Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 87
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تُحَرِّمُوْا : نہ حرام ٹھہراؤ طَيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں مَآ اَحَلَّ : جو حلال کیں اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَ : اور لَا تَعْتَدُوْا : حد سے نہ بڑھو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا : نہیں يُحِبُّ : پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے بڑھنے والے
مومنو ! جو پاکیزہ چیزیں خدا نے تمہارے لئے حلال کی ہیں ان کو حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کہ خدا حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کی تحریم کا بیان قول باری ہے یایھا الذین امنوا لا تحرموا طیبات ما احل اللہ لکم اے ایمان لانے والو ! جو پاک چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ کرلو طیبات کا اسم ان چیزوں پر واقع ہوتا ہے جن سے لذت کا احساس ہوتا ہے اور طبیعت میں ان کی اشتہاء پیدا ہوتی ہے اور ان کی طرف دل کا میلان ہوتا ہے۔ اس اسم کا اطلاق حلال چیزوں پر بھی ہوتا ہے ۔ یہاں یہ کہنا درست ہوگا کہ آیت میں دونوں قسم کی چیزیں مراد ہیں اس لیے کہ طیبات کے اسم کا اسم اطلاق ان دونوں پر ہوتا ہے اس صورت میں تحریم حلال دو طرح سے ہوگی ۔ ایک یہ کہ کوئی شخص کہے میں نے اپنے اوپر یہ طعام حرام کرلیا ہے اس کے اس قول سے وہ کھانا اس پر حرام نہیں ہوگا البتہ اگر اس میں سے کھالے گا تو اس پر کفارہ لازم آ جائے گا ۔ دوسری یہ کہ ایک شخص کسی دوسرے کا طعام غصب کر کے اپنے طعام کے ساتھ ملا دے اور پھر اس کھانے کو اپنے اوپر حرام کرلے اس صورت میں وہ اس دوسرے شخص کو اس جیسا طعام تاوان کے طور پردے گا ۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص حضور ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ جب میں گوشت کھاتا تھا تو مجھے شہوت آ جاتی تھی اس لیے میں نے گوشت کو اپنے اوپرحرام کرلیا اس پر اللہ تعالیٰ نے درج بالا آیت نازل فرمائی ۔ سعید نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ کچھ صحابہ کرام نے گوشت ، عورتوں سے قربت اور نامرد بن جانے کا ارادہ کرلیا اس پر اللہ تعالیٰ نے درج بالا آیت نازل فرمائی۔ یہ بات حضور ﷺ تک پہنچی آپ نے اعلان کردیا کہ میرے دین میں عورتوں سے کنارہ کشی ، گوشت کھانے سے احتراز اور گرجے میں گوشہ نشینی یعنی رہبانیت نہیں ہے۔ مسروق نے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں : ” ہم حضرت عبد اللہ ؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ آپ کے سامنے جانور کے تھن کا گوشت پکا کر پیش کیا گیا ۔ ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک شخص اٹھ کر ایک کنارے ہوگیا حضرت عبد اللہ ؓ نے اسے قریب آنے اور گوشت کھانے کے لیے کہا اس نے جواب دیا کہ میں نے تھن کا گوشت اپنے اوپر حرا م کرلیا ۔ یہ سن کر حضرت عبد اللہ ؓ نے درج بالا آیت تلاوت کی اور فرمایا کہ گوشت کھائو اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کرو۔ قول باری بھی ہے یایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک اے نبی تم اپنے اوپر وہ چیزیں کیوں حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کردی ہیں تا قول باری قد فرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تمہاری قسموں کا کھولنا مقرر کردیا ہے۔ ایک روایت ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی لونڈی ماریہ قبطیہ کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے شہد اپنے اوپر حرام کرلیا تھا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور آپ کو اپنی قسم توڑ کر کفارہ ادا کرنے کا حکم دیا ۔ اکثر اہل علم کا یہ قول ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے اوپر کوئی طعام یا اپنی کوئی لونڈی حرام کرلے تو اس طعام کے کھانے کی صورت میں وہ حانث ہوجائے گا اسی طرح اگر اس نے اس لونڈی سے ہم بستری کرلی تو اس کی قسم ٹوٹ جائے گی اور دونوں صورتوں میں اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا ۔ اگر کوئی شخص یہ کہے خدا کی قسم ! میں یہ طعام یا کھانا نہیں کھائو گا ۔ یا یہ کہے ۔ میں نے یہ کھانا اپنے اوپر حرام کرلیا ہے۔ تو ہمارے اصحاب کے نزدیک اس کے ان دونوں فقروں میں اس لحاظ سے فرق ہوگا کہ تحریم والی صورت میں اگر اس کھانے کا کوئی جز بھی کھالے گا تو حانث ہوجائے گا اور قسم والی صورت میں اگر سارا کھانا کھالے گا تو پھر حانث ہوگا ۔ ہمارے اصحاب نے اس شخص کی تحریم والے فقرے بمنزلہ اس فقرے کے قرار دیا ہے ۔ خدا کی قسم ! میں اس کھانے میں کچھ نہیں کھائوں گا ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی چیزیں حرام قرار دی ہیں ان سب میں تحریم کے لفظ کا مقتضی یہی ہے۔ مثلاً ارشاد باری ہے حرمت علیکم المیتۃ والدم ولخم الخنزیر تم پر مردار، خون اور سور کا گوشت حرام کردیا گیا ہے لفظ ان مذکورہ چیزوں کے ہر جز کی تحریم کا مقتضی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے اوپر کوئی طعام حرام کرلے گا تو اس کی یہ تحریم اس کھانے کے جز پر قسم کے ایجاب کی مقتضی ہوگی ۔ لیکن اگر کوئی شخص اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ میں یہ کھانا نہیں کھائوں گا تو اس کی اس قسم کو ان قسموں پر محمول کیا جائے گا جو شرط اور جواب شرط پر مشتمل ہوتی ہیں ۔ اس کی مثال قائل کا یہ قول ہے خدا کی قسم اگر میں یہ کھانا کھائوں گا تو میرا غلام آزاد ہے ۔ اس لیے اس متعین طعام کا ایک جز کھا لینے پر حانث نہیں ہوگا ۔ جب تک کہ سارا طعام نہ کھالے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ارشاد باری ہے کل الطعام کان حلا لبنی اسرائیل الا ما حرام اسرائیل علی نفسہ کھانے کی یہ ساری چیزیں جو شریعت محمدی میں حلال ہیں بنی اسرائیل کے لیے بھی حلال تھیں البتہ بعض چیزیں ایسی تھیں جنہیں اسرائیل نے خود اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ یہ روایت ہے کہ اسرائیل یعنی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو عر ق النساء کی بیماری لاحق ہوگئی تھی آپ نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ اس سے شفا دے تو اپنی پسندیدہ غذا یعنی اونٹ کا گوشت اپنے اوپر حرام کرلوں گا ، یہ تحریم درست تھی اور اس کی وجہ سے اپنے اوپر حرام کی ہوئی چیز کی آپس کے لیے ممانعت ہوگئی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور ﷺ کی شریعت کے ذریعے یہ صورت منسوخ ہوچکی ہے۔ اس آیت میں ان لوگوں کے قول کے بطلان پر دلالت ہو رہی ہے جو زہد و تقشف کی بنا پر گوشت خوری اور لذیز کھانوں سے احتراز کرتے ہیں ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تحریم سے نہی کردی ہے اور اپنے قول وکلوا مما زرقکم اللہ حلالا ً طیبا ً اللہ نے تمہیں جو پاکیزہ اور حلال چیزیں بطور رزق عطا کی ہیں ان میں سے کھائو سے ان کی اباحت کردی ہیں ۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ کو مرغ کا گوشت کھاتے ہوئے دیکھا تھا۔ یہ بھی روایت ہے کہ آپ کھجور اوخربوزہ کھایا کرتے تھے۔ غالب بن عبد اللہ نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ جب مرغی کا گوشت کھانے کا ارادہ کرتے تو اس مرغی کو تین دنوں تک بند رکھتے اور دانہ وغیرہ کھلاتے رہتے پھر اسے ذبح کرلیتے۔ اسراف اور تکبر سے بچ کر سب حلال چیزیں کھائی اور پہنی جاسکتی ہیں ابراہیم بن میسرہ نے طائوس سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو چاہو کھائو اور جو چاہو پہنو جب تک دو چیزوں سے پرہیز کرتے رہو ایک اسراف سے اور دوسری تکبر سے۔ ایک روایت ہے کہ حضرت عثمان ، حضرت عبد الرحمن بن عو ف، حضرت حسن ، حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی ؓ ، حضرت عمران بن حصین ؓ ، حضرت انس بن مالک ؓ ، حضرت ابوہریرہ ؓ اور قاضی شریح ریشم پہنتے تھے ۔ اکل طیبات کی اباحت پر مذکورہ بالا آیت کی دلالت کی طرح یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے ۔ قل من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ والطبات منت الرزق اے محمد ﷺ ! ان سے کہہ کس نے اللہ کی اس زینت کو حرام کردیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کردیں۔ نیز پھلوں کی تخلیق کے ذکر کے بعد فرمایا متاعاً لکم تمہارے فائدے کی خاطر بیوی کو تین طلاق دینے کی تحریم پر آت لا تحرما طیبات ما احل اللہ لکم سے استدلال کیا جاتا ہے اس لیے کہ تین طلاق کے ذریعے بیوی کی اباحت کی تحریم لازم آتی ہے۔ قسموں کا بیان اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کی تحریم کی نہی کے بعد ارشاد ہوا لا یواخذ کم اللہ باللغوفی ایمانکم تم لوگ جو مہمل قسمیں کھالیتے ہو ان پر اللہ گرفت نہیں کرتا ۔ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ جب لوگوں نے پاکیزہ کھانوں ، حلال نکاح اور لباس کی تحریم کی تو انہوں نے اس کی قسمیں بھی کھائیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ، لغو کے متعلق ایک قول ہے کہ اس سے مراد وہ بےکار بات ہے جس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ان ہی معنوں میں شاعر کا یہ شعر ہے۔ ؎ او ما ئۃ تجعل اولاد ھا لغوا و عرض المائۃ الجلمد یا سو اونٹنیاں جن کے بچوں کو بےکار سمجھاجاتا ہے یعنی یہ بچے کسی شمار و قطار میں نہیں آتے ، حالانکہ سو اونٹنیوں کے یہ بچے اونٹوں کا ایک پورا گلہ ہوتے ہیں ۔ شاعر کی مراد ایسی اونٹنیاں ہیں جن کے بچوں کو کسی شمار میں نہیں لایا جاتا ۔ اس بنا پر یمین لغو وہ قسم ہے جو مہمل ہوتی ہے اور اس کا کوئی حکم نہیں ہوتا۔ ابراہیم الصائغ نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے جس کا تعلق باری لا یواخذ کم اللہ با للغوفی ایمانکم سے ہے ۔ یہ روایت ہمیں عبد الباقی بن قانع نے بیان کی ہے ، انہیں محمد بن احمد بن سفیان ترمذی اور ابن عبدوس نے ، ان دونوں کو محمد بن بکار نے ، انہیں حسان بن ابراہیم نے ابراہیم الصائغ سے ، انہوں نے عطاء سے جب عطاء سے یمین لغو کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ حضور ﷺ کا اس کے متعلق ارشاد ہے۔ (ھو کلام الرجل فی بیتہ لا واللہ ، و بلی واللہ یہ وہ کلام ہے جو ایک شخص اپنے گھر میں بیٹھ کرتا ہے وہ کہتا ہے نہیں بخدا نہیں ، بخدا کیوں نہیں۔ ابراہیم نخعی نے اسود سے اور ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے اور ان دونوں نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ یمین لغویہ ہے کہ کوئی شخص یہ کہے لا واللہ، وبلی واللہ یہ روایت حضرت عائشہ ؓ پر جا کر موقوف ہوگئی ہے۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے یمین لغو کے بارے میں روایت کی ہے کہ ایک شخص کسی بات پر قسم کھالے اس کا خیال یہ ہو کہ وہ بات اسی طرح ہے جبکہ حقیقت میں وہ اس طرح نہ ہو ۔ حضرت ابن عباس ؓ سے یہ روایت بھی ہے کہ یمین لغویہ ہے کہ تم غصے کی حالت میں کوئی قسم کھا بیٹھو ۔ حسن ، سدی اور ابراہیم نخعی سے حضر ت عائشہ ؓ کے قول جیسا قول مروی ہے ۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ یمین لغو کی صورت یہ ہے کہ بلا ارادہ سبقت لسانی کے طورپر کوئی غلط بات منہ سے نکل جائے۔ بعض کا قول ہے کہ یمین لغو یہ ہے کہ تم کسی معصیت کو بروئے کار لانے کی قسم کھالو ، پھر مناسب بات یہی ہوگی کہ تم اسے بروئے کار نہ لائو اس میں کوئی کفارہ نہیں ہوتا ۔ یمین لغو کے بارے میں عمرو بن شعیب کی روایت ہے جو انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے عمرو کے داد ا سے نقل کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا من حلف علی یمین فرای غیر ھا خیرا ً منھا فلیتر کھا فان ترکھاکفار تھا جو شخص کسی بات کی قسم کھالے پھر وہ دوسری بات کو اس سے بہتر پائے تو وہ اس قسم کو ترک کر دے ، اس قسم کو ترک کردینا اس قسم کا کفارہ ہے۔ یمین لغو کے متعلق فقہائے امصا ر کا اختلاف ہے ۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ گزرے ہوئے زمانے کی کسی بات پر اس گمان کے ساتھ قسم کھائے کہ وہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ امام مالک اور لیث بن سعد کا بھی تقریباً یہی قول ہے ، اوزاعی نے بھی کہا ہے ، امام شافعی کا قول ہے کہ یمین لغو وہ بات ہے جس کی جان بوجھ کر قسم کھائی گئی ہو ، الربیع نے امام شافعی سے نقل کیا ہے کہ جس شخص نے کسی چیز کے متعلق قسم کھالی ہو اس کا خیال ہو کہ وہ چیزیں اس کی قسم کے مطابق ہے پھر وہ اسے اس سے مختلف پائے تو اس پر کفارہ لازم آئے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمادیا لا یواخذ کم اللہ با للغو فی ایمانکم ولکن یواخذ کم بما عقد تم الایمان ، تم لوگ جو مہمل قسمیں کھالیتے ہو ان پر اللہ گرفت نہیں کرتا مگر جو قسمیں تم جان بوجھ کر کھاتے ہو ان پر وہ ضرور تم سے مواخذہ کرے گا ۔ تو اس کے ذریعے یہ واضح کردیا کہ یمین لغو جان بوجھ کر کھائی گئی قسم سے مختلف ہوتی ہے اس لیے کہ اگر معقود یعنی جان بوجھ کر کھائی گئی قسم یمین بغو ہوتی تو پھر اسے یمین لغو پر عطف نہ کیا جاتا ، نیز دونوں کے حکموں میں فرق کو اس طرح بیان نہ کیا جاتا کہ یمین لغو میں مواخذہ اور گرفت کی نفی ہوتی اور یمین معقودہ میں کفارے کا اثبات ہوتا ۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ یمین لغو کا جب کوئی حکم نہیں ہوتا تو اب اس کا یمین معقودہ بن جانا جائز نہیں ہوسکتا اس لیے کہ اگر گرفت اور مواخذہ کی بات تو یمین معقودہ میں قائم ہوتی ہے اور اس کا حکم ثابت ہوتا ہے اس سے ان حضرات کے قول کا بطلان ہوجاتا ہے جو کہتے ہیں کہ یمین لغو یمین معقودہ ہی ہے اور اس میں کفارہ واجب ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت عائشہ ؓ نے یمین لغو کا جو مفہوم بیان کیا ہے وہی درست ہے نیز یہ کہ اس میں گزرے ہوئے زمانے کی کسی بات پر قسم کھائی جاتی ہے ۔ قسم کھانے والے کا خیال یہ ہوتا ہے کہ وہ بات اسی طرح ہوگی۔ قسم کی دو اقسام قسموں کی دو قسمیں ہیں ۔ ماضی اور مستقبل یعنی گزرے ہوئے زمانے سے تعلق رکھنے والی قسم اور آنے والے زمانے سے تعلق رکھنے والی قسم ، پہلی قسم کی پھر دو قسمیں ہیں ۔ یمین لغو اور غموس ا ن دونوں قسموں کا کوئی کفارہ نہیں ہوتا ۔ دوسری قسم کی صرف ایک صورت ہے۔ یہ یمین معقودہ ہے یعنی ایسی قسم جو جان بوجھ کر کھا گئی ہو ۔ حانث ہونے کی صورت میں اس میں کفارہ لازم ہوتا ہے ۔ امام مالک اور لیث بن سعد یمین غموس کے بارے میں ہمارے ہم مسلک ہیں کہ اس میں کفارہ نہیں ہوتا ۔ حسن بن صالح ، اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ یمین غموس میں کفارہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں قسموں کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے۔ آیت زیر بحث میں یمین لغو اور یمین معقودہ دونوں کا ذکر فرمایا ہے۔ سورة بقرہ میں ارشاد ہے لا یواخذکم اللہ یا لغوفی ایمانکم ولکن یواخذ کم بما کسبت قلوبکم ، تمہاری مہمل قسموں پر اللہ گرفت نہیں کرتا لیکن جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان کی باز پرس وہ ضرور کرے گا ۔ اس سے مراد ۔۔۔۔ واللہ اعلم ۔۔۔۔ یمین غموس ہے اس لیے کہ اس قسم کے سلسلے میں مواخذہ کا تعلق کسب قلب کے ساتھ ہے جو گناہ اور آخرت کی سزا کی صورت میں ہوگا ۔ کفارے کی صورت میں نہیں ہوگا ۔ اس لیے کہ کفارے کا تعقل کسب قلب کے ساتھ نہیں ہوتا ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جو شخص کسی معصیت کے ارتکاب کی قسم کھا لیتا ہے تو اس پر اس قسم کا توڑ دینا لازم ہوتا ہے اور اس کے ساتھ اسے کفارہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے ۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ قول باری ولکن یواخذ کم بما کسبت قلوبکم سے مراد یمین غموس ہے جس میں کذب بیانی کا ارادہ کیا جاتا ہے اور اس پر مواخذہ آخرت کی سزا کی صورت میں ہوگا ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کسب قلب پر مواخذہ کا ذکر کیا اور اس سے پہلے یمین لغو کا ذکرہوا ، یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ یمین لغو قسم کی وہ صورت ہے جس میں کذب بیانی کا ارادہ نہیں ہوتا اور یہ ان معنوں میں یمین غموس سے مختلف ہوتی ہے۔ یمین غموس میں کفارہ نہیں ہوتا اس پر قول باری ان الذین یشترون بعھدھم وایمانہم ثمنا قلیلا ً اولیک لا خلاق لھم فی الاخرۃ جو لوگ اپنے عہد اور اپنی قسموں کے بدلے تھوڑی سی قیمت حاصل کرتے ہیں ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں دلات کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں وعید کا ذکر کیا لیکن کفارے کا ذکر نہیں کیا، اگر ہم اس میں کفارہ واجب کردیں تو یہ نص میں اضافہ ہوگا اور یہ بات جائز نہیں ہوتی الایہ کہ اس جیسی کوئی نص ہو ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا من حلف علی یمین وھو فیھا اثم فاجر لیقطع بھا مالا ً لقی اللہ تعالیٰ وھو علیہ غضبان جس شخص نے کسی بات کی قسم کھائی ہو جبکہ وہ اس قسم میں گناہ گار اور فاجر ہوتا کہ اس کے ذریعے وہ کوئی مال ہتھیا لے تو جب وہ اللہ کے سامنے جائے گا تو اللہ اس سے ناراض ہوگا ۔ منبر رسول ﷺ پر غلط قسم کھانے والا جہنمی ہے۔ حضرت جابر ؓ نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا من حلف علی منبری ھذا بیمین اثمۃ تیوا مقعدہ من النار جو شخص میرے منبر پر گناہ میں مبتلا کرنے والی قسم کھائے گا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے گا ۔ حضور ﷺ نے گناہ کا ذکر کیا لیکن کفارے کا ذکر نہیں کیا ۔ یہ بات دو وجوہ سے کفارے کے عدم وجوب پر دلالت کرتی ہے۔ اول یہ کہ نص میں اس جیسی نص کے بغیر اضافہ جائز نہیں ہوتا ۔ دوم یہ کہ اگر کفارہ واجب ہوتا تو آپ ضرور اس کا ذکر کرتے جس طرح یمین معقودہ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے من حلف علی یمین فرای غیر ھا خیرا ً منھا فلیات الذی ھو غیر منھا ولیکفر عن یمینہ جس شخص نے کوئی قسم کھائی اور پھر دوسری بات اسے بہتر نظر آئی تو اسے چاہیے کہ دوسری بات اختیار کرلے اور اپنی قسم توڑ کر اس کا کفارہ ادا کرے اس حدیث کو حضرت عبد الرحمن بن سمرہ ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ اور دوسرے حضرات نے روات کی ہے۔ گزرے ہوئے زمانے سے تعلق رکھنے والی قسم پر کفارہ نہیں آتا اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے واحفظوا یمانکم اپنی قسموں کی نگہداشت کرو قسموں کی نگہداشت اور حفاظت کا مفہوم یہ ہے کہ قسم ٹوٹ جانے پر اس کے کفارے کی ادائیگی کا پورا خیال رکھا جائے ۔ اب یہ بات تو واضح ہے کہ گزشتہ زمانے سے تعلق رکھنے والی کسی قسم کی حفاظت ممتنع ہے اس لیے کہ جس چیز کے متعلق قسم کھائی گئی ہے اس کے وقوع پذیر ی میں صرف ایک ہی پہلو ہوتا ہے اس لیے اس میں حفظ اور نگہداشت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری ذلک کفارۃ ایمانکم اذا خلفتم یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جبکہ تم قسم کھا کر توڑ دو کا عموم قسم کی تمام صورتوں میں ایجاب کفارہ کا مقتضی ہے الایہ کہ دلیل کی بنا پر کسی صورت کی تخصیص ہوگئی ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے کہ بات اس طرح نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ تو واضح ہے کہ اس سے وہ قسم مراد ہے جو جان بوجھ کر آئندہ زمانے سے تعلق رکھنے والی بات پر اٹھائی جائے اس لیے اس فقرے میں لا محالہ ایک پوشیدہ لفظ موجود ہے جس کے ساتھ کفارہ کے وجوب کا تعلق ہے وہ لفظ حنث یعنی قسم کا توڑنا ہے۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت میں ایک پوشیدہ لفظ بھی ہے تو اب ظاہر آیت سے استدلال ساقط ہوگیا اس لیے کہ یمین معقودہ میں حنث سے پہلے کفارہ واجب نہیں ہوتا اس پر سب کا اتفاق ہے اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ آیت میں ایک پوشیدہ لفظ بھی موجود ہے اس لیے آیت کے عموم کا اعتبار جائز نہیں رہا اس لیے کہ آیت کے حکم کا تعلق اب اس پوشیدہ لفظ کے ساتھ ہوگیا جو آیت میں مذکور نہیں ہے۔ نیز قول باری واحفظوا ایمانکم اس بات کا مقتضی ہے کہ جن قسموں میں کفارے کا وجوب ہوتا ہے یہ وہ قسمیں ہیں جن کی حفاظت اور نگہداشت ہم پر لازم کردی گئی ہے یہ بات صرف یمین معقودہ میں پائی جاتی ہے اس قسم میں ہم حنث کی صورت میں کفارے کی ادائیگی کے لیے اس کی حفاظت کرسکتے اور اس کا خیال رکھ سکتے ہیں ۔ جبکہ گزشتہ بات پر قسم کے اندر حنت واقع نہیں ہوتا ۔ اس لیے اس قسم کی قسم کو آیت شامل ہی نہیں ہے ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ماضی سے تعلق رکھنے والی بات پر استثناء کا دخول درست نہیں ہوتا ۔ آپ کا یہ فقرہ درست نہیں ہے کان امس الجمعۃ ان شاء اللہ یا واللہ لقد کان امس الجمعۃ انشاء اللہ کل جمعہ کا دن تھا یا بخدا کل جمعہ کا دن تھا اس لیے کہ حنث کا مفہوم یہ ہے کہ قسم اٹھانے کے بعد اس کے خلاف کوئی بات وجود میں آ جائے۔ کفارے کا تعلق قسم اٹھانے کے بعد قسم توڑنے کے ساتھ ہوتا ہے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص صرف واللہ خدا کی قسم کا لفظ کہے تو یہ قسم ہوگی لیکن صرف اس قول کے وجود کے ساتھ اس پر کفارہ لازم نہیں آئے گا ۔ اس لیے کہ اس کے ساتھ حنث یعنی قسم کا توڑنا نہیں پایا گیا ۔ قول باری بما عقد ثم الایمان کی تین طرح قرأت کی گئی ہے تشدید کے ساتھ یعنی بما عقدتم یہ قرأت ایک گروہ نے کی ہے تشدید کے بغیر یعنی بماعقدتم نیز بما عا قدتم تشدید کے ساتھ والی قرأت کے متعلق ابو الحسن کرخی فرماتے تھے کہ اس میں عقد قولی کے سوا اور کسی بات کا احتمال نہیں ہے۔ تشدید کے بعد قرأت کی صورت میں عقد قلب کا احتمال ہے جس کے معنی عزیمت اور عقد قولی کے ارادے کے ہیں ۔ اس میں قولا ً عقدیمین کا بھی احتمال ہے۔ جب ایک قرأت میں قول اور اعتقاد قلب کا احتمال ہے اور دوسرے میں صرقولا ً عقدیمین کا احتمال ہے تو اس صورت میں اس قرأت کو جس میں دو معنوں کا احتمال ہے اس قرأت پر محمول کرنا واجب ہے جس میں صرف ایک معنی کا احتمال ہے۔ اس طرح دونوں قرأتوں سے جو مفہوم اخذ ہو وہ قولا ً عقد یمین کا مفہوم ہے۔ اس لیے ایجاب کفارہ کا حکم صرف قسم کی اسی صورت تک محدود رہے گا یعنی جب قسم یمین معقودہ کی شکل میں ہو۔ گزشتہ زمانے کی بات پر کھائی ہوئی قسم میں کفارہ واجب نہیں ہوگا اس لیے کہ وہ یمین معقودہ کی صورت میں نہیں ہوتی ۔ اس میں تو صرف گزرے ہوئے زمانے میں کسی وقوع پذیر معاملے کی خبر دی جاتی ہے اور ماضی کے متعلق خبر میں عقد یعنی ارادہ اور قصد نہیں ہوتاخواہ وہ جھوٹ ہو یا سچ ۔ اگر یہ کہا جائے کہ تشدید کے بغیر قرأت کی صورت میں لفظ دونوں معنوں یعنی عقد قلب اور عقد یمین کا احتمال رکھتا ہے تو آپ نے اس لفظ کو دونوں معنوں پر کیوں نہیں محمول کیا جبکہ ان دونوں معنوں میں کوئی منافات نہیں ہے۔ اسی طرح تشدید والی قرأت بھی عقد یمین پر محمول ہوگی یہ چیز لفظ کو قسم کے ارادے کے معنوں میں استعمال کرنے کی نفی نہیں کرتی اس طرح یہ لفظ قسم کی تمام صورتوں کے لیے عموم ہوجائے گا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر معترض کی بات تسلیم بھی کرلی جائے تو بھی لفظ کو معترض کی ذکر کردہ صورتوں میں استعمال کرنا درست نہیں ہوگا ۔ نیز اجماع کی دلالت بھی اس استعمال کے لیے مانع ہے۔ وہ اس لیے کہ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قسم کے ارادے کے ساتھ کفارے کے وجوب کا تعلق نہیں ہوتا اس لیے اس شخص کی تاویل باطل ہوگئی جس نے کفارہ کے حکم کے سلسلے میں لفظ کو دل کے ارادے کے معنوں پر محمول کیا تھا اور اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ایجاب کفارہ کے سلسلے میں دونوں قرأتوں کی صورت وہ قسم مراد ہے جو مستقبل کے کسی کام کے متعلق جان بوجھ کر کھائی جائے یعنی یمین معقودہ کی صورت ہو۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ قول باری عقد تم تشدید کی صورت میں تکرارکا مقتضی ہے جبکہ گرفت اور مواخذہ تکرار کے بغیر ہی لازم ہوجاتا ہے تو اب آپ اس لفظ کی کیا توجیہ کریں گے جو تکرار کا مقتضی ہے جبکہ تکرار کے بغیر کفارے کا وجوب لازم ہوجاتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ قسم کی تعقید یعنی گرہ بندی کبھی اس طرح ہوتی ہے کہ قسم اٹھانے والا اپنا دل میں بھی اس کی گرہ بندی یعنی ارادہ کرتا ہے اور اپنے الفاظ میں بھی اگر وہ قسم کی گرہ بندی صرف ایک صورت کے ذریعے کرے اور دوسری صورت کو چھوڑ دے یعنی دل میں اس کی گرہ بندی کرلی اور الفاظ میں نہ کرے یا اس کے برعکس کرے تو یہ تعقید نہیں کہلائے گی اس لیے کہ یہ لفظ تعظیم کے لفظ کے طرح ہے جو کبھی تو فعل کی تکرار اور اس کے بار بار عمل میں لانے کے ذریعے ہوتی ہے اور کبھی درجے اور مرتبے کو بلند کردینے کے ذریعے ہوتی ہے۔ ایک اور جہت سے دیکھئے ۔ تشدید کی قرأت کی صورت میں جس حکم کا افادہ ہوسکتا ہے وہ تخفیف کی قرأت کی صورت میں نہیں ہوسکتا وہ حکم یہ ہے کہ اگر قسم اٹھانے والا اپنی قسم کا تکرار کے طور پر اعادہ کرے گا تو اس تکرار کی بنا پر اس پر کفارہ لازم نہیں آئے گا ۔ اس پر صرف پہلی دفعہ قسم کھانے کی بنا پر ایک ہی کفارہ لازم آئے گا ہمارے اصحاب ؓ کا بھی یہی قول ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بات کی قسم کھالے پھر اسی مجلس میں اس قسم کا اعادہ کرلے یا کہیں اور جا کر اس کا اعادہ کرلے اور اسکا ارادہ صرف تکرار کا ہی ہو تو اس صورت میں اس پر صرف ایک کفارہ لازم آئے گا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ تخفیف کی قرأت کے ساتھ قول باری بما عقدتم بھی ایک قسم پر کفارہ کے ایجاب کا مقتضی ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ دونوں قرأتوں نیز تکرار کو ان ہی معنوں پر محمول کیا جاتا ہے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے اور اس طرح ہر قرأت اپنے پر ایک نئے فائدے کی موجب ہے اس لیے معترض کے اس اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ فصل جو لوگ قسم توڑنے سے پہلے کفارہ کے ایجاب کے قائل ہیں وہ دو وجوہ سے آیت زیر بحث سے استدلال کرتے ہیں ایک وجہ تو ہے کہ قول باری ہے ولکن یواخذ کم بما عقد ثم الایمان فکف تہ اللہ تعالیٰ نے عقد یمین کے بعد حنث یعنی قسم توڑنے کے ذکرکے بغیر کفارہ کا ذکر کردیا اور حرف فاء تعقیب کے لیے آتا ہے اس سے یہ لازم آیا کہ قسم کھاتے ہی کفارہ واجب ہوجائے گا ۔ دوسری وجہ یہ قول باری ہے ذلک کفارۃ ایمانکم اذا خلقتم الایمان فکف رتہ کے متعلق اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس میں ایک لفظ پوشیدہ ہے اس لیے جب کبھی کفارہ کے ایجاب کا ارادہ کیا جائے گا اس لفظ کے اعتبار ضروری ہوگا ۔ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ آیت قسم توڑنے پر کفارہ کے ایجاب کو متضمن ہے نیز یہ کہ حنث سے پہلے کفارہ واجب نہیں ہوتا ۔ تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہاں یہ مراد ہے کہ جو قسم تم نے جان بوجھ کر کھائی ہو اور پھر تم نے اسے توڑ دیا ہو اس صورت میں اس کا کفارہ یہ ہے۔۔۔۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے ومن کان مریضا ً او علی سفر فعدۃ من ایام اخر یہاں یہ مفہوم ہے کہ جو شخص بیمارہو یا سفر پر ہو اور وہ روزہ نہ رکھتے تو دوسرے دنوں کی گنتی پوری کرلے ۔ اس طرح یہ قول باری ہے فمن کان منکم مریضا ً او بہ اذی م راسہ ففدیۃ من صیام او صدقۃ۔ یہاں یہ معنی ہیں کہ تم میں سے جو شخص بیمار ہوجائے یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہوجائے اور پھر وہ حالت احرام میں سر مونڈلے تو اس پر فدیہ واجب ہوگا ، روزے یا صدقہ یا قربانی کی صورت میں اسی طرح آیت زیر بحث کا مفہوم ہے کہ جو قسم تم نے جان بوجھ کر کھائی ہو اور پھر حانث ہوگئے ہو تو اس کا کفارہ یہ چیزیں ہیں ۔ اس لیے کہ سب کا ا س پر اتفاق ہے کہ حنث سے پہلے کفارہ واجب نہیں ہوتاجب کہ دوسری طرف آیت لا محالہ کفارے کے ایجاب کی مقتضی ہے اور یہ ایجاب حنث کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ آیت میں لفظ حنث پوشیدہ ہے اور ایجاب کفارہ میں یہی مراد ہے نیز جب اللہ تعالیٰ نے اس کا نام کفارہ رکھا تو ہمیں اس سے معلوم ہوگیا کہ اس کی مراد یہ ہے کہ کفارہ واجب ہونے کی حالت میں اس چیز کے ذریعے کفارہ ادا کیا جائے جو آیت میں اس نام سے موسوم کیا گیا ہے یعنی دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑے پہنانا یا ایک غلام آزاد کردینا ۔ اس لیے کہ جو چیز واجب نہیں ہوگی وہ حقیقت میں کفارہ نہیں کہلا سکتی اور نہ ہی اس نام سے موسوم کی جاسکتی ہے ۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ آیت میں مراد یہ ہے کہ جب تم اپنی قسم توڑ دو تو پھر اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔ تلاوت کے تسلسل میں قول باری ذلک کفارۃ ایمانکم ذا خلفتم یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم کھائو اس کا مفہوم یہ ہے کہ جب تم قسم کھائو اور اپنی قسم توڑ دو ۔ اگر یہ کہا جائے کہ جس طرح سبب یعنی نصاب زکوٰۃ کے وجوب کے ساتھ سال گزرنے سے پہلے زکوٰۃ کی ادائیگی کو زکوٰۃ کا نام دینا جائز ہے یا جس طرح قتل کے وجود سے قبل لگنے والے زخم کے ساتھ دیئے جانے والے کفارہ کو کفارہ قتل کا نام دینا جائز ہے اگرچہ زخمی ہونے کی حالت میں کفارہ واجب نہ ہو ۔ اسی طرح یہ بھی جائز ہے کہ قسم کھانے والا قسم توڑ دینے سے قبل کفارہ کے طور پر جو ادا کرے اسے کفارہ کا نام دیا جائے اور اس کے جواز کے لیے حنث کے لفظ کو آیت میں پوشیدہ ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہ پیش آئے۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ آیت میں وہ کفارہ مراد ہے جو حنث کے بعد واجب ہوتا ہے لیکن اگر اس سے صرف واجب کفارہ مراد لیا جائے تو اس صورت میں یہ بات ممتنع ہوجائے گی کہ اس میں وہ کفارہ بھی شامل ہوجائے جو واجب نہ ہوا ہو ۔ اس لیے کہ یہ بات محال ہے کہ ایک ہی لفظ ایجاب کا بھی مقتضی ہو اور اس کا بھی جو واجب نہ ہو۔ اس لیے جب اس سے واجب کفارہ مراد لیا جائے گا تو وہ کفارہ منتفی ہوجائے گا جو واجب نہ ہوا ہو ۔ نیزی ہ بات ثابت ہے کہ جو شخص تبرع اور نیکی کے طور پر کھانا وغیرہ کھلاتا ہے وہ اس کے ذریعے کفارہ ادا کرنے۔ والا شمار نہیں ہوتا اگر اس نے قسم نہ کھائی ہو ، جب حنث سے پہلے کفارہ ادا کرنے والاتبرع کرنے والا شمار ہوتا ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس نے جو کچھ دیا ہے وہ کفار ہ نہیں ہے ۔ اگر اس نے ایسا کرلیا تو وہ اس کام کا سر انجام دینے والا شمار نہیں ہوگا جس کا اسے حکم دیا گیا تھا۔ معترض نے اپنے اعتراض میں جن دو صورتوں کی مثال دی ہے اس کا جواب یہ ہے کہ زخم لگنے کے بعد زخمی کی موت سے قبل کفارہ قتل کی ادائیگی نیز سال گزرنے سے پہلے زکوٰۃ کی ادائیگی در حقیقت تطوع کی صورت ہے ، یہ نہ کفارہ ہے اور نہ زکوٰۃہم نے اسے اس وقت جائز قرار دیا جب یہ دلالت قائم ہوگئی کہ تطوع کے طور پر دیا جانے والا یہ کفارہ یا یہ زکوٰۃ موت واقع ہوجانے کی صورت میں نیز سال گزر جانے کے بعد فرضیت کے لزوم کو مانع ہے۔ فصل جو شخص اپنی نذر کو کسی شرط کے ساتھ مشروط کر دے مثلا ً یہ کہے اگر میں گھر میں داخل ہوا ۔ تو اللہ کے لیے مجھ پر حج کرنا یا غلام آزاد کرنا لازم ہوگا ۔ یا اس قسم کی کوئی اور شرط لگائے اور پھر حانث ہوجائے تو اس پر قسم کا کفارہ واجب ہوگا نذر کے طور پر مانی ہوئی چیز واجب نہیں ہوگی ۔ اس مسلک کے قائلین نے ظاہر قول باری ولکن یواخذکم بما عقد تم الایمان نیز قول باری ذلک کفارۃ ایمانکم اذا خلفتم سے استدلال کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب نذر ماننے والا یہ شخص حالف یعنی قسم کھانے والا بن گیا تو پھر حنث کی صورت میں اس پر قسم کا کفارہ واجب ہوگیا ۔ نذر کے طور پر مانی ہوئی چیز یعنی منذورواجب نہیں ہوئی ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ بات اس طرح نہیں ہے جس طرح ان لوگوں سے خیال کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نذر کی بنا پر نذر کے طور پر مانی ہوئی چیز کو بعینہٖ پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ نذر کی اصل یمین کی اصل سے مختلف ہے۔ اس لیے کہ قوم بارل ہے واو فوا بعھد اللہ اذ ا خلفتم جب تم عہد کرو تو اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرو۔ نیز ارشاد ہوا یوفون بالنذر وہ نذر کو پورا کرتے ہیں نیز فرمایا اوفوا بالعقود عقود کو پورا کرو۔ نیز ارشاد ہوا ومنھم من عاھد اللہ لئن تانا من فضلہ لنصدون و لنکونن من الصالحین فلما اتھم من فصلہ بخلوا بہ وتولوا و ھم معرضون ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے یہ عہد کیا تھا کہ اگر ہمیں اللہ اپنے فضل سے مال دے گا تو ہم ضرور صدقہ کریں گے اور نیک بن جائیں گے لیکن جب اللہ نے انہیں اپنے فضل سے مال دیا تو وہ اس میں بخل کرنے لگے اور منہ موڑ گئے اور وہ تو منہ موڑنے والے ہی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی اس بنا پر مذمت کی کہ انہوں نے اپنی نذر بعینہٖ پوری نہیں کی ۔ حضور ﷺ کا بھی ارشاد ہے من نذر نذرا ً لم یسمہ فعلیہ کفارۃ یمین ومن نذر نذرا ً سماہ فعلیہ اوفاء بہ جس شخص نے کوئی نذر مانی ہو لیکن اس کی تعیین نہ کی ہو تو اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا اور جس نے نذر مانی ہو اور اس کی تعیین بھی کی ہو تو اس اسے پورا کرنا لازم ہوگا ۔ قول باری ذلک کفارۃ ایمانکم کا تعلق اس قسم کے ساتھ ہے جو اللہ کے نام پر جان بوجھ کر کسی امر مستقبل کے بارے میں کھائی گئی ہو جسے یمین منعقدہ کہا جاتا ہے جبکہ نذر کی صورتوں کی بنیاد وہ آیات ہیں جن کا ہم نے ابھی نذر پوری کرنے کے لزوم کے سلسلے میں ذکر کیا ہے۔ قول باری ہے واحفظو ایمانکم تم اپنی قسموں کی حفاظت کرو کچھ لوگوں کا قول ہے کہ قسم قسم توڑنے سے اپنے آپ کو بچائو اور قسم کھا کر قسم توڑ دینے سے پرہیز کرو اور ڈرتے رہو، اگرچہ قسم توڑنا کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ دوسرے حضرات کا قول ہے ۔ قسمیں کم کھایا کرو جس طرح یہ قول باری ہے ولا تجعلوا اللہ عرضۃ لایامانکم اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو اپنی قسموں کا نشانہ نہ بنا لو ا ن حضرات نے شاعر کے اس قول سے استشہاد کی ہے۔ ؎ قلیل الالایا حافظ لیمینہ اذا بدرت منہ الالیۃ برت اس کی قسمیں بہت قلیل ہیں اور وہ اپنی قسم کی حفاظت کرتا ہے جب کہ اس کے منہ سے کوئی قسم نکل جاتی ہے تو وہ پوری بھی ہوجاتی ہے۔ کچھ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ قسموں کو اس طرح نگہداشت کرو کہ قسم توڑنے پر کفارہ ادا کر دو ۔ اس لیے کہ کسی چیز کی حفاظت اس چیز کی نگہداشت کا نام ہے۔ یہی بات درست ہے۔ آیت کی پہلی تاویل بےمعنی ہے۔ اس لیے کہ قسم اگر کسی معصیت کے ارتکاب کے لیے نہ کھائی گئی ہو تو اسے توڑ دینے سے روکا نہیں گیا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے من حلف علی یمین فرای غیر ھا خیراً منھا فلیات بالذیھو خیرو لیکفرعن یمینہ آپ نے قسم کھانے والے کو قسم توڑنے کا حکم دیا ۔ ارشاد باری بھی ہے ولا یاتل اولوا الفضل منکم والسعۃ ان یوتوا اولی القربی والمساکین والمھاجرین فی سبیل اللہ ولیحفوا ولیصفوا ! جول گو تم میں بزرگی اور بیعت والے ہیں وہ قرابت والوں کو اور مسکینوں کو اور ہجرت فی سبیل اللہ کرنے والوں کو دینے سے قسم نہ کھا بیٹھیں ۔ چاہیے کہ معاف کرتے رہیں اور در گزر کرتے رہیں تا آخر آیت ۔ روایت میں ہے کہ یہ آیت مسطح بن اثاثہ کے بارے میں نازل ہوئی جب حضرت ابوبکر ؓ نے ان پر کچھ خرچ نہ کرنے کی قسم کھالی تھی ، اس کی وجہ یہ تھی کہ مسطح نے افک کے واقعہ کے سلسلے میں بڑی سرگرمی دکھائی تھی ۔ حضرت ابو یکر ؓ اس شخص کی مدد کرتے رہتے تھے یہ ان کا رشتہ دار بھی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر ؓ کو اپنی قسم توڑ دینے کا حکم دے دیا اور اس شخص کی دوبارہ کفالت کا امر فرمایا چناچہ حضرت ابوبکر ؓ نے اللہ کے اس حکم کے مطابق اپنی قسم توڑ دی اور پھر سے اس کی مدد شروع کردی ۔ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو بھی اپنی قسم توڑ دینے کا حکم دیا تھا۔ چناچہ ارشاد ہے یایھا النبی لم تحرم ما احل الہ لک اے نبی ! آپ کیوں اپنے اوپر وہ چیز حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کردی ہے تا قول باری اقد فرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں پر اپنی قسمیں کھول دینا فرض کردیا ہے یعنی کفار ہ دے کر اور دوبارہ اس چیز کی طرف رجوع کر کے جو اپنے اوپر حرام کرلی ہو۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ جب کسی معصیت کے ارتکاب کی قسم نہ کھائی گئی ہو تو اس صورت میں قسم توڑ دینے سے روکا نہیں گیا ہ۔ اس لیے قول باری واحفظو ایمانکم سے قسم توڑنے کی نہی مراد لینا درست نہیں ہوگا ۔ جن لوگوں کا یہ قول ہے کہ آیت میں قسم کھانے کی نہی ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے شاعر کے شعر سے استشہاد کیا ہے ان کا قول بھی انتہائی کمزور اور ساقط ہے۔ اس لیے کہ قسم کی حفاظت کے حکم کو نہی پر محمول کرنا کسی طرح درست نہیں ہے ۔ جس طرح یہ کہنا درست نہیں ہے اپنے مال کی حفاظت کر یعنی مال نہ حاصل کر شاعر کے شعر کا مفہم ہمارے قول کے مطابق ہے یعنی کفارہ ادا کرنے کے لیے قسم توڑنے کی رعات کی جائے۔ اس لیے کہ شاعر نے پہلے مصرعہ میں یہ بتایا ہے کہ مذکورہ شخص کی قسمیں بہت کم ہیں ۔ پھر کہا کہ وہ اپنی قسم کی حفاظت کرتا ہے یعنی وہ اس کی نگہداشت کرتا ہے تا کہ قسم توڑنے کی صورت میں اس کا کفارہ ادا کر دے۔ اگر شعر کا وہ مفہوم ہوتا جو استشہاد کرنے والے نے بیان کیا ہے تو اس میں اسی بات کی تکرار لازم آ جاتی جو اس نے پہلے بیان کردی تھی اس لیے یہ بات درست ہے کہ آیت میں قسم کی نگہداشت کا حکم ہے تا کہ حنث کی صورت میں اس کا کفارہ اد ا کرے۔
Top