Ahkam-ul-Quran - Al-A'raaf : 27
یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ لَا یَفْتِنَنَّكُمُ الشَّیْطٰنُ كَمَاۤ اَخْرَجَ اَبَوَیْكُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ یَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِیُرِیَهُمَا سَوْاٰتِهِمَا١ؕ اِنَّهٗ یَرٰىكُمْ هُوَ وَ قَبِیْلُهٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ١ؕ اِنَّا جَعَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآءَ لِلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ : اے اولاد آدم لَا يَفْتِنَنَّكُمُ : نہ بہکاوے تمہیں الشَّيْطٰنُ : شیطان كَمَآ : جیسے اَخْرَجَ : اس نے نکالا اَبَوَيْكُمْ : تمہارے ماں باپ مِّنَ : سے الْجَنَّةِ : جنت يَنْزِعُ : اتروادئیے عَنْهُمَا : ان سے لِبَاسَهُمَا : ان کے لباس لِيُرِيَهُمَا : تاکہ ظاہر کردے سَوْاٰتِهِمَا : ان کے ستر اِنَّهٗ : بیشک يَرٰىكُمْ : تمہیں دیکھتا ہے وہ هُوَ : وہ وَقَبِيْلُهٗ : اور اس کا قبیلہ مِنْ : سے حَيْثُ : جہاں لَا تَرَوْنَهُمْ : تم انہیں نہیں دیکھتے اِنَّا جَعَلْنَا : بیشک ہم نے بنایا الشَّيٰطِيْنَ : شیطان (جمع) اَوْلِيَآءَ : دوست۔ رفیق لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکا نہ دے۔ جس طرح تمہارے ماں باپ کو بہکا کر جنت سے نکلوادیا اور ان سے ان کے کپڑے اتروادیئے تاکہ ان کے ستر ان کو کھول دکھائے وہ اور اس کے بھائی تم کو ایسی جگہ سے دیکھتے رہتے ہیں جہاں سے تم ان کو نہیں دیکھ سکتے۔ ہم نے شیطانوں کو انہیں لوگوں کا رفیق بنایا ہے جو ایمان نہیں رکھتے۔ )
قول باری ہے یا بنی ادم لایفتنتکم الشیطان کما اخرج ابویکم من الجنۃ۔ اے بنی آدم ! ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں پھر اسی طرح فتنے میں مبتلا کر دے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوایا تھا) فتنہ کے متعلق ایک قول ہے کہ اس سے مراد وہ ابتلا ہے جس میں شہوت یا شبہ کی جہت سے معصیت کی طرف دعوت کی بنا پر کوئی پھنس جائے۔ خطاب میں انسان کو شیطان کے فتنے میں مبتلا ہونے سے روکا گیا ہے لیکن اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کو شیطان کے فتنے میں پڑنے سے ڈرایا گیا ہے اور اس پر اس سے اپنا پہلو بچانا لازم کردیا گیا ہے۔ قول باری کما اخرج ابویکم من الجنۃ) میں جنت سے آدم (علیہ السلام) و حوا کے اخراج کی نسبت شیطان کی طرف کی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان نے انہیں بہکایا تھا جس کے نتیجے میں وہ ایسی حرکت کر بیٹھے جو ان کے جنت سے اخراج پر منتج ہوئی جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرعون کی نسبت بیان فرمایا یذبح ابناء ھم و ان کے بیٹوں کو ذبح کردیا تھا) جبکہ فرعون نے انہیں ذبح کرنے کا حکم دے رکھا تھا وہ خود یہ کام نہیں کرتا تھا۔ اسی مفہوم پر اللہ نے آدم (علیہ السلام) و حوا کے لباس اتروانے کی نسبت بھی شیطان کی طرف کردی فرمایا ینزع عنھما لبا سھما۔ اور ان کے لباس ان پر سے اتروا دیئے تھے) اگر کوئی شخص اپنی قمیض نہ سینے اور اپنے غلام کی پٹائی نہ کرنے کی قسم کھالے جبکہ وہ خود یہ کام نہ کرتا ہو تو کسی اور سے یہ کام کروانے پر وہ حانث ہوجائے گا۔ اس مسئلے میں درج بالا آیت سے استدلال کیا گیا ہے۔ اسی طرح اگر اس نے گھر نہ بنانے کی قسم کھائی ہو اور پھر کسی اور کے ذریعے بنوالے تو حانث ہوجائے گا۔ لباس آدم کی کیفیت ایک قول ہے کہ آدم (علیہ السلام) و حوا (علیہ السلام) کے جسم پر جو لباس تھا وہ جنت کے کپڑے کا بنا ہوا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ ان کا لباس ظفر (ایک قسم کی نباتات کا تھا۔ وہب بن منبہ کا قول ہے کہ ا ن کا لباس نور کا تھا۔
Top