Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 97
جَعَلَ اللّٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ وَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ الْهَدْیَ وَ الْقَلَآئِدَ١ؕ ذٰلِكَ لِتَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ اَنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
جَعَلَ : بنایا اللّٰهُ : اللہ الْكَعْبَةَ : کعبہ الْبَيْتَ الْحَرَامَ : احترام ولا گھر قِيٰمًا : قیام کا باعث لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ : اور حرمت والے مہینے وَالْهَدْيَ : اور قربانی وَالْقَلَآئِدَ : اور پٹے پڑے ہوئے جانور ذٰلِكَ : یہ لِتَعْلَمُوْٓا : تاکہ تم جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ يَعْلَمُ : اسے معلوم ہے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ بِكُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
خدا نے عزت کے گھر (یعنی) کعبے کے لوگوں کے لئے موجب امن مقرر فرمایا ہے۔ اور عزت کے مہینوں کو اور قربانی کو اور ان جانوروں کو جن کے گلے میں پٹے بندھے ہوں۔ یہ اس لئے کہ تم جان لو کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے خدا سب کو جانتا ہے اور یہ کہ خدا کو ہر چیز کا علم ہے۔
قول باری ہے (جعل اللہ الکعبۃ المبیت الحرام قیاماً للناس۔ ہم نے مکان محترم کعبہ کو لوگوں کے لئے (اجتماعی زندگی کے) قیام کا ذریعہ بنایا) تا آخرت آیت ایک قول ہے کہ اللہ کی مراد اس سے یہ ہے کہ اس نے کعبہ کو لوگوں کی معیشت کا سہارا اور ستون بنادیا۔ جس طرح یہ محاورہ ہے ۔” ھو قوام الامرو ملا کہ “ (وہ اس معاملہ کا سہارا اور بنیاد ہے) یعنی اس کی ذات کے سہارے یہ معامل ہٹھیک ٹھاک رہتا ہے۔ کبعہ بھی لوگوں کے دین اور دنیا دونوں کی درست رکھنے کا ذریعہ ہے ۔ سعید بن جبیر کا یہ قول منقول ہے کہ یہ لوگوں کے لئے سہارا اور ان کی بھلائی کا ذریعہ ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ لوگوں کے قیام کا ذریعہ ہے یعنی اس کے ذریعے لوگوں کے جسم قائم رہتے ہیں۔ اس لئے کہ کعبہ کی وجہ سے وہ امن و امان میں رہتے اور ہلاکت سے محفوظ ہوتے ہیں اور پوری دل جمعی کے ساتھ زندگی کے گذر ان کے ذرائع تلاش کرتے ہیں۔ کعبہ ان کے دین کے لئے بھی قوام اور درست رکھنے کا ذریعہ ہے اس لئے کہ مناسک حج میں اعمال قبیحہ سے دور رکھنے اور نیکی کی طرف ہلانے کا سامان موجود ہوتا ہے۔ نیز حرم اور حرمت کے مہینوں میں امن و امان ہوتا ہے نیز حج اور مناسک کی ادائیگی کے مواقع پر لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے۔ دنیا کے کونے کونے سے لوگ جمع ہوتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کی معیشت بھی درست ہوجاتی ہے اور معاشی حالات پر بھی اچھا اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح ہدی اور قلائد بھی امن و امان کا ذریعہ ہیں۔ جب انسان قربانی کے جانور کے گلے میں پٹہ ڈال کر سفر کرتا ہے تو کوئی شخص اس سے کسی قسم کا کوئی تعرض نہیں کرتا۔ ایک قول یہ ہے کہ جب کوئی شخص احرام باندھنے کا ارادہ کرتا تو وہ حرم کے درختوں کی چھال اپنے گلے میں ڈال لیتا اور اس طرح محفوظ ہوجاتا۔ حسن نے قلائد کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے مراد اونٹوں اور گایوں کے گلے میں جوتے اور موزے وغیرہ لٹکانا ہے۔ یہ کام دین میں عبادت گذاری کو درست رکھنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ قربانی کے اونٹوں کو پٹے پہنانا عبادت ہے اسی طرح قربانی کے جانور بانک کرلے جانا بھی تقرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔ کعبہ حرمت والے گھر کا نام ہے۔ مجاہد اور عکرمہ کا قول ہے کہ کعبہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ مربع شکل کا ہے۔ اہل لغت کا قول ہے کہ اضافت کی صورت میں ” کعبۃ البیت “ اس لئے کہا گیا کہ بیت اللہ کی چوکور کرسی اسے اوپر کی طرف مربع شکل میں بلند کرتی ہے۔ یہ لفظ کعوبۃ سے نکلا ہے جس کے معنی ابھار کے ہیں۔ تربیع یعنی چوکور بنانے کو کعبہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ مربع کے زاویے اور گوشے ابھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس سے یہ محاورہ ہے۔ ” کعب ثدی الحباریہ “ (لڑکی کے پستان میں ابھار پیدا گیا) اسی سے ” کعب الانسان “ بھی ہے یعنی انسان کا ٹخنہ ، اس لئے کہ اس میں ابھار ہوتا ہے ۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ وضو میں پائوں دھونے کی انتہا جس حصے پر ہوتی ہے وہ یہی ٹخنے ہیں جو پنڈلی کی جڑ میں دونوں طرف ابھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بیت کو حرم یعنی محترم کے نام سے موسوم کیا اس لئے کہ اس سے سارا حرم مراد ہے یہاں شکار پکڑنا، گھاس وغیرہ اکھاڑنا، یہاں آ کر پناہ لینے والے کو قتل کرنا سب حرام ہے۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (ھدیا بانع الکعبۃ) اس سے مراد حرم ہے۔ قول باری ہے (والشھر الحرام اور ماہ حرام کو بھی (اس کام میں معاون بنایا ) حسن سے مروی ہے کہ اس سے مراد حرمت والے مہینے ہیں۔ یہاں ان مہینوں کو واحد کی شک ل میں بیان کیا گیا ہے۔ اس لئے جنس ماہ حرام مراد ہے۔ یہ چار مہینے ہیں۔ ان میں تین لگاتار ہیں یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم ایک مہینہ تنہا ہے اور وہ رجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ اس نے ماہ حرام کو لوگں کے قیام کا ذریعہ بنادیا ہے اس لئے کہ لوگوں کو ان مہینوں کے دوران امن و امان حاصل ہوجاتا تھا اور لوگ اطمینان کے ساتھ اپنے گذران کے ذرائع اور معاش کے وسائل کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ آ جاسکتے تھے۔ اس طرح ان مہینوں میں انہیں سہارا حاصل ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ نے مناسک حج ، حرم، حرمت کے مہینوں ، ہدی اور قلائد کو لوگوں کے قوام اور سہارے کے طور پر ذکر کیا ہے، اس کا سب کو علم تھا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے سے حج کی ابتداء کے وقت سے لے کر حضور ﷺ کے زمانے تک بلکہ رہتی دنیا تک لوگ اس کا مشاہدہ کرتے چلے آ رہے اور کرتے رہیں گے۔ ایمان کے بعد لوگوں کے معاش و معاد کی صلاح و فلاح کا جس قدر حج کے ساتھ تعلق ہے آپ کو دین و دنیا کی کسی اور چیز کے ساتھ یہ تعلق نہیں آئے گا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ حج کے اجتماعات میں آنے والے حاجیوں کے منافع اور فوائد کس قدر زیادہ ہیں جو دنیا کے تمام ملکوں اور شہروں سے آ کر ان اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں اور حج کے بعد اپنے گھروں کو واپسی تک مکہ مکرمہ اور منیٰ کی سر زمین سے گذرتے اور آتے جاتے رہتے ہیں۔ اسی دوران لوگوں کو ان سے منتفع ہونے اور اپنے معاش اور تجارت کو فروغ دینے کے کثیر مواقع ہاتھ آ جاتے ہیں پھر حج کے اندر دینی منافع ان کے علاوہ ہیں۔ حج کے سفر کی تیاری گناہوں سے توبہ، زاد راہ کے طور پر پاکیز ترین نیز حلال ترین مال کا استعمال، سفر کی مشقتوں کی برداشت بیت اللہ تک کے لئے خطرات کا مقابلہ چوروں اور ٹھگوں کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصانات کی فراموشی پھر احرام باندھ کر ہر طرف سے فراغت حاصل کر کے اللہ کے لئے یکسو ہوجانا۔ نیز قیامت کے دن اپنی قبروں سے نکل کر عرصہ محشر میں پہنچنے والوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرلینا، تلبیہ کے ذریعے کثرت سے اللہ کو یاد کرنا، اس کے سامنے گڑ گڑانا، بیت اللہ کے پاس اخلاص نیت کا اظہار کرنا، نیز اس یقین کے ساتھ بیت اللہ کے پردوں سے لپٹ جانا جس طرح ڈوبتا ہوا انسان بچائو کے ذریعے سے لپٹ جاتا ہے کہ اللہ کی ذات کے سوا کوئی اور جائے پناہ نہیں۔ نیز یہ کہ اس کی ذات کا سہارا لئے بغیر نجات کا کوئی اور راستہ نہیں۔ پھر اللہ کی رسی یعنی شریعت پر ثابت قدمی کا اظہار … یقینا جو شخص اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لے گا وہ نجات پا جائے گا اور جو چھوڑ دے گا وہ ہلاک ہوجائے گا پھر میدان عرفات میں پہنچنا اور دنیا کی ہر چیز سے کنارہ کش ہو کر، مال و دولت اور اہل و عیال کو فراموش کر کے اہل محشر کی طرح قدموں کے بل کھڑے ہو کر اللہ سے گڑ گڑا کر دعائیں مانگنا، اس کی رحمت اور اس کے فضل سے آس لگانا۔ یہ سب ایسے امور ہیں جن سے حاصل ہونے والے بیشمار دینی منافع و فوائد سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا۔ مناسک حج کی ادائیگی کے دوران اللہ کے ذکر کی کثرت، اس کے سامنے عجز و نیاز مندی نیز اطاعت و فرمانبرداری کے بار بار اظہار پر غور کیجیے، پھر یہ بھی دیکھیے کہ نماز، روزہ، زکوۃ اور صدقات و خیرات کی صورت میں نیکیوں کی جتنی شکلیں ہیں وہ سب کی سب مناسک حج کے اندر موجود ہیں۔ علاوہ ازیں بیت اللہ کے طواف نیز ذکر جہری اور ذکر سری یا ذکر لسانی اور ذکر قلب سے تقویت الٰہی کے جو مواقع ہاتھ آتے ہیں انہیں بھی دھیان میں رکھیے تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں کے ان تمام سے ایک انسان کو بیشمار دینی اور دنیوی منافع و فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اگر ہم ان امور پر تفصیل سے روشنی ڈالتے تو یقینا گفتگو بڑی طویل ہوجاتی، اس لئے اس پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ قول باری ہے (ذلک لتعلموا ان اللہ یعلم ما فی السموات وما فی الارض تاکہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کے سب حالات سے باخبر ہے) اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ حج کی مشروعیت سے حاصل ہونے والے دنیوی و اخروی فوائد و منافع سے اللہ باخبر تھا۔ چنانچہ اس نے اس کا ایسا لاجواب نظام قائم کردیا جس میں پہلی امت سے لے کر آخری امت تک کے لئے قیامت تک انسانوں کی صلاح و فلاح کی تمام صورتیں سمٹ کر آ گئیں۔ اگر اللہ تعالیٰ عالم الغیب نہ ہوتا اور اسے تمام اشیاء کے وجود میں آنے سے پہلے ان کی خبر نہ ہوتی تو ان امور کے بارے میں اس کی تدبیر و تصرف کے وہ نتائج برآمد نہ ہوتے جو بندوں کے دین و دنیا کی صلاح و فلاح کی صورت میں برآمد ہوئے ہیں۔ اس لئے کہ جس ذات کو ایک چیز کے وجود میں آنے سے پہلے اس کا علم نہ ہو اس سے اس قدر محکم اور پختہ انداز میں ایک اچھوتے نظام و تربیت کے ساتھ فعل کا صدور نہیں ہوسکتا جس کا فائدہ پوری امت کے دین و دنیا دونوں پر محیط نظر آتا۔
Top