Ahkam-ul-Quran - Al-A'raaf : 204
وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب قُرِئَ : پڑھا جائے الْقُرْاٰنُ : قرآن فَاسْتَمِعُوْا : تو سنو لَهٗ : اس کے لیے وَاَنْصِتُوْا : اور چپ رہو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
امام کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہوئے قرات کرنا قول باری ہے واذاقری القران فاستمعوالہ وانصتوالعلکم ترحمون۔ اور جب قرآن تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو شاید کہ تم پر بھی رحمت ہوجائے) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے نماز میں قرات کی اور آپ کی اقتداء میں پڑھنے والے حضرات نے بھی قرات کی جس کی وجہ سے حضور ﷺ کی قرات گڈ مڈ ہوگئی۔ اس پر درج بالا آیت کا نزول ہوا ثابت بن عجلان نے سعید بن جیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے درج بالا آیت کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ مومن کے لئے قرآن توجہ سے سننے کے حکم میں گنجائش موجود ہے البتہ اگر فرض نماز یا جمعہ کی نماز یا عیدین کی نمازیں ہوں (تو پھر توجہ سے سننا ضروری ہوگا) اور مخلدالمہاجر نے ابوالعالیہ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ جب نماز پڑھانے کے دوران قرات کرتے تو آپ کے پیچھے کھڑے تمام لوگ بھی قرات کرتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اس کے بعد صحابہ کرام خاموش رہتے اور حضور ﷺ قرات کرتے۔ شعبی اور عطا نے روایت کی ہے کہ آیت میں مذکورہ قرات سے نماز کی قرات مراد ہے۔ ابراہیم بن ابی حرہ نے مجاہد سے اسی قسم کی روایت کی ہے۔ ابن ابی بخیح نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے ایک انصاری جو ان کی نماز کے اندر قرات سنی، اس پر درج بالا آیت نازل ہوئی۔ سعید بن المسیب سے مروی ہے کہ اس نے نماز کے اندر قرات کی تھی۔ مجاہد سے مروی ہے کہ اس سے نماز اور خطبہ کے دوران قرات مراد ہے لیکن یہاں خطبہ کا ذکر ایک بےمعنی بات ہے۔ اس لئے کہ خطبہ کے دوران قرات کو توجہ سے سننا اور خاموش رہنا اسی طرح واجب ہے جس طرح خطبہ کے علاوہ دوسری صورتوں میں واجب ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ لوگ نماز کے اندر باتیں کرتے تھے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ لیکن یہ بھی بعید ازفہم تاویل ہے جو آیت کے مفہوم سے بالکل میل نہیں رکھتی۔ اس لئے آیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ صرف کسی کی قرات کو غور سے سننے اور خاموش رہنے کے حکم کی بات ہے اس لئے کہ یہ محال ہے کہ ایک شخص کو اپنی قرات غور سے سننے اور خاموش رہنے کا حکم دیا جائے۔ البتہ اگر حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت کے یہ معنی لئے جائیں کہ لو گ حضور ﷺ کی اقتداء میں نماز پڑھنے کے دوران آپس میں باتیں کرتے تھے اور اس پر یہ آیت نازل ہوئی تھی تو روایت کی یہ تاویل درست ہوگی۔ اگر بات اس طرح ہوجائے تو پھر یہ تاویل امام کے پیچھے قرات نہ کرنے کے سلسلے میں دوسرے حضرات کی تاویل کے مطابق ہوجائے گی۔ اس طرح سب کا اس پر اتفاق ہوجائے گا کہ آیت میں امام کے پیچھے قرات نہ کرنا بلکہ اس کی قرات کو غور سے سننا اور خاموش رہنا مرا د ہے۔ اگر امام کے پیچھے قرات نہ کرنے کے وجوب کے سلسلے میں آیت کے نزول پر سلف کے اتفاق کی روایت موجود نہ بھی ہوتی تو تنہا آیت ہی اپنے معنی کے ظہور اور اپنے الفاظ کے عموم کی بنا پر امام کی قرات خاموشی سے سننے کے وجوب پر واضح طور سے دلالت کے لئے کافی ہوتی۔ اس لئے کہ قول باری واذاقری القران فاستمعوالہ وانصتوا) یہ حکم نماز اور غیر نماز کے اندر قرات قرآن کو غور سے سننے اور خاموش رہنے کے وجوب کا مقتضی ہے۔ پھر جب غیر نماز کے اندر قرآن کی قرات کو غور سے سننے اور خاموش نہ رہنے کے جواز پر دلالت قائم ہوجائے تو اس سے نماز کے اندر قرات کو غور سے سننے اور خاموش رہنے کے ایجاب پر آیت کی دلالت کا حکم ختم نہیں ہوگا۔ نیز آیت جس طرح جہری نماز میں امام کے پیچھے قرات کرنے کی نہی پر دلالت کرتی ہے اسی طرح سری نماز کے اندر بھی امام کے پیچھے قرات کرنے کی نہی پر آیت کی دلالت ہوگی اس لئے کہ آیت نے قرات قرآن کے دوران قرات کو غور سے سننا اور خاموش رہنا واجب کردیا ہے اور اس میں یہ شرط نہیں لگائی ہے کہ قرات جہری ہو سری نہ ہو۔ اس لئے جب امام جہری قرات کر رہا ہو تو ہم پر اسے غور سے سننا اور خاموش رہنا واجب ہے اسی طرح جب وہ سری قرات کر رہا ہو ہم پر آیت کے الفاظ کے بموجب یہی حکم واجب ہوگا اس لئے کہ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ وہ قرآن کی قرات کر رہا ہے اگرچہ سراً ہی سہی۔ قرات خلف الامام پر فقہاء کی آراء قرات خلف الامام کے بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب ابن سیرین، ابن ابی لیلیٰ ، سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ جہری اور سری نماز میں مقتدی امام کے پیچھے قرات نہیں کرے گا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ دونوں صورتوں میں مقتدی قرات کرے گا۔ امام مالک کا قول ہے کہ سری نماز میں مقتدی قرات کرے گا اور جہری نماز میں قرات نہیں کرے گا۔ المزنی کی روایت کے مطابق اما م شافعی کے نزدیک جہری اور سری دونوں نمازوں میں مقتدی قرات کرے گا۔ البویطی میں ہے کہ سری نماز میں مقتدی پہلی دو رکعتوں میں سورة فاتحہ اور اس کے ساتھ کسی اور سورت کی اور آخری دو رکعتوں میں صرف سورة فاتحہ کی قرات کرے گا اور جہری نماز میں مقتدی امام کے پیچھے قرات نہیں کرے گا۔ البویطی نے یہ بھی کہا ہے کہ لیث بن سعد اور اوزاعی کا بھی یہی قول ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہم نے یہ بات واضح کردی ہے کہ آیت امام کی جہری اور سری دونوں قرات کے دوران خاموش رہنے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے۔ اہل لغت کے قول کے مطابق انصاف کے معنی کلام سے رک جانے اور قرات کو غور سے سننے کے لئے خاموش رہنے کے ہیں۔ ایک شخص جو قرات کر رہا ہو وہ کسی حالت میں کلام سے رک جانے والا اور خاموش رہنے والا نہیں کہلا سکتا۔ اس لئے کہ سکوت کلام کی ضد ہے اور سکوت کے معنی یہ ہیں کہ آلہ کلام یعنی زبان کلام کے ذریعہ حرکت میں لانے سے ساکن رکھا جائے کلام الگ الگ حرف کو ایک نظام کے تحت مربوط کر کے زبان پر لانے کا نام ہے۔ اس لئے سکوت اور کلام الہ لسان اور ہونٹوں کی حرکت کے ذریعے بولنے والے کے لئے دو متضاد کیفیتیں ہیں۔ آپ نہیں دیکھتے کہ کسی شخص کو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ متکلم اور ساکت ہے جس طرح کسی چیز کو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ متحرک اور ساکن ہے اس لئے جو شخص ساکت ہوگا وہ متکلم نہیں ہوگا اور جو متکلم ہوگا وہ ساکت نہیں ہوگا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ بعض دفعہ سری طور پر قرات کرنے والے کو بھی ساکت کہا جاتا ہے جب اس کی قرات کی آواز کان میں نہ پڑتی ہو جس طرح عمارہ نے ابوزرعہ سے اور انہوں نے ابویریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ جب حضور ﷺ تکبیر کہتے تو تکبیر اور قرات کے درمیان خاموش رہتے۔ ایک دن میں نے عرض کیا :” میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان، مجھے بتا دیجئے کہ تکبیر اور قرات کے درمیان سکوت یعنی خاموشی کے دوران آپ ﷺ کیا پڑھتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اقول اللھم باعدبینی و بین خطایای کما باعدت بین المشرق و المغرب میں پڑھتا ہوں “ اے میرے اللہ ! میرے اور میری خطائوں کے درمیان اتنا فاصلہ کر دے جتنا فاصلہ تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان کردیا ہے) حضرت ابوہریرہ ؓ نے باقی ماندہ حدیث کا بھی ذکر کیا ہے حضرت ابوہریرہ ؓ نے آپ کو ساکت کے نام سے موسوم کیا حالانکہ آپ ﷺ سراً دعا مانگتے تھے یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ سکوت کے معنی کسی بات کو سرا کہنے کے ہیں۔ سرے سے بات نہ کرنے کے معنی نہیں ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے سراً بات کرنے والے کو مجازاً ساکت کا نام دیا ہے اس لئے کو جو شخص اس کی آواز نہیں سنے گا وہ اسے ساکت یعنی خاموش سمجھے گا۔ جب یہ شخص اس لحاظ سے خاموش شخص کے مشابہ ہوتا ہے تو ساکت شخص کی حالت کے ساتھ اس کی حالت قرب کی بنا پر اسے بھی ساکت کا نام دے دیا جاتا ہے جس طرح یہ قول باری ہے صم بکم عمی۔ بہرے گونگے اور اندھے ہیں) منکرین کو بہروں، گونگوں اور اندھوں کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے یہ نام دیئے گئے ہیں جس طرح اصنام کے بارے میں فرمایا وتراھم ینظرون الیک ولھم لایبصرون۔ تم انہیں دیکھو گے کہ وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں حالانکہ وہ دیکھ نہیں سکتے) ان بتوں کو ایسے شخص سے تشبیہ دی گئی ہے جو دیکھ تو رہا ہے لیکن حقیقت میں ان کی آنکھیں بےنور ہوں اور وہ کچھ نہ دیکھ سکتا ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ امام کی قرات کے دوران مقتدی قرات نہیں کرے گا لیکن اس کے سکوت کے دوران تو وہ قرات کرسکتا ہے اس لئے کہ حسن نے حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ اپنی نماز میں دو دفعہ سکتہ کرتے تھے ایک قرات سے پہلے اور دوسری قرات کے بعدا س لئے امام کو چاہیے کہ وہ قرات سے پہلے ایک سکتہ کرے تاکہ اس کے ساتھ نماز میں ابتداء سے شامل ہونے والے مقتدی اس دوران میں سورة فاتحہ پڑھ لیں اور پھر امام کی قرات کو غور سے سنیں۔ پھر جب امام قرات سے فارغ ہوجائے تو اسے دوسری دفعہ سکتہ کرنا چاہیے تاکہ بعد میں شامل ہونے والے مقتدی سورة فاتحہ پڑھ سکیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ دو سکتوں والی روایت کا ثبوت نہیں ہے اگر یہ روایت ثابت بھی ہوجائے تو معترض کے قول پر اس کی دلالت نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ پہلا سکتہ تو نماز کی افتتاحی دعائوں کے لئے ہوتا ہے اور دوسرا سکتہ اگر ثابت بھی ہوجائے تو روایت میں یہ دلالت نہیں ہے کہ وہ اتنا طویل ہوتا تھا کہ ایک مقتدی اس دوران سورة فاتحہ پڑھ لیتا۔ بلکہ یہ سکتہ صرف قرات اور رکوع کی تکبیر کے درمیان فصل کرنے کے لئے ہوتا تھا تاکہ ایک ناواقف شخص کو یہ گمان نہ پیدا ہوجائے کہ تکبیر بھی قرات کا حصہ ہے۔ اگر تکبیر قرات کے ساتھ متصل ہوتی تو یہ گمان پیدا ہونے کی پوری گنجائش تھی اگر معترض کی بیان کردہ روایت کے مطابق دونوں سکتوں میں سے ہر ایک سورة فاتحہ پڑھنے کی مقدار کا ہوتا تو اس کی بکثرت روایت ہوتی اور اسے مختلف طرق سے نقل کیا جاتا لیکن جب اس کی بکثرت روایت نہیں ہوئی جبکہ عمومی طور پر تمام نمازیوں کو اس بنا پر اس کی ضرورت تھی کہ ہر مقتدی اس طرح قرات کی فرضیت کی ادائیگی کرسکتا تھا تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ دراصل ان دو سکتوں کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ نیز مقتدی کی حیثیت یہ ہوتی ہے کہ وہ امام کے تابع رہے لیکن یہ جائز نہیں ہوتا کہ امام مقتدی کے تابع بن جائے اگر معترض کی یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ قرات کے بعد امام اتنی دیر خاموش کھڑا رہے کہ مقتدی اس دوران سورة فاتحہ پڑھ لے تو اس سے حضور ﷺ کے اس ارشاد کی مخالفت لازم آتی ہے کہ انماجعل الامام لیوتم بہ، امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے) پھر معترض کے اس قول سے حضور ﷺ کے اس حکم کا برعکس لازم آتا ہے واذا قرافانصتوا، جب امام قرات کرے تو تم خاموش رہو) وہ اس طرح کہ حضور ﷺ نے ت مقتدی کو امام کے لئے خاموش رہنے کا حکم دیا ہے اور معترض امام کو مقتدی کے لئے خاموش رہنے کا حکم دے رہا ہے اور اسے مقتدی کے تابع قرار دے رہا ہے اس سے دلیل میں تخلف لازم آتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر امام ظہر کی دو رکعتوں کے بعد بھول کر تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہوجائے تو مقتدی پر بھی اس کی پیروی لازم ہوتی ہے لیکن اگر مقتدی بھول کر کھڑا ہوجائے تو امام پر اس کی اتباع لازم نہیں ہوتی۔ اگر مقتدی بھول جائے تو اس کی وجہ سے نہ اس پر اور نہ ہی اس کے امام پر سجدہ سہو لازم ہوتا ہے لیکن اگر امام بھول جائے اور مقتدی نہ بھی بھولے تو بھی سجدہ سہو میں اس پر امام کی اتباع لازم ہوتی ہے اس لئے یہ کہنا کیسے درست ہوسکتا ہے کہ امام کو خاموش کھڑا رہنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ اس دوران مقتدی قرات کرلے۔ قرات خلف الامام کی نہی پر روایات قرات خلف الامام کی نہی پر مشتمل روایات مختلف طرق سے بکثرت منقول ہیں۔ قتادہ نے ابوغلاب یونس بن جبیر سے روایت کی ہے انہوں نے حطان بن عبداللہ سے اور انہوں نے حضرت ابوموسی ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اذاقراء الامام فانصتوا۔ جب امام قرات کرے تو تم خاموش رہو) ابن عجلان نے زید بن اسلم سے، انہوں نے ابوصالح سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا انما جعل الامام لیوتم بہ فاذا قرافانصتوا، امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے اس لئے جب وہ قرات کرے تو تم خاموش رہو) یہ دونوں روایتیں امام کو قرات کے دوران مقتدیوں پر خاموشی کو واجب کرتی ہیں۔ دوسری روایت تو اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ امام کی اقتداء کے مفہوم میں اس کی قرات کو خاموشی سے سننا بھی شامل ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ مقتدی کی قرات کے لئے امام کو خاموش رہنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ اگر اسے یہ حکم ہوتا تو گویا اسے مقتدی کی اقتداء کا حکم ہوتا اس طرح ایک ہی حالت میں امام مقتدی بن جاتا اور مقتدی امام۔ یہ کسی طرح درست نہیں ہے۔ حضرت جابر ؓ نے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا من کان لہ امام قراۃ الامام لہ قراۃ۔ جس کا کوئی امام ہو تو امام کی قرات اس کے لئے بھی قرات ہوگی) حضرت جابر ؓ سے ایک بڑی جماعت نے یہ روایت کی ہے اس کے بعض طرق میں یہ الفاظ ہیں اذا کان لک امام فقرا تہ لک قراۃ۔ جب تمہارا امام ہو تو اس کی قرات تمہارے لئے بھی قرات ہوگی) حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے امام کے پیچھے قرات کرنے سے منع فرمایا ہے۔ حجا ج بن ارطاۃ نے قتادہ سے انہوں نے زراہ بن اونیٰ سے اور انہوں نے حضرت عمران بن حصین ؓ سے اس کی روایت کی ہے ہم نے شرح مخترالطحاوی میں ان روایات کی اسانید پر روشنی ڈالی ہے۔ ایک اور روایت ہے جو مالک نے ابونعیم وہب بن کیسان سے نقل کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت جابر ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا من صلی صلوۃ لم یقراً فیھا بامرالقران فھی خداج۔ جس شخص نے کوئی نماز پڑھی اور سورة فاتحہ کی قرات نہ کی اس کی یہ نما ز ناقص ہے۔ بعض طرق میں ہے لم یصل ال اوراء الامام۔ اس نے گویا کوئی نماز نہیں پڑھی الایہ کہ اس نے امام کے پیچھے پڑھی ہو) آپ نے یہ بتادیا کہ امام کے پیچھے سورة فاتحہ کی قرات نہ کرنا نماز میں کسی نقصان اور کمی کا موجب نہیں ہے اگر امام کے پیچھے قرات کا جواز ہوتا تو ترب قرات اس کی نماز میں نقصی کا موجب ہوتا جس طرح تنہا نماز پڑھنے والے کا ترک قرات اس کی نماز میں نقص کا موجب ہے۔ امام مالک نے ابن شہاب سے انہوں نے اکیمہ اللیشی سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے ایک جہری نماز سے سلام پھیرنے کے بعد لوگوں سے دریافت فرمایا کہ آیا تم میں سے کسی نے ابھی میرے ساتھ قرات کی ہے ؟ صحابہ کرام نے اثبات میں جواب دیا اس پر آپ نے فرمایا انی اقول مالی انازع القران۔ اسی لئے میں سوچ رہا تھا کہ قرآن کی تلاوت میں میرے ساتھ چھینا جھپٹی کیوں ہو رہی ہے) حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد لوگوں نے جہری نماز میں آپ ﷺ کے پیچھے قرات ترک کردی۔ حضور ﷺ کا یہ قول ھل قراً معنی احدمنکم۔ کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قرات کی ہے ؟ اس پر دلالت کرتا ہے کہ جن لوگوں نے آپ ﷺ کے پیچھے قرات کی تھی انہوں نے دراصل سری قرات کی تھی جہری نہیں کی تھی، اس لئے کہ جہری قرات ہوتی تو آپ درج بالا فقرہ نہ کہتے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا انی اقول مالی انازع القران) اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ اس حکم کے لحاظ سے سری اور جہری دونوں نمازیں یکساں ہیں اس لئے کہ یہ آپ نے بتایا تھا کہ مقتدی کی قرات قرآن کی تلاوت میں منازعت یعنی چھینا جھپٹی کی موجب ہوتی ہے حضرت ابوہریرہ ؓ کا قول کہ اس کے بعد لوگ جہری نمازوں میں حضور ﷺ کے پیچھے قرات کرنے سے رک گئے اس میں ان لوگوں کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے جو سری نمازوں میں امام کے پیچھے قرات کے جواز کے قائل ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ راوی کا قول اور ان کی تاویل ہے۔ اس میں یہ بات مذکور نہیں کہ حضور ﷺ نے جہری قرات اور سری قرات کی حالتوں میں فرق کیا تھا۔ ایک اور حدیث ہے جسے یونس ابن ابی اسحاق نے ابواسحاق سے انہوں نے ابوالاحوص سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں ہم حضور ﷺ کے پیچھے قرات کرتے تھے آپ ﷺ نے فرمایا تھا خلطتم علی القران تم نے قرآن کو مجھ پر گڈ مڈ کردیا) یہ روایت بھی جہر اور اخفاء کی یکسانیت پر دلالت کرتی ہے۔ اس لئے کہ آپ ﷺ نے ان دونوں حالتوں میں کسی فرق کا ذکر نہیں کیا۔ زہری نے عبدالرحمن بن ہرمز سے، انہوں نے ابن لجینہ سے روایت کی ہے (ابن لجینہ حضور ﷺ کے صحابی تھے) کہ حضور ﷺ نے فرمایا : کیا کسی نے میرے ساتھ ابھی قرات کی تھی ؟ صحابہ کرام نے اثبات میں جواب دیا اس پر آپ ﷺ نے فرمایا (فانی اقول مالی انازع القران) راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد صحابہ کرام ؓ آپ کے پیچھے قرات کرنے سے رک گئے۔ اس روایت میں بھی حضرت ابن نجینہ ؓ نے یہ بتایا کہ لوگ آپ ﷺ کے پیچھے قرات کرے سے رک گئے تھے۔ اس میں جہر اور اخفاء کے درمیا ن کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ یہ تمام روایات سری اور جہری دونوں نمازوں میں امام کے پیچھے قرات کی نہی کی موجب ہیں اس پر وہ آثار بھی دلالت کرتے ہیں جو اجلہ صحابہ سے منقول ہیں جن میں ان حضرات سے قرات خلف الامام کی نہی اور قرات کرنے والے کو ٹوکنے اور نکیر کرنے کی بات مذکور ہے اگر قرات خلف الامام کی بات عام ہوتی تو صحابہ کرام سے یہ چیز چھپی نہ رہتی اس لئے عمومی طور پر لوگوں کو اس کی ضرورت پیش آتی تھی نیز شارع (علیہ السلام) کی طرف سے پوری جماعت کو اس بارے میں ہدایت دی جاتی اور ان کی رہنمائی کی جاتی اور صحابہ کرام اس امر سے اسی طرح واقف ہوتے جس طرح نماز میں قرات کے حکم سے واقف تھے اس لئے کہ قرات خلف الامام کے بارے میں معرفت کی انہیں اسی طرح ضرورت تھی جس طرح نماز میں قرات کی معرفت کی ضرورت تھی جبکہ انسان تنہا نماز پڑھ رہا ہو یا امامت کر رہا ہو۔ جب اجد صحابہ کرام سے قرات خلف الامام پر نکیر اور اس کی تردید منقول ہے تو اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قرات خلف الامام جائز نہیں ہے جن حضرات صحابہ کرام سے قرات خلف الامام کی نہی منقول ہے ان میں حضر ت علی ؓ ، حضرت ابن مسعود ؓ ، حضرت سعد ؓ ، حضرت جابر ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ابوالدردا ؓ ، حضرت ابوسعید ؓ ، حضرت ابن عمر ؓ ، حضرت زید بن ثابت ؓ اور حضرت انس ؓ شامل ہیں۔ عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے حضرت علی ؓ سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جس شخص نے امام کے پیچھے قرات کی وہ راہ فطرت سے ہٹ گیا۔ ابواسحاق نے علقمہ سے انہوں نے عبداللہ سے اور انہوں نے حضرت زید بن ثابت سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا جس شخص نے امام کے پیچھے قرات کی اس کا منہ مٹی سے بھر دیا جائے گا۔ وکیع نے عمر بن محمد سے انہوں نے موسیٰ بن سعد سے اور انہوں نے حضرت زید بن ثابت سے روایت کی ہے کہ جس شخص نے امام کے پیچھے قرات کی اس کی کوئی نماز نہیں۔ ابوحمزہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ آیا میں امام کے پیچھے قرات کرلوں تو آپ نے نفی میں اس کا جواب دیا۔ ابوسعید ؓ کا قول ہے کہ تمہارے لئے امام کی قرات کافی ہے۔ حضرت انس ؓ کا قول ہے کہ ” امام کے پیچھے قرات تسبیح ہے “……واللہ اعلم……رکوع کی تسبیح اور نماز کی افتتاح پر پڑھی جانے والی دعائیں منصور نے ابراہیم نخعی سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ” ہم نے امام کے پیچھے قرات کی بات کسی سے نہیں سنی حتی کہ کوفہ پر مختار ثقفی کذاب کا غلبہ ہوگیا۔ لوگوں نے چونکہ اس پر بےدینی کی تہمت لگائی تھی اس لئے اس کے پیچھے نماز پڑھتے وقت خود بھی قرات کرلیتے “۔ حضرت سعد ؓ کا قول ہے کہ جو شخص امام کے پیچھے قرات کرتا ہے میرا دل چاہتا ہے کاش کہ اس کے منہ میں انگارے ہوتے “۔ روایت فاتحہ خلف الامام پر تنقید جو لوگ قرات خلف الامام کو واجب سمجھتے ہیں انہوں نے محمد بن اسحاق کی روایت سے استدلال کیا ہے جو انہوں نے مکحول سے انہوں نے محمود بن الربیع سے اور انہوں نے حضرت عبادہ بن الصامت سے نقل کی ہے کہ ایک روز حضور ﷺ نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ آپ ﷺ کی قرات کا کچھ پتہ نہ چل سکا یعنی آواز گڈمڈ ہوگئی جب آپ ﷺ اسلام پھیر کر فارغ ہوگئے تو آپ ﷺ نے لوگوں سے پوچھا : کیا تم لوگ بھی میرے پیچھے قرات کر رہے تھے ؟ “ لوگوں نے اثبات میں جوا ب دیا۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا لاتفعلوا الابفاتحۃ الکتاب فانہ لاصلوۃ لمن لم یقرا بھا۔ ایسا نہ کرو الایہ کہ سورة فاتحہ کی قرات ہو اس لئے کہ جو شخص سورة فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی) اس حدیث کی سند میں اضطراب ہے نیز اس کا مرفوع ہونا بھی مختلف فیہ ہے یہ اس لئے کہ صدقہ بن خالد ن یزید بن واقد سے انہوں نے مکحول سے انہوں نے نافع بن محمود بن ربیعہ سے اور انہوں نے حضرت عبادہ ؓ سے اس کی روایت کی ہے اس روایت کا ایک راوی نافع بن محمود مجہول ہے اس کے متعلق کسی کو کوئی علم نہیں ہے۔ اس حدیث کو ابن عون نے رجاء بن حیوۃ سے انہوں نے محمد بن الربیع سے حضرت عبادۃ ؓ پر موقوفاً روایت کی ہے اس میں حضور ﷺ کا ذکر نہیں ہے ایوب نے ابوقلابہ سے انہوں نے حضرت انس ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے نماز پڑھائی پھر اپنا چہرہ مبارک لوگوں کی طرف پھیر کر پوچھا کیا امام کی قرات کے دوران تم لوگ بھی قرات کرتے ہو “ لوگ خاموش رہے آپ ﷺ نے ان سے تین بار یہی سوال کیا۔ اس پر لوگوں نے عرض کیا کہ ” جی ہاں ہم ایسا ہی کرتے ہیں “۔ اس پر آپ نے فرمایا ” ایسا نہ کرو “۔ آپ ﷺ نے اس میں سورة فاتحہ کی قرات کے استثناء کا ذکر نہیں فرمایا حضرت عبادہ بن الصامت ؓ کی اصل روایت وہ ہے جسے یونس نے ابن شہاب سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے محمود بن الربیع نے حضرت عبادہ بن الصامت سے بتایا کہ حضور ﷺ نے فرمایا لاصلوۃ لمن لم یقرا القران، جو شخص قرآن کی قرات نہیں کرتا اس کی کوئی نماز نہیں) حضرت عبادہ ؓ کی روایت سند کے اضطراب نیز رفع دوقف اور الاظ کے اختلاف کی وجہ سے اس درجے کی روایت نہیں رہی جسے ظاہر قرآن اور ان آثار صحیحہ کے بالمقابل پیش کیا جاسکے جن میں قرات خلف الامام کی نفی منقول ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد لاصلوۃ الابام القران) امام کے پیچھے سورة فاتحہ کی قرات کے ایجاب پر دلالت نہیں کرتا۔ اس لئے کہ امام کے پیچھے پڑھی جانے والی نماز میں سورة فاتحہ کی قرات ہوتی ہے۔ امام اس کی قرات کرتا ہے اور امام کی قرات مقتدی کی قرات بن جاتی ہے۔ اسی طرح علاء بن عبدالرحمن کی روایت جو انہوں نے ہشام بن زہرہ کے آزاد کردہ غلام ابوالسائب سے کی ہے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا من صلی صلاۃ لم یقرا فیھا بام القرآن فھی خداج غیر تمام جس شخص نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں سورة فاتحہ کی تلاوت نہیں کی تو اس کی یہ نماز خداج یعنی ناتمام ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کا خیال ابوالسائب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے عرض کیا کہ ” میں بعض دفعہ امام کے پیچھے نماز پڑھتا ہوں اس صورت میں کیا کروں “۔ یہ سن کر حضرت ابوہریرہ ؓ نے میرے بازو میں انگلی مارتے ہوئے فرمایا اے فارسی شخص ! اسے اپنے دل میں پڑھو “۔ اس روایت میں ان حضرات کے لئے کوئی حجت اور دلیل نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس روایت میں زیادہ سے زیادہ جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ایسی نماز خداج ہے۔ خداج نقصان کو کہتے ہیں۔ ایسی نماز پر اسم صلوۃ کا اطلاق اس کے جواز پر دلالت کرتا ہے نیز یہ بات اس شخص کے متعلق کہی گئی ہے جو تنہا نماز پڑھ رہا ہو۔ اس توجیہ کی بنا پر اس روایت اور آیت نیز قرات خلف الامام کی نفی کرنے والے آثار کے درمیان تطبیق کی صورت پیدا ہوجاتی ہے حضرت ابوہریرہ ؓ کا یہ قول کہ ” اسے اپنے دل میں پڑھو “۔ حضور ﷺ کی طرف منسوب نہیں ہے اور تنہا صحابی کے قول سے کوئی حجت ثابت نہیں ہوتی۔ قرات خلف الامام کی نفی میں ہم نے جو روایات پیش کی ہیں وہ اولی ہیں اس پر یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ جہری نماز میں امام کے پیچھے مقتدی کی قرات کی نہی کے سلسلے میں ان روایات پر سب متفقہ طور پر عمل پیرا ہیں۔ ہم سے اختلاف رکھنے والوں کی پیش کردہ روایات مختلف فیہ ہیں۔ اس لئے ایسی روایات جن پر ایک صورت میں عمل پیرا ہونے پر سب متفق ہوں ان روایات کی بہ نسبت اولی ہوں گی جن پر عمل کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہم تمام روایات پر عمل پیرا ہوتے ہیں وہ اس طرح کہ قرات خلف الامام کی نہی والی روایات کو سورة فاتحہ کے ماسوا قرات پر محمول کیا جائے اور قرات کے امر والی روایات کو سورة فاتحہ کی قرات پر محمول کیا جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات حضور ﷺ کے ان دو ارشادات کی بنا پر باطل ہے۔ اول یہ کہ آپ نے فرمایا علمت ان بعضکم خالجینھا مجھے محسوس ہوا کہ تم میں سے بعض نے مجھے قرات کے سلسلے میں خلجان میں مبتلا کردیا ہے) نیز آپ ﷺ کا ارشاد ہے مالی انازع القران، یہ کیا بات ہے کہ قرآن کی قرات میں میرے ساتھ چھینا جھپٹی ہوتی ہے) قرآن تو صرف سورة فاتحہ کا نام نہیں ہے اس لئے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ آپ ﷺ نے بشمول سورة فاتحہ سارا قرآن مراد لیا تھا وہب بن کیسان کی روایت میں جو انہوں نے حضرت جابر ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے نقل کی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے کل صلوۃ لایقرافیھا بفاتحۃ الکتاب فھی خداج الام اوراء الامام۔ ہر وہ نماز جس میں سورة فاتحہ کی قرات نہ کی گئی ہو وہ ناقص ہے الایہ کہ کسی نے امام کے پیچھے نماز پڑھی ہو) اس روایت میں آپ نے منصوص طریقے سے امام کے پیچھے سورة فاتحہ نہ پڑھنے کا حکم بیان فرما دیا۔ اس سے معترض کی تاویل اور قرات کے امر والی روایات کو سورة فاتحہ کی قرات پر محمول کرنے والی بات باطل ہوجاتی ہے بلکہ معترض پر یہ الزام عائد ہوتا ہے کہ وہ ان روایات کو رد کرنے اور ان پر عمل پیرا نہ ہونے کا مرتکب ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ نے اپنے مسلک کے حق میں صحابہ کرام کے اقوال سے جو استدلال کیا ہے اس میں کوئی جان نہیں ہے۔ اس لئے کہ ان حضرات کے ہم چشموں نے اس معاملہ میں ان کی مخالفت کی ہے چناچہ عبدالواحد بن زیاد نے روایت کی ہے انہیں سلیمان الشیبانی، انہوں نے یزیدبن شریک سے کہ انہوں نے خود حضرت عمر ؓ سے یہ بات کہی تھی یا کسی اور کو ان سے یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ آیا میں امام کے پیچھے قرات کروں “۔ آپ نے اثبات میں اس کا جواب دیا تھا، سائل نے دوبارہ پوچھا ” خواہ امام قرات کیوں نہ کر رہا ہو “۔ آپ نے فرمایا :” خواہ امام کیوں نہ قرات کر رہا ہو “۔ شعبہ نے ابوالفیض سے، انہوں نے ابوشیبہ سے روایت کی ہے کہ حضرت معاذ بن جبل ؓ نے فرمایا تھا کہ جب تمہیں امام کی قرات سنائی دے رہی ہو تو قل ھو اللہ احد یا اس جیسی کوئی اور سورت پڑھ لو اور اگر تمہیں امام کی قرات سنائی نہ دے رہی ہو تو اپنے دل میں پڑھ لو “۔ اشعث نے حکم اور حماد سے روایت کی ہے کہ حضرت علی ؓ امام کے پیچھے قرات کرنے کا حکم دیتے تھے لیث نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے یہ روایت کی ہے کہ ” سورة فاتحہ پڑھنا نہ چھوڑو خواہ امام جہری قرات کر رہا ہو یا سری جب صحابہ کرام سے قرات خلف الامام اور عدم قرات دونوں مروییں تو ان روایات سے استدلال کیسے درست ہوسکتا ہے اور حجت کیسے ہوسکتی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا حضرت عمر ؓ اور حضرت معاذ ؓ سے منقول رویا ات کی سندیں مجہول ہیں اس لئے ان جیسی روایات سے کوئی حجت ثابت نہیں ہوسکتی جبکہ حضرت علی ؓ سے منقول روایت کے راوی الحکم اور حماد ہیں جن کی وجہ سے یہ روایت مرسل ہے اس میں تابعی کا واسطہ غائب ہے اور ہمارے مخالف ایسی مرسل روایات کو قبول نہیں کرتے حضرت ابن عباس ؓ سے منقول روایت کے راوی لیث بن ابی سلیم ہیں جو ضعیف شمار ہوتے ہیں ان کے مقابلہ میں ابوحمزہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے قرات خلف الامام کی نہی کی روایت نقل کی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ہمارا استدلال صرف اقوال صحابہ پر مبنی نہیں ہے بلکہ ہم نے یہ کہا ہے کہ ایسے فرائض جن سے عمومی طور پر سب کو سابقہ پڑھتا تھا۔ حضور ﷺ ان کے ایجاب پر لوگوں کو اپنی ہدایت اور رہنمائی کے بغیر نہیں رہنے دیتے تھے جب ہم نے دیکھا کہ صحابہ کرام میں ایسے حضرات موجود ہیں جو قرات خلف الامام کی نہی کے قائل ہیں تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ قرات خلف الامام کے وجوب پر حضور ﷺ کی طرف سے تمام لوگوں کو ہدایت نہیں دی گئی تھی جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ واجب نہیں۔ صحابہ کرام میں سے جن حضرات نے قرات خلف الامام کے ایجاب کا قول نقل کیا ہے ان کا یہ قول ہمارے مذکورہ استدلال کے لئے قاوح نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں زیادہ سے زیادہ یہی بات کہی جاسکتی ہے کہ حضور ﷺ کی طرف سے اس بارے میں تمام لوگوں کو ہدایات نہیں دی گئی تھیں جس کی بنا پر کچھ حضرات نے تاویل یا قیاس کی بنا پر قرات کے ایجاب کا مسلک اختیار کرلیا جبکہ ان جیسے امور کا ایجاب حضور ﷺ کی طرف سے تمام لوگوں کو ہدایت دینے اور امت کی طرف سے اس ہدایت کو نقل کرنے کی بنیاد پر ہوتا ہے علاوہ ازیں قرات خلف الامام کے وجوب کی نفی پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ سب کے نزدیک متفقہ طور پر امام کو رکوع کی حالت میں پالینے والا مقتدی قرات ترک کر کے امام کی متابعت کرے گا اگر قرات واجب ہوتی تو کسی حالت میں بھی اس کا ترک جائز نہ ہوتا جس طرح طہارت اور دیگر افعال صلوۃ کی صورتحال ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ درج بالا صورت میں ایک ضرورت کی بنا پر قرات ترک کردی گئی وہ ضرورت رکعت فوت ہوجانے کے خوف کی صورت میں پیش آئی تھی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ رکعت فوت ہوجانے کا خوف کئی وجوہ کی بنا پر ضرورت کے نام سے موسوم نہیں کیا جاسکتا۔ ایک تو یہ کہ امام کی اقتداء میں نماز پڑھنا فرض نہیں ہے اس لئے کہ اگر یہی شخص تنہا نماز ادا کرلیتا تو بھی اس کی نماز ادا ہوجاتی۔ البتہ امام کی اقتداء میں نماز کی ادائیگی ایک فضیلت ہے اس لئے رکعت فوت ہوجانے کا خوف ترک قرات کے لئے ضرورت نہیں قرار پاسکتا۔ نیز اگر کوئی شخص بےوضو ہوتاتو اس کے لئے جماعت کے فوت ہوجانے کا خوف ترک طہارت کی اباحت کا سبب نہیں بنتا۔ اسی طرح اگر ایک شخص امام کو سجدے کی حالت میں پالیتا تو یہ بات اس کے حق میں سقوط رکوع کے جواز کے لئے ضرورت نہ قرار پاتی۔ جب رکوع کی حالت میں امام کو پالینے کی بنا پر ترک قرات جائز ہوگیا دوسرے فرائض کا ترک جائز نہ ہوا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ قرات خلف الامام فرض نہیں ہے اس کی عدم فرضیت پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ جو شخص امام کی اقتداء میں کوئی جہر ی نماز پڑھ رہا ہو وہ سورة فاتحہ کے ساتھ اور کوئی سورت نہیں ملائے گا۔ اگر قرات فرض ہوتی تو پھر سورة فاتحہ کے ساتھ کسی اور سورت کا ملانا قرات کی سنت میں داخل ہوتا۔ اس لئے کہ ایسی تمام نمازیں جن میں قرات فرض ہے ان میں سورة فاتحہ کے ساتھ کوئی اور سورت ملانا سنت ہے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ جہری نمازوں میں مقتدی جہری قرات نہیں کریگا۔ اگر قرات فرض ہوتی تو جہری نمازوں میں مقتدی بھی امام کی طرح جہری قرات کرتا۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ قرات خلف الامام فرض نہیں ہے کیونکہ یہ تو باجماعت نماز تھی اور ان نمازوں میں سے تھی جن میں جہری قرات کی جاتی تھی اگر مقتدی پر قرات اسی طرح فرض ہوتی جس طرح امام پر فرض ہے تو پھر مناسب یہ تھا کہ جہر اور اخفا کے لحاظ سے مقتدی اور امام کی ق راتوں کے حکم میں کوئی اختلاف نہ ہوتا جبکہ یہ اختلاف موجود ہے کہ جب امام جہری قرات کرے گا تو مقتدی جہری قرات نہیں کرے گا بلکہ دل میں پڑھے گا۔ قول باری ہے واذکرربک فی نفسک تضرعاً و خیفۃ۔ اے نبی ! اپنے رب کو دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ یاد کیا کرو) حبصاص کہتے ہیں کہ ذکر یعنی یاد الٰہی کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی، اس کے جلال و منزلت اور اس کی قدرت کے دلائل و آیات پر غورو فکر کیا جائے یہ افضل ترین ذکر ہے اس لئے اسے ہی ذکر و فکر پر ایک بندہ جس ثواب کا مستحق ہوتا ہے وہ دوسرے اذکار کی صورت میں نہیں ہوتا اور اسی ذکر و فکر کی بدولت اللہ کی ذات تک اس کی رسائی ہوجاتی ہے۔ ذکر کی دوسری صورت ذکر قولی ہے یہ ذکر کبھی دعا کی شکل میں کبھی حمد و ثناء کی صورت میں کبھی قرآن کی تلاوت اور لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کی شکل میں ہوتا ہے۔ آیت میں اس بات کی گنجائش ہے کہ فکری اور قولی دونوں ذکر مراد ہوں اس صورت میں قول باری واذکرربک فی نفسک) سے اللہ کی ذات کے دلائل و آیات پر غور و فکر مراد ہوگا اور قول باری ودون الجھرمن القول۔ اور زبان سے بھی آواز کے ساتھ) ذکر لسانی کے لئے منصوص ہوگا۔ اس ذکر لسانی سے تلاوت قرآن مراد لینا بھی جائز ہے اور دعا مراد لینا بھی درست ہے۔ اس صورت میں دعا کے اندر اخفا افضل ہوگا۔ جس طرح یہ قول باری ادعواربکم تضرعاً وخفیۃ) اگر اس سے قرآن کی تلاوت مراد ہو تو یہ اس قول باری کے ہم معنی ہوگا ولاتجھربصلاتک ولاتخافت بھا وایتغ بین ذلک سبیلاً ۔ تم نماز میں نہ تو بہت پکار کر پڑھو اور نہ ہی بہت چپکے پڑھو اور ان دونوں کے درمیان کوئی راستہ اختیار کرو) ایک قول ہے کہ دعا میں اخفا اس لئے افضل ہے کہ اس طرح ریاکاری کم سے کم ہوتی ہے اور اخلاص زیادہ سے زیادہ ہوتا ہے اور ان دو صفات کی بنا پر ایسی دعا کی قبولیت کی زیادہ امید کی جاتی ہے۔ ایک قول ہے کہ اس میں قرآن کو غور سے سننے والے کو خطاب ہے اس لئے کہ یہ قول باری اس قول باری واذا قری القران فاستمعوالہ وانصتوا) پر معطوف ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس میں حضور ﷺ کو خطاب ہے اور معنوی طورپر تمام مکلفین کے لئے یہ حکم عام ہے جس طرح یہ قول باری ہے یایھا النبی اذا طلقتم النساء اے نبی ﷺ ! جب تم لوگ اپنی بیویوں کو طلاق دو……) قتادہ کا قول ہے الاصال سے عشیات یعنی شام کے اوقات مراد ہیں۔ واللہ اعلم۔
Top