Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 95
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ١ؕ وَ مَنْ قَتَلَهٗ مِنْكُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْكُمُ بِهٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ هَدْیًۢا بٰلِغَ الْكَعْبَةِ اَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسٰكِیْنَ اَوْ عَدْلُ ذٰلِكَ صِیَامًا لِّیَذُوْقَ وَ بَالَ اَمْرِهٖ١ؕ عَفَا اللّٰهُ عَمَّا سَلَفَ١ؕ وَ مَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللّٰهُ مِنْهُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تَقْتُلُوا : نہ مارو الصَّيْدَ : شکار وَاَنْتُمْ : جبکہ تم حُرُمٌ : حالت احرام میں وَمَنْ : اور جو قَتَلَهٗ : اس کو مارے مِنْكُمْ : تم میں سے مُّتَعَمِّدًا : جان بوجھ کر فَجَزَآءٌ : تو بدلہ مِّثْلُ : برابر مَا قَتَلَ : جو وہ مارے مِنَ النَّعَمِ : مویشی سے يَحْكُمُ : فیصلہ کریں بِهٖ : اس کا ذَوَا عَدْلٍ : دو معتبر مِّنْكُمْ : تم سے هَدْيًۢا : نیاز بٰلِغَ : پہنچائے الْكَعْبَةِ : کعبہ اَوْ كَفَّارَةٌ : یا کفارہ طَعَامُ : کھانا مَسٰكِيْنَ : محتاج اَوْ عَدْلُ : یا برابر ذٰلِكَ : اس صِيَامًا : روزے لِّيَذُوْقَ : تاکہ چکھے وَبَالَ اَمْرِهٖ : اپنے کام (کیے) عَفَا اللّٰهُ : اللہ نے معاف کیا عَمَّا : اس سے جو سَلَفَ : پہلے ہوچکا وَمَنْ : اور جو عَادَ : پھر کرے فَيَنْتَقِمُ اللّٰهُ : تو اللہ بدلہ لے گا مِنْهُ : اس سے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب ذُو انْتِقَامٍ : بدلہ لینے والا
مومنو ! جب تم احرام کی حالت میں ہو تو شکار نہ مارنا اور جو تم میں سے جان بوجھ کر اسے مارے تو (یا تو اس کا) بدلا (دے اور وہ یہ ہے کہ) اس طرح کا چارپایہ جسے تم میں سے دو معتبر شخص مقرر کردیں قربانی (کردے اور یہ قربانی) کعبے پہنچائی جائے یا کفارہ (دے اور وہ) مسکینوں کو کھانا کھلانا (ہے) یا اس کے برابر روزے رکھے تاکہ اپنے کام کی سزا (کامزہ) چکھے (اور) جو پہلے ہوچکا وہ خدا نے معاف کردیا اور جو پھر (ایسا کام) کرے گا تو خدا اس سے انتقام لے گا۔ اور خدا غالب اور انتقام لینے والا ہے۔
قول باری ہے (لاتقتلوا الصید وانتم حرم احرام کی حالت میں شکار نہ مارو) اس کی تفسیر تین طرح سے کی گئی ہے۔ آیت میں ان سب کا احتمال ہے۔ اول یہ کہ تم نے حج یا عمرے کا احرام باندھ رکھا ہو، دوسری یہ کہ اس سے مراد حرام میں دخول ہے جب کوئی انسان حرم میں داخل ہوجائے تو کہا جاتا ہے ” احرم الرجل جس طرح ” انجد الرجل “ یا ” اعرق الرجل “ کا محاورہ ہے یعنی آدمی نجد میں پہنچ گیا یا آدمی عراق میں داخل ہوگیا۔ اسی طرح جب کوئی شخص تہامہ کی سر زمین میں پہنچ جائے تو کہا جاتا ہے ” اتھم الرجل “ تیسری یہ کہ اس سے ماہ حرام میں داخل ہونا مراد ہے۔ جس طرح شاعر کا قول ہے۔ ع قتل الخلیفۃ محرما خلیفہ کو ماہ حرام میں قتل کردیا گیا اس سے مراد حضرت عثمان بن عفان ؓ ہیں۔ اس میں تو کوئی اختلاف نہیں کہ تیسری تفسیر یہاں مراد نہیں ہے نیز یہ کہ ماہ حرام شکار کی ممانعت نہیں کرتا۔ دو تو جی ہیں یہاں مراد ہیں۔ حضور ﷺ سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے احرام والے اور غیر احرام والے تمام افراد کو حدود حرم کے اندر شکار پکڑنے سے منع فرما دیا تھا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ آیت سے بھی یہی مراد ہے۔ اس لئے کہ جب حضور ﷺ سے کوئی ایسا حکم ثابت ہوجائے تو جو قرآن کے الفاظ کے تحت آتا ہو تو اس صورت میں اس پر یہ حکم لگانا واجب ہوجاتا ہے کہ اس حکم کا صدور کتاب اللہ سے ہوا ہے نئے سرے سے کیا گیا حکم نہیں ہے۔ قول باری (لاتقتلوا الصید وا نتم حرم ) کا عموم خشکی اور سمندری دونوں قسم کے شکار کا مقتضی ہے لیکن قول باری (احل لکم صید المعجر و طعامہ تمہارے لئے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کردیا گیا ہے) سے اس عموم کی تخصیص ہوگئی ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قول باری (لاتقتلوا الصید وا نتم حرم) سے صرف خشکی کا شکار مراد ہے سمندر شکار مراد نہیں ہے۔ یہ قول باری اس پر بھی دلالت کرتا ہے کہ محرم جو شکار بھی مارے گا وہ مذ کی نہیں ہوگا یعنی اسے شرعی ذبیحہ نہیں مانا جائے گا۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے محرم کے شکار مارنے کو قتل کا نام دیا ہے اور مقتول جانور کا گوشت کھانا جائز نہیں ہوتا۔ صرف اس حلال جانور کا گوشت کھانا جائز ہوتا ہے جسے ذبح کی شرائط کے مطابق ذبح کیا گیا ہو۔ جس جانور کو شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہو اسے مقتول کا نام نہیں دیا جاسکتا اس لئے کہ اس کا مقتول ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسے ذبح نہیں کیا گیا۔ اسی طرح حضور ﷺ کا یہ قول ہے (خمس یقتلھن المحرم فی المحل والحرم، پانچ جانوروں کو احرام والا شخص حدود حرم کے اندر اور حدود حرم سے باہر قتل کرسکتا ہے) آپ کا یہ ارشاد اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان پانچوں جانوروں کا گوشت نہیں کھایا جائے گا اس لئے کہ انہیں قتل کیا گیا ہے ذبح نہیں کیا گیا اگر انہیں ذبیحہ شمار کیا جاتا تو ان کی جان کا نکل جانا قتل نہیں کہلاتا اور انہیں مقتول کا نام نہیں دیا جاتا۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جو شخص یہ نذر مانے کہ اللہ کے لئے میرے اوپر اپنے بیٹے کو ذبح کرنا ہے۔ “ تو اس پر بکری ذبح کرنا لازم ہوگا۔ لکین اگر وہ یہ کہے ” اللہ کے لئے مجھ پر اپنے بیٹے کو قتل کرنا ہے “ تو اس پر کوئی چیز لازم نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ ذبح کا اسم اباحت اور تقرب الٰہی کے لحاظ سے حکم شرع کے ساتھ متعلق ہے۔ قتل کے لفظ کا شریعت کے حکم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس آیت کی تفسیر میں سعید بن المسیب کا قول ہے کہ ’ اس آیت میں شکار کو قتل کرنا حرام ہے۔ نیز اس آیت میں اس کا کھانا بھی حرام ہے۔ “ ان کی مراد یہ ہے کہ احرام والا شخص جو شکار قتل کرے گا اس کا گوشت کھانا حرام ہوگا۔ اشعث نے حسن سے روایت کی ہے، انہوں نے فرمایا :” ہر ایسا شکار جس کی جزا واجب ہو وہ مردار وہتا ہے اس کا کھانا حلال نہیں ہوتا۔ “ یونس نے بھی حسن سے روایت کی ہے کہ ایسے شکار کا گوشت نہیں کھایا جائے گا۔ حماد بن سلمہ نے یونس سے اور انہوں نے حسن سے اس شکار کے متعلق روایت کی ہے جسے محرم ذبح کرے کہ غیر محرم شخص اس کا گوشت کھا سکتا ہے ۔ عطاء سے مروی ہے کہ محرم کوئی شکار پکڑ لے تو حلال یعنی غیر محرم بھی اسے نہیں کھائے گا۔ الحکم اور عمرو بن دینار کا قول ہے کہ ایسے شکار کو غیر محرم شخص کھا سکتا ہے۔ سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے ۔ ہم نے یہ ذکر کردیا ہے کہ آیت محرم کے پکڑے ہوئے شکار کی تحریم پر دلالت کرتی ہے نیز یہ کہ ایسا شکار ذبیحہ نہیں ہوتا۔ شریعت کی طرف سے محرم کے پکڑے ہوئے شکار کی اس پر تحریم اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ حق اللہ ہے اس لئے یہ مجوسی اور بت پرست کے پکڑے ہوئے شکار کے نیز اس ذبیحہ کے مشابہ ہوگیا جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو یا شرعی ذبح کی کوئی شرط پوری نہ کی گئی ہو۔ اس کی حیثیت غصب شدہ چھری سے یا غصب شدہ بکری کی ذبح کی طرح نہیں ہے اس لئے کہ اس کی تحریم آدمی کے حق سے تعلق رکھتی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر اصل مالک اسے مباح کردیتا تو یہ جائز ہوجاتا اس لئے ذبح کی صحت کو مانع نہیں ہوا۔ اس لئے کہ ذبح اللہ تعالیٰ کا حق ہے اس لئے اس کی شرطیں بھی وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حقوق سے تعلق رکھتی ہوں۔ بندوں کے حق سے متعلق نہ ہوں۔ ایسے جانور جنہیں محرم مار سکتا ہے قول باری ہے (لاتقتلوا الصید وانتم حرم) جب یہ آیت خشکی کے شکار کے ساتھ خاص ہے ، سمندر کے شکار سے اس کا تعلق نہیں ہے جیسا کہ ہم نے آیت کے سیاق میں اس تخصیص کا ذکر کردیا ہے، تو آیت کا عموم خشکی کے تمام شکار کا مقتضی ہوگا الایہ کہ دلیل کی بنا پر کسی شکار کی تخصیص ہوگئی ہو۔ اس تخصیص کے سلسلے میں حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر، حضرت ابو سعید خدری اور حضرت عائشے نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (خمس یقتلھن المحرم فی الحل والحرم الحیۃ و العقرب و الفارۃ و الغراب و الکاتب العقود) پانچ جانور ایسے ہیں جنہیں محرم شخص حدود حرم کے اندر اور حدود حرم سے باہر قتل کرسکتا ہے۔ سانپ ، بچھو، چوہا، کوا اور بائولا کتا۔ ) ان حضرات کی روایتوں میں بعض جانوروں کے ذکر میں اختلاف ہے۔ بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ہیں (ھن فواسق، یہ فساد مچانے والے جانور ہیں) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے ” الکلب العقور “ سے مراد شیر ہے ۔ حجاج بن ارطاۃ نے ویرہ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں :” میں نے حضرت ابن عمر کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ حضور ﷺ نے بھیڑیے، چوہے کوئے اور چپل کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس روایت میں چپل کا ذکر ہے۔ القعنبی نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ ’ کلب عقور، جسے محرم قتل کرسکتا ہے اس سے مراد ہر وہ زندہ ہے جو انسان کو مار ڈالتا اور ان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ مثلاً شیر، چیتا، بھیڑیا یہ درندے کلب عقور ہیں۔ لیکن ایسے جنگلی جانور جو انسان پر حملہ آور نہیں ہوتے مثلاً بجو، لومڑی، بلی اور ان جیسے دوسرے جانور کو محرم قتل نہیں کرسکتا اگر اس نے ان جیسے جانوروں میں سے کوئی جانور قتل کردیا تو وہ اس کا فدیہ ادا کرے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ فقہاء نے اس روایت کو قبول کیا ہے اور محرم کیلئے پانچ جانوروں کے قتل کی اباحت کا حکم دے کر اس پر عمل پیرا بھی ہوئے ہیں۔ البتہ کلب عقور کی تشریح میں اختلاف رائے ہوگیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ نے اس سے شیر مراد لیا ہے جیسا کہ ان کی روایت کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔ اس تاویل کے حق میں یہ بات گواہی دیتی ہے کہ حضو ر ﷺ نے عتبہ بن ابی لہب کے لئے بد دعا کرتے ہوئے فرمایا (اکلک کلب اللہ، اللہ کا کتا تجھے کھاجائے) چناچہ ایک شیر نے اس کی تکا بوٹی کر ڈالی۔ ایک قول یہ ہے کہ کلب عقور بھیڑیے کو کہتے ہیں ۔ حضرت ابن عمر سے بعض روایات میں کتے کی جگہ بھیڑے کا لفظ منقول ہے روایت میں کب عقور کے ذکر سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ کتا ایسا ہو جو لوگوں پر حملہ آور ہو کر انہیں کاٹ کھاتا ہو یہ بھیڑیے کی صفت ہے۔ اس لئے کہ کلب غقور کے بارے میں جتنے اقوال ہیں ان میں اس مقام پر بھیڑیے کا قول سب سے زیادہ مناسب اور اولیٰ ہے۔ حضور ﷺ کا قول اس پر دلالت کرت ا ہے کہ ہر ایسا جانور جو محرم پر حملہ آور ہوجائے اور ایذا رسانی کی ابتداء خود کرے تو محرم کے لئے ایسے جانور کو قتل کردینا جائز ہے اس پر اس کا فدیہ بھی لازم نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ کلب عقور کا مفہوم اس پر دلالت کرتا ہے۔ ہمارے اصحاب نے بھی یہی کہا ہے جو درندہ از خود محرم پر حملہ آور ہوجائے اور محرم اسے قتل کر دے تو اس پر کوئی فدیہ وغیرہ لازم نہیں ہوگا لیکن اگر محرم اس پر حملہ میں پہل کرے اور وہ جانور اس کے ہاتھوں قتل ہوجائے تو اس پر اس کا بدلہ لازم ہوگا۔ اس لئے کہ قول باری (لا تقتلوا الصیدو انتم حرم) میں عموم ہے۔ صید کا اسم ہر ایسے جانور پر واقع ہوتا ہے جو فطری طور پر قابو میں آنے والا نہ ہو اور متوحش یعنی انسانوں سے بدکنے اور بھاگنے والا ہو۔ اس میں ماکول یعنی حلال اور غیر ماکو لیعنی حرام جانور کا کوئی فرق نہیں ہے۔ اس پر قول باری (لیبلونکم اللہ بشیء من ا لصید تنالہ ایدیکم ورما حکم) دلالت کرتا ہے۔ اس میں حکم کو ہر ایسے جانور کے ساتھ معلق کردیا جو ہمارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوں۔ اس میں حلال اور غیر حلال جانور کی کوئی تخصیص نہیں کی۔ پھر حضور ﷺ نے ان جانوروں کی تخصیص فرما دی جن کا ذکر درج بالا حدیث میں آیا ہے۔ آپ نے ان جانوروں کے ساتھ کلب عقود کا ذکر بھی کیا ہے۔ حضور ﷺ نے ان جانوروں کی تخصیص فرما دی اور ا ن کے ساتھ کلب عقور کا ذکر کیا۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ جو شکار از خود محرم پر حملہ آور ہوجائے تو اس کے لئے اسے قتل کردینا مباح ہے۔ اس لئے کہ حدیث میں مذکور جانوروں کی فطرت یہ ہے کہ وہ از خو د ایذا رسانی کی ابتدا کرتے ہیں۔ اس لئے مجموعی طور پر ان کی اس حالت کا اعتبار کرلیا گیا جو اکثر احوال میں ان کے اندر پایا جاتا ہے یعنی از خود ایذا رسانی پر اتر آنا۔ اگرچہ بعض حالات میں یہ جانور اپنی طرف سے ایذا رسانی میں پہل نہ بھی کرتے ہوں۔ اس لئے کہ احکام کا تعلق ان احوال کے ساتھ ہوتا ہے جو اکثر اور عموماً پائے جاتے ہوں شاذ و نادر حالت کا کوئی حکم نہیں ہوتا۔ پھر جب کلب عقور کا ذکر ہوا اور اس کے متعلق کہا گیا کہ یہ شیر ہے تو اس کے قتل کو صرف اس صورت میں مباح قرار دیا جائے گا جب وہ حملہ کرنے اور ایذا رسانی پر اتر آئے۔ اگر اس سے مراد بھیڑیا ہے تو حملہ آور ہونا اور نقصان پہچانا اکثر احوال میں اس کے اندر پایا جاتا ہے ۔ حضور ﷺ نے حدیث کے ذریعے جن جانوروں کی تخصیص کردی ہے اور حدیث کی دلالت اس پر قائم ہوگئی ہے ان جانوروں کو آیت کے عموم سے نکال دیا جائے گا۔ جن جانوروں کی تخصیص نہیں ہوئی اور نہ ہی ان کی تخصیص پر کوئی دلالت قائم ہوئی تو وہ آیت کے عموم پر محمول کئے جائیں گے۔ اس پر حضرت جابر کی روایت دلالت کرتی ہے کہ حضو ر ﷺ نے فرمایا کہ (المضبع صید دفیہ کبش اذا قتلہ المحرم ، بجو شکار ہے اور اگر محرم اسے قتل کر دے تو اس کے بدلے ایک مینڈھا دینا ہوگا۔ دوسری طرف حضور ﷺ نے کچلی کے دانت رکھنے والے درندے کے گوشت سے منع فرما دیا ہے جبکہ بجو کچلی کے دانت رکھنے والا درندہ ہے اور حضور ﷺ نے اس کے قتل کی جزا ایک مینڈھا مقرر فرمایا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ نے حدیث میں مذکورہ پانچ جانوروں پر ان جیسے دوسرے جانوروں کو کیوں نہیں قیاس کرلیا ہماری مراد اس سے وہ جانور ہیں جن کا گوشت کھایا نہیں جاتا ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان پانچ جانوروں کو آیت کے عموم سے خاص کیا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک ایسی چیز پر دوسری چیزوں کو قیاس کرنا درست نہیں ہے جو خاص کردی گئی ہو الا یہ کہ اس کی تخصیص کی علت بیان ک ردی گئی ہو یا کوئی ایسی دلالت ہو جو اس تخصیص کی صورتوں کی نشاندہی کرتی ہو۔ جب ان پانچ جانوروں کی تخصیص کی علت کا ذکر موجود نہیں ہے تو اب ان پر اصل حکم کے عموم کی تخصیص کے سلسلے میں قیاس کرنا جائز نہیں ہوگا۔ ہم نے اس حدیث کے سلسلے میں یہ توجیہ بیان کردی ہے کہ اس کی دلالت ان جانوروں پر ہوتی ہے جو از خود انسان کی ایذا رسانی میں پہل کریں رہ گیا ان کا غیر ماکول اللحکم ہونا تو اس پر حدیث کے ضمن میں کوئی دلالت قائم نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی علت کا ذکر ہوا اس لئے اس کا اعتبار کرنا درست نہیں ہوگا۔ نیز بدلے کے سقوط کے لحاظ سے ان جانوروں کے بارے میں کوئی اختلانہیں ہے جو از خود محرم پر حملہ آور ہوجائیں اور اسے نقصان پہنچانے پر اتر آئیں یعنی محرم اگر ایسے جانور کو ہلاک کر دے گا تو بالاتفاق اس پر کوئی بدلہ لازم نہیں آئے گا اس لئے اجماع کی بنا پر ایسے جانوروں کی تخصیص جائز ہوگی اور ان جانوروں کے بارے میں آیت کے عموم کا حکم باقی رہ گیا جن کی تخصیص نہ تو حدیث کے ذریعے ہوئی اور نہ ہی اجماع کے ذریعے۔ ہمارے اصحاب میں سے ایسے بھی ہیں جو اس جیسی حدیث کے حکم میں قیاس چلانے سے انکار کرتے ہیں اس لئے کہ حضور ﷺ نے تخصیص کو پانچ کے عدد کے اندر محصور کردیا ہے۔ چنانچہ آپ کا ارشاد ہے (خمس یقتلھن المحرم) اس امر میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ ان پانچ کے ما سوا جانوروں کے قتل کی ممانعت ہے۔ اس لئے لفظ کی دلالت کو ساقط کرنے کے لئے قیاس کا استعمال درست نہیں ہوگا۔ بعض نے تو ان جانوروں کے غیر ماکول ہونے کو علت قرار دینے کی صحت سے بھی انکار کردیا ہے اس لئے کہ غیر ماکول نفی ہے اور نفی علت نہیں بن سکتی، علل تو وہ اوصاف ہیں جو اس اصل میں موجود ہوتے ہیں جسے معلوم قرار دیا گیا ہے لیکن صفت کی نفی کی صورت میں اس اصل کا علت بننا جائز نہیں ہوتا۔ اگر کسی وصف کے اثبات کے ذریعے حکم میں تغیر کردیا جائے اور علت یہ قرار دی جائے کہ وہ جانور محرم الاکل ہے یعنی جس کا گوشت حرام ہے تو بھی یہ بات درست نہیں ہوگی اس لئے کہ تحریم کے معنی نفی اکل کے حکم کے ہیں اس لئے یہ صفت کی ضرور نفی کر دے گا اس بنا پر اس صفت کو علت قرار دینا درست نہیں ہوگا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ جن جانوروں کا گوشت نہیں کھایا جاتا اگر محرم ان میں سے کسی جانور کو ہلاک کر دے تو اس پر کسی جزا کا لزوم نہیں ہوگا۔ قول باری ہے (ومن قتلہ منکم متعمداً تم میں سے جو شخص اس شکار کو جان بوجھ کر قتل کر دے) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس آیت کی تفسیر میں اہل علم کے درمیان اختلاف رائے کی تین صورتیں ہیں۔ جمہور اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ محرم نے شکار کو خواہ جان بوجھ کر ہلاک کیا ہو یا غلطی سے مار دیا ہو دونوں صورتوں میں اس پر اس کی جزا کالزوم ہوجائے گا۔ ان حضرات نے آیت میں عمد کے ذکر کے ساتھ قتل کی تخصیص کا یہ فائدہ بیان کیا ہے کہ سلسلہ تلاوت میں قول باری (ء من عاد فینتقم اللہ منہ اور جو شخص دوبارہ ایسا کرے گا اللہ اس سے انتقام لے گا) میں وعید کا تعلق عمد کی صورت کے ساتھ مخصوص ہے، خطا کی صورت کے ساتھ نہیں ۔ اس لئے کہ غلطی سے کسی فعل کے مرتکب کو وعید لاحق ہوجانا درست نہیں ہوتا۔ اس بناء پر عمد کو خصوصیت کے ساتھ ذکر فرمایا اگرچہ خطا اور نسیان کے تخت ہونے والا یہ فعل بھی عمد کا ہی حکم رکھتا ہے۔ عمد کے ذکر کا یہ فائدہ ہوگیا کہ سلسلہ تلاوت میں مذکورہ وعید اس عمد کی صورت کی طرف راجع ہوجائے گی۔ حضرت عمر ، حضرت عثمان، حسن (ایک روایت کے مطابق ) ابراہیم نخعی اور فقہاء امصار کا یہی قول ہے۔ دوسرا قول وہ ہے جس کی منصور نے قتلادہ سے انہوں نے ایک شخص سے جس کاراوی نے نام لیا تھا اور اس نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ آپ قتل خطاء کی صورت میں محرم پر کوئی چیز لازم نہیں سمجھتے تھے۔ طائوس ، عطا، سالم، قاسم اور مجاہد (ان سے جابر الجعفی کی روایت کے مطابق) کا یہی قول ہے۔ تیسرا قول جس کی روایت سفیا ن نے ابن ابی نجیع سے اور انہوں نے مجاہد سے کی ہے کہ جب محرم جان بوجھ کر لیکن اپنے احرام کو بھولے ہوئے شکار کو ہلاک کر دے گا تو اس پر اس کی جزا کالزوم ہوجائے گا لیکن اگر اسے اپنا احرام یا د ہو اور پھر وہ جان بوجھ کر شکار کو قتل کر دے تو اس پر کسی چیز کالزوم نہیں ہوگا۔ بعض روایات میں ہے کہ اس کا حج فاسد ہوجائے گا اور اس پر قربانی لازم ہوگی۔ حسن سے بھی مجاہد کے قول جیسا قول مروی ہے اس لئے کہ جزا کا وجوب صرف اسی صورت میں ہوتا ہے ۔ جبکہ محرم اپنے احرام کو بھول کر شکار کو جان بوجھ کر ہلاک کر دے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ پہلا قول صحیح ہے اس لئے کہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ احرام کی جنایات یعنی خلاف ورزیوں میں فدیہ کے وجوب کے لحاظ سے معذور اور غیر معذور میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے مریض کو نیز اس شخص کو سج کے سر میں تکلیف ہو معذور قرار دیا ہے اور کفارہ کے ایجاب سے انہیں بھی خالی نہیں رہنے دیا۔ اسی طرح کسی عذر یا غیر عذر کی بنا پر حج فوت ہوجانے کی صورت میں حکم میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا جب احرام کی جنایات میں اس امر کا ثبوت ہوگیا اور خطا بھی ایک عذر ہے اس لئے خطا کی وجہ سے جزا کا سقوط نہیں ہوگا۔ اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ آپ کے ہاں تو قیاس کے ذریعے کفارات کا اثبات نہیں ہوتا اور خطاء کی بناء پر شکار ہلاک کرنے والے محرم پر جزا کے ایجاب کے لئے کوئی نص موجود نہیں ہے اس لئے اس پر جزا کا ایجاب نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہمارے نزدیک جزا کا ایجاب قیاس کی بن اپر نہیں ہوا ہے اس لئے کہ شکار کے قتل کی نہی کا نص قول باری (لاتقتلوا الصیدوانتم حرم) کی صوتر میں وارد ہوچکا ہے اور یہ نص ہمارے نزدیک شکار کی جان لینے والے پر بدل کے ایجاب کا مقتضی ہے جس طرح کسی انسان کے پکڑے ہوئے شکار کو ہلاک کرنے یا اس کے مال کو تلف کرنے کی نہی اس متلف پر بدل کے ایجاب کی مقتضی ہوتی ہے۔ جب جزا کو اس حیثیت سے بدل کی طرح سمجھ لیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس جزا کو شکار کے مثل اور اس کا ہمل پلہ قرار دیا تو شکار کے قتل کی نہی اس کے قاتل اور متلف پر بدل کے ایجاب کی مقتضی ہوگئی پھر یہی بدل متفق علیہ طور پر جزا ہوتا ہے۔ نیز جب احرام کی جنایات میں معذور اور غیر معذور کی حالت کی یکسانیت ثابت ہوگئی تو ظاہر نہی سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس میں عامد اور مخطی دونوںں کا حکم بھی یکساں ہوگا۔ اس طرح مخطی پر یہ حکم ہم نے قیاس کی بنا پر نہیں لگایا۔ جس طرح حضرت بریرہ کے سو ا دوسروں پر ہمارا وہ حکم لگانا قیاس کی بن اپر ہے جو حکم حضور ﷺ نے حضرت بریرۃ کے بارے میں لگایا تھا۔ یا چوہے کا حکم چڑیا پر لگانا نیز زیتون کے تیل پر گھی کا حکم لگانا جبکہ گھی میں چڑیا مرجائے یہ چ ہے اور گھی پر قیاس کی صورت نہیں ہے اس لئے کہ حکم کے ورود سے پہلے ان کی یکسانیت کا ثبوت ہوچکا تھا جیسا کہ ہم نے درج بالا سطور میں بیان کیا ہے۔ اس بنا پر جب کوئی حکم ان میں کسی چیز کے بارے میں وارد ہوگا تو یہ ان تمام چیزوں کا حکم شمار ہوگا۔ اسی لئے ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ روزے کی حالت میں بھول کر کھا لینے والے کے متعلق حضور ﷺ کا یہ حکم کہ اس کا روزہ باقی ہے۔ روزے کی حالت میں بھول کر جماع کرلینے والے کے روزے کے باقی رہ جانے کے لئے حکم بن جائے گا اس لئے کہ روزے کی حالت میں متعلق ہونے والے احکام کے لحاظ سے بھول کر کھا لینے والے اور بھول کو جماع کرلینے والے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اسی طرح ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جس شخص کو نماز کے اندر پیشاب یا پاخانے کی حاجت پیش آ گئی تو ان دونوں چیزوں کی حیثیت نکسیر پھوٹنے اور قے آ جانے کی طرح ہوگی۔ موخر الذکر دونوں باتوں کے متعلق روایت موجود ہے کہ ان صورتوں میں وضو کرنے کے بعد باقی ماندہ نماز کی ادائیگی درست ہوجائے گی یعنی باقی ماندہ نماز کی پڑھی ہوئی نماز پر بنا درست ہوجائے گی اور نئے سرے سے نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ جس طرح نکسیر اور قے کی صورت میں بنا درست ہوجائے گی اسی طرح پیشاب پاخانے کی وجہ سے حدث لاحق ہونے کی صورت میں بنا درست ہوجائے گی اس لئے کہ طہارت اور نماز کے احکام کے لحاظ سے ان دونوں صورتوں یعنی رعاف دقے اور بول و غائط میں کوی فرق نہیں ہے جب ان میں سے بعض کے بارے میں حدیث کا ورود ہوگیا تو اب اس کا حکم تمام صورتوں کے لئے بھی حکم تسلیم کیا جائے گا۔ یہ طریقہ قیاس نہیں کہلا سکتا۔ خطاء شکار کو قتل کردینے والے محرم کی بھی یہی نوعیت ہے۔ مجاہد نے اس مسئلے کے بارے میں جو قول کیا ہے اس کی وجہ سے انہوں نے ظاہر آیت کو ترک کردیا ہے اس لئے کہ قول باری ہے (ومن قتلہ منکم متعمداً فجزاء مثل من النعم ، اگر تم میں سے کوئی جان بوجھ کر ایسے گذرے تو جو جانور اس نے مارا ہو اسی کے ہم پلہ ایک جانور اسے مویشیوں میں سے نذر دینا ہوگا۔ ) اس لئے جو شخص اپنا احرام یاد رکھتے ہوئے جان بوجھ کر شکار کو ہلاک کر دے گا تو اس کو یہ اسم شامل ہوگا ا س لئے اس پر اس کی جزاء کالزوم ہوجائے گا۔ اس بات کا اعتبار بےمعنی ہے کہ ایک شخص تو شکار کو جان بوجھ کر قتل کر رہا ہو اور اس کے ذہن سے اپنے محرم کا خیال ہی نکل چکا ہو اور وہ یہ بات بھول گیا ہو۔ اگر کوئی کہے کہ اللہ تعالیٰ نے غلطی سے کسی کی جان لینے والے قاتل پر کفارہ کا نصاً وجوب کردیا لیکن آپ نے اس پر عمداً قتل کرنے والے کے حکم کو وارد نہیں کیا بلکہ اس کا حکم قتل خطا سے الگ رکھا اسی طرح یہاں زیر بحث مسئلے میں جب اللہ تعالیٰ نے عمداً شکار کو ہلاک کرنے والے محرم پر جزا کے لوم کا حکم منصوص طریقے سے بتادیا تو اب اس پر خطاً شکار کو ہلاک کرنے والے محرم کے حکم کو وارد کرنا جائز نہیں ہوسکتا اور اس پر جزا کا ایجاب درست نہیں ہوسکتا۔ اس اعتراض کا کئی وجوہ سے جواب دیا گیا ہے۔ ایک تو یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے قتل عمد اور قتل خطاء دونوں کا حکم الگ الگ منصوص طریقے سے بیان فرما دیا تو اس کے بعد ان دونوں حکموں پر عمل واجب ہوگیا اور ای کصورت کو دوسری صورت پر قیاس کرنا جائز نہ رہا۔ اس لئے کہ ہمارے نزدیک منصوص احکامات کو ایک دوسرے پر قیاس کرنا جائز نہیں ہے۔ ایک اور جہت سے دیکھیے کہ قتل عمد قصاص کے ایجاب سے خلای نہیں رہتا۔ قصاص کفارہ اور دیت دونوں سے بڑھ کر ہے۔ لیکن جب ہم خطاً شکار کو قتل کرنے والے محرم کو جزا کے ایجاب سے خالی رکھیں گے تو اس پر کوئی اور چیز واجب نہیں ہوگی اور اس طرح اس کا یہ عمل کسی حکم کے تحت نہیں آئے گا اور جانور کی جان مفت میں جائے گی اور یہ بات جائز نہیں ہے۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ اصول میں قتل کے احکام عمد اور خطا نیز مباح اور ممنوع کی صورتوں میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ لیکن شکار کی صورت میں ان میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔ اس لئے شکار کے اندر عمد اور خطا دونوں کا حکم یکساں ہوگیا اور انسان کے قتل کے اندر یہ احکامات مختلف ہوگئے۔ قول باری ہے (فجزاء مثل ماقتل) مثل سے کیا مراد ہے۔ اس کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ مثل سے مراد اس کی نظیر ہے، پہاڑی بکرے میں گائے، ہرنی میں بکری اور شتر مرغ میں اونٹ، سعید بن جبیر کا بھی یہی قول ہے اور قتادہ نیز دیگر تابعین بھی اسی قول کے حامی ہیں۔ امام مالک، امام شافعی اور امام محمد بن الحسن کا بھی یہی قول ہے۔ یہ مسئلہ اس صورت کے لئے ہے جہاں مویشیوں میں مقتول شکار کی نظیر موجود ہو لیکن اگر نظیر موجود نہ ہو مثلاً کسی نے کوئی چڑیا ہلاک کردی تو اس صورت میں محرم پر اس کی قیمت واجب ہوگی۔ حجاج نے عطاء سے نیز مجاہد اور ابراہیم نخعی سے روایت کی ہے کہ مثل سے مراد اس جانور کی قیمت ہے جو نقد یعنی دراہم کی شکل میں ادا ہوگی۔ مجاہد سے ایک اور روایت کے مطابق مثل سے مراد ھدی یعنی قربانی کا جانور ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف سے مروی ہے کہ مثل سے مراد قیمت ہے پھر اس قیمت سے وہ اگر چاہے تو قربانی کا جانور خریدے اور اگر چاہے تو طعام خرید کر فی مسکین نصف صاع کے حساب سے تقسیم کر دے یا چاہے تو ہر نصف صاع کے بدلے ایک روزہ رکھ لے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ مثل کا اسم قیمت پر بھی واقع ہوتا ہے اور اس نظیر پر بھی جو اس کی جنس میں سے کو اور اس نظیر پر بھی جو مویشیوں میں سے ہو۔ ہم نے اصول شرعیہ میں واجب ہونے والے مثل کی دو صورتوں میں ایک پائی ہے، یا تو مثل اس کی جنس میں سے وہتا ہے۔ …… مثلاً کوئی شخص کسی کی گندم تلف کر دے تو اس پر اسی قسم کی گندم لازم آئے گی یا مثل اس کی قیمت کی صورت میں ہوتا ہے مثلاً کوئی شخص کسی کا کپڑا یا غلام تلف کر دے وہ مثل جو نہ اس کی جنس میں سے ہو اور نہ ہی قیمت کی صورت میں وہ اصول سے خارج ہوتا ہے ۔ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اس کی جنس میں سے مثل واجب نہیں ہوتا۔ اس سے یہ واجب ہوگیا کہ آیت میں مثل سے مراد قیمت لی جائے۔ ایک اور جہت سے دیکھیے جب مثل ایک متشابہ لفظ بن گیا جس میں کئی معانی کا احتمال پیدا ہوگیا تو پھر اسے مثل پر محمول کرنا واجب ہوگیا جس کے معنی پر سب کا اتفاق ہے یعنی وہ مثل جو قرآن میں اس قول باری کے اندر مذکور ہے (فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم) جب اس مقام پر مثل سے مراد قیمت ہے کیونکہ اس کی جنس میں سے کوئی مثل نہیں تو اس سے یہ بات ضرور یہو گئی کہ شکار کے سلسلے میں مذکور مثل کو بھی اسی پر محمول کیا جائے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ درج بالا آیت میں مثل ایک محکم لفظ ہے جس کے معنی پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے جبکہ شکار کی آیت میں مذکورہ مثل ایک متشابہ لفظ ہے جسے کسی اور لف ظ کی طرف لوٹانا واجب ہے۔ اس بنا پر اسے اس مثل کی طرف لوٹانا ضروری ہوگیا جس کے معنی پر سب کا اتفاق ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے۔ شرع میں مثل قیمت کے لئے اسم ہے۔ لیکن یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ مثل مویشیوں میں سے کسی نظری کے لئے اسم ہے۔ اس لئے اسے چیز پر محمول کرنا واجب ہوگا جس کے متعلق یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ یہ اس کے لئے اسم ہے ۔ اسے اس چیز پر محمول کرنا درست نہیں ہوگا جس کے لئے اس کا اسم ہونا ثابت نہیں ہوا۔ ایک اور جہت سے دیکھیے سب کا اس پر اتفاق ہے کہ جن صورتوں میں ہلاک شدہ جانور کا مویشیوں کے اندر کوئی مثل موجود نہ ہو ان صورتوں میں مثل سے مراد اس کی قیمت ہوگی۔ اس سے یہ ضروری ہ وگیا کہ مثل سے مراد قیمت ہی لی جائے۔ اس کی وجہ تو یہ ہے کہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ مثل سے قیمت مراد ہے اس لئے اگر قیمت کا ذکر منصوص طریقے پر ہوجاتا تو اس صورت میں مثل کی یہی حیثیت رہتی اور اس کے معنی میں کوئی فرق نہ آتا اس لئے مثل کا لفظ مویشیوں میں سے نظیر کو متضمن نہیں ہوگا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ مثل سے قیمت مراد ہے تو اب مویشیوں میں سے نظیر مراد لینا منتفی ہوجائے گا اس لئے کہ ایک ہی لفظ سے یہ دونوں باتیں مراد لینا محال ہے۔ کیونکہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ مثل سے ایک چیز مراد ہوتی ہے یا تو قیمت مراد ہوتی ہے یا مویشیوں میں سے نظیر جب قیمت مراد لینا ثابت ہوگیا تو اس کے سوا دوسری ہر چیز منتفی ہوگئی۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھیے ، قول باری (لاتقتلوا الصیدوانتم حرم) ان تمام شکاروں کے لئے عام ہے جن کی نظیریں ہیں یا نظیریں نہیں ہیں پھر اس پر یہ قول باری عطف کیا گیا (ومن قتلہ منکم متعمداً فجزاء مثل ما قتل) اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ آیت میں مذکورہ مثل مذکورہ بالا تمام شکاروں کے لئے عام قرار دیا جائے اس صورت میں مثل سے قیمت مراد لینا اولیٰ ہوگا اس لئے کہ اگر مثل کو قیمت پر محمو لکیا جائے گا تو اس صورت میں یہ تمام شکاروں کے لئے عام ہوگا اور سب کو شامل ہوگا۔ لیکن اگر مثل کو نظیر پر محمول کیا جائے گا تو یہ چند صورتوں کے ساتھ مخصوص ہوجائے گا اور کچھ صورتیں اس سے خارج رہیں گی جبکہ لفظ کا حکم یہ ہوتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اسے اس کے عموم پر رکھا جائے۔ اس بنا پر قیمت کا اعتبار اولیٰ ہوگیا ۔ اس کے برعکس جن حضرات نے اسے نظیر پر محمول کیا ہے انہوں نے اس لفظ کو مذکورہ شکاروں میں سے بعض کے ساتھ خاص کردیا ہے اور بعض کو چھوڑ دیا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ مثل کا اسم کبھی قیمت پر اور کبھی نظیر پر واقع ہوتا ہے اس لئے جن لوگوں نے ان شکاروں میں جن کی نظیریں ہیں اس ینظیر کے معنی پر محمول کیا ہے اور ان شکاروں میں جن کی نظیریں مویشیوں میں موجود نہیں قیمت پر محمول کیا ہے انہوں نے اس لفظ مثل کو عموم کے معنوں میں استعمال ہونے سے بایں معنی خالی نہیں رکھا کہ کبھی اسے قیمت کے معنی میں لیا جائے اور کبھی نظیر کے معنی میں لیا جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ بات اس طرح نہیں ہے بلکہ یہ لفظ جب نظیر کے معنی میں استعمال ہوگا تو اس کا استعمال خصوص کے طور پر ہوگا اسی طرح جب قیمت کے معنی میں اس کا استعمال ہوگا تو بھی خصوصی کے طور پر ہوگا یعنی معترض کی بتائی ہوئی تفصیل کی روشنی میں اس لفظ کا استعمال عموم کے طور پر نہیں ہو سکے گا۔ اس لئے اس لفظ سے قیمت مراد لے کر عموم کے طور پر ان تمام صورتوں میں اس کا استعمال اولیٰ ہوگا جو اس اسم کے تحت آتی ہیں، بجائے اس کے کہ اسے دونوں معنوں میں سے ہر ایک کے اندر خصوص کے طور پر استعمال کیا جائے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ مثل حقیقت میں نظیر کے لئے اسم ہے قیمت کے لئے اسم نہیں ہے۔ جس شکار کی نظیر نہیں ہے اس کی قیمت اجماع کی بنا پر واجب ہوتی ہے آیت کی بنا پر واجب نہیں ہوتی اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات کئی وجوہ سے غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قیمت کو مثل کے نام سے موسوم کیا ہے چناچہ ارشاد باری ہے (فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم) فقہاء امصار کا اس پر اتفاق ہے کہ جو شخص کسی کے غلام کو تلف کر دے گا اس پر اس کی قیمت واجب ہوجائے گی۔ اور حضور ﷺ نے اس خوشحال شخص کو نصف قیمت ادا کرنے کا حکم دیا جس نے ایسے غلام کو آزاد کردیا تھا جو اس کے اور ایک دوسرے شخص کے درمیان مشترک تھا اس سے معترض کی یہ بات غلط ہوگئی کہ مثل قیمت کے لئے اسم نہیں ہے۔ ایک اور جہت سے دیکھیے کہ معترض کا یہ کہنا کہ آیت اس جانور میں جزا کے ایجاب کے مقتضی نہیں ہے جس کی نظیر موجود نہ ہو ۔ گویا دلیل کے بغیر آیت کی تخصیص کردینا ہے جبکہ ایسا جانور قول باری (لاتقتلوا الصیدواتتم حرم) کے عموم میں داخل ہے اور اس کے بعد اس ارشاد باری (فمن قتلہ منکم) میں مفعول کی ضمیرش کار ہونے والے تمام جانوروں سے کنایہ ہے۔ اب اگر آی ت سے بعض جانوروں کو خارج قرار دیا جائے تو اس سے دلیل کے بغیر آیت کی تخصیص لازم آئے گی اور یہ چیز کسی طرح دسرت نہیں مثل سے مراد قیمت ہے۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ صحابہ کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ ان حضرات نے کبوتری کو ہلاک کرنے پر محرم کے ذمے ایک بکری لازم کردی تھی جبکہ کبوتری اور بکری کے درمیان ظاہری طور پر کوئی مشابہت نہیں ہے اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ ان حضرات نے بکری بطور قیمت واجب کردی تھی نظیر کے طور پر واجب نہیں کی تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ نے بجو کو ہلاک کرنے پر مینڈھا واجب کردیا تھا تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مینڈھا اس لئے واجب کیا تھا کہ یہ مینڈھا بجو کی قیمت تھا۔ اس روایت میں یہ دلالت نہیں ہے کہ آپ نے مینڈھا اس لئے واجب کیا تھا کہ یہ مینڈھا بجو کی قیمت تھا۔ اس روایت میں یہ دلالت نہیں ہے کہ آپ نے مینڈھا اس لحاظ سے واجب کیا تھا کہ یہ اس کی نظیر تھا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ آیت کو قیمت پر محمو ل کرنا اور مثل کی تاویل قیمت کے معنی میں کرنا اس وقت درست ہوتا اگر آیت میں مثل کے معنی مراد کا بیان ہوتا جبکہ سلسلہ آیت میں مثل کے معنی کی وضاحت اس قول باری سے ہوگئی ہے (فجزاء مثل ما قتل من النعم) اس میں یہ واضح کردیا گیا کہ مویشیوں میں سے جو مثل ہو وہ مراد ہے اور یہ تو جانتے ہیں کہ نص کے ہوتے ہوئے تاویل کی کوئی گنجاش نہیں ہوتی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض کا یہ دعویٰ اس وقت درست ہوسکتا تھا۔ جب آیت میں ان ہی الفاظ پر اقتصار ہوتا اور اس کے ساتھ اگلے حصے کا ذکر نہ ہوتا۔ آیت کا اگلا حصہ معترض کے دعوے کو ساقط کردیتا ہے۔ جو یہ ہے (من النعم یحکم بہ ذواعدل منکم ھدیا بالغ الکعبۃ اوکفارۃ طعام مساکین اوعدل ذلک صیاماً ، مویشیوں میں سے جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے اور یہ نذرانہ کعبہ پہنچایا جائے گا یا نہیں تو اس گناہ کے کفارہ میں چند مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا یا اس کے بعد روزے رکھنے ہوں گے۔ ) جب اللہ تعالیٰ نے آیت کے اس حصے کو ماقبل کے حصے کے ساتھ متصل کردیا اور حرف تخییر او داخل کردیا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مویشیوں کا ذکر لفظ مثل کی تفسیر کے طور پر نہیں کی اگیا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے طعام اور صیام دونوں کا ذکر کیا ہے جبکہ یہ دونوں چیزیں مثل نہیں ہیں پھر ان دونوں کے درمیان اور نعم یعنی مویشیوں کے درمیان حرف او داخل کردیا چونکہ آیت کی ترتیب اس طرح ہے اس لئے آیت کے مفہوم میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اگر یوں کہا جائے کہ ” فجراء مثل ما قتل طعاماً او صیاماً او من النعم ھدیاً (یعنی جو جانور اس نے مارا ہو اس کے ہم پلہ طعام یا روزوں یا مویشیوں میں سے نذر دینا ہوگی) اس لئے کہ تلاوت میں مویشیوں کے ذکر کی تقدیم معنی کے لحاظ سے ان کی تقدیم کی موجب نہیں ہے بلکہ یہ تینوں باتیں اس طرح ہیں کہ گویا ان سب کا اکٹھا ذکر ہوا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ قول باری (فکفارتہ اطعام عشرۃ مساکین من اوسط نطعمون اھلیکم اوکسوتھم اوتحریر رقبۃ) اس امر کا مقتضی نہیں ہے کہ کھانا کھلانا کپڑا پہنانے پر مقدم ہوجائے یا کپڑا پہنانا معنی کے لحاظ سے غلام آزاد کرنے پر مقدم ہوجائے بلکہ یہ تینوں باتیں اس طرح ہیں گویا کہ ان سب کا ذکر ایک لفظ واحد کے ساتھ کیا گیا ہے۔ اسی طرح قول باری (فجزاء مثل ماقتل من النعم) قول باری (یحکم بہ ذوا عدل منکم ھدیاً بالغ الکعبۃ او کفارۃ طعام مساکین او عدل ذلک صیاماً ) کے ساتھ متصل ہے۔ اس بنا پر مویشیوں کا ذکر مثل کے لفظ کی تفسیر کے طور پر نہیں ہوا ہے۔ نیز قول باری (فجزاء مثل ما قتل ) ایسا فقرہ جو اپنے معنی ادا کرنے میں خود کفیل ہے اس کے ساتھ کسی اور لفظ کی تضمین کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دوسری طرف قول باری (من النعم یحکم بہ ذواعدل منکم ھدیاً بالغ الکعبۃ اوکفارۃ طعام مساکین) کو مثل کے لفظ کی تفسیر کے سوا کسی اور صورت پر محمول کرنا ممکن ہے۔ اس لئے مثل کے لفظ کی مویشیوں کے لفظ کے ساتھ تضمین جائز نہیں جبکہ کلام اس تضمین سے مستغنی ہے۔ اس لئے کہ ہر ایسا کلام جس کا ایک حکم ہو اس کی دوپہر کلام کے ساتھ ایسی دلالت کے بغیر تضمین جائز نہیں ہوتی جو کسی اور کلام سے حاصل ہوتی ہو اور اس تضمین کی نشاندہی کرتی ہو۔ نیز قول باری (من النعم) سے یہ واضح ہے کہ اس میں ” ادارۃ المحرم “ (محرم کا ارادہ) کا لفظ پوشیدہ ہے اور اس کے معنی یہ ہوں گے ” من النعم یحکم بہ ذواعدل منکم ھدیا ان ارادالھدی اوالطعام ان اراد الطعام “ مویشیوں میں سے جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے۔ یہ ھدی یعنی نذرانہ ہوگا اگر محرم اس کا نذرانہ دینا چاہے یا طعام ہوگا اگر محرم طعام دینا چاہے) اس لئے لفظ نعم مثل کے لفظ کی تفسیر نہیں ہے جس طرح طعام اور صیام اس لفظ کی تفسیر نہیں ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ صحاب ہ کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ ان حضرات نے شتر مرغ ہلاک کرنے پر بدنہ یعنی اونٹ کی قربانی لازم کردی تھی جبکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ قیمتوں میں اختلاف ہوتا ہے۔ ان حضرات نے مطلقاً یہ حکم دیا تھا یعنی انہوں نے اس سلسلے میں قیمت کی کمی بیشی کے لحاظ سے شکار کا کوئی اعتبار نہیں کیا تھا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض سے یہ پوچھا جائے کہ آپ ہر شتر مرغ کے بدلے میں بدنہ واجب کردیں گے اور شکار کی قیمت کی کمی بیشی کا کوئی اعتبار نہیں کریں گے بلکہ ایک گھٹیا درجے کے شتر مرغ پر ایک اعلیٰ درجے کا بدنہ یا اعلیٰ درجے کے شتر مرغ پر ایک ادنیٰ درجے کا ہدف واجب کردیں گے ؟ اگر جواب نفی میں دیا جائے اور یہ کہا جائے کہ ہم شتر مرغ کے بدقر بدنہ واجب کریں گے یعنی اگر شتر مرغ اعلیٰ درجے کا ہوگا تو بدنہ بھی اعلیٰ درجے کا ہوگا اور اگر شتر مرغ ادنیٰ درجے کا ہوگا تو اس کے لئے ادنیٰ درجے کا بدنہ دیا جائے گا۔ اس پر معترض سے یہ کہا جائے گا کہ اس طریق کار سے آپ صحابہ کرام کی مخالفت کے مرتکب قرار پائیں گے اس لئے کہ ان حضرات نے شکار کی حالت کے بارے میں دریافت نہیں کیا تھا اور انہوں نے اعلیٰ اور ادنیٰ درجے کے شتر مرغ میں کوئی فرق روا نہیں رکھا تھا۔ اس طرح معترض نے جس بات کا اعتبار کیا صحابہ کرام نے اس کا اعتبار نہیں کیا۔ اگر اس کے جواب میں معترض کی طرف سے یہ کہا جائے کہ صحابہ کرام کے اس قول کو ہم اس امر پر محمول کریں گے کہ ان حضرات نے شتر مرغ کے حسب حال بدنہ کا فیصلہ دیا تھا اگرچہ انہوں نے الفاظ میں اس کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی راوی نے اسے نقل کیا ہے۔ اس کے جواب میں معترض سے کہا جائے گا کہ آپ سے پھر یہی بات وہ لوگ کہیں گے جو قیمت کے قائل ہیں کہ صحابہ کرام نے شتر مرغ کی ہلاکت پر بدنہ دینے کا اس لئے فیصلہ دیا تھا کہ اس وقت شتر مرغ کی یہی قیمت تھی۔ یعنی اس کی قیمت ایک بدنہ کے برابر تھی۔ اگرچہ یہ بات ہم تک نقل نہیں کی گئی کہ ان حضرات نے بدنہ دینے کا اس بنا پر فیصلہ دیا تھا کہ اس کی قیمت شتر مرغ کے برابر تھی۔ پھر معترض سے یہ سوال بھی کیا جائے گا کہ آیا شتر مرغ کے بدلے میں بدنہ دینے کا یہ حکم اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس کے سوا دوسری چیز یعنی طعام یا صیام جائز نہیں ہے ؟ اگر جواب نفی میں دیا جائے گا تو پھر معترض سے یہ کہا جائے گا کہ اس طرح بدنہ دینے کے بارے میں صحابہ کرام کا فیصلہ قیمت کے جواز کی نفی پر دلالت نہیں کرتا۔ فصل قول باری (فجزاء مثل) دو طرح قرأت کی گئی ہے ایک تو لفظ مثل کو مرفوع پڑھا گیا ہے اور دوسرے اس لفظ کو مجرور پڑھا گیا ہے اور اسے لفظ جزاء کا مضاف الیہ بنایا گیا ہے۔ لفظ جزاء کبھی اس چیز کے لئے اسم ہوتا ہے جو فعل کی بن اپر واجب ہوتا ہے۔ پھر یہ مصدر بن کر بدلہ دینے والے کا فعل قرار پاتا ہے۔ جن حضرات نے اس کی قرأت تنوین کے ساتھ کی ہے انہوں نے اسے اس جزاء کی صفت قرار دیا ہے جس کا استحقاق فعل کی بنا پر ہوا ہے اور وہ قیمت ہے یا مویشیوں میں سے شکار کی نظیر ہے جیسا کہ اس بارے میں فقہاء کا اختلاف رائے ہے۔ جن حضرات نے اس کے مضاف کی صورت میں قرأت کی ہے اور لفظ مثل کی طرف اس کی اضافت کی ہے انہوں نے اسے مصدر قرار دیا ہے اس صورت میں محرم جو واجب بدلہ دے گا وہ لفظ مثل کی طرف مضاف ہوگا اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ وہ جزاء جو واجب ہے وہ مثل کی طرف مضاف ہے اور مثل شکار کا مثل ہوگا اس سے یہ بات معلوم ہوگی کہ شکار مردہ اور حرام ہے اور اس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ نیز یہ کہ قیمت کے ایجاب کے سلسلے میں شکار کے مثل کا اعتبار اس کے زندہ ہنے کی صورت میں کرنا واجب ہے۔ دونوں صورتوں میں اضافت درست ہے خواہ جزاء کو اسم مانا جائے یا مصدر۔ نعم یعنی مویشیوں سے مراد اونٹ، گائے اور بھیڑ بکری ہیں ۔ قول باری (یحکم بہ ذواعدل منکم) میں دونوں قول یعنی قیمت یا مویشیوں میں سے نظیر کا احتمال ہے اس لئے کہ صید کے حسب حال قیمتوں میں کمی بیشی ہوتی ہے اس لئے ہر حالت اور ہر شکار کی صورت میں دو عادل آدمیوں کی ضرورت ہوگی جو ہر شکار کی الگ سے قیمت کا اندازہ لگائیں گے۔ جو لوگ نظیر کے قائل ہیں وہ بھی حکمین کے فیصلے کی طرف رجوع کرتے ہیں اس لئے کہ شکار فی نفسہ مختلف طرح کا ہوتا ہے یعنی اعلیٰ اور ادنیٰ ہونے کے لحاظ سے ہر شکار دوسرے سے مختلف ہوتا ہے ۔ حکمین شکار کو دیکھ کر اس کے حسب حال کا ایجاب کریں گے یعنی اعلیٰ درجے کے شکار ہیں اعلیٰ نظیر، اوسط درجے میں اوسط نظیر درجے میں اوسط نظیر اور گھٹیا درجے میں گھٹیا نظیر، اس چیز کے لئے حکمین کے اجتاد اور سمجھ بوجھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے، انہوں نے حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر سے روایت کی ہے کہ ان دونوں حضرات نے کبوتر کی مانند ایک پرندہ، کو نج کو ہلاک کرنے پر محرم کے ذمے دو تہائی مد (ایک پیمانہ جو اہل عراق کے نزدیک دور طل کا ہوتا ہے) گندم یا کوئی اور چیز لازم کردی تھی اور فرمایا تھا کہ دو تہائی مد ایک مسکین کے پیٹ میں ایک قطاۃ یعنی کو نج سے بہتر ہے۔ معمر نے صدقہ بن یسار سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں :” میں نے قاسم اور سالم سے پوچھا تھا کہ اگر محرم بھول کر چکور پرندہ ذبح کرلیتا ہے تو اس کا کیا حکم ہوگا۔ یہ سن کر ایک نے دوسرے سے فرمایا :” کیا کسی انسان کے پیٹ میں ایک چکور کا گوشت بہتر ہوتا ہے یا دو تہائی مد ؟ “ دوسرے حضرت نے جواب دیا کہ دو تہائی مد بہتر ہوتا ہے۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ نصف مد ؟ دوسرے صاحب نے جواب دیا کہ نصف مد بہتر ہوتا ہے۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ نصف مد بہتر ہوتا ہے یا تہائی مد ؟ اس کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ صدقہ بن یسار مزید کہتے ہیں کہ میں نے پھر سوال کیا کہ آیا اس موقعہ پر ایک بکری کفارہ کی کفایت کو جائے گی۔ اس پر دونوں حضرات نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ آیا تم اس طرح کرو گے ؟ میں نے اثبات میں جواب دیا جسے سن کر انہوں نے فرمایا ” پھر جائو ، جا کر بکری دے دو ۔ “ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے اپنی چاندر دارالندوہ (وہ کمرہ یا مکان جس میں حضرت عمر دوسرے اصحاب کے ساتھ صلاح و مشورہ کے لئے بیٹھتے تھے اور امور سلطنت طے کرنے کے لئے اجلاس بلایا کرتے تھے) کی ایک لکڑی پر رکھ دی جس کی وجہ سے وہاں سے ایک کبوتر اڑ گیا اور سخت گرمی کی وجہ سے ہلاک ہوگیا۔ حضرت عمر نے حضرت عثمان اور حضرت نافع بن الحارث کو اس کے متعلق فیصلہ دینے کے لئے کہا۔ ان دونوں نے خاکستری رنگ کا سال سے کم عمر کا بچہ دینے کا فیصلہ دیا چناچہ حضرت عمر نے ایسا ہی کیا ۔ عبدالملک بن عمیر نے روایت کی ہے کہ قبیصہ بن جابر فرماتے ہیں کہ ایک محرم نے ہرنی کو قتل کردیا حضرت عمر نے اپنے پہلو میں بیٹھے ہوئے شخص سے اس کے متعلق دریافت کیا پھر اسے ایک بکری ذبح کر کے اس کا گوشت صدقہ کردینے کا حکم دیا۔ قبیصہ کہتے ہیں کہ جب ہم حضر ت عمر کے پاس سے اٹھ کھڑے ہوئے تو میں نے سائل سے کہا کہ حضرت عمر کا فتویٰ اللہ کے نزدیک تمہارے کوئی کام نہیں آئے گا اس لئے اپنی اونٹنی ذبح کر دو اور اللہ کے شعائر کی تعظیم کا اظہار کرو۔ خدا کی قسم عمر کو پتہ نہیں چل سکا کہ تمہارے سوال کا کیا جواب دیں جب تک کہ انہوں نے اپنے ساتھ بیٹھنے والے شخص سے پوچھ نہ لیا۔ اس کے بعد فتویٰ پوچھنے والے کو رسید کرتے جا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ کہتے ہیں :” خدا تم سے لڑے ۔ حرم کے اندر جانور کی جان لیتے ہو اور پھر فتویٰ میں عیب نکالتے ہو اور کہتے ہو کہ عمر کو پتہ نہیں چل سکا جب تک کہ اپنے ساتھ والے شخص سے پوچھ نہ لیا۔ تم نے قرآن کی یہ آیت (یحکم بہ ذواعدل منکم) نہیں پڑھی ؟ “ یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ حکمین کا فیصلہ ان کی سمجھ بوجھ اور اجتہاد و رائے پر مبنی ہوگا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حضرت عمر ، حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر، قاسم اور سالم میں سے ہر ایک صاحب نے اپنے رفیق سے واجب ہونے والی مقدار کے متعلق اس کی رائے پوچھی ہے جب ان دونوں کی رائے ایک امر پر متفق ہوگئی تو انہوں نے اس کا فیصلہ دے دیا۔ نئے پیش آمدہ امور پر اجتہاد کرنا جائز ہے یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ نئے پیش آمدہ امور کے احکام معلوم کرنے کے لئے اجتہاد کرنا جائز ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے شکار کی قیمت لگانے اور واجب ہونے والے بدلے کے متعلق فیصلہ کرنے کے لئے اپنی سمجھ بوجھ اور اجتہاد و رائے سے کام لینے کی اباحت کردی ہے۔ یہ اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ ایسی چیزوں کی قیمت لگانے کا معاملہ بھی جنہیں تلف کردیا گیا ہو دو عادل آدمیوں کی رائے اور اجتہاد کے سپرد کردیا جائے گا یہ دونوں اپنا فیصلہ تلف کرنے والے شخص پر جاری کردیں گے جس طرح آیت میں شکار کی قیمت کے سلسلے میں حکمین کے فیصلے کی طرف رجوع کرنے کا ایجاب ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک حکمین اس شکار کی قیمت کا فیصلہ دے دیں گے پھر محرم کو اختیار ہوگا کہ اس کے بدلے کوئی قربانی خریدے یا کھانا کھلا دے یا ہر نصف صاع طعام کے بدلے ایک روزہ رکھ لے۔ امام محمد کا قول ہے کہ حکمین اپنی رائے کے مطابق قربانی یا طعام یا صیام کا فیصلہ کریں گے۔ اگر حکمین ہدی یعنی قربانی کے لئے جانور کا فیصلہ کردیں تو محرم کو قربانی میں وہ جانور دینا ہوگا۔ قول باری ہے (ھدیاً بالغ الکعبۃ ، یہ قربانی کا جانور یا نذرانہ کعبہ پہنچایا جائے گا) ھدی کا اطلاق اونٹوں، گایوں اور بھیڑوں پر ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے (فما استیسر من الھدی، جو ھدی میسر آ جائے۔ اس قول باری میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ محرم حالت احصار کے اندر مذکورہ بالا تینوں اصناف میں سے جو جانور ہدی کے طور پر بھیجنا چاہے بھیج سکتا ہے۔ لیکن شکار کے بدلے میں جو حضرات قیمت کے وجوب کے قائل ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ حکمین کی طرف سے قیمت لگ جانے کے بعد اسے اختیار ہوگا اگر وہ ہدی دینا پسند کرے اور شکار کی قیمت اونٹ کی قیمت کے برابر ہو تو اونٹ ذبح کر دے۔ لیکن اگر اونٹ کی قیمت کو نہ پہنچے بلکہ گائے کی قیمت کو پہنچ جائے تو گائے ذبح کرے گا۔ اگر بکری کی قیمت کو پہنچ جائے تو بکری ذبح کرے گا اگر قیمت کے بدلے کئی بکریاں خرید کر کے ذبح کر دے تو بھی جائز ہوگا۔ جو لوگ مویشیوں میں سے نظیر کے وجوب کا قول کرتے ہیں ان کے نزدیک اگر حکمین ہدی کا فیصلہ دیتے ہیں تو محرم کو ان کے فیصلے کے مطابق اونٹ، گائے یا بکری لے جا کر قربانی کرنی ہوگی۔ کس عمر کا جانور شکار کی جزاء میں جائز ہوگا ؟ اس کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ شکار کی جزاء میں صرف وہی جانور جائز ہوگا جو اصحیہ یعنی قربانی کے طو ر پر جائز ہوتا ہے نیز احصار اور حج قران کی صورت میں اسے ذبح کرنا جائز ہوتا ہے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ شکار کی حیثیت کے مطابق ایک سال سے کم بکری کا بچہ نیز اوسط درجے کا جانور بھی جائز ہے۔ پہلے قول کی صحت کی دلیل یہ ہے کہ یہ ایسا ہدی ہے جس کے وجوب کا تعلق احرام کی بنا پر ہوا ہے۔ اور سب کا اس پر اتفاق ہے کہ احرام کی بنا پر واجب ہونے والے ہدایا صرف ان ہی جانوروں میں جائز ہوت یہیں جن کی قربانی دی جاسکتی ہو۔ یعنی بھیڑیا دنبہ، چھ ماہ کا بشرطیکہ وہ اتنا موٹا تازہ ہو کہ سال بھر کا معلوم ہوتا ہو۔ بکرا، بکری پورے سال کی، گائے، بھینس پورے دو سال کی اور اونٹ پورے پانچ سال کا۔ ان سب جانوروں میں اس سے کم عمر والے جانور کی قربانی درست نہیں ہوگی۔ اس سے زائد عمر والے جانور میں کوئی حرج نہیں۔ شکار کے بدلے میں دیئے جانے والے ہدی کے اندر بھی ان ہی عمروں کا لحاظ رکھا جائے گا۔ نیز جب اللہ تعالیٰ نے شکار کی جزاء میں دیئے جانے والے جانور کو علی الاطلاق ہدی کے نام سے موسوم کیا تو اس کی حیثیت ان جانوروں کی طرح ہوگئی جنہیں قرآن میں علی الاطلاق ہدایا کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس لئے ہدی میں بھی ہماری مذکورہ عمروں سے کم جانور کافی نہیں ہوگا۔ امام ابو یوسف اور امام محمد نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جو صحابہ کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ یربوع (چوہے کے مانند ایک جانور جس کی اگلی ٹانگیں چھوٹی اور پچھلی ٹانگیں بڑی اور دم لمبی ہوتی ہے) میں ایک جفعرہ (چار ماہ کا بکری کا بچہ) اور خرگوش میں ایک عناق (ایک سال سے کم کا بچہ دیا جائے گا۔ ) علاوہ ازیں اگر محرم شکار کی جزاء کے لئے بکری بطور ہدی لے جائے گا اور بکری بچہ دے دے گی تو بچے کو بھی ساتھ ہی ذبح کیا جائے گا۔ ابوبکر جصاص اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ صحابہ کرام کی ایک جماعت سے مروی اثر میں ممکن ہے کہ جفرہ یا عناق نظیر کے طور پر نہ دیئے گئے ہوں بلکہ قیمت کے طور پر دیئے گئے ہوں۔ دوسری بات کہ ہدی کا بچہ ماں کے ساتھ ذبح کیا جائے گا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ بچہ ماں کے تابع ہوتا ہے اور اس بنا پر ماں کے اوپر لازم حق بچے میں بھی سرایت کرجاتا ہے اور اسے ماں کے ساتھ ذبح کردیا جاتا ہے جو چیز فی نفسہ اصل ہو اسے بالتبع چیز کی روشنی میں اعتبار کرنا جائز نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ ام ولد کا بیٹا اس لحاظ سے ماں کی طرح ہوتا ہے کہ وہ مال شمار نہیں ہوتا اور آقا کی موت کے ساتھ ہی وہ اپنی قیمت ادا کئے بغیر آزاد ہوجاتا ہے لیکن اگر اس پر یہی حکم شروع ہی سے جاری کردیا جائے اور ماں کے تابع ہونے اور ماں کے حکم میں داخل ہونے کا اعتبار نہ کیا جائے تو یہ حکم درست نہیں ہوتا۔ اسی طرح مکاتب لونڈی کا ولد جو ابھی اسکی گود میں ہو، مکاتب بن جاتا ہے اگر گود میں چمٹے ہوئے بچے کو مکاتب بنایا جائے جبکہ ماں کو مکاتب نہ بنایا گیا ہو تو یہ درست نہیں ہوتا۔ اس کی اور بہت سی مثالیں اور نظائر ہیں۔ قول باری (بالغ الکعبۃ) ہدی کی صفت ہے کعبہ میں اس کے پہنچنے سے مرادیہ ہے کہ اسے حرم میں ذبح کیا جائے۔ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ سارا حرم حرمت کے لحاظ سے کعبہ کی طرح ہے۔ نیز یہ کہ حدود حرم کے قطعات اراضی کی فروخت جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے کعبہ کے لفظ سے پورے حرم کی تعبیر کی ہے۔ جس طرح حضرت ابن عباس نے حضور ﷺ سے آپ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے (ان الحرم کلمہ مسجد، سارا حرم مسجد ہے۔ ) اسی طرح قول باری ہے (فلا یقربوا المسجد الحرام، وہ مسجد حرام کے قریب بھی نہ جائیں) اس سے مراد سارا حرم اور حج کے مقامات ہیں اس لئے کہ مشرکین کو اس آیت کے ذریعے حج کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ محرم کے کئے ہوئے شکار کی قیمت کی تعیین کس مقام پر کی جائے اس بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ جس جگہ شکارا مارا جائے اسی مقام پر اس کی قیمت لگائی جائے اگر وہ مقام جنگل یا بیابان ہو تو قریب ترین آبادی میں لے جا کر اس کی قیمت لگائی جائے۔ ہمارے اصحاب کا یہی قول ہے ۔ شعبی کا قول ہے کہ اس کی قیمت کی تعیین مکہ مکرمہ یا منیٰ کے مقام پر کی جائے۔ پہلا قول صحیح ہے اس لئے کہ اس کی تقویم یعنی قیمت کی تعیین اسی طرح ہے جس طرح تلف شدہ چیزوں کی تقویم ہوتی ہے۔ اس لئے اس جگہ کا اعتبار کیا جائے گا جہاں یہ چیز تلف ہوئی ہو، اس جگہ کا اعتبار نہیں کیا جائے کا جہاں اس کی قیمت ادا کی جاتی ہے۔ نیز مکہ مکرمہ یا منیٰ کی تخصیص سے کسی دلیل کے بغیر آیت کی تخصیص لازم آتی ہے جو جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ حضرت عمر اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف سے مروی ہے کہ ان دونوں حضرات نے ہرن کے شکار پر ایک بکری کا فیصلہ دیا تھا اور سائل سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ اس نے یہ شکار کس جگہ مارا ہے۔ اس کے جوا ب میں کہا جائے گا کہ یہ ممکن ہے کہ سائل نے ایسے مقام پر ہرن مارا ہو جہاں اس کی قیمت ایک بکری کے برابر سمجھی جاتی ہو۔ قول باری ہے (اوکفارۃ طعام مساکین، یا کفارہ میں چند مسکینوں کو کھانا کھلانا ہوگا) لفظ کفارہ کی قرأت اضافت کے ساتھ کی گئی ہے اور اضافت کے بغیر تنوین کے ساتھ بھی کی گئی ہے۔ طعام کی مقدار کی تعیین میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس (ایک روایت کے مطابق) ابراہیم نخعی، عطاء مجاہد اور مقسم کا قول ہے کہ شکار کی قیمت درہموں میں لگائی جائے گی پھر ان سے طعام خریدا جائے گا اور ہر مسکین کو نصف صاع دیا جائے گا۔ حضرت ابن عباس سے ایک اور روایت یہ ہے کہ ہدی یعنی بدلے میں دیئے جانے والے جانور کی قیمت لگائی جائے گی اور اس سے طعام خریدا جائے گا۔ مجاہد سے بھی اسی قسم کی ایک روایت ہے۔ پہلا قول ہمارے اصحاب کا قول ہے اور دوسرے قول کے قائل امام شافعی ہیں۔ پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ اس لئے کہ ہدی اور طعام میں سے ہر ایک شکار کی جزاء ہے۔ جب ہدی ایسی جزاء ہے جس کا شکار کی نسبت سے اعتبار ہوتا ہے۔ خواہ یہ اعتبار اس کی قیمت کے لحاظ سے ہو یا نظیر کے لحاظ سے تو اس سے یہ ضرو ری ہوگیا کہ طعام کے اندر بھی اس چیز کا اعتبار کیا جائے۔ اس لئے کہ قول باری ہے (فجزاء مثل ما قتل من النعم) تا قول باری (اوکفارۃ طعام مساکین) اللہ تعالیٰ نے طعام کو قیمت کی طرح جزاء اور کفارہ قرار دیا۔ اس لئے شکار کی قیمت کے ساتھ طعام کا اعتبار ہدی کی قیمت کے ساتھ اعتبار سے اولیٰ ہوگا۔ اس لئے کہ طعام شکار کا بدل اور اس کی جزاء ہوتا ہے۔ ہدی کا بدل نہیں ہوتا۔ نیز سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر شکارا ایسا ہو جس کی مویشیوں میں کوئی نظیر موجود نہ ہو تو اس صورت میں کفارہ کے طور پر دیئے جانے والے طعام کا شکار کی قیمت کے ساتھ اعتبار کیا جائے گا۔ اس لئے یہی حکم اس صورت میں بھی ہونا چاہیے جب شکار کی نظیر موجود ہو۔ اس لئے کہ آیت شکار کی دونوں صورتوں پر مشتمل ہے۔ جب ایک صورت کے بارے میں سب کا اتفاق ہے کہ اس میں طعام کے اندر شکار کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا تو دوسری صورت کو بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جب محرم کھانا کھلانے کا ارادہ کرے گا تو شکار کی قیمت سے طعام خرید کر ہر مسکین کو نصف صاع گندم دے دے گا اس سے کم کفایت نہیں کرے گا۔ جس طرح قسم کے کفارے اور سر کی تکلیف کے باعث ادا کئے جانے والے فدیہ کا حکم ہے۔ ہم نے گزشتہ صفحات میں اس پر روشنی ڈالی ہے۔ قول باری ہے (اوعدل ذلک صیاماً یا اس کے برابر روزے) حضرت ابن عباس، ابراہیم نخعی، عطاء ، مجاہد، مقسم اور قتادہ سے ان کا قول مروی ہے کہ ہر مسکین کو یومیہ نصف صاع دیا جائے گا ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے ۔ عطاء سے یہ بھی روایت ہے کہ ہر ایک کو یومیہ ایک مد یعنی دور طل کی مقدار دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے آیت میں ہدی، اطعام اور صیام کا ذکر تخییر کے طور پر کیا ہے اس لئے کہ حرف اس کا مقتضی ہے جس طرح قسم کے کفارہ میں قول باری ہے (فکفارتہ اطعام عشرۃ مساکین من اوسط ما تطعمون اھلیکم او کسوتھم او تحریر رقبۃ) یا جس طرح یہ قول باری ہے (فقدیۃ من صیام او صدقۃ اونسک روزوں یا صدقہ یا قربانی بطور فدیہ دے گا۔ ) حضرت ابن عباس، عطاء حسن اور ابراہیم (ایک روایت کے مطابق ) کا یہی قول ہے۔ ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت ابن عباس سے ایک اور روایت ہے کہ آیت میں جس ترتیب سے ان تینوں امور کا ذکر ہوا ہے۔ محرم اس ترتیب کے مطابق شکار کا بدلہ ادا کرے گا۔ مجاہد، شعبی اور سدی سے اس طرح کی روایت ہے۔ ابراہیم سے بھی ایک روایت ترتیب کے حق میں ہے لیکن پہلی بات صحیح ہے اس لئے کہ تخیر لفظ کے حقیقی معنی ہیں۔ اس سے ترتیب پر محمول کرنے والے اس میں ایک ایسی چیز کا اضافہ کر رہے ہیں جس کا دلالت کے بغیر جواز نہیں ہوسکتا۔ قول باری ہے (ومن عاد فینتقم اللہ منہ، لیکن اب اگر کسی نے اس حرکت کا اعادہ کیا تو اللہ اس سے بدلہ لے گا) حضرت ابن عباس ، حسن اور شریح سے مروی ہے کہ اگر کوئی محرم عمداً دوبارہ کسی شکار کو ہلاک کرے گا تو اس پر جزا کے وجوب کا فیصلہ نہیں دیا جائے گا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ خود اس سے بدلہ لے گا۔ ) ابراہیم نخعی کا قول ہے کہ شکار ہلاک کرنے والے سے لوگ پہلے یہ پوچھے کہ آیا اس نے اس سے پہلے کوئی شکار ہلاک تو نہیں کیا۔ اگر وہ جواب اثبات میں دیتا تو پھر کوئی فیصلہ نہ دیتے اور اگر وہ نفی میں جواب دیتا تو حکمین شکار کئے ہوئے جانور کے بدلہ کا فیصلہ دیتے ۔ سعید بن جبیر، عطاء اور مجاہد کا قول ہے کہ محرم خواہ جتنی بار بھی شکار ہلاک کرے ہر بار حکمین اس کی جزاء کا فیصلہ سنائیں گے۔ قبیصہ بن جابر نے حضرت عمر سے حالت احرام میں م ارے ہوئے شکار کے متعلق پوچھا تھا حضرت عمر نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف سے مشورہ کر کے ان کا فیصلہ سنایا تھا اس سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ تم نے اس سے پہلے بھی کوئی شکار مارا ہے یا نہیں۔ فقہاء امصار کا یہی قول ہے اور یہی درست ہے اس لئے کہ قول باری (ومن قتلہ منکم متعمداً فجزاء) ہر مرتبہ بدلے کا موجب ہے جس طرح یہ قول باری ہے (ومن قتل مومنا، خطتحریر رقبۃ مومنۃ ودیۃ مسلمۃ الی اھلہ جو شخص کسی مومن کو خطا قتل کرے گا تو وہ ایک مومن غلام آزاد کرے گا اور اس کے اہل خاندان کو ایک دیت ادا کرے گا۔ ) دوبارہ ایسی حرکت کرنے والے کے لئے وعید کا ذکر جزاء کے وجوب کے منافی نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے محارب کی حد کو اس کے لئے جزا یعنی سزا کا درجہ دیا چناچہ ارشاد ہے (انما جزاء الذین یحاربون اللہ و رسولہ ان لوگوں کی سزا جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں) تو اس کے بعد وعید کا ذکر فرمایا (ذلک لھ خزی فی الدنیا ولھم فی الاخرۃ عذاب عظیم ) یہ ان کے لئے دنیا کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔ ) اس لئے دوبارہ ایسی حرکت کرنے والے سے بدلہ لینے کے ذکر میں جزا کے ایجاب کی نفی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں قول باری (ومن عاد فینتقم اللہ مثہ) میں ایسی کوئی دلالت نہیں ہے کہ اس سے وہ محرم مراد ہے جو ایک شکار کو ہلاک کرنے کے بعد دوبارہ کوئی اور شکار ہلاک کر دے اس لئے کہ قول باری (عفا اللہ عما ساف پہلے جو کچھ ہوچکا اللہ نے اسے معاف کردیا) میں اس مراد کا احتمال ہے کہ تحریم سے پہلے جو کچھ ہوچکا اللہ نے اسے معاف کردیا۔ اب تحریم کے بعد شخص دوبارہ ایسی حرکت کرے گا، اگرچہ پہلا شکار آیت کے نزول کے بعد مارا ہو، اللہ اس سے بدلہ لے گا۔ جب آیت میں یہ احتمال موجود ہو تو اس امر پر اس کی دلالت نہیں گی۔ کہ جو شخص دوسری مرتبہ شکار ہلاک کرنے کے بعد پھر شکار ہلاک کرے گا اس پر انتقام یعنی بدلہ کے سوا اور کوئی چیز عائد نہیں ہوگی۔ فصل قول باری ہے (لیذوق وبال امرہ، تاکہ وہ اپنے کئے کا مزہ چکھے) امام ابوحنیفہ کے اس قول کے حق میں اس سے استدلال کیا جاتا ہے کہ محرم اگر اس شکار کا گوشت کھالے جس کی جزاء اس پر لازم ہوئی ہے تو اس پر کھائے ہوئے گوشت کی قیمت لازم آئے گی جس کا وہ صدقہ کر دے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ اس نے محرم پر بدلہ اس لئے لازم کیا کہ وہ اپنے مال میں سے شکار کی قیمت کی مقدار ادا کر کے اپنے کئے کا مزہ چکھ لے۔ جب وہ شکار کا گوشت کھالے گا تو گویا وہ ادا کئے ہوئے بدلہ میں سے اتنی مقدار واپس لے لے گا اور اس طرح اتنی مقدار میں وہ اپنے کئے کا مزہ نہیں چکھے گا اس لئے کہ جو شخص کوئی جرمانہ بھرے اور پر اسی قدر واپس لے لے تو وہ اپنے کئے کا مزہ چکھنے والا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس بات سے امام ابوحنیفہ کے قول کی صحت پر دلالت ہوگئی۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ محرم اگر چاہے تو طعام کے ہر نصف صاع کی بجائے ایک روزہ رکھ لے اور اگر چاہے تو کچھ دن روزہ رکھ لے اور کچھ حصہ مسکینوں کو کھلا دے، ہمارے اصحاب نے روزے اور طعام کو اکٹھا کردینا جائز قرار دیا ہے۔ لیکن انہوں نے قسم کے کفارہ میں ان دونوں کو جمع کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ اس طرح انہوں نے شکار کی جزاء کے روزوں اور قسم کے کفارہ میں اطعام کے ساتھ روزوں کے درمیا نفرق کردیا ہے جس طرح انہوں نے ان کے اور کفارئہ یمین میں عتق اور طعام کے درمیان فرق رکھا ہے کہ کفارہ ادا کرنے کے والے کے لئے یہ جائز نہیں کہ آدھا غلام آزاد کر دے اور آدھے کے بدلے پانچ مسکین کھلا دے۔ شکار کی جزاء میں ہمارے اصحاب نے روزوں کو طعام کے ساتھ جمع کرنے کی اجازت دی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روزوں کو طعام کے مساوی اور اس کے مثل قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے (اوعدل ذلک صیاماً ) یہ تو واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس قول سے یہ مراد نہیں لی ہے کہ روزہ حقیقی معنوں میں طعام کے مثل ہے کیونکہ طعام اور صیام کے درمیان کوئی مشابہت نہیں ہے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ اس سے مراد یہ ہے کہ دونوں کے درمیان اس لحاظ سے مماثلت ہے کہ روزہ اس شخص کے لئے طعام کے قائم مقام ہوجاتا اور اس کا نائب بن جاتا ہے جو طعام کے کچھ حصوں کے بدلے روزے رکھ لیتا ہے ، گویا اس نے روزے والے حصوں کا بھی مسکینوں کو کھانا کھلایا ہے۔ اس لئے طعام کے ساتھ روزوں کو ضم کرنا جائز ہوگیا اور اس طرح پورا کفارہ گویا طعام کی صورت اختیا رکر گیا۔ لیکن قسم کے کفارہ میں رکھا جانے والا روزہ اس وقت جائز ہوتا ہے جب طعام میسر نہ ہو۔ یہ روزہ اس طعام کا بدلہ ہوتا ہے اس لئے ان دونوں کو جمع کرنا جائز نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ قسم کا کفارہ دینے والے کو یا تو طعام میسر ہوگا یا نہیں میسر ہوگا۔ اگر پہلی صورت ہوگی تو اس کے لئے روزہ رکھنا جائز نہیں ہوگا اگر دوسری صورت ہوگی تو طعام کے بدل کے طور پر اس پر روزہ رکھنا فرض ہوگا۔ بدل اور مبدل منہ کو یکجا کرنا جائز نہیں ہوتا جس طرح ایک موزے پر مسح اور دوسرے پائوں کے غسل کو یکجا نہیں کیا جاسکتا۔ یا جس طرح تمیم اور وضو کو یکجا نہیں کیا جاسکتا یا اس طرح کی اور مثالیں۔ قسم کے کفارہ میں صیام اور طعام کے درمیان جمع کے امتناع میں ہمیں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔ عتق اور طعام کو یکجا کرنا اس لئے جائز نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قسم کا کفارہ تین چیزوں میں سے ایک چیز مقرر کی ہے۔ جب ایک شخص آدھا غلام آزاد کر دے اور آدھے کا کھانا کھلا دے تو اس نے اللہ تعالیٰ کی مقررہ کردہ تین چیزوں میں کسی ایک بھی چیز کی ادائیگی نہیں کی اس لئے اس کا یہ طریق کار جائز نہیں ہوا۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آزادی کی کوئی قیمت نہیں لگائی جاسکتی کہ قیمت پوری آزادی کے لئے کافی ہوجائے۔ درج بالاصورت کی حیثیت اس صورت کی طرح بھی نہیں ہے جس میں کفارہ ادا کرنے والا پانچ مسکینوں کو کپڑا پہنا دے اور پانچ کو کھانا کھلا دے ۔ اس صورت میں قیمت کی بنا پر کفارہ کی ادائیگی ہوجائے گی اس لئے کہ کپڑا اور کھانا دونوں ایسی چیزیں ہیں جن کی قیمت لگائی جاسکتی ہے۔ اس لئے قیمت کی بنا پر ان میں سے ایک طرف سے کفایت ہوجائے گی۔ فصل قول باری ہے (ومن قتلہ منکم متعمد فجزاء مثل ما قتل) یہ اس صورت کو بھی شامل ہے جب شکار مارنے والا ایک ہو اور اس صورت کو بھی جب ایک سے زائد آدمیوں نے مل کر کوئی شکار کیا ہو، پہلی صورت میں جس طرح ایک شخص پر پوری جزا کا ایجاب ہوجائے گا دوسری صورت میں بھی اسی طرح حصہ لینے والے ہر شخص پر پوری جزا کا ایجاب ہوگا۔ اس لئے کہ آیت میں وارد لفظ من پوری جزا کے ایجاب کے لحاظ سے ہر شخص کو اس کی ذاتی حیثیت میں شامل ہے۔ اس کی دلیل یہ قول باری ہے (ومن قتل مومناً خطاتحریر رقبۃ مومنۃ) یہ قاتلین میں سے ہر ایک پر غلام آزاد کرنے کے ایجاب کا مقتضی ہے۔ جب ان سب نے مل کر ایک شخص کو قتل کردیا ہو۔ اللہ تعالیٰ کا قول ہے (ومن یظلم منکم نذقہ عذاباً کبیراً تم میں سے جو شخص بھی ظلم کرے گا ہم اسے بڑے عذاب کا مزہ چکھائیں گے) یہ ہر شخص کے لئے اس کی ذاتی حیثیت میں وعید ہے قول باری (ومن یقتل مومنا متعمداً ) میں قاتلین میں سے ہر ایک کے لئے وعید ہے۔ یہ چیز اہل لغت کے لئے بالکل واضح ہے وہ اس کی مخالفت نہیں کرتے صرف ایسے لوگ اس بات سے ناواقف ہیں جنہیں علم لغت سے کوئی مس نہیں ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ جب ایک گروہ کسی شخص کو قتل کر دے تو ان سب پر ایک ہی دیت لازم آئے گی حالانکہ لفظ میں دیت بھی اسی طرح داخل ہے جس طرح رقبہ یعنی غلام داخل ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ لفظ کی حقیقت اور اس کا عموم تو اسی امر کے متقاضی ہیں کہ قاتلوں کی تعداد کے مطابق دیتیں بھی واجب کردی جائیں۔ ایک دیت پر اجماع کی وجہ سے اقتصار کیا گیا ورنہ ظاہر لفظ اسی امر کا مقتضی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر دو شخص کسی کو عمداً قتل کردیں تو ان میں سے ہر ایک کو مستقل طور پر قاتل شمار کیا جاتا ہے اور قصاص میں ان دونوں کو قتل کردیا جاتا ہے۔ آپ یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک قاتل مقتول کی وراثت سے محروم کردیا جاتا ہے۔ اگر ان میں سے ہر قاتل کو یہ حیثیت دے دی جاتی کہ وہ قتل کے ایک حصے میں شریک ہوا ہے تو پھر یہ ضروری ہوجاتا کہ وہ میراث کے اتنے حصے سے محروم نہ رکھا جائے جتنا حصہ اس کے دوسرے ساتھ نے قتل کیا ہے۔ جب سب کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ یہ دونوں قاتل میراث سے محروم رہیں گے اور ان میں سے ہر ایک شخص مقتول کا قاتل ہے تو کفارے کے ایجاب میں بھی یہی بات ہوگی اس لئے کہ نفس یعنی جان کے حصے نہیں کئے جاسکتے۔ اسی طرح ایک شکار کو مل کر مارنے والوں کا بھی یہی حکم ہے کہ ان میں سے ہر شخص گویا اپنی ذات کے لحاظ سے اس شکار کی جان لینے والا تھا۔ اس لئے ہر ایک پر پورا کفارہ واجب ہوگا اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول (اوکفارۃ طعام مساکین) میں اس کا نام کفارہ رکھا نیز اس کفارے میں روزہ بھی مقرر کیا اس لئے یہ کفارہ قتل کے کفارے کے مشابہ ہوگیا۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا (فجزاء مثل ما قتل) تو آیت کی اس امر پر دلالت ہوئی کہ صرف ایک ہی جزا واجب ہوگی۔ آیت نے اس میں کوئی فرق نہیں کیا کہ شکار کو مارنے والا ایک شخص تھا یا متعدد اشخاص تھے جبکہ آپ کا کہنا یہ ہے کہ ان پر دو یا تین یا اس سے زائد جزاء واجب ہوگی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس جزاء کا تعلق ان میں سے ہر ایک کے ساتھ ہوگا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ان میں سے ہر ایک پر دو یا تین یا اس سے زائد جزا واجب ہوگی بلکہ ان میں سے ہر ایک پر صرف ایک جزا واجب ہوگی۔ جزا کا تعلق ان میں سے ہر ایک کے ساتھ ہوگا اس پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے (فجزاء مثل ماقتل) اللہ تعالیٰ نے قتل فرمایا قتلوا نہیں فرمایا۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ نے ایک جزا مراد لی ہے۔ ہم نے کتاب ” شرح المناسک “ میں پوری شرح وبسط کے ساتھ اس پر گفتگو کی ہے ہمارے مخالف اس آیت سے حج قران کرنے والے کے سلسلے میں ہمارے خلاف استدلال کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ظاہر کتاب سے قارن پر صرف ایک جزا واجب ہوگی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قارن ہمارے نزدیک دو احرام باندھ کر محرم بنتا ہے۔ اس پر ہم اپنے مقام پر مزید روشنی ڈالیں گے۔ ہماری یہ بات جب درست ثابت ہوگئی پھر قارن نے ان دونوں احرام میں کوئی نقص پیدا کردیا تو وہ دوجانور قربان کر کے اس کی تلافی کرے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ فقہاء کے درمیان اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ہدی کی قربانی مکہ مکرمہ جا کر درست ہوتی ہے آیت میں کعبہ تک پہنچنے سے مراد یہی ہے کہ اسے حرم کے اندر ذبح کیا جائے۔ اگر حرم میں داخل ہونے کے بعد ذبح ہونے سے قبل ہدی کا جانور ہلاک ہوجائے تو اس شخص پر ایک دوسرا ہدی واجب ہوگا۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ کعبہ پہنچنے کے بعد حرم کے اندر اگر اسے ذبح کر دے پھر ذبح شدہ جانور چوری ہو جائو تو اس شخص پر اور کوئی چیز واجب نہیں ہوگی اس لئے ذبح کے ساتھ ہی صدقے کا تعین ہوگیا اور اس کی حیثیت اس شخص کی طرح ہوگئی جس نے یہ کہا ہو کہ ” اللہ کے لئے مجھ پر اس گوشت کا صدقہ کردینا لازم ہے۔ “ اور پھر وہ گوشت چوری ہوگیا تو اب اس پر کوئی چیز لازم نہیں ہوگی۔ فقہاء کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ روزے مکہ کے سوا کسی اور جگہ بھی رکھے جاسکتے ہیں البتہ طعام کے بارے میں اختلاف ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ وہ شخص جس جگہ طعام کا صدقہ دینا چاہے اس کے لئے ایسا کرنا جائز ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ جب تک مکہ کے مساکین کو یہ طعام حوالے نہیں کرے گا اس کا کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ پہلے قول کی دلیل یہ قول باری ہے (اوکفارۃ طعام مساکین) اس میں تمام مساکین کے لئے عموم ہے اس لئے کسی خاص جگہ کے مساکین کے ساتھ اس کی تخصیص درست نہیں ہوگی الا یہ کہ اس کی کوئی دلیل موجود ہو۔ اس بنا پر جو حضرات اسے مکہ مکرمہ کے مساکین تک محدود کردیں گے وہ کسی دلیل کے بغیر آیت کی تخصیص کریں گے۔ نیز اصول شرعیہ کے اندر کوئی ایسا صدقہ موجود نہیں جو کسی جگہ کے ساتھ مخصوص کردیا گیا ہو کہ کسی اور جگہ اس کی ادائیگی جائز ہی نہ ہو۔ جب یہ صدقہ کی ایک صورت ہے تو اس کے نظائر یعنی دوسرے صدقات پر قیاس کرتے ہوئے تمام مقامات پر اس کی ادائیگی کا جواز واجب ہے۔ نیز کسی ایک خاص مقام کے ساتھ اس کی تخصیص اصول سے خارج ہے اور جو قول اصول اور ظاہر کتاب سے خارج ہو وہ ساقط اور مرذول وہتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ بدی کا جانورھی تو صدقہ ہوتا ہے لیکن وہ حرم کے ساتھ مخصوص ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس کی ذبح حرم کے ساتھ مخصوص ہے۔ لیکن صدقہ تو وہ جس جگہ چاہو ہوسکتا ہے۔ ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے کہ اگر ایک شخص ہدی کو حرم میں لے جا کر ذبح کرے اور پھر اس کا گوشت کسی اور جگہ لے جا کر صدقہ کر دے تو اس کا کفارہ ادا ہوجائے گا۔ نیز جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ مکہ مکرمہ کے سوا کسی اور جگہ جا کر بھی روزہ رکھ سکتا ہے حالانکہ روزہ بھی شکار کی جزا ہے لیکن ذبح کی صورت میں نہیں ہے تو اسی علت کی بنا پر طعام کا بھی یہی حکم ہوگا۔
Top