Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 42
سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ اَكّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ١ؕ فَاِنْ جَآءُوْكَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْهُمْ١ۚ وَ اِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ یَّضُرُّوْكَ شَیْئًا١ؕ وَ اِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ
سَمّٰعُوْنَ : جاسوسی کرنے والے لِلْكَذِبِ : جھوٹ کے لیے اَكّٰلُوْنَ : بڑے کھانے والے لِلسُّحْتِ : حرام فَاِنْ : پس اگر جَآءُوْكَ : آپ کے پاس آئیں فَاحْكُمْ : تو فیصلہ کردیں آپ بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان اَوْ : یا اَعْرِضْ : منہ پھیر لیں عَنْهُمْ : ان سے وَاِنْ : اور اگر تُعْرِضْ : آپ منہ پھیر لیں عَنْهُمْ : ان سے فَلَنْ : تو ہرگز يَّضُرُّوْكَ : آپ کا نہ بگاڑ سکیں گے شَيْئًا : کچھ وَاِنْ : اور اگر حَكَمْتَ : آپ فیصلہ کریں فَاحْكُمْ : تو فیصلہ کریں بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان بِالْقِسْطِ : انصاف سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُقْسِطِيْنَ : انصاف کرنے والے
(یہ) جھوٹی باتیں بنانے کے لئے جاسوسی کرنے والے اور (رشوت کا) حرام مال کھانیوالے ہیں۔ اگر یہ تمہارے پاس (کوئی مقدمہ فیصل کرانے کو) آئیں تو تم ان میں فیصلہ کردینا یا اعراض کرنا اگر تم ان سے اعراض کرو گے تو وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اگر فیصلہ کرنا چاہو تو انصاف کا فیصلہ کرنا کہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
رشوت کا حکم قول باری ہے سمعون للکذب اکالون للسحت جھوٹ پر بہت کان دھرنے والے اور بڑے حرام خور ہیں ۔ ایک قول ہے کہ سحت کے اصل معنی جڑ سے اکھاڑنے کے ہیں ۔ اگر کوئی شخص کسی کا استیصال کر کے اسے مٹا دے تو ایسے موقعہ پر یہ فقرہ کہا جاتا ہے۔ اسمتہ اسحاتا ً اس نے اس کا استیصال کردیا ہے۔ قول باری ہے افیسحتکم بعذاب پھر اللہ تعالیٰ عذاب کے ذریعے تمہارا استیصال کر دے گا یعنی تمہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے گا ۔ اگر کوئی شخص اپنا مال تباہ کردے اور اسے للے تللے میں اڑا دے تو اس موقع پر یہ فقرہ کہا جاتا ہے۔ اسحت مالہ حرام کو سخت کا نام اس لیے دیا گیا کہ اس میں مال والے کے لیے کوئی برکت نہیں ہوتی اور یہ اس کی ہلاکت کا ذریعہ بن جاتا ہے جس طرح جڑ سے اکھاڑنے کی صورت میں کسی کی ہلاکت اور تباہی ہوتی ہے۔ ابن عینیہ نے عمار الدہنی سے روایت کی ہے انہوں نے سالم بن ابی الجعد سے ، انہوں نے مسروق سے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن مسعود ؓ سے صحت کے متعلق دریافت کیا کہ آیا یہ رشوت لے کر فیصلے کرنے کا نام ہے ؟ حضرت ابن مسعود ؓ نے اس کے جواب میں یہ آیت پڑھی ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولیک ھم الکافرون جو لوگ اللہ کی نازل کردہ کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کریں گے تو یہی کافر ہوں گے۔ یعنی آپ نے مسروق کے قول کی تردید کی اور مزید فرمایا : سحت یہ ہے کہ کوئی شخص تمہیں سفارشی بنا کر امام یعنی حاکم کے پاس لے جائے تم اس کے پاس لے جا کر اس شخص کے متعلق گفتگو کرو پھر یہ شخص تمہیں تحفے کے طور پر کوئی چیز بھیج دے اور تم اسے قبول کرلو ۔ شعبہ نے منصور سے روایت کی ہے، انہوں نے سالم بن ابی الجعد سے ، انہوں نے مسروق سے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن مسعود ؓ سے فیصلوں میں ظلم کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ کفر ہے۔ پھر میں نے سخت کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ سخت رشوت کو کہتے ہیں۔ رشوت کے بارے میں حضرت عمر ؓ کی رائے عبد الاعلیٰ بن حماد نے روایت کی ہے، انہوں نے ان کے والد نے ابان سے ، انہوں نے ابن ابی عیاش سے ، انہوں نے مسلم سے کہ مسروق نے کہا : میں نے امیر المومنین حضرت عمر ؓ سے دریافت کیا کہ آیا آپ رشوت لے کر فیصلے کرنے کو سخت میں داخل سمجھتے ہیں ؟ آپ نے جواب میں فرمایا : نہیں رشوت لے کر فیصلے کرنا کفر ہے ، سخت یہ ہے کہ کوئی شخص سلطان یا حاکم وقت کی نظروں میں قدر و منزلت رکھتا ہو، کسی اور شخص کو اس حاکم سے کوئی کام آپڑا ہو ، اب پہلا شخص حاکم سے اس دوسرے کا اس وقت تک نام نہ کر ا دے جب تک اسے کوئی ہدیہ یاتحفہ نہ دیا جائے ۔ سحت حضرت علی ؓ کی نظر میں حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ سحت کی صورتیں یہ ہیں ۔ رشوت لے کر فیصلے کرنا ، بدکاری کی اجرت ، انڈ کی جفتی سے حاصل ہونے والی اجرت ، پچھنے لگانے والے کی کمائی ، شراب اور مردار کی اجرت ، کاہن کی بت اور مقدمے میں اجرت طلب کرنا ، گویا آپ نے سخت کو ایسے معاوضوں کے لیے اسم قرار دیا جن لینا درست نہیں ہوتا ۔ ابراہیم ، حسن ، مجاہد ، قتادہ اور ضحاک کا قول ہے کہ سخت رشوت کا نام ہے۔ منصورنے حکم روایت کی ہے ، انہوں نے ابو وائل سے اور انہوں نے مسروق سے کہ قاضی اگر ہدیہ قبول کرتا ہے یا وہ سخت کھاتا ہے ، اور جب رشوت کھاتا ہے تو یہ رشوت اسے کفر تک پہنچا دیتی ہے۔ اعمش نے خبثیمہ سے روایت کی ہے ، انہوں نے حضرت عمر ؓ سے ، آپ نے فرمایا : سحت کے دو دروازے دو طریقے ہیں جن کے ذریعے لوگ سحت کھاتے ہیں ایک رشوت اور دوسرا بدکار عورت کی اجرت ۔ حکمرانوں کو تحفے دینا رشوت کے زمرے میں آتے ہیں اسماعیل بن زکریا نے اسماعیل بن مسلم سے روایت کی ہے ، انہوں نے حضرت جابر ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ھدایا الامراء من الحسب حکام کو تحفے دینا سحت میں داخل ہے۔ حضور ؐ نے رشوت کے منعلقین پر لعنت فرمائی ابو ادریس خولانی نے حضرت ثوبان ؓ سے روایت کی ہے حضور ﷺ نے رشوت دینے والے ، رشوت لینے والے اور ان دونوں کے درمیان واسطہ بننے والے پر لعنت بھیجی ہے۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر لعنت بھیجی ہے۔ ابو عوانہ نے عمر بن ابی سلمہ سے روایت کی ہے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا لعن اللہ الاشی والمرتشی فی الحکم فیصلوں کے سلسلوں میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر اللہ کی لعنت ہو۔ رشوت قبول کرنا حرام ہے ابو بکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت زیر بحث کی تفسیر کرنے والے تمام حضرات اس پر متفق ہیں کہ رشوت قبول کرنا حرام ہے۔ وہ اس پر بھی متفق الرائے ہیں کہ رشوت سخت میں داخل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ۔ رشوت کی کئی صورتیں ہیں رشوت لے کر فیصلے کرنا ، رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر یہ حرام ہے۔ رشوت دلال بھی لعنتی ہے یہی وہ رشوت ہے جس کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد ہے لعن اللہ الراشی والموتشی رائش وہ شخص ہے جو ان دونوں کے درمیان واسطے کا کام دیتا ہے ۔ اس رشوت کا مقصد یا تو یہ ہوتا ہے کہ حاکم اس کے حق میں فیصلہ کر دے یا اپنے فیصلے کے ذریعے اسے ایسی چیز دلا دے جس پر اس کا حق نہ ہو ۔ اگر رشوت دے کر وہ اپنے حق میں فیصلہ کرانا چاہتا ہے تو حاکم یہ رشوت لے کر فسق کا مرتکب ہوتا ہے اس لیے کہ حاکم ایسے کام کی رشوت لیتا ہے جسے کرنا اس کا فرض منصبی ہوتا ہے اور رشوت دینے والا رشوت دے کر اس بنا پر مذمت کا سزا وار ہوتا ہے کہ اس نے اپنا فیصلہ ایسے شخص سے کرایا ہے جو فیصلے کرنے کا اہل نہیں رہا اور جس کا فیصلہ نافذ العمل نہیں ہوسکتا اس لیے کہ وہ رشوت لے کر اہلیت کھو بیٹھا ہے اور اس منصب سے معزول ہوگیا ہے۔ جس طرح کوئی شخص کسی فرض مثلاً نماز ، روزہ یا زکوٰۃ کی ادائیگی پر اجرت لیتا ہے۔ فیصلوں کے اندر رشوت لینے کی تحریم میں کوئی اختلاف نہیں ہے نیز یہ کہ اس قسم کی رشوت سحت میں داخل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عظیم میں حرام قرار دیا ہے۔ اس کے اندر اس بات پر دلیل موجود ہے کہ ہر ایسا کام جو ایک فریضے یا تقرب الٰہی کے طور پر سر انجام دیا جائے مثلاً حج کی ادائیگی ، قرآن اور اسلام کی تعلیم وغیرہ اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔ اگر ان امور پر بطور بدل اجرت لینا جائز ہوتا تو فیصلے صادر کرنے میں بھی رشوت ستانی جائز ہوتی۔ جب اللہ تعالیٰ نے فیصلوں کے سلسلے میں رشوت ستانی حرام قرار دی اور امت بھی اس پر متفق الرائے ہوگئی تو اس سے ان لوگوں کے قول کے بطلان پر دلالت حاصل ہوگئی جو یہ کہتے ہیں کہ فرائض اور قرب یعنی امورخیہ کی ادائیگی میں بدل کے طور پر معاوضہ اور اجرت جائز ہے۔ رشوت لے کر فیصلہ کرنے والا حاکم دہرا مجرم ہے اگر رشوت اس مقصد کے لیے دی گئی ہو کہ حاکم غلط فیصلہ کرے تو ایسی رشوت قبول کر کے حاحکم دو وجوہ سے فسق کا مرتکب ہوگا ۔ ایک تو رشوت لینے کی بنا پر اور دوسری ناحق فیصلہ کرنے کی بنا پر اسی طرح رشوت دینے والا بھی فسق کا مرتکب ہوگا۔ حضرت ابن مسعود ؓ اور مسروق نے سحت کی تفسیر یہ کی ہے کہ سلطان یا حاکم کے پاس جا کر کسی کی سفارش کرنے پر ملنے والا تحفہ سحت ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا ہے کہ فیصلوں کے سلسلے میں یہ رشوت لینا کفر ہے ۔ حضرت علی ؓ ، حضرت زید بن ثابت ؓ اور دوسرے حضرات جن کے اقوال ہم نے پہلے نقل کئے ہیں سب کے نزدیک رشوت سحت میں داخل ہے۔ فیصلوں کے سلسلے میں رشوت دینے اور لینے کے علاوہ رشوت کی ایک صورت وہ ہے جس کا ذکر حضرت ابن مسعود اور مسروق نے اس تحفے کے سلسلے میں کیا ہے جو کسی ایسے شخص کو پیش کیا جائے جو حاکم کے پاس جا کر اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے تحفہ دینے والے کی مدد کرے۔ اس کی بھی ممانعت ہے اس لیے کہ اثر و رسوخ رکھنے والے اس انسان پر اس شخص سے ظلم و ستم کو دور کرنا فرض ہے۔ ارشاد باری ہے وتعاونوا علی البروالتقوی نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو ۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے لا یزال اللہ فی عون المرء مادا امر المرء فی عون اخیہ اللہ تعالیٰ ایک شخص کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک وہ شخص اپنے بھائی کی مدد کرتا رہے۔ جانی مظلوم کے لیے نرمی کا پہلو رشوت کی ایک صورت یہ ہے کہ کوئی شخص حاکم کو رشوت دے کر اس کے ظلم و ستم سے اپنے آپ کو چھٹکارا دلا دے ۔ اس قسم کی رشوت تو لینے والے پر حرام ہوتی ہے لیکن دینے والے کے لیے ممنوع نہیں ہوتی ۔ جابر بن زید اور شبعی سے مروی ہے کہ جب انسان کو اپنی جان و مال پر ظلم کا خطرہ در پیش ہو تو ایسی صورت میں رشوت دے کر اپنی جان اور اپنے مال کا بچائو کرلینے میں کوئی خرچ نہیں ہے۔ عطاء اور ابراہیم نخعی سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ ہشام نے حسن بصری سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دو ونں پر لعنت کی ہے۔ حسن بصری نے اسکی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس رشوت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ حق کو باطل قرار دے یا باطل کو حق ثابت کرے ، لیکن اگر ایک شخص اپنے مال کے دفاع کی خاطر ایسا کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ یونس نے حسن بصری سے روایت کی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے مال میں سے کچھ دے دلا کر اپنی عزت و آبرو کو محفوظ کرلے تو اس میں اس میں کوئی حرج نہیں نہیں ہے۔ عثمان بن الاسود نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا : اپنے مال کو اپنے دین کو ڈھال بنا لو اور اپنے دین کو اپنے مال کی ڈھال نہ بنائو۔ سفیان نے عمرو سے روایت کی ہے اور انہوں نے ابو الشعشاء سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ہم نے زیاد کی گورنری کے زمانے میں رشوت سے بڑھ کر کسی چیز کو زیادہ سود مند نہیں پایا ۔ رشوت کی اس قسم کی سلف نے اجازت دی ہے۔ یہ رشوت اپنی جان و مال سے ظلم کو دور رکھنے کی خاطر ان لوگوں کو دی جاتی ہے جو رشوت دینے والے پر ظلم کرنا یا ایسے بےآبرو کرنا چاہتے ہیں۔ روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے جب خیبر کے غنائم کی تقسیم کی اور لوگوں کو ان میں سے بڑے بڑے حصے دیے تو آپ نے عباس بن مرد اس سلمی کو کچھ کو حصہ دیا جس سے اس نے ناراض ہو کر اس کے متعلق شعر بھی کہے، آپ نے لوگوں سے فرمایا اقطعوا عنالسانہ ہماری طرف سے اس کی زبان بند کر دو چناچہ ان کے حصے میں اضافہ کر کے انہیں رضا مند کرلیا گیا ۔ حاکموں اور قاضیوں کو تحفے تحائف بھیجنے کو امام محمد نے مکروہ سمجھا ہے خواہ تحفہ بھیجنے والا کسی مقدمے میں فریق نہ بھی ہو یا حاکم سے اسے کوئی فیصلہ نہ بھی لیناہو ۔ امام محمد نے یہ مسلک ابو حمید الساعدی کی حدیث کی بنا پر اختیار کیا ہے جس میں ان اللتبیہ کا واقعہ مذکور ہے۔ حضور ﷺ نے ابن اللتبیہ کو صدقات کو وصولی پر روانہ کیا تھا ۔ جب وہ صدقات لے کر واپس آئے تو کہنے لگے :” یہ حصہ تم لوگوں کا ہے اور یہ حصہ میرا ہے جو تحفے کے طور پر مجھے ملا ہے “ ۔ اس پر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ان لوگوں کو کیا ہوگیا جنہیں ان کاموں کے لیے مقرر کرتے ہیں جن پر اللہ نے ہمیں مقرر کیا ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ یہ حصہ تمہارا ہے اور یہ میرا جو مجھے تحفے کے طور پر ملا ہے۔ یہ شخص اپنے باپ کے گھر میں کیوں نہیں بیٹھ رہا اور پھر دیکھتا کہ اسے تحفے آتے ہیں یا نہیں ۔ نیز حضور ﷺ سے یہ بھی مرو ہے ھدایا الامراء غلو ل حاکموں کو تحفے تحائف دینا غلول یعنی خیانت ہے ، نیز آپ نے فرمایا ھدایا المراء سحت حکام کے تحفے تحائف سحت میں داخل ہیں ۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کا رشوت سے پرہیز حضرت عمر بن عبد العزیز نے ہدیہ قبول کرنے کو ناپسند کیا تھا ان سے کہا گیا کہ حضور ﷺ ہدایا قبول کرتے تھے اور اس کے جواب میں اپنے پاس سے کچھ نہ کچھ عنایت بھی کرتے تھے۔ یہ سن کر حضرت عمر بن عبد العزیز نے فرمایا کہ یہ اس زمانے میں تحفے اور ہدایا ہوتے تھے لیکن آج کل تو یہ سحت ہیں۔ امام محمد نے قاضی کے لیے ہدیہ قبول کرنا مکروہ نہیں سمجھا ہے بشرطیکہ ہدیہ دینے والا ان لوگوں میں سے ہو جن کے ساتھ قضا کے عہدے پر متمکن ہونے سے قبل قاضی تحفوں کا تبادلہ کرتا تھا۔ گویا امام محمد نے قاضی کو دیے جانے والے اس تحفے کو مکروہ سمجھا ہے جو اسے قاضی ہونے کی نسبت سے دیا جائے اور اگر وہ قاضی نہ ہوتا تو اسے یہ تحفہ نہ ملتا ۔ اس مفہوم پر حضور ﷺ کا یہ قول دلالت کرتا ہے۔ ھلا جس فی بیت ابیہ وامہ فنظر ا یھدی لہ املا وہ اپنے ماں باپ کے گھر کیوں نہ بیٹھ رہا اور پھر دیکھتا کہ اسے تحفے آتے ہیں یا نہیں۔ حضور ﷺ نے یہ بتایا کہ اسے تحفہ اسے دیا گیا تھا کہ وہ عامل اور حاکم تھا اور اگر وہ اس عہدے پر نہ ہوتا تو اسے تحفے نہ ملتے نیز ایسا تحفہ اس کے لیے حلال نہیں۔ قضا کے عہدے پر مامور ہونے سے قبل قاضی جن لوگوں کے ساتھ تحفے تحائف کا تبادلہ کرتا تھا اگر ان میں سے کسی کی طرف سے کوئی تحفہ بھیجا جائے تو اسے حسب سابق قبول کرلینا جائز ہوگا بشرطیکہ اسے اس کا علم بھی ہو کہ یہ تحفہ قاضی ہونے کی نسبت سے نہیں بھیجا گیا ۔ یہ بھی مروی ہے شاہ روم کی بیٹی نے حضرت علی ؓ کی بیٹی اور حضرت عمر ؓ کی زوجہ ام کلثوم کے لیے تحفہ بھیجا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے یہ تحفہ واپس کردیا اور انہیں اسے قبول کرنے سے روک دیا۔ اہل کتاب کے درمیان فیصلے کرنا قول باری ہے فان جائو ک فاحکم بینھما او اعرض عنھم اگر تمہارے پاس اپنے مقدمات لے کر آئیں ت تمہیں اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہو تو ان کا فیصلہ کر دو ورنہ انکار کر دو ظاہر آیت دو معنوں کا مقتضی ہے ایک تو یہ کہ انہیں ان کے احکا م کے مطابق چھوڑ دیا جائے اور کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ دوسرے یہ کہ اگر لوگ اپنے مقدمات فیصلے کے لیے ہمارے پاس لے کر آئیں تو ہمیں اختیار ہے کہ چاہیں تو فیصلہ کردیں اور چاہیں تو انکار کردیں ۔ اس حکم کے باقی رہنے کے سلسلے میں سلف کے مابین اختلاف رائے ہے۔ کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ اگر یہ اپنے مقدمات ہمارے پاس لے کر آئیں تو حاکم کو اختیار ہوگا کہ چاہے تو فیصلہ کر دے اور چاہے تو انکار کردے اور انہیں ان کے دین کی طرف رجوع کرنے کے لیے کہے۔ دوسرے حضرات کا کہنا ہے کہ تخییر کا حکم منسوخ ہوچکا ہے اس لیے جب ان کے مقدمات پیش ہوں تو ان کا فیصلہ کردیا جائے۔ جو حضرات تخییر کے قائل ہیں ان میں حسن ، شبعی اور ابراہیم نخعی ایک روایت کے مطابق شامل ہیں ۔ حسن سے مروی ہے ، اہل کتاب کو ان کے حاکم پر چھوڑ دو اور تم لوگ ان کے درمیان دخل اندازی نہ کرو ۔ البتہ اگر یہ اپنے مقدمات تمہارے پاس لے کر آئیں تو تم اپنی کتاب کے مطابق ان پر فیصلے نافذ کرو ۔ سفیان بن حسین نے حکم سے روایت کی ہے ، انہوں نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ سورة مائدہ کی دو آیتیں منسوخ ہوچکی ہیں ۔ ایک تو آیت قلائد ہے اور دوسری آیت فاحکم بیٹھم او اعرض عنھم۔ حضور ﷺ کو اختیار دیا گیا تھا کہ چاہیں تو ان کا فیصلہ کردیں اور چاہیں تو انکار کر کے انہیں ان کے احکام کی طرف لوٹا دیں یہاں تک کہ آیت وان احکم بینھم بما انزل اللہ ولا تتبع اھوا ھم اور یہ کہ تم ان کے درمیان اس کتاب کے مطابق فیصلے کرو جو اللہ نے نازل کی ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ حضور ﷺ کو یہ حکم دیا گیا کہ آپ ان کے درمیان ان احکامات کی روشنی میں فیصلے صادر کریں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل کیے ہیں ۔ عثمان بن عطاء خراسانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ قول باری فان جائو ک فاحکم بینھم او اعرض عنھم کو قول باری وان احکم بینھم بما انزل اللہ نے منسوخ کردیا ہے۔ سعید بن جبیر نے حکم سے اور انہوں نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ قول باری فان جاء ک فاحکم بینھم او اعرض عنھم کو قول باری وان احکم بینھم بما انزل اللہ نے منسوخ کردیا ہے۔ سعید بن جبیر نے حکم سے اور انہوں نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ قول باری فان جائو ک فاحکم بینھم او اعرض عنھم کو قول باری وان احکم بینھم بما انزل اللہ نے منسوخ کردیا ہے۔ سفیان نے سدی سے اور انہوں نے عکرمہ سے اسی قسم کی روایت کی ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ان حضرات نے یہ بیان کیا ہے کہ قول باری وان احکم بینھم بما انزل اللہ اس تحییر کا ناسخ ہے جو اس قول باری فان جاء و ک فاحکم بینھم او اعرض عنھم میں مذکور ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ نسخ کا یہ قول اپنی رائے کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا ہے اس لیے کہ آیات کے نزول کی تاریخوں کا علم رائے اور اجتہاد کی بنیاد پر حاصل نہیں ہوسکتا ۔ اس کا تو ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے توقیف یعنی حضور ﷺ کی جانب سے اس کی اطلاع تخییہ کے اثبات کرنے والوں نے یہ نہیں کہا ہے کہ تخییر کی آیت اس قول باری وان احکم بینم بما انزل اللہ کے بعد نازل ہوئی اور تحییر کی آیت نے اسے منسوخ کردیا ہے۔ ان حضرات سے تو تخییر کے متعلق ان کے اقوال نقل ہوئے میں نسخ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس لیے تخییر کا نسخ قول باری وان احکم بینھم بما انزل اللہ سے ثابت ہوا جس طرح تخییر کے نسخ کے متعلق ان لوگوں کی روایت ہے جنہوں نے اس تخییر کا ذکر کیا ہے۔ تخییر کے نسخ پر قول باری ومن لم یخکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکافرون اور جو لوگ اس قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے جو اللہ نے نازل کیا ہے وہی کافر ہیں نیز فرمایا فاولئک ھم الظالمون وہی ظالم ہیں پھر فرمایا فاولئک ھم الفاسقون وہی فاسق ہیں ۔ یعنی ان اہل کتاب میں سے وہ لوگ جنہوں نے روگردانی کی تھی اور اس جھگڑے کے اندر اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کیا تھا جس میں یہ لوگ ملوث ہو کر آپس میں الجھ پڑے تھے ۔ ہمیں سلف میں سے کسی کے متعلق علم نہیں ہے جس نے یہ کہا ہو کہ آیات ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکافرون فاولئک ھم الظالمون اور فاولئک ھم الفاسقون میں کوئی آیت منسوخ ہوگئی ہے۔ البتہ منصور نے حکم سے اور انہوں نے مجاہد سے روایت کی ہے ان آیات کو ما قبل کی آیت فاحکم بینھما او اعراض عنھم نے منسوخ کردیا ہے جبکہ سفیان بن حسین نے حکم سے اور انہوں نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ قول باری فان جاء و ک فاحکم بینھم او اعراض عنھم اس قول باری وان احکم بینھم سے منسوخ ہوچکا ہے۔ یہاں یہ احتمال ہے کہ قول باری فان جاء وک فاحکم بینھم او ا عرض عنھم اہل کتاب کے ساتھ عقد ذمہ کرنے اور جزیہ کی ادائیگی کے ذریعے احکام اسلام کے تحت ان کے آنے سے قبل کے زمانہ کا ہو ، پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان سے جزیہ لینے کا حکم صادر فرما دیا اور ان پر احکام اسلام کا نفاذہو گیا تو پھر ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا گیا ۔ اس صورت میں دونوں آیتوں کا حکم ثابت رہے گا ۔ نسخ کی کوئی بات نہیں ہوگی ۔ یعنی ان اہل کتاب کے متعلق تخییر کا حکم جاری رہے گا جن کا ہمارے ساتھ معاہدہ ہے لیکن ان کے ساتھ نہ عقد ذمہ ہے اور نہ ہی ان پر احکام اسلام کا اجرا ہے ان کا معاملہ اہل حرب کی طرح ہوگا جن کے ساتھ ہماری صلح ہوگئی ہو ۔ دوسری طرف جن اہل کتاب کے ساتھ عقد ذمہ ہوچکا ہو اور ان پر احکام اسلام کا اجرا بھی ہوگیا ہو ان کے متعلق اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم جاری رہے گا ۔ حضرت ابن عباس ؓ سے جو روایت ہے وہ اسی مفہوم پر دلالت کرتی ہے۔ محمد بن اسحاق نے دائود بن الحصین سے ، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ سورة مائدہ کی آیت فاحکم بینھم او اعرض عنھم بنو قریظ اور بنو نضیر کے درمیان دیت کے تنازعہ کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی ۔ بنو نضیر کو شرف حاصل تھا جس کی بنا پر وہ پوری دیت دیتے اور بنو قریضہ نصف دیت ادا کرتے ، پھر اس معاملے میں دونوں قبیلوں کے درمیان تنازعہ اٹھ کھڑا ہو اور یہ لوگ اپنا مقدمہ حضور ﷺ کے پاس فیصلے کے لیے لے کر آئے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق یہ آیت نازل کی ۔ حضور ﷺ نے اس بارے میں انہیں حق کی راہ پر لگا دیا اور دیت کے معاملے میں انہیں یکساں کردیا ۔ یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے ساتھ کوئی عقد ذمہ نہیں تھا۔ حضور ﷺ نے بنو نضیر کو جلاوطن کردیا تھا اور بنو قریظہ کو قتل کی سزا دی تھی ۔ اگر ان کے ساتھ عقد ذمہ ہوتا تو آپ ﷺ نہ انہیں کبھی جلا وطن کرتے اور نہ ہی قتل کا حکم دیتے ، ان کے ساتھ صرف معاہدہ اور جنگ نہ کرنے کی صلح تھی جسے انہوں نے جنگ خندق کے موقعہ پر خود ہی توڑ دیا تھا ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے یہ بتایا کہ تحییر کی آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی ۔ اب یہ ممکن ہے کہ تخییر کا یہ حکم ان اہل حرب کے حق میں باقی ہو جن کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہوچکا ہو اور دوسری آیت کا حکم یعنی اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے کرنا ذمیوں کے متعلق ثابت ہو ۔ اس طرح دونوں آیتیں اپنی اپنی جگہ باقی رہ جائیں اور نسخ کی کوئی بات پیدا نہ ہو۔ اگر سلف سے دوسری آیت کے ذریعے تخییر کے نسخ کی روایت نہ ہوتی تو دو آیتوں کی یہ بڑی عمدہ توجیہ و تفسیر ہوتی ۔ حضرت ابن عباس ؓ سے ایک اور روایت بھی ہے ، نیز زہری ، مجاہد اور حسن بصری کا قول ہے کہ اس آیت کا نزول رجم کے بارے میں ہوا تھا۔ جب یہ لوگ اس سلسلے میں حضور ﷺ کے پاس فیصلہ کرانے آئے تھے ۔ یہ لوگ بھی اہل ذمہ نہیں تھے یہ تو صرف اس لیے فیصلہ کرانے آئے تھے کہ ان کے خیال میں شاید رجم کے حکم ٹل جائے گا اور سزا میں کچھ نرمی ہوجائے گا ۔ حضور ﷺ خود چل کر ان کی دینی درس گاہ تک گئے اور انہیں خود ان کی کتاب میں رجم کی آیت سے آگاہ کیا پھر انہیں یہ بھی بتایا کہ وہ جھوٹے ہیں اور اللہ کی کتاب میں تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ اس کے بعد آپ نے یہودی مرد اور یہودی عورت کو سنگسار کردیا اور زبان مبارک سے یہ فرمایا اے اللہ ! میں پہلا انسان ہوں جس نے اس سنت کو زندہ کردیا جسے انہوں نے مٹا دیا تھا۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اہل ذمہ کو خرید و فروخت ، میراث اور دوسرے تمام عقود اور لین دین میں احکام اسلام پرچلایاجائے گا جس طرح مسلمانوں کو چلایا جاتا ہے۔ صرف خمرو خنزیر کی خرید و فروخت اس سے مستثنیٰ ہوگی۔ اس کی خرید و فروحت ان کے درمیان آپس میں جائز رہے گی ۔ اس لیے کہ انہیں اس پر برقرار رکھا گیا ہے کہ خمرو خنزیر ان کے لیے مال میں شمار کئے جائیں ۔ اگر ان کی خرید و فروخت اور ان پر ان کا تصراور ان سے انتقاع درست نہ سمجھا جائے تو پھر یہ چیزیں مالیت کی فہرست سے خارج ہوجائیں گی اور ان چیزوں کو ضائع کرنے والے پر ان کا تاوان واجب نہیں ہوگا ۔ ہمیں فقہاء کے درمیان ا س مسئلے میں کوئی اختلاف کا علم نہیں ہے کہ اگر کسی نے کسی ذمی کی شراب ضائع ک دی تو اسے اس کی قیمت تاوان کے طور پر ادا کرنی ہوگی ۔ ایک روایت ہے کہ مسلمان عشر کے اندر ان ذمیوں سے شراب لیا کرتے تھے ۔ حضرت عمر ؓ نے اس علاقے کے لوگوں کو تحریری طور پر حکم بھیجا کہ عشر میں حاصل شدہ شراب کی فروخت خود ان ذمیوں کے ذمے لگائو اور حاصل شدہ قیمت سے عشر وصول کرو۔ اس لیے کہ خمرو خنزیر ان لوگوں کے لیے مال میں داخل ہیں اور ان چیزوں میں ان کا تصرف یعنی خرید و فروخت وغیرہ جائز ہے، ان کے سوا باقی معاملات میں انہیں ہمارے احکام یعنی احکام اسلام پر چلنا ہوگا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وان احکم بینم بما انزل اللہ ولا تتبع اھوا ھم۔ حضور ﷺ نے مسلمانوں کو یہود کی طرح سود خودی سے منع کردیا حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے نجران کے عیسائیوں کو لکھا کہ یا تو تم لوگ سود خوری سے باز آ جائو پھر اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلا ن جنگ قبول کرو۔ اس حکم نامے کے ذریعے حضور ﷺ نے سود کی ممانعت میں ان لوگوں کو مسلمانوں کی برابر قرار دیا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے واخذھم الرئوا وقد نھوا عنہ واکلھم اموال الناس بالباطل ان کی سود خوری کی وجہ سے حالانکہ انہیں اس سے روک دیا گیا تھا، اور لوگوں کا مال ناجائز طریقوں سے کھانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ ان لوگوں کو سود خوری اور ناجائز طریقوں سے لوگوں کا مال کھانے سے روکا گیا تھا۔ جس طرح یہ ارشاد باری ہے یا یھا الذین امنوا لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ ً عن تراض منکم اے ایمان لانے والو ! آپس میں ناجائز طریقوں سے ایک دوسرے کے مال نہ کھائو الا یہ کہ باہمی رضا مندی سے آپس میں تجارت کی صورت میں لین دین ہو۔ اللہ تعالیٰ نے سود کی ممانعت اور فاسد اور ممنوع عقود کی تحریم میں انہیں اور مسلمانوں کو یکساں قرار دیا ، نیز ارشاد ہوا سمعون للکذب اکالون للسحت ہم نے اوپر جن امور کا تذکرہ کیا ہے وہ ہمارے اصحاب کا مسلک ہے ۔ یعنی لین دین اور تجارت کے عقو د نیز حدود کے اندر ذمی اور مسلمان سب ایک جیسے ہیں البتہ انہیں رجم نہیں کیا جائے گا اس لیے کہ ان میں اسلام نہ ہونے کی وجہ سے احصان کی صفت نہیں پائی جاتی۔ امام مالک کا قول ہے کہ جب یہ لوگ اپنے مقدمات مسلمانوں کی عدالت میں لے کر آئیں تو حاکم اور قاضی کو اختیار ہوگا کہ ان کا فیصلہ اسلامی احکام کے مطابق کر دے یا انہیں انکار کردے ۔ عقود اور میراث کے اندر بھی امام مالک کا یہی قول ہے۔ اہل کتاب کے اصول نکاح کو نہ چھیڑا جائے ان لوگوں کی آپس کی شادی بیاہ کے متعلق ہمارے اصحاب کے درمیان اختلااف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ انہیں ان کے احکام پر برقرار رکھا گیا ہے اس لیے اس میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی جائے گی البتہ اگر وہ ہمارے احکام پر چلنا چاہیں تو یہ ان کی مرضی ہوگی ۔ اگر میاں بیوی دونوں ہمارے احکام کے مطابق نکاح کرنے پر رضا مند ہوجائیں تو ان کا یہ نکاح ہمارے احکام کے مطابق ہوگا ۔ اگر ایک بھی رضا مند نہ ہو تو ان پر اس سلسلے میں کوئی اعتراض نہیں کیا جائے گا ۔ اگر دونوں رضا مند ہوجائیں تو انہیں احکام اسلام کے مطابق چلا یا جائے گا البتہ گواہوں کے بغیر نکاح اوعدت کے اندر نکاح کے مسئلے اس سے خارج ہوں گے۔ اگر اس قسم کا کوئی نکاح منعقد ہوچکا ہو تو میاں بیوی کے درمیان علیحدگی نہیں کرائی جائے گی ۔ اگر دونوں مسلمان ہوجائیں تو پھر بھی علیحدگی نہیں کی جائیگی۔ امام محمد کا قول ہے کہ اگر میاں بیوی میں ایک بھی رضا مند ہوگیا تو پھر دونوں کو احکام اسلام پر چلایا جائے گا خواہ دوسرا انکار ہی کیوں نہ کرتا رہے۔ البتہ بغیر گواہوں کے نکاح کا مسئلہ اس سے خارج ہوگا ۔ امام ابو یوسف کا قول ہے کہ ان لوگوں کو احکام اسلام پر چلایا جائے گا خواہ یہ چلنے سے انکار کیوں نہ کرتے رہیں ۔ صرف گواہوں کے بغیر نکاح کا مسئلہ اس سے خارج رہے گا اگر وہ اس قسم کے نکاح پر رضا مند ہوجائیں تو ہم بھی اسے جائز قرار دیں گے۔ امام ابوحنیفہ انہیں ان کی آپس کی مناکحت پر برقرار رکھنے کے سلسلے میں اس روایت کی طرف گئے ہیں جو حضور ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے ہجر کے مجوسیوں سے جزیہ قبول کرلیا تھا جبکہ آپ کے علم میں یہ بات تھی کہ یہ لوگ محرم عورتوں سے نکاح جائز سمجھتے ہیں اس علم کے باوجود آپ نے ایسے میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کا حکم صادر نہیں فرمایاے اسی طرح یہود و نصاریٰ کے اندر بھی بہت سے نکاح محرم عورتوں کے ساتھ ہوتے تھے لیکن آپ نے جب ان سے عقد ذمہ کیا تو ایسے جوڑوں کے درمیان علیحدگی کا حکم نہیں دیا ۔ ان میں اہل نجران اور وادی القریٰ کے اہل کتاب اور تمام دوسرے یہود و نصاریٰ تھے جو اس عقد ذمہ میں شامل تھے اور جزیہ دینے پر رضا مند ہوگئے تھے۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ انہیں ان کے باہمی مناکحات پر اسی طرح برقرار رکھا گیا تھا جس طرح انہیں ان کے فاسد مذاہب اور باطل نیز گمراہ کن عقائد پر رہنے دیا گیا تھا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب حضور ﷺ کو پتہ چلا کہ نجران کے اہل کتاب سودی لین دین کو حلال سمجھتے ہیں تو آپ نے فوراً انہیں تحریری حکم نامہ بھیجا اور ان سے کہہ دیاتو یہ لین دین بند کردیں یا پھر اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ قبول کریں۔ اس طرح جب آپ کو ان کے سودی لین دین کا علم ہوا تو آپ نے انہیں اس پر برقرار رہنے نہیں دیا نیز ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ جب عمر ؓ نے عراق کے دیہی علاقے فتح کیے تو وہاں بسنے والے لوگوں کو جو مجوس تھے ، ان کے دین اور شادی بیاہ کے طریقوں پر برقرار رکھا ۔ اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ آپ نے ان نکاحوں میں میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کا حکم دیا تھا جو محرم عورتوں سے کیے گئے تھے جبکہ حضرت عمر ؓ کو اس بات کا علم تھا کہ مجوسی اس قسم کی شادیاں درست سمجھتے ہیں۔ آپ کے بعد پوری امت کا یہی طریق کار رہا کہ اس معاملہ میں انہیں چھیڑا نہ جائے اور نہ ہی ان پر انگشت نمانی کی جائے ۔ ہم نے جو کچھ کہا ہے اس کی صحت پر درج بالا صورت حال کے اندر دلیل موجود ہے۔ اگر یہ کہا جائے حضرت عمر ؓ نے حضرت سعد ؓ بن ابی وقاص کو بھی لکھا تھا کہ ان میں سے جن لوگوں نے اپنی محرم عورتوں سے نکاح کر رکھا ہے ان کے درمیان علیحدگی کرا دی جائے اور انہیں آئندہ اس قسم کی شادیاں کرنے سے روک دیا جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر یہ بات ثابت ہوتی تو یہ تواتر کے ساتھ نقل ہوتی جس طرح جزیہ لینے ، خراج مقرر کرنے اور ان کے ساتھ دوسرے تمام امور میں حضرت عمر ؓ کا طریق کار تواتر کے ساتھ نقل ہوا ہے۔ اس لیے جب یہ بات تواتر کے ساتھ نقل نہیں ہوتئی تو ہمیں اس سے یہ علم ہوگیا کہ اس کا ثبوت ہی نہیں ہے۔ حضرت سعد ؓ کی طرف حضرت عمر ؓ کے مراسلے میں اس بات کا احتمال ہے کہ وہ ان لوگوں کے بارے میں ہو جو ہمارے احکام پر چلنے پر رضا مند ہوگئے ۔ اگر اہل کتاب ہمارے احکام پر عمل کرنے پر رضا مند ہوجائیں تو ایسے لوگوں کے متعلق ہمارا قول بھی یہی ہے۔ نیز ہم نے واضح کردیا ہے کہ قول باری وان احکم بینھم بما انزل اللہ اس تخییر کے لیے ناسخ ہے جس کا ذکر قول باری فان جاء وک فاحکم بینھم او اعرض عنھم میں ہوا ہے ۔ اس سے صرف تخییر کا نسخ ثابت ہوا ہے لیکن ہمارے پاس ان کے آنے کی شرط تو اس کے نسخ پر کوئی دلالت قائم نہیں ہوئی ۔ اس لیے شرط کے حکم کو باقی رہنا چاہیے اور تحییر کے حکم کو منسوخ ہونا چاہیے۔ اس بنا پر دوسری آیت کے ساتھ اس عبارت کی ترتیب کچھ اس طرح ہوگی ۔ فان جاء و ک فاحکم بینھم بما انزل اللہ اگر یہ لوگ تمہارے پاس آئیں تو ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ کر دو ۔ امام ابوحنیفہ کا یہ قول کہ اگر یہ لوگ رضا مند ہوجائیں تو انہیں احکام اسلام پر چلایا جائے گا ۔ مگر گواہوں کے بغیر نکاح اوعدت میں نکاح کا مسئلہ اس سے خارج رہے گا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ بات ثابت ہے کہ ہمارے احکام پر چلنے کی رضا مندی کے اظہار سے پہلے ہمیں ان کے احکام پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ جب یہ لوگ اس بات پر رضا مند ہوجائیں اور پھر ان کا کوئی جھگڑا ہماری عدالتوں میں پیش ہو تو اس صورت میں یہ ضروری ہوگا کہ ہم انہیں آئندہ کے لیے احکام اسلام پر چلنے کا پابند بنائیں گے ، اور یہ بات تو واضح ہے کہ عدت مستقبل میں نکاح کے بقاء کے لیے مانع نہیں ہوتی صرف ابتدائے نکاح کے لیے مانع ہوتی ہے ۔ اس لیے کہ کوئی عورت جو کسی مرد کی بیوی ہو اگر شبہ کی بنا پر اس کے ساتھ ہم بستری کرلی جائے اور اس کی وجہ سے اس عدت گزارنی پڑجائے تو یہ واجب ہونے والی عدت حکم نکاح کے بقا کے لیے مانع نہیں ہوگی ۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ عدت صرف عقد کی ابتدا کو مانع ہوتی ہے عقد کے بقا کو مانع نہیں ہوتی ۔ اسی بنا پر مذکورہ بالا اہل ذمہ میاں بیوی کے درمیان تفریق نہیں کی جائے گی ۔ ایک اور جہت سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ عدت اللہ کا حق ہے اور اہل ذمہ احکام شریعت میں حقوق اللہ کے سلسلے میں جوابدہ نہیں ہوتے۔ جب ان کے ہاں کوئی عدت واجب ہی نہیں ہوتی تو پھر کسی ذمی عورت پر عدت ہی نہیں ہوگی اس لیے اس کا دوسرا نکاح درست ہوگا ۔ یہی صورت محرم عورتوں سے نکاح کی ہے اس لیے کہ اس نکاح کے بطلان کے سلسلے میں ابتدائے نکاح اور بقائے نکاح کے لحاظ سے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔ گواہوں کے بغیر نکاح کا جہاں تک تعلق ہے تو نکاح کی صحت کے لیے جس چیز کی شرط ہے وہ یہ کہ عقد کے وقت گواہ موجود ہوں ۔ اس میں عقد کی بقا کے لیے گواہوں کو ساتھ رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اس لیے کہ عقد نکاح کے بعد اگر گواہ مرتد ہوجائیں یا مرجائیں تو عقد نکاح پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ جب گواہوں کی ضروت صرف ابتدائے نکاح کے لیے ہوتی ہے ، بقائے نکاح کے لیے نہیں ہوتی تو پھر مستقبل میں بقائے نکاح کے لیے گواہوں کی عدم موجودگی کا مانع بن جانا درست نہیں ہوگا ۔ ایک اور جہت سے دیکھے ، گواہوں کے بغیر نکاح کی صحت فقہاء کے درمیان ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ کچھ فقہاء ایسے نکاح کے جواز کے قائل ہیں اس کے جواز کے بارے میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہے۔ اگر مسلمانوں میں ایسا عقد نکاح ہوجائے تو جب تک تنازعہ اٹھ کھڑا نہ ہو اس وقت تک اس پر اعتراض کی گنجائش نہیں ہوتی ۔ اس لیے جب حالت کفر میں ایسا کفر کرلیا گیا ہو تو اسے فسخ کردینا جائز نہیں ہوگا کیونکہ ایسا نکاح وقوع پذیر ہونے کے وقت درست اور جائز تھا۔ اگر مسلمانوں کے درمیان ایسے نکاح کو حاکم نافذکر دے تو وہ جائز ہوجاتا ہے اور اس کے بعد اسے فسخ کر ناجائز نہیں ہوتا ۔ امام ابوحنیفہ نے اس بات کا اعتبار کیا ہے کہ اگر میاں بیوی دونوں ہمارے احکام کی پابندی پر رضا مند ہوجائیں تو انہیں احکام اسلام پر چلایا جائے گا اس کی وجہ سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فان جاء و ک فاحکم بینھم اللہ تعالیٰ نے ان کے آنے کی شرط لگائی ہے اس لیے میاں بیوی میں سے ایک کے آنے پر دوسرے پر حکم لگانا جائز نہیں ہوگا ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ جب ان میں سے ایک ہمارے احکام کو قبول کرنے پر رضا مند ہوجائے تو اس پر احکام اسلام کا لزوم ہوجائے گا اس صورت میں اس کی حیثیت یہ ہوجائے گی کہ گویا اس نے اسلام قبول کرلیا اس لیے اس کے ساتھ دوسرے کو بھی احکام اسلام پر چلایا جائے گا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے۔ اس لیے کہ ہمارے احکام پر ایک کی رضا مندی سے اس پر یہ احکام بطور ایجاب لازم نہیں ہوتے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر اس پر حکم اسلام چلانے سے پہلے یہ اپنی رضا سے رجوع کرے تو اس پر حکم اسلام لازم نہیں ہوگا اور اسلام لانے کے بعد ہی ہمارے احکام پر اس کی رضا مندی کا امکان پیدا ہوگا ۔ نیز جب ان پر اعتراض صرف اسی صور ت میں جائز ہوتا ہے جب و ہمارے احکام پر چلنے کے لیے اپنی رضا مندی کا اظہار کردیں ۔ اب ان میں سے جو شخص ہمارے احکام پر چلنے کے لیے اپنی رضا مندی کا اظہار نہیں کرے گا اسے اپنے احکام پر باقی رہنے دیا جائے گا اور کسی اور کی رضا مندی کی بنا پر اس کی ذات پر احکام اسلام لازم کردینا جائز نہیں ہوگا ۔ اس مسئلے میں امام محمد نے یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ میاں بیوی میں سے ایک کی رضا مندی سے دوسرے پر احکام اسلام کا لزوم ہوجائے گا جس طرح اگر ایک مسلمان ہوجائے تو دوسرے پر اسلام لانا لازم ہوجاتا ہے ۔ امام ابو یوسف نے اس مسئلے میں ظاہر قول باری اوان احکم بینھم بما انزل اللہ ولا تتبع اھواء ھم سے استدلال کر کے اپنا مسلک اختیار کیا ہے۔ قول باری ہے وکیف یحکمونک وعندھم التوراۃ فیھا حکم اللہ اور یہ تمہیں کیسے حکم بناتے ہیں جبکہ ان کے پاس تورات موجود ہے جس میں اللہ کا حکم لکھا ہوا ہے ۔ یعنی ۔۔۔۔ اللہ اعلم ۔۔۔۔ ان امور میں جن کے فیصلے کے لیے یہ تمہیں حکم بناتے ہیں ۔ ایک قول ہے کہ انہوں نے زنا کاری میں ملوث ہونے والے مرد اور عورت کے متعلق فیصلے کے لیے حضور ﷺ کو حکم بنایا تھا ایک قول ہے کہ بنو نضیر اور بنو قریضہ کے مابین دیت کے جھگڑے میں انہوں نے آپ کو فیصل بنایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ انہوں نے آپ کو اس بنا پر فیصل نہیں بنایا تھا کہ آپ کی نبوت کی تصدیق کرتے تھے بلکہ ان کے عیش نظر سزا میں نرمی کا حصول تھا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا وما اولئک بالمومنین اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان ہی نہیں رکھتے۔ یعنی یہ لوگ آپ کے فیصلے کے بارے میں ایمان ہی نہیں رکھتے کہ یہ فیصلہ اللہ کی طرف سے ہے۔ جبکہ انہیں آپ کی نبوت کا بھی انکار ہے اور تورات میں موجود حکم الٰہی کے اعتقاد سے بھی یہ روگرداں ہیں ۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ جب انہوں نے اللہ کے فیصلے کو چھوڑ کر کسی اور فیصلے کی تلاش کی اور اللہ کے فیصلے پر راضی نہیں ہوئے تو درحقیقت انہوں نے اس بنا پر ایسا کیا کہ یہ کافر ہیں ، ایمان والے نہیں ہیں ۔ قول باری وعند ھم التوراۃ فیھا حکم اللہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ جس معاملے میں ان کا آپس میں تنازعہ ہوا تھا اس کے متعلق تورات کا حکم منسوخ نہیں ہوا تھا اور حضور ﷺ کی بعثت کے بعد یہ حکم ہمارے لیے شریعت کے درجے میں ہوگیا اور منسوخ نہیں ہوا، اس لیے کہ اگر یہ منسوخ ہوچکا ہوتا تو نسخ کے بعد اس پر حکم اللہ کا اطلاق نہ ہوتا جس طرح یہ اطلاق نہیں ہوسکتا کہ شراب کی حلت یا ہفتے کے دن کی تحریم اللہ کا حکم ہے۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے ہم سے پہلے انبیاء (علیہم السلام) کی لائی ہوئی شریعتیں ہمارے لیے بھی لازم ہیں جب تک ان کا نسخ نہ ہوجائے اور حضور ﷺ کی بعثت کے بعد بھی ان پر حکم اللہ کا اطلاق ہوتا ہے۔ قول باری فیھا حکم اللہ کی تفسیر میں حسن سے مروی ہے کہ اس سے مراد رجم کے متعلق اللہ کا حکم ہے۔ اس لیے کہ یہ لوگ حضور ﷺ کے پاس حدذ زنا کے متعلق اپنا جھگڑا طے کرانے آئے تھے۔ قتادہ کا قول ہے اس میں قصاص کا حکم ہے اس لیے کہ قصاص کے متعلق ان کے درمیان تنازعہ پیدا ہوگیا تھا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ لوگ رجم اور قصاص دونوں کے سلسلے میں حضور ﷺ کے پاس اپنا جھگڑا طے کرانے آئے تھے تو بھی درست ہوگا ۔
Top