Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 4
یَسْئَلُوْنَكَ مَا ذَاۤ اُحِلَّ لَهُمْ١ؕ قُلْ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّیِّبٰتُ١ۙ وَ مَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِیْنَ تُعَلِّمُوْنَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ١٘ فَكُلُوْا مِمَّاۤ اَمْسَكْنَ عَلَیْكُمْ وَ اذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهِ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ
يَسْئَلُوْنَكَ
: آپ سے پوچھتے ہیں
مَاذَآ
: کیا
اُحِلَّ
: حلال کیا گیا
لَهُمْ
: ان کے لیے
قُلْ
: کہ دیں
اُحِلَّ
: حلال کی گئیں
لَكُمُ
: تمہارے لیے
الطَّيِّبٰتُ
: پاک چیزیں
وَمَا
: اور جو
عَلَّمْتُمْ
: تم سدھاؤ
مِّنَ
: سے
الْجَوَارِحِ
: شکاری جانور
مُكَلِّبِيْنَ
: شکار پر دوڑائے ہوئے
تُعَلِّمُوْنَهُنَّ
: تم انہیں سکھاتے ہو
مِمَّا
: اس سے جو
عَلَّمَكُمُ
: تمہیں سکھایا
اللّٰهُ
: اللہ
فَكُلُوْا
: پس تم کھاؤ
مِمَّآ
: اس سے جو
اَمْسَكْنَ
: وہ پکڑ رکھیں
عَلَيْكُمْ
: تمہارے لیے
وَاذْكُرُوا
: اور یاد کرو (لو)
اسْمَ
: نام
اللّٰهِ
: اللہ
عَلَيْهِ
: اس پر
وَاتَّقُوا
: اور ڈرو
اللّٰهَ
: اللہ
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
سَرِيْعُ
: جلد لینے والا
الْحِسَابِ
: حساب
تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لئے حلال ہیں (ان سے) کہہ دو کہ سب پاکیزہ چیزیں تم کو حلال ہیں۔ اور وہ (شکار) بھی حلال ہے جو تمہارے لئے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہو۔ اور جس (طریق) سے خدا نے تمہیں (شکار کرنا) سکھایا ہے۔ (اس طریق سے) تم نے انکو سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں اس کو کھالیا کرو اور (شکاری جانوروں کے چھوڑنے وقت) خدا کا نام لیا کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بیشک خدا جلد حساب لینے والا ہے۔
شکاری جانوروں کے بارے میں حکم قول باری ہے وماعلمتم من الجوار۔ اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھایا ہو) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیا ن کی، انہیں یعقوب بن غیلان عمانی نے، انہیں ہناد بن السری نے ، انہیں یحییٰ بن زکریا، انہیں ابراہیم بن عبید نے انہیں ابان بن صالح نے قعقاع بن حکیم سے انہوں نے سلمی سے انہوں نے حضرت ابورافع ؓ سے کہ حضور ﷺ نے مجھے کتوں کو ہلاک کرنے کا حکم دیا تھا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ نے کتوں کو ہلاک کرنے کا حکم دیا ہے ان میں سے کس قسم کے رکھنا ہمارے لئے حلال ہے ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ارشاد ہوا قل احل لکم الطیبات وما علمتم من الجوارح۔ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی انہیں عبداللہ بن احمد بن حنبل اور ابن عبدوس بن کامل نے ان دونوں کو عبید اللہ بن عمر الحشمی نے انہیں ابومعشرالنواء نے انہیں عمرو بن بشیر نے، انہیں عامر شعبی نے حضرت عدی بن حاتم ؓ سے کہ جب میں نے حضور ﷺ سے کتوں کے ذریعے شکار کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے جواب دینے میں توقف کیا حتی کہ آیت وماعلمتم من الجوارح مکلبین نازل ہوئی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہر حدیث اول اس بات کا مقتضی ہے کہ اباحت ان تمام شکاری جانوروں کو شامل تھی جنہیں ہم نے سدھایا ہو۔ یہ شکاری کتوں اور شکاری پرندوں سب کو شامل ہے۔ یہ چیز ان جانوروں اور پرندوں سے ہر قسم کے انتفاع کی موجب ہے اس میں کتوں کی خرید و فروخت نیز شکاری جانوروں کی خرید و فروخت اور ان سے ہر قسم کے انفاع کے جواز کی دلالت موجود ہے سوائے اس انتفاع کے جس کی تخصیص کسی دلیل نے کردی ہے۔ یعنی ان کے گوشت کا استعمال۔ بعض اہل علم نے سلسلہ کلام میں حذف کا قول کیا ہے اور اس کا مفہوم یوں بیان کیا ہے۔” قل احل لکم الطیبات من صید ماعلمتم من الجوارح، (کہہ دو تمہارے لئے ان شکاری جانوروں کے پاکیزہ شکار کو حلال کردیا گیا ہے جنہیں تم نے شکار کی تعلیم دی ہے) ۔ انہوں نے اس مفہوم کے لئے حضرت عدی بن حاتم ؓ کی روایت سے جس کا ہم ذکر کر آئے ہیں اور جس کے مطابق انہوں نے حضور ﷺ سے کتے کے کئے ہوئے شکار کے بارے میں دریافت کیا تھا اور اس پر آیت وماعلمتم من الجوارح مکلبین نازل ہوئی تھی استدلال کیا ہے۔ انہوں نے حضرت ابورافع کی روایت سے بھی استدلال کیا ہے جس کے مطابق حضور ﷺ نے جب کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تو آپ سے پوچھا گیا کہ کس قسم کے کتے رکھنا حلال ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اس میں کوئی امتناع نہیں کہ آیت کتوں اور کتوں کے کئے ہوئے شکار دونوں سے فائدہ اٹھانے کے مفہوم پر مشتمل ہو۔ تاہم لفظ اپنے حقیقی معنی کے لحاظ سے خود کتوں سے انتفاع کا مقتضی ہے۔ اس لئے کہ قول باری وماعلمتم ان جانوروں کی اباحت کا موجب ہے جنہیں ہم نے شکار کی تعلیم دی ہے اس کلام میں شکار کے لفظ کی محذوف ماننے کے لئے دلالت کی ضرورت ہے۔ اور آیت کے مضمون میں ان کے کئے ہوئے شکار کی اباحت کی دلیل موجود ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے فکلوامما امسکن علیکم، وہ جس جانور کو تمہارے لئے پکڑ رکھیں اس کو بھی تم کھا سکتے ہو ) آیت کو دو معنوں پر محمول کرنا اور اسے دو فائدوں کے لئے عمل میں لانا اسے صرف ایک معنی اور فائدے تک محدود کردینے سے بہتر ہے۔ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ شکاری جانوروں کے شکار کی اباحت کے لئے ان جانوروں کا شکار کے سلسلے میں سدھایا ہوا ہونا شرط ہے کیونکہ قول باری ہے وماعلمتم من الجوارح ) نیز فرمایا (تعلمونھن مما علمکم اللہ) جن کو خدا کے دیئے ہوئے علم کی بنا پر تم شکار کی تعلیم دیا کرتے ہو) ۔ جوارح یعنی شکاری جانوروں کے متعلق ایک قول ہے کہ یہ وہ جانور ہیں جو اپنے مالکوں کے لئے شکار حاصل کرتے ہیں یہ کتے اور چیز پھاڑ کرنے والے پرندے ہیں جو دوسرے پرندوں کا شکار کرتے ہیں جوارح کی واحد جارح ہے اسی سے ہاتھ کو جارحہ کا نام دیا گیا ہے کیونکہ اس کے ذریعے کمائی کی جاتی ہے۔ ارشاد باری ہے ماجرحتم بالنھار) یعنی جو تم کماتے ہو اسی سے یہ قول باری ہے ام حسب الذین اجترحوا السیئات، کیا ان لوگوں نے جو گناہوں کی کمائی کرتے ہیں یہ گمان کیا ہے…یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ ہر اس جانور کے ذریعے شکار کرنا جائز ہے جسے شکار کی تعلیم دی گئی ہو اس میں کچلی کے دانت والے تمام جانور اور جنگلوں والے تمام پرندے داخل ہیں۔ جوارح کے بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد وہ جانور اور پرندے ہیں جو کچلی کے دانت اور چنگل کے ذریعے زخمی کردیتے ہیں امام محمد نے زیادات میں کہا ہے کہ اگر کتا شکار سے ٹکرا جائے اور اسے زخمی نہ کرے اور شکار اس ٹکر کی وجہ سے مرجائے تو اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا کیونکہ وہ شکار کچلی کے دانت یا چنگل کے ذریعے زخمی نہیں ہوا تھا۔ آپ قول باری وماعلمتم من الجوارح مکلبین) کو نہیں دیکھتے یہ آیت اس جانور کے شکار کو حلال قرار دیتی ہے جو کچلی کے دانت یا چنگل کے ذریعے شکار کو زخمی کردیتا ہے جب اسم کا اطلاق ان دونوں چیزوں پر ہوتا ہے تو لفظ سے یہ دونوں چیزیں مراد لینے میں کوئی امتناع نہیں ہے۔ کو اسب سے وہ جانور مراد ہوں گے جو شکار کرنے کے ذریعے اپنے مالکوں کے لئے کمائی کرتے ہیں۔ اس میں شکاری جانوروں کے تمام اصناف کتے ، چیتے، چیرپھاڑ کرنے والے پرندے اور دیگر جانور شامل ہوجائیں گے جو شکار کی تعلیم قبول کرلیتے ہیں اس سے یہ بھی حاصل ہوگا کہ ذکاۃ کی شرط یہ ہے کہ ہلاک شدہ شکار کو زخم لگے ہوں اور زخمی ہونا ہی اس کے شرعی ذبح یعنی ذکاۃ کی شرط ہے۔ یہ اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ بےپروں والے تیر کے بارے میں حضور ﷺ کی حدیث میں زخم مراد ہے آپ نے فرمایا تھا ” اگر معراض یعنی بےپر کا تیر اپنی دھار سے جسم میں پیوست ہوجائے تو اس کا گوشت کھالو اور اگر عرضاً لگے تو نہ کھائو “۔ ہمیں جب حضور ﷺ کا کوئی ایسا حکم ملے جو اس بات کے ہم معنی ہو جس کا وجود قرآن میں ہو تو اس صورت میں قرآن کی مراد کو اس حکم پر محمول کرنا واجب ہوگا اور یہ سمجھا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ کا منشا بھی یہی ہے۔ قول باری ہے مکلبین ، تم نے سدھایا ہو) اس کی تفسیر میں دو قول ہیں۔ اول یہ کہ مکلب کتے کا مالک ہے جو اسے شکار کی تعلیم دیتا ہے اور اسے اس کے طریقے سکھاتا ہے دوم یہ کہ اس کے معنی ہیں ” مضرین علی الصید “ یعنی شکار پر بھڑکاتے ہو جس طرح کتے بھڑکائے جاتے ہیں “۔ تکلیب کے معنی تضریہ یعنی بھڑکانے کے ہیں۔ کہا جاتا ہے ” کلب کلب “ یعنی کتے کو لوگوں پر بھڑکایا گیا۔ قول باری مکلبین میں کتوں کی تخصیص نہیں ہے۔ دوسرے شکاری جانور بھی اس میں داخل ہیں۔ اس لئے کہ تضریہ یعنی بھڑکانے کا عمل ان سب کے لئے عام ہے اس طرح اگر اس قول باری سے کتے کی تعلیم و تادیب مراد لی جائے تو یہ معنی بھی تمام شکاری جانوروں کے لئے عام ہوگا۔ شکرے اور باز کے شکار پر آرائے ائمہ جس شکار کو کتوں کے علاوہ دوسرے شکاری جانور قتل کردیں اس کے متعلق اختلاف رائے ہے۔ مروان العمری نے نافع سے انہوں نے علی بن حسین ؓ سے روایت کی ہے کہ شکارا یعنی چرغ اور باز ان شکاری جانوروں میں سے ہیں جنہیں سدھایا جاتا ہے۔ معمر نے لیث سے روایت کی ہے کہ مجاہد سے باز اور چیتے اور شکاری درندوں کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ سب جوارح یعنی شکاری جانور ہیں۔ ابن جریح نے مجاہد سے قول باری من الجوارح مکلبین کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ اس سے مراد پرندے اور کتے ہیں، معمر نے طائوس کے بیٹے سے اور انہوں نے اپنے والد سے اس آیت کی تفسیر میں یہ نقل کیا ہے کہ جوارح سے مراد کتے ہیں نیز سدھائے ہوئے باز اور چیتے بھی مراد ہیں۔ اشعث نے حسن سے اس سلسلے میں نقل کیا ہے کہ جوارح سے شکار ا اور باز مراد ہیں اور چیتا بمنزلہ کتے کے ہے۔ صخربن جویریہ نے نافع سے روایت کی ہے ان کا کہنا ہے کہ میں نے حضرت علی ؓ کی ایک تحریر میں پڑھا ہے کہ باز کا مارا ہوا شکار کھانا درست نہیں ہے ابن جریج نے نافع سے روایت کی ہے کہ حضرت عبداللہ کا قول ہے کہ باز وغیرہ شکاری پرندے جو شکار پکڑیں اگر تم اسے ذبح کرلو تو اس کا گوشت کھا سکتے ہو اگر ذبح نہ کر پائو تو اسے نہ کھائو، سلمہ بن علقمہ نے نافع سے روایت کی ہے کہ حضرت علی ؓ شکرے کے مارے ہوئے شکار کو مکروہ سمجھتے تھے وہ یہ کہتے کہ قول باری مکلبین سے صرف کتے مراد ہیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ درج بالا اقوال کی روشنی میں ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سلف میں سے بعض نے مکلبین کی تاویل و تفسیر صرف کتے کی ہے بعض نے کتے وغیرہ مراد لئے ہیں۔ یہ بات تو واضح ہے کہ قول باری وماعلمتم من الجوارح) کتوں اور شکاری پرندوں دونوں کو شامل ہے۔ پھر اس کے بعد قول باری مکلبین میں احتمال ہے کہ اس سے کتے مراد لئے جائیں اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے وہ تمام شکاری جانور مراد لئے جائیں جن کا پہلے ذکر گزر چکا ہے ان میں شکاری کتے بھی شامل ہیں اس صورت میں مکلبین کے معنی ” مودبین “ یا ” مضرین “ (ادب سکھانے والے، بھڑکانے والے) ہوں گے۔ پھر اس میں کتوں کی تخصیص باقی نہیں رہے گی دوسرے شکاری جانور بھی شریک ہوں گے۔ اس وضاحت کی روشنی میں ہم یہ کہیں گے کہ آیت کو عموم پر محمول کرنا واجب ہے اور احتمال کی بنا پر اس کی تخصیص درست نہیں ہے ہمیں فقہاء امصار کے درمیان شکاری پرندے کے پکڑے ہوئے شکار کی اباحت کے متعلق کسی اختلاف کا علم نہیں ہے خواہ اس شکاری پرندے نے شکار کو ہلاک ہی کیوں نہ کردیا ہو۔ پرندے کا کیا ہوا شکار کتے کے کلئے ہوئے شکار کی طرح ہے۔ ہمارے اصحاب امام مالک، سفیان ثوری، اوزاعی، لیث اور امام شافعی کا قول ہے کہ چنگل والے سدھائے ہوئے شکاری پرندوں اور کچلیوں والے سدھائے ہوئے درندوں کا کیا ہوا شکار درست ہے۔ ظاہر آیت بھی اس قول کی تائید میں ہے اس لئے کہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے شکاری جانوروں یعنی جوارح کے کئے ہوئے شکار کی اباحت کردی ہے۔ یہ ان تمام جانوروں پر مشتمل ہے جو اپنی کچلیوں یا اپنے چنگلوں کے ذریعے شکار کو زخمی کردیتے ہوں اور اپنے مالکوں کے لئے شکار کرنے کے ذریعے کمائی کرتے ہوں آیت کے اندر اس سلسلے میں کتے اور دوسرے جانور کے درمیان فرق نہیں کیا گیا ہے۔ قول باری وماعلمتم من الجوارح) اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان جانوروں کے پکڑے ہوئے شکار کی اباحت کی یہ شرط ہے کہ یہ جانور سدھائے ہوئے ہوں۔ اگر یہ سدھائے ہوئے نہیں ہوں گے اور شکار کو پکڑ کر ہلاک کردیں گے تو وہ مذ کی یعنی شرعی ذبیحہ نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ آیت میں خطاب باری کا انداز بیان یہ ہے کہ شکار کی حلت کے متعلق سائلین کے سوال کے جواب میں اس کا ورود ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سدھائے ہوئے شکاری جانوروں کے کئے ہوئے شکار کی مطلقاً اباحت کردی اور یہ انداز بیان ان تمام صورتوں کو شامل ہے جو اس اباحت کے تحت آتی ہیں اور اطلاق جن پر مشتمل ہے اس لئے کہ سوال شکار کی تمام حلال صورتوں کے متعلق کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آیت میں شکاری جانوروں کے بیان کردہ اوصاف کے ذریعے جو اب کی تخصیص کردی۔ اس لئے اب شکار کی صرف اسی صورت کو مباح سمجھا جائے گا جو آیت میں مذکورہ وصف پر مشتمل ہوگی۔ پھر ارشاد ہوا تعلمونھن مما علمکم اللہ ) حضرت سلیمان ؓ اور حضرت سعد ؓ سے مروی ہے کہ اس تعلیم سے شکاری جانوروں کو شکار کے لئے بھڑکانا اور انہیں اس کا خوگر بنانا مراد ہے۔ شکاری جانور کو اپنے مالک سے اس قدر ہل جانے کا عادی بنادیا جائے کہ شکار پر چھوڑے جانے کے بعد وہ اس کی طرف واپس لوٹ جائے اور اس سے چھوٹ کر بھاگ نہ جائے۔ حضرت ابن عمر ؓ اور سعید ابن المسیب کا بھی یہی قول ہے انہوں نے یہ شرط نہیں لگائی ہے کہ شکاری جانور شکار کو پکڑے کے بعد اس میں سے کچھ نہ کھائے لیکن ان کے علاوہ دوسرے حضرات سے مروی ہے کہ ترک اکل یعنی کچھ نہ کھانا بھی کتے کے سدھانے میں داخل ہے اور پکڑے ہوئے شکار کی اباحت کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ کتا اس شکار میں سے کچھ نہ کھائے اگر کتے نے کھالیا تو وہ شکار حرام ہوجائے گا اور اس کا گوشت ناقابل استعمال ہوجائے گا۔ حضرت ابن عباس ؓ حضرت عدی بن حاتم ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ کا یہی قول ہے ان سب حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ باز کا پکڑا ہوا شکار حلال ہے خواہ باز اس میں سے کچھ کھا بھی لے۔ باز کی تعلیم صرف یہی ہے کہ جب تم اسے آواز دو تو تمہاری آواز سن کر فوراً تمہارے پاس آجائے۔ اس بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف آراء کا ذکر امام ابوحنیفہ امام ابویوسف امام محمد اور زفر کا قول ہے کہ اگر کتا اپنے پکڑے ہوئے شکار میں سے کھالے تو اسے غیر معلم سمجھا جائے گا اور اس کا شکار درست نہیں ہوگا البتہ باز کے پکڑے ہوئے شکار کو کھالیا جائے گا خواہ اس نے اس میں سے کچھ کھالیا ہی کیوں نہ ہو۔ سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک، اوزاعی اور لیث کا قول ہے کہ خواہ کتا شکار میں سے کچھ کھا بھی لے شکار کے گوشت کا استعمال درست ہوگا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر کتا کھالے تو شکار کا گوشت قابل استعمال نہیں ہوگا۔ نیز قیاس کے لحاظ سے باز کا بھی یہی حکم ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں سلف میں سے جن حضرات نے چیر پھاڑ کرنے والے شکاری پرندوں کے پکڑے ہوئے شکار کو جائز قرار دیا ہے وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ ان شکاری پرندوں کا پکڑا ہوا شکار حلال ہے اس کا گوشت قابل استعمال ہے خواہ شکاری پرندے نے اس میں سے کچھ کھا کیوں نہ لیا ہو۔ ان میں حضرت سعد، حضرت ابن عباس حضرت سلمان، حضرت ابن عمر حضرت ابوہریرہ ؓ اور سعید بن المسیب شامل ہیں۔ البتہ ان حضرات کے درمیا ن کتے کے شکار کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت علی ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ حضرت عدی بن حاتم ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ سعید بن جبیر اور ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ اگر شکاری کتا اپنے شکار میں سے کچھ کھالے تو اس کا شکار نہیں کھاجائے گا۔ حضرت سلمان حضرت سعد اور حضرت ابن عمر ؓ کا قول ہے کہ یہ شکار کھایا جائے گا خواہ کتے نے صرف اس کا ایک تہائی کیوں نہ چھوڑا ہو حسن عبید بن عمیر، عطار، سلیمان بن یسار، اور ابن شہاب زہری کا یہی قول ہے ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے بھی ایک روایت یہی ہے۔ ابوبکر حبصاص ان اقوال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کتے کے مزاج اور اس کی حالت سے یہ بات واضح ہے کہ اگر اسے پکڑے ہوئے شکار کو نہ کھانے کی تربیت دی جائے تو وہ اس تربیت کو قبول کرلیتا ہے اس لئے اسے شکار نہ کھانے کی تعلیم اور تربیت دینا ممکن ہے اور اس کا شکار کے گوشت میں سے کچھ نہ کھانا اس کی تعلیم کی علامت ہے اور اس کے معلم یعنی سدھائے ہوئے ہونے کی دلیل ہے۔ اس لئے اس کے پکڑے ہوئے شکار کی ذکاۃ کی صحت کے لئے اس میں سے کچھ نہ کھانا شرط قرار دیا جائے گا اور اگر اس نے کچھ کھالیا تو یہ اس شکار کی ذکاۃ کی صحت کے لئے مانع بن جائے گا۔ جہاں تک باز کا تعلق ہے تو اس کے متعلق یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اسے ترک کل کی تعلیم نہیں دی جاسکتی کیونکہ اس کی تعلیم کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اور یہ بات درست نہیں ہوسکتی کہ اللہ تعالیٰ اسے ایسی بات سکھانے کا مکلف بنا دے جسے وہ سیکھ نہیں سکتا اور جس کی تربیت کو وہ قبول نہیں کرسکتا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ترک اکل باز اور شکار ی پرندوں کی تعلیم کا جز نہیں ہے بلکہ یہ کتے کی تعلیم اور اس کی تربیت کا جز ہے کیونکہ وہ اسے قبول کرتا ہے اور اسے اس کی تربیت دینا ممکن بھی ہے۔ حضرت علی ؓ اور دوسرے حضرات سے اس بارے میں جو بات مروی ہے کہ باز کا ہلاک شدہ شکار ناقابل استعمال ہے وہ شاید اس لحاظ سے ہے کہ ان حضرات کے نزدیک ترک اکل تعلیم کی شرط ہے لیکن یہ بات پرندوں میں ممکن نہیں ہے اس لئے پرندے نہ تو سدھائے جاسکتے ہیں اور نہ ہی ان کا ہلاک کردہ شکار پاک ہوسکتا ہے۔ البتہ ان حضرات کی یہ بات اس پر منتج ہوتی ہے کہ شکاری پرندوں کے متعلق تعلیم کے ذکر کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کیونکہ ان کا پکڑا ہوا شکار پاک اور حلال ہو نہیں سکتا اور اس لحاظ سے سدھایا ہوا اور نہ سدھایا ہوا پرندہ دونوں کی ایک حیثیت ہوتی ہے۔ آیت کی رو سے یہ بات درست نہیں ہوسکتی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام شکاری جانوروں کے لئے حکم کی تعمیم کردی ہے اور انہیں سدھانے کی شرط لگا دی ہے اس لحاظ سے اس نے کتے اور پرندے میں کوئی فرق نہیں رکھا ہے۔ اس لئے ان جانوروں کے متعلق عموم لفظ کا استعمال واجب ہے اس لئے شکاری پرندوں میں سے بھی سدھائے ہوئے ہوں گے اور کتوں سے بھی اگرچہ پرندوں اور کتوں کی تعلیم اور شکار کے لئے ان کی تربیت کے طریقے مختلف ہوں گے کتوں اور ان جیسے دوسرے شکاری جانوروں کی تعلیم کے اندر یہ بات داخل ہوگی کہ وہ شکار کا کوئی حصہ خود نہ کھائیں۔ اسی طرح شکاری پرندوں کی تعلیم کے اندر یہ بات داخل ہوگی کہ جب مالک آواز دے تو فوراً آجائے۔ اس سے وہ مانوس ہو اور اس سے بدک کر نہ بھاگے اس طرح آیت میں جن شکاری جانوروں کا اجمالا ً ذکر ہے تعلیم ان سب کو عام ہوگی۔ کتے اور اس جیسے شکاری جانوروں کے پکڑے ہوئے شکار کی ذکاۃ کی صحت کی ایک شرط یہ ہے کہ وہ شکار میں سے کچھ نہ کھائیں۔ اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ ارشاد باری ہے فکلوا مما امسکن علیکم جس شکار کو وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں ان میں سے کھالو) کتا اگر کسی شکار کو پکڑ رکھے گا تو یہ معلوم کرنے کے لئے کہ آیا یہ شکار اس نے اپنے واسطے پکڑا ہے یا اپنے مالک کے واسطے یہ دیکھا جائے گا کہ وہ اس سے کچھ کھاتا ہے یا نہیں۔ اگر پہلی صورت ہوگی تو یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ اس نے یہ شکار اپنے لئے پکڑا تھا دوسری صورت اس بات کی دلیل ہوگی کہ اس نے اسے مالک کے لئے پکڑا تھا گویا ان دونوں صورتوں میں ترک اکل ہی فرق کا باعث ہے۔ اگر ترک اکل کی شرط نہ ہوتی تو درج بالا آیت کا فائدہ زائل ہوجاتا۔ اب چونکہ ترک اکل اس بات کی علامت ہے کہ اس نے یہ شکار اپنے مالک کے لئے پکڑ رکھنے کی شرط صرف کتوں اور ان جیسے شکار ی جانوروں کے اندر ہے لیکن شکاری پرندوں کے لئے شکار کو اپنے مالک کی خاطر روک رکھنے کی شرط نہیں ہے جیسا کہ ہم اس کی وجہ بحث کے آغاز میں بیان کر آئے ہیں۔ کتے کے متعلق یہ حکم کہ مالک کے لئے اس کے شکار پکڑنے کی علامت یہ ہے کہ وہ اس میں سے کچھ نہ کھائے اور جب کھالے تو وہ اپنے لئے شکار پکڑنے والا سمجھا جائے گا۔ اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ جب کتا اس میں سے کھالے تو تم نہ کھائو لیکن اس صورت میں اس نے اپنے لئے یہ شکار پکڑا تھا “۔ حضرت ابن عباس ؓ نے یہ بتادیا کہ کتے کے شکار کو منہ نہ لگانا اس بات کی علامت ہے کہ اس نے یہ شکار مالک کے لئے پکڑا تھا جب امساک کا اسم اس صورت کو شامل ہے جس کا حضرت ابن عباس ؓ نے ذکر کیا ہے اور اگر اسے شامل نہ ہوتا تو آپ آیت کی تاویل میں یہ بات نہ کہتے تو اب آیت کو اسی معنی پر اس طرح محمول کرنا واجب ہے کہ گویا امساک کا لفظ اب اسی مفہوم کے لئے اسم بن گیا ہے۔ حضور ﷺ سے بھی اسی قسم کی روایت منقول ہے اس لئے دو وجوہ سے اس کی حجیت ثابت ہوگئی ایک تو یہ کہ یہ آیت کے معنی اور اس کی مراد کا بیان ہے اور دوسری یہ کہ سنت کی رو سے اس کی تحریم منصوص ہوگئی۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی نہیں بشرین موسیٰ نے انہیں الحمیدی نے انہیں سفیان نے انہیں مجالد نے شعبی سے انہوں نے حضرت عدی بن حاتم ؓ سے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ سے سدھائے ہوئے کتے کے پکڑے ہوئے شکار کے بارے میں د ریافت کیا تو آپ نے فرمایا اذا ارسلت کلبک المعروذکرت اسم اللہ فکل مما امسک علیک فان اکل منہ فلاتاکل فانما امسک علی نفسہ جب تم اپنا سدھایا ہو اکتا شکار پر چھوڑو اور چھوڑتے وقت اللہ کا نام لے لو تو جو شکار وہ تمہارے لئے پکڑ رکھے اسے کھالو اور جس میں سے وہ بھی کھالے اسے نہ کھائو کیونکہ اس صورت میں اس نے یہ شکار اپنے لئے پکڑا تھا) ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی انہیں ابودئود نے انہیں محمد بن کثیر نے انہیں شبہ نے عبداللہ بنابی السفہ نے شعبی سے کہ عدی بن حاتم ؓ نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ سے معراض بےپروں والے تیر کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا اگر شکار کو اس کی دھار لگ جانے تو کھالو اور عرضاً اسے لگے تو نہ کھائو اس لئے کہ یہ دقیذ یعنی چوٹ کھا کر مرنے والا جانور ہوگا) ۔ میں نے عرض کیا کہ میں اپنا سدھایا ہوا کتا شکار پر چھوڑتا ہوں اس کے بعد میں اس کے ساتھ ایک اور کتا بھی دیکھتا ہوں اس پر آپ نے فرمایا فلاتاکل لاک انما سمیتع علی کلبک پھر نہ کھائو کیونکہ تم نے تو صرف اپنا کتا چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھی تھی) اس حدیث سے قول باری فکلوا مما امسکن علیکم میں اللہ کی مراد ثابت ہوگئی اور حضور ﷺ نے نصاً اس شکار کے گوشت کی نہی کردی جس میں سے کتے نے بھی کھالیا ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ حبیب المعلم نے عمرو بن شعیب سے روایت کی ہے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے عمرو کے دادا حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے کہ حضور ﷺ نے ابو ثعلبہ ؓ الخشنی سے فرمایا تھا کتا تمہارے لئے جو شکار پکڑ رکھے اسے کھالو) ابو ثعلبہ ؓ نے پوچھا ” خواہ کتا اس شکار کا کچھ حصہ کھاجائے “ آپ نے جواب دیا وان اکل منہ، خواہ کتا اس میں سے کچھ کھاجائے) ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ابو ثعلبہ ؓ کی روایت میں یہ فقرہ غلط ہے وہ اس لئے کہ ابوثعلبہ سے اس حدیث کی ابوادریس خولانی اور ابواسماء وغیرہ ہما نے بھی روایت کی ہے اور ان دونوں نے اس روایت میں یہ فقرہ بیان نہیں کیا ہے علاوہ ازیں اگر حضرت ابو ثعلبہ ؓ سے یہ روایت درست بھی ہوجائے پھر بھی حضرت عدی بن حاتم ؓ کی روایت دو وجہ سے اولیٰ ہوگی۔ اول یہ کہ حضرت عدی ؓ کی روایت ظاہر آیت فکلوامما امسکن علیکم۔ سے مطابقت رکھتی ہے۔ دوم یہ کہ ابو ثعلبہ ؓ کی روایت میں اس شکار کے کھانے کی ممانعت نہیں ہے جس میں سے شکار کرنے والے کتے نے بھی کھچ کھالیا ہو۔ اور یہ اصول ہے کہ جب دو روایتیں ایسی وارد ہوں کہ ایک میں ایک چیز کی ممانعت ہو اور دوسری کے اندر اس کی اباحت تو ممانعت والی روایت عمل کے لحاظ سے اولیٰ ہوگی۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری فکلوا مما امسکن علیکم کا مفہوم یہ ہے کہ شکاری کتا شکار کو ہلاک کرنے کے بعد مالک کے لئے اسے روکے رکھے بعینہ مالک کے لئے اس کے امساک یعنی پکڑے رکھنے کا مفہوم بھی یہی ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے کیونکہ ہلاکت کے بعد شکار تو محبوس ہوگیا اب اس کے بعدکتے کے مالک کے لئے اسے روکے رکھنے کے کوئی معنی نہیں۔ اگر یہ کہاجائے کہ کتے کا شکار کو قتل کردینا ہی مالک کے لئے روکے رکھنا ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بےمعنی بات ہے کیونکہ اس مفہوم کی بنا پر آیت کے معنی یہ ہوں گے۔ ” تم وہ شکار کھالو جسے شکاری جانوروں نے تمہارے لئے ہلاک کردیا ہو۔ “ یہ مفہوم آیت کے فائدے کو ساقط کردیتا ہے اس لئے کہ شکاری جانوروں کے ذریعے ہلاک ہونے والے شکار کی اباحث تو اس سے قبل کی آیت (وما علمتم من اجوارح) کے ضمن میں موجود ہے۔ اس آیت میں ان شکاری جانوروں کا کیا ہوا شکار مراد ہے جنہیں ہم نے اس مقصد کے لئے سدھایا ہو۔ یہ آیت اس شخص کے سوال کے جواب میں وارد ہوئی تھی جس نے مباح شکار کے متعلق پوچھا تھا۔ علاوہ ازیں امساک یعنی پکڑے رکھنا ہلاکت کے مفہوم سے عبارت نہیں ہے اس لئے کہ شکاری کبھی شکار کو ہمارے لئے زندہ حالت میں بھی روکے رکھتا ہے اور اسے ہلاک نہیں کرتا اس لئے امساک کا مفہوم اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ وہ شکار کو مالک کے آ جانے تک پکڑے رکھے۔ مالک کے لئے شکار کو پکڑے رکھنے کی صورت یا تو یہ ہوگی کہ وہ شکار کو ہلاک کئے بغیر روکے رکھے یا ہلاک کرنے کے بعد روکے رکھے گا یا اسے ہلاک کرنے کے بعد اس کا کوئی حصہ نہیں کھائے گا۔ یہ بات تو واضح ہے کہ آیت میں امساک سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ شکار کو ہلاک کئے بغیر زندہ حالت میں روکے رکھے کیونکہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ آیت میں یہ مفہوم مراد نہیں ہے۔ رہ گئی یہ صورت کہ وہ شکار کو زندہ حالت میں روکے رکھے و اس کا اس طرح روکے رکھنا شکار کی اباحت کے لئے شرط نہیں ہے کیونک ہ اگر بات اس طرح ہوتی تو پھر اس کے ہاتھوں ہلاک ہوجانے والے شکار کا کھانا حلال نہ ہوتا۔ یہ مراد لینا بھی جائز نہیں ہے کہ وہ شکار کو ہلاک کرنے کے بعد مالک کے لئے روکے رکھے خواہ اس میں سے کچھ کھالے کیونکہ یہ ایک بےمعنی بات ہوگی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے اس کے امساک کو شکار کی اباحت قرار دیا ہے اور اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے ک ہ اگر کتا شکار کو ہلاک کر کے واپس ہوجائے اور اسے مالک کے لئے روکے نہ رکھے تو اس شکار کا کھانا جائز ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ آیت میں یہ مفہوم مراد نہیں ہے، اس لئے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت میں امساک سے مراد ترک اکل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری (فکلوا مما امسکن علیکم) شکاری کتے کے منہ سے بچے ہوئے باقی ماندہ حصے کی اباحث کا مقتضی ہے کیونکہ کتے نے باقی ماندہ حصہ نہ کھا کر اسے ہمارے لئے روک رکھا ہے۔ البتہ جو حصہ اس نے کھالیا وہ گویا اس نے ہمارے لئے نہیں روکا۔ باقی ماندہ کو اس نے روک لیا اس لئے ظاہر آیت اس کے یعنی شکار کے باقی ماندہ حصے کی اباحت کا متقضی ہے کیونکہ اس پر آیت کا مفہوم صادق آتا ہے۔ اس کے جوا ب میں کہا جائے گا کہ یہ بات کئی وجوہ سے غلط ہے۔ اول یہ کہ امساک کے مفہوم کے متعلق سلف سے دو قول منقول ہیں، ایک تو یہ کہ شکاری جانور اس شکار میں سے کچھ نہ کھائے۔ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے اور دوسرا یہ کہ شکاری جانور شکار کو ہلاک کرنے کے بعد مالک کے لئے اسے روکے رکھے۔ سلف میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ شکاری جانور کا شکار کے ایک حصے کو کھا جانے کے بعد باقی ماندہ حصہ کو نہ کھانا امساک ہے۔ اس لئے یہ قول باطل ہوگیا۔ دوم یہ کہ حضور ﷺ نے فرمایا (اذا اکل منہ فلا تاکل فانما امسک علی نفسہ، اگر شکاری کتا شکار میں سے کچھ کھالے تو تم نہ کھائو کیونکہ اس صورت میں اس نے شکار کو اپنے لئے پکڑا تھا) آ نے شکار کے باقی ماندہ حصے کے متعلق یہ نہیں فرمایا ک ہشکاری جانور نے اسے ہمارے لئے پکڑ رکھا ہے۔ سوم یہ کہ اس صورت میں آیت کا مفہوم یہ ہوجائے گا جس شکار کو شکاری جانور نے ہلاک کردیا اس میں سے کھالو “ اور اس میں امساک کے ذکر کی گنجائش نہیں ہوگی کیونکہ یہ بات تو معلوم ہے کہ شکاری جانور نے شکار کا جو حصہ کھالیا ہے ممانعت کے دائرے میں اس کے آنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس سے آیت میں (مما امسک علیکم) کا ذکر کا فائدہ ساقط ہوجائے گا نیز شکاری جانور جب شکار کا کچھ حصہ کھاجائے گا تو اس سے ہمیں بات معلوم ہوگی کہ اس نے اپنے لئے یہ شکار کیا تھا اور اپنے لئے اسے پکڑے رکھا تھا، ہمارے لئے اس نے پکڑ کر نہیں رکھا تھا۔ پھر اگر وہ اس کا کچھ حصہ کھالے تو باقی ماندہ حصے کو نہ کھانے کی وجہ سے اس پر یہ مفہوم صادق نہیں آئے گا کہ اس نے یہ حصہ ہمارے لئے روکا تھا اس لئے کہ دراصل وہ باقی ماندہ حصہ بھی نہ چھوڑتا اگر وہ سیر نہ ہوجاتا۔ پیٹ بھر جانے کی وجہ سے اس نے یہ حصہ چھوڑ دیا تھا اور اسے اس کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ ہمارے لئے روکے رکھنے کی اس میں کوئی با ت نہیں تھی۔ اس نے ابتدا ہی سے شکار کا ایک حصہ کھالیا تھا یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ شکار کرنے کے بعد اس نے شکار کو ہمارے لئے نہیں پکڑا تھا۔ اس صورت حال کے تحت اس کی تعلیم کی صحت کے بارے میں ہمارے لئے غور کرنا ضروری ہوجائے گا، اس کی تعلیم تو یہ ہون ی چاہیے تھی کہ وہ ہمارے لئے شکار کرے اور ہمارے لئے اسے پکڑے رکھے جب وہ شکار کا ایک حصہ کھاجائے گا تو اس سے یہ بات معلوم ہوگی کہ اسے سدھانے اور شکار یک تعلیم دینے کا کام ابھی تک نامکمل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ کتا تو اپنےئے شکار کرتا ہے اور اسے اپنے لئے پکڑے رکھتا ہے۔ مالک کے لئے پکڑے نہیں رکھتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر شکار پر چھوڑنے کے وقت وہ شکم سیر ہو تو شکار پکڑتا ہی نہیں، شکار پر وہ اسی صورت میں جھپٹے گا کہ اس کا ایک حصہ خود کھالے۔ اس لئے شکار کا ایک حصہ کھا جانے سے تعلیم کی نفی نہیں ہوتی اور اس بات کی بھی نفی نہیں ہوتی کہ اس نے شکار کو ہمارے لئے نہیں پکڑے رکھا۔ اگر آپ کی بات کا اعتبار کیا جائے تو ہمیں کتے کی نیت اور اس کی پوشیدہ خواہش کے اعتبار کی ضرورت پیش آئے گی۔ یہ ایسی بات ہے جسے نہ ہم معلوم کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس کے متعلق ہمیں کوئی واقفیت ہوسکتی ہے بلکہ ہم تو اس بارے میں شک بھی نہیں کرسکتے کہ اس کی نیت اور اس کا ارادہ اپنی ذات کے لئے تھا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مقرض کا یہ کہنا درست نہیں کہ کتا اپنی ذات کے لئے شکار کرتا اور شکار کو پکڑے رکھتا ہے۔ کیونکہ اگر بات اس طرح ہوتی تو اس کی پٹائی اس حد تک نہ ہوتی کہ کھانا چھوڑ جائے، اور ترک اکل کی تعلیم ملنے کے باوجود وہ یہ بات نہ سیکھتا۔ جب وہ ترک اکل کی تعلیم ملنے پر کھان اچھوڑ دینے کی بات سیکھ جاتا ہے اور شکار میں سے کچھ نہیں کھاتا تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب وہ کھانا چھوڑ جائے گا تو شکار کو ہمارے لئے روکنے والا بن جائے گا اور اللہ کی مقرر کردہ شرط تعلیم کے مطابق وہ معلم یعنی سدھایا ہوا قرار پائے گا۔ اس صورت میں وہ اپنے مالک کے لئے شکار کرے گا اور اپنے مالک ہی کے لئے شکار کو پکڑے رکھے گا۔ معترض کا یہ کہنا کہ اگر کتا اپنے مالک کے لئے شکار کرتا تو شکم سیری کی حالت میں بھی وہ یہ کام کرتا تو اس میں بات دراصل یہ ہے کہ شکم سیری کی حالت میں جب مالک اسے شکار پر چھوڑتا ہے تو وہ مالک ہی کے لئے شکار کرتا اور مالک ہی کے لئے شکار کو پکڑے رکھتا ہے۔ اگر وہ سدھایا ہوا ہو تو شکار پر چھوڑے جانے کی صورت میں وہ شکار پکڑنے سے باز نہیں رہتا۔ معترض کا یہ کہنا کہ وہ شکار پر اس صورت میں جھپٹتا ہے کہ اس میں سے خود کچھ کھالے، تو یہاں بھی یہ بات ہوتی ہے کہ وہ شکار کا ایک حصہ کھاتا ضرور ہے مگر اس وقت جب کہ وہ شکار کو پہلے اپنے مالک کے لئے روک لیتا ہے۔ جہاں تک کتے کی پوشیدہ خواہش اور اس کی نیت کا تعلق ہے تو اسے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ شکار کی تعلیم ملنے اور اس کے سدھائے جانے کا کیا مقصد ہے، وہ اس مراد اور مقصد تک پہنچ جاتا اور اس سے آگاہ ہوجاتا ہے جس طرح گھوڑے کو یہ معلوم ہوتا ہے اسے ہنکانے اور اس پر چابک بلند کرنے کا کیا مقصد اور مراد ہے۔ کتے کو اس سلسلے میں جو تعلیم دی جاتی ہے وہ یہی ہوتی ہے کہ شکار کو نہ کھائے لیکن جب وہ شکار کو کھا لیتا ہے تو اس سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ اس نے اپنی ذات کے مقصد سے شکار پکڑا تھا، مالک کے مقصد سے شکار نہیں کیا تھا۔ اوپر ہم نے جو کچھ ذکر کیا ہے نیز یہ کہ کتے کی تعلیم کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب وہ ترک اکل سیکھ جاتا ہے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ کتا واضح طور پر ایک پالتو جانور ہے وحشی جانور نہیں ہے۔ اس لئے یہ کہنا درست نہ ہوگا ک ہا سے اس لئے سدھایا جاتا ہے کہ وہ پالتو جانور بن جائے اور وحشی نہ رہے اس لئے یہ ضروری ہوگیا کہ اس کی تعلیم کی تکمیل ترک اکل پر ہو۔ اس کے برعکس باز بنیادی طور پر چیر پھاڑ کرنے والا وحشی پرندہ ہے اس لئے اس کی تعلیم اس طرح نہیں ہوسکتی کہ اس یک پٹائی ہوتی رہے حتیٰ کہ وہ کھانا چھوڑ دے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اسے اپنے مالک سے مانوس ہونے اور اس سے وحشت دور کرنے کی تعلیم دی جائے کہ جب اس کا مالک اسے آواز دے تو وہ اس کی آواز پر اس کے پاس پہنچ جائے۔ جب اس کے اندر یہ صفت پیدا ہوجائے گی تو یہ سمجھا جائے گا کہ اس نے اپنی پہلی فطرت ترک کردی ہے اور اس سے ہٹ گیا ہے۔ یہ بات اس کی تعلیم کی تکمیل کی علامت بن جائے گی۔ قول باری (فکلوا مما امسکن علیکم) میں ایک قول یہ ہے کہ اس میں حرف من تبعیض کا مفہوم ادا کر رہا ہے اور تبعیض کے معنی یہ ہوں گے کہ شکاری جانور ہمارے لئے جو شکار پکڑ رکھیں گے ان میں سے بعض ہمارے لئے مباح ہوں گے سب کے سب مباح نہیں ہوں گے جس شکار کو یہ شکاری جانور زخمی کر کے ہلاک کردیں وہ مباح ہوگا اور جسے ٹکر مار کر زخمی کئے بغیر ہلاک کردیں وہ مباح نہیں ہوگا۔ بعض کا قول ہے کہ یہاں حرف من زائد ہے اور تاکید کے معنی دے رہا ہے جس طرح یہ قول باری ہے (یکفر عنکم من سیئاتکم) ابتدائے غایت ہے یعنی ” اللہ تعالیٰ ہمارے ان اعمال سئیہ کو بخش دے گا جن پر پردہ پڑا رہنا تمہیں پسند ہے۔ “ ان کے قول کے مطابق اس کے یہ معنی لینا بھی جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سیئاً میں سے ان گناہوں کی بخشش کر دے گا جن کی تکیفیر کا اس کی حکمت میں جواز نہیں۔ یہ معنی لینے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں تمام مکلفین کو خطاب ہے۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ جب شکاری کتا اپنے پکڑے ہوئے شکار میں سے کچھ کھاجائے اور اس نے اس سے پہلے بہت سے شکار پکڑے ہوں اور ان کے کسی حصے کو اس نے نہ کھایا ہو تو اس صور ت میں اس کے پہلے کئے ہوئے تمام شکار حرام ہوجائیں گے اس لئے کہ جب اس نے شکار میں سے کھالیا تو یہ ظاہر ہوگیا کہ ابھی تک معلم نہیں بنا یعنی اس کے سدھانے اور سکھانے کا کام مکمل نہیں ہوا۔ ابتدا میں ترک اکل کی بنا پر سیکھ جانے کا جو حکم لگایا گیا تھا وہ اجتہاد اور ظن غالب کی بنا پر تھا۔ اب شکار میں سے کھا لینے کی وجہ سے نفی تعلیم کا جو حکم لگایا جا رہا تھا وہ یقین کی بنا پر ہے۔ یقین کے ہوتے ہوئے اجتہاد کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ بعض دفعہ شروع ہی سے کتا سدھائے بغیر شکار کو نہیں کھاتا۔ جس طرح دوسرے تمام درندے اپنے شکار کو ہلاک کردینے کے بعد فوری طور پر اسے نہیں کھاتے، جب کتا اکثر اوقات شکار کو ہاتھ نہیں لگاتا تو اس پر ظن غالب کی بنیاد پر سیکھ جانے کا حکم لگایا جاتا ہے لیکن جس اس کے بعد وہ کھا لیتا ہے تو اس بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ اس نے ابھی سیکھا نہیں ہے اس لئے اس کے کئے ہوئے سابقہ تمام شکار حرم ہوجاتے ہیں۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ اگر کتا تین مرتبہ کھانا چھوڑ دے… تو وہ سدھایا ہوا شمار ہوگا۔ اگر اس کے بعد اس نے بیشمار شکار میں سے کھالیا تو اس کے سابقہ شکار حرام نہیں ہوں گے۔ کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ وہ تعلیم بھلا چکا ہو اس لئے صرف احتمال کی بنیاد پر اس کے وہ سابقہ شکار حرام قرار نہیں دیئے جائیں گے جن پر اباحت کا حکم لگ چکا ہے۔ یہاں یہ مناسب ہے کہ امام ابوحنیفہ کے مسلک کو اس پر محمول کیا جائے کہ کتے نے اس مدت کے دوران شکار میں سے کھالیا تھا جس میں وہ اپنی تعلیم بھلا نہیں سکتا تھا۔ اگر شکار کو طویل مدت گزر چکی ہو اور اس کے بعد کتا شکار کر کے اس میں سے کھالے تو اس کے سابقہ شکاروں کو حرام قرار دینا نہیں چاہیے جب کہ مدت کی طوالت اتنی ہو کہ اس کے لئے اپنی تعلیم کو بھلا دینا ممکن نظر آتا ہو۔ اس وضاحت کے بعد امام ابوحنیفہ اور آپ کے دونوں شاگردوں امام ابو یوسف اور امام محمد کے درمیان صرف یہ اختلافی نکتہ باقی رہ جائے گا کہ دونوں حضرات تعلیم کی شرط میں تین مرتبہ ترک اکل کا اعتبار کرتے ہیں جبکہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ آپ تعلیم کے حصول میں صرف ظن غالب کا اعتبار کرتے ہیں۔ اگر ترک کل کی وجہ سے ظن غالب یہ ہوجائے کہ اس پر سدھانے کا عمل مکمل ہوچکا ہے اور وہ اب تعلیم پا چکا ہے پھر تھوڑے عرصے کے بعد اسے شکار پر چھوڑا گیا ہو اور اس نے اس میں سے کھالیا ہو تو اس پر ان شکاروں کے سلسلے میں غیرمعلم ہونے کا حکم لگایا جائے گا جن میں سے اس نے کھایا نہیں تھا۔ لیکن ترک اکل کے بعد ایک مدت دراز گزر جانے پر اگر اسے شکار پر چھوڑا گیا ہو اور اس نے اس میں سے کھالیا ہو تو ظن غالب یہی ہوگا کہ مدت کی طوالت کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم بھلا چکا ہے۔ اس لئے اس کے کئے ہوئے سابقہ شکار حرام قرار نہیں دیئے جاسکتے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کا کہنا یہ ہے کہ جب اس نے تین مرتبہ شکار کر کے اس میں سے کچھ نہ کھایا ہو اس کے بعد شکار پکڑ کر اس میں سے کچھ کھالیا ہو تو چاہے مدت طویل ہو یا مختصر اس کے سابقہ شکاروں کو حرام قرار نہیں دیا جائے گا۔ یہ ہے وہ نکتہ جس پر امام ابوحنیفہ کا اپنے دونوں شاگردوں کے ساتھ اختلاف ہے۔ قول باری ہے (واذکروا اسم اللہ علیہ اس پر اللہ کا نام لو) حضرت ابن عباس ؓ حسن اور سدی کا قول ہے کہ اس سے شکاری جانوروں کو شکار پر چھوڑتے وقت اللہ کا نام لینا مراد ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ قول باری امر کے صیغے کے ساتھ مذکور ہے اور یہ ایجاب کا مقتضی ہے۔ اس میں یہ احتمال ہے کہ یہ اس اکل کی طرف راجع ہے جس کا ذکر قول باری (فکلوا مما امسکن علیکم) میں کیا گیا ہے اور یہ احتمال ہے کہ یہ ارسال کی طرف راجع ہے اس لئے کہ قول باری (وما علمتم من الجوارح مکلبین تعلمونھن مما علمکم اللہ) شکار پر سدھائے ہوئے شکاری جانور چھوڑنے کے معنی کو متضمن ہے، اس لئے بسم اللہ پڑھنے کے حکم کا اس کی طرف راح ہونا جائز ہے۔ اگر اس میں یہ احتمال نہ ہوتا تو سلف اس کی یہ تاویل نہ کرتے۔ جب بات اس طرح ہے اور بسم اللہ پڑھنے کا حکم اس کے ایجاب کو متضمن ہے اور دوسری طرف سب کا اس پر اتفاق ہے کہ کھانے پر بسم اللہ پڑھنا واجب نہیں ہے اس لئے بسم اللہ پڑھنے کے حکم پر شکاری جانوروں کو شکار پر چھوڑتے وقت عمل کرنا واج بوہ گیا کیونکہ یہ مختلف فیہ ہے۔ اب جب ارسال کے وقت بسم اللہ پڑھنا واجب ہوگیا تو یہ ذکاۃ کی ایک شرط بن گیا جس طرح شکاری جانوروں کی تعلیم اس کی ایک شرط ہے، اور جس طرح یہ بھی ایک شرط ہے کہ چھوڑنے والا ایسا شخص ہو جس کی ذکاۃ شرعی لحاظ سے درست قرار دی گئی ہو اور جس طرح دھار دار آلے کے ذریعے شکار کو لگے ہوئے زخم سے خون بہا دینا بھی ایک شرط ہے۔ آیت اس امر کی مقتضی ہے کہ جان بوجھ کر ترک تسمیہ پر ذکاۃ کا فساد لازم ہوجاتا ہے۔ یعنی شرعی طریقہ سے ذبح نہیں ہوتی اس لئے کہ امر کا ایجاب ناسی یعنی بھول جانے والے انسان کو لاحق نہیں ہوتا کیونکہ اسے امر کے ساتھ مخاطب بنانا درست نہیں ہوتا۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر بھول کر بسم اللہ پڑھنا چھوڑ گیا ہو تو ذکاۃ کی صحت میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنتی اس لئے کہ نسیان کی حالت میں وہ دراصل بسم اللہ پڑھنے کا مکلف ہی نہیں ہوتا۔ ہم ذبیحہ پر ایجاب تسمیہ کا قول باری (ولا تاکلوا مما لم یذکراسم اللہ علیہ) پر پہنچ کر تذکرہ کریں گے۔ انشاء اللہ۔ کتے کو شکار پر چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھنے کے متعلق روایت ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں محمد بن کثیر نے، انہیں شعبہ نے عبداللہ بن ابی السفر سے، انہوں نے شعبی سے کہ حضرت عدی بن حاتم ؓ نے فرمایا، ” میں نے شکار پر کتے کو چھوڑنے کے متعلق حضور ﷺ سے دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا، (اذا سمیت فکل والافلا تاکل و ان اکل مئتہ فلا تاکل فانما امسک علی نفسہ) جب تم بسم اللہ پڑھ لو تو کھالو، ورنہ نہ کھائو، اور اگر کتا اس شکار میں سے کھالے تو بھی نہ کھائو کیونکہ اس نے اپنی ذات کے لئے شکار پکڑا۔ حضرت عدی نے عرض کیا : ” میں اپنا کتا چھوڑتا ہوں اس کے ساتھ ایک اور کتا مل جاتا ہے “۔ آپ نے فرمایا (لا تاکل لانک انما سمیت علی کلبک پھر نہ کھائو کیونکہ تم نے صرف اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھی تھی) حضور ﷺ نے حضرت عدی ؓ کو اس شکار کے کھانے سے منع کردیا جس پر کتا چھوڑتے وقت بسم اللہ نہیں پڑھی تھی اور اس سے بھی جس کے شکار میں اپنے کتے کے ساتھ دوسرا کتا بھی شریک ہوگیا ہو جس پر بسم اللہ نہ پڑھی گئی ہو۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ شکار کی ذکاۃ کی صحت کی ایک شرط یہ ہے کہ اس پر شکاری جانور چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھی جائے۔ یہ بات اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ بسم اللہ پڑھنے کے وجوب کے لحاظ سے شکار پر شکاری جانور چھوڑنے کی حالت، جانور ذبح کرنے کی حالت کی طرح ہے۔ شکار کے سلسلے میں بہت سی باتوں کے اندر فقاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ اول مجوسی کے کتے کے ذریعے شکار کرنا جس کے متعلق ہمارے اصحاب، امام مالک، اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ مجوسی کا کتا اگر سدھایا ہوا ہو تو اس کے ذریعے شکار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگرچہ اسے سدھانے والا مجوسی ہو لیکن اسے شکار پر چھوڑنے والا مسلمان ہو۔ سفیان ثوری کا قول ہے مجوسی کے کتے کے ذریے شکار کرنے کو میں مکروہ سمجھتا ہوں الا یہ کہ شکاری کتا اپنا شکار اس تعلیم کی بنا پر پکڑتا ہو جو اس نے مسلمان کے ہاتھوں حاصل کی ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر قول باری (فلکوا مما امسکن علیکم) مجوسی کے کتے کے کئے ہوئے شکار کے جواز اور اس کے کھا لینے کی اباحت کا مقتضی ہے۔ آیت میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں کیا گیا کہ اس کا مالک مسلمان ہو یا مجوسی۔ نیز شکاری کتا تو ایک آلے کی طرح ہوتا ہے جس طرح ذبح کرنے کی چھری یا تیر چلانے کی کمان ہوتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ کتے کا حکم بھی اس لحاظ سے مختلف نہ ہو کہ اس کا مالک کون ہے۔ جس طرح ان تمام آلات کا حکم ہے جن کے ذریے شکار کیا جاتا ہے۔ نیز شکار کے سلسلے میں کتے کا اعتبار نہیں کیا جاتا بلکہ شکار پر کتا چھوڑنے والے کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی مجوسی کسی مسلمان کے کتے کے ذریعے شکار کرے تو اس کا کھانا جائز نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان کسی مجوسی کے کتے کے ذریعے شکار کرے تو اس کا کھانا جائز ہونا چاہیے۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری ہے (یسئلونک ماذا احل لھم قل احل لکم الطیبات وما علمتم من الجوارح مکلبین تعلمونھن مما علمکم اللہ) یہ بات ظاہر ہے کہ اس میں اہل ایمان سے طخاب ہے اس سلے یہ واجب ہوگا کہ شکار کی اباحت میں مسلمان کی تعلیم شرط قرار دی جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مجوسی کی دی ہوئی تعلیم یا تو مسلمان کی دی ہوئی تعلیم کی طرح ہوگی جس کی ذکاۃ کی اباحت میں شرط ہے یا مجوسی کی دی ہوئی تعلیم مسلمان کی دی ہوئی تعلیم سے کم ہوگی۔ اگر پہلی صورت ہوگی تو اس میں تعلیم پانے والے کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ حصول تعلیم کا اعتبار ہوگا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کتا ایک مسلمان کی ملکیت میں آ جائے اور اسے اسی طرح سدھایا گیا ہو جس طرح ایک مسلمان سدھاتا اور تعلیم دیتا ہے تو اس کا کیا ہوا شکار حلال ہوگا۔ اس طرح گویا ملکیت کا اعتبار نہیں ہوگا بلکہ تعلیم کا اعتبار یکا جائے گا۔ اگر مجوسی کی دی ہوئی تعلیم مسلمان کی دی ہوئی تعلیم سے کم ہوگی جس کی وجہ سے شکار کرتے وقت ذکاۃ کی بعض شرائط میں خلل واقع ہوجائے تو اس صورت میں یہ کتا سدھایا ہوا کتا نہیں کہلائے گا اور پھر اس کے کئے ہوئے شکار کی حلت کی ممانعت میں مجوسی اور مسلمان کی ملکیت کے حکم کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ رہ گیا قول باری (تعلمونھن مما علمکم اللہ) تو اس میں مسلمانوں کو خطاب ہے لیکن حصول تعلیم سے مقصد ہے کہ کتے کو درست طریقے سے سدھایا گیا ہو۔ اگر مجوسی کتے کو مسلمان کی دی ہوئی تعلیم کی طرح تعلیم دے دیتا ہے تو وہ بات حاصل ہوجاتی ہے جس کی آیت میں شرط لگائی گئی ہے۔ اس کے بعد مجوسی کی ملکیت کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ اگر شکار زندہ ہاتھ آ جائے تو اس کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ اگر کتے کا کیا ہوا شکار یا تیر کے ذریعے حاصل ہونے والا شکار شکاری کے زندہ ہاتھ آ جاتا ہے اور پھر مرجاتا ہے تو اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا اگرچہ اسے ذبح کرلینے کی اس کو قدرت نہ بھی حاصل ہو سکے حتیٰ کہ اس کی موت واقع ہوجائے۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ اگر اسے ذبح کرلینے کی اس کو قدرت حاصل نہ ہو سکے حتیٰکہ اس کی موت واقع ہوجائے تو وہ شکار حلال ہوگا خواہ اس کی موت شکار یکے ہاتھوں میں کیوں نہ واقع ہوگئی ہو۔ اگر اسے ذبح کرلینے کی قدرت حاصل ہو اور پھر وہ اسے ذبح نہ کرے تو اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا خواہ اس کے ہاتھوں میں نہ بھی پہنچا ہو۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ اگر شکاری کو اتنی قدرت ہو کہ شکار کو کتے سے لے کر ذبح کرلے اور پھر ذبح نہ کرے تو اس کا گوشت حلال نہیں ہوگا۔ اوزاعی کا قول ہے کہ جب اسے ذبح کرنا ممکن ہوا اور وہ ذبح نہ کرے تو اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا اور اگر اس کے ہاتھ آ جانے کے بعد اسے ذبح کرنا ممکن نہ ہو حتیٰ کہ اس کی موت واقع ہوجائے تو اس صورت میں وہ شکار حلال ہوگا۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر شکاری شکار کو کتے کے منہ میں پا کر اسے ذبح کرنے کے لئے اپنے موزے یا کمر بند سے چھری نکالنے لگے اور اسی دوران شکار ہلاک ہوجائے تو اسے کھایا جائے گا۔ اگر اپنے خوجین سے یا تھیلے سے چھری لینے چلا جائے اور ذبح کرنے سے قبل ہی شکار مرجائے تو اسے نہیں کھایا جائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ شکار جب زندہ اس کے ہاتھوں میں پہنچ جائے تو اس صورت میں ذبح اس کی ذکاۃ کی شرط ہوگی، ذبح کے امکان یا عدم امکان کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کتے کا پکڑا ہوا شکار صرف اس بنا پر حلال ہوتا ہے کہ اس تک رسائی متعذر ہوتی ہے اور وہ ناممکن الحصول ہوتا ہے صرف کتے کے ذریعے وہ قابو میں آسکتا ہے لیکن جب وہ شکاری کے ہاتھوں میں زندہ پہنچ جاتا ہے تو اس سے وہ سبب دور ہوتا ہے جس کی بنا پر کتے کے کئے ہوئے شکار کی اباحت ہوئی تھی اور اس کی حیثیت چوپایوں جیسی ہوجاتی ہے جنہیں موت کا خطرہ رہتا ہے۔ اس لئے ذبح کے ذریعے ہی اس کی ذکاۃ ہو سکے گی چاہے اس کی موت میں اتنا وقفہ ہو کہ اسے ذبح کرنے کی قدرت حاصل نہ ہو سکے یا قدرت حاصل ہوجائے۔ اصل بات یہ ہوتی ہے کہ شکار اس کے ہاتھوں میں زندہ موجود ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تمام چوپایوں کی ذکاۃ ذبح کے ذریعے صرف اس لئے ہوتی ہے کہ انہیں ذبح کرنا انسان کے بس میں ہوتا ہے۔ اگر چوپایہ اپنی طبعی موت مرجائے تو یہ ذکاۃ نہیں کہلائے گی۔ اگر شکار زندہ ہاتھ نہ آتا تو کتے یا تیر کے ذریعے لگا ہوا زخم اس کے لئے ذکاۃ قرار پاتا۔ اس لئے اگر وہ زندہ اس کے ہاتھ آ جائے لیکن وہ اتنی دیر تک زندہ نہ رہے کہ اسے ذبح کرلیا جائے تو اس صورت میں وہ ذبیحہ یعنی مذکیٰ شمار ہوگا۔ کتے یا تیر کے ذریعے لگا ہوا زخم اس کی ذکاۃ کے لئے کافی ہوگا اور اس کی حیثیت اس شکار جیسی ہوجائے گی جو موت کے بعد ہاتھ آیا ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس کی دو صورتیں ہیں، اول یہ کہ کتے نے اسے اس قدر زخمی کردیا ہو کہ اس کی زندگی کی بس اتنی رمق باقی ہو جتنی ذبح شدہ جانور کے اندر ذبح کے فوراً بعد ہوتی ہے۔ اس کی صورت یہ ہوگی کہ مثلاً کتے نے اس کی گردن کی رگیں، حلقوم اور نرخرہ کا ٹدیئے ہوں یا اس کا پیٹ پھاڑ دیا ہو جس سے اس کی آنتیں وغیرہ باہر نکل آئی ہوں۔ اگر شکار کی یہ حالت ہو تو کتے کا لگایا ہوا یہ زخم اس کے لئے ذکاۃ قرار دیا جائے گا خواہ اس کے بعد اس کی ذبح ممکن ہو یا ممکن نہ ہو۔ یہ وہ صورت وہ گی جس میں کتے کا لگایا ہوا زخم اس شکار کی شرعی ذبح یعنی ذکاۃ کا کام دے جائے گا خواہ اس کے بعد اس کی ذبح ممکن ہو یا ممکن نہ ہو۔ اس صورت میں کتے کا لگایا ہوا زخم شکار کے لئے ذکاۃ بن جائے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کتے یا تیر کے ذریعے لگایا ہوا زخم اس شکار کی شرعی ذبح یعنی ذکاۃ کا کام دے جائے گا خواہ اس کے بعد اس کی ذبح ممکن ہو یا ممکن نہ ہو۔ اس صورت میں کتے کا لگایا ہوا زخم شکار کے لئے ذکاۃ بن جائے گا۔ دوسری صوری یہ ہے کہ کتے یا تیر ک یذریے لگایا ہوا زخم مہلک نہ ہو اور اس جیسے زخم کے ساتھ ندہ رہنا ممکن ہو لیکن شکاری کے ہاتھ آنے کے بعد اس کی موت واقع ہوگئی ہو اور اس نے اتنا وقت نہ لیا ہو کہ اسے ذبح کرنے کی قدرت حاصل ہوسکتی تو اس صورت میں وہ شکار مکی نہیں ہوگا یعنی اسے شرعی ذبیحہ قرار نہیں دیا جائے گا۔ اس لئے کہ کتے یا تیر سے لگے ہوئے اس زخم کی رعایت اور لحاظ اس وقت کیا جاتا جب شکاری کے ہاتھ میں آنے سے پہلے شکار کی موت واقع ہوجاتی اور اس کے لئے اسے ذبح کرنا ممکن نہ ہوتا لیکن جب شکار زندہ اس کے ہاتھ میں آ جائے تو زخم کا اعتبار باطل ہوجائے گا اور اس کی حیثیت ان تمام چوپایوں کی طرح ہوجائے گی جنہیں زخم آتے ہیں۔ لیکن یہ زخم ان کے لئے ذکاۃ کا سبب نہیں بنتے۔ مثلاً اوپر سے لڑھک کر نیچے گر جانے والا جانور یا ٹکر کھا کر مرجانے والا چوپایہ وغیرہ۔ اس لئے اس صورت میں ذبح کے ذریعے ہی اس کی ذکاۃ ہوگی۔ اس شکار کے بارے میں بھی فقاء کے درمیان اختلاف رائے ہے جو شکاری کی نظروں سے بھگ کر اوجھل وہ جائے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد اور زفر کا قول ہے کہ جب شکار اور شکاری کتا دونوں شکاری کی نظروں سے اوجھل و جائیں اور وہ ان دونوں یکتلاش میں ان کے پیچھے رہے پھر اسے یہ دونوں اس حالت میں مل جائیں کہ شکار کتے کے ہاتھوں قتل ہوچکا ہو تو اس شکار کا گوشت حلال ہوگا۔ لیکن اگر شکاری نے ان کی تلاش ختم کر کے اپنے کوئی اور کام شروع کردیا ہو اور پھر انہیں اس حالت میں تلاش کرلیا ہو کہ شکار ہلاک ہوچکا اور کتا اس کے پاس موجود ہو تو ایسے شکار کا گوشت ہمارے نزدیک مکروہ ہوگا۔ تیر سے کئے ہوئے شکار کے متعلق بھی ہمارے اصحاب کی یہی رائے ہے جب تیر لگنے کے بعد شکار نظروں سے غائب ہوجائے۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر شکار نظروں سے غائب ہوجانے کے بعد اسی دن مل جائے تو کتے اور تیر دونوں صورتوں میں کئے گئے ایسے شکار کو کھایا جاسکے گا۔ اگرچہ شکار مردہ حالت میں کیوں نہ ملے بشرطیکہ اس کے جسم پر زخم کے نشانات موجود ہوں لیکن اگر ایک رات گزر جائے اور پھر وہ شکار ہاتھ آئے تو اس صورت میں وہ حلال نہیں ہوگا۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ جب شکار پر تیر چلایا ہو اور اس کے بعد ایک دن یا ایک رات وہ اس کی نظروں سے غائب رہا ہو تو ان کے نزدیک اس کا گوشت مکروہ ہوجائے گا۔ اوزاعی کا قول ہے کہ اگر شکار اسے اگلے دن مردہ صورت میں مل جائے اور اس کے جسم پر اپنا تیر بھی پیوست نظر آئے یا اس کے جسم پر تیر لگنے کا نشان موجود ہو تو وہ اس کا گوشت کھا سکتا ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ شکار اگر نظروں سے غائب ہوجائے تو قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا گوشت نہ کھایا جائے۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ سے ان کا یہ قول مروی ہے۔ ” جو شکار تمہیں فوراً مل جائے اس کا گوشت کھالو اور جو نظروں سے غائب ہوجائے اسے چھوڑ دو “۔ ایک روایت میں حضرت ابن عباس ؓ کے الفاظ یہ ہیں : جچو شکار ایک رات غائب رہنے کے بعد ملے اسے نہ کھائو۔ “ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت میں دو لفظوں اصماء اور انماء کا ذکر ہوا ہے۔ پہلے کا مفہوم یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو اسی وقت فوری طور پر مل جائے اور دوسرے کا مفہوم یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو نظروں سے غائب ہوجائے۔ سفیان ثوری نے موسیٰ بن ابی عائشہ، انہوں نے عبداللہ بن ابی رزین سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے نظروں سے غائب ہو کر مرجانے والے شکار کا ذکر کرتے ہوئے اس کے گوشت کو ناپسند فرمایا اور اس سلسلے میں حشرات الارض کا بھی ذکر کیا۔ یاد رہے کہ روایت میں مذکور ابورزین صحابی نہیں ہیں بلکہ یہ ابو وائل کے آزاد کردہ غلام ہیں۔ اگر شکار زخمی ہونے کے بعد نظروں سے غائب ہوجانے اور شکاری اس کی تلاش میں تاخیر کر دے تو اس کا گوشت کھایا نہیں جائے گا۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ سا پر سب کا اتفاق ہے کہ زخمی ہونے کے بعد شکار نظروں سے غائب نہ ہو اور شکاری کے لئے اسے ذبح کرنا ممکن ہو لیکن وہ اسے ذبح نہ کرے حتیٰ کہ اس کی موت واقع ہوجائے تو اس صورت میں اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا۔ اگر شکاری اس کی جستجو ترک نہیں کرتا اور پھر اسے مردہ حالت میں پا لیتا ہے تو ہم یہ بات سمجھ لیتے ہیں کہ گویا شکاری کو اتنا موقع ہی نہیں ملا کہ اسے ذبح کرسکے۔ اس لئے کتے یا تیر کا اسے ہلاک کردینا اس کے حق میں ذکاۃ یعنی شرعی ذبح کے مترادف ہوجائے گا لیکن اگر اس کی تلاش میں تاخیر اور سستی کرتا ہے تو اس صورت میں اس بات کی گنجائش ہوتی ہے کہ اگر اسے فی الفور تلاش کرتا تو شاید اسے ذبح کرلیتا۔ اب جبکہ اس نے ایسا نہیں کیا حتیٰ کہ اس کی موت واقع ہوگئی تو اس کا گوشت نہیں کھایا جائے گا۔ جب اس یک تلاشی ترک نہ کرے اور اسے زندہ حالت میں پالے تو یہ بات یقینی ہوجائے کہ کتے کا اس ہلاک کردینا اس کی ذکاۃ نہیں ہے۔ اس لئے اس کا کھانا جائز نہیں ہوگا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حضور ﷺ نے حضرت عدی بن حاتم سے فرمایا (فان شار کہ کلب اخوفلا تاکل فلعلہ ان یکون الثانی قتلہ اگر اس کیس اتھ کوئی دوسرا کتا بھی شامل ہو جئاے تو پھر اسے نہ کھائو۔ ہوسکتا ہے کہ اس دوسرے کتے نے اسے قتل کردیا ہو، شارع (علیہ السلام) نے اس کے کھانے کی ایسی صورت میں ممانعت کردی جبکہ دوسرے کتے کے ہاتھوں اس شکار کی ہلاکت کا جواز اور اس کی گنجائش پیدا ہوجائے۔ اسی طرح اگر شکار کے غائب ہونے کی صورس میں اس یک گنجائش تھی کہ اگر شکاری اس کی تلاش جاری رکھتا تو اس یک شرعی ذبح ہوجاتی لیکن چونکہ اس نے ایسا نہیں کیا اس لئے یہ ضروری ہوگیا کہ اس کا گوشت نہ کھایا ائے کیونکہ درج بالا حدیث میں بیان کردہ سبب کا اس صورت میں بھی جواز اور گنجائش موجود ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ معاویہ بن صالح نے عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر حضرمی سے روایت کی ہے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ثعلبہ سے، انہوں نے حضور ﷺ سے کہ اگر ایک شخص تین دنوں کے بع بھی گمشدہ شکار کو تلاش کرے تو اسے کھالے گا۔ الا یہ کہ اس میں بدبو پیدا ہوچکی ہو۔ بعض طرق میں حضور ﷺ کے یہ الفاظ منقول ہیں (اذٓا ادرکت بعد ثلاث و سھمک فیہ فکلہ مالوینتس۔ جب تین دنوں کے بعد تمہارا شکار تمہیں مل جائے اور اس کے جسم میں تمہارا چھوڑا ہوا تیر پیوست ہو تو جب تک اس میں بدبو پیدا نہ وہ جائے اسے کھا سکتے ہو) اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس روایت کو مسترد کر دینیپ ر سب کا اتفاق ہے اس کے کئی وجوہ ہیں۔ اول یہ کہ کسی بھی فقیہہ کا یہ قول نہیں ہے کہ جب شکاری کو اپنا شکار تین دنوں کے بعد مل جائے تو وہ اسے کھا سکتا ہے۔ دوم یہ کہ حضور ﷺ نے بدبو نہ مارنے تک اس کے کھا لینے کی اباحت کردی ہے جبکہ بو بدل جانے کا کسی کے ہاں بھی اعتبار نہیں ہے۔ سوم یہ کہ تمام اشیاء میں بو بدل جانے کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا بلکہ حکم کا تعلق صرف ذکاۃ کے وجود اور عدم وجود کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر مدت کی تاخیر کے باوجود شکار کو شرعی طریقے پر ذبح کردیا گیا ہو تو وہ پاک اور حلال ہوگا اور بدبو بدلنے کا کوئی عتبار نہیں ہوگا اگر اس کی شرعی ذبح نہ ہوسکتی ہو تو چاہے بو بدل جائے یا نہ بدلے اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ محمد بن ابراہیمی التیمی نے عیسیٰ بن طلحہ سے روایت کی، انہوں نے عمیر بن سلمہ سے، انہوں نے قبیلہ نہد کے ایک شخص سے کہ حضور ﷺ کا مقام روحاء سے گزر ہوا۔ وہاں ایک جنگلی گدھا مرا پڑا تھا جس کے جسم یمں تیر پیوست تھا۔ آپ ﷺ نے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ اسے یہیں پڑا رہنے دو اس کا شکاری آ کر اسے لے جائے گا۔ اس پر قبیلہ نہد کے ایک شخص نے جو اس روایت کا راوی ہے، حضور ﷺ سے عرض کیا کہ یہ جنگی گدھا میرے تیر کا نشانہ بنا ہے، آپ نے پھر اسے کھالو “ ساتھ ہی آپ نے حضرت ابوبکر ؓ کو حکم دیا کہ اسے ساتھیوں میں تقسیم کردیں، آپ ﷺ کے ساتھ تمام لوگ حالت احرام میں تھے۔ بعض لوگوں نے اس واقعہ سے یہ استدلال کیا ہے کہ اگر شکاری اپنے شکار کی تلاش میں تاخیر اور سستی کرلے اور بعد میں اسے اس کا شکار مل جائے تو وہ اس شکار کو کھا سکتا ہے۔ اس لئے کہ حضور ﷺ نے اس سے اس کے متعلق نہیں پوچھا تھا۔ اگر اس کی بنا پر حکم میں فرق پڑ سکتا تو آپ ﷺ ضرور اس نہدی سے اس بارے میں سوال کرتے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس واقعہ میں استدلال کے اندر مذکورہ بات کی کوئی دلیل نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عین ممکن ہے کہ آپ ﷺ نے اس گدھے کی ایسی حالت کا مشاہدہ کیا ہو جس سے یہ معلوم ہوگیا ہو کہ اس کے زخمی ہونے کی مدت طویل نہں ہے۔ مثلاً آپ ﷺ نے اس کے جسم سے تازہ خون بہتے ہوئے دیکھا ہو اور ساتھ تیرانداز یعنی شکاری بھی آگیا ہو۔ جس سے آپ کو یہ بات معلوم ہوگئی ہو کہ اس نے اس کی تلاش میں کوئی وقفہ نہیں ڈالا ہے اس لئے آپ نے اس سے اس کے متعلق کچھ نہیں پوچھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہشیم نے ابوہشیم سے روایت کی ہے، انہوں نے ابوبثہ سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت عدی بن حاتم ؓ سے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ سے عرض کی، کہ ہم شکاری لوگ ہیں ہم میں کوئی اپنے شکار پر تیر چلاتا ہے اور وہ شکار ایک یا دو راتوں تک غائب رہتا ہے۔ پھر صبح ہونے پر شکاری اس کا پیچھا کرتا ہے اور اسے تیر کے ساتھ شکار مل جاتا ہے، کیا یہ شکار اس کے لئے حلال ہوتا ہے ؟ “ آپ نے جواب فرمایا (اذا وجدت سھمک فی ولم تجدبہ اثر سبع و علمت ان سہمک قتلہ فکلہ۔ جب تمہیں اپنا تیر شکار کے جسم یمں پیوست مل جائے اور شکار کے جسم پر درندے وغیرہ کا کوئی نشان نہ ہو، نیز تمہیں یہ معلوم ہوجائے کہ تمہارے تیر سے ہی یہ ہلاک ہوا ہے تو پھر اسے کھالو) اس کے جواب میں کا جائے گا کہ یہ چیز اس بات کی موجب ہے کہ اگر کئی راتیں گزر جانے کے بعد شکاری کو اپنا شکار مع تیر مل جائے اور اسے یہ علم ہوجائے کہ شکار اس کے تیر سے ہی ہلاک ہوا ہے تو وہ اسے کھالے، جبکہ ہمیں نہیں معلوم کہ کسی اہل علم کا یہ قول ہو۔ اس لئے کہ اس میں صرف اس بات کا اعتبار کیا گیا ہے کہ شکار شکاری کے تیر سے ہی ہلاک ہوا ہے۔ نیز جب شکاری شکار یک تلاش میں تاخیر کر دے گا تو اس کے بعد اسے پتہ نہیں چل سکے گا کہ شکار اس کے تیر سے ہی ہلاک ہوا ہے حالانکہ حضور ﷺ نے اس میں یہ شرط عائد کی ہے کہ اسے اس بات کا علم حاصل ہوجائے۔ اس لئے جب اسے اس بات کا علم حاصل نہیں ہو سکے گا تو اس کے لئے اس کا نہ کھانا ضروری ہوگا۔ جب شکاری شکار کی تلاش میں تاخیر کر دے گا اور کافی عرصہ گزر جائے گا تو اسے یہ معلوم ہی نہ ہو سکے گا کہ شکار اس کے تیر سے ہلاک ہوا ہے۔ ہمارے اصحاب کے قول کی صحت پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی ہے، انہیں عبداللہ بن احمد بن حنبل نے، انہیں محمد بن عباد نے، انہیں محم بن سلیمان نے مشمول سے، انہوں نے عمرو بن تیم سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے عمرو کے دادا سے کہ انہوں نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ ہم صحرا نشین لوگ ہیں اور سدھائے ہوئے کتوں اور تیروں کے ذریعے شکار کرتے ہیں۔ ان یمں سے کون سے شکار ہمارے لئے حلال اور کون سے حرام ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم اپنا سدھایا ہوا کتا شکار پر چھوڑو اور چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھ لو، تو تمہارا کتا جس شکار کو تمہارے لئے پکڑے رکھے اسے کھالو، خواہ کتے نے اس میں سے کھایا ہو یا نہ کھایا ہو اور خواہ اس نے اسے ہلاک کردیا ہو یا ہلاک نہ کیا ہو اور جب تم شکار پر تیر چلائو تو اس کے بعد فوری طور پر اگر اسے پکڑ لو تو کھالو اور اگر وہ غائب ہوجائے تو نہ کھائو “۔ آپ نے اس شکار کے گوشت کی ممانعت کردی جو غائب ہوگیا ہو۔ یہ اس شکار پر محمول ہوگا۔ جو شکاری کی نظروں سے غائب وہ گیا اور شکاری نے اس یک تلاش میں تاخیر کردی ہو۔ اس لئے کہ اگر شکایر اس کی تلاش میں رہے اور پھر وہ مل جائے تو اس کے کھا لینے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اس رویات میں اس شکار کی اباحت ہے جس میں سے شکار کرنے والے کتے نے بھی کچھ کھالیا ہو۔ یہ بات آپ کے مسلک کے خلاف جاتی ہے تو اس کے جو با میں کہا جائے گا کہ حضرت عدی بنذ حاتم ؓ کی روایت اس روایت کی معارض ہے۔ اس بارے میں گفتگو پہلے گزر چکی ہے۔
Top