Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 24
قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْهَا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ
قَالُوْا : انہوں نے کہا يٰمُوْسٰٓى : اے موسیٰ اِنَّا : بیشک ہم لَنْ نَّدْخُلَهَآ : ہرگز وہاں داخل نہ ہوں گے اَبَدًا : کبھی بھی مَّا دَامُوْا : جب تک وہ ہیں فِيْهَا : اس میں فَاذْهَبْ : سو تو جا اَنْتَ : تو وَرَبُّكَ : اور تیرا رب فَقَاتِلَآ : تم دونوں لڑو اِنَّا : ہم ھٰهُنَا : یہیں قٰعِدُوْنَ : بیٹھے ہیں
وہ بولے کہ موسیٰ جب تک وہ لوگ وہاں ہیں ہم کبھی وہاں نہیں جاسکتے (اگر لڑنا ہی ضرور ہے) تو تم اور تمہارا خدا جاؤ اور لڑو اور ہم یہیں بیٹھے رہیں گے۔
قوم موسیٰ کا جنگی تعاون سے انکار قول باری ہے (قالوا یموسی انا لن نذخلھا ابدا مادا مرا فیھ فاذھب انت وربک فقاتلا انا ھھتا قاعدون۔ انہوں نے پھر یہی کہا کہ اے موسیٰ ! ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں موجود ہیں، بس تم اور تمہارا رب، دونوں جائو اور لڑو ہم یہاں بیٹھتے ہیں۔ ) قول باری (فاذھب انت وربک فقاتلا) میں دو معنوں کا احتمال ہے۔ ایک تو یہ کہ انہوں نے یہ بات بطور مجاز کہی تھی یعنی تم جائو اور تمہارا رب تمہاری مدد کرے گا “۔ دوسرے یہ کہ ذہاب یعنی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجانا اپنے حقیقی معنوں پر محمول ہے۔ اس صورت میں قائل کے اس قول کو اس کے کفر اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو جسم اور جسمانیات کے مشابہ قرار دینے پر محمول کیا جائے گا۔ یہ معنی کلام کے مفہوم کے مدنظر اولیٰ ہے اس لئے کہ یہ کلام ان لوگوں کی تردید اور ان کی جہالت پر اظہار تعجب کے موقعہ میں وارد ہوا ہے۔ کبھی مجازاً یہ فقرہ کہا جاتا ہے ” قاتلہ اللہ “ اور اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اللہ کی اس کے ساتھ عداوت اس شخص کی عداوت کی طرح ہے جو اس سے برسرپیکار ہو اور اپنے اقتدار اور تسلط کے دبدبے کی بنا پر اس پر چھایا ہوا ہو۔
Top