتیں برداشت کرنے سے بچ جائے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور مجاہد کا قول ہے کہ انہیں من و سلویٰ (بنی اسرائیل کو ان کی دشت گردی کے دوران ملنے والی خدائی خوراک) سر پر سایہ کرنے والے بادل اور بارہ چشمے بہانے والے چٹان کی بنا پر ملوک قرار دیا گیا۔ دوسرے حضرات نے کہا ہے کہ مال و دولت کی بنا پر انہیں ملوک کہا گیا۔ حسن کا قول ہے کہ انہیں ملوک کے نام سے اس لئے موسوم کیا گیا کہ جب انہوں نے اپنے آپ کو مصر کے قبطیوں سے چھڑا لیا جنہوں نے انہیں غلام بنا رکھا تھا تو اپنی ذات کے آپ مالک ہوگئے۔ سدی کا قول ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال نیز اپنے مال کا مالک تھا۔ قتادہ کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل پہلے لوگ تھے جنہوں نے نوکر چاکر رکھے تھے۔
Top