Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 89
لَا یُؤَاخِذُكُمُ اللّٰهُ بِاللَّغْوِ فِیْۤ اَیْمَانِكُمْ وَ لٰكِنْ یُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ١ۚ فَكَفَّارَتُهٗۤ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسٰكِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَهْلِیْكُمْ اَوْ كِسْوَتُهُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ١ؕ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَةِ اَیَّامٍ١ؕ ذٰلِكَ كَفَّارَةُ اَیْمَانِكُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ١ؕ وَ احْفَظُوْۤا اَیْمَانَكُمْ١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
لَا يُؤَاخِذُكُمُ : نہیں مواخذہ کرے گا تمہارا اللّٰهُ : اللہ بِاللَّغْوِ : ساتھ لغو کے فِيْٓ اَيْمَانِكُمْ : تمہاری قسموں میں وَلٰكِنْ : اور لیکن يُّؤَاخِذُكُمْ : وہ مواخذہ کرے گا تمہارا بِمَا : بوجہ اس کے جو عَقَّدْتُّمُ الْاَيْمَانَ ۚ : مضبوط گرہ باندھی تم نے قسموں کی فَكَفَّارَتُهٗٓ : تو کفارہ ہے اس کا اِطْعَامُ : کھانا کھلانا عَشَرَةِ : دس مَسٰكِيْنَ : مسکینوں کا مِنْ اَوْسَطِ : اوسط درجے کا مَا تُطْعِمُوْنَ : جو تم کھلاتے ہو اَهْلِيْكُمْ : اپنے گھروالوں کو اَوْ كِسْوَتُهُمْ : یا کپڑ پہنانا ان کو اَوْ : یا تَحْرِيْرُ رَقَبَةٍ ۭ : آزاد کرنا ایک گردن کا فَمَنْ : تو جو کوئی لَّمْ يَجِدْ : نہ پائے فَصِيَامُ : تو روزے رکھنا ہیں ثَلٰثَةِ اَيَّامٍ : تین دن کے ۭذٰلِكَ : یہ كَفَّارَةُ : کفارہ ہے اَيْمَانِكُمْ : تمہاری قسموں کا اِذَا حَلَفْتُمْ : جب تم قسم کھاؤ ۭ وَاحْفَظُوْٓا : اور حفاظت کیا کرو اَيْمَانَكُمْ ۭ : اپنی قسموں کا كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ : بیان کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے اٰيٰتِهِ : اپنی آیات کو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : تم شکر ادا کرو
خدا تمہاری بےارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ نہ کریگا۔ لیکن پختہ قسموں پر (جنکے خلاف کرو گے) مواخذہ کرے گا۔ تو اسکا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو۔ یا ان کو کپڑے دینا یا ایک غلام آزاد کرنا۔ اور جس کو یہ میسر نہ ہو وہ تین روزے رکھے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے۔ جب تم قسم کھالو (اور اسے توڑ دو ) اور (تم کو) چاہئے کہ اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ اس طرح خدا تمہارے (سمجھانے کے) لئے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر کرو۔
قسم کا کفارہ کتنا ہے ؟ قول باری ہے (اطعام عشرۃ مساکین ہیں مسکینوں کو کھانا کھلانا) حضرت علی، حضرت عمر، حضرت عائشہ، سعید بن المسیب، سعید بن جبیر، ابراہیم نخعی ، مجاہد اور حسن کا قول ہے کہ قسم کے کفارہ میں ہر مسکین کو نصف صاع تقریباً دو سیر گندم دی جائے گی۔ حضرت عمر اور حضرت عائشہ کا قول ہے یا ایک صاع کھجور دیا جائے گا ۔ ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے جب قسم کھانے والا ان مسکینوں کو طعام کا مالک بنا دے۔ حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر، حضرت زید بن ثابت، عطاء بن ابی رباح اور دوسرے حضرات کا قول ہے کہ یہ مسکین کو ایک مد ایک پیمانہ جس کی مقدار اہل عراق کے نزدیک دو رطل یعنی اسی تولے اور اہل حجاز کے نزدیک پونے دو رطل ہے) گندم دی جائے گی۔ امام مالک اور امام شافعی کا یہی قول ہے۔ تملیک کئے بغیر کھانا کھلانے کے مسئلے میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت علی، محمد بن کعب، قاسم، سالم، شعبی، ابراہیم نخعی اور قتادہ سے مروی ہے کہ ان مسکینوں کو صبح اور شام کا کھانا دیا جائے گا۔ ہمارے اصحاب کا یہی قول ہے ۔ نیز امام مالک، سفیان ثوری اور اوزاعی کا بھی یہی قول ہے حسن بصری کا قول ہے کہ صرف ایک وقت کھلایا جائے گا اور یہی کافی ہوگا۔ حکم کا قول ہے کہ جب تک طعام مسکینوں کے حوالے نہیں کردیا جائے گا کھانا کھلانا یعنی اطعام درست نہیں ہوگا۔ سعید بن جبیر کا قول ہے کہ دو مدتو طعام کے لئے دیئے جائیں گے اور ایک مد سالن کے لئے دیا جائے گا۔ ان مسکینوں کو اکٹھا کر کے کھانا کھلایا نہیں جائے گا بلکہ کفارہ ادا کرنے والا انہیں یہ طعام حوالے کر دے گا۔ ابن سیرین ، جابرن بن زید، مکحول، طائوس اور شعبی سے مروی ہے کہ انہیں ایک ہی دفعہ بٹھا کر کھلادیا جائے گا۔ حضرت انس سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ انہیں طعام مشترکہ طور پر نہیں دے گا بلکہ ہر مسکین کو ایک مد کی مقدار طعام دے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری ہے (فکفارتہ اطعام عشرۃ مساکین من اوسط ما تطعمون اھلیکم اس کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو وہ اوسط درجہ کا کھانا کھلا ئو جو تم اپنے بال بچوں کو کھلاتے ہو) ظاہر آیت مسکینوں کو طعام دیے بغیر اکل کی صورت میں اطعام کے جواز کا مقتضی ہے۔ آپ اس قول باری کو نہیں دیکھتے (ویطعمون الطعام علی حبہ مسکیناً اور وہ اللہ کی محبت میں مسکین کو کھانا کھلاتے ہیں) اس سے یہی مفہوم سمجھ میں آتا ہے کھانا مسکینوں کی ملکیت میں دیئے بغیر ان کے سامنے رکھ دیا جائے اور اس طرح انہیں کھلا دیا جائے۔ جب یہ فقرہ کہا جائے گا کہ ” فلاں یطعم انطعا م (فلاں شخص کھانا کھلاتا ہے) اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ فلاں شخص لوگوں کو کھانے پر بلاتا ہے۔ جب اطعام کا اسم اباحت کے مفہوم کو شامل ہے تو اس کا جواز واجب ہوگیا اور جب ملکیت میں دیئے بغیر اباحت کے طور پر اطعام جائز ہوگیا تو پھر ملکیت میں دے دینا بڑھ کر جائز ہوگا۔ اس لئے کہ تملیک اباحت سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ تملیک کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں۔ ہمارے اصحاب نے یہ کہا ہے کہ انہیں صبح و شام دو وقت کا کھانا دیا جائے گا اس کی وجہ یہ قول باری ہے (من اوسط ماتطعمون اھلیکم) اوسط کھانا وہ ہوتا ہے جو صبح و شام دو وقت کھایا جاتا ہے۔ اس لئے کہ دن رات چوبیس گھنٹوں میں زیادہ سے زیادہ تین دفعہ کھانا کھایا جاتا ہے، کم سے کم ایک دفعہ اور اوسطاً دو مرتبہ لوگوں کی عام عادت اسی طرح ہے۔ لیث بن سعد نے ابن بریدہ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (اذا کان خبزا یا بساً فھو غداء لا و عشائوہ اگر خشک روٹی ہو تو یہی اس کے صبح و شام کا کھانا ہے۔ ) ہمارے اصحاب کا یہ قول ہے کہ اگر کفارہ ادا کرنے والا انہیں کھانا دینا چاہے تو نصف صاع گندم اور ایک صاع جو یا کھجور دے گا۔ اس کی دلیل حضور ﷺ سے حضرت کعب بن عمرہ کی روایت ہے جس کا تعلق سر کی تکلیف کے فدیہ سے ہے۔ آپ نے فرمایا (ادا طعم ثلاثہ آصع من طعام ستۃ مساکین یا تین صاع طعام چھ مسکینوں کو کھلا وہ) ایک اور حدیث میں ہے (اطعم ستۃ آصع من تمر ستۃ مساکین چھ صاع کھجور چھ مسکینوں کو کھلا دو ) آپ نے ہر مسکین کے لئے ایک صاع کھجور یا نصف صاع گندم مقرر کردی اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قسم کا کفارہ بھی اسی طرح ہے۔ اس لئے کہ حضور ﷺ نے سر کی تکلیف کے فدیہ میں اور قسم کے کفارہ میں طعام کی مقدار کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں کیا۔ آپ سے ظہار کے کفارہ کے سلسلے میں مروی ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو ایک وسق کھجور دیا جائے گا۔ وسق کی مقدار ساٹھ صاعب کے برابر ہوتی ہے۔ جب ظہار کے کفارے میں ہر مسکین کے لئے ایک صاع کھجور کا ثبوت ہوگیا تو قسم کا کافرہ بھی اسی طرح ہوگا۔ اس لئے کہ ان دونوں کے اندر واجب ہونے والے طعام کے مقدار کی یکسانیت پر سب کا اتفاق ہے۔ جب ایک صاع کھجور کا ثبوت ہوگیا تو گندم میں نصف صاع کا وجوب ہوگیا اس لئے کہ جن حضرات نے اس میں ایک صاع کھجور واجب کیا ہے انہوں نے نصف صاع گندم واجب کی ہے۔ قول باری ہے (من اوسط ماتطعمون اھلیکم) حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ اہل مدینہ کے لئے خوراک کی جو مقدار ہوتیھی اس میں بالغ اور آزاد کا حصہ نابالغ اور غلام کی بہ نسبت زیادہ ہوتا تھا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی (من اوسط ما تطعمون اھلیکم) یعنی اوسط درجے کا کھانا۔ نہ زیادہ بڑھیا اور نہ زیادہ گھٹیا، سعید بن جبیر سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے بیان کردیا کہ اوسط سے مراد یہ ہے کہ اوسط مقدار ہو، یہ مراد نہیں کہ سالن کے ساتھ ہو۔ حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ ” اوسط طعام روٹی اور کھجور ہے۔ نیز روٹی اور زیتون کا تیل ہے۔ ہم اپنے بال بچوں کو جو بہترین کھانا کھلاتے ہیں وہ گوشت اور روٹی ہے۔ “ عبیدہ سے مروی ہے کہ اسوط طعام روٹی اور گھی ہے۔ ابو رزین نے کہا ہے اوسط طعام روٹی، کھجور اور سرکہ ہے۔ ابن سیرین کا قول ہے کہ سب سے عمدہ کھانا گوشت روٹی ہے اوسط کھانا گھی روٹی ہے اور احسن کھانا کھجور اور روٹی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے سلمہ بن صخہ کو ظہار کے کفارہ میں ہر مسکین کو ایک صاع کھجور دینے کا حکم دیا تھا اور اس کے ساتھ سالن کے طہور پر کوئی اور چیز دینے کا حکم نہیں دیا تھا۔ نیز آپ نے حضرت کعب بن عجرہ کو تین صاع طعام چھ مسکینوں پر صدقہ کو دینے کا حکم دیا تھا اس کے ساتھ سالن کے طور پر کچھ دینے کا حکم نہیں دیا تھا۔ کسی اہل علم کے نزدیک ظہار کے کفارہ اور قسم کے کفارہ کے درمیان طعام کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ طعام کے ساتھ اوام یعنی سالن واجب نہیں ہے۔ نیز یہ کہ آیت میں مذکورہ اوسط سے اسوط مقدار مراد ہے اس کے ساتھ اوام ملانا مراد نہیں ہے۔ قول باری افکفارتہ اطعام عشرۃ مساکین) ان سب کے لئے عموم ہے جن پر مسکین کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس لئے ایک مسکین کو سارا کھانا دینے کے جواز پر اس سے استدلال کرنا درست ہے۔ یعنی سارا کھانا ایک مسکین کو دس دنوں میں نصف صاع یومیہ کے حساب سے دے دینا جائز ہے۔ اس لئے کہ اگر ہم اسے دوسرے دن کھانا نہ دیں تو ہم اسم کے بعض مدلول کے اندر حکم کی تخصیص کردیں گے اور بعض کو چھوڑ دیں گے۔ خاص طور پر ان مدلول کے اندر جو بالا تفاق آیت کے حکم میں داخل ہیں۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ ایک مسکین کو دس دنوں میں نصف صاع یومیہ کے حساب سے سارا طعام دے دینا قسم کے کفارہ کی ادائیگی کے لئے کافی نہیں ہوگا۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے دس مسکینوں کا ذکر فرما دیا تو اب ان سے کم پر اقتصار کرنا جائز نہیں ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے (فاجلدوھم ثمانین جائدۃ انہیں اسی کوڑے لگائو یا یہ قول باری ہے (اربعۃ اشھر و عشراً چار مہینے دس دن) جن اعداد کا ذکر کیا گیا ہے ان سے کم پر اقتصار کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے زیر بحث مسئلے، میں بھی دس مسکینوں سے کم پر اقتصار کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ چونکہ اطعام کا مقصد مساکین کی بھوک دور کرتا ہے اس لئے اس میں ایک مسکین اور مسکینوں کے ایک گروہ کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ جب کہ ان سب کے لئے ایک دن میں اطعام کے عمل کی تکرار ہوجانے یا صرف ایک کے لئے دس دنوں کے اندر اس عمل کو دہرایا جائے۔ یہ دونوں صورتیں اس مقصد کے مطابق ہیں، اس طرح دس مسکینوں کو اطعام کا جو معنی مقصود سے وہ ایک مسکین کو دس دنوں کے اندر اس عمل کے تکرار میں موجود ہے۔ اس میں کوئی امتناع نہیں ہے کہ اس عمل کی تکرار کی صورت میں ایک مسکین پر دس مسکینوں کے اطعام کا اطلاق کردیا جائے۔ اس لئے کہ مقصد تو اس عمل کی تکرار ہے نہ کہ مساکین کی تکرار۔ جس طرح یہ قول باری ہے (یسئلونک عن الاھلۃ آپ سے چاند کے گھٹنے بڑھنے کے متعلق پوچھتے ہیں) چاند تو ایک ہلال ہوتا ہے لیکن چونکہ ہر ماہ اس کی رویت میں تکرار ہوتی ہے اس لئے اس پر جمع کے اسم کا اطلاق ہوگیا۔ حضور ﷺ نے استنجا میں تین ڈھیلے استعمال کرنے کا حکم دیا لیکن اگر کوئی شخص صرف ایک تکونی ڈھیلے سے استنجا کرلے تو یہ اس کے لئے کافی ہوگا۔ یا جس طرح آپ نے سات کنکروں کے ساتھ رمی جمار کا حکم دیا لیکن اگر کوئی شخص ایک ہی کنکر کو سات دفعہ رمی کے لئے استعمال کرے تو بھی اس کے لئے یہ کافی ہوگا اس لئے کہ رمی جمار میں سات دفعہ کنکر مارنا مقصد ہوتا ہے۔ اسی طرح اسنجا میں مقعد کو تین دفعہ ڈھیلا لگانا قمصد ہوتا ہے۔ ڈھیلوں کی تعداد مقصد نہیں ہوتا۔ ٹھیک اسی طرح جب کفارہ دینے کا مقصد مساکین کی بھوک دور کرنا ہے تو پھر ایک مسکین کو دس دن کھلانے اور دس مسکینوں کو ایک دن کھلانے کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے (اوکسوتھم یا انہیں کپڑے پہنائے) یہاں یہ تو واضح ہے کہ مراد ان دس مسکینوں کو دس کپڑے پہنانا ہے اس طرح عبارت کی ترتیب کچھ اس طرح ہوگئی۔” اوعشرۃ اثواب “ (یا دس کپڑے) کپڑے پہنانے میں ایک یا دس مساکین کی کوئی تخصیص نہیں کی اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ اگر ایک مسکین کو دس جوڑے دے دیئے جائیں تو وہ کفارہ کے لئے کفایت کر جائے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ” میں نے دس مسکینوں کے جوڑے ایک مسکین کو دے دیئے۔ “ تو اس کا یہ قول درست ہوگا۔ اس طرح قول باری (اوکسوتھم) اس جہت سے اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ حکم مسکینوں کی دس کی تعداد میں منحصر نہیں ہے۔ اس پر اس جہت سے بھی دلالت ہو رہی ہے جس میں جہت سے اطعام کے ذکر میں دلالت ہوتی ہے جس کا ہم نے درج بالا سطور میں ذکر کردیا ہے۔ ہمارے اصحاب کے نزدیک ایک مسکین کو جوڑے دینے کی صورت اس وقت جائز ہوگی جب اسے دس دنوں کے اندر ہر روز ایک جوڑا دے دیا جائے اس لئے کہ کھانا کھلانے میں ایک مسکین کو دس دن کھلانے کا ہمارے بیان کی روشنی میں جب ثبوت ہوگیا تو پھر کپڑا پہنانے میں بھی یہ طریقہ واجب ہوگیا اس لئے کہ کسی نے کھانا کھلانے اور کپڑا پہنانے کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ ہمارے اصحاب نے طعام اور کپڑوں کی بجائے ان کی قیمت کی ادائیگی کو بھی جائز قرار دیا ہے اس لئے کہ اس بات کا ثبوت ہوگیا کہ کفارہ میں مقصد یہ ہوتا ہے کہ مساکین کو مال کی اس مقدار سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے جو انہیں وصول ہوئی ہے۔ یہی فائدہ انہیں قیمت کے طور پر نقد رقم حاصل ہونے کی صورت میں بھی ملتا ہے جس طرح طعام اور کپڑے کی صورت میں حاصل ہوتا ہے۔ نیز جب روایات اور قیاس و نظر کی رو سے زکوۃ کے اندر قیمت کی ادائیگی درست ہوتی ہے تو پھر کفارہ کی صورت میں بھی ایسا ہونا واجب ہوگیا۔ اس لئے کہ کسی نے بھی ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ علاوہ ازیں اگر کوئی شخص کسی کو رقم دے کر طعام اور کپڑے وغیرہ خریدنے کے لئے کہتا ہے تو اس کے متعلق یہ اطلاق ممتنع نہیں ہوتا کہ ” اس نے فلاں کو کھانا کھلایا اور کپڑا پہنایا ہے۔ “ جب اس اطلاق کی گنجائش نکل آئی تو پھر آیت کے الفاظ اس صورت یعنی نقدی کی صورت میں کفارہ کی ادائیگی پر بھی مشتمل ہوگی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اطعام کی حقیقت یہ ہے کہ ایک شخص کسی کو اس طرح کھلائے کہ کھانا اس کے لئے مباح کر دے یعنی اس کے سامنے لا کر رکھ دے اور پھر وہ اس میں سے جتنا چاہے کھالے۔ اس کے ساتھ اگر وہ اس کھانے کو مسکین کی مالیت میں دے دیتا اور مسکین اسے کھائے بغیر فروخت کر کے نقد رقم حاصل کرلیتا تو بھی کفارہ ادا ہوجاتا اگرچہ لفظ کے حقیقی معنی اس صورت کو شامل نہیں ہیں لیکن چونکہ اس مقدار میں مال اس تک پہنچانے کا مقصد حاص لہو گیا اس لئے یہ صورت درست ہوگئی اگرچہ اس نے اسے کھایا نہیں اور کھانے کے طور پر اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ اسی طرح اگر کفارہ ادا کرنے والا مسکین کو جوڑا دے دیتا لیکن مسکین اسے پہنے بغیر فروخت کردیتا اور اس کی قیمت اپنے استعمال میں لے آتا تو اس کا کفارہ ادا ہوجاتا اگرچہ اس پورے عمل میں اس نے مسکین کو جوڑا نہیں پہنایا صرف اسے جوڑا دیا ہے۔ لیکن جواز کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اسے جوڑا دے کر مال کی یہ مقدار اس تک پہنچا دی ہے اس بنا پر وہ اسے کپڑا پہنانے والا قرارپایا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ کفارے میں کھانے اور کپڑے کا حصول مقصد نہیں ہے بلکہ ماں کی اس مقدار کا مسکین تک پہنچ جانا مقصد ہے اس مقصد کے حصول کے لئے جنس اور نقد کی صورتوں میں حکم کے اندر کوئی فرق نہیں ہوگا یعنی مسکین کو خواہ طعام یا کپڑا دے دیا جائے یا ان کی قیمت دونوں صورتوں میں مقصد حاصل ہوجائے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حضور ﷺ نے صدقہ فطر میں نصف صاع گندم یا ایک صاع جو یا کھجور کی مقدار مقرر کر کے فرمایا (اغنوھم عن المسئلۃ فی ھذا الیوم آج کے دن انہیں دست سوال دراز کرنے سے مستغنی کر دو ) آپ نے بتادیا کہ صدقہ فطر میں مقصد یہ ہے کہ مساکین سوال کرنے سے مستغنی ہوجائیں بعینہ طعام مقصد نہیں۔ یہ مقصد جس طرح طعام کے ذریعے حاصل ہوجاتا ہے اسی طرح اس کے قیمت کے ذریعے بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر قیمت جائز ہوتی اور مقصد یہ ہوتا کہ مال کی یہ مقدار مساکین تک پہنچ جائے تو پھر اطعام اور کسوہ کے ذکر کا کوئی فائدہ نہ ہوتا جبکہ اکثر احوال میں ان کی قیمتوں میں تفاوت ہوتا رہتا ہے۔ آیت میں کھانے اور کپڑے کے ذکر کے اندر یہ دلالت موجود ہے کہ انہیں چھوڑ کر ان کی قیمتوں کی ادائیگی جائز نہیں ہے نیز یہ کہ عین طعام اور کسوہ کی بجائے مال کی اس مقدار سے فائدہ اٹھانا مقصد نہیں ہے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض کی یہ سوچ درست نہیں ہے۔ اور بات اس طرح نہیں ہے جس طرح اس نے سوچا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے طعام اور کسوہ کا ذکر فرمایا ہے۔ اس کے بڑے فائدے ہیں۔ وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں باتوں کا ذکر فرما دیا اور اس ذکر سے ہمارے لئے یہ دلالت مہیا کردی کہ ان دونوں کی بجائے ان کی قیمت دے دینا بھی جائز ہے تاکہ کفارہ ادا کرنے والے کو یہ اختیار مل جائے کہ چاہے تو گندم دے دے یا کھانا کھلا دے یا کپڑا پہنا دے یا چاہے تو گندم اور کپڑوں کی بجائے ان کی قیمت ادا کر دے۔ اس صورت میں قیمتوں کے تفاوت کے وقت اس کے لئے گنجائش ہوگی کہ ارفع کو چھوڑ کر ادنیٰ یا ادنیٰ کو چھوڑ کر ارفع کو بطور کفارہ ادا کر دے۔ یا ان دونوں مذکورہ اشیاء میں سے بعینیہ جو چیز چاہے دے دے۔ جس طرح حضور ﷺ کا ارشاد ہے :” جس شخص کے اونٹوں کی زکوۃ میں بنت لبون (دو سال پورا کر کے تیسرے سال میں پہنچ جانے والی مادہ بچی) واجب ہوگئی ہو اور اسے بنت لبون نہ ملے تو پھر ایک بنت مخاض (ایک سال پورا کر کے دوسرے سال میں پہنچ جانے والی مادہ بچی) لے لی جائے گی اور اس کے ساتھ دو بکریاں اور بیس درہم بھی وصول کئے جائیں گے۔ “ حضور ﷺ نے زکوۃ ادا کرنے والے کو یہ اختیار دے دیا جبکہ اسے یہ قدرت حاصل تھی کہ وہ مذکورہ فرض کی ادائیگی ایک بنت لبون خرید کر ، کرسکتا تھا یا جس طرح حضور ﷺ نے دیت میں سو اونٹ مقرر کردیے۔ امت کا اس پر اتفاق ہے کہ دیت اگر درہم اور دینار کی شکل میں ادا کی جائے گی تو وہ سو اونٹوں کی قیمتوں کے برابر ہوگی۔ اگرچہ قیمتوں کی تعیین میں اختلاف رائے ہے یا جس طرح یہ صورت ہے کہ کوئی شخص مہر میں اوسط درجے کا غلام دینا قبول کرے لے اگر وہ اوسط درجے کا غلام لے آئے گا تو اسے قبول کرلیا جائے گا اور اگر اس کی قیمت لے آئے گا تو قیمت بھی قبول کرلی جائے گی۔ ان صورتوں میں قیمت لے لینے کے جواز نے مذکورہ چیزوں کی تعیین کو باطل نہیں کیا۔ یہی بات اس مسئلے میں بھی ہے جو ہمارے زیر بحث ہے ۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ کی …سے کفارہ ادا کرنے والے کو کھانا کھلانے، کپڑا پہنانے اور غلام آزاد کرنے کے درمیان اختیار دے دیا گیا ہے ۔ اب قیمت بھی ان اشیاء میں سے ایک شے کی طرح ہے اس لئے اسے ان اشیاء اور قیمت کے درمیان اختیار مل جائے گا۔ اگرچہ طعام اور کسوہ کی قیمتوں میں فرق ہوتا رہتا ہے اس لئے کہ جب وہ ارفع چیز کفارہ کے طور پر ادا کرے گا تو اس میں زیادہ فضیلت حاصل ہوگی اور اگر ادنیٰ پر اقتصار کرے گا تو اس کی اسے اجازت ہوگی۔ ان میں سے جو بھی وہ کرے گا وہی فرض ہوگا اور اس کی انجام دہی پر وہ اپنے فرض سے سبکدوش ہوجائے گا۔ اس کی مثال یہ ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ نماز کے اندر فرض قرأت کی مقدار ایک آیت ہے لیکن اگر اس نے قرأت طویل کردی تو پوری قرأت فرضی میں شمار ہ وگی۔ اسی طرح رکوع میں فرض وہ مقدار ہے جس کی بنا پر ایک شخص راکع کہلا سکتا ہو۔ اگر اس نے رکوع میں طوالت اختیار کرلی تو پورے رکوع کا شمار فرض کے اندر وہ گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر امام رکوع طویل کر دے اور مقتدی آخر رکوع میں آ کر شامل ہوجائے تو اس صورت میں مقتدی کو وہ رکعت مل جائے گی۔ اسی طرح اس میں کوئی امتنا ع نہیں کہ کفارہ میں اس چیز کی قیمت کو فرض تسلیم کرلیا جائے جو طعام یا کپڑے کی قیمتوں میں سے کم ہو لیکن اگر وہ ارفع چیز کی قیمت ادا کرے گا تو یہی قیمت فرض شمار ہوگی۔ کپڑے کی مقدار میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ فرض کے کفارہ میں ہر مسکین کو ایک کپڑا دیا جائے گا خواہ وہ ازار ہو یا چادر یا قمیض ہو یا قبایات چادر، ابن سماء نے امام محمد سے روایت کی ہے کہ اگر شلوار دے دے گا تو بھی کافی ہے ۔ اسے یہ بھی روایت ہے کہ اگر کسی نے کپڑا نہ خریدنے کی قسم کھائی ہو تو اگر وہ مردانہ شلوار خریدے گا تو حانث ہوجائے گا۔ ہشام نے امام مالک سے روایت کی ہے شلوار یا عمامہ دینا کفارہ کے لئے کافی نہیں ہوگا۔ بشر نے امام ابو یوسف سے یہی روایت کی ہے۔ امام مالک اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ اگر مرد مسکین کو کپڑا پہنائے گا تو ایک کپڑا دے گا اور اگر عورت کو پہنائے گا تو دو کپڑے دے گا ایک قمیص اور دوسری اوڑھنی۔ اس لئے کہ نماز کے جواز کے لئے یہی کم سے کم لباس ہے۔ عورت کو صرف ایک کپڑا دینا کافی نہیں ہوگا۔ اسی طرح صرف عمامہ دینا کافی نہیں ہوگا۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ عمامہ بھی کافی ہوگا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ عمامہ، شلوار اور سر پر ڈالنے کی اوڑھنی بھی کافی ہوگی۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضرت عمران بن حصین، ابراہیم نخعی، حسن، مجاہد، طائوس اور زہری سے مروی ہے کہ ہر مسکین کو ایک کپڑا دیا جائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر روایت اس بات کی مقتضی ہے کہ کپڑا ایسا ہونا چاہیے کہ جب اسے کوئی شخص پہن لے تو وہ لباس میں ملبوس کہلا سکے۔ اس لئے کہ ایک شخص جس نے صرف شلوار پہن رکھی ہو اور اس کے جسم پر کوئی اور کپڑا نہ ہو یا صرف عمامہ باندھ رکھا ہو تو اسے لباس میں ملبوس نہیں کہا جاسکتا جس طرح صرف ٹوپی پہننے والے کو یہ نام نہیں دیا جاسکتا۔ اس لئے یہ واجب ہوگیا کہ صرف شلوار یا عمامہ یا اوڑھنی کافی نہیں۔ کیونکہ یہ چیزیں پہننے کے باوجود ایک شخص برہنہ ہی شمار ہوگا۔ کپڑے میں ملبوس شمار نہیں ہوگا۔ لہٰذا ازار اور قمیص میں سے ہر ایک پورے جسم پر آ جاتی ہے اور ایسا انسان لباس میں ملبوس کہلا سکتا ہے اس لئے کفارہ میں یہ کافی ہوتی ہے۔ قول باری ہے (او تحریر رقبۃ یا ایک غلام آزاد کرنا) یعنی عتق رقبہ تحریر رقبہ کا مفہوم ہے کہ اس پر آزادی واقع کر دے۔ رقبہ یعنی گردن کا ذکر کر کے اس سے غلام کا پورا سراپا مراد لیا ہے۔ اسے قیدی کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس کی گردن میں بندھی ہوئی رسی کو کھول کر اسے آزاد کردیا جاتا ہے۔ اس طرح رقبہ پورے شخص سے عبارت ہے۔ ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے غلام سے کہے ” تیری گردن آزاد ہے۔ “ تو وہ غلام آزاد ہوجائے گا۔ جس طرح ” انت حر “ (تو آزاد ہے) کہنے پر وہ آزاد ہوجاتا ہے۔ رقبہ کا لفظ اس بات کا مقتضی ہے کہ آزاد کیا جانے الا غلام جسمانی نقائص اور بیماریوں سے محفوظ ہو۔ اس لئے کہ یہ لفظ پورے اعضا والے انسان کے لئے اسم ہے تاہم فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ معمولی قسم کا جسمانی نقص اس کے جواز میں مانع نہیں ہے۔ ہمارے اصحاب نے اس سلسلے میں یہ معیار مقرر کیا ہے کہ اگر کسی عضو میں نقص ہو تو نقص اس درجے کا نہ ہو کہ اس عضو کی منفعت ہی ختم ہوگئی ہو اور عضو بےکار ہوچکا ہو۔ اگر اس کی منفعت باقی ہو تو اس صورت میں کفارہ کے اندر ایسے غلام کو آزاد کرنا جائز ہوگا۔ اگر منفعت ختم ہوچکی ہو تو ہمارے اصحاب کے نزدیک ایسا غلام آزاد کرنا جائز نہیں ہوگا۔ قو باری ہے (فمن لم یجد فصیام ثلاثۃ ایام) جس شخص کو یہ میسر نہ ہو تو وہ تین دن روزے رکھے۔ مجاہد نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے اور ابوالعالیہ نے حضر ابی بن کعب ؓ سے آیت کی قرأت فمن لم یجد فصیام ثلثۃ ایام متتا بعات) نقل کی ہے۔ ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ ہماری قرأت میں بھی یہ فقرہ اسی طرح ہے ۔ حضرت ابن عباس، مجاہد، ابراہیم، قتادہ اور طائوس کا قول ہے کہ یہ تین روزے لگاتار رکھے جائیں گے ان میں وقفہ کفارہ کے لئے کافی نہیں ہوگا۔ ان حضرات کے قول سے تتابع کا ثبوت ہوگیا لیکن تلاوت کا ثبوت نہیں ہوا اس لئے کہ اس بات کی گنجائش ہے کہ تلاوت تو منسوخ ہوچکی ہو لیکن حکم ثابت ہو۔ ہمارے اصحاب کا یہی قول ہے۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے ان روزوں میں تفریق سے بھی کفارہ ادا ہوجائے گا۔ ہم نے اصول فقہ میں اس پر روشنی ڈلای ہے۔ قول باری (فکفارتہ اطعام عشرۃ مساکین) اس بات کا مقتضی ہے کہ قدرت ہونے کی صورت میں اطعام یا کسوہ یا عتق رقبہ کے ذریعہ کفارہ کا ایجاب ہے اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعے کفارہ ادا کرنے کا خطاب باقی رہتا ہے۔ اگر یہ چیزیں میسر نہ ہوں تو پھر روزہ جائز ہوگا۔ اس لئے کہ قول باری ہے (فمن لم یجذ فصیام ثلثۃ ایام) اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا تین اشیاء میں سے کسی ایک سے حکم کو روزوں کی طرف اس صورت میں منتقل کردیا ہے جب یہ چیزیں موجود نہ ہوں۔ اس لئے جب تک کفارے کا خطاب ان میں سے کسی ایک چیز پر قائم ہے ۔ اس وقت تک اس اصل کفارہ کی موجودگی میں اس کے لئے روزہ رکھنا جائز نہیں ہوگا۔ روزہ شروع کردینے کی صورت میں ان تینوں اشیاء میں سے کسی ایک کے ذریعے کفارہ ادا کرنے کا خطاب اس سے ساقط نہیں ہوا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر وہ پہلے دن کا روزہ شروع کرلیتا پھر اسے فاسد کردیتا جب کہ اسے آزاد کرنے کے لئے غلام دستیاب ہوجاتا تو اس کی دستیابی کے ساتھ اب روزہ رکھنا اس کے لئے جائز نہ ہوتا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اس کا روزہ شروع کرلینا اصل کی فرضیت کے سقوط کا سبب نہیں بنا۔ اس لئے روزہ شروع کرنے سے پہلے اور اس کے بعد آزاد کرنے کے لئے غلام کی دستیابی میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ دونوں حالتوں میں کفارہ ادا کرنے کا خطاب اس پر قائم رہتا ہے۔
Top