Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 96
اُحِلَّ لَكُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَ طَعَامُهٗ مَتَاعًا لَّكُمْ وَ لِلسَّیَّارَةِ١ۚ وَ حُرِّمَ عَلَیْكُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ
اُحِلَّ : حلال کیا گیا لَكُمْ : تمہارے لیے صَيْدُ الْبَحْرِ : دریا کا شکار وَطَعَامُهٗ : اور اس کا کھانا مَتَاعًا : فائدہ لَّكُمْ : تمہارے لیے وَلِلسَّيَّارَةِ : اور مسافروں کے لیے وَحُرِّمَ : اور حرام کیا گیا عَلَيْكُمْ : تم پر صَيْدُ الْبَرِّ : جنگل کا شکار مَا : جب تک دُمْتُمْ : تم ہو حُرُمًا : حالت احرام میں وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ الَّذِيْٓ : وہ جو اِلَيْهِ : اس کی طرف تُحْشَرُوْنَ : تم جمع کیے جاؤگے
تمہارے لئے دریا (کی چیزوں) کا شکار اور ان کو کھانا حلال کردیا گیا ہے (یعنی) تمہارے اور مسافروں کے فائدے کے لئے اور جنگل (کی چیزوں) کا شکار جب تک تم احرام کی حالت میں ہو تم پر حرام ہے۔ اور خدا سے جس کے پاس تم (سب) جمع کئے جاؤ گے ڈرتے رہو۔
سمندر کا شکار قول باری ہے (احل لکم صید البحر و طعامہ ، تمہارے لئے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کردیا گیا) حضرت ابن عباس ، حضرت زید بن ثابت، سعید بن جبیر، سعید بن المسیب، قتادہ ، سدی اور مجاہد کا قول ہے کہ سمندر کے شکار سے مراد وہ شکار ہے جو جال کے ذریعے تازہ پکڑا جائے۔ قول باری (وطعامہ) کے متعلق حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت ابن عباس اور قتادہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد وہ مردہ جانور ہے جسے سمندر باہر پھینک دے۔ حضرت ابن عباس، سعید بن جبیر، سعید بن المسیب، قتادہ اور مجاہد سے یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد نمکین شکار ہے۔ لیکن پہلا قول زیادہ واضح ہے اس لئے کہ یہ دونوں صنف یعنی شکار شدہ اور غیر شکار شدہ جانوروں پر مشتمل ہے ۔ نمکین شکار قول باری (صید البحر) میں داخل ہے۔ اس صورت میں قول باری (وطعامہ) سے اس چیز کا دوبارہ ذکر لازم آئے گا جسے پہلا لفظ (صید البحر) شامل ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ یہ بات مر کر پانی کی سطح پر تیرنے والے جانور کی اباحت پر دلالت کرتی ہے اس لئے کہ آیت کے الفاظ شکار شدہ اور غیر شکار شدہ دونوں قسموں کے جانوروں کو شامل ہیں جب کہ مر کر پانی کی سطح پر تیرنے والا جانور غیر شکار شدہ جانوروں میں شامل ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ سلف نے قول باری (وطعامہ) کی تفسیر میں کہا ہے اس سے مراد وہ جانور ہے جسے سمندر باہر پھینک دے۔ ہمارے نزدیک جس جانور کو سمندر باہر اچھال دے وہ طافی یعنی مر کر پانی کی سطح پر آ جانے والا جانور نہیں ہوتا۔ طافی تو وہ ہوتا ہے جو پانی کے اندر قدرتی موت مرجاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ سلف کا قول ہے کہ (وطعامہ) سے مراد وہ جانور ہے جسے سمندر مردہ حالت میں باہر اچھال دے یہ بات اس امر کی موجب ہے کہ اس کی موت سمندر میں واقع ہوئی اور یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ انہوں نے اس سے طافی مراد لیا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ ضروری نہیں کہ جس جانور کو سمندر مردہ حالت میں باہر پھینک دے وہ طافی ہو یعنی سمندر کے اندر اس کی موت واقع ہوئی ہو کیونکہ ایسا ہوسکتا ہے کہ سمندر کے اندر سردی، گرمی یا کسی اور وجہ سے اس کی موت واقع ہوئی ہو۔ اس صورت میں وہ طافی نہیں کہلائے گا ہم نے طافی پر اس کتاب کے پچھلے ابواب میں سیر حاصل بحث کی ہے۔ حسن سے قول باری (وطعامہ) کی تفسیر میں مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا :” تمہارے اس سمندر کے ماوراء جو کچھ ہے وہ سب سمندر ہے اور اس کا کھانا گندم، حو اور دیگر جبوب یعنی دانے ہیں جو بطور غذا استعمال ہوتے ہیں۔ “ اشعت بن عبدالملک نے حسن سے یہ روایت کی ہے۔ حسن نے اس مقام پر صرف پانی والے سمندروں کو بحر قرار نہیں دیا بلکہ زمین کی پہنائی اور وسعت کو سمندر کہا اس لئے کہ عبر کے لوگ پھیلی ہوئی چیز کو بحر کے نام سے موسوم کرتے تھے۔ اسی مفہوم میں حضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے (وجدنا ہ بحراً ) ہم نے اس گھوڑے کو سمندر پایا) یعنی یہ بہشت کشادہ قدم ہے۔ یہ بات آپ نے اس وقت ارشاد فرمائی تھی۔ جب آپ نے ابو طلحہ کے گھوڑے پر سواری کی تھی۔ حبیب بن الزبیر نے عکرمہ سے قول باری (ظھر الفساد فی البرو البحر، خشکی اور سمندر دونوں میں فساد پھیل گیا) کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ بحر سے مراد امصار یعنی شہری آبادیاں ہیں۔ اس لئے کہ عرب کے لوگ شہروں کو بحر کہتے ہیں۔ سفیان نے ایک واسطے سے عکرمہ سے درج بالا آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ بر سے مراد وہ بیابان ہے جہاں کوئی چیز نہ ہو اور بحر سے مراد دیہات یعنی آبادیاں ہیں حسن سے آیت کی جو تاویل مروی ہے وہ درست نہیں ہے اس لئے کہ قول باری (احل لکم صید البحر) سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس سے مراد پانی والا سمندر ہے۔ اس سے خشکی اور شہری آبادیا مراد نہیں ہیں۔ اس لئے کہ اس پر یہ قول باری (وحرم علیکم صید البر مادمتم حرماً ، البتہ خشکی کا شکار، جب تک تم احرام کی حالت میں ہو، تم پر حرام کیا گیا ہے) عطف کیا گیا ہے۔ قول باری ہے (متاعال لکم وللسیارۃ جہاں تم ٹھہرو وہاں بھی اسے کھا سکتے ہو اور قافلے کے لئے زاد راہ بھی بنا سکتے ہو) حضرت ابن عباس، حسن اور قتادہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا ” مقیم اور مسافر دونوں کے لئے منفعت ہے۔ “ اگر کوئی یہ کہے کہ آیا قول باری (احل لکم صید البحر) دریائوں کے شکار کی اباحت کا مقتضی ہے ؟ تو اس کا جواب اثبات میں دیا جائے گا اس لئے کہ عرب کے لوگ دریا کو بھی بحر کے نام سے موسوم کرتے تھے۔ اس مفہوم میں یہ قول باری ہے (ظھر الفساد فی البرو البحر) ایک قول یہ ہے کہ بحر کے لفظ کا زیادہ تر اطلاق اس سمندر پر ہوتا ہے جس کا پانی کھارا ہوتا ہے۔ مگر جب بحر کے لفظ کا ذکر فی الجملہ آئے تو وہ دریائوں کو بھی شامل ہوتا ہے۔ اس سے مقصود آبی شکار ہے۔ تمام آبی جانوروں کا شکار محرم کے لئے جائز ہے۔ اس بارے میں فقہاء کے مابین ہمیں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔ قول باری (احل لکم صید البحر) سے وہ حضرات استدلال کرتے ہیں جو تمام آبی جانوروں کی اباحت کے قائل ہیں۔ اس بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف رائے ہے۔ آبی جانوروں کی اباحت کے بارے میں اختلاف رائے کا ذکر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ آبی جانوروں میں سے صرف مچھلی حلال ہے۔ سفیان ثوری کا بھی یہی قول ہے۔ ابو اسحاق فزاری نے ان سے یہ قول نقل کیا ہے۔ قاضی ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ سمندر میں پائی جانے والی ہر چیز کے کھانے میں کوئی قباحت نہیں ہے مثلاً مینڈک، آبی سانپ وغیرہ امام مالک کا یہی قول ہے اور سفیان ثوری سے بھی اس طرح کا قول منقول ہے۔ البتہ ثوری نے یہ کہا ہے کہ اسے ذبح کرلیا جائے گا اوزاعی کا قول ہے کہ ہر قسم کا سمندری شکار حلال ہے، انہوں نے یہ بات مجاہد سے نقل کی ہے ۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ سمندر کا مردار کھا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح ابٓی کتے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے یہی حکم اس جانور کا ہے جو آبی گھوڑا کہلاتا ہے۔ البتہ آبی سور اور آبی انسان نہیں کھائے جائیں گے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ ہر وہ جانور جو پانی میں زند گی بسر کرتا ہے اس کا کھانا حلال ہے۔ اسے پکڑ لینا ہی اس کا ذبح ہے۔ آبی سور کھا لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔ جن حضرات نے تمام آبی جانوروں کو مباح قرار دیا ہے انہوں نے قول باری (احل لکم صید البحر) سے استدلال کیا ہے۔ اس میں سارے آبی جانور آ گئے ہیں کیونکہ اس میں کوئی کسی قسم کی تخصیص نہیں کی گئی ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ آیت میں ان حضرات کے قول پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے اس لئے کہ قول باری (احل لکم صید البحر) محرم کے لئے ان جانوروں کے شکار کی اباحت پر محمول ہے جو سمندر میں پائے جاتے ہیں۔ ان جانوروں کو کھا لینے پر آیت میں کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس پر قول باری (وحرم علیکم صید البر مادمتم حرماً ) کو عطف کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے کلام کا انداز بیان محرم کے لئے خشکی اور سمندری شکار کے حکم کے فرق کو ظاہر کرتا ہے نیز صید کا لفظ اسم مصدر ہے۔ یہ مصدر اصطیاد (شکار کرنا) کے لئے اسم ہے۔ اگرچہ یہ بعض شکار پر بھی واقع ہوتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ آپ کا یہ فقرہ درست ہے ” صدت صیدا “ (میں نے شکار کیا) اگر لفظ صید مصدر ہوگا تو یہ اصطیاد مصدر کے لئے اسم ہوگا جو حقیقت میں شکاری کا فعل ہوتا ہے۔ اگر اس لفظ سے یہ معنی مراد لئے جائیں تو پھر اس میں اکل کی اباحت پر کوئی دلالت نہیں ہو گ اگرچہ بعض مواقع پر پکڑے ہوئے شکار کی اس لفظ سے تعبیر کی جاتی ہے۔ لیکن یہ مجاز کے طور پر ہوتا ہے کیونکہ اس صورت میں مفعول کو فعل کا نام دے دیا جاتا ہے اور کسی چیز کو اس کے غیر کے نام سے پکارنا استعارہ ہوتا ہے جو مجاز کی ایک صورت ہوتی ہے۔ جن لوگوں نے تمام آبی جانوروں کو مباح کردیا ہے ان کے قول کے بطلان پر حضور ﷺ کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے۔ (احلت لنا المیتان ودمان السمک والجراد، ہمارے لئے دو مردار اور دو خون حلال کردیئے گئے ہیں ایک مچھلی اور دوسری ٹڈی) حضور ﷺ نے تمام مرداروں میں سے صریہی دو چیزیں مخصوص کردی ہیں اور اس میں یہ دلیل ہے کہ قول باری (حرمت علیکم المیتۃ تم پر مردار حرام کردیا گیا) کی تحریم کے تحت آنے والے تمام مرداروں میں سے صرف یہی دو چیزیں مخصوص کردی گئی ہیں، کوئی تیسری چیز نہیں۔ اس لئے کہ ان دونوں چیزوں کے سوا بقیہ تمام مردار اس قول باری کی تحریم کے عموم میں داخل ہیں۔ نیز قول باری ہے (الا ان تکون میتۃ الایہ کہ وہ مردار ہو) اس میں خشکی اور آبی تمام مرداروں کی تحریم کے لئے عموم ہے۔ ہمارے اصحاب میں سے بعض نے یہ کہ ا ہے کہ حضور ﷺ نے مرداروں میں سے حلال کو دو کی تعداد میں منحصر فرما دیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان دو کے ماسوا باقی تمام مردار حرام ہیں۔ نیز جب حضور ﷺ نے ان دونوں کا ذکر فرما دیا اور اس کے ذریعے ان دونوں مرداروں اور باقی ماندہ مرداروں میں فرق کردیا تو آپ کا یہ فرق کردیتا اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان دونوں چیزوں کی حالت دوسرے مرداروں کی حالت سے مختلف ہے اس پر قول باری (ولحکم الخنزیر اور سور کا گوشت ) بھی دلالت کرتا ہے کیونکہ اس تحریم میں جس طرح خشکی کے سور کی تحریم کے لئے عموم ہے اسی طرح آبی خنزیر کے لئے بھی تحریم میں عموم ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آبی سور کو آبی گدھے کے نام سے موسوم کرتے ہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر کسی انسان نے اس کا نام گندھا رکھ دیا تو اس کی وجہ سے خنزیر کا نام اس سے سلب نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ لغت میں اس کے لئے یہی نام مہود و متعین ہے اس لئے تحریم کا عموم اسے شامل ہوگا۔ مینڈک سے دوا تیار کرنا حضور ﷺ نے منع فرمایا ابن ابی ذئب کی روایت بھی اس پر دلالت کرتی ہے جو انہوں نے سعید بن خالد سے، انہوں نے سعید بن المسیب سے اور انہوں نے عبدالرحمٰن بن عثمان سے نقل کی ہے کہ حضور ﷺ کے پاس ایک طبیب نے کسی دوائی کا ذکر کیا اور یہ بھی کہا کہ یہ دوائی مینڈک سے تیار ہوتی ہے۔ یہ سن کر حضور ﷺ نے اسے مینڈک ہلاک کرنے سے منع فرما دیا۔ اب مینڈک آبی جانور ہے اگر اس کا کھانا حلال ہوتا اور اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہوتا تو حضور ﷺ اسے ہلاک کرنے سے کبھی منع نہ فرماتے ۔ جب اس حدیث سے مینڈک کی تحریم ثابت ہوگئی تو مچھلی کے سوا تمام آبی حیوانات کا حکم بھی یہی ہوگا ۔ اس لئے کہ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ کسی نے مینڈک اور باقی ماندہ آبی جانوروں کے درمیان کوئی فرق کیا ہے۔ جن حضرات نے اس کی اباحت کا قول نقل کیا ہے انہوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جو مالک بن انس نے صفوان بن سلیم سے، انہوں نے سعید بن سلمہ الزرقی سے، انہوں نے مغیرہ بن ابی بردہ سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ حضو ر ﷺ نے سمندر کے متعلق ارشاد فرمایا (ھو الطھورماء ہ والحل میتتہ اس کا پانی پاک اور اس کا مردار حلال ہے) اس روایت کا ایک راوی سعید بن سلمہ مجہول ہے اس لئے اس کی روایت کی بنا پر کوئی قطعی بات نہیں کہی جاسکتی۔ سلسلہ سند میں بھی اس کی مخالفت ہوئی ہے۔ یحیی بن سعید انصاری نے مغیرہ بن عبداللہ سے روایت کی ہے یہ حضرت ابوبردہ کے بیٹے ہیں انہوں نے اپنے والد سے اور انہوںں نے حضور ﷺ سے اس کی روایت کی ہے۔ اسے یحییٰ بن ایوب نے جعفر بن ربیعہ اور عمرو بن الحارث دونوں سے روایت کی ہے، انہوں نے بکر بن سوادہ سے انہوں نے ابومعاویہ العلوی سے، انہوں نے مسلم بن محنشی المدلجی سے، انہوں نے الفراسی سے کہ حضور ﷺ نے ان سے سمندر کے متعلق فرمایا تھا کہ (ھوالطھور ماء ہ والحل میتتہ) ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں عبداللہ بن احمد بن حنبل اور محمد بن عبدوس نے ، ان دونوں کو امام احمد بن حنبل نے، انہیں ابوالقاسم بن زناد نے ، انہیں اسحاق بن حازم نے ابن مقسم یعنی عبیداللہ نے حضرت جابر بن عبداللہ سے کہ حضور ﷺ سے سمندر کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا (ھوالطھور ماء کا الحل میتتہ) ان روایات سے کوئی ایسا شخص استدلال نہیں کرسکتا جسے علم حدیث کی معرفت حاصل ہو اگر یہ روایات ثابت بھی ہوجائیں تو انہیں (احلت لنا میتتان) والی روایت پر محمول کیا جائے گا۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ حضور ﷺ نے اس ارشاد کے ذریعے صرف آبی حیوانات کی تخصیص نہیں کی بلکہ ان کا ذکر کیا جو پانی میں مرجاتے ہیں۔ اس ارشاد کا ظاہر آبی اور خشکی تمام جانوروں کے لئے عام ہے جب پانی میں ان کی موت واقع ہوجائے اور یہ بات تو واضح ہے کہ یہ عموم آپ کی مراد نہیں ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آپ نے صرف مچھلی مراد لی ہے۔ اس کے سوا اور کوئی جانور مراد نہیں ہے کیونکہ یہ بات تو معلوم ہوچکی ہے۔ آپ نے اپنے ارشاد کے عموم کا ارادہ نہیں کیا ۔ اس لئے اس کے بارے میں عموم کا اعتقاد درست نہیں ہے۔ اباحت کے قائلین نے حضرت جابر کی اس روایت سے بھی استدلال کیا ہے کہ حبش خبط “ میں شامل مجاہدین کے لئے سمندر نے ایک جانور اچھال کر باہر پھینک دیا اس جانور کو عنبر کہتے ہیں۔ مجاہدین نے اس کا گوشت کھالیا پھر انہوں نے حضور ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا (ھل معکم منہ شیء تطعمونیہ، کیا تمہارے پاس کچھ بچ گیا ہے۔ جو تم مجھے کھانے کے لئے دے سکو۔ ) لیکن اس روایت میں ان حضرات کے قول کی تائید میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس لئے کہ ایک اور جماعت نے یہی حدیث روایت کی ہے اور انہوں نے اس میں بیان کیا ہے کہ سمندر نے ان کے لئے ایک مچھلی اچھال دی تھی جس کا نام عنبر تھا، ان حضرات نے یہ بتایا کہ سمندر کا وہ پھینکا ہو اور اصل حوت تھا جسے مچھلی کہتے ہیں مچھلی کی حلت میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور اس کے ماسوا کی حلت پر کوئی دلالت موجود نہیں۔ محرم کا غیر محرم کے کئے ہوئے شکار کا گوشت کھا لینا قول باری ہے (وحرم علیکم صید البر ما دمتم حرما تم پر (جب تک تم احرام کی حالت میں ہو ) خشکی کا شکار حرام کیا گیا ہے) حضرت علی اور حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ان دونوں حضرات نے لحال یعنی غیر محرم کے پکڑے ہوئے شکار کا گوشت محرم کے لئے مکروہ سمجھا ہے۔ البتہ حضرت علی کی روایت کی اسناد قوی نہیں ہے۔ علی بن زید نے اسکی روایت کی ہے۔ بعض طراق میں اسے حضور ﷺ سے مرفوعاً اور بعض دوسرے طرق میں اسے موقوفاً روایت کیا گیا ہے ۔ حضرت عثمان، حضرت طلحہ بن عبید اللہ، حضرت ابوقتادہ اور حضرت جابر وغیرھم سے اس کی اباحت منقول ہے۔ عبداللہ بن ابی قتاہ اور عطاء بن یسار نے حضرت ابوقتادہ سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں ” میں نے ایک جنگلی گدھا شکار کرلیا اور حضور ﷺ سے عرض کیا کہ میں نے اس طرح شکار کیا تھا اور اس کا کچھ حصہ میرے پاس اب بھی بچا ہوا ہے، یہ سن کر آپ نے اسے لوگوں سے کھا لینے کے لئے کہا یہ لوگ احرام کی حالت میں تھے۔ ابو الزبیر نے حضرت جابر سے روایت کی ہے کہ ابو قتادہ نے ایک جنگلی گدھا ذبح کیا اور ہم نے اس کا گوشت کھالیا ابوقتادہ حالت احرام میں نہیں تھے لیکن ہم محرم تھے۔ ہمارے ساتھ حضور ﷺ بھی تھے۔ المطلب بن عبداللہ بن حنطب نے حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ﷺ بھی تھے۔ المطلب بن عبداللہ بن حنطب نے حضرت جابرب بن عبد اللہ سے روایت کی ہے کہ حضو ر ﷺ نے فرمایا (لحم صید البر حلال لکم و انتم حرم مالم تصیدوہ اویصطاد لکم، خشکی کے شکار کا گوشت تمہارے لئے احرام کی حالت میں بھی حلال ہے۔ بشرطیکہ وہ شکار تم نے نہ مارا ہو اور نہ ہی تمہارے لئے اسے پکڑا گیا ہو) اس کی اباحت کے سلسلے میں اور بھی بہت سی روایات ہیں ، میں نے طوالت کے خوف سے انہیں بیان کرنا پسند نہیں کیا نیز اس وجہ سے بھی کہ اس مسئلے میں فقہاء امصار کے مابین کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔ جن حضرات نے ایسے شکار کی ممانعت کی ہے۔ انہوں نے قول باری (وحرم علیکم صید البر مادمتم حرماً ) سے استدلال کیا ہے۔ اس کا عموم شکار کرنے کے فعل اور نفس شکار دونوں کو شامل ہے اس لئے کہ صید کا اسم ان دونوں چیزوں پر واقع ہوتا ہے، جن حضرات نے اس کی اباحت کی ہے۔ انہوں نے قو ل باری (وحرم علیکم صید البر) سے استدلال کیا ہے۔ یہ آیت شکار کرنے کے فعل کو نیز نفس شکار دونوں کی تحریم کو شامل ہے۔ جانور اس وقت تک شکار کہلاتا ہے جب تک وہ زندہ رہے لیکن ذبح ہوجانے کے بعد اس کے گوشت کو اس نام سے موسوم نہیں کیا جاتا۔ اگر موسوم کر بھی لیا جائے تو صرف اس وجہ سے کہ یہ کبھی پہلے شکار تھا۔ گوشت پر بہرحال شکار کا لفظ حقیقتہ واقع نہیں ہوتا۔ آیت کا لفظ صید گوشت کو شامل نہیں ہے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ محرم کو ایسے گوشت میں تصرف کرنے سے منع نہیں کی اگیا وہ اس کی خرید و فروخت کرسکتا ہے نیز اسے تلف بھی کرسکتا ہے اور دوسرے قسم کے تمام تصرفات اس کے لئے جائز ہیں۔ تحریم کے قائلین کے نزدیک وہ کھانے کے سوا اس میں ہر تصرف کرسکتا ہے۔ اگر آیت کا عموم گوشت کو بھی شامل ہوتا تو محرم کے لئے اکل کے سوا اس میں مذکورہ بالا تصرفات درست نہ ہوتے جس طرح زندگی کے اندر گوشت میں تصرف جائز نہیں ہوتا اور اگر محرم اس گوشت کو تلف کردیتا تو اس پر اس کا تاوان عائد ہوجاتا جس طر زندہ شکار کے اتلاف کی صورت میں اس پر تاوان واجب ہوجاتا ہے اس لئے کہ قول باری (وحرم علیکم صید البرما دمتم حرماً ) احرام کی حالت میں شکار سے تعلق رکھنے والے مہارے تمام افعال کی تحریم کو شامل ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ شکار کے انڈے محرم پر حرام ہوتے ہیں اگرچہ یہ انڈے نہ خود اپنی حفاظت آپ کرسکتے ہیں جس طرح جنگلی جانور کرتے ہیں اور نہ ہی ان پر صید کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے ، جس طرح انڈے حرام ہوتے ہیں اسی طرح محرم کے لئے شکار کا گوشت بھی حرام ہوگا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ بات اس طرح نہیں ہے۔ اس لئے کہ محرم کو شکار کا گوشت تلف کردینے کی ممانعت نہیں ہے اور اگر وہ گوشت تلف کر دے تو اس کا تاوان نہیں بھرے گا لیکن اسے شکار کے انڈے اور چوزے سے تلف کرنے کی ممانعت ہے اور تلف کرنے پر اسے تاوان بھی بھرنا پڑتا ہے۔ نیز انڈے اور چوزے کسی مرحلے پر ایسے شکار بن جاتے جو اپنی حفاظت آپ کرسکتے ہیں۔ اس لئے ان دونوں چیزوں پر شکار کا ہی حکم عائد کردیا گیا ہے لیکن شکار کا گوشت کسی حالت میں بھی شکار نہیں بن سکتا اس لئے اس کی حیثیت دوسرے حیوانات کے گوشت کی طرح ہوگئی۔ اس لئے کہ وہ اس حالت میں نہ تو شکار بن سکتا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی شکار پیدا ہوسکتا ہے یہاں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہم نے آیت کے عموم کی بنا پر انڈوں اور چوزوں کی تحریم کا حکم نہیں لگایا ہے بلکہ تمام کے اتفاق کی بنا پر یہ حکم لگایا ہے۔ صعب بن جثامہ کی روایت میں اختلاف ہے۔ اس روایت میں بیان ہوا ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ کو ابواء کے مقام پر یا کسی اور جگہ جنگلی گدھے کا گوشت بطور ہدیہ پیش کیا آپ اس وقت احرام کی حالت میں تھے۔ آپ نے یہ ہدیہ واپس کردیا اور جب دیکھا کہ ان کے چہرے پر اس کا ردعمل ظاہر ہو رہا ہے تو آپ نے ان سے فرمایا (لیس بنا ردعلیک ولکنا حرم، تمہارا ہدیہ واپس کرنے کی ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم احرام کی حالت میں ہیں۔ ) امام مالک نے اس کے خلاف روایت کی ہے، انہوں نے زہری سے، انہوں نے عبداللہ بن سے، انہوں نے ابن عباس سے اور انہوں نے صعب بن جثامہ سے کہ انہوں نے حضور ﷺ کو جنگلی گدھے کا تحفہ پیش کیا تھا جب آپ مقام ابواء یا ودان میں تھے۔ آپ نے یہ تحفہ واپس کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ہم یہ تحفہ صرف اس لئے واپس کر رہے ہیں کہ ہم حالت احرام میں ہیں۔ ابن ادریس کہتے ہیں کہ امام مالک سے کہا گیا کہ سفیان تو یہ کہتے ہیں کہ آپ کو جنگلی گدھے کی ٹانگ تحفے کے طور پر پیش کی گئی تھی، امام مالک نے یہ سن کر فرمایا کہ ” سفیان کو کیا پتہ ہے وہ تو ابھی بچہ ہے، وہ تو ابھی بچہ ہے۔ “ یہی روایت ابن جریج نے زہری سے ایک اور سند کے ساتھ نقل کی ہے اس کے الفاظ امام مالک کی روایت کی طرح ہیں۔ اس میں یہ مذکور ہے کہ انہوں نے جنگلی گدھے کا ہدیہ پیش کیا تھا۔ اعمش نے حبیب سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے انہوں نے ابن عباس سے روای کی ہے کہ صعب بن جثامہ نے حضور ﷺ کو جنگلی گدھے کا ہدیہ پیش کیا تھا جبکہ آپ احرام کی حالت میں تھے۔ آپ نے اسے واپس کردیا تھا اور فرمایا تھا ” اگر ہم احرام کی حالت میں نہ ہوتے تو تمہارا یہ ہدیہ ضرور قبول کرلیتے۔ “ ان روایات سے سیان کی روایت کا ضعف اور بود اپن واضح ہوجاتا ہے ۔ ان میں درست روایت وہ ہے جو امام مالک نے نقل کی ہے۔ اس لئے کہ ان تمام راویوں کا اس پر اتفاق ہے۔ اس بارے میں ایک اور پہلو سے بھی روایت ہوئی ہے۔ یہ روایت ابومعاویہ نے ابن جریج سے، انہوں نے جابر بن زید ابو الشعتاء سے اور انہوں نے اپنے والد سے کی ہے وہ کہتے ہیں۔ کہ حضور ﷺ سے اس محرم کے متعلق پوچھا گیا تھا جس کے سامنے شکار کا گوشت پیش کیا جائے آیا وہ یہ گوشت کھا سکتا ہے تو آپ نے فرمایا تھا (احسبوا لہ ، اس کے لئے حساب کرلو۔ ) ابو معاویہ نے آپ کے ارشاد کی تو ضیح کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی مراد یہ تھی کہ اگر احرام باندھنے سے پہلے یہ شکار مارا گیا تھا تو وہ کھا سکتا ہے ورنہ نہیں اس میں یہ احتمال ہے کہ آپ کی اس سے مراد یہ تھی اگر یہ شکار اس محرم کی خاطر کیا گیا ہو یا اس نے شکار کرنے کے لئے کہا ہو یا اس سلسلے میں اعانت کی ہو یا نشاندہی کی ہو یا اس قسم کی کوئی ممنوع حرکت کی ہو تو پھر وہ اس کا گوشت نہیں کھا سکتا۔
Top