Ahkam-ul-Quran - Al-A'raaf : 55
اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً١ؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَۚ
اُدْعُوْا : پکارو رَبَّكُمْ : اپنے رب کو تَضَرُّعًا : گر گڑا کر وَّخُفْيَةً : اور آہستہ اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے گزرنے والے
لوگو ! اپنے رب سے عاجزی اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو۔ وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں بناتا۔
دعا کا طریقہ قول باری ہے وادعواربکم تضرعاً عاوخفیۃ۔ اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے) آیت میں چپکے چپکے رب کو پکارنے کا حکم ہے حسن کا قول ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس بات کی تعلیم دی ہے کہ تم اپنے رب کو کس طرح پکارو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک عہد صالح کا ذکر فرمایا جس کی پکار کو اس نے پسند فرمایا تھا چناچہ ارشاد ہے اذنادی ربہ نداء خفیا۔ جبکہ اس نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا) یعنی حضرت زکریاعلیہ السلام عبداللہ بن المبارک نے حسن بصری سے روایت کی ہے کہ لوگ یعنی صحابہ کرام بڑی عاجزی اور نیاز مندی کے ساتھ دعائیں مانگا کرتے تھے اور صرف سرگوشی کی آواز سنائی دیتی تھی۔ حضرت ابوموسیٰ شعری ؓ نے روایت کی ہے و ہ فرماتے ہیں : ہم حضور ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے کچھ لوگوں کو بلند آواز سے دعائیں مانگتے ہوئے سنا۔ آپ نے ان سے فرمایا یایھا الناس انکم لاتدعون اصم ولاغائباً ۔ توگو، تم کسی ایسی ذات کو نہیں پکار رہے ہو جو بہری یا غائب ہے) یعنی تمہیں بلند آواز سے دعا مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت سعد ؓ بن مالک نے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا خیرالذکر الخفی وخیرالرزق ما یکفی۔ بہترین ذکر ذکر خفی ہے اور بہترین رزق وہ ہے جو کفایت کرتا ہو) بکربن خینس نے ضرار سے اور انہوں نے حضرت انس ؓ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا عمل البرکلہ نصف العبادۃ والدعا نصف العبادۃ۔ نیکیوں کے تمام کام آدھی عبادت ہیں اور تنہا دعا آدمی عبادت ہے) دعا کی ہیئت سالم نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے تو ہاتھ نیچے کرنے سے پہلے انہیں ضرور اپنے چہرہ مبارک پر پھیر لیتے تھے) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس آیت میں نیز مذکورہ بالا آثار و روایات میں جو کچھ ذکر ہوا وہ اس بات کی دلیل ہے کہ دعاء میں اخفا اس کے اظہار سے افضل ہے۔ اس لئے کہ خفیہ کے معنی سر یعنی پوشیدگی کے ہیں۔ یہ بات حضرت ابن عباس ؓ اور حسن بصری سے مروی ہے۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ نماز میں سورة فاتحہ کی قرات کے بعد آہستہ آواز میں آمین کہنا آمین بالجہر سے افضل ہے۔ اس لئے کہ آمین دعا ہے اس پر وہ بات دلالت کرتی ہے جو قول باری قد اجیبت دعوتکما۔ تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی) کی تاویل میں کہی گئی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دعا کر رہے تھے اور حضرت ہارون (علیہ السلام) آمین کہتے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو دعا کرنے والوں کے نام سے موسوم کیا۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ چپکے چپکے دعا مانگنا اس لئے افضل ہے کہ اس میں ریاکاری کا کوئی شائبہ نہیں ہوتا۔ تضرع کے معنی کے بارے میں ایک قول ہے کہ یہ مختلف جہات میں جھکائو کا نام ہے۔ جب کوئی شخص اپنی دو انگلیوں کو خوف یا ذلت کی بنا پر دائیں بائیں جھکائے تو کہا جاتا ہے ضرع الرجل ضرعاً ۔ اسی سے بکری کے تھن کو ضرع کہتے ہیں اس لئے کو دودھ کا جھکائو تھن کی طرف ہوتا ہے۔ مشابہت کو مضارعت کہتے ہیں۔ اس لئے کہ اس میں ایک چیز اپنی مشابہ چیز کی طرف جھکتی اور مائل ہوتی ہے جس طرح مقاریت میں ہوتا ہے حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ جب دعا مانگتے تو انگشت شہادت کے ساتھ اشارہ بھی کرتے تھے حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ حضور ﷺ کو یوم عرفہ کی شام کے وقت ہاتھ بلند کر کے دعا مانگتے ہوئے دیکھا گیا تھا حتی کہ آپ کے بغلوں کے اندرونی حصے نظر آرہے تھے حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کو استسقاء یعنی بارش کی دعا مانگتے ہوئے دیکھا تھا آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلا رکھے تھے حتی کہ میں نے آپ کے بغلوں کی سفیدی دیکھ لی تھی۔ حضور ﷺ سے دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے اور انگشت شہادت سے اشارہ کرنے کی جو روایت منقول ہے وہ تضرع کے بارے میں ان حضرات کے قول کی صحت کی دلیل ہے کہ جنہوں نے اس کے معنی انگلیوں کو دائیں بائیں پھیرنا بیان کئے ہیں۔
Top