Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 34
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْهِمْ١ۚ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠ ۧ
اِلَّا
: مگر
الَّذِيْنَ تَابُوْا
: وہ لوگ جنہوں نے توبہ کرلی
مِنْ قَبْلِ
: اس سے پہلے
اَنْ
: کہ
تَقْدِرُوْا
: تم قابو پاؤ
عَلَيْهِمْ
: ان پر
فَاعْلَمُوْٓا
: تو جان لو
اَنَّ
: کہ
اللّٰهَ
: اللہ
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
رَّحِيْمٌ
: رحم فرمانے والا
ہاں جن لوگوں نے اس سے پیشتر کہ تمہارے قابو آجائیں توبہ کرلی تو جان رکھو خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
قول باری ہے (الا الذین تابوا من قبل ان تقدروا علیھم فاعلموا ان اللہ غفور رحیم۔ مگر جو لوگ توبہ کرلیں قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پائو، تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے) ۔ آیت کا یہ حصہ ان لوگوں کے لئے استثناء ہے جو قابو میں آنے سے پہلے توبہ کرلیں اس جملے کے ذریعے انہیں ان لوگوں سے نکال دیا گیا ہے جن پر اللہ نے حد واجب کردی اس لئے کہ استثناء میں بعض افراد کو اس مجموعے سے خارج کردیا جاتا ہے جس میں یہ افراد شامل ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ قول باری ہے (الا آل لوط انا لمنجوھم اجمعین الا امراتہ آل لوط کے سوا، ہم ان سب کو بچا لینے والے ہیں مگر اس کی بیوی) اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھرانے کو ہلاک کئے جانے والوں کے مجموعے سے خارج کردیا اور پھر استثناء کے ذریعے حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی کو بچا لئے جانے والوں کے مجموعے سے خارج کردیا۔ یا جس طرح یہ قول باری ہے (فسجد الملائکۃ کلھم اجمعون الا ابلیس تمام فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہیں کیا) اس آیت میں ابلیس کو سجدہ کرنے والوں کے مجموعے سے خارج قرار دیا گیا۔ اسی طرح آیت زیر بحث میں جب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو جنہوں نے قابو میں آنے سے پہلے توبہ کرلی ہو ان افراد کے مجموعے سے مستثنیٰ کردیا جن پر اس نے حد واجب کردی تھی تو گویا اس نے ان پر حد کے ایجاب کی نفی کردی۔ اس بات کو اپنے قول (فاعلموا ان اللہ غفور رحیم) کے ذریعہ اور زیادہ موکد بنادیا جس طرح یہ قول باری ہے (قل للذین کفروا ان ینتھو یغفر لھم ما قد سلف۔ آپ کافروں سے کہہ دیں کہ اگر وہ باز آ جائیں تو ان کے پچھلے گناہ معاف کردیئے جائیں گے) اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان سے دنیا و آخرت دونوں کی سزائیں ساقط ہوجائیں گی۔ اگر یہ اعتراض اٹھایا جائے کہ چوری کے سلسلے میں ارشاد باری ہے (فمن تاب من بعد ظلمہ واصلح فان اللہ غفور رحیم۔ جو ظلم کرنے کے بعد توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرلے تو بیشک اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے) لیکن اس کے باوجود چور کی توبہ حد کی سزا کو اس سے ساقط نہیں کرتی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے چور کو اس مجموعے سے خارج نہیں کیا ہے جس پر اس نے حد کی سزا واجب کردی تھی۔ بلکہ آیت کے ذریعے صرف یہ بتایا ہے کہ ان میں سے جو شخص توبہ کرلے گا تو اللہ اس کے لئے بڑا غفور و رحیم ہے۔ اس کے برعکس محاربین کی آیت میں استثناء کا ذکر ہے جو قابو میں آنے سے پہلے توبہ کرلینے والوں کو ان محاربین کے مجموعے سے نکالنے کا موجب ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے حد کی سزا واجب کردی ہے۔ نیز قول باری (فمن تاب من بعد ظلمہ واصلح) کے متعلق یہ کہنا درست ہے کہ یہاں سے ایک نئے کلام کا آغاز ہوا ہے جو اپنے طور پر کسی اور فقرے کی تضمین سے مستغنی ہے۔ ہر ایسا کلام جو اپنے طور پر خود مکتفی ہو ہم دلالت کے بغیر کسی اور فقرے کے ساتھ اس کی تضمین نہیں کرسکتے۔ جبکہ قول باری (الا الذین تابوا من قبل ان تقدروا علیھم) اپنے مفہوم کو بیان کرنے کے لئے ماقبل کے جملے کا محتاج ہے اسی بنا پر ماقبل کے جملے کے ساتھ اس کی تضمین کردی گئی جب آیت میں مذکورہ حد ساقط ہوگئی تو آدمیوں کے حقوق یعنی قتل، جسموں پر لگنے والے زخم اور اموال کے تاوان وغیرہ کا وجوب ثابت ہوگیا۔ جب حد کا وجوب ہوجاتا ہے تو آدمیوں کے حقوق کا مال، جان اور زخموں کے سلسلے میں تاوان ساقط ہوجاتا ہے وہ اس لئے کہ جرم کی بنا پر واجب ہونے والی حد آدمیوں کے ان تمام حقوق کو ساقط کردیتی ہے جو اس جرم سے متعلق ہوتے ہیں۔ مثلاً چور جبچوری کرتا ہے اور سزا میں اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے تو وہ چرائے ہوئے مال کا تاوان نہیں بھرتا۔ اسی طرح زانی پر جب حد زنا جاری کردی جاتی ہے تو اس پر مہر کی رقم لازم نہیں آتی۔ نیز قاتل پر جب قصاص واجب ہوجاتا ہے تو اس پر مال کا تاوان لازم نہیں آتا۔ یہی صورت محاربین کی ہے۔ جب ان پر حد جاری کردی جاتی ہے تو آدمیوں کے حقوق ساقط ہوجاتے ہیں۔ اس لئے محارب سے جب حد ساقط ہوجاتی ہے تو اس پر اس مال یا جان کا تاوان لازم ہوجاتا ہے جسے اس کے ہاتھوں نقصان پہنچا ہو۔ جس طرح چور سے اگر حد ساقط کردی گئی ہو تو اس پر مال کا تاوان لازم ہوجاتا ہے یا زانی سے اگر حد کا سقوط ہوگیا ہو تو اس پر مہر کی رقم لازم ہوجاتی ہے۔ رہزنی اور قتل و غارتگری کی سزا کس مقام پر رہزنی اور قتل و غارتگری کرنے کی صورت میں ایک شخص محارب قرار پاتا ہے اس بارے میں اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ جو شخص شہر کے اندر دن یا رات کے وقت ڈاکہ ڈالے یا رہزنی کرے یا مثلاً حیرہ سے لے کر کوفہ کے درمیان دن یا رات کے وقت وہ اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہو تو ایسی صورت میں وہ رہزن نہیں قرار پائے گا۔ ایک شخص اس وقت رہزن قرار پائے گا جب وہ صحرائی علاقوں میں یعنی شہری حدود سے باہر رہزنی کی وارداتوں میں ملوث پایا جائے۔ امام ابو یوسف سے املا کی صورت میں مسائل لکھنے والوں نے نقل کیا ہے کہ اس مسئلے میں شہری اور غیر شہری علاقے سب یکاسں ہیں، اور ان مقامات پر رہزنی اور قتل و غارت کے مرتکب افراد محارب قرار دیئے جائیں گے جس کے نتیجے میں ان پر حد قائم کی جائے گی۔ امام ابو یوسف سے مروی ہے کہ ایسے چور جو شہری حدود میں واقع لوگوں کے گھروں پر رات کے وقت اچانک حملے کرتے ہیں انہیں رہزن قرار دیا جائے گا اور ان پر رہزنوں کے احکام جاری کئے جائیں گے۔ امام مالک سے منقول ہے کہ ایک شخص اس وقت محارب قرار دیا جائے گا جب وہ گائوں سے کم از کم تین میل کے فاصلے پر رہزنی کرے گا۔ امام مالک سے یہ بھی منقول ہے کہ محاربت کے معنی یہ ہیں کہ کسی جذبۂ انتقام کے بغیر صرف مال کی طلب میں قتال کیا جائے۔ اس قول میں امام مالک نے شہری حدود اور غیر شہری میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ رہزن اور ڈاکو وہ لوگ ہیں جو ہتھیار لے کر لوگوں کی ناکہ بندی کریں اور پھر ان سے ان کا مال چھین لیں۔ اس میں شہر اور صحرا کا حکم یکساں ہے۔ ثوری کا قول ہے کہ کوفہ شہر میں ڈاکہ ڈالنے والا شخص محارب نہیں کہلائے گا جب تک وہ اس شہر کے حدود سے باہر اس فعل کا ارتکاب نہ کرلے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (لاقطع علی خائن ولامختلس، خیانت کرنے والے نیز اچکے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا) حضور ﷺ نے اچکے کے ہاتھ کاٹنے کی نفی کردی۔ مختلس وہ شخص ہوتا ہے جو کسی کی کوئی چیز اچک لیتا ہے۔ اس میں قوت پکڑنے کی بات نہیں ہوتی۔ اس بنا پر محاربین کے اندر قوت پکڑنے کی بات کا اعتبار واجب ہوگیا۔ نیز یہ کہ جب وہ ایسے مقام پر ہوں جہاں ان کے لئے زور پکڑنا ممکن نہ ہو اور جن لوگوں کے خلاف یہ کارروائی کرنے کا ارادہ کریں مسلمانوں کی طرف سے انہیں مدد بھی پہنچ سکتی ہو تو ایسی صورت میں وہ محارب نہیں کہلا سکتے۔ ان کی حیثیت اچکے اورل لٹیرے جیسی ہوگی۔ مگر ایک تنہا شخص اگر شہر کے اندر یہ حرکت کرے تو وہ اچکا اور غاصب قرار پائے گا اس پر رہزنوں کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔ لیکن اگر کوئی گروہ صحرائی علاقے میں یعنی شہری حدود سے باہر زور پکڑ لے تو اس کے لئے گزرنے والے قافلوں وغیرہ کے اموال چھین لینا ممکن ہوتا ہے۔ جبکہ ان قافلے والوں کو بروقت مدد بھی نہیں پہنچائی جاسکتی۔ اس لئے ان کی حیثیت اچکے سے مختلف ہوگئی۔ نیز ان لوگوں سے بھی مختلف ہوگئی جن کے اندر زور پکڑنے کی بات نہیں پائی جاتی۔ اگر شہر اور غیر شہر کا حکم یکساں ہوتا تو پھر ایک تنہا شخص اور ایک پورے گروہ کے حکم کا یکساں ہونا بھی واجب ہوتا۔ جبکہ یہ بات واضح ہے کہ شہری حدود کے اندر ایک تنہا شخص محارب نہیں ہوسکتا اس لئے کہ اس کے اندر زور پکڑنے کی بات موجود نہیں ہوتی۔ اسی طرح شہری حدود کے اندر ایک پورے گروہ کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے اس لئے کہ ان کے اندر بھی شہریوں کے خلاف زور پکڑ جانے کی بات موجود نہیں ہوتی۔ لیکن اگر یہی گروہ صحرائی علاقے میں ہو تو اس کے اندر یہ کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور اس پر صرف اسی صورت میں قابو پایا جاسکتا ہے کہ اس کا پیچھا کر کے اس کے خلاف جنگی کارروائی کی جائے اس لئے ان کے حکم اور شہری حدود میں اس قسم کی کارروائی کرنے والوں کے حکم میں فرق پڑگیا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ جب آپ کے ذکر کردہ سبب کا اعتبار ضروری ہے تو اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ دس چوروں کا ایک گروہ اگر ہزار آدمیوں کا کوئی قافلہ روک لے تو یہ گروہ محارب نہ قرار پائے اس لئے کہ قافلے والے اس سے اپنا بچائو کرسکتے ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ چوروں کا یہ گروہ قوت پکڑنے اور باہر آ جانے کی بنا پر محارب بن گیا خواہ وہ قافلہ لوٹنے کا ارادہ رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔ اس کے بعد ان سے یہ حکم اس بنا پر ٹل نہیں سکتا کہ قافلے والے ان سے اپنا بچائو کرسکتے تھے۔ جس طرح شہر والوں کا ان سے اپنا بچائو کرلینا اس حکم کے ٹلنے کا سبب نہیں بن سکتا۔ امام ابو یوسف نے شہری حدود میں چوریاں کرنے والوں پر محاربین کا حکم جاری کیا ہے اس لئے کہ شہری چور طاقت ور ہوتے ہیں، نیز شہریوں کے خلاف ان کی کارروائیاں محاربت کی بنا پر ہوتی ہیں اور مقصد مال چھیننا ہوتا ہے۔ اس لئے شہری حدود کے اندر اور شہر سے باہر کارروائیاں کرنے کی بنا پر ان کے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑے گا جس طرح زنا، سرقہ، تہمت اور قتل کی حدود کو واجب کرنے پر اسباب کا حکم ہے کہ خواہ یہ شہر کے اندر پائے جائیں یا باہر ہر صورت میں ان کے مرتکبین پر حد جاری ہوجاتی ہے۔ فصل محارب کے ہاتھ پائوں کاٹنے کے لئے مقدار مال کیا ہو ؟ محارب کے ہاتھ پائوں کاٹنے کے سلسلے میں ہمارے اصحاب نے چھینے ہوئے مال کی یہ مقدار بیان کی ہے کہ ان محاربین میں سے ہر ایک کے حصے میں کم از کم دس درہم آتے ہوں۔ امام شافعی نے حد سرقہ کی طرح یہاں بھی فی کس چوتھائی دینار کا اعتبار کیا ہے۔ جبکہ امام مالک نے کسی مقدار کا اعتبار نہیں کیا ہے اس لئے کہ ان کے نزدیک صرف خروج کی بنا پر مال لوٹنے سے پہلے ہی ایسے لوگ اس سزا کے مستحق ہوجاتے ہیں۔ فصل ااجتماعی جملے میں بعض نے قتل اور بعض نے لوٹ مار کی ہو تو کیا حکم ہوگا ؟ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر محاربین کے گروہ میں سے بعض افراد نے لوٹ مار اور قتل وغیرہ کا ارتکاب کیا ہو تو پورے ٹولے پر محاربین کا حکم جاری ہوگا اس لئے کہ محاربت اور طاقت و قوت حاصل کرنے کی کیفیت اس پورے ٹولے کی جتھا بندی کی بنا پر پیدا ہوئی تھی۔ جب وہ سبب یعنی طاقت و قوت پکڑ لینا جس کی وجہ سے ان کے ساتھ محاربت کا حکم متعلق ہوگیا وہ ان کی جتھا بندی کی بنا پر پیدا ہوا تھا تو اس سے یہ بات ضروری ہوگئی کہ اس پورے ٹولے پر لگائے جانے والے حکم میں کوئی فرق نہ پڑے خواہ ان میں سے بعض نے لوٹ مار اور قتل و غارتگری کا ارتکاب کیا ہو اور باقی ماندہ افراد نے ان کا ساتھ دے کر ان کی پشت پناہی کی ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اسلامی لشکر جب اہل حرب کافروں کا مال بطور غنیمت حاصل کرتا ہے تو اس لشکر میں شامل افراد کے درمیان اس کی تقسیم کے حکم میں اس لحاظ سے فرق نہیں پڑتا کہ ان میں سے کس نے قتال میں باقاعدہ حصہ لیا ہے اور کس نے لڑنے والے افراد کی معاونت اور پشت پناہی کی ہے۔ اسی لئے ان میں سے اگر کسی نے مدمقابل کافر کو لاٹھی مار کر یا تلوار کی ضرب لگا کر قتل کردیا ہو تو اس سے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑے گا اس لئے کہ جو شخص سرے سے نبرد آزما ہی نہ ہوا ہوگا اس پر بھی قتال میں عملی طور پر حصہ لینے والوں کا حکم جاری ہوگا۔
Top