Ahkam-ul-Quran - Al-An'aam : 145
قُلْ لَّاۤ اَجِدُ فِیْ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰى طَاعِمٍ یَّطْعَمُهٗۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّكُوْنَ مَیْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ١ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
قُلْ : فرما دیجئے لَّآ اَجِدُ : میں نہیں پاتا فِيْ : میں مَآ اُوْحِيَ : جو وحی کی گئی اِلَيَّ : میری طرف مُحَرَّمًا : حرام عَلٰي : پر طَاعِمٍ : کوئی کھانے والا يَّطْعَمُهٗٓ : اس کو کھائے اِلَّآ : مگر اَنْ يَّكُوْنَ : یہ کہ ہو مَيْتَةً : مردار اَوْ دَمًا : یا خون مَّسْفُوْحًا : بہتا ہوا اَوْ لَحْمَ : یا گوشت خِنْزِيْرٍ : سور فَاِنَّهٗ : پس وہ رِجْسٌ : ناپاک اَوْ فِسْقًا : یا گناہ کی چیز اُهِلَّ : پکارا گیا لِغَيْرِ اللّٰهِ : غیر اللہ کا نام بِهٖ : اس پر فَمَنِ : پس جو اضْطُرَّ : لاچار ہوجائے غَيْرَ بَاغٍ : نہ نافرمانی کرنیوالا وَّلَا عَادٍ : اور نہ سرکش فَاِنَّ : تو بیشک رَبَّكَ : تیرا رب غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
کہو کہ جو احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں میں ان میں کوئی چیز جسے کھانے والا کھائے حرام نہیں پاتا۔ بجز اس کے کہ وہ مرا ہوا جانور ہو یا بہتا لہو یا سور کا گوشت کہ یہ سب ناپاک ہیں یا گناہ کی کوئی چیز ہو کہ اس پر خدا کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہے۔ (اور) اگر کوئی مجبور ہوجائے لیکن نہ تو نافرمانی کرے اور نہ حد سے باہر نکل جائے تو تمہارا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے۔
حلال اور حرام جانوروں کی تفصیل قول باری ہے ( قل لا اجد فیما او حی الی محرما علی طاعم بصعمہ اے محمد ﷺ ! انسے کہو کہ جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو) تا آخر آیت ۔ طائوس سے مروی ہے ک اہل جاہلیت یہت سی چیزوں کو حلال سمجھتے تھے اور بہت سی اشیاء کو حرام۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ( قل لا اجد فیما اوحی الی محرما) یعنی ان چیزوں میں سے جنہیں تم حلال سمجھتے تھے ( الا ان تکون میتتاً او دما مسفوحا او لحم خنزیر ۔ الا یہ کہ وہ مردار ہوں یا بہایا ہوا خون ہو یا سور کا گوشت ہو) تا آخر آیت ۔ مخاطبت کا سیاق اس مفہوم پر دلالت کرتا ہے جو طائوس سے مروی ہے۔ وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ان مویشیوں کا ذکر فرمایا جنہیں یہ مشرکین حرام قرار دیتے تھے پھر اللہ کے حرام کردہ جانوروں کی تحریم پر ان کی مذمت کی اس لیے لہجہ تندو تیز اختیار کیا پھر ان کی جہالت اور لا علمی کو واضح کردیا اس لیے کہ انہوں نے علم کے بغیر محض جہالت کی بنیاد پر ان مویشیوں کی تحریم کا رویہ اپنایا تھا۔ ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں تھی۔ اس کے بعد اس قول کو عطف کیا۔ ( قل لا اجذ فیما اوحی الیٰ محرما) یعنی ان جانوروں اور اشیاء میں سے جنہیں تم حرام قرار دیتے ہو سوائے ان کے جن کا آگے ذکر آ رہا ہے۔ جب آیت کی ترتیب ہماری بیان کردہ صورت کے مطابق ہے تو اب اس سے ان چیزوں کی اباحت پر استدلال درست نہیں ہوگا جن کا ذکر آیت میں نہیں ہوا۔ اگر یہ کہا جائے کہ سورة مائدہ کی ابتداء میں چند جانوروں کی تحریم کا ذکر ہے مثلاً دم گھٹ کر مرنے والا، چوٹ کھا کر مرنے والا یا اوپر سے نیچے لڑھک کر مرنے والا جانور وغیرہ۔ حالانکہ یہ تمام جانور آیت سے خارج ہیں۔ اس اعتراض کے دو جواب ہیں۔ ایک تو یہ کہ دم گھٹ کر مرنے والا جانور اور اس کے ساتھ آیت میں مذکورہ تمام جانور مردار ہیں داخل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے قول ( حرمت علیکم المیتۃ تم پر مردار حرام کردیا گیا) میں صرف مردار کی تحریم کا ذکر کیا پھر اس کیی صورتیں بیان فرما دیں اور ان اسباب کا ذکر کردیا جس کی بناء پر ایک جانور مردار کہلاتا ہے اس لیے میتہ کا لفظ دم گھٹ کر مرجانے والے جانور اور اسی طرح کے دوسرے تمام جانوروں کو شامل ہے جن کا ذکر سورة مائدہ کی آیت میں ہوا ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ سورة انعام مکی سورت ہے اس لیے ممکن ہے کہ اس وقت تک آیت زیر بحث میں حرام شدہ جانوروں اور اشیاء کے سوا اور کوئی جانور یا شے حرام نہ قرار دی گئی ہو۔ سورة مائدہ مدنی سورت ہے بلکہ نازل ہونے والی آخری سورت ہے۔ اس آیت میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ حرف او جب نفی پر داخل ہوتا ہے تو اس کے مدخول میں سے ہر ایک چیز علیحدہ اور بالذات ثابت ہوجاتی ہے۔ نیز یہ کہ حرف او تخییر کا مقتضی نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ قول باری ( الا ان یکون میتۃ او دما مسفوحا او لحم خنزیر) مذکورہ چیزوں میں سے ہر ایک کی علیحدہ اور بالذات تحریم کو واجب کردیا ہے۔ سلف میں سے بہت سے حضرات نے آیت زیر بحث میں مذکورہ اشیاء کے ماسوا دیگر اشیاء کی اباحت پر آیت سے استدلال کیا ہے ان اشیاء میں پالتو گدھے بھی شامل ہیں۔ پالتو گدھوں کا گوشت سفیان بن عینیہ نے عمرو بن دینار سے نقل کیا ہے کہ میں نے جابر بن زید سے پوچھا کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا ہے۔ جابر نے جواب میں کہا کہ الحکم بن عمرو الغفاری بھیی ہمارے سامنے حضور ﷺ سے یہی بات نقل کرتے تھے لیکن ان کی اس بات کو علم کے سمندر یعنی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا اور یہ آیت تلاوت کی تھی ( قل لا اجد فیما اوحی الی محرم) تا آخر آیت، حماد بن سلمہ ن یحییٰ بن سعید سیروایت کی ہے انہوں نے قاسم سے انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کہ وہ درندوں کے گوشت نیز رگوں کے سرے پر موجود خون کے استعمال میں کوئی حرج نہیں سمجھتی تھیں۔ اس سلسلے میں وہ یہی آیت تلاوت کرتی تھیں۔ ہمارے اصحاب ، امام مالک، سفیان ثوری اور امام شافعی گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے روکتے تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے اس سلسلے میں جو کچھ منقول ہے اس کا ذکر ہم نے درج بالا سطور میں کردیا ہے ۔ یعنی آپ اس کی اباحت کے قائل تھے بہت سے لوگوں نے اس مسئلے میں آپ کا مسلک اختیار کیا تھا تا ہم حضور ﷺ وسلم سے پالتو گدھوں کے گوشت کی ممانعت کے سلسلے میں بکثرت روایات منقول ہیں جو استفاضہ کی حد کو پہنچتی ہیں۔ زہری نے محمد بن الخفیہ کے دو بیٹوں حسن اور عبداللہ سے روایت کی ہے ، انہوں نے اپنے والد سے کہ انہوں نے حضرت علی ؓ کو حضرت ابن عباس ؓ سے یہ کہتے ہوئے بنا تھا کہ حضور ﷺ نے فتح خیبر کی دن پالتو گدھوں کا گوشت کھانے اور عورتوں کے ساتھ متعہ کرنے سے منع فرما دیا تھا۔ اب وہب نے یحییٰ بن عبداللہ بن سالم سے روایت کی ہے۔ انہوں نے عبدالرحمن بن الحارث المخزومی سے ، انہوں نے مجاہد سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فتح مکہ کے دن پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا۔ یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے جب حضرت علی ؓ کی زبانی اس بارے میں حضور ﷺ کا ارشاد سن لیا تو آپ نے اباحت کے قول سے رجوع کرلیا۔ امام ابوحنیفہ اور عبداللہ نے نافع سے روایت کی ہے، انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے کہ حضور ﷺ نے غزوہ خیبر کے موقع پر پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا۔ ابن عینیہ نے عمرو بن دینار سے روایت کی ہے، انہوں نے محمد بن علی سے اور انہوں نے حضرت جابر ؓ سے کہ حضور ﷺ نے پالتو گدھوں کے گوشت سے منع فرما دیا تھا۔ حماد بن زید نے عمرو بن دینار سے، انہوں نے محمد بن علی سے، انہوں نے حضرت جابر ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا۔ شعبہ نے ابو اسحاق سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضرت براء ؓ بن عازب سے یہ بات سنی تھی کہ ” غزوہ خیبر کے موقع پر کچھ گدھے ہمارے ہاتھ لگے ، ہم نے ان کا گوشت پکایا اتنے میں حضور ﷺ کی طرف سے یہ اعلان کرا دیا گیا کہ اپنی ہانڈیاں الٹ دو ۔ حضرت ابن ابی اوفیٰ ؓ ، حضرت سلمہ ؓ بن الاکوع، حضرت ابوہریرہ ؓ خ حضرت ابو ثعلبہ الخشنی ؓ اور دیگر حضرات سے بھی پالتو گدھوں کے گوشت کی ممانعت کی روایتیں منقول ہیں بعض روایتیں تو براہ راست حضور ﷺ سے ممانعت نقل کرتی ہیں اور بعض میں اس کا ذکر فتح خیبر کے واقعہ کے ضمن میں ہوا ہے۔ حضور ﷺ نے اس موقعہ پر جو فرمایا تھا اس کے سبب کے متعلق بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ گدھے لوٹ کا مال تھے۔ بعض کا خیال ہے کہ آپ نے اس لیے روک دیا تھا کہ آپ سے یہ کہا گیا تھا کہ گدھوں کی عتداد بہت کم ہوگئی ہے ، جبکہ کچھ حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ جلالہ تھے یعنی نجاست کھاتے تھے۔ جو لوگ اس کی اباحت کے قائل ہیں وہ حضور ﷺ کی نہی کی درج بالا صورتوں میں توجیہہ و تاویل کرتے ہیں۔ لیکن جو حضرات اس کی ممانعت کے قائل ہیں وہ ان تاویلات کو کئی وجوہ کی بنا پر باطل قرار دیتے ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ صحابہ کی ایک جماعت نے حضور ﷺ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ پالتو گدھا حلال نہیں ہے۔ ان میں حضرت مقدار بن الاسود ؓ اور ابو ثعلبہ الخشنی ؓ وغیرہما شامل ہیں۔ گدھوں کے گوشت کے بارے میں حکم عام دوم سفیان بن عینیہ نے ایوب السنحتیانی سے روایت کی ہے ، انہوں نے ابن سیرین سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے کہ جب حضور ﷺ نے خیبر فتح کرلیا تو لوگوں کو کچھ گدھے ہاتھ آ گئے۔ لوگوں نے انہیں ذبح کر کے گوشت پکایا اتنے میں حضور ﷺ کی طرف سے ایک اعلان کرنے والے نے یہ اعلان کیا کہ ” لوگو ! اللہ اور اس کا رسول تمہیں ان کا گوشت کھانے سے منع کرتے ہیں اس لیے کہ یہ ناپاک ہیں اس لیے اپنی ہانڈیاں الٹ دو “۔ عبدالوہاب الثقفی نے ایوب السنحتیانی سے اپنی سند کے ساتھ اس کی روایت کی ہے۔ اس میں ذکر ہے کہ حضور ﷺ نے ایک شخص کو یہ اعلان کرنے کا حکم دیا کہ ” اللہ اور اس کا رسوت تمہیں پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے روکتے ہیں اس لیے کہ یہ ناپاک ہیں “ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ اس اعلان کے بعد پکتی ہوئی ہانڈیاں الٹ دی گئیں۔ یہ روایت ان حضرات کی اس تاویل کو باطل کردیتی ہے کہ حضور ﷺ نے اس لیے منع فرمایا تھا کہ یہ لوٹ کا مال تھے۔ اسی طرح وہ تاویل بھی باطل ہوجاتی ہے کہ کثرت سے ذبح ہونے کی وجہ سے گدھوں کا وجود ختم ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ اس لیے کہ درج بالا روایت میں حضور ﷺ نے لوگوں کو یہ بتایا کہ پالتو گدھے نجس اور پلید ہوتے ہیں۔ یہ چیز گدھوں کی ذات کی تحریم پر دلالت کرتی ہے اس کے سوا کسی اور سبب کی بناپ ر تحریم پر دلالت نہیں کرتی۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ حضور ﷺ نے ہانڈیوں کو الٹا دینے کا حکم دیا تھا۔ اگر نہی کی بنیاد وہ ہوتی جس کا ذکر اباحت کے قائلین نے کیا ہے تو اس صورت میں حضور صلی اللہ علیہ سولم اس کا گوشت مساکین کو کھلا دینے کا حکم دے سکتے تھے جس طرح آپ ﷺ نے مالک کو اجازت کے بغیر ذیح شدہ بکری کا گوشت قیدیوں کو کھلا دینے کا حکم دیا تھا۔ حضرت ابو ثعلبہ الخشنی ؓ سے روایت میں ہے انہوں نے حضور ﷺ سے ان جانوروں کے متعلق دریافت کیا تھا جن کا گوشت ان پر حرام تھا۔ آپ نے فرمایا ( لا تالک الحھار الا ھلی ولا کل ذی ناب من السباع۔ پالتو گدھے کا نیز کچلی کے دانت رکھنے والے درندوں کا گوشت نہ کھائو) یہ روایت بھی ہماری مذکورہ ان تمام تاویلات کو باطل کردیتی ہے۔ جن سے ان کے گوشت کی اباحت ثابت کی جاتی ہے۔ سعید بن جبیر سے منقول ہے کہ حضور ﷺ نے غزوہ خیبر کے موقع پر پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے اس لیے منع فرما دیا تھا کہ یہ گدھگی کھاتے تھے۔ آپ کی نہی کی یہ تاویل اگر درست تسلیم کر بھی لے جائے تو حضرت ابو ثعلبہ ؓ اور دیگر اصحاب کی روایات میں یہ ذکر ہے کہ ان حضرات نے فتح خیبر کے سوا دوسرے مواقع پر آپ سے ان کے گوشت کے متعلق دریافت کیا تھا۔ یہ روایات اس بات کی طرف اشارے کی موجب ہیں کہ ان کی تحریم کسی سبب اور علت کی بناء پر نہیں ہوئی تھی بلکہ تحریم کی اصل وجہ پالتو گدھوں کی خود اپنی ذات تھی۔ عبدالرحمن بن منعفل نے قبیلہ مزنیہ کے ایک شخص سے جس کا نام بعض نے غالب بن الابجر بنایا ہے اور بعض نے الحر بن غالب، روایت کی ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ سے عرص کیا کہ ” اب میرے پاس چند گدھوں کے سوا اپنے اہل و عیال کو کھلانے کے لیے کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ حضور ﷺ نے اس کے جواب میں فرمایا ( فاطعم اھلک من سمین مالک فانما کرھت لکم جو ال القریۃ۔ اپنے اہل و عیال کو ان جانوروں کا گوشت کھلائو جو موٹے تازے ہوں اس لیے کہ میں تمہارے لیے گائوں کا چکر لگانے والے جانور ناپسند کرتا ہوں) پالتو گدھوں کے گوشت کی اباحت کے قائلین نے اس روایت سے استدلال کیا ہے حالانکہ یہ روایت ان کے گوشت کی نہی پر دلالت کرتی ہے اس لیے کہ آپ نے فرمایا ( فانما کرھت لکم جو ال القریۃ) پالتو گدھے تمام کے تمام گائوں اور دیہاتوں کا چکر لگانے والے ہوتے ہیں۔ جنگلی گدھوں کو جب مانوس کرلیا جائے ہمارے نزدیک زیر بحث روایت کی توجیہ یہ ہے کہ اس میں جنگلی گدھوں کی اباحت کا حکم ہے ۔ اگر کوئی جنگلی گدھا انسانوں کی آبادی میں آ جائے اور اسے پالتو بنا لیا جائے تو آیا اس کو گوشت جائز ہوگا یا نہیں، ہمارے اصحاب حسن بن صالح اور امام شافعی کا قول ہے کہ اگر جنگلی گدھا پالتو بنا لیا جائے اور وہ انسانوں سے مانوس ہوجائے تو اس کا گوشت کھانا جائز ہے۔ ابن القاسم نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ جنگلی گدھا پالتو بن جائے اور پالتو گدھوں کی طرح اس سے باربرداری وغیرہ کا کام لیا جانے لگے تو اس کا گوشت کھانا جائز نہیں ہوگا۔ اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ جس جنگلی جانور کو پالتو بنا لیا جائے وہ تحریم کے اس حکم سے خارج نہیں ہوتا جو اس کی جنس کے لیے لازم ہوتا ہے یعنیی اس کا گوشت حرام ہوتا ہے۔ اسی طرح اس جنگلی جانور کا بھی حکم ہے جو انسانوں سے مانوس ہوگیا ہو۔ درندوں کے بارے میں ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ کچلی کے دانت رکھنے والے درندوں اور چنگل والے پرندوں کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف ، امام محمد اور زفر کا قول ہے کہ اس قسم کے درندوں اور پرندوں کا گوشت حلال نہیں ہے۔ امام مالک (رح) کا قول ہے کہ جنگلی درندوں ، جنگلی اور پالتوں بلوں اور بلیوں، لومڑیوں اور بجوئوں نیز ہر قسم کے درندوں کا گوشت حرام ہے۔ لیکن چیر پھاڑ کرنے والے پرندوں مثلاً گدھ، عقاب، چیل وغیرہ کا گوشت کھا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ خواہ وہ مردار خور ہوں یا نہ ہوں۔ اوزاعی کا قول ہے کہ تمام پرندے حلال ہیں تا ہم گدھ کا گوشت مکروہ ہے۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ بلی یا بلا کھا لینے میں کوئی حرج نہیں تا ہم میں بجو کے گوشت کو مکروہ سمجھتا ہوں۔ امام شافعی کا قول ہے کہ کچلی کے دانت رکھنے والے درندوں کا جو لوگوں پر حملہ آور ہوجاتے ہیں، گوشت نہیں کھایا جائے گا مثلاً شیر، چیتا اور بھیڑیا۔ بجو اور لومڑی کا گوشت کھایا جائے گا لیکن چیل اور باز وغیرہ کا گوشت نہیں کھایا جائے گا اس لیے کہ یہ لوگوں کے پالتو پرندوں پر چھپٹتے ہیں۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ۔ انہیں ابراہیم بن عبداللہ نے ، انہیں حجاج نے، انہیں حماد نے، انہیں عمران بن جبیر نے کہ عکرمہ سے کوے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ موٹی مرغی ہے، جب ان سے بجو کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہموٹی بھیڑ ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ہمیں محمد بنبکر نے روایت بیان کی ہے۔ انہیں ابودائود نے انہیں القعنبی نے مالک سے، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے ابو ادریس الخولانی سے اور انہوں نے حضرت ثعلبہ الخشنی ؓ سے کہ حضور ﷺ نے کچلی کے دانت رکھنے والے ہر درندے کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ۔ انہیں ابودائود نے، انہیں مدد نے، انہیں ابو عوانہ نے ابو بشر سے، انہوں نے میمون بن مہران سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ حضور ﷺ نے کچلی کے دانت رکھنے والے درندوں اور چنگل والے پرندوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا۔ اس حدیث کو حضرت علی ؓ حضرت مقداد ؓ بن معدیکرب اور حضرت ابوہریرہ ؓ نیزدیگر اصحاب نے بھی روایت کی ہے کچلی کے دانت رکھنے والے درندوں اور چنگل والے پرندوں کی تحریم کی یہروایت استفاضہ کے حد کو پہنچی ہوئی ہیں۔ ان درندوں اور پرندوں میں لومڑی، بلی، چیل، اور گدھ بھی داخل ہیں۔ اس لیے انہیں کسی ایسی دلیل کے بغیر جو انکی تخصیص کی موجب ہو تحریم کے حکم سے مستثنیٰ کرنے کے کوئی معنی نہیں۔ درج بالا روایات کو قبول کرلینے سے قول باری ( قل لا اجد فیما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ) کا نسخ لازم نہیں آتا۔ اس لیے کہ اس آیت میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ اس میں غیر مذکور اشیاء اور جانور حرام نہیں کیے گئے اور مذکورہ اشای اور جانوروں کے ما سوا جتنی اشیاء اور جانور ہیں وہ اباحت کی اصل پر قائم ہیں ۔ اس لیے کہ اشیاء میں اصل اباحت ہوتی ہے پھر حکم شرعی کی بنا پر ان پر حرمت طاری ہوجاتی ہے۔ پالتو گدھوں کے گوشت کے بارے میں وارد آثار روایات کا بھی یہی حکم ہے۔ اس کے باوجود بہت سی ایسی چیزوں کی تحریم پر جن کا اس آیت میں ذکر نہیں ہے اہل علم کے اتفاق کی بناء پر آیت صرف چار چیزوں کی تحریم کے ساتھ خاص ہے اس لیے باقی ماندہ چیزوں کی تخصیص کے سلسلے میں اخبار احاد کو قبول کرلینا جائز ہوگیا۔ ہمارے اصحاب نے ایسے کوے کے گوشت کو مکروہ سمجھا ہے جس کی رنگت میں سیاہی اور سفیدی ملی ہوئی ہو یعنی چتکبرا ہو۔ اسے غراب ابقع کہا جاتا ہے۔ اس لیے کہ یہ مردار خور ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک فصلوں میں رہنے والے کوے کے گوشت میں کوئی کراہت نہیں ہے۔ اس لیے کہ قتادہ نے سعید بن المسیب سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ( خمس فواسق یقتلھن المحرم فی الحل و الحرم پانچ جانور بڑے بدکردار ہیں انہیں حرام باندھنے والا شخص حدود حرم کے اندر اور اس سے باہر دونوں جگہ ہلاک کرسکتا ہے) آپ نے اس میں چتکبرے کوے کا بھی ذکر کیا۔ اس رنگ کے کوے کی اس لیے تخصیص کی کہ یہ مردار خور ہوتا ہے اس لیے یہ ان مردار خور پرندوں کی کراہت کے لیے بنیاد بن گیا جو اس کے مشابہ ہوں۔ پھر آپ کا یہ ارشاد ( حمس یقتلھن المحرم ) ان پانچوں کے گوشت کیی تحریم پر دلالت کرتا ہے۔ نیز یہ کہ ان کا قتل ہی ہوگا، انہیں ذبح نہیں کیا جائے گا ۔ اگر ان کا گوشت حلال ہوتا تو آپ انہیں ذبح کرنے کا حکم دیتے تا کہ قتل ہونے کی صورت میں ان کا گوشت حرام نہ ہوجائے۔ اگر اس روایت کی بنا پر اعتراض اٹھایا جائے جسے ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کیا انہیں اسماعیل بن الفضل نے، انہیں محمد بن حاتم نے، انہیں یحییٰ بن مسلم نے ، انہیں اسماعیل بن امیہ نے ابوالزبیر سے، کہ انہوں نے حضرت جبار ؓ نے حضرت جابر ؓ سے پوچھا تھا کہ آیا بجو کا گوشت کھایا جاسکتا ہے ؟ تو انہوں نے اثبات میں جواب دیا تھا۔ پھر سوال کیا کہ آیا یہ شکار ہے ؟ اس کا جواب بھی اثبات میں ملا پھر سوال ہوا کہ آیا آپ نے حضور ﷺ سے یہ سنا تھا ؟ اس کا بھی انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ اس اعتراض کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور ﷺ سے کچل کے دانت رکھنے والے ہر درندے اور چنگل والے ہر پرندے کے گوشت کی نہی میں جو روایت منقول ہے وہ اس روایت کو ختم کردیتی ہے۔ اس لیے کہ اس روایت پر عمل میں فقہاء کا اختلاف ہے اور نہی والی روایت پر عمل میں سب کا اتفاق ہے۔ گوہ کا گوشت گوہ کے گوشت کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب اسے مکروہ سمج تھے ہیں ۔ امام مالک اور امام شافعی اس کے گوشت کے استعمال میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ ہمارے اصحاب کے قول کی صحت کی دلیل وہ روایت ہے جو اعمش نے زید بن وہب جہنی سے نقل کی ہے اور انہوں نے حضرت عبدالرحمن بن حسنہ ؓ سے ، وہ فرماتے ہیں کہ ہمارا پڑائو ایسی جگہ ہوا جہاں گوہ بکثرت پائے جاتے تھے، ہمیں بھوک لگی تھی اور کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ ہم نے گوہ پکڑ کر اس کا اس کا گوشت پکایا۔ ہنڈیا پک رہی تھی کہ حضور ﷺ تشریف لائے اور استفسار کرنے پر ہم نے آپ کو بتایا کہ گوہ کا گوشت پک رہا ہے۔ آپ نے فرمایا : بنی اسرائیل کے ایک گرہ کی صورتیں مسخ کر کے انہیں جانوروں کی شکلیں دے دی گئی تھی اور مجھے خطرہ ہے کہ شاد گوہ بھی ان میں سے ایک ہو۔ اس لیے ہنڈیا الٹ دو “ یہ حدیث گوہ کے گوشت کی ممانعت کی مقتضی ہے اس لیے کہ اگر اس کا کھانا مباح ہوتا تو آپ ہنڈیا الٹا دینے کا ہرگز حکم نہ دیتے۔ اس لیے کہ اس کو مال ضائع کرنے سے منع کیا گیا تھا۔ ہمیں محمد بن ب کرنے روایت باین کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں محمد بن عون الطائی نے ، انہیں الحکم بن نافع نے، انہیں ابن عیاش نے ضمضم بن زرعہ سے ، انہوں نے شریح بن عبید سے، انہوں نے ابو راشد الجرانی سے، انہوں نے عبدالرحمن بن شبل سے حضور ﷺ نے گوہ کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا۔ امام ابوحنیفہ نے حماد سے ، انہوں نے ابراہیم سے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ انہیں گوہ کا گوشت ہدیہ کے طور پر بھیجا گیا، اتنے میں حضور ﷺ لائے تو حضرت عائشہ ؓ نے آپ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا آپ ﷺ نے کھانے سے منع فرما دیا۔ اتنے میں ایک سائل آیا۔ حضرت عائشہ ؓ نے گوشت اسے دینا چاہا تو آپ ﷺ نے فرمایا ” تم اسے ایسی چیز کھلانا چاہتی ہو جو خود نہیں کھاتیں “۔ یہ روایات گوہ کا گوشت کھانے کی نہی کی موجب ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے گوہ کا گوشت نہیں کھایا البتہ آپ ﷺ کے دسترخوان پر اسے دوسرے حضرات نے کھایا تھا۔ اگر یہ حرام ہوتا تو آپ کے دستر خوان پر یہ کبھی نہ کھایا جاتا۔ حضور ﷺ نے اسے گندی چیز سمجھتے ہوئے نہیں کھایا تھا۔ بعض روایات میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ” یہ جانور ہمارے علاقے یعنی سرزمین مکہ میں نہیں پایا جاتا اس لیے جب میرے سامنے اس کا گوشت آتا ہے تو مجھے اس سے گھن آتی ہے حضرت خالد بن الولید ؓ نے حضور ﷺ کے سامنے اسے کھایا تھا آپ نے انہیں منع نہیں کیا تھا۔ ہمیں عبدالباقیی بن قائع سے روایت بیان کی، انہیں بشیر بن موسیٰ نے ، انہیں عمر بن سہل نے، انہیں اسحاق بن الربیع نے حس سے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : گوہ عام چرواہوں کی خوراک ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک چیز سے اگر روکتا ہے تو سب کو روکتا ہے۔ اگر میرے پاس بھی اس کا گوشت ہوتا تو میں کھا لیاتا۔ حضور ﷺ نے اسے حرام قرار نہیں دیا لیکن مکروہ ضرور سمجھا ہے۔ “ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں بشر بن موسیٰ نے ، انہیں بشر بن موسیٰ نے، انہیں عمر بن سہل نے، انہیں لجر نے ابوہارون سے، انہوں نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے کہ انہوں نے فرمایا ۔” اگر ہم میں سے کسی کو بل میں رہنے والے گوہ کے گوشت کا تخفہ آتا تو وہ اس کے لیے موٹی تازی مرغی کے گوشت سے بھی زیادہ پسندیدہ ہوتا “۔ جو حضرات گوہ کے گوشت کی اباحت کے قائل ہیں انہوں نے درج بالا روایت سے استدلال کیا ہے۔ حالانکہ ان روایات میں اس کے گوشت کی ممانعت پر دلالت بھی موجود ہے۔ ان روایات میں یہ مذکور ہے کہ حضور ﷺ ن گندی چیز سمجھتے ہوئے اسے نہیں کھایا تھا اور اس سے آپ ﷺ کو گھن آئی تھی جس چیز سے حضور ﷺ کو گھن آئے وہ نجس ہوتی ہے اور جو چیز نجس ہوتی ہے اس کا کھانا حرام ہوتا ہے۔ اگر ان روایات کی بناء پر اس کی اباحت ثابت بھی ہوجائے تو مقابلہ میں ممانعت کی روایت بھی موجود ہیں۔ جب ایک چیز کے بارے میں اباحت اور ممانعت کی روایتیں موجود ہوں تو ممانعت کی روایت اولیٰ ہوتی ہے اس لیے کہ اباحت کے بعد ہی لا محالہ ممانعت کا ورد ہوتا ہے کیونکہ ہر چیز میں اصل اباحت ہوتی ہے اور ممانعت اس پر وارد ہوتی ہے۔ جب ممانعت پر اباحت کے ورود کا ثبوت موجود نہیں ہے تو پھر لا محالہ ممانعت کا حکم ثابت ہوجائے گا۔ حشرات الارض کے بارے میں حکم ہوام الارض ( حشرات الارض) کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب نے جنگلی چوہا، قنفڈا سیہی، ایک جانور جس کے پورے جسم پر کانٹے ہوتے ہیں) عام چوہے اور بچھو نیزتمام قسم کے ہوام الارض کا گوشت مکروہ یعنی حرام سمجھا ہے۔ ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے کہ اگر سانپ کو ذبح کرلیا جائے تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ امام مالک اور اوزاعی کا بھی یہی قول ہے ، البتہ اوزاعی نے ذبح کی شرط نہیں رکھی ہے۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ قنفذ اور شہد کی مکھیوں کے انڈوں سے نکلے ہوئے بچے کھا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح نپیرا اور کھجور وغیرہ میں پائے جانے والے کیڑے کھا لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ ابن القاسم نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ مینڈک کھا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ابن القاسم کہتے ہیں کہ امام مالک نے کیڑوں مکوڑوں، بچھوئوں اور پھلوں وغیرہ میں پائے جانے والے کیڑوں کو کھا لینے میں کوئی حرج نہیں سمجھا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے یہ قیاس کیا ہے کہ ان جاندار چیزوں کی اگر پانی میں موت واقع ہوجائے تو اس سے پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ امام شافعی کا قول ہے ہر ایسا جانور جس سے عرب کے لوگ نفرت کرتے اور اسے گندی چیز سمجھتے تھے وہ خبائث میں سے ہے مثلاً بھیڑیا، شیر، کوا، سانپ ، جیل ، بچھو اور چوہا۔ اس لیے کہ یہ جانور قصداً دوسروں کو اذیت پہنچاتے ہیں۔ اس لیے یہ حرام ہیں اور ان کا شمار حبائث میں ہوتا ہے ۔ عرب کے لوگ بجو اور لومڑی کا گوشت کھایا کرتے تھے اس لیے کہ یہ دونوں جانور انسان پر حملہ آور نہیں ہوتے اس لیے یہ حلال ہیں۔ سیہی کا گوشت ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری ہے ( و یحرم علیھم الخبائی۔ اللہ کا رسول ان پر خبیث چیزیں حرام کرتا ہے) ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے ، انہیں ابراہیم بن خالد ابو ثور نے، انہیں سعید بن منصور نے، انہیں عبدالعزیز بن محمد نے انہیں عیسیٰ بن نمیلہ نے اپنے والد سے بیان کیا کہ وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عمر ؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ آپ سے قنفذ یعنی سیہی کے گوشت کے متعلق پوجھا گیا تو آپ نے یہ آیت تلاوت کی ( قل لا اجر فیما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ) تا آخر آیت، آپ کے پاس بیٹھے ہوئے ایک بوڑھے نے کہا : ” میں نے ابوہریرہ ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ حضور ﷺ کے سامنے اس جانور کا ذکر ہواتو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ خبائث میں سے ایک حبیث جانور ہے “۔ یہ سن کر حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا ” کہ اگر حضور ﷺ نے اس کے متعلق یہ فرمایا ہے تو یہ ایسا ہی ہوگا۔ “ حضور ﷺ نے اسے حبیث چیز کے نام سے موسوم کیا اس لیے قول بایر ( ویحرم علیھم الخبائث) کی تحریم کا حکم اسے بھی شامل ہوگیا۔ قنفد حشرات الارض میں سے ہے اس لیے ہر وہ جانور جو حشرات الارض میں سے ہوگا وہ قنفد پر قیاس کی وجہ سے حرام ہوگا۔ مینڈی کا دوا میں استعمال عبداللہ بن وہب نے روایت بیان کی ہے انہیں ابن ابی ذئب نے سعید بن خالد سے، انہوں نے سعید بن المسیب سے، انہوں نے حضرت عبدالرحمن ؓ سے کہ ایک طبیب نے حضور ﷺ کے سامنے ایک دوائی کا ذکر کیا جس میں مینڈک بھی ڈالا جاتا تھا حضور ﷺ نے اسے منیڈک ہلاک کرنے سے منع فرما دیا۔ یہ بات مینڈک کی تحریم پر دلالت کرتی ہے اسے لیے کہ آپ نے طبیب کو مینڈک مار کر دوائی میں ڈالنے سے منع فرما دیا۔ اگر مینڈک سے انتفاع جائز ہوتا تو طبیب کو اس سے فائدہ اٹھانے کی خاطر اسے ہلاک کرنے سے نہ روکا جاتا ۔ حضور ﷺ سے بکثرت روایات منقول ہیں جن کے راویوں میں حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ ، حضرت ابو سعید ، حضرت عائشہ ؓ وغیرہم شامل ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا ( یقتل المحرم فی الحل و الحرمہ الحداۃ والغراب و الفارۃ و العقرب۔ احرام باندھنے والا شخص حدود حرم کے اندر اور حدود حرم سے باہر یعنی حل میں چیل، کوا، چوہا اور بچھو ہلاک کرسکتا ہے) بعض روایات میں سانپ کا بھی ذکر ہے۔ آپ نے انہیں قتل کرنے کا حکم دیا۔ یہ حکم اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان کا گوشت حرام ہے ۔ اس لیے کہ اگر یہ حلال ہوتے تو حضور ﷺ انہیں ذبح کرنے کا کوئی وسیلہ تلاش کرنے کا حکم دیتے تا کہ ممکن حد تک ان کے ذبح کا عمل وجود پذیر ہوجاتا۔ لیکن جب آپ نے انہیں قتل کرنے کا حکم دے دیا اور قتل کے اندر ذبح کی صورت نہیں ہوتی اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ ان کا گوشت حلال نہیں ہے۔ جب یہ بات کوے اور چیل میں ثابت ہوگئی تو تمام مردار خود پرندوں کا بھی یہی حکم ہوگا اور اس امر پر دلالت ہوگی کہ حشرات الارض مثلاً بچھو اور سانپ سب حرام ہیں۔ اسی طرح یربوع یعنی جنگلی چوہا بھی حرام ہے اس لیے کہ وہ چوہے کی جنس میں سے ہے۔ قول شافعی پر تنقید امام شافعی (رح) کا یہ قول کئی وجوہ سے بےمعنی ہے کہ ایسے تمام جانور جن کے گوشت سے عرب لوگ نفرت کرتے تھے، خبائث میں داخل ہییں اس لیے حرام ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ حضور ﷺ ن کچلی کے دانت رکھنے والے ہر درندے اور چنگل والے ہر پرندے کی ممانعت فرما دی ہے۔ یہ ممانعت اس قسم کے تمام درندوں اور پرندوں کی تحریم کی مقتضی ہے اس لیے ان میں ایسے جانوروں کا اضافہ کرنا درست نہیں ہوگا۔ جو ان میں شامل نہ ہو۔ نیز ایسے جانوروں کو اس حکم سے خارج کرنا بھی درست نہیں ہوگا جنہیں حدیث کے الفاظ کا عموم شامل ہو۔ حضور ﷺ نے تحریم کے حکم میں اس علت کا اعتبار نہیں کیا جس کا امام شافعی نے اعتبار کیا ہے۔ بلکہ آپ نے کچلی کے دانت اور چنگل اور پنجے کو تحریم کی نشانی قرار دیا ہے۔ اس لیے اس کے بالمقابل ایسی صفت کو علت قرار دینا درست نہیں ہوگا جس کے ثبوت کے لیے کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ اسے ایک اور جہت سے دیکھیے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر خبائث کی تحریمکا جو حکم نافذ کیا ہے اس میں تمام لوگوں کو مخاطب بنایا گیا ہے۔ یہ خطاب صرف عربوں کے لیے خاص نہیں ہے۔ کہ عجم کے لوگ اس کے دائرے سے باہر رکھے جائیں بلکہ اس میں وہ تمام لوگ داخل ہیں جنہیں احکام کا مکلف بنایا گیا ہے، ۔۔۔ اس لیے یہ کہنا کہ وہ جانور خبائث میں داخل ہیں جن سے عرب کے لوگوں کو گھن آتی تھی ایک بےدلیل قول ہے اور آیت کے مقتضیٰ سے خارج ہے۔ علاوہ ازیں عرب کے لوگوں ک گھن آنے کی بات یا تو اس پر محمول ہوگی کہ عرب کے تمام لوگوں کو ان سے گھن آتی تھی یا بعض لوگوں کو اگر پہلی صورت مراد ہے تو عرب کے تمام لوگ سانپوں ، بچھوئوں، شیرو، بھیڑیوں ، چوہوں اور دوسرے تمام جانوروں کو جن کا ذکر امام شافعی نے کیا ہے گندے جانور تصور نہیں کترے بلکہ عام بدوان کا گوشت مرے سے کھاتے تھے۔ اس لیے پہلی صورت مراد لینا درست نہیں۔ اگر دوسری صورت مراد ہے تو یہ دو وجوہ سے فاسد ہے۔ ایک تو یہ کہ جب خطاب تمام عربوں کو ہے تو پھر ان میں سے بعض کو چھوڑ دینا اور بعض کو چھوڑ دینا اور بعض کا اعتبار کرلینا کیسے درست ہوسکتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جب ان جانوروں سے نفرت کرنے والے بعض لوگ ہوں گے تو ان کا اعتبار کرنا بہ نسبت ان لوگوں کے اولیٰ ہوگا جوان جانوروں کا گوششت مزے لے لے کر کھاتے تھے۔ اس بنا پر امام شافعی کا یہ قول ہر لحاظ سے قابل انتقاض ہے۔ انہوں نے یہ فرمایا ہے کہ بجو اور لومڑی کی اباحت کی وجہ یہ ہے کہ عرب کے لوگ ان کا گوشت کھاتے تھے حالانکہ عرب کے لوگ تو کوا، چیل اور شیر تک کو بھی کھا جایا کرتے تھے اور ان جانوروں کو اپنی خوراک بنانے سے باز نہیں رہتے تھے۔ پھر امام شافعی نے تحریم کے لیے انسانوں پر حملہ آورہونے کا اعتبار کیا ہے۔ اگر اس سے ان کی مراد تمام احوال میں حملہ آور ہونا ہے تو یہ کیفیت چیل، سانپ اور کوے میں نہیں پائی جاتی لیکن امام شافعی نے انہیں حرام قرار دیا ہے۔ اور بعض احوال میں حملہ آور ہونا مراد ہے تو بجو بھی بعض اوقات انسان پر حملہ کر بیٹھتا ہے اور شیر اگر بھوکا نہ ہو تو بعض حالات میں وہ انسان پر حملہ آور نہیں ہوتا جب کہ جوش میں آیا ہوا مست اونٹ بعض دفعہ انسان پر حملہ کردیتا ہے یہی کیفیت بعض حالات میں بیل اور سانڈ کے اندر بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ امام شافعی یا کسی اور نے ان جانوروں کے اندر تحریم کل یا اس کی اباحت کے سللے میں ان کیفیات کا اعتبار نہیں کیا ۔ دوسری طرف کتا اور بلی انسان پر حملہ آور نہیں ہوتے لیکن یہ دونوں جانور حرام ہیں۔ گندگی کھانے والا اونٹ گندگی کھانے والے اونٹ کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ اگر اونٹ گندگی کے سوا اور کچھ نہ کھاتا ہو تو ہمارے اصحاب اور امام شافعی کے قول کے مطاق اس کا گوشت مکروہ ہے۔ امام مالک اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ ایسے اونٹ کا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جس طرح گندگی کھانے والی مرغی کے گوشت میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی انہیں ابودائود نے، انہیں عثمان بن ابی شیبہ نے ، انہیں عبدہ نے محمد بن اسحاق سے انہوں نے ابن ابی نجیع سے، انہوں نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے کہ حضور ﷺ نے گندگی کھان والے جانور کے گوشت اور اس کے دودھ سے منع کیا تھا۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابو دائود نے ، انیں ابن المثنیٰ نے، انہیں ابو عامر نے ، انہیں ہشام نے قتادہ سے، انہوں نے عکرمہ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہ حضور ﷺ نے گندگی کھانے والے جانور کے دودھ سے منع فرما دیا تھا۔ خلاصہ بحث ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری ( قل لا اجذ فیما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ) کے تحت جو احکام ہمنے بیان کیے ان ک ذیل میں آنے والے ان مسائل کے اندرجن حضرات نے ہم سے اختلاف کیا اور جن جانوروں کے گوشت کی ہمارے اصحاب نے ممانعت کی ان کی انہوں نے اباحت کردی وہ اس بارے میں درج بالا آیت سے ہی استدلال کرتے ہیں۔ ہم نے پہلے بیان کردیا کہ آیت کے نزول کا سبب ان جانوروں سے متعلق تھا جنہیں اہل جاہلیت حرام قرار دیتے تھے اور جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت سے قبل کیا ہے۔ اگر اس آیت کا نزول ہمارے مذکورہ سبب سے متعلق نہ ہوتا بلکہ یہ ایک نئے مضمون کی ابتداء ہوتی تو پھر بہت سی ایسی اشیاء کی تحریم کے بارے میں اخبار آحاد کو قبول کرلینے میں کوئی امتناع نہ ہوتا جن کو یہ آیت شامل نہیں ہے اور نہ ہی بہت سی اشیاء کی تحریم کے بارے میں قیاس سے کام لینے کی ضرورت پڑتی۔ اس لیے کہ آیت میں زیادہ سے زیادہ جو بات ہے وہ یہ اطلاع ہے کہ شرعی طور پر صرف وہی چیزیں حرام ہوئی تھیں جن کا ذکر اس آیت میں ہے۔ جبکہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ یہ چیزیں دلیل سمعی یعنی آیت کے نزول سے پہلے مباح تھیں اور اس قسم کی چیزوں کی تحریم کیل یے اخبار آحاد کو قوبل کرلینا اور قیاس سے کام لینا جائز اور درست تھا اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ بتادینا کہ شرعی طور پر وہ چیزیں حرام ہیں جن کا آیت میں ذکر ہوا ہے، ان کے علاوہ دوسری اشیاء کی تحریم کے لیے خبر واحد کو قبول کرنے اور قیاس کو کام میں لانے سے مانع نہیں ہے۔ قول باری ( علی طاعم یطعمہ) اس پر دلالت کرتا ہے کہ مردار کے صرف وہی اجزاء حرام ہیں جو کھانے کے کام آسکتے ہیں اس لیے یہ حکم کمائے ہوئے چمڑے ، سینگ ، بڈی، کُھر ، پَر وغیرہ کو شامل نہیں ہوگا۔ اسی لیے حضور ﷺ نے ام المومنین حضرت میمونہ ؓ کی مردہ بکری کے متعلق فرمایا تھا ( انسا حرم اکلھا۔ اس کا گوشت کھانا ہی حرام ہوا تھا) بعض طریق میں یہ الفاظ ہیں (انما حرم لحمھا۔ اس کا گوشت ہی حرام ہوا تھا) خون ذبیحہ قول باری ( اودما مسفوحا) اس پر دلالت کرتا ہے کہ بہایا ہوا خون حرام ہوتا ہے رگوں میں رہ جانے والے اجزائے خون حرام نہیں ہوتے۔ حضرت عائشہ ؓ اور دوسرے صحابہ کرام سے مروی ہے کہ ذبح کی جگہ یا ہانڈی کے اوپر لگا ہوا خون حرام نہیں ہوتا اس لیے کہ وہ دم مسفوح نہیں ہوتا۔ مچھر ، مکھی وغیرہ کا خون یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ مچھر، کھٹمل اور مجھی کا خون نجس نہیں ہے اس لیے کہ وہ مسفوح نہیں ہوتا۔ اگر یہ کہا جائے ( قل لا اجد فیما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ) اگرچہ یہ خبر دیتا ہے کہ حضور ﷺ کی شریعت میں کھانے پینے کی چیزوں یعنی ماکولات میں سے صرف وہی چیزیں حرام ہیں جن کا آیت میں ذکر ہوا ہے لیکن اس آیت کے ذریعے بہت سی ایسی چیزوں کا حکم منسوخ ہوگیا جنہیں انبیاء سابقین کی زبان سے حرام قرار دیا گیا تھا اس لیے ایسی چیزوں کی حیثیت یہ نہیں ہوگی کہ انہیں اباحت اصلیہ کے حکم پر باقی رکھا گیا ہے بلکہ یہ ان چیزوں کے حکم میں ہوں گی جن کی اباحت شرعی طور پر منصوص ہوچکی ہو اس لیے خبر واحد اور قیاسکے ذریعے اس کی اباحت کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس بات کی دلیل کہ اس قول باری کے ذریعے ایسی بہت سی اشیاء کا حکم منسوخ ہوگیا جنہیں دوسرے انبیائے کرام کی زبان سے حرام قرار دیا گیا تھا۔ یہ قول باری ہے ( وعلی الذین ھادوا حرمنا کل ذی ظفر ومن البنر ولاغنم حرمنا علیھم شحو مھما الا ما حملت ظھورھما۔ اور جن لوگوں نے یہودیت اختیار کی ان پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیے تھے اور گائے اور بکری کی چربی بھی بجز اس کے جو ان کی پیٹھ یا ان کی آنتوں سے لگی ہوئی یا ہڈی سے لگی رہ جائے) جبکہ ان دونوں جانوروں کی چربی ہمارے لیے مباح ہے اسی طرح بہت سے ناخن والے جانور بھی ہمارے لیے مباح ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض نے جو کچھ کہا ہے وہ ان چیزوں کے ما سوا جن کا ذکر آیت میں ہوچکا ہے دوسری چیزوں کو اباحت اصلیہ کے حکم سے خارج نہیں کرتا۔ وہ اس لیے کہ ان چیزوں میں سے جو اشیا پچھلی امتوں پر حرام کردی گئی تھیں اور پھر ہمارے لیے مباح کردی گئیں وہ ہمارے نبی ﷺ کے لیے شریعت نہیں بنیں بلکہ حضور ﷺ نے صرف یہ واضح کردیا کہ ان اشیاء کی تحریم ایک خاص وقت تک کے لیے تھی جس کی انتہا آپ ﷺ کے زمانے پر آکر ہوگئی۔ نیز یہ کہ تحریم کا وقت گزر جانے کے ساتھ یہ اشیاء پھر اپنے ساقب حکم یعنی اباحت اصلیہ پر آگئیں۔ اس لحاظ سے وقتی طور پر حرام شدہ مذکورہ اشیاء کبھی نہ حرام ہونے والی اشیاء کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے نیز اگر معترض کی بات تسلیم کرلی جائے تو پھر ان اشیاء کی تحریم کے سلسلے میں جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے خبر واحد کو قبول کرلینا اور قیاس سے کام لینا درست ہوتا اور اس کی گنجائش ہوتی۔ اس لیے کہ قول باری ( قل لا اجد فیما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ) بالاتفاق ایسی آیت ہے جس کا حکم صرف ان اشیاء کی تحریم کے ساتھ مخصوص ہے جن کا اس میں ذکر آیا ہے اس لیے کہ فقہاء کا ایسی بہت سی اشیاء کی تحریم پر اتفاق ہے جن کا ذکر اس آیت میں نہیں آیا ہے۔ مثلاً شراب، بندر کا گوشت نجس چیزیں اور اس طرح کی دیگر چیزیں۔ جب آیت کا خصوص بالاتفاق ثابت ہوگیا تو باقی ماندہ چیزوں کی تحریم کے بارے میں خبرواحد کو قبول کرنا اور قیاس سے کام لینا درست ہوگیا۔
Top