Ahkam-ul-Quran - Al-Anfaal : 58
وَ اِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَةً فَانْۢبِذْ اِلَیْهِمْ عَلٰى سَوَآءٍ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَ۠   ۧ
وَاِمَّا : اور اگر تَخَافَنَّ : تمہیں خوف ہو مِنْ : سے قَوْمٍ : کسی قوم خِيَانَةً : خیانت (دغا بازی) فَانْۢبِذْ : تو پھینک دو اِلَيْهِمْ : ان کی طرف عَلٰي : پر سَوَآءٍ : برابری اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا الْخَآئِنِيْنَ : دغا باز (جمع)
اور اگر تم کو کسی قوم سے دغا بازی کا خوف ہو تو (ان کا عہد) انہیں کی طرف پھینک دو (اور) برابر (کا جواب دو ) کچھ شک نہیں کہ خدا دغابازوں کو دوست نہیں رکھتا۔
دشمن کی بد عہدی کی علانیہ منسوخی قول باری ہے (واما تخافن من قوم خیانۃ فانبذ علیھم علی سواء ا اور اگر کبھی تمہیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو ) تا آخر آیت۔ اس کے معنی… واللہ اعلم… یہ ہیں کہ جب تمہیں ان کی بد عہدی، چال بازی، اور سلمانوں پر ان کے اچانک حملے کا خطرہ ہو، اور اگرچہ ظاہری طور پر نقض عہد نہ کریں لیکن خفیہ طور پر ان تیاریوں میں مصروف ہوں تو پھر تم ان کے معاہدے کو علانیہ ان کے سامنے پھینک دو یعنی تمہارے اور ان کے درمیان صلح کا جو معاہدہ ہو اس کی منسوخی کا کھلم کھلا اعلان کر دو تاکہ سب کو اس کا علم ہوجائے۔ قول باری (علی سوا) کے یہی معنی ہیں تاکہ وہ لوگ یہ نہسوچ سکیں کہ معاہدہ تم نے توڑا ہے اور جنگ کا آغاز کیا ہے۔ ایک قول ہے کہ (علی سواء) کے معنی علی عدل کے ہیں یعنی مساوی طور پر۔ یہ معنی ایک رجزیہ شعر سے ماخوذ ہیں۔ فاضرب وجوہ انعدر للاعداء حتی یجیبوک الی السواء دشمنوں کو آگے پیچھے چھوڑنے کی تمام صورتیں اختیار کرو حتیٰ کہ وہ بھی تمہیں اسی طرح جواب دینے پر مجبور ہوجائیں۔ اسی سے وسط کو سواء کہا جاتا ہے۔ حضرت حسان کا شعر ہے۔ یاویح انصار النبی و رھطہ بعد المغیب فی سواء الملحد نبی ﷺ کے انصار اور آپ کے قبیلہ کے غم کو ذرا دیکھو جو اس ذات اقدس کے بعد انہیں لاحق ہوا ہے جسے لحد کے درمیان دفن کر کے نظروں سے پوشیدہ کردیا گیا یعنی وسط لحد میں۔ حضور ﷺ نے اہل مکہ پر صلح کے معاہدہ کے بعد لشکر کشی کی تھی۔ آپ نے اس کے لئے صلح کا معاہدہ ختم کرنے کا کھلم کھلا اعلان نہیں کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ الہ مکہ نے بنی خزاعہ کے قتل کے اقدام پر بنی کنانہ کی مدد کر کے نقض عہد کیا تھا اور اس معاہدے کو خود ختم کر دیات ھا۔ اسی بنا پر ابو سفیان تجدید معاہدہ کے لئے مدینہ آیا تھا اور حضور ﷺ سے اس درخواست کی تھی لیکن آپ نے اس کی درخواست قبول نہیں کی تھی۔ چونکہ ابو سفیان اور اہل مکہ نے حضور ﷺ کے حلیف قبیلہ بنی خزاعہ کے خلاف جنگ کچی آگ بھڑکا کر خود کی نقض عہد کیا تھا اس لئے اسے یہ کہنے کی ضرورت پیش نہ آئی کہ مسلمانوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ ختم ہوگیا ہے۔ حضرت معاویہ ؓ کی پاسداری عہد آیت کے ان ہی معنوں میں حضور ﷺ سے ایک روایت منقول ہے ہمیں محمد بن بکر نے یہ روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں حفص بن عمر الخمری نے، انہیں شعبہ نے ابوالفیض سے، انہوں نے سلیم سے (ابوالفیض کے سوا دوسرے راوی نے سلیم کی بجائے سلیم بن عامر، قبیلہ حمیر کے ایک شخص نے، کے الفاظ کہے ہیں) کہ حرت معاویہ ؓ اور رومیوں کے درمیان صلح کا معاہدہ تھا، حضرت معاویہ ؓ رومیوں کے علاقے کی طرف لشکر لے کر بڑھتے رہے تاکہ جب معاہدے کی مدت ختم وہ جائے تو ان پر حملہ کردیا جائے۔ اسی دوران ایک شخص گھوڑے یا ٹٹو پر سوار ہو کر اسلامی لشکر کی طرف آتا دکھائی دیا۔ وہ پکار پکار کر کہہ رہا تھا۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر، عہد کی پاسداری کرو، نقض عہد نہ کرو۔ “ جب لوگوں نے دیکھا تو یہ حضرت عمرو بن عنبہ ؓ تھے۔ حضرت معاویہ ؓ نے انہیں بلوایا اور ان سے یہ بات کہنے کی وجہ دریافت کی، انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ (من کان بینہ و بین قوم عہد فلایشد عقدۃ ولا یحلھا حتیٰ ینقضی امدھا اوینبذا الیھم علی سواء جس شخص نے کسی قوم سے معاہدہ کیا ہو تو وہ اس معاہدے کے حل و عقد کے سلسلے میں کوئی اقدام نہ کرے جب تک اس کی مدت ختم نہ ہوجائے یا اس کے خاتمے کا کھلم کھلا اعلان نہ کر دے) گویا حضرت عمرو بن عنبہ ؓ نے حضرت معاویہ کے اس اقدام کی مخالفت کی تھی کہ وہ معاہدے کی مدت ختم ہونے سے پہلے لشکر لے کر کیوں چل پڑے تھے، چناچہ یہ سن کر حضرت معاویہ ؓ لشکر کے ساتھ واپس ہوگئے۔
Top