Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Nooh : 86
وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا
وَاِذَا
: اور جب
حُيِّيْتُمْ
: تمہیں دعا دے
بِتَحِيَّةٍ
: کسی دعا (سلام) سے
فَحَيُّوْا
: تو تم دعا دو
بِاَحْسَنَ
: بہتر
مِنْھَآ
: اس سے
اَوْ
: یا
رُدُّوْھَا
: وہی لوٹا دو (کہدو)
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
عَلٰي
: پر (کا)
كُلِّ شَيْءٍ
: ہر چیز
حَسِيْبًا
: حساب کرنے والا
اور جب تم کو کوئی دعا دے تو (جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمے) سے (اسے) دعا دو یا انہیں لفظوں سے دعا دو بےشک خدا ہر چیز کا حساب لینے والا ہے
واذا حییتم بتیحیۃ اور جب تم کو کسی طرح کا سلام کیا جائے۔ تحیت۔ حَیَّاک اللہ کا مصدر ہے۔ یہ اگرچہ جملہ خبریہ ہے لیکن (انشائیہ) دعائیہ کے مواقع پر استعمال ہوتا ہے عرب حیاکّ اللّٰہ (اللہ تیری زندگی دراز کرے) اور اسی طرح کے دوسرے الفاظ سلام کے موقع پر کہتے تھے۔ عہد اسلامی میں یہ لفظ۔ لفظ سلام سے بدل گیا اور مسلمانوں کا باہم دستور تحیت لفظ سلام ہوگیا۔ حضرت عمران ؓ بن حصین نے فرمایا ہم جاہلیت کے زمانہ میں (سلام کے موقعہ پر) کہتے تھے : اَنْعَمَ اللّٰہُ بِکَ عَیْنًا اور انعم صباحاجب اسلام آیا تو ہم کو ایسا کہنے کی ممانعت کردی گئی (اور سلام کا دستور ہوگیا) رواہ ابوداؤد۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے آدم ( علیہ السلام) کو اپنی صورت (شکل یا صفات) پر پیدا کیا۔ اس کے قد کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی۔ پیدا کرچکا تو فرمایا جا اس جماعت کو سلام کر فرشتوں کی جماعت وہاں بیٹھی ہوئی تھی اور جو وہ جواب دیں اس کو سن کیونکہ وہی تیرا اور تیری نسل کا سلام ہوگا۔ حضرت آدم ( علیہ السلام) نے جا کر (ملائکہ سے) کہا السلام علیکم ‘ فرشتوں نے جواب دیا السلام علیک ورحمۃ اللہ۔ رحمۃ اللہ کا لفظ فرشتوں نے زیادہ کردیا۔ بخاری و مسلم۔ فحیوا باحسن منہا اور دوہا پس تم اس سے بہتر جواب دو یا (کم سے کم) اسی کو لوٹا دو ۔ یعنی ویسے ہی الفاظ کہہ دو امر وجوب کے لئے ہے اور لفظ او اختیار دینے کے لئے ہے لہٰذا سلام کا جواب اتنے اور ویسے ہی الفاظ میں لوٹا دینا تو واجب ہے اور رحمت و برکت کے الفاظ بڑھا کر جواب دینا مستحب ہے۔ سلام یا جواب سلام میں جتنا اضافہ کیا جائے گا اتنا ہی ثواب زیادہ ہوگا۔ حضرت عمران بن حصین راوی ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ : ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا السلام علیکم آپ ﷺ نے (ویسا ہی) جواب دے دیا اور فرمایا دس (نیکیوں کا ثواب ہوا) وہ بیٹھ گیا اس کے بعد ایک اور شخص آیا اور اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ ‘ حضور ﷺ نے اس کو جواب دے کر فرمایا بیس (نیکیوں کا ثواب اس کے ملے گا) وہ بھی بیٹھ گیا اس کے بعد ایک اور شخص آیا اور اس نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا آپ : ﷺ نے اس کو جواب دے کر فرمایا تیس (نیکیوں کا ثواب ہوا) وہ بھی بیٹھ گیا۔ رواہ الترمذی و ابوداؤد۔ حضرت معاذ بن انس ؓ کی روایت میں اتنا زائد ہے کہ پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ومغفرتہ۔ حضور ﷺ نے فرمایا : چالیس فضائل میں ( اضافہ) اسی طرح ہوتا ہے۔ بعض علماء کا قول ہے کہ سلام کامل زیادہ سے زیادہ السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ہے (اس سے آگے کوئی اضافہ نہ ہونا چاہئے) کیونکہ روایت میں آیا ہے کہ ایک شخص نے آکر حضرت ابن عباس ؓ کو سلام کیا اور کہا السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ اور اس سے آگے بھی کچھ بڑھایا حضرت نے فرمایا سلام برکت (یعنی برکاتہ) پر ختم ہوگیا۔ ذکرہ البغوی۔ امام احمد نے الزہد میں ‘ طبرانی نے الکبیر میں اور ابن ابی حاتم نے اور ابن مردویہ نے حضرت سلمان ؓ فارسی کی روایت سے لکھا ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ : ﷺ کو سلام کیا اور کہا السلام علیک۔ آپ ﷺ نے فرمایا وعلیک السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ پھر دوسرے نے عرض کیا۔ السلام علیک ورحمتہ اللہ وبرکاتہ آپ نے فرمایا وعلیک السلام۔ اس شخص نے عرض کیا آپ نے میرا حصہ گھٹا دیا اللہ کا وہ حکم کہاں گیا۔ فحیوا باحسن منہا اور دوہا۔ حضور ﷺ نے فرمایا تو نے کوئی زیادتی باقی نہیں چھوڑی اس لئے میں نے تجھ پر وہی لوٹا دیا (جو تو نے کہا تھا) میں کہتا ہوں یہ حدیث بتارہی ہے کہ اگر کوئی السلام علیک ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہے تو اس کے جواب میں وعلیک السلام کہنا کافی ہے (بظاہر یہ آیت کے مفہوم کے خلاف ہے کیونکہ آیت میں تو کم سے کم سلام کے مثل جواب دینا واجب ہے اور اس حدیث سے اصل سلام سے گھٹا کر جواب دینے کا جواز معلوم ہوتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ) نفس سلام میں مثل ہونا کافی ہے (باقی الفاظ میں مثل ہونا ضروری نہیں) یا یوں کہا جائے کہ علیک السلام میں الف لام عہدی ہے (پس مطلب یہ ہوگا کہ جو سلام تفصیل یا اجمال کے ساتھ تو نے کیا وہی تیرے لئے ہو) اس صورت میں جواب کے اندر وہ تمام چیزیں آگئیں جو ابتدائی اسلام کرنے والے کے سلام میں تھیں۔ مسئلہ : سلام کا جواب فرض کفایہ ہے اگر جماعت میں سے کسی ایک نے دے دیا تو کافی ہے۔ کذافی السراجیہ۔ حضرت علی ؓ کا ارشاد منقول ہے کہ ایک جماعت گزرے اور ان میں سے ایک سلام کرلے تو کافی ہے اسی طرح بیٹھی ہوئی جماعت میں سے بھی اگر ایک شخص جواب دے دے تو کافی ہے۔ ذکرہ البغوی فی المصابیح۔ موقوفاً والبیہقی فی شعب الایمان مرفوعاً ۔ ابوداؤد نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے اور صراحت کی ہے کہ حسن ؓ بن علی ؓ نے اس کو مرفوعاً بیان کیا ہے۔ حسن ؓ بن علی ؓ ابو داؤد کے شیخ تھے۔ لیکن اگر بیٹھی ہوئی جماعت میں سے کسی شخص کا خصوصیت کے ساتھ نام لے کر آنے والا سلام کرے تو اسی شخص پر جواب دینا واجب ہے کوئی دوسرا آدمی جواب دے دے گا تو کافی نہ ہوگا ‘ اسی طرح اگر جماعت کو سلام کیا جائے اور کوئی بیرونی آدمی جواب دے دے تب بھی کافی نہ ہوگا۔ کذافی بیان الاحکام۔ مسئلہ : اوّل سلام کرنا سنت ہے اور یہی افضل ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم جب تک ایمان نہ لاؤ گے جنت میں نہیں جاؤ گے اور جب تک آپس میں محبت نہ کرو گے ایمان دار نہ ہو گے کیا میں تم کو ایسی بات بتاؤں کہ اگر تم اس کو گرو گے تو تمہارے درمیان محبت ہوجائے گی اپنے آپس میں سلام (کا دستور) پھیلاؤ۔ رواہ مسلم۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اوّل سلام کرنے والا غرور سے پاک ہے۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان۔ حضرت ابوامامہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ سے تعلق رکھنے والا وہ شخص ہے جو اوّل سلام کرے۔ رواہ احمد والترمذی وابوداؤد۔ حضرت عبداللہ ؓ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کون سا اسلام سب سے بہتر ہے یعنی خصائل اسلامی میں کون سی خصلت سب سے اچھی ہے فرمایا کھانا کھلانا اور (ہر شخص کو) سلام کرنا جان پہچان ہو یا نہ ہو۔ بخاری و مسلم۔ مسئلہ : سوار پیدل کو ‘ پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے بہت کو سلام کریں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی مرفوع روایت کے یہ الفاظ صحیحین میں آئے ہیں لیکن بخاری نے اتنا اور نقل کیا ہے کہ چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔ مسئلہ : لڑکوں اور عورتوں کو (بھی) سلام کیا جائے کیونکہ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ : ﷺ لڑکوں کی طرف سے گزرے اور ان کو سلام کیا۔ بخاری و مسلم۔ حضرت جریر ؓ کی روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ : ﷺ عورتوں کی طرف سے گزرے اور ان کو سلام کیا۔ رواہ احمد۔ فتاوی الغرائب میں مذکور ہے کہ جوان (اجنبی) عورت اور امرد لڑکے کو سلام کرنا مکروہ ہے اور اگر یہ خود سلام کریں تو جواب دینا واجب نہیں ہے میں کہتا ہوں یہ حکم فتنہ کے اندیشہ کے وقت ہے۔ مسئلہ : گھر والا گھر میں داخل ہو تو گھر والوں کو سلام کرے۔ حضرت انس ؓ : کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے بیٹے تو اپنے گھر میں داخل ہو تو گھر والوں کو سلام کر تیرے لئے اور تیرے گھر والوں کے لئے برکت ہوگی۔ رواہ الترمذی۔ مسئلہ : اگر خالی گھر میں کوئی داخل ہو تو کہے السَّلام علینا وعلی عباداللّٰہ الصلحین۔ : فرشتے سلام کا جواب دیں گے۔ کذافی الشرعۃ۔ اللہ نے فرمایا ہے : فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰی اَنْفُسِکُمْ تَحِیَۃً مِّنْ عِنْدِاللّٰہِ مُبَارَکَۃً طَیِّبَۃً : (اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مفسر (رح) کے نزدیک آیت میں بیوتاً سے خالی مکان اور انفسکم : سے خود اپنی ذات مراد ہے۔ واللہ اعلم) مسئلہ : کلام کرنے سے پہلے سلام کرنا مسنون ہے۔ حضرت جابر ؓ کی مرفوع حدیث ہے السلام قبل الکلام۔ (رواہ الترمذی) مسئلہ : مسلمان بھائی کو ہر مرتبہ سامنا ہونے پر سلام کرنا مسنون ہے اگر سلام کرنے کے بعد درخت یا دیوار کی آڑ ہوجائے اور پھر سامنا ہوجائے تو ازسر نو سلام کرے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر کوئی اپنے بھائی سے ملے تو اس کو سلام کرے (سلام کے بعد) اگر کسی درخت یا دیوار کی دونوں کے درمیان آڑ ہوجائے اور پھر سامنا ہوجائے تو پھر سلام کرے۔ (رواہ ابوداؤد) مسئلہ : رخصت کے وقت سلام کرنا مسنون ہے۔ قتادہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم کسی گھر میں داخل ہو تو گھر والوں کو سلام کرو پھر وہاں سے نکلو تو سلام کر کے رخصت ہو۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان مرسلاً ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی اگر کسی مجلس پر پہنچے تو سلام کرے پھر اگر بیٹھنا ہو تو بیٹھ جائے لیکن اٹھتے وقت پھر سلام کرے۔ اول سلام دوسرے سلام سے زیادہ ضروری نہیں ہے۔ (یعنی اول کی طرح دوسرا سلام بھی ضروری ہے) رواہ الترمذی و ابوداؤد۔ مسئلہ : اگر کوئی کسی کا سلام پہنچائے تو جس کو سلام پہنچایا ہو وہ کہے علیک وعلیہ السلام۔ غالب نے اپنے باپ کی وساطت سے دادا کا مقولہ نقل کیا ہے کہ مجھے میرے باپ نے رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں بھیجا اور کہا حضور ﷺ سے جا کر میرا سلام کہہ دیجئے (میں نے حاضر ہو کر سلام پہنچا دیا) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تجھ پر اور تیرے باپ پر سلام ہو۔ رواہ ابوداؤد۔ مسئلہ : کافروں کو ابتداء سلام کرنا ناجائز ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہودیوں اور عیسائیوں کو اوّل سلام نہ کرو۔ اگر راستہ میں مل جائیں تو ان کو تنگ راستہ میں چلنے کے لئے مجبور کرو (یعنی خود کشادہ راستہ پر چلو) رواہ مسلم۔ اگر جماعت میں مسلمان اور بت پرست مشرک اور یہودی ملے جلے ہوں تو ان کو سلام کیا جائے۔ شیخین نے حضرت اسامہ ؓ بن زید کی مرفوع حدیث اس مضمون کی نقل کی ہے لیکن سلام کرتے وقت نیت مسلمان کو سلام کرنے کی ہو تاکہ کافر کو ابتدائی سلام نہ ہو۔ مسئلہ : ذمی کافروں کے سلام کا جواب دینے میں کوئی ہرج نہیں مگر صرف وعلیک کہے ‘ اس سے زیادہ نہ کہے کیونکہ حضرت انس ؓ کی روایت سے شیخین نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب تم کو اہل کتاب سلام کریں تو وعلیکم کہہ دو ۔ (1) [ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا مخلوق خدا میں سے جو بھی تجھے سلام کرے خواہ یہودی ہو یا عیسائی یا مجوسی تو سلام کا جواب ضرور دے کیونکہ اللہ فرماتا ہے اذا حییتم بتحیۃ رواہ ابن ابی شیبۃ والبخاری فی الادب المفرد۔ از مفسر ] مسئلہ : نماز اور خطبہ کے اندر سلام کا جواب دینا جائز نہیں۔ اگر دے دیا تو نماز فاسد ہوجائے گی۔ بلند آواز سے قرآن پڑھتے وقت حدیث نقل کرتے وقت ‘ علمی مذاکرہ کے وقت ‘ اذان اور اقامت کہتے وقت سلام کا جواب دینا واجب نہیں ‘ صرف جائز ہے۔ ان اللہ کان علی کل شی حسیبا یقینی طور پر اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے اور بدلہ دینے والا ہے۔ مجاہد (رح) نے حسیباً کا ترجمہ حفیظاً (نگران) کیا ہے یعنی اللہ بندوں کے تمام باہمی حقوق کی حساب فہمی کرے گا جیسے سلام کرنا ‘ چھینکنے والے کو دعا دینا وغیرہ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مؤمن کے مؤمن پر چھ حق ہیں اگر بیمار ہو تو اس کی بیمار پرسی کو جائے ‘ مرجائے تو جنازہ میں شرکت کرے۔ دعوت کرے تو قبول کرے۔ ملاقات کے وقت سلام کرے ‘ اس کو چھینک آجائے تو دعا کرے۔ حاضر غائب اس کی خیرخواہی کرے۔ رواہ النسائی۔ ترمذی اور دارمی نے حضرت علی ؓ کی روایت سے بھی یہ حدیث نقل کی ہے لیکن اس روایت میں خیرخواہی کرنے کا ذکر نہیں ہے بلکہ چھٹے نمبر پر ہے کہ جو بات اپنے لئے پسند کرے وہی اس کے لئے پسند کرے۔ حاصل دونوں کا ایک ہی ہے۔ حضرت ابوسعید خدری (رح) کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سرراہ بیٹھنے والوں سے اجتناب کرو۔ ہم نے عرض کیا ہماری تو بیٹھکیں ہی سر راہ ہیں ہم وہاں بیٹھ کر باتیں کرنے پر مجبور ہیں فرمایا اگر وہاں بیٹھے بغیر نہیں رہ سکتے تو راستہ کا حق ادا کرو۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ راستہ کا کیا حق ہے فرمایا آنکھ نیچی رکھنا ‘ تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹا دینا۔ سلام کا جواب دینا۔ بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ متفق علیہ۔ اسی قصہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں آیا ہے اور راستہ بنانا۔ رواہ ابوداؤد۔ اسی قصہ میں حضرت عمر ؓ کی روایت سے آیا ہے ” اور مصیبت زدہ کی مدد کرو اور بھٹکے ہوئے کو راستہ بتاؤ “۔ رواہ ابوداؤد۔ مسئلہ : سلام کی تکمیل مصافحہ اور معانقہ ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارے باہم سلام کا تکملہ مصافحہ ہے۔ رواہ احمد والترمذی عن ابی امامہ ؓ ۔ حضرت ابوذر ؓ کا بیان ہے کہ جب کبھی میں رسول اللہ ﷺ سے ملا آپ ﷺ نے مجھ سے مصافحہ ضرور کیا ایک روز حضور ﷺ نے مجھے بلانے کو میرے گھر کسی کو بھیجا۔ میں گھر پر موجود نہ تھا ‘ گھر آکر مجھے اطلاع ملی میں فوراً خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ تخت پر تشریف فرما تھے ‘ مجھے چمٹا لیا اور یہ معانقہ بہت ہی عمدہ اور اعلیٰ تھا۔ رواہ ابوداؤد۔ شعبی کا بیان ہے کہ جعفر بن ابی طالب (جب سفر سے) واپس آئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کا استقبال کیا اور ان کو چمٹا لیا اور ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان چوما۔ رواہ ابوداؤد البیہقی فی شعب الایمان مرسلاً لیکن شرح السنۃ میں بیاضی کی روایت سے یہ حدیث متصلاً آئی ہے۔ شرح السنۃ میں حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ کا بیان آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا استقبال کیا اور معانقہ فرمایا۔ عطا خراسانی کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا باہم مصافحہ کرو کینہ دور ہوگا ‘ ایک دوسرے کو ہدیہ دو آپس میں محبت ہوگی اور دشمنی جاتی رہے گی۔ رواہ مالک مرسلاً ۔ حضرت براء بن عازب کا بیان ہے کہ دو مسلمان جب باہم مصافحہ کرتے ہیں تو دونوں کے درمیان جو گناہ ہوتا ہے جھڑ جاتا ہے باقی نہیں رہتا۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان۔
Top